Tag: سچل سرمست

  • صوفی شاعر سچل سرمست ؒ  کا تذکرہ

    صوفی شاعر سچل سرمست ؒ کا تذکرہ

    وادیٔ سندھ میں جن بزرگانِ دین کی تعلیمات کے ماننے والوں اور صوفیا کے ارادت مندوں کی بڑی تعداد بستی ہے، ان میں سچل سرمست ؒ کا نام بھی نمایاں ہے۔ انھیں شاعرِ ہفت زبان بھی کہا جاتا ہے۔

    ان کے جدِ امجد میاں صاحب ڈنو فاروقی کی سندھ کی قدیم ریاست خیر پور میں اپنی خانقاہ سے رشد و ہدایت عام کرنے میں‌ مصروف تھے۔ اسی زمانے میں نادر شاہ نے ہندوستان پر حملہ کیا اور بعد میں سندھ پر یورش کر دی۔ اس دورِ پرآشوب میں 1739ء میں ریاست خیر پور کے علاقے رانی پور کے قریب کے ایک چھوٹے سے گاؤں درازا شریف کے ایک مذہبی گھرانے میں سچل سرمست کی پیدائش ہوئی جن کا اصل نام عبد الوہاب تھا، جو بعد میں وہ اپنی صاف گوئی اور روشن کردار کی وجہ سے سچل یعنی سچ بولنے والے مشہور ہوگئے۔ انھیں تاریخ میں سندھی زبان کے مشہور صوفی شاعر کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ سچل سرمست ؒ کے دادا میاں صاحب ڈنو عرف محمد حافظ بھی اپنے زمانے کے معروف بزرگ اور شاعر تھے۔

    سچل سرمست کے والد کے بعد ان کی پرورش چچا کے زیرِ سایہ ہوئی۔ سچل سرمست نے عربی، فارسی اور تصوف کے اسرارو رموز سے آگاہی حاصل کی اور بہت چھوٹی عمر میں قرآن بھی حفظ کرلیا۔ ابھی سچل سرمست کی عمر چھے سال ہی تھی کہ اپنے زمانے کے بزرگ اور صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی ؒ خیر پور تشریف لائے۔ کہتے ہیں کہ یہاں انھوں نے سچل سرمست کو دیکھا تو فرمایا کہ یہ لڑکا معرفت کی منازل طے کرے گا۔سچل سرمست اس کے بعد ظاہری اور باطنی علوم کی تحصیل میں مشغول ہوگئے۔ قرآن مجید حفظ کرنے کے ساتھ فقہ و تفسیر کی کتابیں پڑھیں اور پندرہ سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے شعر بھی کہنے لگے۔

    سچل سرمست اکثر تنہائی میں غور و فکر میں ڈوبے رہتے۔ جوانی ہی سے عبادت گزار اور روزے، نماز کے پابند تھے اور درود و وظائف میں وقت گزارتے تھے۔ ان کا کلام سات زبانوں عربی ، سندھی، سرائیکی، پنجابی، بلوچی، فارسی اور اردو میں ملتا ہے جس کی بنا پر وہ ہفت زبان شاعر بھی کہلائے۔ انھوں نے اپنے صوفیانہ کلام سے فقہی اختلافات دور کرنے اور درباری عالموں کو جواب دینے کی کوشش کی جو اس دور میں تفرقہ بازی کو ہوا دے رہے تھے۔ اسی وجہ سے انھیں لوگوں نے پسند کیا اور ان کی شاعری بہت جلد مقبولیت حاصل کرگئی۔ ان کے وحدت الوجود کے فلسفے نے ہر خاص و عام کو متاثر کیا تھا اور وہ روحانی بزرگوں کی صف میں شامل ہوگئے۔

    سچل سرمست نے 11 اپریل 1827 عیسوی یعنی 14 رمضان 1242ھ میں وفات پائی اور اپنی آبائی خانقاہ درازا شریف میں مدفون ہوئے۔ وفات کے وقت ان کی عمر نوے سال تھی۔ حضرت سچل سرمستؒ نے جس بی بی سے نکاح کیا تھا، وہ زیادہ عرصہ زندہ نہ رہ سکیں جب کہ خدا نے اولاد بھی نہیں دی تھی۔

    مرزا علی قلی بیگ حضرت سچل سرمست کی شخصیت کے بارے میں رقم طراز ہیں کہ’’وہ سفید ریش مبارک رکھتے تھے، جوتا کبھی پہنتے، کبھی ننگے پاؤں ہی گھر سے نکل جاتے، ہاتھ میں لاٹھی ہوتی تھی، سواری استعمال نہیں کرتے تھے۔ زمین پر یا لکڑی کے صندل پر بیٹھتے اور سو جاتے، چارپائی استعمال نہیں کرتے تھے، اکثر طنبورہ بھی ساتھ رکھتے تھے۔‘‘

    انھوں نے سندھ کے کلہوڑا اور تالپور حکم رانوں‌ کا دور دیکھا اور تمام عمر اپنی شاعری کے ذریعے لوگوں میں پیار محبّت، بھائی چارہ اور امن کا پیغام عام کرتے رہے۔

  • صوفی شاعرسچل سرمست کےعرس کی تقریبات کاآغاز

    صوفی شاعرسچل سرمست کےعرس کی تقریبات کاآغاز

    آج سندھ کے عظیم صوفی شاعر سچل سرمست کے عرس کی تقریبات آج سے شروع ہوگئی ہیں، اس موقع پر زائرین کی آمد کاسلسلہ جاری ہے اور سیکیورٹی کے سخت ترین انتظامات کیے گئے ہیں۔

    سندھ کی سوہنی دھرتی میں جانے کیا دلکشی ہے کہ انگنت صوفیوں اور شاعروں نے ناصرف یہاں جنم لیا بلکہ متعدد بزرگ تو ایسے تھے جو صدیوں پہلے یہاں کھنچے چلے آئے اور پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ حضرت سچل سرمست بھی ایسے ہی صوفی بزرگ شاعر ہیں جنہوں نے ناصرف سندھ کی سرزمین پر قدم رکھا بلکہ آخری سانس بھی اسی سرزمین پر لی۔

    انہی بزرگوں میں سے ایک امن و محبت کے پیامبر سچل سرمست بھی ہے۔ حضرت سچل کی روحانیت غضب کی تھی۔ اسی روحانیت، سوز اور جذبے کے سبب وہ سرمستی اور بے خودی میں رہتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ آپ ’سرمست‘ کہلائے۔‘

    سندھی زبان کے مشہور شاعر جو عرف عام میں شاعر ہفت زبان کہلاتے ہیں کیوں کہ آپ کا کلام سات زبانوں میں ملتا ہے جن میں عربی، سندھی، سرائیکی، پنجابی، اردو، فارسی اور بلوچی شامل ہیں۔

    سچل سرمست کی پیدائش 1739ء میں سابق ریاست خیرپور کے چھوٹے گاؤں درازا میں ایک مذہبی خاندان میں ہوئی۔ان کا اصل نام تو عبدالوہاب تھا مگر ان کی صاف گوئی کو دیکھ کر لوگ انہیں سچل یعنی سچ بولنے والا کہنے لگے۔

    حالات زندگی اور وجہٴ شہرت

    سچل سرمست کئی زبانوں کے شاعر تھے۔ اردو، فارسی، سرائیکی اور ہندی میں ان کا کلام آج بھی موجود ہے۔ سندھی روایات کے مطابق انہیں ’سچل سائیں‘ بھی کہا جاتا ہے، حالانکہ ان کا اصل نام خواجہ حافظ عبدالوہاب فاروقی تھا۔ آپ کا سنہ پیدائش 1739ء ہے۔

    سچل سرمست ابھی کم عمر ہی تھے کہ والدین کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ چچا نے ان کی پرورش کی اور وہی ان کے معلم بھی رہے۔ قرآن حفظ کرنے کے ساتھ ساتھ عربی، فارسی اور تصوف کی تعلیم چچا ہی سے حاصل کی۔ گھر میں صوفیانہ ماحول تھا اسی میں ان کی پرورش ہوئی اور یہی ساری زندگی ان کے رگ و پے میں بسا رہا۔

    عادتاً خاموش طبع اور نیک طبیعت تھے۔ شریک حیات جوانی میں ہی انتقال کرگئی تھیں۔ پھر ان کی کوئی اولاد بھی نہیں تھی۔ اس لئے زیادہ تر تنہا اور ویرانوں میں دن گزارتے تھے۔

    سچل سرمست کے عرس میں صرف سندھ کے علاقائی باشندے ہی شرکت نہیں کرتے بلکہ پاکستان کے باقی علاقوں کے علاوہ بھارت سے تعلق رکھنے والے عقیدت مند بھی ہزاروں کی تعداد میں شرکت کرتے ہیں۔

  • وفاق سندھ کے ساتھ زیادتی بند کرے، میئرکراچی کوآئینی اختیاردیئے، مرادعلی شاہ

    وفاق سندھ کے ساتھ زیادتی بند کرے، میئرکراچی کوآئینی اختیاردیئے، مرادعلی شاہ

    خیر پور : وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ میں بجلی کی بیس بیس گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے،وفاق سندھ کے ساتھ زیادتی کرنا بند کرے۔ ہم نے میئر کراچی کو آئین کے مطابق اختیار دیئے ہیں۔ جن کے خلاف جے آئی ٹی ہے وہ پہلے اپنی جان بچائیں۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے صوفی بزرگ سچل سرمست کے مزار پر حاضری کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

    وزیر اعلی سندھ نے صوفی بزرگ کے سالانہ عرس کی تقریبات کا آغاز قبر پر پھولوں کی چادر چڑھا کر کیا، ان کے ہمراہ صوبائی وزیر منظور وسان بھی موجود تھے۔

    مراد علی شاہ کا نواز لیگ اور وفاقی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے مزید کہنا تھا کہ سندھ کو جان بوجھ کر بجلی نہیں دی جا رہی، لوڈشیڈنگ انتہا کو پہنچ گئی ہے، یہ سندھ کے ساتھ سراسر ذیادتی کے مترادف ہے۔


    مزید پڑھیں : وفاق سندھ میں پانی کا بحران پیدا کررہا ہے، مراد علی شاہ


    انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کا سندھ کو این ایف سی ایوارڈ نہ دینا ان کی آئینی ناکامی ہے، سندھ پرظلم بند کیا جائے۔

    میئر کراچی وسیم اخترکے اختیارات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ میئر کراچی کو اختیارات آئین کے مطابق ملے ہیں، منظور شدہ قوانین سے ہٹ کر اختیارات نہیں دے سکتے۔

    ان کا کہنا تھا کہ فنڈز قوانین کے مطابق دیئے جا رہے ہیں، سندھ اسمبلی میں بتاؤں گا کہ کتنے فنڈز دیئے اور وہ کتنے کہاں اور کیسے استعمال ہوئے۔