Tag: سگنل

  • کیا چین کو خلائی مخلوق کے سگنل موصول ہوگئے؟ ذرائع ابلاغ نے خبر شائع کر کے ہٹا دی

    کیا چین کو خلائی مخلوق کے سگنل موصول ہوگئے؟ ذرائع ابلاغ نے خبر شائع کر کے ہٹا دی

    چین نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ خلائی مخلوق کی کسی تہذیب کے سگنل وصول کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے، تاہم اس خبر کے شائع ہونے کے بعد کچھ ہی دیر بعد اسے ہٹا دیا گیا۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق چین کا دعویٰ ہے کہ اس کی دیوہیکل اسکائی آئی دوربین ممکنہ طور پر ایلین (خلائی مخلوق) تہذیبوں کے سگنلز پکڑنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔

    ریاستی حمایت یافتہ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ڈیلی نے اس حوالے ایک رپورٹ شائع کی تھی، لیکن بعد میں اس دریافت کے بارے میں شائع شدہ رپورٹ اور پوسٹس کو حذف کر دیا گیا ہے۔

    رپورٹ میں بیجنگ نارمل یونیورسٹی، چائنیز اکیڈمی آف سائنسز کی قومی فلکیاتی رصد گاہ اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، برکلے کی ماورائے زمین تہذیب کی تلاش کی ٹیم کے چیف سائنس دان ژانگ ٹونجی کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ دنیا کی سب سے بڑی ریڈیو ٹیلی اسکوپ اسکائی آئی کے ذریعے دریافت کیے گئے نیرو (تنگ) بینڈ برقی مقناطیسی سگنلز پچھلے پکڑے گئے سگنلز سے مختلف ہیں اور ٹیم ان کی مزید جانچ کر رہی ہے۔

    یہ واضح نہیں ہے کہ رپورٹ کو بظاہر چین کی سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت کے سرکاری اخبار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ڈیلی کی ویب سائٹ سے کیوں ہٹا دیا گیا، حالانکہ یہ خبر پہلے ہی سوشل نیٹ ورک ویبو پر ٹرینڈ کرنا شروع کر چکی تھی اور دیگر بشمول ریاست کے زیر انتظام ذرائع ابلاغ نے بھی اسے شائع کیا تھا۔

    ستمبر 2020 میں اسکائی آئی، جو کہ چین کے جنوب مغربی صوبہ گوئیژو میں واقع ہے اور اس کا قطر 500 میٹر (1,640 فٹ) ہے، نے باضابطہ طور پر بیرونی زندگی کی تلاش کا آغاز کیا۔

    رپورٹ کے مطابق سائنس دان ژانگ نے بتایا کہ ٹیم نے 2019 میں جمع کیے گئے ڈیٹا پر کارروائی کرتے ہوئے 2020 میں مشکوک سگنلز کے دو سیٹوں کا پتہ لگایا، اور 2022 میں ایک اور مشکوک سگنل ایکسپو پلینیٹ کے اہداف کے مشاہدے سے ملا۔

    چین کی اسکائی آئی کم فریکوئنسی والے ریڈیو بینڈ میں انتہائی حساس ہے اور ایلین تہذیبوں کی تلاش میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ مشتبہ سگنلز تاہم کسی قسم کی ریڈیو مداخلت بھی ہو سکتے ہیں، اس پر مزید تفتیش کی ضرورت ہے۔

  • خلا میں اربوں سال کے فاصلے سے پراسرار سگنل موصول

    خلا میں اربوں سال کے فاصلے سے پراسرار سگنل موصول

    خلا اور خلائی مخلوق سے دلچسپی رکھنے والے افراد اس وقت نہایت تجسس میں مبتلا ہیں کیونکہ اربوں نوری سال کے فاصلے سے زمین پر کچھ سگنلز موصول ہوئے ہیں، یہ کہنا مشکل ہے کہ سگنل بھیجنے والے کون ہیں۔

    ناسا کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ڈیڑھ ارب نوری سال کے فاصلے سے کچھ ریڈیائی لہریں کینیڈا کی ایک ٹیلی اسکوپ کو موصول ہوئے ہیں۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ان لہروں کے سفر کی رفتار حیران کن ہے۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ وہ ان لہروں کو جانچنے سے قاصر ہیں، جس ٹیلی اسکوپ پر یہ سگنل موصول ہوئے ہیں اس نے کچھ عرصہ قبل ہی کام شروع کیا ہے۔

    کینیڈا کی ٹیلی اسکوپ جہاں سگنلز موصول ہوئے

    ٹیلی اسکوپ پر یہ موصول ہونے والی لہریں ایف آر بی یعنی فاسٹ ریڈیو برسٹ ہیں، یہ ایسی لہریں ہوتی ہیں جو بہت کم وقت کے لیے پیدا ہوتی ہیں اور ان کے حوالے سے عمومی خیال ہے کہ یہ کائنات کے دوسرے سرے سے آتی ہیں۔

    ماہرین اس بارے میں بھی اندھیرے ہیں کہ ایف بی آر نامی لہریں دراصل پیدا کیسے ہوتی ہیں چانچہ انہیں کائنات کا پراسرار ترین پیغام سمجھا جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: اسٹیفن ہاکنگ نے خلائی مخلوق سے کیوں خبردار کیا تھا؟

    ان لہروں کے بارے میں متضاد خیالات پائے جارہے ہیں، کچھ سائنسدانوں کے مطابق یہ لہریں نیوٹرون ستارے کی حرکت کا نتیجہ ہوسکتی ہیں۔ اس ستارے کی مقناطیسی سطح بہت طاقتور ہوتی ہے اور یہ بہت تیزی سے گھومتا ہے۔

    دوسری جانب ایسے سائنسدانوں کی بھی کمی نہیں جو ان لہروں کو خلائی مخلوق کا بھیجا گیا سگنل سمجھ رہے ہیں۔ ان لہروں کی اصل حقیقت جاننے کے لیے شاید کچھ وقت انتظار کرنا پڑے۔

  • خلائی مخلوق کو بلانا خطرناک اور زمین کی تباہی کا سبب

    خلائی مخلوق کو بلانا خطرناک اور زمین کی تباہی کا سبب

    چین کی جانب سے بنائی جانے والی دنیا کی سب سے بڑی دوربین نے حال ہی میں ستاروں، کہکشاؤں اور خلا کے پوشیدہ رازوں کے سگنل کی تلاش کا کام شروع کر دیا ہے۔

    اٹھارہ کروڑ ڈالر کی خطیر رقم اور 5 سال کی مدت میں تیار ہونے والے اس منصوبے سے خلا میں پوشیدہ رازوں کو بہتر طریقے سے جاننے میں مدد ملے گی۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس دوربین کی مدد سے خلائی مخلوق کے بارے میں بھی تحقیق کی جاسکے گی۔

    لیکن کیا خلائی مخلوق کو اپنی موجودگی سے آگاہ کرنا یا انہیں زمین پر آنے کی دعوت دینا درست ہے؟

    دور جدید کے مشہور سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ اسے ایک خطرناک عمل قرار دیتے ہوئے اس سے گریز کرنے کی ہدایت دیتے ہیں۔

    seti-2
    اسٹیفن ہاکنگ

    وہ بہت پہلے تنبیہہ کر چکے ہیں کہ خلا میں اپنی موجودگی کے ثبوت بھیجنے سے گریز کیا جائے ورنہ ہم زمین کے لیے ایک عظیم تباہی کو دعوت دے سکتے ہیں، ’اس معاملے میں بہت احتیاط کا مظاہرہ کرنا ضروری ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ خلا کی نامعلوم دنیا میں کس قسم کی مخلوق بستی ہے۔ آپ خلا میں اپنے سگنلز بھیج کر اس انجان مخلوق کو یہ بتا رہے ہیں کہ ہم یہاں ہیں‘۔

    وہ کہتے ہیں، ’ہوسکتا ہے، عین ممکن ہے کہ ان مخلوقات کی 99 فیصد آبادی امن پسند ہو، وہ شاعری، ادب اور آرٹ جیسی چیزوں کو پسند کرتی ہو۔ لیکن قوی امکان ہے کہ ان میں کم از کم 1 فیصد ایسے نہ ہوں۔ وہ 1 فیصد آبادی تخریب کارانہ جذبات رکھتی ہو۔ ہوسکتا ہے وہ ہماری موجودگی سے آگاہ ہو کر ہمیں تباہ کرنے کی کوشش کریں۔ ہر صورت میں یہ ایک خطرناک عمل ہے‘۔

    مزید پڑھیں: خلائی مخلوق 2025 میں منظرعام پر آجائے گی، ناسا کی پیش گوئی

    واضح رہے کہ اسٹیفن ہاکنگ کو صدی کا، آئن اسٹائن کے بعد دوسرا بڑا سائنسدان قرار دیا جاتا ہے۔ ان کی زیادہ تر تحقیق کائنات اور بلیک ہولز کے شعبہ پر مشتمل ہے۔ ان کی ایک کتاب ’وقت کی مختصر تاریخ‘ ایک شہرہ آفاق کتاب ہے جو ماہرین، سائنسدانوں اور عام افراد کے لیے یکساں دلچسپی رکھتی ہے۔

    ہاکنگ کا ماننا ہے کہ خلائی مخلوق کی تلاش میں کامیاب ہونا نسل انسانی کی تباہی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

    تاہم سیٹ شوسٹک کو اس خیال سے اختلاف ہے۔ شوسٹک ایک امریکی خلا باز ہیں اور فی الحال امریکا کے سیٹی انسٹیٹیوٹ میں پروفیسر کی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

    seti-1
    سیٹ شوسٹک

    امریکا کا سیٹی انسٹیٹیوٹ (سرچ فار ایکسٹرا ٹیرسٹریل انٹیلی جنس) غیر معمولی ذہانت (دماغوں) کی تلاش کا انسٹیٹیوٹ ہے اور اس کا کام ہی خلا سے باہر کسی دوسرے سیارے کی مخلوقات کو کھوجنا ہے۔

    اس کا ایلین ٹیلی اسکوپ خلا کی وسعتوں میں خلائی مخلوق کے سگنلز تلاش کرنے میں سرگرداں ہے۔

    seti-4
    ایلین ٹیلی اسکوپ

    شوسٹک کا کہنا ہے کہ ہم پچھلے 70 برس سے خلا میں اپنے سگنلز بھیج رہے ہیں۔ ’ہم ریڈیو بنا چکے ہیں، ہم ٹی وی تخلیق کرچکے ہیں جن کے اینٹینوں اور سگنلز کی برقی لہریں آسمانوں کی وسعت میں جارہی ہے۔ سب سے بڑی بات ہمارے پاس ریڈار ہے جو ہزاروں میل دور سفر کرنے والے جہاز کی صحیح سمت بتا سکتا ہے‘۔

    وہ کہتے ہیں، ’ہم مانتے ہیں کہ یہ کوئی بہت عظیم تخلیقات نہیں ہیں۔ لیکن اگر کائنات میں ہمارے علاوہ بھی کوئی مخلوق ہے، اور ہماری طرح وہ بھی دوسری دنیاؤں کی مخلوق سے رابطہ قائم کرنا چاہتی ہے تو اس کے لیے ان سنگلز کو پکڑنا کوئی زیادہ مشکل کام نہیں۔ وہ بآسانی ان سنگلز کو کیچ کر کے ہم سے رابطہ کر سکتے ہیں لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہوا‘۔

    مزید پڑھیں: امریکی سائنسدانوں کا خلائی مخلوق سے ازخود رابطہ کرنے کا فیصلہ

    شوسٹک کے مطابق ’اس کے دو ہی مطلب ہیں۔ یا تو کائنات میں ہمارے علاوہ اور کوئی موجود ہے ہی نہیں اور ہم اس عظیم اور وسیع کائنات میں اکیلے ہیں، یا اگر کوئی ہے بھی، تو وہ یقیناً اتنا ترقی یافتہ نہیں کہ ہمارے بھیجے گئے سگنلز کو پکڑ سکے‘۔

    زمین سے باہر کی دنیا انسانوں کے لیے ہمیشہ سے پراسرار اور دلچسپی کا باعث رہی ہے اور سائنسدان ہمیشہ سے دوسرے سیاروں پر زندگی تلاش کرنے کی کوششوں میں سرگرداں ہے۔

    حال ہی میں ناسا نے امکان ظاہر کیا ہے کہ نظام شمسی کے پانچویں سیارے مشتری کے 67 چاندوں میں سے ایک برفیلے چاند یوروپا کے نیچے ایک سمندر ہوسکتا ہے جس کے بعد اس سیارے پر خلائی مخلوق کی موجودگی کا بھی امکان ہے۔