Tag: سپریم کورٹ

  • سپریم کورٹ نے بغیر مرضی ڈی این اے ٹیسٹ کرانا غیر قانونی قرار دے دیا

    سپریم کورٹ نے بغیر مرضی ڈی این اے ٹیسٹ کرانا غیر قانونی قرار دے دیا

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے بغیر مرضی ڈی این اے ٹیسٹ کرانا غیر قانونی قرار دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ نے جائیداد کے تنازع کے ایک کیس میں 7 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کر دیا، جس میں سپریم کورٹ نے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ کا حکم کالعدم قرار دے دیا ہے۔

    فیصلے کے مطابق دیوانی مقدمات میں بغیر مرضی ڈی این اے ٹیسٹ شخصی آزادی اور نجی زندگی کے خلاف ہے، آئین کے آرٹیکل 9 اور 14 شخصی آزادی اور نجی زندگی کے تحفظ کے ضامن ہیں۔

    فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تاج دین اور زبیدہ بی بی کے ڈی این اے ٹیسٹ کا حکم دیا گیا وہ کیس میں فریق ہی نہیں ہیں۔

    فیصلے میں قرار دیا گیا کہ نجی زندگی کا تعلق انسان کے حق زندگی کے ساتھ منسلک ہے، مرضی کے بغیر ڈی این اے ٹیسٹ نجی زندگی میں مداخلت ہے، فوجداری قوانین کی بعض شقوں میں مرضی کے بغیر ڈی این اے ٹیسٹ کی اجازت ہے۔

    علاوہ ازیں فیصلے میں کہا گیا ہے کہ قانون شہادت کے مطابق شادی کے عرصے میں پیدا بچے کی ولدیت پر شک نہیں کیا جا سکتا۔ واضح رہے کہ جائیداد کے تنازع میں لاہور ہائیکورٹ نے تاج دین، زبیدہ اور محمد نواز کے ڈی این اے ٹیسٹ کا حکم دیا تھا۔

  • سپریم کورٹ کی  پنجاب میں الیکشن کیلئے فنڈز فراہمی کی مہلت آج ختم

    سپریم کورٹ کی پنجاب میں الیکشن کیلئے فنڈز فراہمی کی مہلت آج ختم

    اسلام آباد : الیکشن کمیشن پنجاب میں الیکشن کے لئے فنڈز اور سیکورٹی پلان سے متعلق رپورٹ آج سپریم کورٹ کو پیش کرے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کی جانب سے پنجاب میں الیکشن کے لیے فنڈز فراہمی کی مہلت ختم ہوگئی ، حکومت نےالیکشن کمیشن کوتاحال 21ارب روپےفنڈزفراہم نہیں کیے۔

    الیکشن کمیشن پنجاب میں انتخاب کے لئے فنڈز اور سیکورٹی پلان سے متعلق رپورٹ آج سپریم کورٹ کو پیش کرے گا۔

    سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو آج فنڈز فراہمی اور سیکیورٹی پلان پیش کرنےکاحکم دیا تھا ، سپریم کورٹ کے حکم پر الیکشن کمیشن آج فنڈز فراہمی اور سیکیورٹی پلان پیش کرنے کا پابند ہے۔

    یاد رہے گذشتہ روز سینیٹ میں قومی اسمبلی اور چاروں صوبوں میں بیک وقت انتخابات کرانے کی قرارداد کثرت رائے سے منظور کی گئی تھی۔

    بعد ازاں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے انتخابی اخراجات کا بل پارلیمنٹ میں پیش کیا تھا ،اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ فوری انتخابات قومی مفاد میں نہیں، ایوان فیصلہ کرے، رقم الیکشن کمیشن کو فراہم کی جائے یا نہیں۔

  • دو صوبوں کے انتخابات پر سپریم کورٹ کا فیصلہ، کب کیا ہوا؟

    دو صوبوں کے انتخابات پر سپریم کورٹ کا فیصلہ، کب کیا ہوا؟

    رواں سال 14 اور 18جنوری کو بالترتیب صوبہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد دونوں صوبوں میں آئین کے تحت 90روز میں عام انتخابات کا انعقاد گھمبیر مسئلہ بن گیا ہے، جس کے بعد سیاسی جماعتوں کے درمیان محاذ آرائی عروج پر ہے اور عدلیہ اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے ہر ممکن کردار ادا کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے۔

    دونوں صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے تقریباً ایک ماہ بعد تک دونوں صوبائی گورنرز کی جانب سے تاریخ نہ دیئے جانے پر 20 فروری کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 9 اپریل کو انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد ایک اور بحث نے جنم لیا کہ صدر کو یہ اختیار ہے بھی یا نہیں جس سے معاملہ مزید پیچیدہ ہوگیا اور ملک میں جاری سیاسی بحران میں مزید اضافہ ہوگیا، اسی صورتحال کے پیش نظر سپریم کورٹ نے الیکشن کے التواء پر ازخود نوٹس لیا۔

    چیف جسٹس کا از خود نوٹس

    22فروری کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ کی درخواست پر پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات میں تاخیر کے معاملے پر از خود نوٹس لیتے ہوئے معاملے کی سماعت کے لیے 9 رکنی لارجربینچ تشکیل دیا تھا۔ جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی جانب سے 16 فروری 2023 کو ایک کیس میں آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت از خود نوٹس لینے کی درخواست کی گئی تھی۔

    سپریم کورٹ

    پیپلزپارٹی، پاکستان مسلم لیگ ن، جے یو آئی ایف نے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرنے والے نو رکنی بنچ میں شامل دو ججوں، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس اعجاز الاحسن کی شمولیت پر اعتراض کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا تھا کہ ان ججوں کو بنچ سے الگ ہوجانا چاہیے، جنہوں نے بعد ازاں بنچ سے علیحدگی اختیار کرلی۔

    اس کے بعد سماعت کرنے والے 9 رکنی لارجر بینچ سے مزید دو ججز علیحدہ ہوگئے، 4 اراکین کے خود الگ ہونے کے بعد 5 رکنی بینچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر شامل تھے۔

    ازخود نوٹس کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے دونوں صوبوں میں انتخابات90 دنوں میں کرانے کا حکم دیا تھا جس کے بعد الیکشن کمیشن نے صدر مملکت کو پنجاب میں الیکشن انتخابات کیلئے30 اپریل سے7 مئی تک کی تاریخیں تجویز کی تھیں۔

    الیکشن کمیشن نے انتخابات ملتوی کردیے

    سپریم کورٹ کے فیصلے اور صدر کی جانب سے تاریخیں تجویز کیے جانے کے بعد الیکشن کمیشن نے اس کے مطابق پنجاب کا انتخابی شیڈول جاری کیا اور اس کے مطابق کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا سلسلہ شروع ہوا اور پی ٹی آئی سمیت پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے بھی کاغذات نامزدگی جمع کرائے تاہم پھر اچانک بدھ 22 مارچ کو الیکشن کمیشن نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ پنجاب میں انتخابات اب آٹھ اکتوبر کو ہوں گے۔

    نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لیے 8 اکتوبر کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لیے امن و امان کی صورتحال سازگار نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن کے آڈر میں کہا گیا تھا کہ وزارت داخلہ نے الیکشن کمیشن کو آگاہ کیا تھا کہ وہ سول اور فوجی اہلکاروں کو الیکشن ڈیوٹی کے لیے فراہم نہیں کرسکتی جبکہ اس آرڈر میں وزارت خزانہ کے حکام کا بھی حوالہ دیا گیا ہے، جنہوں نے انتخابات کے لیے لیے فنڈز کی فراہمی سے معذرت کی ہے۔

    الیکشن کمیشن کے فیصلے کیخلاف پی ٹی آئی کی درخواست

    الیکشن کمیشن کے اس اقدام کیخلاف تحریک انصاف کی درخواست پر سپریم کورٹ نے درخواست کی سماعت کی، 27مارچ کو ہونے والی پہلی سماعت کے اختتام پر عدالت نے وفاق، پنجاب اور خیبرپختونخوا حکومت اور الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کر دیے۔

    28مارچ کو سپریم کورٹ میں ہونے والی دوسری سماعت میں چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ کارروائی کو لمبا نہیں کرنا چاہتے، سادہ سا سوال ہے کہ الیکشن کمیشن تاریخ آگے کرسکتا ہے یا نہیں، اگر الیکشن کمیشن کا اختیار ہوا تو بات ختم ہوجائے گی۔

    سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا، 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کا حکم - Pakistan - Dawn News

    29مارچ کو سپریم کورٹ میں ہونے والی تیسری سماعت میں جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے تھے کہ چار ججز نے پی ٹی آئی کی درخواستیں خارج کیں، ہمارے حساب سے فیصلہ 4 ججز کا ہے، چیف جسٹس نے آج تک آرڈر آف دی کورٹ جاری نہیں کیا، جب آرڈر آف دی کورٹ نہیں تھا تو صدر مملکت نے تاریخ کیسے دی اور الیکشن کمیشن نے شیڈول کیسے جاری کیا؟

    30مارچ بروز جمعرات کو ہونے والی چوتھی سماعت میں جسٹس امین الدین نے کیس سننے سے معذرت کرلی تھی جس کے بعد 5 رکنی بنچ ٹوٹ گیا تھا۔ بعد ازاں عدالتی عہدیدار نے اعلان کیا تھا کہ کیس کی سماعت 4 رکنی بنچ 31 مارچ (جمعہ کو) کرے گا۔

    31مارچ بروز جمعہ کو ہونے والی پانچویں سماعت کے دوران بینچ کے ایک اور جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے بھی معذرت کرلی جس کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کیس کی کارروائی آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا تھا۔

    تین رکنی ججز کی سماعت کا فیصلہ محفوظ

    اس تین رکنی بینچ نے درخواست گزار، اٹارنی جنرل اور الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل سننے کے بعد 3 اپریل کو فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جو 4 اپریل کو سنایا اور اس فیصلے میں الیکشن کمیشن کے 22 مارچ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے الیکشن شیڈول میں معمولی ردوبدل کیا اور پنجاب میں 14 مئی کو الیکشن کرانے کا حکم دے دیا۔

    دوران سماعت ای سی پی کے وکیل کا ججز سے مکالمہ</h3

    قبل ازیں کیس کی سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر اور چیف جسٹس کے درمیان مکالمہ ہوا جس میں عرفان قادر نے کہا کہ پہلے مجھے سن لیں کہ یکم مارچ کا فیصلہ چار تین کا ہے، پوچھنا ہے کہ کیا آپ نے فیصلہ کرنے کا پہلے ہی بتادیا ہے؟ اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم نے کوئی فیصلہ پہلے سے نہیں کیا۔

    بنچ میں جسٹس اعجاز الاحسن کو شامل نہ کرتے تو شفافیت آتی، عرفان قادر

    اپنے دلائل میں الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ موجودہ بینچ میں بھی جسٹس اعجاز الاحسن کو شامل نہ کرتے تو شفافیت آتی۔ جس کے جواب میں چیف جسٹس نے عرفان قادر سے کہا کہ وہ وجوہات بتائیں کہ کیوں جسٹس اعجاز الاحسن کو بینچ میں شامل نہیں ہونا چاہیے، انہوں نے مزید کہا کہ چیف جسٹس اپنے انتظامی اختیارات پر آپ کو جوابدہ نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے کہا کہ چیف جسٹس انہیں نہیں لیکن قوم کو جوابدہ ضرور ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ جوڈیشل آرڈرز پر جوابدہ ہوں لیکن انتظامی آرڈرز پرنہیں؟

    ایک موقع پر سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کے کان میں لقمہ دیا جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا عرفان قادر اٹارنی جنرل کو بچانے آئے ہیں؟، عرفان قادر نے کہا صرف 15 سیکنڈز کا معاملہ ہے، جسٹس منیب نے کہا کہ آپ 3 منٹ سے 15 سیکنڈ پر آگئے ہیں۔

    الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایک جج صاحب نے نوٹ میں لکھا کہ جسٹس اعجاز الاحسن نے معذرت کی، چیف جسٹس کا یہ کہنا کہ بینچ سے الگ نہیں ہوئے تھے 2ججز کے نوٹ کیخلاف ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جن ججز نے سماعت سے معذرت کی ان کے حکم نامے ریکارڈ کا حصہ ہیں، بینچ سے کسی جج کو نکالا نہیں جاسکتا یہ قانون کا اصول ہے۔

    وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہر مرتبہ ججز کی معذرت کرنے کا آرڈر نہیں ہوتا، کئی بار تین ججز اٹھ کر جاتے تھے اور دو ججز واپس آتے تھے، جواباً چیف جسٹس نے فوری کہا کہ اس طرح کی تجویز عدالت کو کبھی نہ دیں۔

    ون مین شو کس کو کہا گیا ہے؟

    وکیل عرفان قادر نے کہا کہ آپ نے عزت سے اپنا دور گزارا ہے، ون مین شو کس کو کہا گیا ہے اس کی وضاحت ضروری ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے جسٹس قاضی فائز سے پوچھا تھا ون مین شو کس کو کہا؟ تو جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ عمومی بات کی آپ کو نہیں کہا تھا

    ایک موقع پر عرفان قادر نے کہا کہ حکومت نے یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کو نہیں مانا تھا، راجہ پرویز والے معاملے میں خط لکھ کر سپریم کورٹ کی فیس سیونگ کی گئی، نظریہ ضرورت بہت اچھی چیز تھی، ہم تواس سے بھی پیچھے چلے گئے ہیں۔

    اٹارنی جنرل اور فاروق ایچ ناٸیک کے دلائل

    کیس کی سماعت کے آغاز میں پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ ناٸیک روسٹرم پر آٸے تو جسٹس منیب اختر نے ان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ نے بائیکاٹ ختم کردیا؟ فاروق نائیک نے جواب دیا کہ ہم نے کوئی بائیکاٹ نہیں کیا، ہم کارروائی میں شامل ہوں گے، تاہم بینچ سے متعلق ہمیں کچھ تحفظات ہیں۔

    اٹارنی جنرل صاحب!! بائیکاٹ نہیں کیا تو لکھ کر دیں، چیف جسٹس

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے استفسار کیا کہ بائیکاٹ نہیں کیا تو لکھ کر دیں، اٹارنی جنرل صاحب آپ کو کیا ہدایت ملی ہیں۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جواب دیا کہ حکومت بائیکاٹ نہیں کرسکتی۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سنجیدہ اٹارنی جنرل سے ایسی ہی توقع تھی۔

    اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حکومت آئین کے مطابق چلتی ہے، الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا ہے، صدر کو خیبرپختونخوا میں تاریخ دینے کی استدعا کی گئی، درخواست کی بنیاد یکم مارچ کا عدالتی فیصلہ ہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سوال اٹھایا تھا کہ الیکشن کمیشن 8 اکتوبر کی تاریخ کیسے دے سکتا ہے، قانون کسی کو الیکشن ملتوی کرنے کا اختیار نہیں دیتا، عدالت ہی الیکشن کی تاریخ آگے بڑھا سکتی ہے۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اصل معاملہ الیکشن کمیشن کے حکم نامے کا ہے، الیکشن کمیشن کا حکم برقراررہا تو تمام استدعا ختم ہوجائیں گی۔

    پنجاب اور کے پی انتخابات پر ازخود نوٹس کیس: سپریم کورٹ کا تحریری فیصلہ جاری

    نیوی اور ایئر فورس سے بھی مدد لی جاسکتی ہے، چیف جسٹس

    چیف جسٹس نے پوچھا کہ سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری خزانہ کہاں ہیں؟، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سیکریٹری خزانہ رپورٹ کے ہمراہ عدالت میں موجود ہیں۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ اصل مسئلہ سیکیورٹی ایشو ہے،۔ اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ یہ حساس معاملہ ہے، سیکیورٹی معاملات پر ان کیمرا سماعت کی جائے، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ فائلز دے دیں ہم جائزہ لے لیتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فورسز کا معاملہ صرف آرمی کا نہیں نیوی اور ایئر فورس کا بھی ہے، بری فوج مصروف ہے تو نیوی اور ایئر فورس سے مدد لی جاسکتی ہے۔

    ن لیگ کے وکیل اکرم شیخ کا بیان

    مسلم لیگ ن کے وکیل اکرم شیخ عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ ہمارا وکالت نامہ آپ کے پاس ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ن لیگ کے وکیل سے کہا کہ آپ کا وکالت نامہ موجود ہے لیکن جو بیانات دیئے گئے ہیں اس کا کیا؟ جس پر اکرم شیخ نے جواب دیا کہ ہم وکلاء آپ کے سامنے آئے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ آپ پر اعتبار ہے۔

    جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آپ ایک طرف اعتراض اور دوسری طرف کارروائی کا حصہ بھی بنتے ہیں، حکومتی اتحاد اجلاس کا اعلامیہ پڑھ کر سنائیں، جو زبان اس میں استعمال کی گئی ہے۔

    تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر کا بیان

    عدالت نے تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر کو روسٹرم پر بلایا۔ چیف جسٹس نے ان دریافت کیا کہ ان چیمبر سماعت پر آپ کا کیا مؤقف ہے؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ سیکیورٹی اہلکار ملیں گے تو انتحابات کرا سکتے ہیں، سیکیورٹی اہلکار صرف ایک دن کیلئے دستیاب ہوسکتے ہیں، سیکیورٹی کا ایشو رہے گا، آئینی ضرورت 90 دن کی ہے۔

     سوال یہ ہے کہ 8 اکتوبر کو کیسے سب ٹھیک ہو جائے گا؟چیف جسٹس

    چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی اہلکار کون دے گا؟ سوال یہ ہے کہ 8 اکتوبر کو کیسے سب ٹھیک ہو جائے گا؟ کیا الیکشن کمیشن کو جنگ لڑنے والے اہلکار درکار ہیں؟۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ریٹائرڈ لوگوں کی بھی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے مزید کہا کہ حساس ترین معلومات کا جائزہ میں بھی نہیں لینا چاہوں گا، اس مقدمے میں سیکیورٹی ایشو دیکھنا ضروری نہیں۔

  • آج 4 اپریل کو ایک بار پھر عدل و انصاف کا قتل ہوا، وزیر اعظم کا عدالتی فیصلے پر شدید رد عمل

    آج 4 اپریل کو ایک بار پھر عدل و انصاف کا قتل ہوا، وزیر اعظم کا عدالتی فیصلے پر شدید رد عمل

    اسلام آباد: وزیر اعظم شہباز شریف نے پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انتخابات کے التوا کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر شدید رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج 4 اپریل کو ایک بار پھر عدل و انصاف کا قتل ہوا۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف نے دو صوبوں میں انتخابات کے التوا کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم کرنے والے عدالتی فیصلے کو عدل و انصاف کا قتل قرار دے دیا ہے۔

    شہباز شریف نے کہا کہ آج 4 اپریل ہے اور شہید ذوالفقارعلی بھٹو کا جوڈیشل قتل آج ہی ہوا تھا، آج چار اپریل کو 72 گھٹنے میں جو کارروائیاں ہوئیں وہ بھی عدل و انصاف کا قتل ہے۔

    وزیر اعظم نے فیصلے کو مسترد کرنے والے اپنے واضح رد عمل میں کہا "سپریم کورٹ کے فیصلے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔”

    انھوں نے کہا شہید ذوالفقارعلی بھٹو 1973 کے آئین کے بانیوں میں شامل ہیں، ان کی تاریخی خدمت کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، شہید ذوالفقار علی بھٹو کا قتل جوڈیشل تھا، فیصلہ کرنے والے ججز میں سے ایک نے بعد میں اس کا ذکر کیا۔

    واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کا 22 مارچ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا ہے اور معمولی تبدیلی کے ساتھ انتخابی شیڈول بحال کر دیا ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات ہوں گے، کاغذات نامزدگی 10 اپریل تک جمع کرائے جائیں، حتمی فہرست 19 اپریل تک جاری کی جائے گی اور انتخابی نشانات 20 اپریل کو جاری کیے جائیں گے۔

    وفاقی کابینہ نے سپریم کورٹ کا فیصلہ مسترد کر دیا

    دوسری طرف وفاقی کابینہ نے سپریم کورٹ کے پنجاب میں الیکشن سے متعلق فیصلے کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ فیصلہ اقلیتی ہے۔

  • جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے پر سپریم کورٹ کا  6 رکنی بینچ تشکیل

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے پر سپریم کورٹ کا 6 رکنی بینچ تشکیل

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے چھ رکنی بینچ تشکیل دے دیا ، بینچ کیس کی سماعت آج ہی دوپہر 2 بجے کرے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے پنجاب خیبر پختونخواہ الیکشن التوا کیس کے فیصلے میں‌ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا فیصلہ بھی غیر مؤثر قرار دے دیا۔

    سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے پر 6 رکنی بینچ بنا دیا، جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں چھ رکنی بینچ تشکیل دیا گیا ، جسٹس اعجاز الاحسن کے علاوہ بینچ میں جسٹس منیب اختر،جسٹس سیدمظاہرعلی اکبر نقوی ، جسٹس محمد علی مظہر،جسٹس عائشہ ملک،جسٹس سیدحسن اظہر رضوی شامل ہیں۔

    مزید پڑھیں : جسٹس قاضی فائز عیسیٰ فیصلے میں دی گئی آبزرویشن مسترد

    یاد رہے 31 مارچ کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرٹیکل 184 تھری کے مقدمات پر سرکلر جاری کیا تھا ، جس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ فیصلے میں دی گئی آبزرویشن کو مسترد کر دیا گیا تھا۔

    سرکلر میں کہا گیا تھا کہ گزشتہ دنوں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دو ایک سے فیصلہ سنایا جس میں ازخود نوٹس کے اختیارات کا استعمال کیا گیا، اس انداز میں بینچ کا سوموٹو لینا 5 رکنی عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہے، سوموٹو صرف چیف جسٹس آف پاکستان ہی لے سکتے ہیں۔

  • سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن کا اہم بیان

    سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن کا اہم بیان

    اسلام آباد: سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ذرائع الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ فیصلے سے قبل ہی تیاریاں جاری رکھی گئیں۔

    سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا (کے پی) میں الیکشن کے التوا سے متعلق کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن کا 8 اکتوبر کو الیکشن کرانے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا ہے۔

    تاہم ذرائع الیکشن کمیشن نے اب اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ فنڈز اور سیکیورٹی فراہم کی جائے تو انتخابات کیلئے تیار ہیں، انتخابات کی تاریخ مل گئی، باقی ماندہ مراحل جلد مکمل ہوجائیں گے۔

    سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا الیکشن التواء کیس کا فیصلہ سنادیا

    ذرائع الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے قبل ہی  تیاریاں جاری رکھی گئیں، صاف و شفاف انتخابات کیلئے تمام مراحل مکمل ہیں، فنڈز اور سیکیورٹی فراہم ہوں تو الیکشن کا کوئی مسئلہ نہیں ہے بس حکومت کی تعاون درکار ہے۔

    ذرائع الیکشن کمیشن نے بتایا کہ پنجاب انتخابات کا مرحلہ اپیلیٹ ٹریبونل سے دوبارہ شروع ہوگا، انتخابات کیلئے ماسٹر ٹریننرز کو تربیت فراہم کردی گئی ساتھ ہی پولنگ عملے کی دستیابی یقینی بنانے کا عمل جاری ہے۔

    ذرائع الیکشن کمیشن نے بتایا کہ نتائج مرتب کرنے کیلئے الیکشن مینجمنٹ سسٹم کے ٹرائل جاری ہیں، انتخابی عمل کے لیے  مانیٹرنگ ٹیمیں تشکیل دے دیں گئیں، پولنگ اسٹیشن کی شناخت کا عمل مکمل کرلیا گیا جبکہ عمارتوں کا سروے بھی کرلیا گیا۔

    ذرائع الیکشن کمیشن کا مزید کہنا تھا کہ ریٹرننگ افسران کی طرف سے بھی اسکروٹنی کرلی گئی، الیکشن کمیشن اپیلوں پر فیصلے کے بعد امیدواروں کی حتمی فہرست جاری کرے گا۔

  • سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا الیکشن التواء کیس  کا فیصلہ سنادیا

    سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا الیکشن التواء کیس کا فیصلہ سنادیا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کا 22مارچ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا او معمولی تبدیلی کیساتھ انتخابی شیڈول بحال کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن کے التوا سے متعلق کیس کا محفوظ فیصلہ سنادیا ، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے فیصلہ سنایا۔

    سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کا 22مارچ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور کہا الیکشن کمیشن کو اس فیصلے کا کوئی قانونی اختیار نہیں تھا، آئین اور قانون الیکشن کمیشن کوتاریخ میں توسیع کی اجازت نہیں دیتا۔

    سپریم کورٹ نے معمولی تبدیلی کیساتھ انتخابی شیڈول بحال کردیا اور کہا الیکشن کمیشن کےغیر آئینی فیصلےسے13دن ضائع ہوئے، الیکشن پروگرام میں ترامیم کی جائے۔

    پنجاب میں 14مئی کو انتخابات ہوں گے، سپریم کورٹ کا فیصلہ

    سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ پنجاب میں 14مئی کو انتخابات ہوں گے، کاغذات نامزدگی 10اپریل تک جمع کرائے جائیں جبکہ حتمی فہرست 19 اپریل تک جاری کی جائے گی اور انتخابی نشانات20 اپریل کو جاری کئے جائیں گے۔

    سپریم کورٹ نے حکومت کو 10 اپریل تک فنڈز مہیا کرنے اور 21 ارب جاری کرنے کا حکم دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کو فنڈ کی وصولی کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرانے کی ہدایت کردی اور کہا فنڈز نہ جمع کرانےکی صورت میں عدالت مناسب حکم جاری کرے گی۔

    خیبرپختونخوا میں الیکشن کے حوالے سے سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ خیبرپختونخوا اسمبلی کے حوالے سے وکیل نے دلائل نہیں دیئے، خیبرپختونخواکے حوالے سے الگ پٹیشن دائر کی جائے، عدالت اس پر مناسب حکم جاری کرے گی،گورنرخیبر پختونخوا کے وکیل کیس سے الگ ہوگئے، خیبرپختونخوا الیکشن کے حوالے سےدوبارہ رجوع کیا جائے۔

    سپریم کورٹ نے ہدایت کی کہ نگراں پنجاب حکومت ،چیف سیکریٹری ، آئی جی سیکیورٹی پرمعاونت کریں اور صوبائی حکومت بھی الیکشن کمیشن کےساتھ تعاون کرے جبکہ وفاقی حکومت آئینی ذ مہ داری پوری کرے اور ساتھ ہی الیکشن کمیشن کومکمل تعاون اور سہولت فراہم کرے۔

     الیکشن التوا کیس کا فیصلہ محفوظ

    گذشتہ روز چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پی ٹی آئی کی درخواستوں پر انتخابات التوا کیس کافیصلہ محفوظ کیا تھا۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ حکومت نے ایسا کوئی موادنہیں دیاجس پر الیکشن ملتوی ہوسکیں جبکہ حائل رکاوٹوں سے بھی آگاہ نہیں کیا گیا اور سیاسی مذاکرات کےآپشن کا بھی کوئی جواب نہیں آیا۔

    جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ لوگ کہتے ہیں، وہ قانون سے بالاتر ہیں لیکن لوگ من پسند ججوں سے فیصلے کرانا چاہتے ہیں۔

     الیکشن التوا کیس کی سماعتوں کے احوال

    خیال رہے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کے معاملے پر کیس کی سماعت کیلیے نو رکنی پینچ تشکیل دیا گیا، چیف جسٹس کی جانب سے تشکیل دیے جانے والا نو رکنی بینچ پہلے پانچ اور پھر تین رکنی بینچ تک محدود ہو گیا۔

    سماعت سے انکارکرنے والوں میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظاہر علی نقوی، جسٹس یحیی آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں۔

    27 مارچ کو ہونے والی پہلی سماعت کے اختتام پر عدالت نے وفاق، پنجاب اور خیبرپختونخوا حکومت اور الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کیا۔

    28 مارچ کو سپریم کورٹ میں ہونے والی دوسری سماعت میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’کارروائی کو لمبا نہیں کرنا چاہتے، سادہ سا سوال ہے کہ الیکشن کمیشن تاریخ آگے کر سکتا ہے یا نہیں؟

    جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے تھے کہ ’انتخابات آگے کون لے جا سکتا ہے، یہاں آئین خاموش ہے، کیا پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم نہیں کرنی چاہیے؟ جبکہ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ’پارلیمنٹ ترمیم کر لے تو یہ سب سے اچھا ہو گا، سوال یہ ہے کہ ترمیم ہونے تک جو انتخابات ہونے ہیں ان کا کیا ہوگا‘۔

    دوران سماعت انتخابات کے انعقاد کے لیے فنڈز کی عدم دستیابی کا معاملہ زیر بحث آیا جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’انتحابات کرانے کے لیے مجھ سمیت دیگر افراد کی تنخواہوں پر کٹ لگا دیا جائے تو انتخابات جیسا اہم ٹاسک پورا کیا جاسکتا ہے۔

    29 مارچ کو سپریم کورٹ میں ہونے والی تیسری سماعت میں جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ 4 ججز نے پی ٹی آئی کی درخواستیں خارج کیں، ہمارے حساب سے فیصلہ 4 ججز کا ہے، چیف جسٹس نے آج تک آرڈر آف دی کورٹ جاری نہیں کیا، جب آرڈر آف دی کورٹ نہیں تھا تو صدر مملکت نے تاریخ کیسے دی اور الیکشن کمیشن نے شیڈول کیسے جاری کیا؟

    30 مارچ کو ہونے والی چوتھی سماعت میں جسٹس امین الدین جبکہ 31 مارچ کو ہونے والی پانچویں سماعت کے دوران بینچ کے ایک اور جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے بھی کیس سنننے سے معذرت کرلی، جس کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کیس کی کارروائی آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔

    تین اپریل کو آخری سماعت میں اٹارنی جنرل نے مطالبہ کیا کہ یکم مارچ کا فیصلہ چار تین کے تناسب سے ہے، فل کورٹ بینچ تشکیل دیا جائے، جس پر چیف جسٹس نے کہا فل کورٹ کو بعد میں دیکھ لیں گے استدعا مسترد نہیں کی۔

    ان کا کہنا تھا کہ ملک میں کوئی سیاسی ڈائیلاگ نہیں ہورہا، سارا بوجھ وفاقی حکومت پر ہے، وفاقی حکومت انتخابات کرانےکی یقین دہانی کرائے تو کچھ سوچا جاسکتا ہے، بعد ازاں عدالت نے دلائل مکمل ہونےکے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔

  • لارجر بینچ نہ بنا تو۔۔۔؟ بلاول بھٹو نے واضح کردیا

    لارجر بینچ نہ بنا تو۔۔۔؟ بلاول بھٹو نے واضح کردیا

    لارکانہ: وزیر خارجہ بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ مناسب یہی ہے کہ لارجر بینچ بنایا جائے ایسا نہ ہوا تو آئینی بحران پیدا ہوگااور خدانخواستہ مارشل لا لگ جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق لاڑکانہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ججزکی طرف سے اعلیٰ عدلیہ پرجو تنقید ہورہی ہے وہ تاریخی ہے،سینئرججزکی جانب سےاعلیٰ عدلیہ پرتنقید کی جارہی ہے، آپ کے اپنےججزآپ کےکردارکےخلاف ہیں اب مناسب بات ہے کہ لارجربینچ بنادیاجائے۔

    بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ آئین کے مطابق ایک لارجر بینچ بنادیا جائے تمام ججز بیٹھیں اور فیصلہ سنائیں ہمیں وہ فیصلہ سرآنکھوں پر ہوگا اگر لارجر بینچ نہیں بنتا تو آئینی بحران پیدا ہوگا اور ایسا نہ ہو کہ خدانخواستہ مارشل لا لگ جائے۔

    وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی نے ہمیشہ آئین کی سربلندی کیلئےجدوجہد کی،انتخابات کےمعاملےپرجو کچھ ہورہاہےقوم کےسامنےہے،تین ججز صاحبان کوسوچناچاہیے کہ کیا ہورہاہے؟یہ الیکشن کاٹرائل نہیں چل رہا بلکہ سپریم کورٹ کاٹرائل چل رہاہے۔

    بلاول بھٹو نے کہا کہ عمران خان پرویز مشرف کا چیف پولنگ ایجنٹ تھا آج ہر وہ شخص جس کاماضی غیرجمہوری تھا وہ پی ٹی آئی میں شامل ہے،پاکستان کی سیاست یرغمال ہوچکی،سیلاب متاثرین کاپیسہ تخت لاہورکی لڑائی پرلگےگاتوہم احتجاج کرینگے۔

  • سپریم  کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا الیکشن التوا کیس کی سماعت آج پھر ہوگی

    سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا الیکشن التوا کیس کی سماعت آج پھر ہوگی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن التوا کیس کی سماعت آج پھر ہوگی، سیکرٹری خزانہ اور سیکرٹری دفاع آج عدالت میں پیش ہوں گے۔

    تفصیلات کے مطابق پنجاب اور خیبرپختونخوا میں زیرالتوا انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں صبح آج ساڑھے گیارہ بجے ہوگی، عدالت نے سیکریٹری خزانہ اور سیکریٹری دفاع کو پیش ہونے کا حکم دے رکھا ہے۔

    چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی خصوصی بنچ سماعت کرے گا۔

    پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹرعلی ظفر اور الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل مکمل ہوچکے ہیں۔۔ آج اٹارنی جنرل، نگران حکومت پنجاب اور گورنر کے پی کے وکلاء دلائل دیں گے۔

    کیس میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی نے بھی فریق بننے اور 3ججزکے بجائے فل کورٹ کی استدعا کر رکھی ہے۔

    اس موقع پر سپریم کورٹ کےباہرسیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کئے گئے ہیں، ترجمان اسلام آباد کیپیٹل پولیس کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ میں آج وہی افراد داخل ہوسکیں گے، جن کے مقدمات ہیں۔

    ترجمان نے بتایا کہ جن افراد کے پاس سپریم کورٹ انتظامیہ کا اجازت نامہ ہوگا وہ داخل ہوسکیں گے، قانون کا احترام سب پر لازم ہے، اس کا نفاذ برابری کی سطح پر کیا جائے گا ، ریڈ زون میں تعینات پولیس اور دیگر اداروں کے ساتھ تعاون کریں۔

    یاد رہے31 مارچ کو پنجاب اورخیبرپختونخوا میں الیکشن التوا کیس کی سماعت کرنے والا سپریم کورٹ کا بینچ ٹوٹ گیا تھا ، جسٹس جمال خان مندوخیل بینچ سےعلیحدہ ہوگئے اور کل کے حکم نامے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا تھا کہ سماعت کا حکم نامہ عدالت میں نہ تو لکھوایا گیا نہ مجھ سےمشاورت کی گئی۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات ملتوی کرنے سے متعلق کیس کی سماعت کی تھی۔

    سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کی فل کورٹ بنانے کی درخواست فی الحال مسترد کر دی تھی، جس کے بعد اتحادی جماعتوں نے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ پرعدم اعتماد کااظہارکرتے ہوئے کہا تھا کہ تین رکنی بینچ پراعتماد نہیں ہے،چیف جسٹس سمیت تین رکنی بینچ کےدیگرجج صاحبان مقدمے سے دستبردار ہو جائیں۔

  • عوام نے آئین کا ساتھ نہ دیا تو یہ ملک رہنے کے قابل نہیں رہے گا، عمران خان

    عوام نے آئین کا ساتھ نہ دیا تو یہ ملک رہنے کے قابل نہیں رہے گا، عمران خان

    لاہور: چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے خبردار کیا ہے کہ اگر عوام آئین کے ساتھ نہ کھڑے ہوئے تو یہ ملک رہنے کے قابل نہیں رہےگا۔

    تفصیلات کے مطابق زمان پارک سے ویڈیو نیوز کانفرنس میں عمران خان نے کہا کہ پی ڈی ایم کہہ رہی ہےکہ وہ سب سے بڑی عدالت کا فیصلہ نہیں مانےگی،جب یہ سپریم کورٹ کا فیصلہ نہیں مانیں گے تو اس کا کیا مطلب ہوگا؟

    انہوں نے کہا کہ جو فیصلہ حق میں آئے انہیں مانیں جو حق میں نہ آئے اس کو نہیں مانیں گے؟، پی ڈٖی ایم کو خدشہ ہے کہ الیکشن ہار جائیں گے اس لیے فیصلہ نہیں مان رہی۔

    عمران خان نے کہا کہ سپریم کورٹ کا کام ہی آئین پر عمل درآمد کرانا ہے، الیکشن کرالیں، عوام کو فیصلہ کرنے دیں وہ کس کو چاہتےہیں؟۔

    اپنی ویڈیو نیوز کانفرنس میں سابق وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں آئینی بحران پیدا ہوچکا ہے اگر عوام آئین کے ساتھ نہ کھڑے ہوئے تو یہ ملک رہنے کے قابل نہیں رہےگا، اس طرح کے طاقتور مفرور لوگ اوپر بیٹھ کر فیصلے کریں گے،عوام کو آئین کےلیے باہرنکلنا پڑے گا،یہ حقیقی آزادی کا جہاد ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ ان کو اندازہ نہیں نوے دن میں الیکشن نہ ہوئے تو ملک کس طرف جائےگا؟ نوے روز میں الیکشن نہ ہوئے تو قانون کسی کی حفاظت نہیں کرپائےگا۔

    عمران خان نے کہا کہ میرا سوال ہےکیااکتوبرمیں ملک کےحالات ٹھیک ہوجائیں گے؟اس وقت فنڈز کی کمی ہے تو اکتوبر میں بھی فنڈز کی کمی ہوگی، یاد رکھیں انصاف نہیں ہوگا ملک میں جنگل کا قانون ہوجائےگا۔

    سابق وزیراعظم نواز شریف کی گذشتہ روز کی جانے والے نیوز کانفرنس پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ لندن میں بیٹھا مفرور برملا کہ رہا ہے کہ وہ تین ججز کا فیصلہ نہیں مانیں گے، میں قوم کے سامنے سوال رکھتا ہوں کہ نواز شریف کون ہوتے ہیں فیصلہ ماننے اور نہ ماننے والے۔

    انہوں نے کہا کہ نوازشریف نے پوری زندگی لوگوں کوخریدا،نوازشریف مافیا کی طرح کام کرکے لوگوں کودھمکاتے ہیں، اسی نوازشریف کو عدالت نے بھی ‘سسلین مافیا’ کہا، جان لیں کہ نوازشریف کا مفاد پاکستان نہیں بلکہ ان کا پیسا ہے۔