Tag: سپریم کورٹ

  • چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے پہلے 100  دن، سپریم کورٹ نے 8،174  مقدمات کے فیصلہ کئے

    چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے پہلے 100 دن، سپریم کورٹ نے 8،174 مقدمات کے فیصلہ کئے

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے گزشتہ 100 دنوں میں 8،174 مقدمات کے فیصلہ کیے، جو چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے سپریم کورٹ میں بیک لاگ کو کم کرنے کے عزم کی عکاسی کرتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے پہلے سو دن مکمل ہونے پر کارکردگی رپورٹ جاری کردی گئی، اس دوران سپریم کورٹ کے زیر التوا مقدمات میں تین ہزار کی کمی ہوئی اور سپریم کورٹ نے 8 ہزار 174 مقدمات کا فیصلہ کیا۔

    اعلامیے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ میں 4 ہزار 963 نئے مقدمات کا اندراج ہوا، سپریم جوڈیشل کونسل نے دو میٹنگز میں ججزکیخلاف 46 شکایات کا جائزہ لیا اور چالیس شکایات نمٹادی گئیں۔

    پانچ شکایات پر پانچ ججز سے ابتدائی جواب مانگا اور ایک جج کے خلاف ایک شکایات پر مزید تفصیلات طلب کیں۔

    اعلامیے کے مطابق یہ بہتری حالیہ اصلاحات کے اثرات کو نمایاں کرتی ہے، جس میں سٹرکچرڈ رول میکنگ، آٹومیشن، اور ہموار طریقہ کار شامل ہیں، جو ایک زیادہ موثر اور جوابدہ عدالتی نظام میں حصہ ڈالتے ہیں۔

    اعلامیے میں کہنا تھا کہ چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی کی قیادت میں پہلے 100 دنوں کے دوران عدلیہ نے کارکردگی، شفافیت، احتساب اور انصاف کے شعبے میں رسائی کو بڑھانے کے لیے اہم اصلاحات نافذ کیں۔ ان کوششوں نے کیس کے انتظام کو بہتر بنانے، مدعیان اور وکلاء کو سہولت فراہم کرنے اور قانونی معاملات کے بروقت حل کو یقینی بنانے پر توجہ مرکوز کی ہے۔

  • ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت کیس، سپریم کورٹ نے محفوظ فیصلہ سنا دیا

    ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت کیس، سپریم کورٹ نے محفوظ فیصلہ سنا دیا

    سپریم کورٹ نے ایڈیشنل رجسٹرار کے خلاف توہین عدالت کیس کا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے فل کورٹ کی تشکیل کیلیے معاملہ چیف جسٹس کو بھجوا دیا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق سپریم کورٹ نے ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت کیس میں محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے اس معاملے پر فل کورٹ کی تشکیل پر معاملہ غور کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی کو بھجوا دیا ہے جب کہ ایڈیشننل رجسٹرار نذر عباس کو جاری شوکاز نوٹس بھی واپس لے لیا ہے۔

    یہ فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے پڑھ کر سنایا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ پریکٹس پروسیجر کمیٹی کے پاس اختیار نہیں کہ جوڈیشل آرڈر کے بعد کیس کو واپس لے سکیں۔ انتظامی سطح پر جوڈیشل احکامات کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا، جب کہ ججز آئینی کمیٹی کو بھی اختیارنہیں تھا کہ جوڈیشل آرڈر کی موجودگی میں انتظامی آرڈر سے کیس واپس لے۔

    فیصلے میں کہا گیا کہ بادی النظر میں توہین عدالت کی کارروائی ججز کمیٹیوں کیخلاف ہوتی ہے لیکن ججز کمیٹیوں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی نہیں کی جا رہی۔ ججز کمیٹیوں کے پاس اختیار نہیں کہ زیر سماعت مقدمہ بینچ سے واپس لیں۔

    فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ اس معاملے میں ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس کی کوئی غلطی نہیں اور نہ ہی انہوں نے جان بوجھ کر کیس فکس کرنے میں غفلت برتی اور ان کا کیس فکس نہ کرنے پر کوئی ذاتی مفاد بھی نہیں تھا۔

    عدالت نے کہا کہ نذر عباس کے اقدام میں کوئی بدنیتی ظاہر نہیں ہو رہی اور ان کا یہ اقدام توہین عدالت کے زمرے میں نہیں آتا۔ اس لیے ایڈیشنل رجسٹرار کی وضاحت قبول کر کے توہین عدالت کی کارروائی ختم کرتے ہیں۔

    فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجرکمیٹی نے کیس واپس لیا، جو اسکا اختیار ہی نہیں تھا۔ ججز آئینی کمیٹی نے بھی جوڈیشل آرڈر کو نظر انداز کیا۔ ججز کمیٹیوں نے جوڈیشل آرڈر نظر انداز کیا یا نہیں، یہ معاملہ فل کورٹ ہی طے کر سکتا ہے۔ اس حوالے سے 14 رکنی بنچ کا ایک فیصلہ بھی موجود ہے۔ چیف جسٹس پاکستان فل کورٹ تشکیل دے کر معاملے کو دیکھیں۔

    سپریم کورٹ نے فیصلے میں لکھا کہ فل کورٹ آئین کے آرٹیکل 175 کی شق 6 کے تحت اس معاملے کو دیکھے اور کسٹمز ایکٹ سے متعلق کیس غلط انداز میں ہم سے لیا گیا۔ کسٹمز کیس واپس اسی بنچ کے سامنے مقرر کیا جائے جس 3 رکنی بنچ نے پہلے سنا تھا۔

    سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ دائرہ اختیار سے متعلق مرکزی کیس فروری کے پہلے ہفتے میں مقرر کیا جائے۔ ریگولر اور آئینی بینچز کی کمیٹی کے پاس جوڈیشل آرڈر ختم کرنے کا دائرہ اختیار نہیں تھا۔

    فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کمیٹی کو فل کورٹ کی تشکیل کا معاملہ نہیں بھیج رہے کیونکہ فل کورٹ تشکیل کا اختیار چیف جسٹس کے پاس ہے۔

    واضح رہے کہ اس معاملے پر گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ نے ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نذر عباس کو عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ سپریم کورٹ کے جاری اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ نذر عباس سنگین غلطی کے مرتکب ہوئے۔ رجسٹرار سپریم کورٹ کو اس معاملے کی جانچ پڑتال کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔

    سپریم کورٹ کے جاری اعلامیہ میں مزید کہا گیا تھا کہ نذر عباس نے آئینی بینچ کا مقدمہ غلطی سے ریگولر بینچ میں سماعت کیلیے مقرر کیا۔ اس عمل سے سپریم کورٹ اور فریقین کے وقت اور وسائل کا ضیاع ہوا۔ نذر عباس کو جسٹس منصورعلی شاہ کے بینچ نے توہین عدالت کا نوٹس جاری کر رکھا ہے اور انہیں ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہونے کا حکم بھی دے چکی ہے۔

    اعلامیہ کے مطابق کسٹم ایکٹ سے متعلق کیس کو آئینی بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا جانا تھا، لیکن اس کو سپریم کورٹ کے معمول کے بینچ کے سامنے کیس لگا دیا گیا۔

    اعلامیہ میں بتایا گیا ہے کہ جوڈیشل برانچ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت معمول کی کمیٹی سے رجوع کیا اور کمیٹی نے 17 جنوری کو چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں اجلاس منعقد کیا۔ اس کمیٹی نے مشاہدہ کیا کہ آئین کے مطابق یہ مقدمات آئینی بینچ کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں اور کمیٹی نے مقدمات معمول کے بینچ سے لے کر آئینی بینچ کمیٹی کے سامنے مقرر کرنے کی ہدایت کی۔

    اعلامیہ میں یہ بھی کہا گیا کہ آئندہ آرٹیکل 191 اے کے تحت آنے والے مقدمات کو آئینی بینچ کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ ریگولر ججز کمیٹی نے رجسٹرار کو ہدایت دی کہ تمام زیر التوا مقدمات کی جانچ پڑتال تیز کریں جب کہ کمیٹی نے نئے داخل مقدمات کی مکمل چھان بین کی بھی ہدایت کی تھی۔

    اعلامیے کے مطابق آئینی بینچ کمیٹی نے بھی 17 جنوری کو اجلاس کیا اور 26 ویں ترمیم اور قوانین کی آئینی حیثیت چیلنج کرنے والے تمام مقدمات سماعت کیلیے مقرر کیے۔ 8 رکنی آئینی بنچ نے 26 ویں ترمیم کیخلاف 27 جنوری کو سماعت کرے گا۔

    اعلامیہ میں بتایا گیا تھا کہ جسٹس منصور کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے ایڈیشنل رجسٹرارکیخلاف توہین عدالت کی سماعت کی۔ تاہم ایڈیشنل رجسٹرار کی بیماری کی رخصت کے باعث رجسٹرار سپریم کورٹ عدالت پیش ہوئے اور عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ مقدمات کی شیڈولنگ میں غلطی ہوئی تھی اور اس کی جانچ کر رہے ہیں۔

    رجسٹرار کا کہنا تھا کہ مقدمات کو معمول کے بینچ سے ہٹانے کا فیصلہ ایڈیشنل رجسٹرار کی بدنیتی نہیں تھی۔ معمول کی کمیٹی کی ہدایات کی تعمیل میں یہ اقدام کیا گیا تھا۔

    گزشتہ جمعرات کو ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت شوکاز نوٹس کیس کی جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سماعت کی تھی اور عدالتی معاون حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے عدالت کو آگاہ کیا تھا کہ انتظامی آرڈر سے عدالتی حکم نامہ تبدیل نہیں ہو سکتا۔ بعد ازاں عدالت نے اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

    دوسری جانب ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس نے شوکاز نوٹس کا جواب جمع کرایا تھا جس میں نوٹس واپس لینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا گیا تھا  کہ عدالتی حکم کی نافرمانی نہیں کی۔ عدالتی آرڈر پر بینچ بنانے کے معاملے پر نوٹ بنا کر پریکٹس پروسیجر کمیٹی کو بھجوا دیا تھا۔

    دوسری جانب انٹرا کورٹ اپیل پر جسٹس جمال مندوخیل کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ آج ایک بجے سماعت کرے گا۔

    https://urdu.arynews.tv/justice-mansoor-raises-objections-on-intra-court-appeal-bench/

  • ایران میں مسلح افراد کی فائرنگ سے 2 جج جاں بحق

    ایران میں مسلح افراد کی فائرنگ سے 2 جج جاں بحق

    تہران: ایران میں سپریم کورٹ کے باہر مسلح شخص نے فائرنگ کرکے 2 ججز کو قتل کردیا۔

    غیر ملکی میڈیا نے تہران میں فائرنگ کے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ نامعلوم حملہ آور نے سپریم کورٹ کے باہر فائرنگ کی ہے، جس کے باعث 2 جج موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے ہیں۔

    ایران کے میڈیا کا کہنا ہے کہ دونوں معزز جج صاحبان قومی سلامتی، جاسوسی اور دہشتگردی سے متعلق کیسز کی سماعت کررہے تھے۔ جن کی شناخت علی رازینی اور محمد مغیثی کے ناموں سے ہوئی ہے۔

    رپورٹس کے مطابق فائرنگ کا واقعہ مصروف علاقے تہران اسکوائر پر سپریم کورٹ کے قریب پیش آیا جس میں ایک جج زخمی بھی ہوا ہے، حملہ نے فائرنگ کرنے کے بعد خود کو بھی گولی مارلی ہے۔

    روس اور ایران میں اہم معاہدہ ہو گیا

    ایرانی میڈیا کے مطابق فائرنگ کے واقعے میں جاں بحق ہونے والے جج علی رازینی پر 1998 میں بھی قاتلانہ حملہ کیا گیا تھا جس میں ان کی گاڑی میں بم نصب کیا گیا تھا اور وہ اس حملے میں زخمی ہوئے تھے۔

  • واہ کینٹ خود کش حملہ کیس :  سپریم کورٹ کا سزائے موت کے مجرم کو رہا کرنے کا حکم

    واہ کینٹ خود کش حملہ کیس : سپریم کورٹ کا سزائے موت کے مجرم کو رہا کرنے کا حکم

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے واہ کینٹ خودکش حملہ کیس کے مجرم کی سزائے موت کالعدم قرار دیتے ہوئے رہائی کرنے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں واہ کینٹ خودکش حملہ کیس میں مجرم حمید اللہ کی سزائے موت کیخلاف اپیل پر سماعت ہوئی۔

    وکیل مجرم نے بتایا کہ واہ کینٹ واقعےمیں حمید اللہ پر غلط الزام لگایا گیا، حمیداللہ کوفاٹاسےگرفتارکرنےکابتایاگیاجبکہ ایف آئی آر20منٹ بعددرج ہوئی، کیسےممکن ہےواہ کینٹ واقعہ ہو اور ملزم کو 20 منٹ میں فاٹا سے گرفتار کر لیا جائے۔

    عدالت نے مجرم حمید اللہ کی سزائے موت کیخلاف اپیل منظور کرتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔

    اعلیٰ عدلیہ نے ناقص تفتیش پر مجرم حمید اللہ کی رہائی کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ کیس کا تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔

    یاد رہے لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ نے کیس کے مجرم حمید اللہ کی سزائے موت کا فیصلہ دیا تھا جبکہ 2008 میں واہ کینٹ حملےمیں ملوث مجرم حمید اللہ کو گرفتار کیا گیا تھا۔

  • کس کا ملٹری ٹرائل ہوگا کس کا نہیں یہ کون طے کرے گا ؟ آئینی بینچ نے  سوالات اٹھا دیے

    کس کا ملٹری ٹرائل ہوگا کس کا نہیں یہ کون طے کرے گا ؟ آئینی بینچ نے سوالات اٹھا دیے

    اسلام آباد : سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے 9 مئی کے مخصوص ملزمان کے ملٹری ٹرائل پر سوالات اٹھا دیے کہ کس کا ملٹری ٹرائل ہوگا کس کا نہیں یہ کون طے کرے گا؟

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت ہوئی، سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔

    آئینی بینچ نے 9 مئی کے مخصوص ملزمان کے ملٹری ٹرائل پر سوالات اٹھا دیے، جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ دائرہ اختیارکون طےکرتاکس کاٹرائل ملٹری کورٹس میں ہوگاکس کا نہیں؟۔

    جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ 9 مئی کے تمام ملزمان کی ایف آئی آر تو ایک جیسی تھی، یہ تفریق کیسے ہوئی کچھ کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں اور کچھ کا اے ٹی سی میں ہوگا؟

    جسٹس نعیم اختر افغان نے وزارت دفاع کے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ خواجہ صاحب 9 مئی کے کل کتنے ملزمان تھے ؟ جن ملزمان کوملٹری کورٹس بھیجا ان سے متعلق کوئی اے ٹی سی کا آرڈرتو دکھائیں۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے بھی سوال کیا ملٹری کسٹڈی لینے کا پراسس کون شروع کرتا ہے؟ جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے وکیل سے کہا کوئی مثال دیں جہاں آئین معطل کئے بغیر سویلین کا ملٹری ٹرائل ہوا ہو۔

    جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے جی ایچ کیو،کراچی بیس سمیت مختلف تنصیبات پر دہشت گرد حملے ہوئے، ہمیں بتائیں ان حملوں کا کہاں ٹرائل ہوا؟ ایک آرمی چیف کاطیارہ ہائی جیک کرنےکی سازش کا کیس بنا تھا، خواجہ صاحب وہ کیس عام عدالت میں چلا آپ ایک فریق کے وکیل تھے، ان سب کا ٹرائل عام عدالتوں میں چلا تو 9 مئی والوں نے ایسا کیا کیا کہ ملٹری کورٹس جائیں؟ ان تمام مقدمات کی ایک ایک ایف آئی آر بھی ہمیں دیں۔

    جسٹس جمال مندوخیل کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ اے ٹی سی سے ملزم بری ہورہا اسے فوجی عدالت سے سزا ہو رہی ہے، کیا فوجی عدالتوں میں کوئی خاص ثبوت فراہم کیا جاتا ہے؟ انسداد دہشت گردی عدالتوں کوکیوں مضبوط نہیں بنایا جاتا؟ عدالتوں نےفیصلہ تو شواہد دیکھ کر ہی کرنا ہوتا ہے۔

    جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کیا 9 مئی دہشت گردی سے زیادہ سنگین جرم ہے جوٹرایل فوجی عدالت میں ہورہا ہے؟ اچھے تفتیشی افسران اور پراسیکیوٹر رکھیں تو عدالتوں سے سزائیں بھی ہوں گی۔

    جسٹس مسرت ہلالی نے سوال اٹھایا کہ جہاں آئین معطل نہ ہووہاں ملٹری کورٹس میں سویلین کا ٹرائل ہوسکتا؟ کون اور کیسے طے کرتا کونسا کیس ملٹری کورٹس میں کونسا سول کورٹس میں جائے گا۔

    جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ سیکشن 94 کے تحت کمانڈنگ افسر کا ذکر ہے اس پر تفصیل سے دلائل دوں گا، جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ ملٹری کورٹس ضرور بنائیں، جسٹس جمال خان مندوخیملٹری کورٹس سمیت ہر عدالت کا احترام ہے، آئین کے اندر رہتے ہوئے ملٹری کورٹس بنائیں، محرم علی کیس میں سپریم کورٹ نے کہا آئین سےمتصادم عدالت نہیں بنائی جاسکتی۔

    جسٹس امین الدین نے کہا کہ سزا یافتہ ملزمان سے متعلق کوئی آرڈر نہیں دےسکتے سب کی سیکیورٹی عزیز ہے، وکالت نامے پر دستخط سمیت کسی بھی شکایت پر متعلقہ عدالت سےرجوع کریں، جیل مینوئل کے تحت وکالت نامے پر دستخط کرنے کا حق سب کو حاصل ہے۔

    ایڈووکیٹ فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز سےسپریم کورٹ رپورٹ منگوا لے، جس پر جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے ہم اپنے اسکوپ سے باہر نہیں جائیں گے۔

    ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے دلائل میں کہا کہ خواجہ حارث نے نیب ترامیم کیس میں 6 ماہ تک دلائل دئیے تھے، خواجہ حارث ٹیسٹ میچ کی طرح لمبا کھیلتے ہیں تو جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ آپ ٹی ٹوئنٹی کی طرح کھیلنا چاہتے ہیں؟ انہیں اپنی مرضی سے دلائل دینے دیں۔

    بعد ازاں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت ملتوی کردی گئی۔

  • ملٹری کورٹس میں ٹرائل سانحہ اے پی ایس جیسے مجرموں کیلئے تھا، کیا سویلین کے ساتھ وہی برتاؤ کیا جاسکتا ہے؟ جسٹس مسرت ہلالی  کا سوال

    ملٹری کورٹس میں ٹرائل سانحہ اے پی ایس جیسے مجرموں کیلئے تھا، کیا سویلین کے ساتھ وہی برتاؤ کیا جاسکتا ہے؟ جسٹس مسرت ہلالی کا سوال

    اسلام آباد : فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل کے کیس میں جسٹس مسرت ہلالی نے سوال اٹھایا کہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل سانحہ اے پی ایس جیسے مجرموں کیلئے تھا، کیا سویلین کے ساتھ وہی برتاؤ کیا جاسکتا ہے؟

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت ہوئی۔

    جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی ، وزارت دفاع کےوکیل خواجہ حارث کی جانب سے دلائل کا آغاز کیا گیا۔

    جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا آپ جسٹس منیب کی ججمنٹ سے پیراگراف پڑھ رہے تھے وہیں سے شروع کریں، آرٹیکل 233 بنیادی حقوق کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔

    جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے آئین کے مطابق بھی رولز معطل ہوتے ہیں ختم نہیں، آرٹیکل 5 کے مطابق بھی رائٹس معطل نہیں ہوسکتے تو خواجہ حارث نے بتایا کہ آرٹیکل 233 کا ایک حصہ آرمڈفورسز اور دوسرا حصہ سویلینز کا ہے، عدالتی فیصلے کی بنیاد پر آرٹیکل 8 (5) اور 8 (3) مختلف ہیں یکجا نہیں کیا جاسکتا، جس پر جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ آپ کا نکتہ کل سمجھ آچکا، آگے بڑھیں اور بقیہ دلائل مکمل کریں۔

    خواجہ حارث نے سویلین کا ملٹری ٹرائل کالعدم قرار دینے والافیصلہ پڑھا اور کہا ایف بی علی کیس میں طے پا چکا تھا سویلین کا بھی فوجی عدالت میں ٹرائل ہوسکتا، اکثریتی فیصلے میں آرٹیکل آٹھ تین اور آٹھ پانچ کی غلط تشریح کی گئی۔

    جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ دیکھتے ہیں اس پر ہم آپ سے اتفاق کریں یانہ کریں تو وکیل نے کہا کہ غلط تشریح کی بنیاد پرکہہ دیا گیا ایف بی علی کیس الگ نوعیت کا تھا، ایف بی علی پر ریٹائرمنٹ کے بعد ٹرائل چلایا گیا تھا جب وہ سویلین تھے، فیصلے میں کہا گیا جرم سرزد ہوتے وقت ریٹائر نہیں تھے، اس لئے ان کا کیس الگ ہے۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے 9 مئی والے ملزمان تو آرمڈ فورسز سے تعلق نہیں رکھتے، آج کل ایک اصطلاح ایکس سروس مین کی ہے، یہ ایکس سروس مین بھی نہیں تھے، چلیں ہم صرف شہری کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔

    جسٹس جمال نے استفسار کیا سوال یہ ہے سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کس حدتک ہو سکتا ہے، جسٹس مسرت ہلالی نے بھی ریمارکس میں کہا کہ سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل اے پی ایس جیسے مجرمان کیخلاف ٹرائل کیلئے تھا، کیا تمام سویلین سے وہی برتاؤ کیا جاسکتا ہے جیسے سانحہ اے پی ایس میں کیا گیا، پاکستان کا آئین معطل نہیں ہے۔

    وکیل وزارت دفاع نے بتایا کہ بنیادی حقوق رہتے ہیں اس بارےمیں عدالتی فیصلے موجود ہیں، جس پر جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ہمیں بتائیں ملٹری کورٹس سےمتعلق بین الاقوامی پریکٹس کیاہے، وکیل وزارت دفاع نے بتایا کہ بین الاقوامی سطح پر میں مثالیں پیش کروں گا۔

    جسٹس جمال مندوخیل کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ روزانہ کی بنیاد پر فوجی جوان شہید ہو رہےہیں، ہمیں شہدا کا احساس ہے، سوال یہ ہے ان شہدا کے مقدمات فوجی عدالتوں میں کیوں نہیں چلتے، کوئی محض سوچ رکھتا ہو کیا اس کے خلاف بھی ملٹری کورٹس میں کیس چلےگا، سوال یہ ہے کونسے کیسز ہیں آرٹیکل 8 کی شق 3 کے تحت ملٹری کورٹس میں چلیں گے۔

    جسٹس نعیم اختر افغان نے خواجہ حارث سے مکالمے میں کہا کہ خواجہ صاحب لگتا ہےآپ کی تیاری مکمل نہیں ہے، 5 رکنی بینچ نے آرمی ایکٹ کی کچھ دفعات کالعدم کی ہیں، ہم بھی ان دفعات کو کالعدم رکھیں پھر تو سویلین کا فوجی ٹرائل ہو ہی نہیں سکتا، اگرہم کسی اور نتیجے پر پہنچیں تو طے کرنا ہوگا کون سے سویلین کا فوجی ٹرائل ہوسکتا ہے۔

    جسٹس نعیم کا مزید کہنا تھا کہ اب آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں2023 میں ترمیم بھی ہو چکی، ہمیں اس ترمیم کی روشنی میں بتائیں، کل جسٹس جمال نے فوجی چوکی کی مثال دے کر سوال اسی لئے پوچھا تھا۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے بھی ریمارکس دیے پارلیمنٹ کا اختیار بلاشبہ ہے قانون بنائے کہ کیا کیا چیزجرم ہے، پارلیمنٹ چاہے تو کل قانون بنا دے ترچھی آنکھ سے دیکھنا جرم ہے، اس جرم کا ٹرائل کہاں ہوگا وہ عدالت قائم کرنا بھی پارلیمنٹ کی آئینی ذمہ داری ہے، آئین پاکستان پارلیمنٹ کو یہ اختیار اور ذمہ داری دیتا ہے۔

    بعد ازاں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔

  • سپریم کورٹ کا کچی آبادیوں سے متعلق بڑا حکم

    سپریم کورٹ کا کچی آبادیوں سے متعلق بڑا حکم

    سپریم کورٹ کی آئینی بینچ نے کچی آبادی کیس میں وفاق سے کچی آبادیوں سے متعلق پالیسی رپورٹ دو ہفتوں میں طلب کر لی ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق سپریم کورٹ کی آئینی بینچ نے کچی آبادی کیس کی سماعت کرتے ہوئے وفاق سے کچی آبادی سے متعلق رپورٹ دو ہفتوں میں طلب کر لی ہے۔

    آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین نے کہا ہے کہ کچی آبادی کو ریگولیٹ کرنے کا اختیار صوبوں اور مقامی حکومتوں کا ہے۔

    جسٹس مندوخیل نے استفسار کیا ہے کہ صوبائی اختیارپر وفاقی حکومت کیا قانون سازی کر سکتی ہے؟ پہلے تو یہ بتایا جائے کہ کچی آبادی کیا ہوتی ہے؟ بلوچستان میں تو سارے گھر ہی کچے ہیں۔

    جسٹس رضوی نے کہا کہ قبضہ گروپ ندی نالوں کے کنارے کچی آبادی بنا لیتے ہیں۔ عوامی سہولتوں کے پلاٹ پر کچی آبادی او مکانات بن جاتے ہیں۔ حکومت بتائے کہ اس نے کچی آبادی کو روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں؟

    وکیل سی ڈی اے نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھاڑی نے 10 کچی آبادیوں کو نوٹیفائی کر رکھا ہے۔ سب سے پہلے تو کچی آبادی کی تعریف طے کی جائے۔

    جسٹس مندوخیل نے کہا کہ اگر ان کچی آبادی کے علاوہ کوئی قبضہ ہے تو کارروائی کریں۔ غیر قانونی قبضہ چھڑانے کے قوانین موجود ہیں۔ اس پر وکیل سی ڈی اے عدالت کو آگاہ کیا کہ عدالت نے ہی قبضہ چھڑانے کے خلاف حکم امتناع دے رکھا ہے۔

    جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اگر حکم امتناع ہے، تو عدالت سے اس کو ختم کرائیں۔ تجاوزات کیسے بن جاتی ہیں۔ سب سے پہلے چھپرا ہوٹل بنتے ہیں اور پھر وہاں آہستہ آہستہ آبادی بن جاتی ہے۔ تجاوزات کی تعمیر ادارے کے لوگ بھی ملوث ہوتے ہیں۔

  • سپریم کورٹ سال 2024 میں کن حوالوں سے بہت زیادہ اہم رہا؟

    سپریم کورٹ سال 2024 میں کن حوالوں سے بہت زیادہ اہم رہا؟

    سپریم کورٹ 2024 کئی حوالوں سے بہت زیادہ اہم رہا اور کئی اہم مقدمات کی سماعت کرنے کے لیے مقرر ججز کمیٹیاں بار بار تبدیل ہوتی رہیں۔

    سپریم کورٹ 2024 کئی حوالوں سے بہت زیادہ اہم رہا۔ انتخابی نشان بلے سے متعلق کیس، ججز کے استعفے، مخصوص نشستوں سے متعلق کیس سمیت مقدمات سماعت کے لیے مقرر کرنے والی ججز کمیٹی میں بار بار تبدیلیاں ہوتی رہیں۔

    سپریم کورٹ میں سال 2024 کا آغاز دو ججز کے اوپر تلے استعفوں سے ہوا۔ مظاہر علی نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی سے بچنے کیلیے 10 جنوری کو استعفی دیا، جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن جنہوں نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی

    ریٹائرمنٹ کے بعد چیف جسٹس بننا تھا انہوں نے بھی 11 جنوری کو عہدہ چھوڑ دیا۔
    2024 میں اس وقت کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں بینچ نے تحریک انصاف انٹرا پارٹی الیکشن کا فیصلہ دیا جس کے نتیجے میں پارٹی کو 8 فروری کا الیکشن بلے کے نشان کے بغیر لڑنا پڑا۔

    اسی برس ارکان اسمبلی تاحیات نا اہلی کیس، پرویز مشرف غداری کیس، نیب ترامیم انٹرا کورٹ اپیل ، ذولفقارعلی بھٹو ریفرنس جیسے اہم مقدمات کے فیصلہ سامنے آئے۔ سپریم کورٹ کے فل کورٹ نے مخصوص نشستوں کا فیصلہ بھی دیا۔

    سال 2024 سپریم کورٹ میں تبدیلی کا سال بھی ثابت ہوا۔ پارلیمنٹ نے 26 آئینی ترمیم کے ذرئعے چیف جسٹس پاکستان کی تعیناتی کا طریقہ کار تبدیل کر دیا۔

    چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 25 اکتوبر کو ریٹائرڈ ہوئے تو پارلیمانی کمیٹی نے 26 آئینی ترمیم کی روشنی میں تین رکنی پینل سے جسٹس یحییٰ آفریدی کو چیف جسٹس پاکستان بنانے کا فیصلہ کیا۔ 26 اکتوبر کو نئے چیف جسٹس نے ایوان صدر میں عہدہ کا حلف اٹھایا۔

    26 ویں آئینی ترمیم کی روشنی میں 6 نومبر کو جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں جسٹس امین الدین خان کو آئینی بینچ کا سربراہ منتخب کیا گیا۔ سپریم کورٹ میں سال 2024 میں زیر التواء مقدمات کی تعداد 58 ہزار تک پہنچ گئی۔

  • سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں کو فیصلہ سنانے کی اجازت دے دی

    سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں کو فیصلہ سنانے کی اجازت دے دی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو 85 ملزمان کےفیصلے سنانے کی اجازت دے دی اور کہا جن ملزمان کو رہا نہیں کیا جا سکتا انہیں سزا سنانے پر جیلوں میں منتقل کیا جائے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے کیس کی سماعت ہوئی ، 7 رکنی آئینی پینچ نے کیس کی سماعت کی، آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں کے سوا دیگر تمام مقدمات کی سماعت مؤخر کر دی، جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آج صرف فوجی عدالتوں والا مقدمہ ہی سنا جائے گا۔

    وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل جاری رکھے ، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پہلے اس پر دلائل دیں کہ آرمی ایکٹ کی کالعدم دفعات آئین کے مطابق ہیں، کیا آرمی ایکٹ میں ترمیم کر کے ہر شخص کو اس زمرے میں لایا جا سکتا ہے؟

    جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ پہلے بتائیں عدالتی فیصلے میں دفعات کالعدم کرنے کی وجوہات کیا ہیں؟ جسٹس جمال مندوخیل نے بھی کہا کہ یہ بھی مدنظر رکھیں آرمی ایکٹ 1973 کے آئین سے پہلے بنا تھا، جس پر وکیل وزارت دفاع کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں خرابیاں ہیں۔

    جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے عدالتی فیصلے کواتنا بے توقیر تو نہ کریں کہ اسے خراب کہیں، تو خواجہ حارث نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ میرے الفاظ قانونی نوعیت کے نہیں تھے۔

    جسٹس محمد علی مظہر کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ کل بھی کہا تھا کہ 9مئی کے واقعات کی تفصیلات فراہم کریں، فی الحال تو ہمارے سامنے معاملہ صرف کور کمانڈر ہاؤس کا ہی ہے، کیس صرف کور کمانڈر ہاؤس تک ہی رکھنا ہے تو یہ بھی بتا دیں۔

    ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ تمام تفصیلات آج صبح ہی موصول ہوئی ہیں، تفصیلات باضابطہ متفرق درخواست کے ذریعے جمع کراؤں گا، جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا جن دفعات کو کالعدم قرار دیا گیا ان کے تحت ٹرائل کیا کیا ہوگا؟ 9 مئی سے پہلے بھی تو کسی کوان دفعات کے تحت سزا ہوئی ہوگی۔

    خواجہ حارث نے بتایا کہ عمومی طور پر کالعدم ہونےسے پہلے متعلقہ دفعات پر فیصلوں کو تحفظ ہوتا ہے، جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ یہ تو ان ملزمان کے ساتھ تعصب برتنے والی بات ہوگی، آرمی میں کوئی شخص زبردستی نہیں اپنی مرضی سے جاتا ہے، آرمی جوائن کرنیوالے کو علم ہوتا ہے کہ اس پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوگا، آرمی ایکٹ کے تحت بنیادی حقوق میسر نہیں ہوتے، آرمی ایکٹ بنایا ہی فوج کی ملازمت کےقواعد اور ڈسپلن کیلئے گیا ہے۔

    وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ بنیادی حقوق جرم کرنے پر ہی ختم ہوتے ہیں تو جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا اپیل میں عدالت صرف اپیل کنندہ کی استدعا تک محدود رہے گی؟ کیا عدالت فیصلے کے دیگر پہلوؤں کا بھی جائزہ لے سکتی ہے؟ جسٹس امین الدین خان نے بھی ریمارکس دیئے فریقین اپنی معروضات تک محدودرہ سکتے ہیں عدالت نہیں۔

    سپریم کورٹ میں ملٹری کورٹس کیس کی سماعت موسم سرما کی چھٹیوں کے بعد تک ملتوی کردی اور 26 ویں ترمیم کا کیس جنوری کےدوسرے ہفتے میں سننے کا عندیہ دے دیا۔

    جسٹس امین الدین نے کہا کہ سویلینز کےفوجی عدالتوں میں ٹرائل کامقدمہ امیدہےجنوری میں مکمل ہو جائے گا، پہلے ہفتے یہ کیس ختم ہوا تو26ویں ترمیم کا کیس جنوری کےدوسرے ہفتے سنیں گے، ہمارے پاس 26 ویں آئینی ترمیم سمیت بہت سے مقدمات پائپ لائن میں ہیں۔

    جسٹس امین الدین خان نے خواجہ حارث سے استفسار کیا آپ مزید کتنا وقت لیں گے تو وکیل نے بتایا کہ ابھی دلائل میں مزید کچھ وقت لگ جائے گا، جس پر جسٹس امین الدین خان کا کہنا تھا کہ موسم سرما کی تعطیلات کے بعد تک کیس ملتوی کردیتے ہیں۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے ملٹری کورٹس کو فیصلہ سنانے کی اجازت دے دی، عدالت نے فوجی عدالتوں کو 85 ملزمان کے فیصلے سنانے کی اجازت دی۔

    سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ جن ملزمان کو رہا نہیں کیا جا سکتا انہیں سزا سنانے پر جیلوں میں منتقل کیا جائے، فوجی عدالتوں کے فیصلے سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمے کے فیصلے سے مشروط ہوں گے۔

    عدالت نے مزید کہا کہ جن ملزمان کو سزاؤں میں رعایت مل سکتی ہے وہ دے کر رہا کیا جائے اور جن ملزمان کو رہا نہیں کیا جا سکتا ، انہیں سزا سنانے پر جیلوں میں منتقل کیا جائے۔

  • پریکٹس پروسیجر آرڈیننس کیخلاف دائر درخواستیں خارج

    پریکٹس پروسیجر آرڈیننس کیخلاف دائر درخواستیں خارج

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے پریکٹس پروسیجرآرڈیننس کیخلاف دائردرخواستیں خارج کردیں ، جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے پریکٹس پروسیجر آرڈیننس ختم ہو چکا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پریکٹس پروسیجرآرڈیننس کیخلاف دائر درخواستوں پر سماعت ہوئی، آئینی بینچ نے پریکٹس پروسیجر آرڈیننس کیخلاف درخواستوں کو مسترد کرنے کا فیصلہ دیا۔

    جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے پریکٹس پروسیجر آرڈیننس ختم ہو چکا ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آرڈیننس کے بعد پریکٹس پروسیجر میں پارلیمنٹ نے قانون سازی کردی۔

    جس پر وکیل درخواست گزار نے استدعا کی آرڈیننس کے تحت کمیٹی کے ایکشن کو کالعدم قرار دیا جائے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ قانون آجائے تو آرڈیننس خود بخود ختم ہو جاتا ہے، آئین صدر پاکستان کو آرڈیننس جاری کرنے کا اختیار دیتا ہے۔

    جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ آرڈیننس کے تحت بنی کمیٹی ختم ہو گئی، کمیٹی کے فیصلوں کو پاس اینڈ کلوز ٹرانزیکشز کاتحفظ ہے۔

    یاد رہے چیئرمین تحریک انصاف بیرسٹرگوہر نےآرڈیننس کوچیلنج کیا تھا جبکہ افراسیاب خٹک ،احتشام الحق اوراکمل باری نےبھی درخواستیں دائر کی تھیں۔