Tag: سکھ پیشوا

  • گُڑ، پانی کا کنواں اور بہڑ وال کی کہانی

    گُڑ، پانی کا کنواں اور بہڑ وال کی کہانی

    بہڑ وال، پندھویں صدی کے آخر بسایا گیا تھا۔ تاریخ کے صفحات بتاتے ہیں کہ اسے آروڑا قوم کے بہڑ نامی ایک شخص نے آباد کیا تھا اور اسی لیے گاؤں کا نام بہڑ وال پڑا۔

    پنجاب کے اس گاؤں کے ایک کنویں سے متعلق سکھوں کے پانچویں گرو کی ایک کرامت بھی سننے اور پڑھنے کو ملتی ہے۔

    روایت کچھ اس طرح ہے کہ ایک مرتبہ سکھوں کے روحانی پیشوا اپنے ارادت مندوں کے ساتھ اس علاقے سے گزرے۔ بہڑ وال کے نزدیک پہنچ کر آرام کرنے کی غرض سے ان کا قافلہ اس گاؤں میں داخل ہوا، مگر یہاں کسی نے ان کی مہمان نوازی نہ کی۔ گرو جی نے سب کو ساتھ والے گاؤں چلنے کا حکم دیا۔ وہاں کے لوگوں نے ان کی آمد پر خوشی کا اظہار کیا اور بہت خیال رکھا۔

    تذکروں میں ہے کہ جس روز گرو جی اور ان کے ارادت مندوں کا یہ قافلہ بہڑ وال پہنچا تھا، وہاں کا چوہدری کسی کام سے گاؤں سے باہر گیا ہوا تھا۔ واپسی پر اس کا گزر اسی گاؤں سے ہونا تھا جہاں سکھ گرو اور ان کا قافلہ اب ٹھیرا ہوا تھا۔ چوہدری اس راستے سے گزرا تو کسی نے اسے گرو جی کے بارے میں بتایا۔ اس پر چوہدری کے دل میں گرو جی کو دیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ وہ گاؤں میں داخل ہوا اور گرو جی تک پہنچ گیا۔

    روایات کے مطابق اس وقت گرو جی ایک چارپائی پر آرام کر رہے تھے اور ان کی آنکھیں بند تھیں۔ چوہدری سمجھا کہ گرو جی نیند میں ہیں۔ اس نے انھیں اپنے گاؤں لے جانے کا ارادہ کیا اور ان کی نیند خراب کرنے کے بجائے اپنے ساتھیوں کی مدد سے چارپائی اٹھائی اور گاؤں لے آیا۔ کہتے ہیں گرو جی اس کے اس عمل سے بہت خوش ہوئے اور اس موقع پر جب انھوں نے پینے کے لیے پانی طلب کیا تو معلوم ہوا کہ گاؤں سے فاصلے پر ایک ہی کنواں ہے اور اس کا پانی کھارا ہے۔

    مشہور ہے کہ یہ جان کر گرو جی نے تھوڑا سا گڑ منگویا اور کنویں پر پہنچ کر اس میں ڈال دیا۔ اسی روز سے کنویں کا پانی میٹھا ہو گیا اور گاؤں والوں کو جیسے ایک نعمت میسر آگئی۔ یہ کنواں کھو بڈے والا کے نام سے مشہور ہے۔

  • مسلمان صوفی اور سکھ پیشوا کی مذہبی رواداری!

    مسلمان صوفی اور سکھ پیشوا کی مذہبی رواداری!

    برصغیر میں بزرگانِ دین، اولیا و صوفیا کی تعلیمات پر نظر ڈالیں تو ان میں‌ محبت، رواداری، ہر فرد اور مذہب کا احترام سب سے روشن اور نمایاں ہے۔ اس کی ایک مثال امرتسر کا گولڈن ٹیمپل ہے.

    اس عبادت گاہ کی بنیاد سکھوں کے پیشوا گورو ارجن صاحب کی خواہش پر ایک مسلمان صوفی بزرگ حضرت میاں میر نے رکھی تھی۔ یہ سولہویں صدی کی بات ہے جس سے اس دور کی مذہبی رواداری اور شخصیات کی وسعتِ قلبی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

    یہ سنہری عبادت گاہ ایک خوب صورت تالاب پر تعمیر کی گئی ہے، جہاں سکھوں کے علاوہ سیاحوں کی ایک بڑی تعداد بھی موجود ہوتی ہے۔ سکھ اپنی اس عبادت گاہ کو مذہبی رواداری، محبت اور امن کی علامت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

    بھارتی ریاست امرتسر میں گولڈن ٹیمپل کے نام سے مشہور سکھوں کی سب سے بڑی عبادت گاہ کا اصل نام ‘‘ہرمندر صاحب’’ ہے۔ یہ مقام دربار صاحب بھی کہلاتا ہے، مگر دنیا بھر میں اسے گولڈن ٹیمپل کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ تاریخ نویسوں کے مطابق مہاراجا رنجیت سنگھ نے گولڈن ٹیمپل کی تزئین و آرائش اور تعمیراتی کام کے لیے 16 لاکھ 39 ہزار روپے عطیہ کیے تھے۔ یہ عبادت گاہ اپنے منفرد ڈیزائن کی وجہ سے ہندوستان کی خوب صورت عمارتوں میں شامل ہے۔

    اس عبادت گاہ کے گنبدوں پر سونے کا پانی چڑھایا گیا ہے۔ گولڈن ٹیمپل کے چار دروازے ہیں جس میں ہر دروازے کے اوپر ایک گنبد بنا ہوا ہے۔ اس طرح عبادت گاہ کی عمارت چار گنبدوں پر مشتمل ہے جن پر سونے کی پرت چڑھائی گئی ہے۔

    اس کے ایک گنبد پر تقریباً 40 کلو استعمال ہوا ہے۔ یعنی چاروں گنبدوں پر 160 کلو سونا چڑھایا گیا ہے جس کی اندازاً قیمت 50 کروڑ ہے۔ کہتے ہیں سونے کی تہیں چڑھانے کا مقصد صرف امارت ظاہر کرنا نہیں بلکہ یہ اس کی علامت ہے کہ گولڈن ٹیمپل کے دروازے تمام لوگوں کے لیے کھلے ہیں۔