Tag: سیاحت کا عالمی دن

  • پاکستان کے وہ 5 خوبصورت مقامات جہاں زندگی میں ایک بار ضرور جانا چاہیئے

    پاکستان کے وہ 5 خوبصورت مقامات جہاں زندگی میں ایک بار ضرور جانا چاہیئے

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج سیاحت کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ کرونا وائرس کی وجہ سے سفری پابندیوں کے باعث سال 2020 اور 2021 کے دوران پاکستان کی مقامی سیاحت میں بے حد اضافہ ہوا۔

    سیاحت کا عالمی دن ورلڈ ٹورازم آرگنائزیشن کی ایگزیکٹو کونسل کی سفارشات پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں قرارداد کی منظوری کے بعد سے 1970 سے ہر سال 27 ستمبر کو منایا جاتا ہے۔

    اس دن کو منانے کا مقصد سیاحت کے فروغ، نئے سیاحتی مقامات کی تلاش، آثار قدیمہ کو محفوظ بنانے، سیاحوں کے لیے زیادہ سے زیادہ اور جدید سہولیات پیدا کرنے، سیاحوں کے تحفظ ، نئے سیاحتی مقامات تک آسان رسائی سمیت دیگر متعلقہ امور کو فروغ دینا ہے۔

    پاکستان کا شمار اپنے جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے دنیا کے ان خوش قسمت ممالک میں ہوتا ہے جہاں ایک جانب بلند و بالا پہاڑ ہیں تو دوسری جانب وسیع وعریض زرخیز میدان بھی موجود ہیں۔

    دنیا کے بیشتر ممالک میں ایک بھی دریا نہیں بہتا جبکہ پاکستان کی سرزمین پر 17 بڑے دریا بہتے ہیں، یہاں سبزہ زار بھی ہیں اور ریگ زار بھی۔

    پاکستان میں مقبول ترین سیاحتی مقامات سوات، ہنزہ، ناران، کاغان اور مری وغیرہ سمجھے جاتے ہیں۔ تاہم آج ہم آپ کو ان مقامات کے علاوہ 5 نہایت خوبصورت مقامات کے بارے میں بتانے جارہے ہیں جہاں آپ کو زندگی میں کم از کم ایک بار ضرور سفر کرنا چاہیئے۔

    چندا ویلی

    چندا ویلی اسکردو سے قریب ایک وادی ہے جہاں قدرت نے حسن کے تمام جلوے بکھیر رکھے ہیں۔ سطح سمندر سے 10 ہزار فٹ بلند یہ ہری بھری وادی ایک غیر معروف سیاحتی مقام ہے چنانچہ شہروں کی بھیڑ بھاڑ سے دور یہاں زندگی کا حسین ترین وقت گزارا جاسکتا ہے۔

    وادی نلتر

    نلتر گلگت سے 40 کلو میٹر کی مسافت پر واقع ہے، یہ وادی اپنی رنگین جھیلوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ خزاں میں جب درختوں سے سنہری پتے جھڑتے ہیں تو یہ وادی جنت کا ٹکڑا معلوم ہونے لگتی ہے۔

    راما میڈو

    گلگت بلتستان کے ضلع استور سے 11 کلو میٹر دور واقع راما میڈو شمال کے خوبصورت ترین دیہات میں سے ایک قرار دیا جاسکتا ہے۔

    کھلا سرسبز میدان، میدان میں نالیوں کی صورت میں بہتا ٹھنڈا برف دودھیا پانی، پانی کے کناروں پر میدان میں جا بجا گائیں اور بھیڑیں، ارد گرد چیڑ کے لمبے سرسبز درخت، عقب میں پہاڑی ڈھلوان پر چیڑ کا جنگل، اس کے اوپر چونگڑا کی برف پوش چوٹی، چوٹی کے ساتھ نانگا پربت کی جنوبی دیوار اور نیلے آسمان پر پہاڑ کی چوٹیوں کو چھوتے بادلوں کا سحر انگیز منظر راما میڈو میں ہی مل سکتا ہے۔

    وادی نیلم

    وادی نیلم آزاد کشمیر کی ایک خوبصورت وادی ہے۔ یہ مظفر آباد کے شمال اور شمال مشرق میں دریائے نیلم کے دونوں اطراف واقع ہے۔ یہ وادی 144 کلو میٹر طویل ہے جو بلند و بالا پہاڑوں، گھنے جنگلات اور خوبصورت باغات پر مشتمل ہے۔

    ٹیکسلا

    صوبہ پنجاب کے شہر راولپنڈی میں واقع ٹیکسلا کے کھنڈرات تاریخی اہمیت رکھتے ہیں، یہ مقام گندھارا دور میں بدھ مت اور ہندو مت کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔

    یہاں گوتھک طرز کا ایک عجائب گھر ہے، جس میں پانچویں صدی قبل مسیح کے گندھارا آرٹ کے نمونے، 10 ہزار سکے، زیورات، ظروف اور دیگر نوادرات رکھے ہیں۔

  • سیاحت کا عالمی دن: اگر فردوس بر روئے زمیں است

    سیاحت کا عالمی دن: اگر فردوس بر روئے زمیں است

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج سیاحت کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ پاکستان سیاحتی مقامات اور قدرتی مناظر کے حسن سے مالا مال ملک ہے اور وزیر اعظم عمران خان کی ہدایات پر ملک میں سیاحت کے فروغ کے لیے بے شمار اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔

    سیاحت کا عالمی دن ورلڈ ٹورازم آرگنائزیشن کی ایگزیکٹو کونسل کی سفارشات پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں قرارداد کی منظوری کے بعد سے 1970 سے ہر سال 27 ستمبر کو منایا جاتا ہے۔

    اس دن کو منانے کا مقصد سیاحت کے فروغ، نئے سیاحتی مقامات کی تلاش، آثار قدیمہ کو محفوظ بنانے، سیاحوں کے لیے زیادہ سے زیادہ اور جدید سہولیات پیدا کرنے، سیاحوں کے تحفظ ، نئے سیاحتی مقامات تک آسان رسائی سمیت دیگر متعلقہ امور کو فروغ دینا ہے۔

    پاکستان کا شمار اپنے جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے دنیا کے ان خوش قسمت ممالک میں ہوتا ہے جہاں ایک جانب بلند و بالا پہاڑ ہیں تو دوسری جانب وسیع وعریض زرخیز میدان بھی موجود ہیں۔

    دنیا کے بیشتر ممالک میں ایک بھی دریا نہیں بہتا جبکہ پاکستان کی سرزمین پر 17 بڑے دریا بہتے ہیں، یہاں سبزہ زار بھی ہیں اور ریگ زار بھی۔

    آج ہم آپ کو پاکستان کے چاروں صوبوں میں سےمنتخب سیاحتی مقامات کے بارے میں معلومات فراہم کر رہے ہیں تاکہ آپ اپنی اگلی تعطیلات کے لیے جگہ کا انتخاب کرسکیں۔

    گورکھ ہل

    صوبہ سندھ کا مری کہلایا جانے والا گورکھ ہل سندھ کے شہردادو کے شمال مغرب کوہ کیر تھر پر واقع ہل اسٹیشن ہے۔ یہ صوبہ سندھ کا بلند ترین مقام ہے اور سطح سمندر سے 5 ہزار 688 فٹ بلند ہے جو کہ پاکستان کے مشہور ترین ہل اسٹیشن مری کا ہم پلہ ہے۔

    کراچی سے گورکھ ہل اسٹیشن کا فاصلہ 400 کلومیٹر ہے۔

    مہرانو وائلڈ لائف

    سندھ کے علاقے کوٹ ڈیجی سے 2 کلو میٹر کے فاصلے پر مہرانو وائلڈ لائف سنکچری واقع ہے۔ یہ ایک وسیع و عریض محفوظ جنگل ہے جہاں مختلف اقسام کی جنگلی حیات کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔

    یہاں ہزاروں کی تعداد میں جنگلی ہرن موجود ہیں جبکہ تیزی سے معدوم ہوتے کالے ہرن کو بھی یہاں تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے اور اب ان کی تعداد لگ بھگ 650 ہوگئی ہے۔

    صحرائے تھر

    سندھ کا صحرائے تھر پاکستان کی جنوب مشرقی اور بھارت کی شمال مغربی سرحد پر واقع ہے۔ اس کا رقبہ 2 لاکھ مربع کلومیٹر ہے۔ اس کا شمار دنیا کے نویں بڑے صحرا کے طور پر کیا جاتا ہے۔

    صحرا میں ہندوؤں کے قدیم مندروں سمیت کئی قابل دید مقامات موجود ہیں۔ یہاں یوں تو سارا سال قحط کی صورتحال ہوتی ہے تاہم بارشوں کے بعد اس صحرا کا حسن نرالا ہوتا ہے۔

    ہنگول نیشنل پارک

    صوبہ بلوچستان میں واقع ہنگول نیشنل پارک پاکستان کا سب سے بڑا نیشنل پارک ہے جو 6 لاکھ 19 ہزار 43 ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ کراچی سے 190 کلو میٹر دور یہ پارک بلوچستان کے تین اضلاع گوادر، لسبیلہ اور آواران کے علاقوں پر مشتمل ہے۔

    اس علاقہ میں بہنے والے دریائے ہنگول کی وجہ سے اسکا نام ہنگول نیشنل پارک رکھا گیا ہے۔ اس علاقے کو 1988 میں نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا۔ ہندوؤں کا معروف ہنگلاج مندر بھی اس پارک میں واقع ہے۔

    یہ پارک کئی اقسام کے جنگلی درندوں، چرندوں، آبی پرندوں، حشرات الارض، دریائی اور سمندری جانوروں کا قدرتی مسکن ہے۔ امید کی دیوی یا پرنسز آف ہوپ کہلایا جانے والا 850 سال قدیم تاریخی مجسمہ بھی اسی نیشنل پارک کی زینت ہے۔

    پیر غائب

    بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے 70 کلو میٹر کے فاصلے پر پیر غائب نامی مقبول تفریح گاہ ہے جہاں بلاشبہ بلوچستان کا سب سے خوبصورت آبشار واقع ہے۔

    آبشار سے بہنے والا پانی چھوٹے تالابوں کی صورت میں جمع ہوتا ہے اور کھجور کے درختوں کے ساتھ مل کر انتہائی دل آویز منظر تشکیل دیتا ہے، یہاں آنے کے لیے سبی روڈ سے جیپ لینا پڑتی ہے۔

    کھیوڑہ کی نمک کی کانیں

    پاکستان کے ضلع جہلم میں کھیوڑہ نمک کی کان واقع ہے۔ یہ جگہ اسلام آباد سے 160 جبکہ لاہور سے تقریباً 250 کلومیٹر فاصلہ پر ہے۔ کھیوڑہ میں موجود نمک کی یہ کان جنوبی ایشیا میں قدیم ترین کان ہے اور یہ دنیا کا دوسرا بڑا خوردنی نمک کا ذخیرہ ہے۔

    اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ جب سکندر اعظم 322 قبل مسیح میں اس علاقے میں آیا تو اس کے گھوڑے یہاں کے پتھر چاٹتے ہوئے دیکھے گئے۔ ایک فوجی نے پتھر کو چاٹ کر دیکھا تو اسے نمکین پایا۔ یوں اس علاقے میں نمک کی کان دریافت ہوئی۔

    اس کے بعد یہ کان یہاں کے مقامی راجہ نے خرید لی اور قیام پاکستان تک یہ کان مقامی جنجوعہ راجوں کی ملکیت رہی۔

    ملکہ کوہسار مری

    ملکہ کوہسار مری پاکستان کے شمال میں ایک مشہور اور خوبصورت سیاحتی تفریحی مقام ہے۔ مری شہر دارالحکومت اسلام آباد سے صرف ایک گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔

    مری کا سفر سرسبز پہاڑوں، گھنے جنگلات اور دوڑتے رقص کرتے بادلوں کے حسین نظاروں سے بھرپور ہے۔ گرمیوں میں سرسبز اور سردیوں میں سفید رہنے والے مری کے پہاڑ سیاحوں کے لیے بے پناہ کشش کا باعث ہیں۔

    مری سطح سمندر سے تقریباً 2300 میٹر یعنی 8000 فٹ کی بلندی پرواقع ہے۔ مری کی بنیاد سنہ 1851 میں رکھی گئی تھی اور یہ برطانوی حکومت کا گرمائی صدر مقام بھی رہا۔

    ایک عظیم الشان چرچ شہر کے مرکز کی نشاندہی کرتا ہے، چرچ کے ساتھ سے شہر کی مرکزی سڑک گزرتی ہے جسے مال روڈ کہا جاتا ہے۔

    جھیل سیف الملوک

    پاکستان کے صوبوں خیبر پختونخواہ اور گلگت بلتسان میں قدرتی حسن جابجا بکھرا پڑا ہے۔ جھیل سیف الملکوک بھی ان ہی میں سے ایک ہے۔ جھیل سیف الملوک وادی کاغان کے علاقے ناران میں 10 ہزار 578 فٹ کی بلندی پر واقع ہے اور اس کا شمار دنیا کی حسین ترین جھیلوں میں ہوتا ہے۔

    ناران سے بذریعہ جیپ یا پیدل یہاں تک پہنچا جا سکتا ہے۔ صبح کے وقت ملکہ پربت اور دوسرے پہاڑوں کا عکس اس میں پڑتا ہے۔ سال کے کچھ مہینے اس کی سطح برف سے جمی رہتی ہے۔

    اس جھیل سے انتہائی دلچسپ لوک کہانیاں بھی منسوب ہیں جو یہاں موجود افراد کچھ روپے لے کر سناتے ہیں۔ اگر آپ جھیل سے منسوب سب سے دلچسپ کہانی سننا چاہتے ہیں تو جھیل پر کالے خان نامی نوے سالہ بزرگ کو تلاش کیجیئے گا۔

    دیوسائی

    دیوسائی نیشنل پارک سطح سمندر سے 13 ہزار 500 فٹ اونچائی پر واقع ہے۔ یہ پارک 3 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ نومبر سے مئی تک پارک برف سے ڈھکا رہتا ہے۔ بہار کے موسم میں پارک پھولوں اور کئی اقسام کی تتلیوں کے ساتھ ایک منفرد نظارہ پیش کرتا ہے۔

    دیوسائی دو الفاظ کا مجموعہ ہے۔ دیو اور سائی یعنی دیو کا سایہ۔ ایک ایسی جگہ، جس کے بارے میں صدیوں یہ یقین کیا جاتا رہا کہ یہاں دیو بستے ہیں، آج بھی مقامی لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ یہ حسین میدان مافوق الفطرت مخلوق کا مسکن ہے۔

    یہاں دیکھتے ہی دیکھتے موسم خراب ہونے لگتا ہے، کبھی گرمیوں میں اچانک شدید ژالہ باری ہونے لگتی ہے۔ ہر لمحہ بدلتے موسم کی وجہ سے دیوسائی میں دھوپ چھاؤں کا کھیل بھی جاری رہتا ہے۔

    یہ علاقہ جنگلی حیات سے معمور ہونے کی وجہ سے انسان کے لیے ناقابل عبور رہا۔ برفانی اور یخ بستہ ہواﺅں، طوفانوں اور خوفناک جنگلی جانوروں کی موجودگی میں یہاں زندگی گزارنے کا تصور تو اس ترقی یافتہ دور میں بھی ممکن نہیں۔ اسی لیے آج تک اس خطے میں کوئی بھی انسان آباد نہیں۔

    شنگریلا

    شنگریلا گلگت بلتستان کے ضلع اسکردو میں قراقرم کے فلک شگاف پہاڑوں سے گھرا ہوا ایک دلکش اور دل لبھانے والا سیاحتی مقام ہے۔ یہاں سارا مقامی و غیر ملک سیاحوں کی آمد جاری رہتی ہے۔

  • قدرتی حسن سے مالامال پاکستان میں سیاحت کے وسیع مواقع موجود ہیں، وزیراعظم

    قدرتی حسن سے مالامال پاکستان میں سیاحت کے وسیع مواقع موجود ہیں، وزیراعظم

    نیویارک : وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ دنیا بھرکے سیاحوں، سرمایہ کاروں کو پاکستان آنے کی دعوت دیتا ہوں، غیرملکی سیاحوں کو یقین دلاتا ہوں پاکستان جنت محسوس ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق سیاحت کے عالمی دن پر وزیراعظم عمران خان نے اپنے پیغام میں کہا کہ قدرتی حسن سے مالا مال پاکستان میں سیاحت کے وسیع مواقع موجود ہیں۔

    وزیراعظم نے کہا کہ سیاحت سے روزگارکے مواقع بڑھیں گے،غربت کم کرنے میں مدد ملے گی۔

    انہوں نے کہا کہ دنیا بھرکے سیاحوں، سرمایہ کاروں کو پاکستان آنے کی دعوت دیتا ہوں، پاکستان میں اس وقت امن وامان کی صورت حال انتہائی تسلی بخش ہے، غیرملکی سیاحوں کو یقین دلاتا ہوں پاکستان جنت محسوس ہوگا۔

    وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ سیاحت سے معاشی سرگرمیاں اورغیرملکی زرمبادلہ میں اضافہ ہوتا ہے، سیاحوں کو سہولتوں کی فراہمی کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کر رہے ہیں۔

    سیاحت کا عالمی دن ورلڈ ٹورازم آرگنائزیشن کی ایگزیکٹو کونسل کی سفارشات پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں قرارداد کی منظوری کے بعد سے 1970 سے ہر سال 27 ستمبر کو منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد سیاحت کے فروغ، نئے سیاحتی مقامات کی تلاش، آثار قدیمہ کو محفوظ بنانے، سیاحوں کے لیے زیادہ سے زیادہ اور جدید سہولیات پیدا کرنے، سیاحوں کے تحفظ ، نئے سیاحتی مقامات تک آسان رسائی سمیت دیگر متعلقہ امور کو فروغ دینا ہے۔

    سیاحت کا عالمی دن: پاکستان کے خوبصورت سیاحتی مقامات

    پاکستان قدرتی حسن سے مالا مال ملک ہے۔ا گر یہاں سیاحت کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے تو صرف سیاحت ہماری معیشت میں ایک بڑے اضافے کا سبب بن سکتی ہے۔ دہشت گردی کے باوجود اب بھی پاکستان کے شمالی علاقوں میں غیر ملکی سیاحوں کی آمد جاری ہے جو پاکستان کے سحر انگیز اور دیو مالائی قدرتی حسن کا ثبوت ہے

  • ماضی کی حکومتوں نے سیاحتی مقامات پر کوئی توجہ نہیں دی،عثمان بزدار

    ماضی کی حکومتوں نے سیاحتی مقامات پر کوئی توجہ نہیں دی،عثمان بزدار

    لاہور: وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کا کہنا ہے کہ سیاحت کو فروغ دے کر پاکستان کا مثبت چہرہ دنیا کے سامنے لائیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب نے سیاحت کے عالمی دن پر اپنے پیغام میں کہا کہ سیاحت کوصنعت کا درجہ دے کر نئی پالیسی تشکیل دی گئی ہے۔

    سردار عثمان بزدار نے کہا کہ ماضی کی حکومتوں نے سیاحتی مقامات پر کوئی توجہ نہیں دی، پاکستان انتہائی دلکش اور خوبصورت سیاحتی مقامات سے بھرا ہے۔

    وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ سیاحتی مقامات بہتربنانے، سیاحوں کی سہولتوں کے لیے اقدامات کیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سیاحت کو فروغ دے کر پاکستان کا مثبت چہرہ دنیا کے سامنے لائیں گے۔

    سیاحت کا عالمی دن ورلڈ ٹورازم آرگنائزیشن کی ایگزیکٹو کونسل کی سفارشات پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں قرارداد کی منظوری کے بعد سے 1970 سے ہر سال 27 ستمبر کو منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد سیاحت کے فروغ، نئے سیاحتی مقامات کی تلاش، آثار قدیمہ کو محفوظ بنانے، سیاحوں کے لیے زیادہ سے زیادہ اور جدید سہولیات پیدا کرنے، سیاحوں کے تحفظ ، نئے سیاحتی مقامات تک آسان رسائی سمیت دیگر متعلقہ امور کو فروغ دینا ہے۔

    سیاحت کا عالمی دن: پاکستان کے خوبصورت سیاحتی مقامات

    پاکستان قدرتی حسن سے مالا مال ملک ہے۔ا گر یہاں سیاحت کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے تو صرف سیاحت ہماری معیشت میں ایک بڑے اضافے کا سبب بن سکتی ہے۔ دہشت گردی کے باوجود اب بھی پاکستان کے شمالی علاقوں میں غیر ملکی سیاحوں کی آمد جاری ہے جو پاکستان کے سحر انگیز اور دیو مالائی قدرتی حسن کا ثبوت ہے۔

  • سیاحت کا عالمی، پاکستان میں سیاحت کے 12 بہترین مقامات

    سیاحت کا عالمی، پاکستان میں سیاحت کے 12 بہترین مقامات

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں سیاحت کا عالمی دن منایا جارہا ہے، آج کے دن کو منانے کا مقصد سیاحت کی بدلتی ہوئی ترجیحات اور اس کی ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن ہے، پاکستان میں سیاحت کے لیے وسیع ترمواقع میسر ہیں۔

    سیاحتی مقامات اپنے اندر قدرتی طورپرایسی کشش رکھتے ہیں کہ زمانہ قدیم سے سیاحت کے شوقین افراد ان کا مشاہدہ کرنے کے لئے دوردرازکے سفراختیار کرتے رہے ہیں۔ پاکستان کا شماراپنے جغرفیائی محلِ وقوع کے لحاظ سے دنیا کے ان خوش قسمت ممالک میں ہوتا ہے جہاں ایک جانب بلند و بالا پہاڑ ہیں تو دوسری جانب وسیع وعریض زرخیزمیدان بھی موجود ہیں۔

    دنیا کے بیشترممالک میں ایک بھی دریا نہیں بہتا جبکہ پاکستان کی سرزمین پر17 بڑے دریا بہتے ہیں، یہاں سبزہ زار بھی ہیں اور ریگ زار بھی، ہمارے وطن عزیز میں چاروں موسم آتے ہیں اور اپنی چھب دکھاتے ہیں ۔الغرض ہرمزاج کے ملکی اورغیر ملکی سیاحوں کے لئے قدرت نے یہاں دل پذیری کا بھرپورانتظام کررکھا ہے۔

    آج ہم آپ کو پاکستان کے چاروں صوبوں میں سےمنتخب سیاحتی مقامات کے بارے میں معلومات فراہم کررہے ہیں تاکہ آپ طے کرسکیں کہ گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے کے لئے آپ کےمزاج کے مطابق موزوں ترین علاقہ کون ساہے۔

    گورکھ ہل


    سندھ کے شہردادوکے شمال مغرب کوہ کیرتھر پرگورکھ ہل اسٹیشن واقع ہے، یہ صوبہ سندھ کا بلند ترین مقام ہے اور سطح سمندر سے5،688فٹ بلند ہے جوکہ پاکستان کے مشہور ترین ہل اسٹیشن مری کا ہم پلہ ہے۔ کراچی سے گورکھ ہل اسٹیشن کا فاصلہ 400 کلومیٹرہے ۔

    گورکھ ہل کا حسین منظر

    مہرانو وائلڈ لائف


    سندھ کے علاقے کوٹ دیضی سے دو کلومیٹر کے فاصلے پرمہرانو وائلڈ لائف سینچری واقع ہے یہ ایک وسیع و عریض محفوظ جنگل ہے جہاں مختلف اقسام کی جنگلی حیات کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ یہاں ہزاروں کی تعداد میں جنگلی ہرن موجود ہیں جبکہ تیزی سے معدوم ہوتے کالے ہرن کو بھی یہاں تحفظ فراہم کیا جارہاہے اور اب انکی تعداد لگ بھگ 650 ہوگئی ہے۔

    مہرانو میں تحفظ یافتہ کالے ہرن

    ہنگول نیشنل پارک


    بلوچستان میں واقع ہنگول نیشنل پارک پاکستان کا سب سے بڑا نیشنل پارک ہے جو 6،19،043 ایکڑرقبے پرپھیلا ہوا ہے۔ کراچی سے 190 کلومیٹر دوریہ پارک بلوچستان کے تین اضلاع گوادر،لسبیلہ اورآواران کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ اس علاقہ میں بہنے والے دریائے ہنگول کی وجہ سے اسکا نام ہنگول نیشنل پارک رکھا گیا ہے۔ اس علاقہ کو 1988میں نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا۔ ہندوؤں کا معروف ہنگلاج مندربھی اس پارک میں‌واقع ہے

    یہ پارک کئی اقسام کے جنگلی درندوں ، چرندوں آبی پرندوں ، حشرات الارض دریائی اور سمندری جانوروں کا قدرتی مسکن ہے۔امید کی دیوی یا پرنسز آف ہوپ کہلایا جانے والا 850سال قدیم تاریخی مجسمہ بھی اسی نیشنل پارک کی زینت ہے۔

    پیرغائب


    بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے 70 کلومیٹر کے فاصلے پرپیرغائب نامی مقبول تفریح گاہ ہے جہاں بلاشبہ بلوچستان کا سب سے خوبصورت آبشارواقع ہے۔ آبشار سے بہنے والا پانی چھوٹے تالابوں کی صورت جمع ہوتا ہے اور کھجور کے درختوں کے ساتھ مل کر انتہائی دل آویز منظر تشکیل دیتا ہے۔ یہاں آنے کے سبی روڈ سے جیپ لینا پڑتی ہے۔

    پیر غائب کا فضائی منظر

    کھیوڑہ کی نمک کی کانیں


    پاکستان کے ضلع جہلم میں کھیوڑہ نمک کی کان واقع ہے۔ یہ جگہ اسلام آباد سے 160 جبکہ لاہور سے قریبا 250 کلومیٹرفاصلہ پرہے۔

    کھیوڑہ میں موجود نمک کی یہ کان جنوبی ایشیا میں قدیم ترین ہے اور دنیا میں دوسرا بڑا خوردنی نمک کا ذخیرہ ہے۔ اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ جب سکندر اعظم 322 ق م میں اس علاقے میں آیا تو اس کے گھوڑے یہاں کے پتھر چاٹتے ہوئے دیکھے گئے۔ ایک فوجی نے پتھرکو چاٹ کر دیکھا تو اسے نمکین پایا۔

    کھیوڑہ کی کان میں بنی نمک کی مسجد

    یوں اس علاقے میں نمک کی کان دریافت ہوئی۔ اس کے بعد یہ کان یہاں کے مقامی راجہ نے خرید لی اور قیام پاکستان تک یہ کان مقامی جنجوعہ راجوں کی ملکیت رہی۔

    روہتاس کا قلعہ


    شیرشاہ سوری کا تعمیرکردہ قلعہ روہتاس 948ھ میں مکمل ہوا، جو پوٹھوہار اورکوہستان نمک کی سرزمین کے وسط میں تعمیر کیا گیا۔ اس کے ایک طرف نالہ کس، دوسری طرف نالہ گھان اور تیسری طرف گہری کھائیاں اور گھنا جنگل ہے۔ شیر شاہ سوری نے یہ قلعہ گکھڑوں کی سرکوبی کے لئے تعمیر کرایا تھا۔

    دوسرے قلعوں سے ہٹ کر قلعہ روہتاس کی تعمیر چھوٹی اینٹ کی بجائے دیوہیکل پتھروں سے کی گئی ہے۔ ان بڑے بڑے پتھروں کو بلندیوں پر نصب دیکھ کر عقل حیران رہ جاتی ہے۔

    روہتاس – کٹاس راج مندر اور اس کی جھیل

    ایک روایت کے مطابق اس قلعے کی تعمیر میں عام مزدروں کے علاوہ بے شمار بزرگانِ دین نے بھی اپنی جسمانی اور روحانی قوتوں سمیت حصہ لیا۔ ان روایات کو اس امر سے تقویت ملتی ہے کہ قلعے کے ہر دروازے کے ساتھ کسی نہ کسی بزرگ کا مقبرہ موجود ہے، جبکہ قلعہ کے اندر بھی جگہ جگہ بزرگوں کے مقابر پھیلے ہوئے ہیں۔

    ملکہ کوہسارمری


    ملکہ کوہسارمری پاکستان کے شمال میں ایک مشہوراورخوبصورت سیاحتی تفریحی مقام ہے۔ مری شہردارالحکومت اسلام آباد سے صرف ایک گھنٹے کی مسافت پرواقع ہے۔ مری کا سفرسرسبز پہاڑوں، گھنے جنگلات اوردوڑتے رقص کرتے بادلوں کے حسین نظاروں سے بھرپور ہے۔ گرمیوں میں سرسبز اورسردیوں میں سفید رہنے والے مری کے پہاڑ سیاحوں کے لیے بے پناہ کشش کاباعث ہیں۔

    ملکہ کوہسار – جب وہ برف اوڑھ لیتی ہے

    مری سطح سمندر سے تقریباً 2300 میٹر یعنی 8000 فُٹ کی بلندی پرواقع ہے۔ مری کی بنیاد 1851 میں رکھی گئی تھی اور یہ برطانوی حکومت کا گرمائی صدرمقام بھی رہا۔ ایک عظیم الشان چرچ شہرکے مرکزکی نشاندہی کرتا ہے۔ چرچ کے ساتھ سے شہر کی مرکزی سڑک گزرتی ہے جسے’مال روڈ‘ کہا جاتا ہے۔

    ایوبیہ


    ایوبیہ نیشنل پارک مری سے 26 کلومیٹر دور صوبہ سرحد، پاکستان میں واقع ہے۔ سابق صدر پاکستان جناب ایوب خان کے نام پر اس علاقے کا نام ایوبیہ رکھا گیا۔ چار مختلف پہاڑی مقامات گھوڑا گلی، چھانگلہ گلی، خیرا گلی اور خانسپور کو ملا کر ایوبیہ تفریحی مقام بنایا گیا۔

    ایوبیہ چیئر لفٹ

    ٹھنڈیانی


    ٹھنڈیانی ضلع ایبٹ آباد کے جنوب میں واقع ہے۔ ایبٹ آباد شہر سے اسکا فاصلہ تقریبا 31 کلو میٹر ہے۔ اسکے مشرق میں دریائے کنہار اور کشمیر کا پیر پنجال سلسلہ کوہ واقع ہے۔ شمال اور شمال مشرق میں کوہستان اور کاغان کے پہاڑ نظر آتے ہیں۔ شمال مغرب میں سوات اور چترال کے برف پوش پہاڑ ہیں۔ ٹھنڈیانی سطح سمندر سے 9000فٹ (2750 میٹر) بلند ہے۔

    ٹھنڈیانی

    ملکہ پربت اورسیف الملوک


    جھیل سیف الملوک وادی کاغان کے علاقے ناران میں 3224 میٹر/10578 فٹ کی بلندی پرمیں واقع ہے اوراس کا شمار دنیا کی حسین ترین جھیلوں میں ہوتا ہے۔ ناران سے بذریعہ جیپ یا پیدل یہاں تک پہنچا جا سکتا ہے۔ دنیا بھر سے سیاح اسے دیکھنے کے لئے آتے ہیں۔ صبح کے وقت ملکہ پربت اوردوسرے پہاڑوں کا عکس اس میں پڑتا ہے۔ سال کے کچھ مہینے اس کی سطح برف سے جمی رہتی ہے۔

    جھیل سیف الملوک

    جھیل سے انتہائی دلچسپ لوک کہانیاں بھی منسوب ہیں جو یہاں موجود افراد کچھ روپے لےکرسناتے ہیں اوراگر آپ جھیل سے منسوب سب سے دلچسپ کہانی سننا چاہتے ہیں تو جھیل پر کالے خان نامی نوے سالہ بزرگ کو تلاش کیجئے گا۔

    منٹھوکا آبشار


    بلتستان کے مرکزی شہر اسکردو سے 40 کلومیٹر کے فاصلے پر مادو پور نامی گاؤں ہے جس کے نزدیک پاکستان کا سب سے بڑا آبشار منٹھوکا ہے جس کی اونچائی لگ بھگ 140 فت ہے۔ یہاں آنے کے لئے آپ کواسکردو سے گاڑی کرایے پر لینی ہوگی اور اگر آپ کے پاس اپنی ذاتی گاڑی ہے تو بھی آپ باآسانی یہاں پہنچ سکتے ہیں۔

    منٹھوکا آبشار کا حسین منظر

    دیوسائی


    دیوسائی نیشنل پارک سطح سمندر سے 13،500 فٹ اونچائی پر واقع ہے۔ پارک 3000 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ نومبر سے مئی تک پارک برف سے ڈھکا رہتا ہے۔ بہار کے موسم میں پارک پھولوں اور کئی اقسام کی تتلیوں کے ساتھ ایک منفرد نظارہ پیش کرتا ہے۔

    دیوسائی دو الفاظ کا مجموعہ ہے ‘دیو’ اور ‘سائی’ یعنی ‘دیو کا سایہ۔’ ایک ایسی جگہ، جس کے بارے میں صدیوں یہ یقین کیا جاتا رہا کہ یہاں دیو بستے ہیں۔ آج بھی مقامی لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ یہ حسین میدان مافوق الفطرت مخلوق کا مسکن ہے۔ یہاں دیکھتے دیکھتے ہی موسم خراب ہونے لگتا ہے، کبھی گرمیوں میں اچانک شدید ژالہ باری ہونے لگتی ہے۔ ہر لمحہ بدلتے موسم کی وجہ سے دیوسائی میں دھوپ چھاؤں کا کھیل بھی جاری رہتا ہے۔

    یہ علاقہ جنگلی حیات سے معمور ہونے کے باوجود انسان کے لیے ناقابل عبور رہا۔ برفانی اور یخ بستہ ہواؤں، طوفانوں، اور خوفناک جنگلی جانوروں کی موجودگی میں یہاں زندگی گزارنے کا تصور تو اس ترقی یافتہ دور میں بھی ممکن نہیں۔ اسی لیے آج تک اس خطے میں کوئی بھی انسان آباد نہیں۔

    دیوسائی – جھیل کا ایک نظارہ

     

  • نئے پاکستان میں سیاحت کا شعبہ ترجیحات میں شامل ہے‘ وزیراعلیٰ پنجاب

    نئے پاکستان میں سیاحت کا شعبہ ترجیحات میں شامل ہے‘ وزیراعلیٰ پنجاب

    لاہور: وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کا کہنا ہے کہ سیاحتی سرگرمیوں کا فروغ معیشت کے استحکام کے لیے ضروری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدارنے سیاحت کے عالمی دن پر اپنے پیغام میں کہا کہ نئے پاکستان میں سیاحت کا شعبہ ترجیحات میں شامل ہے۔

    سردار عثمان بزدار نے کہا کہ شعبے کی پائیدار ترقی کے ذریعے معیشت کو مضبوط کریں گے، سیاحتی سرگرمیوں کا فروغ معیشت کے استحکام کے لیے ضروری ہے۔

    وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ پاکستان میں سیاحتی شعبے میں ترقی کے وسیع مواقع موجود ہیں، شعبے کی پائیدار ترقی سے روزگاراورآمدن کے مواقع پیدا کیے جاسکتے ہیں۔

    قوم کی ایک ایک پائی کے امین ہیں، وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار

    یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا کہنا تھا کہ کفایت شعاری اورسادگی کو فروغ دے رہے ہیں ، قوم کی ایک ایک پائی کے امین ہیں، عوام جلد ملک کو ترقی کی راہ پر تیزی سے گامزن ہوتا دیکھیں گے۔

    وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا کہ کفایت شعاری اورسادگی کو فروغ دے رہے ہیں، اخراجات کم کریں گے، بچنے والاپیسہ عوامی فلاح پرلگائیں گے۔

  • سیاحت کا عالمی دن: پاکستان کے خوبصورت سیاحتی مقامات

    سیاحت کا عالمی دن: پاکستان کے خوبصورت سیاحتی مقامات

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج سیاحت کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔

    سیاحت کا عالمی دن ورلڈ ٹورازم آرگنائزیشن کی ایگزیکٹو کونسل کی سفارشات پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں قرارداد کی منظوری کے بعد سے 1970 سے ہر سال 27 ستمبر کو منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد سیاحت کے فروغ، نئے سیاحتی مقامات کی تلاش، آثار قدیمہ کو محفوظ بنانے، سیاحوں کے لیے زیادہ سے زیادہ اور جدید سہولیات پیدا کرنے، سیاحوں کے تحفظ ، نئے سیاحتی مقامات تک آسان رسائی سمیت دیگر متعلقہ امور کو فروغ دینا ہے۔

    پاکستان قدرتی حسن سے مالا مال ملک ہے۔ا گر یہاں سیاحت کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے تو صرف سیاحت ہماری معیشت میں ایک بڑے اضافے کا سبب بن سکتی ہے۔ دہشت گردی کے باوجود اب بھی پاکستان کے شمالی علاقوں میں غیر ملکی سیاحوں کی آمد جاری ہے جو پاکستان کے سحر انگیز اور دیو مالائی قدرتی حسن کا ثبوت ہے۔

    یہاں ہم آپ کو پاکستان کے چند خوبصورت سیاحتی مقامات کی سیر کروا رہے ہیں۔


    :کے ٹو

    k2-1

    بیرونی کوہ پیماؤں کی کشش کا باعث بننے والی دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو پاکستان کے صوبہ گلگت بلتستان میں موجود ہے۔ 8 ہزار 611 میٹر کی بلندی رکھنے والی اس چوٹی کو سر کرنے کے لیے ہر سال بے شمار ملکی و غیر ملکی کوہ پیما رخت سفر باندھتے ہیں لیکن کامیاب کم ہی ہو پاتے ہیں۔


    :چترال

    chitral-1

    ضلع چترال پاکستان کے انتہائی شمالی کونے پر واقع ہے۔ یہ ضلع ترچ میر کے دامن میں واقع ہے جو کہ سلسلہ کوہ ہندوکش کی بلند ترین چوٹی ہے جو اسے وسط ایشیا کے ممالک سے جدا کرتی ہے۔ اپنے منفرد جغرافیائی محل وقع کی وجہ سے اس ضلع کا رابطہ ملک کے دیگر علاقوں سے تقریباً 5 ماہ تک منقطع رہتا ہے۔

    chitral-2

    اپنی مخصوص پرکشش ثقافت اور پراسرار ماضی کے حوالے سے چترال نے سیاحت کے نقطہ نظر سے کافی اہمیت اختیار کرلی ہے۔


    :گورکھ ہل

    gorakh-hill-1

    سندھ کے شہر دادو کے شمال مغرب کوہ کیر تھر پر گورکھ ہل اسٹیشن واقع ہے۔ یہ صوبہ سندھ کا بلند ترین مقام ہے اور سطح سمندر سے 5 ہزار 688 فٹ بلند ہے جو کہ پاکستان کے مشہور ترین ہل اسٹیشن مری کا ہم پلہ ہے۔

    gorakh-hill-2

    کراچی سے گورکھ ہل اسٹیشن کا فاصلہ 400 کلو میٹر ہے۔


    :ہنگول نیشنل پارک

    hingol-1

    بلوچستان میں واقع ہنگول نیشنل پارک پاکستان کا سب سے بڑا نیشنل پارک ہے جو 6 لاکھ 19 ہزار 43 ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ کراچی سے 190 کلو میٹر دور یہ پارک بلوچستان کے تین اضلاع گوادر، لسبیلہ اور آواران کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ اس علاقہ میں بہنے والے دریائے ہنگول کی وجہ سے اس کا نام ہنگول نیشنل پارک رکھا گیا ہے۔ اس علاقہ کو 1988 میں نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا۔ ہندوؤں کا معروف ہنگلاج مندر بھی اس پارک میں‌ واقع ہے۔

    hingol-3

    یہ پارک کئی اقسام کے جنگلی درندوں، چرندوں، آبی پرندوں، حشرات الارض، دریائی اور سمندری جانوروں کا قدرتی مسکن ہے۔ بلوچستان کا مشہور امید کی دیوی یا پرنسز آف ہوپ کہلایا جانے والا 850 سالہ قدیم تاریخی مجسمہ بھی اسی نیشنل پارک کی زینت ہے۔


    :کھیوڑہ کی نمک کی کانیں

    پاکستان کے ضلع جہلم میں کھیوڑہ نمک کی کان واقع ہے۔ یہ جگہ اسلام آباد سے 160 جبکہ لاہور سے قریباً 250 کلومیٹر فاصلہ پر ہے۔

    khewra-1

    کھیوڑہ میں موجود نمک کی یہ کان جنوبی ایشیا میں قدیم ترین کان ہے اور یہ دنیا کا دوسرا بڑا خوردنی نمک کا ذخیرہ ہے۔ اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ جب سکندر اعظم 322 ق م میں اس علاقے میں آیا تو اس کے گھوڑے یہاں کے پتھر چاٹتے ہوئے دیکھے گئے۔ ایک فوجی نے پتھر کو چاٹ کر دیکھا تو اسے نمکین پایا۔ یوں اس علاقے میں نمک کی کان دریافت ہوئی۔

    kehwra-2

    اس کے بعد یہ کان یہاں کے مقامی راجہ نے خرید لی اور قیام پاکستان تک یہ کان مقامی جنجوعہ راجوں کی ملکیت رہی۔


    :ایوبیہ

    ayubia-1

    ایوبیہ نیشنل پارک مری سے 26 کلومیٹر دور صوبہ خیبر پختونخوا میں واقع ہے۔ سابق صدر پاکستان ایوب خان کے نام پر اس علاقے کا نام ایوبیہ رکھا گیا۔

    ayubia-2

    چار مختلف پہاڑی مقامات گھوڑا گلی، چھانگلہ گلی، خیرا گلی اور خانسپور کو ملا کر ایوبیہ تفریحی مقام بنایا گیا۔


    :ٹھنڈیانی

    thandiani-1

    ٹھنڈیانی ضلع ایبٹ آباد کے جنوب میں واقع ہے۔ ایبٹ آباد شہر سے اس کا فاصلہ تقریباً 31 کلو میٹر ہے۔ اس کے مشرق میں دریائے کنہار اور کشمیر کا پیر پنجال سلسلہ کوہ واقع ہے۔

    thandiani-2

    شمال اور شمال مشرق میں کوہستان اور کاغان کے پہاڑ نظر آتے ہیں۔ شمال مغرب میں سوات اور چترال کے برف پوش پہاڑ ہیں۔ ٹھنڈیانی سطح سمندر سے 9 ہزار فٹ بلند ہے۔


    :جھیل سیف الملوک

    saif-ul-malook

    جھیل سیف الملوک وادی کاغان کے علاقے ناران میں 10 ہزار 578 فٹ کی بلندی پر واقع ہے اور اس کا شمار دنیا کی حسین ترین جھیلوں میں ہوتا ہے۔ ناران سے بذریعہ جیپ یا پیدل یہاں تک پہنچا جا سکتا ہے۔ دنیا بھر سے سیاح اسے دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ صبح کے وقت ملکہ پربت اور دوسرے پہاڑوں کا عکس اس میں پڑتا ہے۔ سال کے کچھ مہینے اس کی سطح برف سے جمی رہتی ہے۔

    saif-ul-malook-2

    جھیل سے انتہائی دلچسپ لوک کہانیاں بھی منسوب ہیں جو یہاں موجود افراد کچھ روپے لے کر سناتے ہیں اور اگر آپ جھیل سے منسوب سب سے دلچسپ کہانی سننا چاہتے ہیں تو جھیل پر کالے خان نامی نوے سالہ بزرگ کو تلاش کیجیئے گا۔


    :دیوسائی

    deosai-1

    دیوسائی نیشنل پارک سطح سمندر سے 13 ہزار 500 فٹ اونچائی پر واقع ہے۔ پارک 3 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ نومبر سے مئی تک پارک برف سے ڈھکا رہتا ہے۔ بہار کے موسم میں پارک پھولوں اور کئی اقسام کی تتلیوں کے ساتھ ایک منفرد نظارہ پیش کرتا ہے۔

    دیوسائی دو الفاظ کا مجموعہ ہے۔ دیو اور سائی یعنی دیو کا سایہ۔ ایک ایسی جگہ، جس کے بارے میں صدیوں یہ یقین کیا جاتا رہا کہ یہاں دیو بستے ہیں، آج بھی مقامی لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ یہ حسین میدان مافوق الفطرت مخلوق کا مسکن ہے۔ یہاں دیکھتے دیکھتے ہی موسم خراب ہونے لگتا ہے، کبھی گرمیوں میں اچانک شدید ژالہ باری ہونے لگتی ہے۔ ہر لمحہ بدلتے موسم کی وجہ سے دیوسائی میں دھوپ چھاؤں کا کھیل بھی جاری رہتا ہے۔

    doesai-2

    یہ علاقہ جنگلی حیات سے معمور ہونے کی وجہ سے انسان کے لیے ناقابل عبور رہا۔ برفانی اور یخ بستہ ہواﺅں، طوفانوں اور خوفناک جنگلی جانوروں کی موجودگی میں یہاں زندگی گزارنے کا تصور تو اس ترقی یافتہ دور میں بھی ممکن نہیں۔ اسی لیے آج تک اس خطے میں کوئی بھی انسان آباد نہیں۔


    :پائے میڈوز

    paye-1

    paye-2

    صوبہ خیبر پختونخوا کے پائے نامی علاقہ سے ذرا آگے پائے میڈوز واقع ہے جہاں کا طلسماتی حسن آپ کو سحر انگیز کردے گا۔


    :قلعہ دراوڑ

    derawar-2

    derawar-1

    بہاولپور کے قریب صحرائے چولستان میں قلعہ دراوڑ گو کہ وقت کے ہاتھوں شکست و ریخت کا شکار ہے تاہم یہ اب بھی سیاحوں اور تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے افراد کے لیے باعث کشش ہے۔


    :صحرائے تھر

    thar-1

    صحرائے تھر پاکستان کی جنوب مشرقی اور بھارت کی شمال مغربی سرحد پر واقع ہے۔ اس کا رقبہ 2 لاکھ مربع کلومیٹر ہے۔ اس کا شمار دنیا کے نویں بڑے صحرا کے طور پر کیا جاتا ہے۔

    thar-2

    صحرا میں ہندوؤں کے قدیم مندروں سمیت کئی قابل دید مقامات موجود ہیں۔ یہاں یوں تو سارا سال قحط کی صورتحال ہوتی ہے تاہم بارشوں کے بعد اس صحرا کا حسن نرالا ہوتا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔