Tag: سپریم کورٹ

  • وفاقی حکومت سے 9 اور 10 مئی کی ایف آئی آرز اور دیگر تفصیلات طلب

    وفاقی حکومت سے 9 اور 10 مئی کی ایف آئی آرز اور دیگر تفصیلات طلب

    اسلام آباد : سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے وفاقی حکومت سے نو اور دس مئی کی ایف آئی آرز اور دیگر تفصیلات طلب کرلیں اور ملٹری کورٹ میں ٹرائل کے رولز بھی مانگ لیے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں ملٹری کورٹس فیصلےکیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت ہوئی، عدالت نے وفاقی حکومت سے9اور 10 مئی کی ایف آئی آرزاوردیگرتفصیلات طلب کرلیں۔

    آئینی بینچ نے ملٹری کورٹ میں ٹرائل کے رولز بھی طلب کرلیے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ملٹری ٹرائل کے رولز کی کاپی بھی دے دیں۔

    جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیئے آرٹیکل 8 میں آرمی قوانین کا ذکر ان کے ڈسپلن کے حوالے سے ہے، چھاؤنی کا تصور سب سے پہلے حضرت عمرؓنے دیا تھا، حضرت عمرؓ نے سخت ڈسپلن کی وجہ سے ہی فوج کو باقی عوام سے الگ رکھا۔

    جسٹس مندوخیل کا مزید کہنا تھا کہ فوج کا ڈسپلن آج بھی قائم ہے اور اللہ اسے قائم ہی رکھے، فوج نے ہی بارڈرز سنبھال کر ملک کا دفاع کرنا ہوتا ہے، فوج کے ڈسپلن میں عام لوگوں کو شامل کیا تو خدانہ خواستہ یہ تباہ نہ ہوجائے۔

    جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیئے فوجی کو قتل کرنے والے کا مقدمہ عام عدالت میں چلتا ہے،فوجی تنصیبات پرحملہ بھی توانسداد دہشتگردی ایکٹ کےتحت ہی جرم ہے۔

    جسٹس مسرت ہلالی کا بھی کہنا تھا کہ ذاتی عنادپر فوجی کاقتل الگ،بلوچستان طرزپرفوج پر حملہ الگ چیزیں ہیں۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ میں ملٹری کورٹس فیصلے کیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پرسماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔

  • سویلیز کا ملٹری ٹرائل: جو شخص آرمڈ فورسز میں نہیں وہ اس کے ڈسپلن کے نیچے کیسے آسکتا ہے؟جسٹس مندوخیل نے سوال اٹھادیا

    سویلیز کا ملٹری ٹرائل: جو شخص آرمڈ فورسز میں نہیں وہ اس کے ڈسپلن کے نیچے کیسے آسکتا ہے؟جسٹس مندوخیل نے سوال اٹھادیا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں ملٹری کورٹس فیصلے کیخلاف اپیلوں پر سماعت میں جسٹس مندوخیل نے سوال کیا کیا جو شخص آرمڈ فورسز میں نہیں وہ اس کے ڈسپلن کے نیچے کیسے آسکتا ہے؟

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں ملٹری کورٹس فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔

    جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ملٹری کورٹس کے زیرحراست افرادکی ایف آئی آرکی نقول نہیں دی گئی، وفاقی حکومت کے وکیل خواجہ حارث دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملٹری کورٹس کیس میں عدالتی فیصلہ دو حصوں پر مشتمل ہے، ایک حصے میں آرمی ایکٹ دفعات کو کالعدم قرار دیا گیا ہے، دوسرے حصے میں ملزمان کی ملٹری کورٹ میں کسٹڈی ہے۔

    جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیئے ملٹری کورٹس کا پورا کیس آرٹیکل 8 کے گرد گھومتا ہے، جسٹس محمدعلی مظہر نے استفسار کیا کیا 5 رکنی بینچ نے آرمی ایکٹ دفعات کو آرٹیکل 8 سے متصادم قرار دیا، آرمی ایکٹ کی دفعات کو آرٹیکل 8 سے متصادم ہونے کا کیا جواز دیا گیا۔

    جسٹس مندوخیل نے سوال کیا جو شخص آرمڈفورسز میں نہیں وہ اس کے ڈسپلن کے نیچے کیسے آسکتا ہے؟ جس پر وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ اگر قانون اجازت دیتا ہے تو ڈسپلن کا اطلاق ہوگا۔

    جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیے ایک شخص آرمی میں ہے، اس پر ملٹری ڈسپلن کا اطلاق ہوگا، کوئی محکمہ زراعت میں ہے اس پر محکمہ زراعت کے ڈسپلن کا اطلاق ہوگا، کوئی شخص کسی محکمے میں ہیں نہیں اس پر آرمڈ فورسز کے ڈسپلن کا اطلاق کیسے ہوگا، کیا غیر متعلقہ شخص کو ڈسپلن کے نیچے لانا آرٹیکل 8 کی خلاف ورزی نہیں ہوگی۔

    خواجہ حارث نے بتایا کہ مخصوص حالات میں سویلین پر بھی آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے، سپریم کورٹ کے اس نقطہ پر کوئی عدالتی فیصلہ موجود ہے، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے ایف بی علی اور شیخ ریاض علی کیس میں یہی قرار دیا گیا،4 ججز نے فیصلے میں آرمی ایکٹ دفعات کو کالعدم کیا۔

    وکیل کا کہنا تھا کہ عدالت کےپاس آرمی ایکٹ دفعات کو کالعدم کرنے کا اختیار نہیں تو جسٹس مندوخیل نے کہا کہ اس طرح تو کوئی اکسانے کا سوچے اس پر بھی آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوگا، کیا آرمی ایکٹ نےآرٹیکل 8 کے سیکشنز غیر موثر نہیں کر دیے، کیا سویلین پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہو سکتا ہے۔؟

    خواجہ حارث نے کہا کہ ملٹری ٹرائل میں بھی فیئر ٹرائل کے آرٹیکل 10 اےموجود ہوتا ہے، جس پر جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ملٹری کورٹ فیصلے کیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں کویہاں سنا جا رہا ہے، عدالتی فیصلے میں سب سے پہلے نقائص کی نشاندہی کریں۔

    جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیئے آئینی بینچ انٹرا کورٹ اپیلوں میں بھی آئینی نقطہ کا جائزہ لے سکتا ہے جبکہ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ برادر جج کی آبزرویش سے میرا اختلاف نہیں، فیصلے میں نقائص کی نشاندہی بھی ضروری ہے۔

    جسٹس مندوخیل کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ پاکستان میں سب سے بڑا عہدہ صدر پاکستان کا ہے، اگر صدر ہاؤس پر حملہ ہو ملزم کا ٹرائل اے ٹی سی میں ہوگا، اگر آرمی املاک پر حملہ ہو تو ٹرائل ملٹری کورٹ میں ، جس پر وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ یہ فیصلہ قانون سازوں نے قانون سازی سے کیا ہے۔

    جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا ملٹری کورٹ ٹرائل میں وکیل کی اجازت ہوتی ہے، کیا ملٹری کورٹ میں ملزم کو تمام مواد فراہم کیا جاتا ہے ؟ تو حکومتی وکیل نے بتایا کہ ملٹری کورٹ میں ملزم کو وکیل اورتمام متعلقہ مواد فراہم کیا جاتا ہے۔

    جسٹس مندوخیل نے سوال کیا اگر ایک فوجی اپنے افسر کا قتل کر دے تو کیس کہاں چلے گا؟ وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ قتل کا کیس عام عدالت میں چلے گا, جس پر جسٹس مندوخیل نے سوال کیا جوشخص آرمی ایکٹ کا سبجیکٹ نہیں اسکو بنیادی حقوق سے کیسے محروم کیا جا سکتا۔

    عدالت نے ملٹری کورٹس سے متعلق انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی کردی۔

  • فون ٹپینگ کا 28 سال پرانا کیس سپریم کورٹ میں آج سنا جائے گا

    فون ٹپینگ کا 28 سال پرانا کیس سپریم کورٹ میں آج سنا جائے گا

    اسلام آباد : فون ٹپینگ کا 28 سال پرانا کیس سپریم کورٹ میں آج سنا جائے گا، فون ٹیپنگ کیلئے ڈیوائسز کی تنصیب کیخلاف 1996 سے مقدمہ زیر التوا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں آج اہم مقدمات کی سماعت ہوگی، جس میں فون ٹپینگ کا28سال پرانا کیس آج سناجائے گا۔

    جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بنچ درخواست کی سماعت کرے گا، فون ٹیپنگ کیلئے ڈیوائسز کی تنصیب کیخلاف 1996 سے مقدمہ زیر التوا تھا۔

    دوسری جانب 8 فروری کے عام انتخابات میں دھاندلی کیخلاف بانی پی ٹی آئی کی درخواست پر بھی سماعت آج ہوگی .انتحابات میں دھاندلی کیخلاف کیس میں الیکشن کمیشن کیخلاف کاروائی کی بھی استدعا کی گئی ہے۔

    جسٹس امین الدین کی سربراہی میں7رکنی آئینی بینچ کیس کی سماعت کرے گا۔

    گذشتہ روز بھی سپریم کورٹ میں اہم مقدمات کی سماعت ہوئی تھی، 9 مئی کے واقعات پر جوڈیشل کمیشن کیلئے بانی پی ٹی آئی کی درخواست سماعت کیلئے مقرر کرنے کا حکم دیا تھا۔

    اس کے علاوہ فوجی عدالتوں میں سویلینزکے ٹرائل کے کیس میں سپریم کورٹ نے زیرحراست افراد کو عام جیلوں میں منتقل کرنے کی لطیف کھوسہ کی استدعا مستردکردی۔

  • فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل : زیرِ حراست افراد کو عام جیلوں میں منتقل کرنے کی استدعا مسترد

    فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل : زیرِ حراست افراد کو عام جیلوں میں منتقل کرنے کی استدعا مسترد

    اسلام آباد : سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل کے کیس میں زیرِ حراست افراد کو عام جیلوں میں منتقل کرنے کی لطیف کھوسہ کی استدعا مسترد کردی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلیئنز کے ٹرائل کے کیس کی سماعت ہوئی ، جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

    دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث بیمار ہیں، خواجہ حارث کےمعدےمیں تکلیف ہےاس لئے پیش نہیں ہوسکتے۔

    مزید پڑھیں : فوجی عدالتوں کو مقدمات کا فیصلہ سنانے کی اجازت دینے کی حکومتی استدعا مسترد

    عدالت نے زیرِ حراست افراد کو عام جیلوں میں منتقل کرنے کی لطیف کھوسہ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ملاقات کےحوالےسےاٹارنی جنرل یقین دہانی کروا چکےہیں، مقدمہ سن رہے ہیں فی الحال کسی اور طرف نہ جائیں۔

    سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلیئنز کے ٹرائل کے کیس کی سماعت جمعرات تک ملتوی کر دی

  • فوجی عدالتوں کو مقدمات کا فیصلہ سنانے کی اجازت دینے کی حکومتی استدعا مسترد

    فوجی عدالتوں کو مقدمات کا فیصلہ سنانے کی اجازت دینے کی حکومتی استدعا مسترد

    اسلام آباد: سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں کو مقدمات کا فیصلہ سنانے کی اجازت دینے کی حکومتی استدعا مسترد کردی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل کیس کی سماعت ہوئی ، 7 رکنی آئینی بینچ نے درخواست پر سماعت کی۔

    وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ سویلینزکی دو کیٹیگریز کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہوسکتا ہے، وہ سویلینز جو افواج میں ملازمت کر رہے ہیں، ان کا ٹرائل فوجی عدالت میں ہوسکتا ہے، فوجی تنصیبات پر حملہ کرنیوالوں، افواج کو ڈیوٹی سے روکنے والوں کا بھی فوجی عدالت میں ٹرائل ہوگا۔

    جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کیا کور کمانڈر کا گھر بھی فوجی تنصیبات میں آتا ہے؟ کیا کور کمانڈرز اپنے گھر کا دفتری استعمال کرسکتے ہیں؟

    وزارت دفاع کے وکیل نے کہا فوجی افسران کے گھروں میں حساس دستاویزات ہوتی ہیں، گھر کو دفتر ڈکلیئر کرکے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے فوجی اہلکاروں کو کام سے روکنے کا جرم تو تعزیرات پاکستان میں ہے، تعزیرات پاکستان کے تحت فوج کو کام سے روکنے والوں کا ٹرائل عام عدالتوں میں ہوگا۔

    جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا اے پی ایس پر حملہ کرنے والوں کا ٹرائل کیسے چلا تھا؟ تو وکیل نے بتایا اکیس ویں ترمیم ہوئی تھی جس کے بعد ٹرائل ہوا تھا۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے کہا اُس وقت سویلین کیخلاف فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیلئے آئین میں ترمیم کی گئی تھی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ فوجی عدالتوں میں ٹرائل مکمل ہوچکے ہیں ، عدالتوں کو ٹرائل کے فیصلے سنانے کی اجازت دی جائے۔

    سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں کو مقدمات کا فیصلہ سنانے کی اجازت دینے کی حکومتی استدعا مسترد کردی اور فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کا کیس کل تک ملتوی کردیا۔

  • سپریم کورٹ میں فون ٹپینگ کا 28 سال پرانا مقدمہ سماعت کیلئے مقرر

    سپریم کورٹ میں فون ٹپینگ کا 28 سال پرانا مقدمہ سماعت کیلئے مقرر

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے فون ٹپینگ کا 28 سال پرانا مقدمہ سماعت کیلئے مقرر کردیا گیا ، فون ٹیپنگ کیلئے ڈیوائسز کی تنصیب کیخلاف 1996 سے مقدمہ زیر التوا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فون ٹپینگ کا 28 سال پرانا مقدمہ سماعت کیلئے مقرر کردیا گیا، جسٹس امین الدین کی سربراہی میں7رکنی آئینی بینچ 11 دسمبرکو سماعت کرے گا۔

    فون ٹیپنگ کیلئے ڈیوائسزکی تنصیب کیخلاف 1996 سے مقدمہ زیر التو تھا۔

    اس کے علاوہ 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی سے متعلق عمران خان کی درخواست کی سماعت 11 دسمبر کو ہو گی۔

    چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی تقرری کے خلاف درخواست کی سماعت 11 دسمبر کو ہوگی، شہری محمود اختر نقوی کی جانب سے دائر کی گئی ہے جبکہ پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس کے خلاف درخواستوں کی سماعت 12 دسمبر کو ہونے والی ہے۔

  • سپریم کورٹ میں صحافی ارشد شریف قتل ازخود نوٹس کیس سماعت کے لیے مقرر

    سپریم کورٹ میں صحافی ارشد شریف قتل ازخود نوٹس کیس سماعت کے لیے مقرر

    سپریم کورٹ نے صحافی ارشد شریف قتل ازخود نوٹس کیس سماعت کے لیے مقرر کردیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق جسٹس امین الدین خان نے ازخود نوٹس کی سماعت کے لیے 7 رکنی آئینی بینچ تشکیل دے دیا، بینچ 9 دسمبر کو ارشد شریف ازخود نوٹس کی سماعت کرے گا۔

    جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم افغان، جسٹس شاہد بلال  بینچ میں شامل ہیں۔

    علاوہ ازیں سپریم کورٹ میں مٹھی اسپتال سندھ میں بچوں کی اموات کا کیس بھی سماعت کے لیے مقرر کیا گیا ہے، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بینچ 9 دسمبر کو سماعت کرے گا۔

    پاکستانی صحافی  ارشد شریف کو اکتوبر 2022 میں کینیا میں پولیس نے فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔

  • سپریم کورٹ کا تلور کے  شکار کیخلاف کیس کی سماعت کرنے والا آئینی بینچ ٹوٹ گیا

    سپریم کورٹ کا تلور کے شکار کیخلاف کیس کی سماعت کرنے والا آئینی بینچ ٹوٹ گیا

    اسلام آباد : جسٹس جمال مندوخیل نے تلور کے شکار کیخلاف کیس کی سماعت کرنے سے معذرت کرلی اور کہا نایاب پرندے کے شکار اور آئیبیکس ٹرافی ہنٹنگ میں فرق ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کا تلور کے شکار کیخلاف کیس کی سماعت کرنے والا آئینی بینچ ٹوٹ گیا ، جسٹس جمال مندوخیل کی کیس کی سماعت سے معذرت کرلی۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے بلوچستان ہائیکورٹ میں نایاب پرندے کے شکار کیخلاف کیس سن چکا ہوں، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا کہ نایاب پرندے کے  شکار کا تصور مارخور کے آفیشل شکار ککی طرح ہے تاہم مارخور کے شکار کو ٹرافی ہنٹنگ کانام دیا گیا۔

    جس پر جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ پرندے کے شکار اور آئیبیکس ٹرافی ہنٹنگ میں فرق ہے تاہم جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے یہ تلور تو ہجرت کرنے والے پرندے ہوتے ہیں۔

    خیال رہے 19 اگست 2015 کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے پرندے  کے شکار پر پابندی عائد کی تھی جبکہ 23 نومبر 2015ء کو حکومت نے  پابندی کی تجویز کو ناقابلِ عمل قرار دیا اور کہا تھ کہ اس پابندی سے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات متاثر ہوں گے۔

    بعد ازاں جنوری 2016 میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے تلور کے شکار پر عائد پابندی ختم کر دی تھی، وفاق کی جانب سے یہ موقف اپنایا گیا تھا کہ تلور کا شکار ملکی خارجہ پالیسی کا حصہ ہے جسے قبول کر لیا گیا۔

    یاد رہے بلوچستان میں تلور اور دیگر نایاب پرندوں اور جانوروں کے شکار پر پابندی عائد کردی تھی اور افسران واہلکاروں پر جنگلی حیات کا تحفظ لازم قرار دیا تھا۔

  • سپریم کورٹ کے پہلے آئینی بینچ نے سماعت کا آغاز کر دیا

    سپریم کورٹ کے پہلے آئینی بینچ نے سماعت کا آغاز کر دیا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ کے پہلے آئینی بینچ نے سماعت کا آغاز کر دیا، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں بینچ اٹھارہ مقدمات سنے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے پہلے 6 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کا آغاز کر دیا، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں بینچ اٹھارہ مقدمات سنے گا۔

    جسٹس جمال مندوخیل،جسٹس محمد علی مظہر ، جسٹس حسن اظہررضوی،جسٹس نعیم اختر افغان اورجسٹس مسرت ہلالی آئینی بینچ میں شامل ہیں۔

    پی ڈی ایم حکومت میں ہونے والی قانون سازی کالعدم قرار دینے اور ملک کا لوٹا گیا پیسہ دیگر ملکوں سے واپس لانے کےلیے درخواست سماعت کےلیے مقرر ہے۔

    اس کے علاوہ بیرون ملک کاروبار اور اثاثے رکھنے والے ارکان اسمبلی کی نااہلی ، سرکاری افسران کی غیرملکیوں سےشادی پر پابندی کےلیےدائر درخواست کی سماعت بھی آج ہوگی۔

    دفاتر میں خواتین کو ہراساں کرنے سےمتعلق مقدمات بھی آج سماعت کے لیے مقرر کیے گئے ہیں جبکہ پی ڈی ایم حکومت میں ہونے والی قانون سازی کالعدم قرار دینے کی درخواست پر بھی سماعت ہوگی۔

    اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے ماحولیاتی آلودگی سے متعلق مقدمات سماعت کیلئے مقرر کر دیے ہیں، ماحولیاتی آلودگی سے متعلق مقدمات 1993، 2003 اور 2018 کے ہیں۔

    سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ تعیناتی کے معاملے پر سپریم کورٹ نے ریاض حنیف راہی کی نظرثانی درخواست بھی سماعت ہوگی، سابق چیف جسٹس ثاقب نثارکی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے تعیناتی کے خلاف درخواست خارج کی تھی۔

  • سپریم کورٹ میں ٹیکس کیس کی سماعت کے دوران ایک بار پھر آئینی بینچوں کا تذکرہ چھڑگیا

    سپریم کورٹ میں ٹیکس کیس کی سماعت کے دوران ایک بار پھر آئینی بینچوں کا تذکرہ چھڑگیا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں ٹیکس سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ایک بار پھر آئینی بینچ کا تذکرہ چھڑ گیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں ٹیکس سےمتعلق کیس کی سماعت ہوئی ، جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

    ٹیکس سےمتعلق کیس کی سماعت کےدوران آئینی بینچ کا تذکرہ آیا، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ یہ کیس آئینی بینچ سنے گا ہم ریگولر بینچ سن رہےہیں۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے اس وقت آئینی بینچ نہیں تو یہ جو غیر آئینی بینچ بیٹھا ہےاس کا کیا کرنا ہے، جب تک آئینی بینچ نہیں بیٹھے گا کیا ہم غیر آئینی ہیں؟ مطلب جب تک آئینی بینچ نہیں بیٹھتا آئینی مقدمات نہیں سنے جائیں گے۔

    جسٹس منصور کا کہنا تھا کہ ہم اس کیس کو سن بھی لیں تو کوئی ہمیں پوچھ نہیں سکتا، اب بار بار یہ سوال سامنے آرہا ہے کیس ریگولر بینچ سنے گا یا آئینی بینچ۔

    سپریم کورٹ کے جج نے سوال کیا اگر ہم کیس کا فیصلہ کر بھی کر دیتے ہیں تو کیا ہوگا؟ چلیں ہم خود فیصلہ کر دیتے ہیں توہمیں کون روکنے والا ہے؟ نظر ثانی بھی ہمارے پاس آئےگی تو ہم کہہ دیں گےہمارا دائرہ اختیار ہے، آئینی مقدمات ریگولر بینچ نہیں سن سکتا وکلا کی طرف سے بھی معاونت نہیں آرہی۔

    جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس میں کہا کہ ابھی ہم یہ کیس سن سکتے ہیں یا نہیں، جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ تھوڑا وقت دیں تو دیکھتے ہیں کیا ہوتاہے۔

    جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آرٹیکل 2 اے کے مطابق پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی فیصلہ کرے گی ،ابھی وقت لگے گا، پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی فیصلہ کرے گی کہ یہ کیس آئینی بینچ سنے گا یا ریگولر۔

    جسٹس منصورعلی شاہ نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیئے ہم آپ کی گزارش پرکوئی نقطہ نظر نہیں دے سکتے اسے ملتوی کر دیتے ہیں، ہم صرف گپ شپ لگا رہے ہیں۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔