Tag: سپریم کورٹ

  • سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ ، سرکاری ملازمین کے لیے اہم خبر آگئی

    سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ ، سرکاری ملازمین کے لیے اہم خبر آگئی

    اسلام آباد: سرکاری ملازمین کے حوالے سے سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ سامنے آگیا، پالیسیز اور پیکجز پر کوٹہ غیرآئینی قرار دے دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق سرکاری ملازمین کے بچوں کے کوٹہ سے متعلق سپریم کورٹ نے فیصلہ جاری کردیا۔

    سپریم کورٹ کا11 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس نعیم اختر افغان نے تحریر کیا، جس میں سرکاری ملازمین کے بچوں سے متعلق پالیسیز اور پیکجزپرکوٹہ غیرآئینی قرار دے دیا گیا۔

    سپریم کورٹ نےجی پی اوکی اپیل منظورکرکےپشاورہائیکورٹ کا2021 کا فیصلہ اور کوٹہ سے متعلق پرائم منسٹر پیکج فار ایمپلائمنٹ پالیسی اور اس کا آفس مینوریڈم کالعدم قرار دے دیا۔

    عدالت نے کوٹہ سے متعلق پرائم منسٹر پیکج فار ایمپلائمنٹ پالیسی اور اس کا آفس مینوریڈم ، سندھ سول سرونٹس رولز 1974 کے سیکشن 11 اے بھی کالعدم قرار دیا۔

    فیصلے میں خیبرپختونخوا سرول سرونٹس رولز 1989 کا سیکشن 10 زیلی شق 4 اور سپریم کورٹ نے بلوچستان سرول سرونٹس رول 2009 کی شق 12 بھی کالعدم قرار دے دی گئی۔

    سپریم کورٹ نے کہا کہ بغیراشتہار یا اوپن میرٹ بیوہ یا بچے کا کوٹہ آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ کوٹہ آرٹیکل 4،3، آرٹیکل 5 ذیلی شق 2 اور آرٹیکل 25 اور 27 سے متصادم ہے۔

    Currency Rates in Pakistan Today- پاکستان میں آج ڈالر کی قیمت 

    عدالت کا کہنا تھا کہ وفاق ،صوبائی حکومتیں بغیراشتہاریا اوپن میرٹ ملازمتوں کی پالیسی ختم کریں تاہم فیصلے کا اطلاق پہلے سے سرکاری ملازمین کے بچوں کو ملنے والے کوٹے پر نہیں ہوگا۔

    سپریم کورٹ کے مطابق فیصلے کا اطلاق دہشت گردی کے واقعات میں شہید افراد کے قانونی ورثا اور شہدا کے ورثا کو ملنے والے پیکجز اور پالیسیز پر نہیں ہوگا۔

    فیصلے میں کہا گیا کہ وزیراعظم کو بھی کوٹے سے متعلق رولز نرم کرنے کا اختیار نہیں ہے، اچھی طرز حکمرانی کا حصول غیر مساوی سلوک اپنا کر حاصل نہیں کیا جا سکتا، کوٹے پر ملازمتوں کا حصول میرٹ کے برخلاف ہونے کیساتھ امتیازی سلوک بھی ہے۔

    خیال رہے محمدجلال نامی شہری نےدرجہ چہارم کی ملازمت کے حصول کیلئے عدالت سے رجوع کیا تھا ، پشاور ہائیکورٹ نے محمد جلال کو کنٹریکٹ پر ملازمت کی ہدایت دی تھی ، بعد ازاں پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف جی پی او نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔

  • ڈیمز فنڈ میں موجود رقم حکومت کے پبلک اکاؤنٹ میں منتقل کرنے کا حکم

    ڈیمز فنڈ میں موجود رقم حکومت کے پبلک اکاؤنٹ میں منتقل کرنے کا حکم

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے ڈیمز فنڈ میں موجود رقم حکومت کے پبلک اکاؤنٹ میں منتقل کرنے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے دیامربھاشا مہمند ڈیمز فنڈ کیس کی 9 اکتوبر کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا۔

    جس میں سپریم کورٹ ڈیمز فنڈ میں موجود رقم حکومت کے پبلک اکاؤنٹ میں منتقلی کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا گیا کہ ڈیمز فنڈزکی رقم وفاقی حکومت کے پبلک اکاؤنٹ میں منتقل کی جائے۔

    سپریم کورٹ نے فنڈ کیلئے قائم اپنا ہی اکاؤنٹ بند کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ فنڈ کی منتقلی کیلئے حکومت کے پبلک اکاؤنٹ کا ذیلی اکائونٹ کھولا جائے، حکومت ایسے اقدامات کرے کہ نجی بینکوں س فنڈ کی رقم پر مارک اپ لیا جاسکے۔

    حکم نامے میں کہنا تھا کہ ڈیمز کی تعمیر کیلئے جب بھی رقم درکار ہو متعلقہ اکاؤنٹ سے استعمال کی جا سکتی ہے، کیس میں دائر تمام درخواستیں نمٹائی جاتی ہیں۔

  • سپریم کورٹ نے مجوزہ  آئینی ترامیم کیخلاف درخواست خارج کردی

    سپریم کورٹ نے مجوزہ آئینی ترامیم کیخلاف درخواست خارج کردی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے مجوزہ 26 ویں آئینی ترامیم کیخلاف درخواست واپس لینے کی بنیاد پرخارج کردی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں مجوزہ آئینی ترمیم کیخلاف درخواست پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی، بینچ میں جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن بھی شامل ہیں۔

    درخواست گزاران کی جانب سے حامد خان پیش ہوئے اور مجوزہ آئینی ترامیم کے خلاف دائردرخواست واپس لینے کی استدعا کی، جس پر چیف جسٹس نے حامد خان سے مکالمے میں کہا کہ کیا آپ کو صرف درخواست واپس لینے کیلئے وکیل کیا گیا، عابد زبیری خود بھی درخواست واپس لے سکتے تھے،
    اعتراضات کیساتھ دوسری درخواست بھی مقررہے۔

    وکیل حامد خان نے بتایا کہ ہم دونوں درخواستیں واپس لیتے ہیں، چیف جسٹس نے حامد خان سے مکالمے میں کہا آپ کی خدمات صرف درخواست واپس لینے کیلئے لی گئی، درخواست چھ وکلاء نے دائرکی تھی، وہ خود بھی کہہ سکتے تھے واپس لینا چاہتے ہیں، حامد خان صاحب مجھے یقین ہےآپ کی خدمات باضابطہ طور پرلی گئی ہوں گی۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ صرف اعتراضات کیخلاف اپیل واپس لے رہے ہیں یا اصل درخواست بھی؟ وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ درخواست اوراعتراضات کیخلاف اپیل دونوں واپس لے رہے ہیں۔

    جس پر سپریم کورٹ نے مجوزہ آئینی ترامیم کیخلاف درخواست واپس لینے کی بنیاد پرخارج کردی۔

    دورانِ سماعت چیف جسٹس نےعابد زبیری سے بھی مکالمے میں کہا آپ کی ایک اوردرخواست بھی تھی، میں نےبطورچیف جسٹس اس درخواست کوسماعت کیلئے مقررنہیں کیا، ہوسکتا ہےاب وہ درخواست بعد میں لگے، حامد خان نے جواب دیا آپ کی بڑی مہربانی ہے

  • مونال ریسٹورنٹ گرانے کے سپریم کورٹ فیصلے پر اسٹے آرڈر دینے والے سینئر سول جج معطل

    مونال ریسٹورنٹ گرانے کے سپریم کورٹ فیصلے پر اسٹے آرڈر دینے والے سینئر سول جج معطل

    اسلام آباد : سپریم کورٹ کے مونال ریسٹورنٹ گرانے کے فیصلے پر سٹے آرڈر دینے والے سینئر سول جج کو معطل کردیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے مونال ریسٹورنٹ گرانے کا فیصلہ دیا تاہم عدالت کے فیصلے پر اسٹے دینے والے سینئر سول جج کو معطل کردیا گیا۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے جج انعام اللہ کو معطل کرکے او ایس ڈی بنادیا، چیف جسٹس عامر فاروق نے جج انعام اللہ کی معطلی کے احکامات جاری کردیے۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے انکوائری کا حکم دیتے ہوئے سینئر سول جج انعام اللہ کو فوری ہائیکورٹ رپورٹ کرنے کا حکم بھی دیا۔

    سینئرسول جج انعام اللہ کےانکوائری افسرسیشن جج کامران بشارت مفتی ہوں گے۔

    یاد رہے سپریم کورٹ نے مونال سمیت دیگر ریسٹورنٹس ہٹانے کا فیصلہ رقرار رکھتے ہوئے نظرثانی درخواستیں خارج کردیں تھیں۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ مونال ریسٹورنٹ،لامونتانہ و دیگرریسٹورنٹس نے رضاکارانہ 3 ماہ میں ریسٹورنٹس ختم کرنے کی یقین دہانی کرائی، عدالت میں یقین دہانی کے باوجود نظرثانی دائر کرنا عدالت کیساتھ مذاق ہے۔

  • آئینی ترامیم کیخلاف کیخلاف سپریم کورٹ میں نئی درخواست دائر

    آئینی ترامیم کیخلاف کیخلاف سپریم کورٹ میں نئی درخواست دائر

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں آئینی ترامیم کیخلاف نئی درخواست دائر کردی گئی ، جس میں استدعا کی گئی کہ ایگزیکٹو کو عدلیہ سے متعلق آئینی ترمیم سے روکا جائے۔

    تفصیلات کے مطابق آئینی ترامیم کیخلاف نئی درخواست دائر کردی گئی ، درخواست ایڈووکیٹ صائم چوہدری کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی۔

    درخواست میں کہا گیا کہ ججزکی ریٹائرمنٹ کی عمر سےمتعلق آرٹیکل 179کوبنیادی آئینی ڈھانچہ قراردیاجائے ، قراردیاجائےحکومت عدلیہ کی آزادی اورغیر جانبداری میں مداخلت نہیں کرسکتی۔

    درخواست میں آئینی ترامیم کوبنیادی حقوق ،آئین ،عدلیہ کی آزادی کےمنافی ہونے پرکالعدم قراردینےکی استدعا کرتے ہوئے کہا گیا کہ ایگزیکٹو کو عدلیہ سے متعلق آئینی ترمیم سے روکا جائے۔

    درخواست میں وفاقی حکومت، اسپیکر ،چیئرمین سینٹ اوروزارت قانون کو فریق بنایا گیا ہے۔

    یاد رہے حکمران اتحاد نے آئینی ترامیم بل پر جمیعت علما اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو منانے سے ناکامی پر آئینی ترامیم کا بل دس سے بارہ دن کے لیے موخر کردیا تھا۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ آئینی ترمیم کا بل 10سے 12روز بعدقومی اسمبلی میں پیش ہوگا، حکومتی ذرائع نے بتایا تھا کہ آئینی بل پی ٹی آئی اراکین کے ووٹ کے بغیر پاس کرائیں گے، بل کافی عرصے سے زیر بحث تھا لیکن مولانا فضل الرحمان نےیو ٹرن لیا۔

  • الیکشن ٹریبونلز کی تشکیل،   لاہور ہائیکورٹ  کا فیصلہ کالعدم قرار

    الیکشن ٹریبونلز کی تشکیل، لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار

    اسلام آباد : الیکشن ٹریبونلز کی تشکیل کا لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا گیا، سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے متفقہ فیصلہ جاری کیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے الیکشن ٹریبونلز کیس کا محفوظ فیصلہ سنادیا، چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےفیصلہ سنایا۔

    سپریم کورٹ نے ٹریبونلزتشکیل کالاہورہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور الیکشن کمیشن کی اپیل منظور کرلی۔

    فیصلے میں لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بینچ کا 12 جون 2024 کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا لاہور ہائیکورٹ سنگل بینچ کا فیصلہ بطور عدالتی نظیر بھی پیش نہیں کیا جا سکتا۔

    سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے متفقہ فیصلہ جاری کیا ، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس عقیل عباسی کا اضافی نوٹ بھی فیصلے کا حصہ ہیں، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس عقیل عباسی نےفیصلے سےاتفاق کرتے ہوئےاضافی نوٹ لکھا۔

    فیصلے میں کہا گیا کہ ہائیکورٹ کےجج نے چیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس کی ملاقات نہ ہونامدنظر نہیں رکھا، اگر ملاقات نہ ہونا مدنظر رکھتے تو ایسا فیصلہ نہ کیا جاتا، تنازع جب آئینی ادارے سےمتعلق ہو تو محتاط رویہ اپناناچاہیے۔

    یاد رہے 24 ستمبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیصلہ محفوظ کیا تھا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے تھے کہ آج مختصر فیصلہ جاری نہیں ہو سکے گا، الیکشن کمیشن ٹریبونلز کے نوٹیفکیشن کا آغاز آج سے شروع کردے۔

    دوران سماعت وکیل سلمان اکرم راجہ نے الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل کے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف کیس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر اعتراض کیا تھا۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ ٹریبونلز کی تعداد کا انحصار کیسز پر ہے، کیسز کو دیکھتے ہوئے ججز کی تعداد پر فیصلہ کریں، اگر ججز کی تعداد کیسز کو دیکھتے ہوئے کم ہوئی تو غیر منصفانہ ہوگا، مجھے نہیں معلوم بلوچستان یا پنجاب میں کتنے کیسز زیر التوا ہیں۔

  • سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے نظرثانی کیس کی سماعت آج ہوگی

    سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے نظرثانی کیس کی سماعت آج ہوگی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ آج آرٹیکل 63 اے نظرثانی کیس کی سماعت کرے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں آرٹیکل تریسٹھ اے نظرثانی کیس کی سماعت آج ہوگی، چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ آج کیس کی سماعت کرے گا۔

    بنچ میں جسٹس منیب اختر،جسٹس امین الدین خان،جسٹس جمال مندوخیل،جسٹس مظہرعالم میاں خیل شامل ہیں۔

    یاد رہے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا اجلاس ہوا تھا ، جس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین نے شرکت کی جبکہ جسٹس منصور علی شاہ ججز کمیٹی اجلاس میں شرکت کیے بغیر چلے گئے تھے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ نے ترمیمی آرڈیننس پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

    آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا اکثریتی فیصلہ جسٹس منیب اختر نے تحریر کیا تھا، جس کے مطابق پارٹی پالیسی کے خلاف رکن اسمبلی کا ووٹ شمار نہیں ہوگا، وہ نااہل بھی ہوجائے گا۔

    واضح رہے 17 مئی 2022 کو سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر فیصلے میں کہا تھا کہ منحرف رکن اسمبلی کا پارٹی پالیسی کے برخلاف دیا گیا ووٹ شمار نہیں ہوگا، جبکہ تاحیات نااہلی یا نااہلی کی مدت کا تعین پارلیمان کرے۔

    اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کی تھی اور فیصلہ 2 کے مقابلے میں 3 کی برتری سے سنایا گیا تھا۔

    آئین کا آرٹیکل 63 اے کیا ہے؟

    آئین کے آرٹیکل 63 اے کے مطابق کسی رکن پارلیمنٹ کو انحراف کی بنیاد پر نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔

    وہ اس صورت میں کہ اگر رکن پارلیمان وزیراعظم یا وزیر اعلیٰ کے انتخابات کے لیے اپنی پارلیمانی پارٹی کی طرف سے جاری کردہ کسی بھی ہدایت کے خلاف ووٹ دیتا ہے یا عدم اعتماد کا ووٹ نہیں دیتا تو اس سے نااہل قرار دیا جاسکتا ہے۔

    آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ اس سلسلے میں پارٹی سربراہ کو تحریری طور پر اعلان کرنا ہوگا کہ متعلقہ رکن اسمبلی منحرف ہوگیا ہے تاہم ریفرنس دائر کرنے سے پہلے پارٹی سربراہ ’منحرف رکن کو وضاحت دینے کا موقع فراہم کرے گا۔‘

    اگر پارٹی کا سربراہ وضاحت سے مطمئن نہیں ہوتا تو پھر پارٹی سربراہ اعلامیہ سپیکر کو بھیجے گا اور سپیکر وہ اعلامیہ چیف الیکشن کمشنر کو بھیجے گا، ریفرنس موصول ہونے کے 30 دن میں الیکشن کمیشن کو اس ریفرنس پر فیصلہ دینا ہوگا۔

    آرٹیکل کے مطابق اگر چیف الیکشن کمشنر کی طرف سے ریفرنس کے حق میں فیصلہ آجاتا ہے تو مذکورہ رکن ’ایوان کا حصہ نہیں رہے گا اور اس کی نشست خالی ہو جائے گی۔

  • مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے 8  ججوں کے وضاحتی فیصلے کو چیلنج کردیا گیا

    مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے 8 ججوں کے وضاحتی فیصلے کو چیلنج کردیا گیا

    اسلام آباد :مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے 8 ججوں کے وضاحتی فیصلے کو چیلنج کردیا گیا ، جس میں استدعا کی وضاحت پر نظرثانی کی جائے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کی مخصوص نشستوں پر 14 ستمبرکی وضاحت پر نظرثانی درخواست کردی گئی ، اکثریتی ججز کی وضاحت پر الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں نظرثانی درخواست دائر کی۔

    درخواست میں کہا گیا کہ عدالتی فیصلے پر تاخیر کا ذمہ دار الیکشن کمیشن نہیں، 12 جولائی فیصلے کی وضاحت 25 جولائی کو دائر کی، سپریم کورٹ نے14ستمبرکووضاحت کاآرڈرجاری کیا۔

    درخواست میں کہنا تھا کہ عدالت نے تحریک انصاف کو جواب کیلئے کب نوٹس جاری کیا؟ پی ٹی آئی کی دستاویزپرعدالت نےالیکشن کمیشن کونوٹس جاری نہیں کیا، عدالت نے پی ٹی آئی دستاویز پر الیکشن کمیشن سےجواب طلب نہیں کیا۔

    درخواست میں استدعا کی گئی پارلیمنٹ نے قانون سازی کردی،سپریم کورٹ 14ستمبرکی وضاحت پر نظرثانی کرے۔

    یاد رہے مخصوص نشستوں کے کیس میں اکثریتی فیصلہ دینے والے 8 ججز کی وضاحت جاری کی گئی  تھی، جس میں سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کی وضاحت کی درخواست تاخیری حربہ ہے۔

    مزید پڑھیں : مخصوص نشستوں کے کیس سے متعلق سپریم کورٹ کا وضاحتی فیصلہ

    عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن کی درخواست عدالتی فیصلے پرعملدرآمد کےراستے میں رکاوٹ ہے۔

    سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کی وضاحت کی درخواست درست نہیں، الیکشن کمیشن نے خود بیرسٹر گوہر کو پارٹی چیئرمین تسلیم کیا تھا۔

    عدالتی فیصلے کے مطابق الیکشن کمیشن وضاحت کے نام پر اپنی پوزیشن تبدیل نہیں کرسکتا۔

    سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا تھ کہ الیکشن کمیشن کی تسلیم شدہ پوزیشن ہے، پی ٹی آئی رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے، اقلیتی ججز نے بھی تحریک انصاف کی قانونی پوزیشن کو تسلییم کیا۔

    وضاحتی فیصلے  کے مطابق سرٹیفکیٹ جمع کرانے والے پی ٹی آئی کے ارکان ہیں، عدالتی فیصلے پر عمل کے تاخیر کے نتائج ہوسکتے ہیں، سرٹیفکیٹ جمع کرانے والے پی ٹی آئی کے ارکان ہیں، الیکشن کمیشن نے 41 ارکان سے متعلق وضاحت کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

  • پی ٹی آئی نے پریکٹس اینڈ پروسیجر صدارتی آرڈیننس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا

    پی ٹی آئی نے پریکٹس اینڈ پروسیجر صدارتی آرڈیننس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا

    اسلام آباد : پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) نے پریکٹس اینڈ پروسیجر صدارتی آرڈیننس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) نے پریکٹس اینڈ پروسیجر صدارتی آرڈیننس کیخلاف درخواست دائر کردی۔

    بیرسٹرگوہر نے درخواست سپریم کورٹ میں کی ، جس میں وفاق، وزارت قانون اور سیکرٹری صدر کو فریق بنایا گیا ہے۔

    درخواست میں استدعا کی گئی کہ پریکٹس پروسیجرایکٹ سےمتعلق صدارتی آرڈیننس کوغیرآئینی قراردیاجائے اور صدارتی آرڈیننس کےبعدپریکٹس پروسیجرکمیٹی کےفیصلوں کوکالعدم کیاجائے۔

    درخواست میں مزید استدعا کی گئی کہ درخواست کےزیرالتواہونےتک نئی تشکیل پریکٹس پروسیجرکمیٹی کوروکاجائے اور آرڈیننس کیخلاف درخواست کی سماعت کےدوران پرانی کمیٹی کوکام کی اجازت دی جائے۔

    خیال رہے صدر مملکت آصف زرداری کے دستخط کے بعد سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس قانون بن چکا ہے۔

    آرڈیننس کے مطابق اب چیف جسٹس، سپریم کورٹ کا سینئر جج اور چیف جسٹس کا مقرر کردہ جج کیس مقررکرے گا جب کہ اس سے قبل قانون میں چیف جسٹس، 2 سینئر ترین ججز کا 3 رکنی بینچ مقدمات مقرر کرتا تھا۔

    ترمیمی آرڈیننس کے مطابق بینچ عوامی اہمیت اور بنیادی انسانی حقوق کو مدنظر رکھتے ہوئے مقدمات کو دیکھے گا۔ ہر کیس کو اس کی باری پر سنا جائے گا ورنہ وجہ بتائی جائے گی۔

    اس کے علاوہ ہر کیس اور اپیل کو ریکارڈ کیا جائے گا اور اس کا ٹرانسکرپٹ بھی تیار کیا جائے گا۔ تمام ریکارڈنگ اور ٹرانسکرپٹ عوام کیلیے دستیاب ہوں گی۔

  • سپریم کورٹ کو اختیار ہے بنیادی حقوق کیخلاف بنایا گیا قانون ختم کردے، فاروق نائیک

    سپریم کورٹ کو اختیار ہے بنیادی حقوق کیخلاف بنایا گیا قانون ختم کردے، فاروق نائیک

    سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا ہے کہ پارلیمان کا بنایا ہوا قانون بنیادی حقوق کےخلاف ہے تو سپریم کورٹ کو ختم کرنے کا اختیار ہے۔

    اے آر وائی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ پالیسی بنانا اور قانون پر عملدرآمد کرانا حکومت کا کام ہے، جمہوریت، ملکی استحکام کیلئے ضروری ہے کہ ادارے احتراز کی پالیسی بنائیں، جب کوئی آئینی ترامیم ہوتی ہیں تو ڈسکشن ہوتی ہیں۔

    فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ آئینی پیکج ابھی تک منظور نہیں ہوا ہے، سی او ڈی 2006 میں ہوا اس میں بھی آئینی عدالت کی بات کی گئی تھی، حتمی فیصلہ تب ہوتا ہے جب سب لوگ آئینی ترامیم پر متفق ہوں، فیصلہ پیپلزپارٹی نے نہیں پارلیمان نے کرنا ہے۔

    انھوں نے کہا کہ وکلا بارز کی میٹنگ ہوئی اس میں میں نے تجویز دی کہ پیکج کو اوپن کیا جائے، وزیرقانون نے ہمیں آفیشلی آئینی ترامیم کا ڈرافٹ دیا تھا۔

    وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل کا کہنا تھا کہ آئینی ترامیم کو 2 اکتوبرکوفائنل کرکے اپنی تجاویز وزیرقانون کو بھیجیں گے، میں نہیں سمجھتا منیر ملک بھی آئینی عدالت کیخلاف ہوں گے، اس وقت سپریم کورٹ تمام کیسز دیکھتی ہے۔

    فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سپریم کورٹ کا زیادہ تر وقت سیاسی کیسز سننے میں گزر جاتا ہے، آئینی عدالت کسی سیاسی مقاصد کیلئے نہیں بنائی جارہیں۔

    ہمیں ایسا آئین بنانا چاہیے جو عوام کے مستقبل اور مسائل کے حل کیلئے ہونا چاہیے، بطور قانون کا طالبعلم کہتا ہوں سپریم کورٹ عوام کے کیسز سنے گا تو بیک لاگ ختم ہوگا۔

    انھوں نے کہا کہ آئینی عدالت، ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ ہو چیک اینڈ بیلنس ہونا چاہیے، پارلیمان کی کمیٹی عوامی سماعت میں ججز کی منظوری دے، میں نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کا آرڈیننس نہیں بنایا، ہم نے بطور پاکستان بار کونسل کے ممبر تجاویز دی ہیں۔

    فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ آئینی عدالت کے حق میں ہوں، ججز بھی میرٹ کی بنیاد پر لگنے چاہئیں، تمام جمہوری ممالک میں آئینی عدالتیں موجود ہیں۔

    انھوں نے کہا کہ ہم بھی آئینی عدالتیں بنالیں گے تو کوئی آسمان نہیں گر جائیگا، ہم چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ عوام کے کیسز کو حل کرے۔