Tag: سپریم کورٹ

  • الیکشن کمیشن فروری 2024 میں اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہا، مخصوص نشستوں کے کیس کا  تفصیلی فیصلہ

    الیکشن کمیشن فروری 2024 میں اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہا، مخصوص نشستوں کے کیس کا تفصیلی فیصلہ

    سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کے تفصیلی فیصلے میں الیکشن کمیشن کے رویے پر حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے الیکشن کمیشن فروری 2024 میں اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ، تفصیلی فیصلہ جسٹس منصورعلی شاہ نےتحریرکیاہے ، مخصوص نشستوں سے متعلق اکثریتی فیصلہ 70 صفحات پر مشتمل ہے۔

    سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں الیکشن کمیشن کےرویےپربھی حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا الیکشن کمیشن بنیادی فریق سےمخالف کےطورپرکیس لڑتارہا، الیکشن کمیشن ملک میں جمہوری عمل کاضامن اور حکومت کاچوتھاستون ہے۔

    تفصیلی فیصلے میں کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن فروری2024 میں اپناکرداراداکرنے میں ناکام رہا، انتخابات کے عمل میں تمام اتھارٹیزکوشفاف کاعمل اپناناچاہیے۔

    سپریم کورٹ اکثریتی ججز کے تفصیلی فیصلے میں کہنا تھا کہ انتخابی نشان نہ دیناسیاسی جماعت کے الیکشن لڑنے کے قانونی وآئینی حق کومتاثرنہیں کرتا، عوام کےپاس گورننس کرنے کا اختیار ان کے منتخب کردہ امیدوار ان سےہے، عوام کاووٹ جمہوری گورننس کااہم جزہے، جمہوریت کااختیارعوام کےپاس ہے۔

    یاد رہے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا مختصر فیصلہ 12جولائی کو سنایا گیا تھا۔

  • پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی حقدار ہے، سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ جاری

    پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی حقدار ہے، سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ جاری

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سےمتعلق کیس کے تفصیلی فیصلے میں کہا کہ پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی حقدار ہے، آئین وقانون کسی شہری کوانتخاب لڑنےسےنہیں روکتا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ، تفصیلی فیصلہ جسٹس منصورعلی شاہ نےتحریرکیاہے ، مخصوص نشستوں سے متعلق اکثریتی فیصلہ 70 صفحات پر مشتمل ہے۔

    جس میں کہا گیا ہے کہ پشاورہائیکورٹ کےمخصوص نشستوں سےمتعلق فیصلےکوکالعدم قراردیتےہیں، الیکشن کمیشن کایکم مارچ کوفیصلہ آئین سےمتصادم ہے، الیکشن میں بڑااسٹیک عوام کاہوتاہے، الیکشن کمیشن کے یکم مارچ کے فیصلےکی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

    سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق تفصیلی فیصلہ اردومیں بھی جاری کرنے کا حکم دیا اور فیصلے میں کہا کہ آئین یاقانون سیاسی جماعت کوانتخابات میں امیدوار کھڑے کرنے سے نہیں روکتا، پاکستان تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت ہے، انتخابی نشان نہ دیناسیاسی جماعت کےانتخاب لڑنےکےقانونی وآئینی حق کو متاثر نہیں کرسکتا۔

    تفصیلی فیصلے میں کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے2024کےانتخابات میں قومی وصوبائی اسمبلیوں کی نشستیں جیتیں، الیکشن کمیشن نےپی ٹی آئی کے80 میں سے39 ایم این ایز کوپی ٹی آئی کاظاہرکیا اور الیکشن کمیشن کوحکم دیاکہ باقی41 ایم این ایز کے 15روز  کے اندر دستخط شدہ بیان لیں۔

    عدالت نے کہا کہ عوام کی خواہش اورجمہوریت کےلیےشفاف انتخابات ضروری ہیں، انتخابی تنازع بنیادی طور پر دیگر سول تنازعات سے مختلف ہوتاہے، یہ سمجھنےکی بہت کوشش کی کہ اتنے آزاد امیدوار کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں تاہم اس سوال کاکوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا۔

    سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کا دعویٰ تھا کہ آزاد امیدوار بھی پی ٹی آئی کےامیدوارتھے، پی ٹی آئی کے مطابق ووٹرز نے ان کے امیدوار ہونے کی وجہ سے ووٹ دیا۔

    عدالت نے بتایا کہ 8 ججز نے تفصیلی فیصلے میں 2 ججز کے اختلافی نوٹ پرتحفظات کااظہاربھی کیا اور جسٹس امین الدین اورجسٹس نعیم اخترافغان نے12جولائی کےفیصلےکوآئین سے متصادم قرار دیا، جس انداز میں 2 ججز  نے اکثریتی فیصلے پر اختلاف کا اظہار کیا وہ مناسب نہیں۔

    تفصیلی فیصلے کے مطابق ساتھی ججزدوسرےججزکی رائےپرکمنٹس دےسکتےہیں، رائے دینے کیلئے وہ وجوہات بھی دیں کہ دوسرےججزکی رائےمیں کیاغلط ہے، جسٹس امین الدین اورجسٹس نعیم اخترافغان کاعمل سپریم کورٹ کے ججز کے منصب کے منافی ہے۔

    سپریم کورٹ نے کہا کہ بھاری دل سےبتاتےہیں 2 ساتھی ججز نے ہمارے فیصلےسےاتفاق نہیں کیا، بطوربینچ ممبران قانونی طورپرحقائق اورقانون سےاختلاف کرسکتےہیں، جس طریقے سے ججز نے اختلاف کیا وہ سپریم کورٹ کے ججز کے تحمل اورشائستگی سے کم ہے۔

    فیصلے میں مزید کہا گیا کہ 2ججزکایہ عمل عدالتی کارروائی اورفراہمی انصاف میں رکاوٹ ڈالنےکی کوشش ہے،  2ججز نے80 کامیاب امیدواروں کووارننگ دی اور پریشان کن بات یہ ہےکہ ججز اپنی رائے دیتے ہوئے حدود سے تجاوز کرگئے۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن ملک میں جمہوری عمل کاضامن اورحکومت کاچوتھاستون ہے، الیکشن کمیشن مخصوص نشستوں پرپی ٹی آئی کےامیدواروں کونوٹیفائی کرے، پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی حقدارہے، آئین وقانون کسی شہری کوانتخاب لڑنےسےنہیں روکتا۔

    فیصلے کے مطابق عوام کی خواہش اور جمہوریت کیلئے شفاف انتخابات ضروری ہیں، آئین عوام کو اپنا جمہوری راستہ اپنانے کا اختیار دیتاہے، عوام کا ووٹ جمہوری گورننس کیلئےاہم ہے، پی ٹی آئی کی کیس میں فریق بننے کی درخواست ہمارے سامنے موجود تھی، عمومی طورپرفریق بننےکی درخواست پر پہلے فیصلہ کیا جاتا ہے۔

  • ڈبےکھلنے کے بعد فارم 45 ہو یا 75 اس کی حیثیت نہیں رہتی، چیف جسٹس

    ڈبےکھلنے کے بعد فارم 45 ہو یا 75 اس کی حیثیت نہیں رہتی، چیف جسٹس

    اسلام آباد : جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پی بی 14 میں دوبارہ گنتی کی درخواست پر ریمارکس دیئے ڈبے کھلنے کے بعد فارم45ہویا75اس کی حیثیت نہیں رہتی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پی بی 14سےپیپلزپارٹی کے غلام رسول کی دوبارہ گنتی اورریٹرننگ افسران کی جانبداری کے الزامات سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی۔

    چیف جسٹس کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے سماعت کی، پی بی 14 میں دوبارہ گنتی اورریٹرننگ افسران کی جانبداری کے الزامات کی درخواست مسترد کردی۔

    سپریم کورٹ نے پی بی 14 سے پیپلزپارٹی کے غلام رسول کی درخواست مستردکردی اور ن لیگ کے محمود خان کی کامیابی کوبرقرار رکھا۔

    وکیل درخواست گزار نے کہا کہ 96 میں سے7پولنگ اسٹیشنز پردوبارہ گنتی کی درخواست دائرکی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے آپ کو کیسے پتہ چلا کہ غلط رزلٹ تیار کیاگیا تو وکیل غلام رسول کا کہنا تھا کہ فارم 45 کے مطابق یہ رزلٹ نہیں تھےافسران جانبدار تھے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ڈبےکھلنےکےبعدفارم 45 ہویا 75 اس کی حیثیت نہیں رہتی، انتخابات میں سب سے اہم شواہد ووٹ ہوتے ہیں، فارم 45 تو پریذائیڈنگ افسر بھرتا ہے۔

    جسٹس نعیم افغان کا کہنا تھا کہ پریذائیڈنگ افسران نے اصل ریکارڈ پیش کیا، آپ کاپیوں پر کیس چلا رہے ہیں ، آپ کے گواہان نے پریذائیڈنگ افسران کانام تک غلط بتایا ،جسٹس نعیم افغان
    اپ کے گواہ تو خود کوپولنگ ایجنٹس بھی ثابت نہیں کرسکے۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ یا تو دوبارہ گنتی پر اعتراض کریں کہ ڈبے کھلے ہوئے تھے، یا کہتے کہ پریذائیڈنگ افسران میرےساتھ تعصب رکھتے۔

    جسٹس شاہد بلال نے ریمارکس دیئے کیس بہت سادہ ہے ،ریکارڈ سے آپ کے الزامات ثابت نہیں ہوتے، جس پر وکیل درخواست گزار نے کہا کہ جج صاحب نے بغیر شواہد مجھے فیصلےمیں جھوٹا کہہ دیا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ جھوٹا سچا اللہ جانتا ہے ہم حقائق پر فیصلہ کرتے ہیں، یہ میاں بیوی کا کیس نہیں جو جھوٹ سچ کا فیصلہ ہو ، اس کا فیصلہ ریکارڈ پر ہوتا ہے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پریزائیڈنگ افسران کی جانبداری ثابت کریں ،بتائیں کیا وہ رشتہ دار تھے ؟ دوبارہ گنتی پر کوئی الزام نہیں لگایا گیا، پریذائیڈنگ افسر جانی دشمن بھی ہوتوفیصلہ ووٹ سےہوتا ہے ، ووٹوں کے سامنے 45 فارم کی کوئی اہمیت نہیں۔

    وکیل نے کہا کہ پریذائیڈنگ افسران نے سارا فراڈ کیا، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یونہی الزام نہ لگائیں قانون یاکوئی فیکٹ بتائیں۔

  • مجوزہ آئینی ترامیم کیخلاف سپریم کورٹ میں ایک اور درخواست دائر

    مجوزہ آئینی ترامیم کیخلاف سپریم کورٹ میں ایک اور درخواست دائر

    اسلام آباد : اپوزیشن لیڈرپنجاب ملک احمد خان بھچر اورصدرپی ٹی آئی لاہور نے مجوزہ آئینی ترامیم کیخلاف سپریم کورٹ میں ایک اوردرخواست دائرکردی۔

    تفصیلات کے مطابق مجوزہ آئینی ترامیم کیخلاف سپریم کورٹ میں ایک اور درخواست دائر کردی گئی، اپوزیشن لیڈرپنجاب ملک احمد خان بھچر اورصدر پی ٹی آئی لاہور نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جبکہ اظہرصدیق اورسول سوسائٹی کےصدربھی درخواست گزاروں میں شامل ہیں۔

    درخواست میں وفاقی وزارت قانون اورچاروں صوبوں کو فریق بنایا گیا ہے جبکہ اسپیکرقومی اسمبلی،سینیٹ، پرنسپل سیکرٹریز ،وزیر اعظم اور صدر بھی فریقین میں شامل ہیں۔

    درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ قرارداد مقاصد کے تحت عدلیہ کی آزادی آئین پاکستان کابنیادی جزو ہے، آرٹیکل 238 اور 239 میں ترامیم عدلیہ کی آزادی کو تباہ کردیں گی۔

    دائر درخواست میں کہنا تھا کہ پارلیمنٹ آئین پاکستان کےبنیادی جزو میں ترامیم کرنےکا اختیار نہیں رکھتی، پارلیمنٹ ریاست کے ایک اہم ستون کو کمزور کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔

    درخواست گزاروں نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن میں اراکین پارلیمنٹ کی شمولیت اختیارات کی تقسیم کےاصول کےمنافی ہے، ججزکی ریٹائرمنٹ کی عمرمیں توسیع بھی آئین پاکستان کی خلاف ورزی ہے، آئینی عدالت اورسپریم کورٹ کومتوازی طور پر چلانے سےانصاف کانظام مفلوج ہوگا۔

    درخواست میں استدعا کی گئی کہ تمام ترامیم خفیہ اور رات کے اندھیرے میں تیار کی گئیں جو بدنیتی کا ثبوت ہے، ان ترامیم کو آئین پاکستان کےبرخلاف قرار دیا جائے اور وفاقی حکومت کو ترامیم پارلیمنٹ میں پیش کرنے سے روکا جائے ساتھ ہی دونوں ایوانوں سےپاس ہونےکی صورت میں ترامیم کے نفاذ کو روکا جائے۔

  • مجوزہ آئینی ترمیم بل کو پذیرائی دینے کیخلاف سپریم کورٹ میں  درخواست دائر

    مجوزہ آئینی ترمیم بل کو پذیرائی دینے کیخلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر

    اسلام آباد : مجوزہ آئینی ترمیم بل کو پذیرائی دینے کیخلاف سپریم کورٹ درخواست دائر کردی گئی ، جس میں کہادرخواست کو پریکٹس اینڈپروسیجر کمیٹی میں دیکھاجائے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں مجوزہ آئینی ترمیم بل کو پذیرائی دینے کیخلاف درخواست دائر کردی گئی ، سپریم کورٹ میں سینئر وکیل عابد زبیری نے متفرق درخواست دائر کی۔

    درخواست میں کہا گیا کہ مجوزہ آئینی ترمیمی بل کیخلاف درخواست عدلیہ کی آزادی کےمنافی ہے، استدعا ہے درخواست کو پریکٹس اینڈپروسیجر کمیٹی میں دیکھاجائے۔

    یاد رہے مجوزہ آئینی ترامیم کالعدم قرار دینے کی درخواست دائر کردی گئی تھی ، سپریم کورٹ میں درخواست عابد زبیری،شفقت محمود،شہاب سرکی اوردیگرکی جانب سےدائرکی گئی۔

    درخواست میں وفاق،چاروں صوبوں،قومی اسمبلی، سینیٹ و دیگر کو فریق بنایا گیا تھا اور استدعا کی گئی تھی کہ ترامیم کو غیر آئینی قرار دیا جائے اور وفاقی حکومت کو ترامیم سے روکا جائے۔

    درخواست میں یہ بھی استدعا کی گئی تھی کہ آئینی ترمیم کے بل کو پیش کرنے کے عمل کو بھی روکا جائے اور ترامیم کواختیارات کی تقسیم،عدلیہ کی آزادی کیخلاف قراردیاجائے۔

    درخواست میں کہا گیا تھا کہ عدلیہ کی آزادی،اختیارات اور عدالتی امور کو مقدس قرار دیا جائے، پارلیمنٹ عدلیہ کے اختیارکو واپس یا عدالتی اختیارات میں ٹمپرنگ نہیں کر سکتی۔

  • آئینی ترامیم سے سپریم کورٹ کی حیثیت کیا رہ جائے گی؟ عابد زبیری کے ہوشربا انکشافات

    آئینی ترامیم سے سپریم کورٹ کی حیثیت کیا رہ جائے گی؟ عابد زبیری کے ہوشربا انکشافات

    مجوزہ آئینی ترامیم کی منظوری کیلئے حکومت کی کوششیں تاحال جاری ہیں تاہم ابھی تک اسے خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی، ساتھ ہی وکلاء برادری کی جانب سے بھی ان ترامیم کی شدید مخالفت کی جارہی ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ممتاز قانون دان عابد زبیری اور پی ٹی آئی رہنما سینیٹر ہمایوں مہمند نے آئینی ترامیم سے متعلق اہم حقائق سے آگاہ کیا۔

    انہوں نے بتایا کہ آئینی ترامیم کا مسودہ آج صبح ہی ہمیں ملا ہے اس مسودے میں ایسی خطرناک ترامیم ہیں جسے پڑھ کر آپ بھی ڈر جائیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ ان ترامیم کے بعد سپریم کورٹ کی چیف جسٹس کی کوئی پاور نہیں رہے گی۔

    عابد زبیری کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کی پاور لے کر ایک وفاقی آئینی عدالت کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے جس میں ججوں کی تعیناتی صدر وزیر اعظم اور پارلیمنٹ کرے گی۔

    انہوں نے کہا کہ نئی ترامیم کے تحت وفاقی آئینی عدالت کے جج کی عمر 68 سال ہوگی، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی مدت 3 سال ہوگی اور اگر وہ اس مدت سے پہلے 65 سال کا ہوجائے تو چیف کے عہدے پر نہیں رہے گا۔

    عابد زبیری نے انکشاف کیا کہ آئین کے آرٹیکل 190 کے مطابق سپریم کورٹ کے جو احکامات ہیں سب اس کو ماننے کے پابند ہوں گے، انہوں نے وہاں سے سپریم کورٹ کا لفظ ہی نکال دیا ہے اور اس کی جگہ وفاقی آئینی عدالت لکھ دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کی یہ حیثیت کردی گئی ہے۔

    ان ترامیم کے بعد سپریم کورٹ کی حیثیت ایک سول کورٹ جیسی رہ جائے گی، جس کے چیف کی حیثیت بھی سول کورٹ کے جج جتنی ہوگی۔ وفاقی آئینی عدالت کی موجودگی میں سپریم کورٹ میں صرف چھوٹے موٹے دیوانی فوجداری جیسے مقدمات نمٹائے جائیں گے۔

    اس کے علاوہ ہائی کورٹس کے پاور اور اختیارات کو بھی ختم کردیا گیا ہے، ترمیمی مسودے کے مطابق ہائی کورٹس نیشنل سیکیورٹی کے مسائل بھی نہیں حل کرسکے گا۔

  • سپریم کورٹ میں مجوزہ آئینی ترامیم کالعدم قرار دینے کی درخواست دائر

    سپریم کورٹ میں مجوزہ آئینی ترامیم کالعدم قرار دینے کی درخواست دائر

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں مجوزہ آئینی ترامیم کالعدم قرار دینےکی درخواست دائر کردی گئی، جس میں استدعا کی گئی کہ وفاقی حکومت کو ترامیم سے روکا جائے۔

    تفصیلات کے مطابق مجوزہ آئینی ترامیم کالعدم قرار دینے کی درخواست دائر کردی گئی ، سپریم کورٹ میں درخواست عابد زبیری،شفقت محمود،شہاب سرکی اوردیگرکی جانب سےدائرکی گئی۔

    درخواست میں وفاق،چاروں صوبوں،قومی اسمبلی، سینیٹ و دیگر کو فریق بنایا گیاہے اور استدعا کی گئی کہ ترامیم کو غیر آئینی قرار دیا جائے اور وفاقی حکومت کو ترامیم سے روکا جائے۔

    درخواست میں یہ بھی استدعا کی گئی کہ آئینی ترمیم کے بل کو پیش کرنے کے عمل کو بھی روکا جائے اور ترامیم کواختیارات کی تقسیم،عدلیہ کی آزادی کیخلاف قراردیاجائے۔

    درخواست میں کہا گیا کہ عدلیہ کی آزادی،اختیارات اور عدالتی امور کو مقدس قرار دیا جائے، پارلیمنٹ عدلیہ کے اختیارکو واپس یا عدالتی اختیارات میں ٹمپرنگ نہیں کر سکتی۔

    درخواست میں استدعا  کی کہ پارلیمنٹ اگر آئینی ترامیم کرلے تو صدر کو دستخط کرنے سےروکا جائے۔

  • سپریم کورٹ میں ججز کی تقرری ، جوڈیشل کمیشن کا غیرمعمولی اجلاس آج  ہوگا

    سپریم کورٹ میں ججز کی تقرری ، جوڈیشل کمیشن کا غیرمعمولی اجلاس آج ہوگا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں ججز کی تقرری کیلئے چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیر صدارت جوڈیشل کمیشن کا اجلاس آج ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں ججوں کے تقرر کیلئے جوڈیشل کمیشن کا غیرمعمولی اجلاس صبح ساڑھے11بجے ہوگا، چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اجلاس کی صدارت کریں گے

    اجلاس میں تمام ہائیکورٹس کے چیف جسٹس اور سینئرترین ججز شریک ہوں گے، ہائیکورٹس میں ججوں کی تعیناتی اورجوڈیشل کمیشن رولزکی منظوری پرغور ہوگا۔

    جوڈیشل کمیشن اجلاس میں ہائی کورٹس کے سینئر ترین جج ممبر نہ ہونے پر شرکت نہیں کرتے۔۔ لیکن ذرائع کا کہنا ہے ہائی کورٹس کے چیف جسٹس کے ساتھ سینئرترین ججوں کو خصوصی طور پر مدعو کیا گیا ہے۔

    اجلاس میں چاروں صوبائی وزرائے قانون بھی شریک ہوں گے، عام طور پر جس ہائی کورٹ میں ججوں کی تعیناتی ہو اس کے متعلقہ چیف جسٹس اور وزیرقانون شرکت کرتے ہیں۔

    وزیراعلی بلوچستان بطوروزیرقانون اجلاس میں شرکت کرین گے جبکہ وزیرقانون کےپی آفتاب عالم ویڈیولنک کےذریعے شریک ہوں گے۔

  • وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ سے ڈیمز فنڈز کی رقم مانگ لی

    وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ سے ڈیمز فنڈز کی رقم مانگ لی

    اسلام آباد : وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ سے ڈیمز فنڈز کی رقم مانگ لی، تقریباً 20 ارب روپے ڈیمز فنڈزمیں موجود ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں دیامر بھاشا اور مہمند ڈیمز فنڈز کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں4رکنی بینچ کیس کی سماعت کی۔

    وفاقی حکومت نےسپریم کورٹ سےڈیمزفنڈزکی رقم مانگ لی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامررحمان نے بتایا کہ ہم نےایک متفرق درخواست دائرکی ہے، ڈیمز فنڈز کے پیسے وفاق اور واپڈا کو دیئے جائیں۔

    ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ کی نگرانی میں اسٹیٹ بینک نےاکاؤنٹ کھولاتھا،جس پر چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا ڈیمز فنڈز میں کتنے پیسے ہیں، وکیل واپڈاسعدرسول نے بتایا کہ تقریباً 20 ارب روپے ڈیمز فنڈزمیں موجود ہیں۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ کیس شروع کیسےہوا؟ وکیل واپڈا نے بتایا کہ سپریم کورٹ نےواپڈاکےزیرسماعت مقدمات میں2018میں نوٹس لیاتھا، سپریم کورٹ کےڈیمزفنڈزعملدرآمد بینچ نے17سماعتیں کیں۔

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ واپڈاکےاوربھی کئی منصوبے ہوں گے ، کیا سپریم کورٹ واپڈا کے ہر منصوبے کی نگرانی کرتی ہے۔

    وکیل واپڈا کا کہنا تھا کہ ڈیمزکی تعمیرکےمعاملےپرپرائیویٹ فریقین کےدرمیان بھی تنازعات تھے، سپریم کورٹ نےپرائیویٹ فریقین کے تنازعات اپنے پاس سماعت کیلئے مقرر کیے، استدعاہےپرائیویٹ فریقین کےتنازعات متعلقہ عدالتی فورمز پرچلائےجائیں۔

    عدالت نے کیس کا متعلقہ ریکارڈ طلب کرلیا اور سماعت میں وقفہ کردیا۔

  • مونال سمیت دیگر ریسٹورنٹس ہٹانے کا فیصلہ برقرار

    مونال سمیت دیگر ریسٹورنٹس ہٹانے کا فیصلہ برقرار

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے مونال سمیت دیگر ریسٹورنٹس ہٹانے کا فیصلہ رقرار رکھتے ہوئے نظرثانی درخواستیں خارج کردیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے نیشنل پارک ایریا میں تجارتی سرگرمیوں کیس کی نظرثانی درخواستوں پرفیصلہ سنا دیا۔

    فیصلے میں عدالت نے مونال ریسٹورنٹ،لامونتالہ،گلوریہ جیزسمیت دیگرریسٹورنٹس ہٹانے کا فیصلہ برقرار رکھا اور نظرثانی درخواستیں خارج کردیں۔

    فیصلے میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے نیشنل پارک ایریا میں قائم ریسٹورنٹس کے حق میں دی گئی آبرزویشنزواپس لے لیں ، مونال اور دیگر ریسٹورنٹس کو کسی اور مقام پر لیز کے وقت ترجیح دینے کی آبرزیشن واپس لی گئی ہے۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ مونال ریسٹورنٹ،لامونتانہ و دیگرریسٹورنٹس نے رضاکارانہ 3 ماہ میں ریسٹورنٹس ختم کرنے کی یقین دہانی کرائی، عدالت میں یقین دہانی کے باوجود نظرثانی دائر کرنا عدالت کیساتھ مذاق ہے۔

    عدالتی فیصلے میں کہا کہ رضاکارانہ 3 ماہ میں ریسٹورنٹس ختم کرنے کی یقین دہانی کے بعد نظرثانی دائر کرنا توہین آمیز ہے، سپریم کورٹ نے سی ڈی اے کو کہا ریسٹورنٹس کو دیگرعلاقوں میں ترجیح بنیادوں پر لیز دی جائے۔

    عدالت نے قرار دیا کسی اور مقام پرریسٹورنٹس کی لیزمیں نیشنل پارک ایریا کے ریسٹورنٹس کو ترجیح دیں، سپریم کورٹ لیز کےعمل میں ترجیح دینے کے اپنے فیصلے کو حذف کرتی ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے پرمن و عن عمل کیا جائے۔