Tag: سکندر اعظم

  • ’’مقدونیہ تمہارے لیے بہت چھوٹا ہے!‘‘

    ’’مقدونیہ تمہارے لیے بہت چھوٹا ہے!‘‘

    پلوٹارک یونانی سوانح نگار و مؤرخ تھا جس نے یونان و رومہ کے سپوتوں کے حالاتِ زندگی اور کارناموں کو نہایت دل آویز اور مؤثر انداز سے لکھا ہے۔ اس کی کتاب پیرلل لائیوز کا ترجمہ ہندوستان کے نہایت قابل و باصلاحیت ادیبوں نے کیا ہے۔ یہ تراجم اپنے دور میں بہت مقبول ہوئے تھے۔

    پلوٹارک کی کتاب سکندرِ اعظم کے تذکرے سے کیسے خالی ہوسکتی تھی کہ جس کی شہرت زمین کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک تھی۔ وہ تو فاتحِ عالم تھا اور اس کے حالاتِ زیست بیان کرنے کے ساتھ ساتھ پلوٹارک نے اس کی ذہانت، جرأت اور بہادری کے مختلف واقعات بھی رقم کیے ہیں۔ یہ ایسا ہی ایک قصّہ ہے جو پلوٹارک کی اس کتاب میں شامل ہے۔ اس کے مترجم خرم علی شفیق ہیں۔

    سکندر کی تربیت کے لیے کئی عورتیں اور مرد مقرر کیے گئے۔ ان سب کا سردار لیونی دس نامی ایک شخص تھا۔ یہ نظم و ضبط وغیرہ کے معاملے میں بہت سخت تھا اور سکندر کی ماں کا رشتہ دار بھی تھا۔ لائیکی میکس جو جاہل اور اجڈ تھا ان غلاموں میں سے ایک تھا جن کے ذمے یہ کام تھا کہ صبح کی دوڑ کے وقت اور اس قسم کے دوسرے تربیتی مواقع پر سکندر کے ساتھ رہیں اور اس کا خیال رکھیں۔ یہ شخص سکندر کو ایکیلیز کہتا تھا۔

    ایک دن ایسا ہوا کہ تھسلی سے گھوڑوں کا ایک سوداگر مقدونیہ آیا۔ اس کا نام بھی فیلقوس تھا اور یہ بادشاہ کے لیے ایک گھوڑا لایا تھا۔ بیوسیفالس نامی اس گھوڑے کی قیمت اس نے تیرہ ٹیلنٹ بتائی۔ فیلقوس اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک میدان میں پہنچا تاکہ گھوڑے کی آزمائش دیکھ سکے۔ آزمائش دیکھ کر وہ سب اس فیصلے پر پہنچے کہ گھوڑا بالکل وحشی ہے کیونکہ کوئی بھی اس پر سوار نہ ہو سکا تھا اور وہ کسی کو اپنے قریب نہ پھٹکنے دیتا تھا۔ بادشاہ کو سخت غصہ آیا کہ ایسا گھوڑا اس کے سامنے کیوں پیش کیا گیا۔ اس کے حکم پر گھوڑے کو لے جایا ہی جانے والا تھا کہ قریب کھڑے سکندر نے کہا۔

    ’’ایک شاندار گھوڑے سے محض اس لیے ہاتھ دھوئے جا رہے ہیں کہ کوئی اسے سدھانا نہیں جانتا یا ایسا کرنے کی ہمت نہیں رکھتا۔‘‘

    فیلقوس خاموش رہا لیکن جب سکندر نے کئی دفعہ یہ الفاظ دہرائے تو وہ بول اٹھا۔

    ’’کیا تم اپنے سے زیادہ جہاندیدہ لوگوں کو اس لیے بیوقوف سمجھ رہے ہو کہ تمہارا خیال ہے تم ان سے زیادہ جانتے ہو یا گھوڑے کو رام کرنے میں ان سے زیادہ مہارت رکھتے ہو؟‘‘

    ’’کم از کم اس گھوڑے کو قابو میں کرنے کی صلاحیت رکھتا ہوں۔‘‘ سکندر نے جواب دیا۔

    ’’اور اگر تم ایسا نہ کر سکے؟‘‘ فیلقوس نے پوچھا۔

    ’’تو میں اس گھوڑے کی قیمت ادا کر دوں گا!‘‘

    یہ سن کر حاضرین ہنس پڑے مگر باپ اور بیٹے میں شرط لگ گئی۔ سکندر گھوڑے کی طرف بڑھا، اس کی لگام ہاتھ میں لی اور اس کا منہ سورج کی طرف کر دیا۔ سکندر نے یہ بات محسوس کی تھی کہ گھوڑا دراصل اپنے سائے سے ڈر رہا تھا۔ کچھ دیر وہ گھوڑے کے ساتھ دوڑتا رہا اور اس پر ہاتھ پھیر کر اسے رام کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ پھر اس نے اپنی چادر کندھوں سے پھینکتے ہوئے ایک ہلکی سی جست لگائی اور گھوڑے پر سوار ہو گیا۔ کچھ دیر تک اس نے گھوڑے کی لگام ڈھیلی چھوڑے رکھی تاکہ گھوڑا کسی قسم کی تکلیف محسوس نہ کرے اور جب اس نے دیکھا کہ گھوڑا خوف سے آزاد ہو چکا ہے اور اپنی تیز رفتاری کا مظاہرہ کرنے کو بیتاب ہے تو اس نے اسے تیز دوڑانا شروع کر دیا۔

    فیلقوس اور اس کے رفیق یہ تماشا دم سادھے دیکھ رہے تھے۔ وہ منتظر تھے کہ اب کیا ہوتا ہے جب انہوں نے دیکھا کہ سکندر دوڑ کی حد عبور کر چکا ہے۔ اس نے سرکش گھوڑے کو واپس موڑا جو اب پوری طرح اس کے قابو میں تھا۔ سب لوگوں نے آفرین کے نعرے لگائے اور، کہتے ہیں، فیلقوس کی آنکھوں میں خوشی سے آنسو آ گئے۔ سکندر نیچے اترا تو فیلقوس نے اسے گلے سے لگا لیا، چوما اور کہا۔

    ’’میرے بیٹے!تمہیں اپنی امنگوں کی تکمیل کے لیے ایک بہت بڑی سلطنت چاہیے۔ مقدونیہ تمہارے لیے بہت چھوٹا ہے!‘‘

  • جامِ جہاں نما اور آئینۂ سکندری

    جامِ جہاں نما اور آئینۂ سکندری

    اگر تاریخِ عالم میں سکندر کا نام ایک غیرمعمولی شخصیت، باتدبیر حکم راں اور بہترین فوجی کمانڈر کے طور پر محفوظ ہے تو فارس کے بادشاہ دارا کا تذکرہ بھی بہادر فوجی اور باصلاحیت حکم راں کی حیثیت سے بہت اہمیت رکھا ہے جس نے سکندرِ اعظم کی فتوحات کا راستہ روکا تھا۔

    نوجوان سکندرِ اعظم نے وسیع میدانوں میں بڑے بڑے سورماؤں‌ کو شکست دے کر دنیا پر راج کیا لیکن دارا سوّم بھی 30 لاکھ مربع کلومیٹر پر محیط وسیع سلطنت رکھتا تھا۔ دارا کی سلطنت کی وسعت اس زمانے کے فن پاروں سے بھی عیاں ہے جن میں اس کے مختلف حصّوں کا امتزاج نظر آتا ہے۔ بحیثیت جنگجو اور حکم راں، مغرب کے نزدیک دارا نے ہمیشہ سخت رویہ اپنایا اور وہ اپنے ایک عزیز کے ہاتھوں مارا گیا۔ 330 قبلِ مسیح میں دارا کی موت کے بعد سلطنتِ فارس کا خاتمہ ہوا اور دنیا کی تاریخ میں سکندرِ اعظم کی عالی شان سلطنت وجود میں آئی۔ ان حکم رانوں اور فوجی کمانڈروں کا ذکر تاریخ کے اوراق تک محدود نہیں بلکہ دنیا کی مختلف زبانوں کا ادب بھی ان کے نام اور کارناموں سے بھرا پڑا ہے۔ یہ نام دلیری، شجاعت، خوش نصیبی کا استعارہ بھی بنے اور ان سے جڑے واقعات نے شاعری میں صنعتِ تلمیح کی صورت میں جگہ پائی۔ اس میں جامِ جہاں نما اور آئینۂ سکندری پر کئی نثر پارے اور اشعار پڑھنے کو ملتے ہیں۔ یہ دونوں عجیب و غریب یا اس زمانے کے اعتبار سے کرشماتی چیزیں ہیں جس میں کچھ حقیقت ہے یا نہیں، یہ جاننے کے لیے تاریخی کتب کھنگالی جاسکتی ہیں۔ لیکن اہلِ فن و قلم ان کا تذکرہ کچھ اس طرح کرتے ہیں:

    سکندر اور ایران کے بادشاہ دارا کے درمیان کئی جنگیں ہوئیں لیکن سکندر دارا کی تدبیروں کی وجہ سے شکست کھا جاتا تھا۔ دارا جامِ جہاں نما کی مدد سے سکندر کی تمام نقل و حرکت اور تیاریوں سے آگاہ ہو جاتا اور سکندر کی تمام تیاریاں دھری کی دھری رہ جاتیں۔ آخر کار اس نے حکومت کے مدبروں اور سائنس دانوں کی مدد سے شہر اسکندریہ کے ساحل پرایک آئینہ بنانے میں کام یابی حاصل کر لی، جس سے وہ دشمن کی نقل و حرکت اور سربستہ رازوں سے آگاہی حاصل کرسکے۔ یہ آئینہ سکندر نےایک اونچے مینار پر نصب کرایا تھا، اس آئینے کی مدد سے دشمن کی نقل و حرکت کا اندازہ سو میل کی مسافت سے ہوجاتا تھا۔ اس تلمیح کا استعمال ان اشعار میں دیکھیے۔

    سکندر کیوں نہ جاوے بحرِ حیرت میں کہ مشتاقاں
    تمہارے مکھ اگے درپن کوں درپن کر نہیں گنتے
    شاعر: ولی دکنی

    خاکِ آئینہ سے ہے نامِ سکندر روشن
    روشنی دیکھتا گر دل کی صفائی کرتا
    شاعر: ذوق

    آئینۂ سکندری اردو ادب کا خاص موضوع رہا ہے اور عوام میں اس کی شہرت کو دیکھتے ہوئے برطانوی دور میں اسی نام سے ایک ہفت روزہ بھی جاری کیا گیا تھا۔ یہ فارسی زبان میں نکلنے والا ہفت روزہ اخبار تھا۔ اسے مولوی سراج الدّین نے آئینۂ سکندر کے نام سے فروری 1831ء میں کولکتہ سے جاری کیا۔ یہ ہفت روزہ 14 صفحات پر مشتمل تھا اور ہر دو شنبہ کو نکلتا تھا۔ مشہور ہے کہ اس اخبار کو عظیم شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب کا تعاون حاصل تھا۔ ان کا فارسی کلام بھی آئینۂ سکندر میں شائع ہوتا تھا۔ اس ہفت روزہ کی خاص بات یہ تھی کہ ہر خبر کی سرخی کے نیچے ایک شعر بھی لکھا جاتا تھا۔ اسی طرح جامِ جہاں نما، برصغیر پاک و ہند میں پہلا اردو اخبار مشہور ہے جو 1822ء میں کلکتے سے ہری ہردت نے جاری کیا تھا۔ لیکن چند ہفتوں کے بعد اسے فارسی زبان میں شائع کرنا شروع کردیا گیا تھا۔

  • سکندرِ اعظم کا تذکرہ جو اپنے سپاہیوں کے اصرار پر مقدونیہ لوٹنے پر مجبور ہوگیا

    سکندرِ اعظم کا تذکرہ جو اپنے سپاہیوں کے اصرار پر مقدونیہ لوٹنے پر مجبور ہوگیا

    سکندر کا ذکر لوک داستانوں اور دیو مالائی قصّوں میں ہوتا ہے۔ اس کا نام فتح و نصرت، شان و شوکت کے استعارے کے طور پر لیا جاتا ہے اور تاریخِ عالم میں سلطنت اور اقتدار سے متعلق کوئی باب اس کے اس کے ذکر سے خالی نہیں، مگر اس عالمِ‌ ناپائیدار اور حقیقتِ ہنگامۂ حیات کو سمجھنا ہو تو یہ شعر ملاحظہ کیجیے جس کا موضوع یہی سکندر اور اس کی جاہ و حشمت ہے:

    مہیا گرچہ سب اسبابِ ملکی اور مالی تھے
    سکندر جب گیا دنیا سے دونوں ہاتھ خالی تھے

    مؤرخین لکھتے ہیں کہ بچپن سے ہی سکندر جسمانی خوشیوں کا طبعاً شائق نہ تھا۔ اسے دولت و سامان سے نفرت تھی اوربہ مشکل ان کی طرف مائل ہوتا تھا۔ ہاں وہ شہرت اور نام وری ضرور چاہتا تھا اور وہ اس کا مقدر بنی اور اس طرح کہ صدیاں بیت گئیں، مگر سکندر کو دنیا فراموش نہیں کرسکی۔ اسے سکندرِ اعظم پکارا جاتا ہے جو آدھی دنیا کا فاتح تھا۔

    وہ مقدونیہ کے بادشاہ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ مقدونیہ کے اس بادشاہ کا نام فلپ تھا جس کی بیوی اولمپیا کی کوکھ سے سکندر نے جنم لیا۔ اس عورت سے فلپ کی کبھی نہیں بنی۔ اولمپیا کے بارے میں محققین لکھتے ہیں کہ وہ اپنے شوہر کی مخالفت ہی کرتی رہی اور یہاں تک کہ فلپ دوم کو 336 (ق۔م) میں قتل کر دیا گیا۔ باپ کے بعد جب سکندرِ اعظم تخت پر بیٹھا تو اس کی عمر محض بیس سال تھی۔ جب سکندرِ اعظم نے عنانِ اقتدار سنبھالا تب، مقدونیہ ایک غیر مؤثر ریاست کے طور پر جانی جاتی تھی۔ یونان میں ایتھنز، سپارٹا اور دوسری بڑی قوتیں موجود تھیں‌ جو مقدونیہ سے خائف تھیں۔

    ایک یونانی فلسفی اور مؤرخ پلوٹارک نے سکندر کی شخصیت کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کا رنگ تو گورا تھا لیکن چہرہ سرخی مائل تھا۔ سکندر کا قد ایک عام مقدونیائی کے مقابلے میں چھوٹا تھا لیکن میدان جنگ میں ان کے قد کا کوئی اثر نظر نہیں آتا تھا۔ سکندر داڑھی نہیں رکھتے تھے۔ اس کے رخسار پتلے تھے، جبڑا چوکور تھا اور ان کی آنکھیں شدید عزم کی عکاس تھیں۔

    مارکس کرٹیئس نے سکندر پر کتاب ‘ہسٹری آف الیگزینڈر’ میں لکھا ہے کہ ‘سکندر کے بال سنہرے اور گھنگریالے تھے۔ اس کی دونوں آنکھوں کا رنگ ایک دوسرے سے مختلف تھا۔ اس کی بائیں آنکھ سرمئی اور دائیں کالی تھی۔

    سکندرِ اعظم 356 قبلِ مسیح میں پیدا ہوا اور محققین کے مطابق 10 جون 323 میں وہ ملیریا کے شدید حملے کے بعد اپنے حواس کھو بیٹھا اور اسی حالت میں مر گیا۔ بعض مؤرخین نے یہ بھی لکھا کہ سکندر کو زہر دیا گیا تھا۔ بہرحال، سکندر نے محض 33 برس کی عمر میں کئی فتوحات اپنے نام کیں اور بہت سارے علاقوں پر اپنی حکومت قائم کرلی۔ مگر اس کے اکثر مفتوحہ علاقوں میں کچھ وقت کے بعد شورش بھی جنم لیتی رہی اور بغاوت کے بعد وہ اس کے ہاتھ سے نکل جاتے۔ یہی سکندرِ‌اعظم ہندوستان بھی آیا اور یہاں پنجاب اور سندھ میں بھی خیمہ زن ہوا۔ تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ سکندر کو سندھ میں بھی کچھ ایسے سخت حالات سے نمٹنا پڑا جب اسے سرکشی اور بغاوت کا سامنا تھا۔

    23 سال کی عمر میں سکندر نے 334 قبلِ مسیح میں یونان کے شہر مقدونیہ سے نکل کر دنیا کو فتح کرنے کی مہم شروع کی تھی۔ اس نے اپنے خطّے میں فتوحات کے بعد دوسری بادشاہتوں کو مٹاتے ہوئے ہندوستان کا رخ کیا۔ سکندر کی فوج میں ایک لاکھ سپاہی تھے جو دس ہزار میل کا سفر طے کر کے ایران کے راستے دریائے سندھ کے کنارے پہنچے۔ 326 قبل مسیح کے اوائل میں، جب سکندر ایران میں تھا تو ایران کے نزدیک ہندوستانی شہروں کی بادشاہتوں کے پاس قاصد روانہ کیے کہ وہ اس کے مطیع ہوجائیں۔ سکندر جیسے ہی کابل کی وادی میں پہنچے، بادشاہ اس سے ملنے پہنچنے لگے۔ ان میں سے ایک ہندوستانی شہر تکشلا (ٹیکسلا) کا حکمران امبھی بھی تھا۔ اس نے سکندر کے ساتھ اپنی وفاداری ظاہر کرنے کے لیے 65 ہاتھی اور کچھ سپاہی پیش کیے تاکہ وہ یہاں اپنی فتوحات جاری رکھ سکے۔ تکشلا کا بادشادہ امبھی دراصل یہ چاہتا تھا کہ سکندر اس کے دشمن پورس کے خلاف جنگ میں اس کا ساتھ دے۔

    سکندر ہندوکش کے راستے 326 قبلِ مسیح میں ’اوھند‘ کی جگہ سے دریائے سندھ کو پار کرکے ٹیکسلا پہنچا تھا جہاں کے بادشاہ سے مدد پانے کے بعد وہ جہلم پار کر کے پورس کے ساتھ جنگ میں کام یاب ہوا مگر پورس کے ساتھ وہ سلوک کیا جو اس کے وقار اور دبدبے میں اضافہ کرتا ہے۔ وہ پورس کو اپنا دوست کہنے لگا اور اس کی حکومت اسے سونپ دی۔

    سکندر کے سوانح نگار پلوٹارک لکھتے ہیں کہ ‘جب تک پورس لڑنے کی پوزیشن میں تھا اس نے سکندر کا زبردست مقابلہ کیا۔’ سکندر اس سے بہت متاثر ہوا اور یہ جنگ جیت کر بھی پورس کو اس کی حکومت دے کر چلا گیا۔

    مؤرخین کے مطابق سکندر کو اپنی فوج اور اپنے اہم لوگوں کی جانب سے کچھ دباؤ اور اختلافات کا سامنا کرنا پڑا اور سکندرِ اعظم جو اس سے آگے گنگا کے ساحل تک جانا چاہتا تھا سپاہیوں کے پس و پیش کو دیکھ کر اپنے ارادے سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہونے لگا۔ اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ ایک سپاہی نے فوج کے خیالات سکندر کے گوش گزار کیے اور کہا کہ اب ہم تھک چکے ہیں اور ہماری ہمت جواب دی چکی ہے، بہتر ہے کہ ہم واپس میسیڈونیا جائیں۔ اس کے بعد آپ ایک بار پھر نئی نسل کے ساتھ ایک اور مہم پر نکل جائیں۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو ہم اب اس سے آگے نہیں جا سکتے۔

    سکندر کو یہ بات پسند نہیں آئی اور وہ غصے سے اٹھ کر اپنے خیمے میں چلا گیا۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ سکندر سمجھتا تھا کہ اس کی فوج کے بڑے کسی وقت اس کے پاس آکر معافی مانگ لیں گے اور اپنی بات پر نادم ہوں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ آخر کار سکندر کو مزید آگے بڑھنے اور جنگیں لڑنے کے ارادے سے باز آیا اور یہ اعلان کیا کہ وہ مقدونیہ واپس جارہے ہیں۔دوسری طرف اس کے مفتوحہ علاقوں میں بغاوت بھی پھوٹ پڑی تھی اور وہ بادشاہ جو اب سکندر کو اپنا حاکم مان چکے تھے، اس کے آگے بڑھنے کے بعد باغی ہو جاتے تھے۔ اس سے سکندر بہت پریشان ہوگیا تھا۔

    بعض مؤرخین کے مطابق سکندر کی آخری منزل ’مگدھ‘ کی بادشاہی اور اُس سے آگے مشرقی سمندر تھا۔ مگر وہ اپنا خواب پورا نہ کر سکا۔

  • سکندرِ اعظم اور میر تقی میر

    سکندرِ اعظم اور میر تقی میر

    سکندر کا نام ایک عظیم فاتح کی حیثیت سے تاریخِ عالم میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ ‘سکندرِ اعظم’ یا ‘الیگزینڈر دی گریٹ’ کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ اس نے نوجوانی ہی میں لگ بھگ آدھی دنیا فتح کر لی تھی اور زندگی وفا کرتی تو شاید وہ پوری دنیا کا فاتح بن جاتا۔

    شاید آپ نے بھی کسی کو اس کی مسلسل اور شان دار کام یابیوں پر مبارک باد دیتے ہوئے ‘مقدّر کا سکندر’ کہا ہو، لیکن سکندرِ اعظم جیسا خوش بخت تاریخ میں‌ شاذ ہی ملے گا۔ سکندر نے کئی جنگیں لڑیں۔ تاریخ‌ میں اس کے ایسے کئی کارناموں کا ذکر کیا گیا ہے جنھیں عظیم اور بے مثال کہا جاسکتا ہے۔

    محققین نے لکھا ہے کہ وہ میسیڈونیا (مقدونیہ) کے شاہی خاندان کا فرد تھا جس نے 356 قبلِ مسیح میں جنم لیا۔ بہت کم عرصے میں اس کی حکومت یورپ سے لے کر ایشیا تک پھیل گئی تھی۔ سکندرِ اعظم کی سلطنت یونان سے لے کر ترکی، شام، مصر، ایران، عراق اور ہندوستان تک پھیلی ہوئی تھی۔

    فارس کی فتح کے بعد سکندر نے ہندوستان کا راستہ دیکھا، جہاں راجہ پورس اس کے مقابلے پر آیا، لیکن کہتے ہیں‌ کہ سکندر نے اسے شکست دینے کے باوجود اس لیے بخش دیا کہ وہ ایک جواں مرد اور جری و بہادر تھا۔ ہندوستان میں سکندر کی آمد اور یہاں مختلف علاقوں سے ہوکر دریائے جہلم کے کنارے راجہ پورس کی فوج سے لڑائی اور فتح کا ذکر بھی تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے۔ یونانی مؤرخین جن میں آرین، اسٹربیو اور دوسرے شامل ہیں، اس بات پر متّفق ہیں کہ سکندر 626 قبلِ مسیح میں ٹیکسلا سے ہوتا ہوا دریائے جہلم کے کنارے پہنچا تھا۔ یہاں کا علاقہ راجہ پورس کے زیرِ نگیں تھا۔ راجہ پورس کی ریاست کوئی بڑی ریاست نہیں تھی۔ پورس نے سکندر کی اطاعت قبول نہ کی تو مقابلہ شروع ہو گیا۔ پورس کی فوج نے یونانیوں کو دریا کے دوسری جانب روکے رکھنے کی کوشش کی، مگر ایسا نہ ہوسکا اور پورس کی فوج کو شکست ہوگئی۔

    سکندرِ اعظم کی عظمت کا ترانہ تو شاید رہتی دنیا تک پڑھا جائے گا، اور اردو کے ایک عظیم شاعر میر تقی میر نے بھی اپنے اشعار میں‌ اس کی شان و شوکت کا ذکر کیا ہے، لیکن ساتھ ہی اُس حقیقت کو ہمارے سامنے رکھ دیا ہے، جسے ہر دور کا حاکم، صاحبِ اختیار، اور دولت مند فراموش کیے رہتا ہے، یہاں تک کہ ایک دن اس کا وجود خاک میں مل جاتا ہے۔ میر تقی میر کے اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    صاحبِ جاہ وشوکت و اقبال
    اک اذاں جملہ اب سکندر تھا

    تھی یہ سب کائنات زیرِ نگیں
    ساتھ مور و ملخ سا لشکر تھا

    لعل و یاقوت ، ہم زر و گوہر
    چاہیے جس قدر، میسر تھا

    آخرِ کار جب جہاں سے گیا
    ہاتھ خالی، کفن سے باہر تھا

  • سیفو، یونان کی نام وَر شاعرہ جو بہت بدنام بھی ہے!

    سیفو، یونان کی نام وَر شاعرہ جو بہت بدنام بھی ہے!

    سرزمینِ یونان کو گہوارۂ علم و حکمت کہا جاتا ہے۔ قدیم تہذیبوں، ثقافتی تنوع اور رنگارنگی کے لیے مشہور یونان میں نہ صرف علم و ادب پروان چڑھا بلکہ اس سرزمین نے حُسن و عشق کی لازوال داستانوں کو بھی جنم دیا جنھیں آج بھی دہرایا جاتا ہے۔

    دنیا تسلیم کرتی ہے کہ یونانی تہذیب و ثقافت نے تاریخِ عالم پر اپنے گہرے اثرات مرتب کیے۔ اسی سَرزمین کا ایک تابندہ ستارہ سیفو یا ساپفو (Sappho) ہے جسے یونان کی ممتاز شاعرہ مانا جاتا ہے۔ اس شاعرہ کی زندگی اور موت بھی افسانوں اور قصّے کہانیوں سے آراستہ ہے۔

    تاریخ بتاتی ہے کہ سیفو 630 قبلِ مسیح میں شمالی یونان کے خوب صورت جزیرے لیسبوس کے علاقے ایریسوس میں پیدا ہوئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب یونان کے اس شہر میں‌ آزادئ نسواں کا چرچا تھا۔ سیفو مقامی عورتوں کو شاعری اور موسیقی کی تعلیم دیتی تھی۔ سیفو ایک شاعرہ کی حیثیت سے تو شناخت بنا ہی چکی تھی، لیکن لیسبوس میں‌ بدنام بھی بہت تھی۔ اسے ہم جنس پرست بھی کہا جاتا تھا، جب کہ اس کے کئی اسکینڈل بھی مشہور تھے۔ بعض روایات میں سیفو کو طوائف بھی کہا گیا ہے۔

    اردو ادب کے نام وروں میں میرا جی اور سلیم الرّحمٰن نے سیفو پر تفصیل سے لکھا ہے۔ انھوں نے سیفو سے منسوب اکثر باتوں کو فرضی اور مبالغہ آرائی قرار دیا ہے۔ بعض‌ ناقدین اور تذکرہ نویسوں کا خیال ہے کہ سیفو کی شاعری اور شہرت نے اس کے حاسدین جن میں‌ مرد اور عورتیں دونوں شامل ہیں، کو اس کے بارے میں‌ غلط باتیں‌ پھیلانے پر اکسایا اور اس کے خلاف پروپیگنڈا کیا گیا۔

    یونان کی اس ممتاز مگر بدنام شاعرہ کی شادی ایک امیر کبیر تاجر سے ہوئی جو چند سال بعد ہی دنیا سے چل بسا تھا۔

    اس شاعرہ کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ وہ مٹیلین کے ایک نوجوان ملّاح فاڈن پر عاشق تھی۔ فاڈن حسن و زیبائی میں بے مثل تھا۔ کچھ عرصہ فاڈن نے سیفو سے عشق لڑایا، لیکن پھر کنارہ کش ہو گیا۔ سیفو اس کی بے وفائی پر زندگی سے دلبرداشتہ ہوگئی اور زندگی کا خاتمہ کر لیا۔

    مشہور ہے کہ سیفو نے خود کُشی کے لیے دریائے ایپی کا انتخاب کیا۔ وہ ایک چٹان پر چڑھی اور دوڑتے ہوئے چھلانگ لگا دی جہاں دریا کی لہروں نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا۔ خود کُشی کا یہ واقعہ 570 قبلِ‌ مسیح کا ہے۔ تاہم بعض مؤرّخین اس خودکشی کو افسانہ قرار دیتے ہیں۔

    سیفو کی شاعری میں وارداتِ قلبی اور معاملہ بندی جیسے مضامین ملتے ہیں‌ جن میں سوز و گداز اور وارفتگی ہے۔ جدید نظم کے مشہور شاعر میرا جی نے سیفو کے متعلق لکھا ہے:

    ’’سیفو نہ صرف اپنے زمانے میں یونان کی سب سے بڑی شاعرہ گزری ہے بلکہ خالص تغزّل کے لحاظ سے وہ آج تک دنیا کی سب سے بڑی شاعرہ تصور کی جاتی ہے۔ اور اس کی شاعری میں دو باتوں نے ایک خاص دل چسپی پیدا کی ہے؛ پہلی بات یہ ہے کہ اس کا کلام کم یاب بلکہ نادر ہے۔ اب تک صرف ساٹھ کے قریب ٹکڑے اس کی شاعری کے مل سکے ہیں، اور اُن میں بھی صرف ایک نظم مکمل ہے اور دو تین بڑے ٹکڑے ہیں، باقی سب دو دو، تین تین سطروں کے جواہر پارے ہیں بلکہ بعض ٹکڑے تو صرف چند الفاظ پر مشتمل ہیں۔ لیکن یہ ادھورے ٹکڑے بھی چمکتے ہوئے ہیرے ہیں اور بھڑکتے ہوئے شعلے۔ دوسری بات اس کی رنگین سوانح حیات ہے۔‘‘

  • سکندرِ اعظم کا اشتیاق اور تجسس

    سکندرِ اعظم کا اشتیاق اور تجسس

    آئین اکبری میں ابوالفضل نے ٹلہ کو ہندوؤں کا ایک قدیم معبد قرار دیا ہے۔ اس قوم کے افراد ٹلہ کی بلند و بالا چوٹی پر بیٹھ کر سورج کی تپسیا کیا کرتے۔ انھوں نے ٹلہ میں ایک کمیٹی بھی بنائی ہوئی تھی جو ٹلہ پر آنے والے پجاریوں کے کھانے پینے کا انتظام کرتی اور سارا حساب رکھتی تھی۔ اس کمیٹی کے سربراہ کو ”مہنت“ کہتے تھے۔

    یہ جہلم میں واقع ہے اور ہزاروں سال پہلے جوگیوں کا مشہور استھان تھا، کہتے ہیں ایک زمانے میں یہ آفتاب پرست آریاؤں کا مرکز بھی رہ چکا تھا۔ ایک دور میں یہاں بدھوں کا زور رہا۔

    الغرض تاریخ بتاتی ہے کہ ٹلہ جوگیاں قبل مسیح ہی سے ایک مذہبی اور روحانی مرکز اور خاص شہرت کا حامل رہا ہے۔ اسے ”کوہِ بال ناتھ“ کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔ یہاں ہم سکندرِ اعظم کا ایک واقعہ پیش کررہے ہیں جس سے اس مقام کی اہمیت اور قدیم ہونے کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

    سکندر اعظم جب سیکڑوں صدیوں پہلے پنجاب کے اس علاقے میں آیا تو ٹلہ کو بلندی سے دیکھا۔

    اسے بتایا گیا کہ ٹلہ میں درویشوں اور جوگیوں کا سب سے بڑا استھان ہے جہاں پورا پنجاب حاضری دیتا ہے۔ وہاں سیکڑوں جوگی ”الکھ“ جگانے میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔ ہزاروں گائیوں کے پوتر دودھ سے وہ خوراک حاصل کرتے ہیں، وہ نہ صرف جڑی بوٹیوں کے خصائص سے واقف ہیں بلکہ ان سے لوگوں کا علاج معالجہ بھی کرتے اور ایک ”چٹکی سے روگ“ کا خاتمہ کردیتے ہیں۔

    یہی وہ عجیب غریب داستانیں تھیں جنھیں سن کر سکندر اعظم نے ٹلہ پر حاضری دینے کا فیصلہ کیا۔ اس کے دل میں عجب اشتیاق پیدا ہوا اورقدرتی طور پر تجسس نے جنم لیا، وہ اس مقام کو دیکھنا چاہتا تھا۔اس کے لیے وہ ایک ہاتھی پر سوار ہوکر جوگیوں کے بتائے ہوئے راستے ٹلہ کی چڑھائی چڑھنے لگا۔

    گو، ٹلہ کوئی بہت زیادہ چڑھائی پر واقع نہیں ہے لیکن ہاتھی نہ چڑھ سکا اور راستے میں ہلاک ہوگیا۔ لہٰذا سکندر کو پیدل اور گھوڑے کی سواری کے ذریعے چڑھائی عبور کرنی پڑی۔ اسی جگہ چند خوں ریز معرکے بھی ہوئے اور یہ بہت ہی مقدس مقام بھی رہا ہے۔

  • اسکندریہ: کیا دو ہزار سال پرانے تابوت سے سکندرِ اعظم کی باقیات نکل آئیں؟

    اسکندریہ: کیا دو ہزار سال پرانے تابوت سے سکندرِ اعظم کی باقیات نکل آئیں؟

    اسکندریہ: مصر کے شہر اسکندریہ سے دو ہزار سال پرانا تابوت بر آمد ہو گیا، ماہرین آثارِ قدیمہ میں اس حوالے سے سنسنی پھیل گئی کہ کیا اس میں سکندرِ اعظم کی باقیات دفن ہوں گی؟

    تفصیلات کے مطابق رواں ماہ کی پہلی تاریخ کو مصری ماہرین نے اسکندریہ میں ایک سیاہ رنگ کی گرینائٹ کا تابوت دریافت کیا، آثارِ قدیمہ کی وزارت کے مطابق مذکورہ مقبرہ سکندرِ اعظم کے دوست اور جنرل بطلیموس کے دور سے تعلق رکھتا ہے۔

    تابوت کی دریافت کے بعد مقامی آبادی میں اس بات کے حوالے سے سنسنی پھیل گئی تھی کہ کیا اس میں سے سکندرِ اعظم کی ’ممی‘ نکلے گی؟ ماہرین کے مطابق اسے دو ہزار سال بعد انھوں نے پہلی بار کھولا۔

    تابوت کھولنے سے قبل لوگوں میں یہ خوف بھی پھیل گیا تھا کہ کہیں اس میں سے کوئی ایسی قدیم مصری قوت نہ بر آمد ہو جو دنیا کو پھر سے تاریک دور کی طرف لے جائے۔

    وزارتِ آثار قدیمہ نے تابوت کھولنے کے لیے فوج کی خدمات حاصل کیں اور آس پاس علاقے کو احتیاطاً خالی کروایا، تابوت کھلنے پر اس میں سے تین ڈھانچے بر آمد ہوئے جو تیز سرخ رنگ کے پانی میں ڈوبے ہوئے تھے۔

    مصر: ساحل پرعجیب الخلقت مخلوق اچانک نمودار، شہری خوفزدہ

    سرخ رنگ کے پانی کو دیکھ کر علاقے میں افواہیں پھیل گئیں کہ ’ممی جوس‘ میں طبی یا مافوق الفطرت خصوصیات موجود ہیں، تاہم ماہرین نے خبر دار کیا یہ پارہ ہے جو لمحوں میں موت کے گھاٹ اتار سکتا ہے۔

    محکمۂ آثارِ قدیمہ کے سیکریٹری جنرل مصطفیٰ وزیری نے کہا ‘تابوت کے اندر سے تین لوگوں کی ہڈیاں نکلیں، یہ بہ ظاہر ایک خاندان کی مشترکہ قبر لگتی ہے۔ ممیاں اچھی حالت میں نہیں ہیں اور صرف ان کی ہڈیاں بچی ہیں۔’


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔