Tag: سپریم کورٹ

  • سپریم کورٹ کا مارگلہ ہلز میں مائننگ پر تشویش کا اظہار،  تفصیلات طلب

    سپریم کورٹ کا مارگلہ ہلز میں مائننگ پر تشویش کا اظہار، تفصیلات طلب

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے مارگلہ ہلز میں مائننگ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پہاڑوں پر مائننگ سے متعلق تفصیلات طلب کرلیں اور کہا صوبائی حکومتیں بتائیں اب تک کتنے درخت لگائے جا چکے ہیں؟۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں جنگلات کی زمینوں پر قبضے کیخلاف کیس کی سماعت ہوئی، عدالت نے مارگلہ ہلز میں مائننگ پر تشویش کا اظہار کردیا۔

    چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے اسلام آباد کی طرف والے مارگلہ کے پہاڑوں پر درخت نظر آتے ہیں،مارگلہ ہلز کی دوسری طرف مائننگ ہو رہی ہے، جس پر حکومتی وکیل راجہ شفقت نے بتایا کہ وہ علاقہ خیبرپختونخوامیں آتا ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ جنگلات کی زمینوں پر تجاوزات قائم کی جا رہی ہیں، حکومتیں درخت لگانے کیلئے کیا اقدامات کر رہی ہیں، صوبائی حکومتیں بتائیں کتنے درخت بیچے گئے، اب تک کتنے درخت لگائے جا چکے ہیں۔

    جسٹس عمر عطابندیال نے استفسار کیا کہ کیا پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت محکمہ جنگلات کی زمین لیز پر دی جا رہی ہے ؟َ تو صوبائی حکومتوں کے وکلا نے جواب دیا کہ عدالتی فیصلے کی روشنی میں تمام لیز منسوخ کر دی گئی ہیں۔

    عدالت نے چاروں صوبوں سے جنگلات کی زمینوں کو واگزار کرنے اور مارگلہ کے پہاڑوں پر مائننگ کے بارے تفصیلات طلب کر لیں اور کیس کی سماعت ایک ماہ کیلئے ملتوی کردی۔

  • سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستوں پر سماعت آج پھر ہوگی

    سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستوں پر سماعت آج پھر ہوگی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستوں پر سماعت آج ہوگی، عدالت نے قانون پر عمل درآمد روک رکھا ہے۔

    سپریم کورٹ میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستوں پر سماعت آج پھر ہوگی، چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں آٹھ رکنی بینچ سماعت کرے گا۔

    جسٹس اعجاز الاحسن،جسٹس منیب اختر،جسٹس مظاہر نقوی،جسٹس محمد علی مظہر بینچ ، جسٹس عائشہ ملک ،جسٹس حسن اظہر رضوی ، جسٹس شاہد وحید بینچ میں شامل ہیں۔

    سپریم کورٹ نے قانون پر عمل درآمد روک رکھا ہے اور اٹارنی جنرل سمیت دیگر کو نوٹس جاری کر رکھے ہیں۔

    یاد رہے گذشتہ سماعت میں اٹارنی جنرل سپریم کورٹ کو آگاہ کیا تھا کہ وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر دوبارہ غور کا فیصلہ کیا ہے۔

    اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل اور نظرثانی قانون دونوں میں کچھ شقیں ایک جیسی ہیں، دونوں قوانین کا باہمی تضاد سے بچانے کیلئے دوبارہ جائزہ لیا جائے گا۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے انتظامی معاملے پر قانون سازی عدلیہ کے مشورے سے نہیں ہوئی، سپریم کورٹ کی مشاورت سے اب قانون میں ترمیم ہوگی، دونوں قوانین کے علاوہ دیگر معاملات میں بھی مشاورت ہوگی۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی پر ہدایات نہیں دے سکتے، حکومت خود چیزیں ٹھیک کرلے یا حکومت قانون بناتی رہے، ہم مقدمات سنتے رہیں گے، دیکھتے ہیں تیز کون ہے۔

    چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی تھی کہ آپ حکومت سے ہدایات لے لیں تب تک کسی اور کو سن لیتے ہیں، اگلے ہفتے اس کیس کو سنیں گے۔

  • بچوں کی اسمگلنگ کا معاملہ ایسا نہیں کہ صرف پولیس پر چھوڑا جائے،اس کو وسیع تناظر میں دیکھنا ہو گا، چیف جسٹس

    بچوں کی اسمگلنگ کا معاملہ ایسا نہیں کہ صرف پولیس پر چھوڑا جائے،اس کو وسیع تناظر میں دیکھنا ہو گا، چیف جسٹس

    اسلام آباد : چیف جسٹس عمر عطابندیال کا کہنا ہے کہ پاکستان میں انسانی اسمگلنگ سنگین جرم ہے، معاملہ ایسا نہیں کہ صرف پولیس پر چھوڑا جائے،اس کو وسیع تناظر میں دیکھنا ہو گا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں بچوں کی اسمگلنگ سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔

    سپریم کورٹ نے صوبائی حکومتوں سے اقدامات پر جوابات طلب کرتے ہوئے بچوں کے حقوق سے متعلق کمیشن کو بھی نوٹس جاری کردیا۔

    عدالت نے بچوں کے حقوق سے متعلق کمیشن کے ایک نمائندے کو عدالت کی معاونت کا حکم دیتے ہوئے ایس او ایس ولیج سے بھی معاونت طلب کر لی۔

    عدالت نے ریمارکس دیئے پاکستان میں بچوں کےقوانین ہیں مگر ان کا اطلاق نہیں ہے، بچوں کی اسمگلنگ کا معاملہ ایسا نہیں کہ صرف پولیس پر چھوڑا جائے، بچوں کی اسمگلنگ کے معاملے کو وسیع تناظر میں دیکھنا ہو گا۔

    جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پاکستان میں انسانی اسمگلنگ سنگین جرم ہے، انسانی اعضا کی اسمگلنگ سے بچوں کی زندگی تباہ ہو جاتی ہے،افریقہ میں اعضاکی اسمگلنگ کو بےبی فارمنگ کانام دیا جاتا ہے۔

    جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اصل معاملہ اچھی طرز حکمرانی کا ہے جبکہ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے پاکستان میں اسمگلنگ ،بچوں کے تحفظ کے قوانین تو بہت اچھے ہیں ،عملدرآمد مسئلہ ہے۔

    سپریم کورٹ نے طیبہ تشدد کیس نمٹاتے ہوئے بچوں کی اسمگلنگ سے متعلق درخواستیں الگ سے 2 ہفتے بعد مقرر کرنے کا حکم دے دیا۔

  • آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کو کام سے روکنے کے حکم امتناع میں توسیع

    آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کو کام سے روکنے کے حکم امتناع میں توسیع

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کو کام سے روکنے کے حکم امتناع میں توسیع کردی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے علم میں لائے بغیر کمیشن بنایا گیا، چیف جسٹس کا چارج کوئی اور استعمال نہیں کرسکتا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں مبینہ آڈیولیکس انکوائری کمیشن کیخلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی ، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔

    جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس حسن اظہر اور جسٹس شاہد وحید بینچ میں شامل ہیں۔

    درخواست گزار ریاض حنیف راہی روسٹرم پر آئے اور کہا آڈیو لیکس کمیشن میں توہین عدالت کی درخواست بھی دائر کر رکھی ہے، یہ درخواست بھی اس کیس میں مددگار ثابت ہو گی۔

    جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ توہین کامعاملہ عدالت اورتوہین کرنے والے کے درمیان ہوتاہے، توہین عدالت کی درخواست سے متعلق بھی چیک کرالیتے ہیں۔

    درخواست گزار حنیف راہی نے کہا کہ میں نے توہین عدالت کی درخواست دائر کی تھی، میری تو ہین عدالت کی درخواست پر ابھی تک نمبر نہیں لگا تو چیف جسٹس پاکستان عطاعمر بندیال کا کہنا تھا کہ آپ کی درخواست پر اعتراضات ہیں تودور کریں، آپ یہ بھی سمجھیں کس کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی چاہتےہیں، جج کو توہین عدالت کی درخواست میں فریق نہیں بنایا جا سکتا۔

    عدالت نے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ اور آڈیو لیک کمیشن ارکان کیخلاف توہین عدالت درخواست پر فوری سماعت کی استدعا مسترد کردی۔

    چیف جسٹس بندیال نے توہین عدالت کی درخواست کے درخواست گزار کی سرزنش کرتے ہوئے کہا معلوم ہے آپ نے توہین عدالت کی درخواست کس کیخلاف دائر کی ہے، آپ نے ججز پر توہین عدالت کا الزام لگایا ہے، عمومی طور پر ججز کو توہین عدالت درخواستوں میں فریق نہیں بنایا جاتا۔

    وکیل عابد زبیری نے کہا کہ عدالتی حکم کے مطابق آج ججز کیخلاف اعتراضات پر دلائل ہونے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا اعتراضات پر دلائل شروع کریں۔

    اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آئے اور حکومت کی جانب سے بینچ پر اٹھائے گئےاعتراضات پڑھ کر سنائے، اٹارنی جنرل نے گزشتہ سماعت کا حکم نامہ بھی پڑھ کر سنا دیا۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ کس پوائنٹ پر بات کرنا چاہیں گے؟آپ ایک چیز مس کر رہے ہیں، چیف جسٹس پاکستان ایک آئینی عہدہ ہے، مفروضے کی بنیاد پر چیف جسٹس کا چارج کوئی اور نہیں استعمال کرسکتا، اس کیس میں چیف جسٹس دستیاب تھے جنہیں کمیشن کے قیام پر آگاہ نہیں کیا گیا۔

    جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ چیف جسٹس کے علم میں نہیں تھا اور کمیشن بنا دیا گیا، ان نکات پر آپ نے دلائل دینے ہیں، آپ عدالتی فیصلوں کے حوالے پڑھنےسےپہلےقانون کوسمجھیں۔

    جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ میں پہلے بینچ کی تشکیل پر دلائل دوں گا تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا آپ اس پوائنٹ پر جا رہے ہیں کہ ہم میں سے 3ججز متنازع ہیں؟ اگر اس پرجاتے ہیں تو آپ کو بتانا ہوگا کس بنیاد پر فرض کر لیا کہ 3متنازع ہیں، میں چاہوں گا آپ دوسروں سے زیادہ اہم ایشو پر فوکس کریں، دوسرا اور اہم ایشو عدلیہ کی آزادی کا ہے۔

    اٹارنی جنرل نے بینچ پر اعتراض کی درخواست پر دلائل دیتے ہوئے کہا عدالت نے حکم نامہ میں جن فیصلوں پر انحصار کیا وہ ججز کی جانبداری سے متعلق ہیں، جس پر چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ ریفرنسز ان فیصلوں کے دیے گئے ہیں جہاں متبادل نہ ہو تو فیصلہ مجاز فورم ہی کرتا ہے، ایسی صورتحال میں جانبداری کا الزام واحد دستیاب فورم پر نہیں لگ سکتا۔

    جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے چیف جسٹس کا عہدہ آئینی ہے جس کے انتظامی اختیارات بھی ہوتے ہیں، چیف جسٹس دستیاب نہ ہوں تو آئین کے تحت قائمقام کا تقرر ہوتا ہے، چیف جسٹس کے ہوتے ہوئے اختیارات کسی اور کو تقویض نہیں کیے جا سکتے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ موجودہ کیس میں کیا الزامات ہیں معلوم نہیں، چیف جسٹس چیف جسٹس نےہی فیصلہ کرناہے کہ کمیشن  کیلئے ججز دستیاب ہیں یا نہیں، مفادات کا ٹکراؤ ہو بھی تو چیف جسٹس آفس ہی فیصلہ کرے گا کیونکہ یہ آئینی عہدہ ہے۔

    اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا ایک اعتراض بینچ کی تشکیل دوسرا کمیشن کے ٹی او آرز کی بنیاد پر ہے، چیف جسٹس کی جانب سے کمیشن کیلئے نامزدگی دوسرا اعتراض ہے، ججز ضابطہ اخلاق کے تحت موجودہ بینچ کے کچھ ممبران کیس نہیں سن سکتے ، مفادات کا ٹکراؤ ہو تو ججز کو بینچ سے الگ ہو جانا چاہیے۔

    چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ پہلے آپ اختیارات کی آئینی تقسیم اور قانونی نکات پر بات کریں، عدلیہ کی آزادی کے نکتے اور ماضی کے عدالتی فیصلوں سے متفق ہیں یا نہیں پہلے یہ بتائیں۔

    اٹارنی جنرل نے آڈیو لیکس کمیشن کے ٹی او آرز پڑھ کر سنائے اور کہا لیک آڈیوزمیں ایک چیف جسٹس کی ساس سےمتعلق ہے، جس پر جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کیا آپ کا اسوقت کیس یہ ہےکہ آڈیوز بادی النظرمیں درست ہیں؟ تو اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت نے اس معاملےپرابھی صرف کمیشن بنایاہے، حقائق جاننے کے لیے ہی تو کمیشن بنایا گیا ہے۔

    جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کیا وفاق کو علم نہیں کہ آڈیوز مصدقہ ہیں یانہیں؟ سینئر کابینہ ممبر نےتو اس پر پریس کانفرنس بھی کردی، کیا یہ درست نہیں کہ وزیر داخلہ ان آڈیوز پرپریس کانفرنس کرچکے، پریس کانفرنس میں کچھ آڈیوز چلابھی دی گئیں، کیاقانونی طور پر درست ہےجسےآڈیوزکی حقیقت کانہیں پتہ وہ بینچ پراعتراض اٹھائے۔

    جسٹس منیب اختر نے مزید کہا کہ میں آپ کی درخواست کے قابل سماعت ہونے کاپوچھ رہا ہوں، وزیر داخلہ نے پریس کانفرنس کیوں کی، کیا ایسی لاپرواہی کا مظاہرہ کیاجا سکتا؟ ایسے بیان کے بعد تواس وزیر کو ہٹا دیا جاتا یا وہ مستعفی ہوجاتا ہے۔

    اٹارنی جنرل نے سوال اٹھایا کہ کیا ایک وزیر کا بیان پوری حکومت کا بیان لیا جا سکتا ہے؟ میرے علم میں نہیں اگر پریس کانفرنس  کسی نےکی ہے، جس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے اتنے اہم ایشو پرکابینہ کی اجتماعی ذمہ داری سامنے آنی چاہیےتھی، وزیر اگر چائے پینے کا کہے تو الگ بات، یہاں بیان اہم ایشو پردیاگیا۔

    سپریم کورٹ میں مبینہ آڈیولیکس کیس میں اٹارنی جنرل کے بعد وکیل شعیب شاہین نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 16فروری کو پنجاب اور کےپی انتخابات کے ازخود نوٹس کیلئےلکھا گیا،تین آڈیوز اسی دن آگئیں ، پھر 17 فروری کوآڈیوز آئیں اور آج تک سلسلہ جاری ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ ٹویٹر ہینڈل کا پتا کریں کہ وہ ملک سےیابیرون ملک سےآپریٹ ہو رہا ہے۔

    چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل کے سامنے اہم سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ ٓکیا حکومت نے وسائل سے معلوم کیا آڈیوز لیکس کہاں ، کیسے ہو رہی ہیں ، کون یہ سب کر رہا ہے؟ واہ کیا خوبصورت طریقہ ہے اور عدلیہ کے ساتھ کیا انصاف کیاہے، پہلے آڈیوز پر ججز کی تضحیک کی پھر کہا آڈیوز کے سچے ہونے کی تحقیق کرالیتے ہیں۔

    جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے یہ تو بڑا آسان ہوجائےگا کسی بھی جج کو کیس سے ہٹانا ہے تو نام لیکر آڈیو بنا دو، کیس سے الگ ہونے کے پیچھے قانونی جواز ہوتے ہیں، یہ آپشن اس لئے نہیں ہوتا کوئی بھی آکر کہہ دے جج صاحب فلاں فلاں کیس نہ سنے۔

    اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وفاقی حکومت اسی لیے اس معاملے کو انجام تک پہنچانا چاہتی ہے، حکومت کمیشن کے ذریعے اس معاملے کو بھی دیکھے گی۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سوال یہ ہے کہ آڈیوز کس نے پلانٹ کی ہیں،کیا حکومت نے یہ معلوم کرنےکی کوشش کی کہ یہ کون کر رہا ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ کالز کیسے ریکارڈ کی گئیں کمیشن کے ذریعےعوامل کا جائزہ لیا جائے گا، ابھی تو یہ معاملہ انتہائی ابتدا کی سطح پر ہے۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کے مطابق یہ آڈیوز مبینہ آڈیوز ہیں،وفاقی حکومت کا یہی بیان دیکھا جانا چاہیے، کابینہ کے علاوہ کسی وزیر کا ذاتی بیان حکومت کا بیان نہیں۔

    جسٹس منیب اختر نے سوال کیا وزیر خزانہ کچھ بیان دے تو وہ بھی حکومت کانہ سمجھا جائے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کوئی معاملہ سپریم کورٹ ججز سے متعلق نکل آئے پھرنظریہ ضرورت پرعمل ہوسکتاہے،اگر تمام ججز پر سوال ہو پھر بھی کہا جا سکتا ہے کہ اب کسی نے تو سننا ہے۔

    اٹارنی جنرل نے دلائل میں مزید کہا کہ کوئی بھی شخص اپنے کازکا خودجج نہیں ہوسکتا، ہماری اس سارےمعاملےپرکوئی بدنیتی نہیں ، بینچ تبدیل ہونے سے کمیشن کیخلاف عدالت آئے،درخواست گزاروں کاحق متاثرنہیں ہوگا، استدعا ہے بینچ تبدیلی کی درخواست کو زیر غور لائیں۔

    چیف جسٹس نے کہا آپ کا اعتراض دواورججزپربھی ہے،اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ہماری درخواست کامتن آپ کے سامنے ہےاس کا جائزہ لے لیں۔

    درخواست گزار عابد زبیری کے وکیل شعیب شاہین نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آڈیوز کو درست سمجھ کر کہہ دیا گیاکہ عدلیہ کی آزادی متاثر ہوئی، کمیشن کے قیام کے ٹی اوآرز میں آڈیوٹیپ کرنے والے کا ذکر نہیں، ساری آڈیوزپنجاب الیکشن سےمتعلق سوموٹو کے بعد آنا شروع ہوئیں۔

    وکیل شعیب شاہین نے سوال اٹھایا کہ یہ آڈیوزریکارڈنگ کس نے کی؟ تمام آڈیوز ایک ہی ہیکر کے ذریعےمنظر عام پر لائی گئیں۔

    چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیاحکومت نےمعلوم کرنےکی کوشش کی یہ آڈیوز کون لیک کررہاہے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ حکومت چاہتی ہےآڈیوز کے حوالے سے ساری تحقیقات کمیشن کرے، جووزرااپنےطورپربیان دیتےہیں انہیں حکومت کابیان نہ سمجھا جائے۔

    جس پر جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ کسی بھی ملک میں جب وزرابیان دیتے ہیں توانہیں حکومتی بیان ہی سمجھاجاتاہے، بے نظیر بھٹو کیس میں چارججزکی اپنی آڈیوزتھیں، کیا ان ججز نے کیس سن کر غلط کیا؟ تو اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ بے نظیر بھٹو کیس میں کسی نےبینچ پراعتراض نہیں اٹھایاتھا۔

    وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ وفاقی حکومت الیکشن کیس میں ایک فریق ہے وہی کمیشن بنارہی ہے، ٹی او آرز میں آڈیوز ریکارڈ کرنے والے کا ذکر ہوتا پھر تو بات تھی، یہاں عدالت کے سامنے ایک آئینی نوعیت کا معاملہ ہے، یہاں سوال ایگزیکٹو کی عدلیہ میں مداخلت کاہے، بینچ نے کسی کےحق میں یاخلاف فیصلہ نہیں دیناتشریح کرنی ہے۔

    درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ جس بنیاد پر بینچ تبدیلی کی درخواست ہے وہ دیکھی، کیا ہم آڈیوز کو پہلے ہی تسلیم کر لیں؟ یہ تو بلیک میلنگ کا بہت آسان طریقہ ہوجائے گا، کسی بھی فیک آدمی کے زریعےجعلی آڈیوز بنوا دی جایا کریں گی، اس عدالت نے صرف الیکشن کرانے کا کہا تھا، اس پر آڈیوز آنے لگی اور ٹاک شوز میں کیا نہیں کہا گیا۔

    شعیب شاہین نے مزید کہا کہ پیمرا اس دوران کہاں دیکھ لیں پیمرا سے ریکارڈ منگوا کر دیکھ لیں، عدلیہ کو تقسیم کرنے کی سازش کی گئی ، عدلیہ کی آزادی بہت اہم ہے، لوگ عدالت کی طرف دیکھ رہے ہیں،لوگوں کے سیاسی نظریات پر ان کے 82 سال کے والد کو اٹھا لیا جاتا ہے، کیا عدلیہ میں ایگزیکٹو ایسے مداخلت کرے گی۔

    چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی لارجربینچ نے وفاقی حکومت کی درخواست پر سماعت مکمل کرلی۔

    عدالت نے بینچ پر اعتراض سے متعلق فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے آڈیولیکس کمیشن کو کام سے روکنے کے حکم امتناع میں توسیع کردی۔

    خیال رہے وفاقی حکومت نے چیف جسٹس سمیت 3 ججز پر اعتراض کرتے ہوئے بینچ سے الگ ہونے کی استدعا کر رکھی ہے۔

  • سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستوں پر سماعت آج ہوگی

    سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستوں پر سماعت آج ہوگی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ پریکٹس اینڈپروسیجرایکٹ کیخلاف درخواستوں پر سماعت آج ہوگی ، پی ٹی آئی نے نیا قانون کالعدم قرار دینے کی استدعا کر رکھی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کی ترامیم کو کالعدم قرار دینے کے حوالے سے درخواستوں پر سماعت آج ہوگی۔

    چیف جسٹس کی سربراہی میں8رکنی بینچ دن12 بجے سماعت کرے گا، تحریک انصاف نے نیا قانون کالعدم قرار دینے کی استدعا کر رکھی ہے۔

    گذشتہ روز تحریک انصاف نے بطور فریق جواب سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا تھا، جس میں استدعا کی تھی کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرل قانون کو اور قانون کی شقوں 2،3،4،5،7 اور 8 کو غیر آئینی قرار دیا جائے۔

    پی ٹی آئی نے جواب میں کہا تھا کہسپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرل قانون عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے، قانون سے عدلیہ کے اندرونی انتظامی امور میں مداخلت کی گئی ہے۔

  • آڈیو لیکس کمیشن کیس : سپریم کورٹ نے ججز پر اعتراضات والی حکومتی درخواست واپس کردی

    آڈیو لیکس کمیشن کیس : سپریم کورٹ نے ججز پر اعتراضات والی حکومتی درخواست واپس کردی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس کمیشن کیس میں ججز پر اعتراضات والی حکومتی درخواست واپس کردی۔

    تفصیلات کے مطابق آڈیو لیکس کمیشن کے کیس میں سپریم کورٹ نے ججز پر اعتراضات والی حکومتی درخواست واپس کردی۔

    رجسٹرارآفس نے اعتراض عائد کیا کہ جو درخواست کرنی ہووہ کھلی عدالت میں کریں۔

    یاد رہےوفاقی حکومت نے آڈیولیکس کمیشن کیس میں بینچ پراعتراضات اٹھاتے ہوئے چیف جسٹس ،جسٹس اعجاز الااحسن، جسٹس منیب اختر کیخلاف درخواست دائر کی تھی۔

    جس میں استدعا کی گئی تھی کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجازالااحسن،جسٹس منیب اختر 5 آڈیو لیک کامقدمہ نہ سنیں اور تینوں معزز ججز پانچ رکنی لارجر بینچ میں بیٹھنے سے انکار کردیں۔

    وفاقی حکومت نے آڈیو لیک کمیشن کیخلاف درخواستوں پر نیا بینچ تشکیل دینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا تھا کہ 26مئی کو سماعت کے دوران چیف جسٹس پر اٹھے اعتراض کوپذیرائی نہیں دی گئی، عدالتی فیصلوں،ججز کوڈ آف کنڈیکٹ کےمطابق جج اپنے رشتےکا مقدمہ نہیں سن سکتا۔

  • پنجاب انتخابات نظرثانی کیس پر سماعت ملتوی، اٹارنی جنرل کو آڈیو لیکس جوڈیشل کمیشن سے متعلق ہدایات لینے کا حکم

    پنجاب انتخابات نظرثانی کیس پر سماعت ملتوی، اٹارنی جنرل کو آڈیو لیکس جوڈیشل کمیشن سے متعلق ہدایات لینے کا حکم

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے پنجاب انتخابات نظرثانی کیس پر سماعت ملتوی کرتے ہوئے اٹارنی جنرل سے آڈیو لیکس جوڈیشل کمیشن سے متعلق حکومت سے ہدایات لینے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پنجاب انتخابات سے متعلق الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس عمرعطابندیال کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے سماعت کی، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بنچ میں شامل تھے۔

    وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی نے دلائل کا آغاز کیا تو اٹارنی جنرل نے کہا میں کچھ بات کرنا چاہتا ہوں، صدرمملکت کی منظوری کےبعد نظرثانی قانون بن چکاہے، سپریم کورٹ کے نظرثانی کے قوانین کا اطلاق جمعہ سے ہوچکا۔

    جسٹس منیب اختر نے کہا نظرثانی قانون سےمتعلق سن کر وکیل الیکشن کمیشن کے چہرےپرمسکراہٹ آئی۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جمعرات کوجوڈیشل کمیشن والا کیس مقررہے، آپ اس بارے بھی حکومت سے ہدایات لے لیں، نیا قانون آچکا ہے ہم بات سمجھ رہے ہیں۔

    اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کے بینچ پر اعتراض کردیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ توبڑا دلچسپ معاملہ ہوگا، یہ عدالت عدلیہ کی آزادی کے بنیادی حق کوبھی دیکھتی ہے، ایک دوسرا کیس بھی جمعرات کومقرر ہے، آپ اس سے متعلق بھی ہدایات لے لیں،قانون آچکا ہے ہم بات سمجھ رہے ہیں۔

    چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ آپ نے آڈیو لیکس کمیشن کیس میں ہمارا حکم نامہ پڑھا ہو گا، ذہن میں رکھیں عدالت نے کمیشن کالعدم قرارنہیں دیا، عدالت نے عدلیہ کی آزادی کا تحفظ کرنا ہے۔

    جسٹس عطا عمر بندیال کا کہنا تھا کہ خفیہ ملاقاتوں سے معاملات نہیں چل سکتے، یہ تاریخی واقعہ ہے کہ چیف جسٹس صرف ایک ہی ہوتاہے، ہم نے میمو گیٹ، ایبٹ آباد کمیشن ،شہزاد سلیم قتل کےکمیشنزکا نوٹیفکیشن دیکھا۔

    چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے جوڈیشل کمیشنزچیف جسٹس کی مرضی سےکمیشن تشکیل دیئےجاتے ہیں،کسی چیز پر تحقیقات کرانی ہیں تو باقاعدہ طریقہ کارسے آئیں، میں خود پرمشتمل کمیشن تشکیل نہیں دوں گا لیکن کسی اور جج سے تحقیقات کرائی جا سکتی ہیں، یہ سیاسی پارہ معیشت اور امن و امان کو بہتر نہیں کرے گا۔

    دوران سماعت اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ نظر ثانی ایکٹ پیش کردیا اور کہا نظر ثانی ایکٹ نوٹیفائی ہو چکا ہے۔

    عدالت نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 پراٹارنی جنرل کو ہدایات لینے کی ہدایت کردی ، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس جمعرات کومقرر ہے، اس کیس کو پھر اسی دن سنیں گے۔

    جسٹس عطا عمر بندیال نے کہا کہ آرٹیکل 184تھری کے دائرہ اختیار کے کسی حد تک جائزہ کی ضرورت ہے، آرٹیکل 184تھری کے حوالے سے ہمارے فیصلے بھی کچھ راستے تجویزکرتے ہیں، کیا دوسرے فریق سے اس ایکٹ کے بعد کوئی بات ہوئی ؟ اس کیس کو پھر دوسرے فریق کی موجودگی میں سنیں گے۔

    اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پی ٹی کے وکیل علی ظفر چھٹی پرہیں ، جس پر ،چیف جسٹس نے کہا کہ آڈیو لیکس کمیشن کیس میں عدالت نے اہم نکات اٹھائے ہیں ، عدالت کسی چیز کو ختم نہیں کرنا چاہتی، ہم صرف عدلیہ کی آزادی کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں۔

    جو بھی ہو ایسے خفیہ یا سرپرائز اندازنہیں ہونا چاہیے، تاریخ میں چیف جسٹس کے بعد ایکٹنگ چیف جسٹس بھی ہوا ہے۔

    نظر ثانی سے متعلق چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اب نیا قانون بھی آچکا ہے اور ہم بات سمجھ بھی چکے ہیں اور ہمیں نئے قانون کا مکمل ادراک ہے، تاہم تحریک انصاف کو بھی نئے قانون کا علم ہوجائے اسکے بعد ہم سماعت کر لیں گے فی الحال ہم سماعت جمعرات تک ملتوی کرتے ہیں۔

  • ان کا اگلا مشن سپریم کورٹ کو آپس میں لڑوانا ہے، شیخ رشید

    ان کا اگلا مشن سپریم کورٹ کو آپس میں لڑوانا ہے، شیخ رشید

    سینئر سیاستدان شیخ رشید نے کہا ہے کہ ان کا اگلا مشن سپریم کو آپس میں لڑوانا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق پاکستان مسلم لیگ عوامی کے سربراہ شیخ رشید احمد نے موجودہ صورتحال پر ٹوئٹ میں کہا کہ اس وقت شدید سیاسی طوفان ہے جس کی زد میں صرف غریب عوام ہے۔

    شیخ رشید نے کہا کہ ان کا اگلا مشن سپریم کو آپس میں لڑوانا ہے، سپریم کورٹ کو ایگزیکٹو کے تحت دباؤ میں لانا ہے، اس وقت قوم آسمان اور سپریم کورٹ کی طرف دیکھ رہی ہے۔

    شیخ رشید نے ٹوئٹ میں لکھا کہ چینی وزیر خارجہ نے پاکستان آکر سمجھایا سعودی عرب نے پیغام بھجوایا، انہوں نے میں نہ مانوں کی رٹ لگا رکھی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ حکومت نے سندھ میں سیلاب متاثرین کو پیسے نہیں بانٹے، پنجاب میں 18 لاکھ آٹے کے تھیلے غریبوں کو نہیں  دیے۔

    شیخ رشید کا مزید کہنا تھا کہ آصف زرداری نے امریکا میں ڈاکٹر سے دماغی توازن ٹھیک نہیں کا سرٹیفکیٹ لیا، نوازشریف نے پلیٹ لیٹس کا سرٹیفکیٹ لندن سے لیا، قادر پٹیل کو رپورٹ میں پتہ چلا سارے جہاں سے لڑنے والا دماغی طور پر مضبوط نہیں ہے۔

  • سپریم کورٹ کے انتخابات سے متعلق فیصلے پر عمل نہ ہونے پر توہین عدالت کی درخواست آج دائر کی جائے گی

    سپریم کورٹ کے انتخابات سے متعلق فیصلے پر عمل نہ ہونے پر توہین عدالت کی درخواست آج دائر کی جائے گی

    اسلام آباد : انتخابات سے متعلق فیصلے پر عمل نہ ہونے پر توہین عدالت کی درخواست آج سپریم کورٹ میں دائر کی جائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے انتخابات سے متعلق فیصلے پر عمل نہ ہونے پر توہین عدالت کی درخواست تیار کرلی گئی۔

    اظہر صدیق ایڈووکیٹ کی جانب سے توہین عدالت کی درخواست تیار کی گئی ہے ، درخواست میں وزیراعظم شہبازشریف اور چیف الیکشن کمشنرسکندر سلطان راجہ فریق بتایا گیا ہے۔

    سیکرٹری اور الیکشن کمیشن کےچاروں ممبران سمیت قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک اور اٹارنی جنرل کو بھی درخواست میں فریق بنایاگیا ہے۔

    درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالتی احکامات پر عمل نہ کرنے پر وزیراعظم اور چیف الیکشن کمشنر و دیگر کیخلاف توہین عدالت کارروائی کی جائے۔

    انتخابات سے متعلق فیصلے پر عمل نہ ہونے پر توہین عدالت کی درخواست آج سپریم کورٹ میں دائر کی جائے گی۔

  • مبینہ آڈیو لیکس کمیشن کیخلاف درخواستوں پر  فیصلہ محفوظ ، آج سنائے جانے کا امکان

    مبینہ آڈیو لیکس کمیشن کیخلاف درخواستوں پر فیصلہ محفوظ ، آج سنائے جانے کا امکان

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے مبینہ آڈیو لیکس کمیشن کیخلاف درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا ، فیصلہ آج سنائے جانے کا امکان ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں مبینہ آڈیو لیکس کمیشن کیخلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی ، چیف جسٹس کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی ، بینچ میں جسٹس اعجاز الااحسن، جسٹس منیب اختر ، جسٹس شاہد وحید ،جسٹس حسن اظہر رضوی شامل تھے۔

    سپریم کورٹ نے دلائل کے بعد مبینہ آڈیو لیکس کمیشن کیخلاف درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے اس حوالےسے مختصر اورعبوری حکم جاری کریں گے، آپ نے ججز کے حوالے سے ایک بورڈ یا کمیشن بنا دیا، یہ ممکن نہیں آپ ایسا نہیں کر سکتے۔

    دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے بات کھل کرقانون میں نہیں دی گئی ہوتی،آئین پر اس کی روح کے مطابق عمل کرنا ہوتا ہے، آرٹیکل 175 کوکسی صورت نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

    جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت نے عدلیہ میں تقسیم کی کوشش نہیں کی تو چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ حکومت نے اگر نہیں کی تو بھی ایسا ہوا ضرور، فل کورٹ کی استدعا خود عدلیہ اصلاحات بل کیخلاف ہے، اٹارنی جنرل نفیس آدمی ہیں آپ کا اور حکومت کا احترام کرتےہیں، اب شدت سےسب کو احساس ہو رہا ہے اداروں کا احترام ضروری ہے،عدلیہ سے متعلقہ معاملہ متعلقہ کوارٹر سے ڈیل کیا کریں۔

    اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس سے مکالمے میں کہا کہ آڈیو لیک کمیشن کی تشکیل میں مشاورت کا حصہ نہیں تھا، معاملہ آپ سے متعلقہ تھا اس لئے سینئر جج کو کمیشن کا سربراہ بنایا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے چیف جسٹس ادارےکا سربراہ ہوتا ہے۔

    وکیل عابد زبیری شعیب شاہین نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ٹوئٹر پر ہیکر کے نام سے گمنام اکاؤنٹ ہے، ہیکر کے نام سے اکاؤنٹ سے آڈیو ویڈیو ریلیز ہوتی ہیں، یہ اکاؤنٹ ستمبر 2022 میں بنایا گیا، فروری 2023 سے گمنام اکاؤنٹ سے آڈیو ویڈیوز لیک ہوئی۔

    وکیل کا کہنا تھا کہ آڈیو لیک ہونے کے بعد وفاقی وزرااس پر پریس کانفرنسز کرتے ہیں، ساری آڈیو ایک ہی ٹوئٹر اکاؤنٹ سے جاری ہوتی ہے، ہماری درخواست کمیشن کی تشکیل کیخلاف ہیں، کمیشن کی تشکیل میں چیف جسٹس سے مشاورت نہیں کی گئی۔

    وکیل ،شعیب شاہین نے دلائل میں مزید کہا کہ کمیشن نے پورے پاکستان کو نوٹس کیا کہ جس کےپاس مواد ہے وہ جمع کرا سکتا ہے، کوئی قانونی طریقہ کار پر عمل نہیں کیا گیا۔

    جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے کہا کمیشن کا قیام آرٹیکل 209کی بھی خلاف ورزی ہے تو وکیل کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ افتحار چوہدری ،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں فیصلے دے چکی۔

    جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے آرٹیکل 209 کواجازت دیتاہے صدارتی ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کوبھیج سکتی ہے،بظاہر وفاق نے سپریم کورٹ کے حاضر سروس ججز کیخلاف مواد اکٹھا کرکےمس کنڈیکٹ کیا، وفاقی حکومت نے آئین میں اختیارات کی تقسیم کی خلاف ورزی کی۔

    جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ لگتا ہے انکوائری کمیشن نے ہر کام جلدی کیا ہے، ججز اپنی مرضی سے کیسے کمیشن کا حصہ بن سکتے ہیں، اعلیٰ عدلیہ کے کسی جج کیخلاف چیف جسٹس کی اجازت سےکسی بھی فورم پرجاسکتےہیں،میٹھے الفاظ استعمال کر کے کور دینے کی کوشش کی جارہی ہے،بظاہر اختیارات کی تقسیم کےآئینی اصول کی سنگین خلاف ورزی کی گئی ہے، یہ انتہائی پریشان کن صورتحال ہے۔

    اس سے قبل سماعت کے آغاز میں اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس سے بینچ سے الگ ہونے کی درخواست کی ، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کیسے سپریم کورٹ ججز کو اپنے مقاصد کیلئے منتخب کر سکتی ہے، اٹارنی جنرل صاحب عدلیہ کی آزادی کامعاملہ ہے، بہت ہوگیا اٹارنی جنرل صاحب آپ بیٹھ جائیں۔

    جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ افسوس سےکہنا پڑ رہا ہےغیر ارادی طور پر کوشش کی گئی کہ ججز میں دراڑ ڈالی جائے لیکن 9مئی کے سانحے کےبعدعدلیہ کےخلاف بیان بازی بند ہوگئی۔

    چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ آپ ہمارےانتظامی اختیار میں مداخلت نہ کریں، ہم حکومت کا مکمل احترام کرتے ہیں، عدلیہ بنیادی انسانی حقوق کی محافظ ہے۔

    جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس میں مزید کہا کہ حکومت نے چیف جسٹس کے اختیارات کوریگولیٹ کرنے کی قانون سازی جلدی میں کی، حکومت ہم سےمشورہ کرتی توکوئی بہتر راستہ دکھاتے، آپ نے ضمانت اورفیملی کیسزکو بھی اس قانون سازی کاحصہ بنادیا۔

    چیف جسٹس کا اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہنا تھا کہ حکومت کسی جج کواپنی مرضی کےمطابق بینچ میں نہیں بٹھاسکتی ، ہم نے سوال پوچھا 184 بی میں لکھا ہےکم از کم 5 ججز کا بینچ ہو، اگر آپ نے ہم سےمشورہ کیا ہوتا توہم آپ کوبتاتے۔

    جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ 9مئی کےواقعات کا فائدہ یہ ہوا جوڈیشری کیخلاف جو بیان بازی ہو رہی تھی وہ ختم ہوگئی ہے۔

    جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ بہت ادب سے استدعا ہےکہ لارجر بینچ یہ کیس نہ سنے۔

    صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن شعیب شاہین نے دلائل میں سپریم کورٹ کے پرانے فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حاضر سروس جج کی تعیناتی سےپہلےچیف جسٹس کی مشاورت ضروری ہے، کسی پرائیویٹ شخص کو بھی کمیشن میں لگانے سے پہلے مشاورت ضروری ہے، یہ جوڈیشل کارروائی ہوتی ہے۔

    اٹارنی جنرل نے کہا کہ معاملے کی وضاحت دی جا سکتی ہے، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت عدلیہ کے معاملات میں کوارٹرز کا خیال کرے، انکوائری کمیشن میں حکومت نے خود ججز تجویز کئے، اس سے پہلے 3 نوٹیفکیشن میں حکومت نے ججز تجویز کئےجنہیں بعدمیں واپس لیاگیا۔

    اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ایکٹ 2017 کو چیلنج نہیں کیا گیا تو جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ 1956ایکٹ آئین کے احترام کی بات کرتا ہے اس نکتے پر بعد میں آئیں گے، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اس نکتے پر ابھی تیار ہیں۔

    سپریم چیف جسٹس نے وفاقی حکومت سے گزارش کی کہ آئین کا احترام کریں اور آئین کا احترام کرتے ہوئے روایات کے مطابق عمل کریں، معذرت سے کہتا ہوں حکومت نے ججز میں اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کی۔

    جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے سپریم کورٹ اختیارات سےمتعلق قانون میں حکومت نے 5ججز کے بینچ بنانےکا کہہ دیا، نئے قانون میں اپیل کیلئے پانچ سے بھی بڑا بینچ بنانے کا کہہ دیا، ہمارے پاس ججز کی تعداد کی کمی ہے۔

    چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ حکومت نے جلد بازی میں عدلیہ سےمتعلق قانون سازی کی ،حکومت قانون ضرور بنائے لیکن مشاورت کرے ، حکومت بتائے سپریم کورٹ سےمتعلق قانون سازی پرکس سے مشورہ کیا ، ہم سے مشورہ کرتےتو ضرور مشورہ دیتے۔

    جس پر اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس سے مکالمے میں کہا کہ ان تمام امور کا حل ہو سکتا ہے تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے حکومت مسائل حل کرے تو ہم بھی ریلیف دیں گے، سپریم کورٹ کے انتظامی امور میں پوچھے بغیر مداخلت ہوگی تو یہ ہوگا۔

    جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ ہمیں احساس ہے کہ آپ حکومت پاکستان کے وکیل ہیں ، تمام اداروں کو مکمل احترام ملنا چاہیے،
    یہ سب انا کی باتیں نہیں، آئین اختیارات تقسیم کی بات کرتا ہے، عدلیہ وفاقی حکومت کا حصہ نہیں ، ہم انا کی نہیں آئین کی بات کررہے ہیں۔