Tag: سیاحت

  • وزیراعظم کا سیاحت کے فروغ کے لیے ٹاسک فورس قائم کرنے کا حکم

    وزیراعظم کا سیاحت کے فروغ کے لیے ٹاسک فورس قائم کرنے کا حکم

    اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے سیاحت کے فروغ کے لیے ٹاسک فورس قائم کرنے کا حکم دے دیا.

    تفصیلات کے مطابق وزیراعظم کی زیر صدارت سیاحت کےفروغ سےمتعلق خصوصی اجلاس ہوا، جس میں وزیراعظم نے ٹاسک فورس قائم کرنے کی ہدایت کی.

    موصولہ اطلاعات کے مطابق وزیراعظم عمران خان ٹاسک فورس کےسربراہ ہوں گے، ٹاسک فورس میں صوبوں، آزادکشمیراورگلگت بلتستان کے نمائندے شامل ہیں.

    اجلاس میں تمام صوبوں کےمتعلقہ نمائندوں نےشرکت کی، آزادکشمیراور گلگت بلتستان کی حکومت کے نمائندوں نے بھی شرکت کی.

    وزیراعظم نے تمام صوبوں سے ایک ہفتے میں سیاحت کےفروغ سےمتعلق تجاویزمانگ لیں.

    مزیر پڑھیں: سیاحت کا عالمی، پاکستان میں سیاحت کے 12 بہترین مقامات

    اس موقع پر وزیراعظم نے کہا کہ اپنے صوبوں میں سیاحتی مقامات کی نشان دہی کریں، پاکستان سیاحتی مقامات سے مالا مال ملک ہے.

    وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ سیاحت کے فروغ سے مقامی افراد کو بھی فائدہ ہوگا، بیش تر ممالک سیاحت سے ریوینیو حاصل کرتے ہیں.

    عمران خان نے کہا کہ وفاقی حکومت سیاحت کےفروغ کے لئےہرممکن مددفراہم کرےگی، ایکوٹورازم،مذہبی سیاحت اورایڈونچرسیاحت کےفروغ کی ضرورت ہے، ٹورارسٹ ریزارٹ کےقیام پربھی خصوصی توجہ دینےکی ضرورت ہے۔

    انھوں نے مزید کہا کہ سیاحت کےفروغ کے لئے ایک مفصل اور جامع پالیسی تشکیل دی جائےگی، سیاحتی،تاریخی مقامات پرتوجہ دینےسےلاکھوں نوجوانوں کوروزگارمیسرآئےگا۔

  • دنیا کی خوبصورت ترین عبادت گاہ

    دنیا کی خوبصورت ترین عبادت گاہ

    تھائی لینڈ میں واقع بدھوں کی عبادت گاہ جسے سفید خانقاہ بھی کہا جاتا ہے، دنیا کی خوبصورت ترین معبد قرار دی جاتی ہے۔

    اسے تعمیر کرتے ہوئے معماروں کے ذہن میں یہی ایک خیال تھا کہ اسے دنیا کی سب سے خوبصورت عمارت بنا دی جائے، اور واقعی یہ بدھ خانقاہ فن تعمیر کا شاہکار ہے۔

    یہاں پر جہنم اور جنت کا تمثیلاتی منظر بھی پیش کیا گیا ہے۔ جہنم کے حصے میں بے شمار ہاتھ تعمیر کیے گئے ہیں جو انسان کی مادی اشیا کے لیے ہوس اور بھوک کی عکاسی کرتے ہیں۔

    اس کے بعد ایک پل جنت کی طرف لے جاتا ہے اور یہاں سے واپس پلٹنے کا کوئی راستہ نہیں۔

    بدھ تعلیمات کے مطابق جب سچائی اور نیکی کا راستہ اختیار کرلیا جائے تو پھر انسان کا جہنم سے جنت کا سفر شروع ہوجاتا ہے اور اس خانقاہ کا یہ حصہ اسی کی روشنی میں بنایا گیا ہے۔

    خانقاہ کا اندرونی حصہ بدھ مت کی روایتی تاریخی اور جدید فن تعمیر و مصوری کا شاہکار ہے۔

    اسے تعمیر کرنے والا چالرماچی نامی آرٹسٹ مشہور تھائی مصور ہے۔ اس خانقاہ کی تعمیر میں زیادہ تر رقم اس نے اپنی جیب سے لگائی ہے۔ وہ اس خانقاہ کو اپنی محبت قرار دیتا ہے۔

  • دنیا کے 8 متروک شدہ خوبصورت مقامات

    دنیا کے 8 متروک شدہ خوبصورت مقامات

    برطانیہ سے تعلق رکھنے والے ایک فوٹوگرافر کیرن کینلی نے ایک کتاب شائع کی ہے جس میں انہوں نے دنیا کے 100 متروک شدہ مقامات کی تصاویر کھینچی ہیں۔

    یہ مقامات ایک زمانے میں نہایت مصروف اور پرہجوم تھے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کی ضرورت اور اہمیت کم ہوتی گئی اور اب وہ بالکل ویران اور سنسان ہیں۔ ان میں تھیٹر، ریلوے اسٹیشنز اور کانیں وغیرہ شامل ہیں۔

    ہم ان میں سے کچھ منتخب مقامات کی تصاویر آپ کے لیے پیش کر رہے ہیں۔


    وولا گیس ورک ۔ وارسا

    پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں قائم یہ مقام دراصل ایک گیس ورک ہے جہاں خام گیس کو مختلف استعمالات کے قابل بنایا جاتا تھا۔

    سنہ 1888 میں قائم کی جانے والی یہ فیکٹری دوسری جنگ عظیم کے دوران تباہ ہوگئی۔ بعد ازاں اس کو بحال کر کے اسے ایک میوزیم میں تبدیل کردیا گیا۔


    سٹی ہال اسٹیشن ۔ نیویارک

    سنہ 1904 میں قائم کیا جانے والا یہ ٹرین اسٹیشن فن تعمیر کا شاہکار ہے۔ نہایت خوبصورتی سے تعمیر کیے جانے والے اس اسٹیشن کی چھت شیشے سے بنائی گئی ہے جس سے سورج اور چاند کی روشنی چھن کر اندر آتی تھی۔

    لیکن گولائی میں گھومتی پٹریوں کی وجہ سے مال برادر ٹرینیں یہاں رکنے سے قاصر تھیں جس کے باعث 1945 میں اسے بند کردیا گیا۔


    ربجرگ لائٹ ہاؤس ۔ ڈنمارک

    3

    ڈنمارک کی ساحلی پٹی پر قائم یہ لائٹ ہاؤس 1990 میں بنایا گیا۔ جلد ہی مٹی کے کٹاؤ اور موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث یہ مختلف خطرات کا شکار ہوگیا جس کے بعد اسے بند کردیا گیا۔

    ماہرین کے مطابق 2023 تک یہ لائٹ ہاؤس سمندر میں گرجائے گا۔


    ہاچی جو رائل ہوٹل ۔ جاپان

    4

    جاپان کے ایک جزیرے ہاچی جو جیما پر قائم یہ ہوٹل 1963 میں کھولا گیا۔ اس کے قریب آتش فشاں پہاڑ موجود ہیں جو کبھی بھی ابل سکتے ہیں لہٰذا اس ہوٹل کو 2003 میں یہاں سے منتقل کردیا گیا۔


    پلیمچ کورٹ ہاؤس بلڈنگ ۔ مونٹسیرٹ

    5

    برطانوی شاہی حکومت کے زیر تسلط مونٹسیرٹ نامی جزیرے کا مرکزی شہر پلیمچ 1995 میں آتش فشاں پہاڑ ابلنے کے باعث نصف سے زائد راکھ میں دفن ہوگیا۔

    خوش قسمتی سے یہاں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ اب یہ ایک سنسان شہر ہے۔


    بوڈی ۔ کیلیفورنیا

    6

    امریکی ریاست کیلیفورنیا کے نواح میں موجود اس قصبہ میں 1859 میں سونے کی کانوں کی موجودگی کا انکشاف ہوا۔ بے تحاشہ کان کنی کے باعث اس جگہ کو نقصان پہنچنا شروع ہوگیا اور مقامی آبادی نے یہاں سے ہجرت شروع کردی۔

    اب یہاں بہ مشکل 40 کے قریب افراد آباد ہیں جو اس قصبہ کی سرحد پر رہتے ہیں۔


    اورفم تھیٹر ۔ میسا چوسٹس

    7

    امریکی ریاست میسا چوسٹس میں قائم یہ تھیٹر ایک زمانے میں ہالی ووڈ کی تقسیم کار کمپنی آر کے او کی ملکیت رہا۔ اس کے بعد یہ ٹوبیکو کمپنی کے ہاتھ فروخت کردیا گیا اور کچھ عرصے تک یہ ٹوبیکو کے ذخیرہ گاہ کی حیثیت سے استعمال ہوتا رہا۔

    اب یہ جگہ خالی ہے اور یہاں کسی ذی روح کا نشان نہیں۔


    کنفرنک اسٹیشن ۔ اسپین

    8

    اسپین اور فرانس کی سرحد پر قائم اس اسٹیشن کی تعمیر میں ماہر تعمیرات کے ساتھ مصور بھی شامل تھے۔ سنہ 1970 میں اس اسٹیشن سے فرانس کی طرف نکلنے والا پل ٹوٹ گیا جسے دوبارہ تعمیر نہیں کیا گیا۔

    اس اسٹیشن سے البتہ اسپین کے اندر ٹرینوں کی آمد و رفت جاری ہے لیکن ان کی تعداد کم ہے۔

  • یومِ آزادی پر کراچی کے تاریخی مقامات کی سیر کریں

    یومِ آزادی پر کراچی کے تاریخی مقامات کی سیر کریں

    کراچی: رواں برس مادر وطن پاکستان کا یوم آزادی نہایت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس روز ہمارے وطن کی آزادی کو 71 برس مکمل ہوجائیں گے۔

    ہر سال یہ دن ہمیں ہمارے بزرگوں کی قربانیوں اور ان تھک جدوجہد کی یاد دلاتا ہے اور یہ احساس دلاتا ہے کہ اس قدر طویل جدوجہد اور بے شمار قربانیوں کے بعد حاصل ہونے والے ملک کی خدمت اور حفاظت ہمارا فرض اولین ہے۔

    اس دن کی تاریخی اہمیت محسوس کرنے کا ایک بہترین طریقہ ان مقامات کی سیر کرنا بھی ہے جو قیام پاکستان سے منسوب ہیں یا اس کی یادگار کے طور پر تعمیر کیے گئے ہیں۔

    آج ہم آپ کو کراچی میں واقع ایسے ہی چند مقامات کے بارے میں بتا رہے ہیں جہاں یوم آزادی کے دن جانا نہ صرف آپ کے اس دن کو یادگار بنا دے گا بلکہ ایک آزاد وطن کے شہری ہونے کے احساس اور فخر کو بھی دوبالا کردے گا۔

    مزید پڑھیں: پاکستان کی 10 قومی یادگاریں

    مزار قائد

    کراچی اس حوالے سے ایک منفرد اہمیت کا حامل شہر ہے کہ یہاں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی پیدائش ہوئی، یہیں انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کی اور اسی شہر میں وہ ابدی نیند سو رہے ہیں۔

    یوم آزادی پر بابائے قوم کی آخری آرام گاہ پر حاضری، فاتحہ خوانی اور پاکستان کے قیام کے لیے دی جانے والی ان کی جدوجہد کو سلام پیش کرنے کا اس سے بہتر موقع اور کوئی نہیں ہوسکتا۔

    سفید سنگ مرمر سے تعمیر کردہ مزار قائد شہر کراچی کے وسط میں واقع ہے۔ مزار کے اندر نہایت خوبصورت فانوس نصب ہیں۔ رات میں جب روشنیاں جل اٹھتی ہیں تو مزار اور اس کے اطراف کا حصہ نہایت سحر انگیز دکھائی دیتا ہے۔

    مزار سے متصل باغ بھی بلاشبہ ایک خوبصورت مقام ہے جہاں شام کے وقت چلنے والی ٹھنڈی ہوائیں یہاں گزارے گئے وقت کو یادگار ترین بنا دیتی ہیں۔

    وزیر مینشن

    کراچی کے علاقے کھارادر میں واقع وزیر مینشن نامی گھر قائد اعظم کی جائے پیدائش ہے۔

    سنہ 1953 میں حکومت پاکستان نے اس عمارت کو اس کے مالک سے خرید کر قومی ورثے کا درجہ دے دیا جس کے بعد اس کی زیریں منزل کو ریڈنگ ہال جبکہ پہلی منزل کو گیلری بنایا گیا۔

    دو منزلوں پر مشتمل اس مکان میں قائداعظم کے زیر استعمال فرنیچر، لباس، اسٹیشنری، ذاتی ڈائری اور قائد اعظم کی دوسری اہلیہ رتی بائی کے استعمال کی اشیا نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں۔

    یہاں موجود سب سے اہم اثاثہ، جو وزیر مینشن کے علاوہ کہیں میسر نہیں، قائداعظم کی قانون کی کتابیں ہیں جن کی مدد سے وہ مقدمات کی پیروی کرتے تھے۔

    فلیگ اسٹاف ہاؤس

    کراچی کی شاہراہ فیصل پر واقع فلیگ اسٹاف ہاؤس جسے قائد اعظم ہاؤس میوزیم بھی کہا جاتا ہے، قائد اعظم نے 1946 میں خریدا تھا۔ ان کا ارادہ پاکستان کے وجود میں آنے یا ریٹائرمنٹ کے بعد اس میں قیام کا تھا۔

    تاہم قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح گورنر ہاؤس میں رہائش پذیر ہوگئے اور اپنے انتقال تک وہیں رہے۔

    معروف محقق عقیل عباس جعفری کے مطابق، ’قائد اعظم نے اپنی زندگی کا ایک روز بھی اس گھر میں نہیں گزارا۔ یہ گھر ان سے منسوب تو ضرور ہے تاہم اسے قائد اعظم ہاؤس کا نام دینا تاریخ کو مسخ کرنے کے مترادف ہے‘۔

    قائد اعظم کے انتقال کے صرف 2 دن بعد 13 ستمبر 1948 کو مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح گورنر ہاؤس سے فلیگ اسٹاف ہاؤس منتقل ہوگئیں۔ اس وقت وہاں موجود تمام نوادرات فاطمہ جناح سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی وہاں رہائش کے دوران ان کے زیر استعمال تھے۔

    فاطمہ جناح اس گھر میں 16 یا 17 سال تک رہائش پذیر رہیں۔

    موہٹہ پیلیس

    کلفٹن میں واقع یہ خوبصورت محل ایک ہندو تاجر چندر رتن موہٹہ نے تعمیر کروایا تھا۔

    سنہ 1963 میں یہ محل حکومت پاکستان نے محترمہ فاطمہ جناح کو بھارت میں موجود ان کی جائیداد کے عوض الاٹ کردیا جس کے بعد وہ یہاں منتقل ہوگئیں اور اپنے انتقال تک یہیں رہیں۔

    خوبصورت محرابوں اور سرسبز باغ پر مشتمل یہ محل اب حکومت سندھ کی ملکیت ہے جہاں اکثر و بیشتر ثقافتی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔

    مشہور ہے کہ اپنے قیام کے دنوں میں محترمہ فاطمہ جناح محل کی بالائی منزل سے مرکزی دروازے کی چابی نیچے پھینکا کرتی تھیں جس کی مدد سے ان کا ملازم دروازہ کھول کر اندر آجاتا اور گھریلو امور انجام دیتا۔

    ایک دن انہوں نے مقررہ وقت پر چابی نہیں پھینکی۔ تشویش میں مبتلا ملازم پہلے مدد مانگنے پڑوسیوں کے پاس گیا بعد ازاں پولیس کو بلوایا گیا۔

    اس وقت کے کمشنر کی موجودگی میں دروازہ توڑ کر اندر کا رخ کیا گیا تو علم ہوا کہ محترمہ رات میں کسی وقت وفات پاچکی تھیں۔

    اکادمی قائد اعظم

    قائد اعظم محمد علی جناح کی 100 ویں سالگرہ کے موقع پر قائم کی جانے والی قائد اعظم اکیڈمی، بانی پاکستان اور قیام پاکستان کے بارے میں مصدقہ دستاویزات کی فراہمی کا معتبر ادارہ ہے۔

    یہ ادارہ وفاقی وزارت ثقافت و کھیل کے ماتحت ہے۔

    فریئر ہال

    کراچی کا سب سے مشہور اور نمایاں ترین تاریخی اور خوبصورت مقام فریئر ہال ہے جو صدر کے علاقے میں واقع ہے۔ اسے برطانوی راج میں سنہ 1865 میں ایک ٹاؤن ہال کی حیثیت سے قائم کیا گیا۔ اب اس ہال میں ایک خوبصورت آرٹ گیلری اور لائبریری موجود ہے۔

    فریئر ہال کے لیاقت نیشنل لائبریری کے نام سے جانے جانے والے کتب خانے میں 70 ہزار سے زائد کتابیں موجود ہیں جن میں ہاتھ سے لکھے ہوئے قدیم و تاریخی مخطوطے بھی شامل ہیں۔

    اسی طرح آرٹ گیلری بھی فن و مصوری کا مرکز ہے جسے صادقین گیلری کے نام سے جانا جاتا ہے۔

    پاکستان کے معروف مصور و خطاط صادقین نے فریئر ہال کی چھتوں اور دیواروں پر نہایت خوبصورت میورلز (قد آدم تصاویر) بنائی ہیں۔ یہاں صادقین کا ایک ادھورا فن پارہ بھی موجود ہے جس پر وہ اپنے انتقال سے چند دن قبل تک کام کر رہے تھے لیکن موت نے انہیں اسے مکمل کرنے کی مہلت نہ دی۔

    فریئر ہال کا طرز تعمیر نہایت خوبصورت ہے جو برطانوی اور برصغیر کے مقامی طرز تعمیر کا مجموعہ ہے۔ اس عمارت کی سیر کرتے ہوئے تاریخ کے اوراق پلٹتے ہوئے محسوس ہوں گے اور آپ خود کو متحدہ ہندوستان کے زمانے میں موجود محسوس کریں گے ۔

    قومی عجائب گھر

    کراچی کے علاقے برنس روڈ پر واقعہ برنس گارڈن کے اندر قومی عجائب گھر واقع ہے جو سنہ 1950 میں قائم کیا گیا تھا۔ اس سے قبل اس عمارت میں وکٹوریہ میوزیم کے نام سے ایک عجائب گھر ہوا کرتا تھا جہاں آج سپریم کورٹ آف پاکستان کراچی کی بلڈنگ واقع ہے۔

    اس عجائب گھر میں 6 گیلریز موجود ہیں جن میں وادی مہران اور گندھارا تہذیب کے نوادرات، منی ایچر فن پارے، اسلامی فن و خطاطی کے نمونے، قدیم ادوار کے سکے، مختلف عقائد کے مجسمے (بشمول گوتم بدھ، وشنو اور سرسوتی دیوی) وغیرہ رکھے گئے ہیں۔

    اس کے علاوہ ایک انتہائی خوبصورت قرآن گیلری بھی ہے جہاں پہلی صدی ہجری سے لے کر آج تک کے کئی نادرو نایاب قرآنی نسخے اپنی اصل حالت میں بحال کرکے رکھے گئے ہیں۔

    میوزیم میں قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے زیر استعمال گھڑیاں، قلم اور چھڑیاں بھی موجود ہیں۔

    خالق دینا ہال

    خالق دینا ہال سنہ 1906 میں بندر روڈ (ایم اے جناح روڈ) پر تعمیر کیا گیا جس کا مقصد یہاں سماجی و ثقافتی تقاریب کا انعقاد تھا۔

    اس ہال کی تعمیر کے لیے سندھ کی ایک مخیر کاروباری شخصیت غلام حسین خالق دینا کے لواحقین کی جانب سے رقم فراہم کی گئی جس کے بعد اس ہال کو ان کے نام سے منسوب کردیا گیا۔

    قیام پاکستان سے قبل جب ترکی میں خلافت ختم کی جارہی تھی تب برصغیر میں اسے بچانے کے لیے تحریک خلافت شروع کی گئی جس کے سرکردہ رہنماؤں میں مولانا محمد علی جوہر اور ان کے بھائی مولانا شوکت علی شامل تھے۔

    سنہ 1921 میں برطانوی حکومت نے دونوں رہنماؤں پر بغاوت کا مقدمہ دائر کردیا۔ مقدمے کی سماعت 26 دسمبر کو اسی ہال میں ہوئی اور دونوں بھائیوں کو 2، 2 سال قید کی سزا سنائی گئی۔

    یہاں ایک وسیع اور متنوع کتابوں پر مشتمل لائبریری بھی موجود ہے۔

    منوڑہ لائٹ ہاؤس

    کراچی کی بندرگاہ کے جنوب میں واقع منوڑہ ایک جزیرہ نما ہے جو سینڈز پٹ کی پٹی کے ذریعے کراچی سے جڑا ہوا ہے۔ یہاں موجود لائٹ ہاؤس کو دنیا کے طاقتور ترین لائٹ ہاؤسز میں سے ایک ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

    یہ لائٹ ہاؤس سنہ 1889 میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس وقت کراچی کی بندرگاہ مصروف ترین بندرگاہوں میں شمار ہوتی تھی۔

    سنہ 1909 میں اس لائٹ ہاؤس کو نئی روشنیوں اور لینسز سے آراستہ کیا گیا۔ یہ لائٹ ہاؤس جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ہے اور یہاں جدید آلات نصب ہیں۔

    پاکستان میری ٹائم میوزیم

    کراچی میں پی این ایس کارساز پر واقع پاک بحریہ کے میری ٹائم میوزیم کا دورہ بھی ایک معلوماتی دورہ ہوسکتا ہے۔ 6 گیلریوں اور آڈیٹوریم پر مشتمل اس عجائب گھر میں بحری فوج کے زیر استعمال اشیا، آلات اور لباس رکھے گئے ہیں۔

    یہاں آبدوز اور بحری جہاز کے ماڈل بھی موجود ہیں جن کے اندر جا کر ان کا معائنہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ میری ٹائم میوزیم کا دورہ بچوں اور بڑوں کے لیے یکساں معلوماتی تفریح ثابت ہوسکتا ہے۔

    پی اے ایف میوزیم

    کراچی میں پاک فضائیہ کا عجائب گھر (پی اے ایف میوزیم) بھی موجود ہے جہاں فضائیہ کے زیر استعمال آلات، ہتھیار اور دیگر ساز و سامان نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔

    یہاں سنہ 1965 کی جنگ کے دوران بھارت کا گرفتار کیا گیا ایک طیارہ بھی رکھا گیا ہے جبکہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے زیر استعمال طیارہ بھی یہاں موجود ہے۔

    نشانِ پاکستان

    کراچی کے ساحل پر پاک فوج کی جانب سے بنائی جانے والی قومی یادگار ’نشان پاکستان‘ قومی اتحاد کی علامت ہے۔

    یادگار کے مرکزی چبوترے پر نشان حیدر پانے والے 11 شہدا کی مناسبت سے 11 کمانیں تعمیر کی گئی ہیں جبکہ اندرونی دیواروں پر شہدا کی تصاویر کے ساتھ ان کے بارے میں معلومات بھی درج ہیں۔

    یادگار کے مرکزی دروازے کے ساتھ 145 فٹ اونچائی پر قومی پرچم لہرایا جاتا ہے جس کا یوم آزادی کے موقع پر نظارہ کرنا یقیناً حب الوطنی کے جذبات کو گرما دے گا۔

    آرٹس کاؤنسل آزادی فیسٹیول

    اس یوم آزادی کی شام آرٹس کاؤنسل کے آزادی فیسٹیول میں شریک ہونا نہ بھولیں جہاں شہر بھر سے باصلاحیت نوجوان و بچے شریک ہو کر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں گے۔

  • سیاحوں کی بہتات سے تباہی کا شکار سیاحتی مقام

    سیاحوں کی بہتات سے تباہی کا شکار سیاحتی مقام

    سیاحت کرنا دل و دماغ کو تازہ دم کردینے والا عمل ہے اور دنیا بھر سے کروڑوں افراد سال کا کچھ عرصہ سیاحت میں ضرور گزارتے ہیں۔

    دنیا بھر میں کچھ مقامات ایسے ہیں جو اپنی خوبصورتی اور تاریخی پس منظر کی وجہ سے سیاحوں میں بے حد مقبول ہیں اور ہر سال لاکھوں افراد وہاں سیاحت کے لیے جاتے ہیں۔

    تاہم حال ہی میں شائع کی جانے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بہت زیادہ سیاحت کچھ مقامات کو نقصان پہنچا رہی ہے۔

    آئیں دیکھیں وہ مقامات کون سے ہیں۔


    مایا بے، تھائی لینڈ

    تھائی لینڈ اپنے نیلے پانیوں اور خوبصورت ساحلوں کی وجہ سیاحت کے لیے بہترین مقام سمجھا جاتا ہے۔

    تاہم تھائی لینڈ کی ایک ساحلی کھاڑی مایا بے کو سیاحوں کی بہتات کی وجہ سے عارضی طور پر بند کیا جاچکا ہے۔

    اس مقام کو سنہ 2000 میں بہت شہرت ملی جب معروف ہالی ووڈ اداکار لیونارڈو ڈی کیپریو کی فلم ’دا بیچ‘ کو یہاں فلمایا گیا۔ اس کے بعد سے یہاں سیاحوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوگیا۔

    اس مقام کو عارضی طور پر بند کیے جانے کی وجہ یہ ہے کہ یہاں خراب ہوجانے والی مونگے کی چٹانیں اور سمندری حیات دوبارہ افزائش پاسکیں۔


    بوروکے، فلپائن

    فلپائن میں واقع یہ خوبصورت جزیرہ بھی سیاحوں کی بہتات کی وجہ سے تباہی کا شکار ہو رہا ہے۔

    رواں برس اپریل میں اس جزیرے کو حکومت کی جانب سے 6 ماہ کے لیے بند کردیا گیا۔

    مقامی اخبارات کے مطابق یہاں کا سیوریج سسٹم بے حد خراب ہوچکا ہے۔

    علاوہ ازیں اس جزیرے پر قائم 200 کے قریب کاروباری مراکز اپنا کچرا براہ راست سمندر میں پھینک رہے ہیں جس سے ساحل پر آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔


    بھوٹان

    بھوٹان میں سیاحوں کی بہتات اور آبادی میں بے تحاشہ اضافے کی وجہ سے سیاحتی مقامات بھی تباہی کا شکار ہورہے ہیں۔

    بھوٹان کی حکومت نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے اب سیاحوں پر سخت قوانین نافذ کردیے ہیں جس کے بعد انہیں گائیڈ کی خدمات لینا ضروری ہیں جبکہ روزانہ 200 یورو بھی ادا کرنے ہوں گے۔


    بالی، انڈونیشیا

    انڈونیشیا کا جزیرہ بالی بھی سیاحوں کے لیے ایک پرکشش مقام سمجھا جاتا ہے۔

    گزشتہ برس دسمبر میں اس وقت یہاں ’گاربج ایمرجنسی‘ نافذ کردی گئی تھی جب سیاحوں نے کچرا پھینک پھینک کر ساحل کو کچرا کنڈی میں تبدیل کردیا۔


    چنکوٹیررے، اٹلی

    اٹلی میں دریا کے کنارے خوبصورت رنگ برنگے گھروں کا یہ علاقہ ہر سیاح کا خواب ہیں۔

    گزشتہ کچھ سال میں اس علاقے میں سیاحوں کی تعداد میں بے حد اضافہ ہوا ہے۔ سیاحوں کی آبادی بڑھنے کے ساتھ یہاں ٹریفک حادثات معمول بن چکے ہیں جن میں سیاح و مقامی افراد دونوں کو نقصان پہنچتا ہے۔


    ماچو پچو، پیرو

    جنوبی امریکی ملک پیرو میں واقع قدیم کھنڈرات ماچو پچو یونیسکو کی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہیں۔

    سنہ 2002 میں نیشنل جیوگرافک کی ایک رپورٹ میں متنبہ کیا گیا کہ سیاحوں کی بہتات اس قدیم مقام کو نقصان پہنچا سکتی ہے جس کے بعد حکومت نے فوری طور اقدامات کیے۔

    اب یہاں سیاحوں کی صرف محدود تعداد ہی گائیڈز کی زیر نگرانی سیر کرسکتی ہے اور اس کے لیے بھی دن کا ایک حصہ مخصوص ہے۔


    وینس، اٹلی

    اٹلی کا پانیوں کا شہر وینس دنیا کے خوبصورت ترین شہروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

    تاہم مقامی افراد کا کہنا ہے کہ حکومت کے تمام اقدامات صرف یہاں آنے والے سیاحوں کے لیے ہیں اور مقامی افراد کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔

    کئی بار مقامی افراد یہاں سیاحوں کے خلاف احتجاج بھی کرتے پائے جاتے ہیں۔


     

  • عظیم دیوارِ چین وقت کی بے مہری کا شکار

    عظیم دیوارِ چین وقت کی بے مہری کا شکار

    سات عجائبات عالم میں سے ایک عظیم دیوار چین انسانی ہاتھوں سے تراشی گئی دنیا کی طویل ترین تعمیر ہے۔ دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دینے والی یہ دیوار گزرتے وقت کی بے مہری کا شکار ہو کر زبوں حال ہوتی جا رہی ہے۔

    خلا سے دکھائی دی جانے والی 8 ہزار 8 سو 51 کلومیٹر طویل اس عظیم دیوار کا 30 فیصد حصہ وقت کے ساتھ ساتھ غائب ہوچکا ہے۔

    مقامی افراد کا کہنا ہے کہ دیوار کا صرف 8 فیصد حصہ پہلے کی طرح بہترین حالت میں ہے۔

    مقامی انتظامیہ کے مطابق اس دیوار کی تباہی میں سب سے بڑا ہاتھ ان دیہاتیوں کا ہے جو اس دیوار کے دامن میں آباد ہیں۔

    یہ مقامی لوگ دیوار میں لگی مضبوط اور موٹی اینٹیں نکال کر اپنے گھر تعمیر کرتے ہیں۔ دیوار کی چوری شدہ اینٹیں فروخت بھی کی جاتی ہیں۔

    اینٹوں کی مسلسل چوری کے باعث دیوار کو نقصان پہنچ رہا ہے اور وہ کئی جگہ سے خستہ حال ہوتی جارہی ہے۔

    تاہم حکومتی کوششوں اور آگاہی کے فروغ کے بعد اب انہی مقامی باشندوں نے اپنے ثقافتی ورثے کی بحالی کا بیڑہ اٹھا لیا ہے۔

    سورج نکلتے ہی مقامی باشندے اینٹیں، لکڑیاں اور تعمیراتی سامان خچروں کی مدد سے اونچی پہاڑیوں پر پہنچانا شروع کردیتے ہیں اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار حصے کو تعمیر کرتے ہیں۔


    عجوبہ عالم دیوار چین کے بارے میں انوکھے حقائق

    کیا آپ جانتے ہیں دیوار چین کو تعمیر کرنے میں 17 سو سال کا طویل عرصہ لگا ہے؟ بعض کتابوں میں یہ 2 ہزار سال بھی بتایا گیا ہے۔

    دراصل اس دیوار کی تعمیر منگول حملہ آوروں سے بچنے کے لیے کی گئی جس کا آغاز 206 قبل مسیح میں کیا گیا۔ اس کے بعد بے شمار بادشاہوں نے حکومت کی اور چلے گئے لیکن اس دیوار کی تعمیر کا کام جاری رہا۔

    اس دوران دنیا وقت کو ایک نئے پیمانے (حضرت عیسیٰ کی آمد کا بعد کا وقت۔ بعد از مسیح) سے ناپنے لگی، سنہ 1368 شروع ہوا اور چین میں منگ خانوادے کی حکومت کا آغاز ہوا۔

    لیکن دیوار چین کی تعمیر ابھی بھی جاری تھی۔

    آخر اس کے لگ بھگ ڈھائی سو سال بعد اسی خانوادے کے ایک بادشاہ کے دور میں دیوار کی تعمیر مکمل ہوئی۔ یہ 1644 کا سال تھا۔

    موجودہ دیوار کا 90 فیصد حصہ اسی خاندان کے دور میں تعمیر ہوا۔

    دیوار چین کی تعمیر کے دوران اینٹوں کو جوڑنے کے لیے چاول کا آٹا استعمال کیا گیا تھا۔

    اس عظیم دیوار کی تعمیر کے دوران 10 لاکھ مزدور اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، لیکن اس دیوار نے چینیوں کو بیرونی حملہ آوروں سے محفوظ کردیا۔

    اب ہر سال اس دیوار پر ایک میراتھون منعقد ہوتی ہے جس میں ڈھائی ہزار افراد حصہ لیتے ہیں۔

    دیوار، چین کے 15 صوبوں میں پھیلی ہوئی ہے۔


     

  • دنیا کے سب سے بڑے دریا کے بارے میں حیران کن حقائق

    دنیا کے سب سے بڑے دریا کے بارے میں حیران کن حقائق

    کیا آپ جانتے ہیں دنیا کا سب سے بڑا دریا کون سا ہے؟

    براعظم افریقہ میں مصر کو سیراب کرنے والا تاریخی اہمیت کا حامل دریائے نیل دنیا کا سب سے بڑا دریا ہے۔ مصر کی عظیم تہذیب کا آغاز اسی دریا کے کنارے ہوا اور اس تہذیب نے دنیا بھر کی ثقافت و تہذیب پر اپنے اثرات مرتب کیے۔

    دنیا کو مصر کا تحفہ دینے والا یہ دریا اس وقت 11 ممالک اور 40 کروڑ افراد کی مختلف آبی ضروریات کو پورا کر رہا ہے۔

    آئیں آج اس عظیم دریا کے بارے میں کچھ حیران کن حقائق جانتے ہیں۔

    6 ہزار 6 سو 70 کلو میٹر کے فاصلے پر محیط یہ دریا افریقہ کی سب سے بڑی جھیل وکٹوریہ جھیل سے نکلتا ہے۔ اس علاقے میں بارش بہت ہوتی ہے، لہٰذا یہاں بہت گھنے جگلات پائے جاتے ہیں۔

    ان جنگلات میں ہاتھی، شیر، گینڈے، جنگلی بھینسے، ہرن، نیل گائے، دریائی گھوڑے اور مگر مچھ وغیرہ پائے جاتے ہیں۔ اس علاقے کو نیشنل پارک کا درجہ حاصل ہے۔

    مزید پڑھیں: دریائے نیل کلائمٹ چینج کی ستم ظریفی کا شکار

    جب یہ دریا سوڈان میں داخل ہوتا ہے تو اس کی رفتار بہت سست ہوجاتی ہے، کیوں کہ دریا ایک زبردست دلدل سے گزرتا ہے۔ یہ دلدل دنیا کی سب سے بڑی دلدل تقریباً 700 کلو میٹر طویل ہے۔ یہاں ایک قسم کی گھاس پاپائرس پائی جاتی ہے جو پورے دلدل پر چھائی رہتی ہے۔

    یہ گھاس اتنی گھنی اور مضبوط ہے کہ اس پر ایک ہاتھی بھی کھڑا ہوجائے تو وہ نیچے نہیں جائے گا اور سیدھا کھڑا رہے گا۔ دریا کا پانی گھاس کے نیچے نیچے بہتا ہے۔ یہاں سارس، بگلے اور پانی میں رہنے والی مختلف چڑیاں بکثرت پائی جاتی ہیں۔

    دریائے نیل کے سارے معاون دریا حبشہ کے پہاڑوں سے نکل کر اس میں شامل ہوتے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا اور اہم دریا نیلا ہے اور نیل کہلاتا ہے۔ یہ دریا حبشہ میں جھیل تانا سے نکلتا ہے اور فوراً بعد آبشار کی صورت میں ایک نہایت گہری کھائی میں گرتا ہے اور بہتا ہوا خرطوم کے مقام پر دریائے نیل میں مل جاتا ہے۔

    خرطوم کے بعد اتبارا کے مقام پر اتبارا نام کا ایک اور دریا، دریائے نیل میں شامل ہوتا ہے۔ یہ بھی حبشہ کے پہاڑوں سے جھیل تانا کے قریب سے نکلتا ہے۔

    خرطوم کے بعد دریائے نیل میں کئی اتار آتے ہیں، یہ تقریباً 6 مقامات پر ہیں۔ دریا کی تہہ میں مضبوط اور نوکیلی چٹانیں ہیں۔ ان کو دریائے نیل کی رکاوٹیں کہا جاتا ہے۔ ان مقامات سے کشتیاں یا موٹر بوٹس نہیں گزر سکتے۔

    سوڈان میں مصر کی سرحد پر دریائے نیل انسان کی بنائی ہوئی دنیا کی سب سے بڑی جھیل یعنی جھیل ناصر میں داخل ہوتا ہے۔ یہاں اسوان کے مقام پر اسوان بند باندھا گیا ہے۔ اس بند سے دریا کا پانی رک گیا ہے اور ایک جھیل بن گئی ہے۔

    اس بند سے آبپاشی کے لیے نہریں نکالی گئی ہیں اور پانی کو سرنگوں سے گزار کر اس پانی سے بجلی پیدا کی گئی ہے۔

    اسوان بند کی نہروں سے دریائے نیل کے دونوں طرف 50، 50 میل تک کاشت کاری ہوتی ہے اور یہ علاقہ نہایت سر سبز و شاداب اور آباد ہے۔ اسی وجہ سے مصر کو دریائے نیل کا تحفہ کہا جاتا ہے۔

    قاہرہ سے گزر کر دریا بہت خاموشی اور آہستہ آہستہ مختلف شاخوں میں بٹ کر اسکندریہ کے قریب بحیرہ روم میں جا گرتا ہے۔

    دریا کی رفتار اور پانی کی کیفیت معلوم کرنے کے لیے مصری لوگ ایک پیمانہ بناتے تھے۔ یہ دریا کے کنارے ایک کمرا ہوتا تھا، اسے نیلو میٹر کہتے تھے۔ اس میں ایک سرنگ سے دریا کا پانی آتا رہتا تھا۔ اس پیمانے سے پانی کی حرارت، رنگ اور کیفیت معلوم ہوتی تھی اور اس کا سال بھر کا ریکارڈ رکھا جاتا تھا۔

    اسی ریکارڈ سے معلوم ہوتا تھا کہ طغیانی آئے گی یا نہیں اور اگر آئے گی تو کیا اثرات ہوں گے اور فصلوں کے لیے فائندہ مند ہوگی یا نقصان دہ ہوگی۔

    دریائے نیل کے آغاز کا مقام جاننے کے لیے پہلی بار سترہویں صدی میں کوشش کی گئی۔ تحقیق اور سفر کے بعد معلوم ہوا کہ یہ دریا جھیل تانا سے نکلتا ہے مگر اس کے کنارے کنارے کوئی نہ چل سکا، کیوں کہ یہ بڑے خطرناک پہاڑوں اور کھڈوں میں سے گزرتا ہے۔

    دریا کے تیز پانی نے چٹانوں کو کچھ اس طرح کاٹا ہے کہ دونوں طرف دیواریں سی بن گئی ہیں اور ان چٹانی دیواروں پر سے کوئی نہیں گزر سکتا۔

    اٹھارویں صدی میں یورپی سیاحوں نے افریقہ کے اندرونی علاقے دریافت کرنا شروع کیے۔ رچرڈ برٹن اور جان ہیننگ ٹن اسپیک سنہ 1857 میں افریقہ کے مشرقی ساحل سے روانہ ہوئے۔ دشوار گزار راستوں، جنگلوں اور پہاڑوں سے گزرے، مچھروں کی وجہ سے ملیریا میں مبتلا ہوئے۔

    ایک مقام پر برٹن اتنا بیمار ہوا کہ آگے نہ بڑھ سکا، مگر اسپیک چلتا رہا اور جھیل وکٹوریہ تک پہنچ گیا۔ اسپیک کے مطابق یہی جھیل دریائے نیل کے نکلنے کی جگہ تھی، جس کو دنیا نے تسلیم کرلیا۔ یہ جھیل یوگنڈا میں ہے۔ یوگنڈا کا دارالحکومت کمپلا اسی جھیل کے کنارے آباد ہے۔

    وادی نیل کا سب سے بڑا شہر قاہرہ ہے۔ یہاں دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی جامعہ الازہر واقع ہے۔ قاہرہ کے قریب اہرام اور ابو الہول واقع ہیں۔ مصری بادشاہوں کے مقبرے ہیں، جن میں ممی (حنوط شدہ لاشیں) رکھی ہوئی ہیں۔ قاہرہ کا عجائب گھر بھی منفرد مقام ہے۔

    دریائے نیل کے دہانے پر اسکندریہ کا شہر آباد ہے۔ اس کا نام سکندر اعظم کے نام پر ہے۔ یہاں ایک لائٹ ہاؤس بھی تھا جو عجائبات عالم میں شمار ہوتا تھا، مگر زلزلے نے اس کو گرا دیا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • انسٹاگرام پر مقبول دنیا بھر کے خوبصورت ساحل

    انسٹاگرام پر مقبول دنیا بھر کے خوبصورت ساحل

    موسم سرما ہو یا آسمان پر کالے کالے بادل چھائے ہوں، سردیوں کی نرم گرم دھوپ سے لطف اندوز ہونا ہو یا بے ہنگم زندگی سے دور چند لمحے سکون سے گزارنے ہوں، ساحل سمندر سے بہتر کوئی مقام نہیں ہوتا۔

    سمندر کی لہروں کا شور، ٹھنڈی ہوا اور پرسکون ماحول ساحل سمندر کو تفریح کا بہترین مقام بنا دیتے ہیں۔

    آج ہم آپ کو دنیا بھر کے ایسے ساحلوں کی سیر کروانے جارہے ہیں جن کی تصاویر سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹا گرام پر سب سے زیادہ پوسٹ کی جاتی ہیں، اور یہ ساحل خوبصورتی میں بھی اپنی مثال آپ ہیں۔

    مزید پڑھیں: روزانہ ساحل سمندر کی سیر پر جانا حیران کن فوائد کا باعث


    آسٹریلیا کا وائٹ ہیون ساحل


    میکسیکو کا پلایا نورٹے

    Hermosa es Tu creación. beautiful is your creation God!

    A post shared by Victor Canul Ancona (@vicpiacell94) on


    کیوبا کا ویرادیرو ساحل


    آئس لینڈ کا رینسفارا ساحل


    کولمبیا کا ہارس شو بے

    Bermuda 🏝 #blue #pinksand #horseshoebay

    A post shared by Megan Twining (@megan.twining) on


    کیپ ٹاؤن کا بولڈرز بیچ

    smile and wave boys

    A post shared by asha wafer (@ashawafer) on


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • سلطنت عثمانیہ کے دور کے قسطنطنیہ کی سیر کریں

    سلطنت عثمانیہ کے دور کے قسطنطنیہ کی سیر کریں

    

    سلطنت عثمانیہ سنہ 1299 سے 1922 تک قائم رہنے والی مسلمان سلطنت تھی جس کے حکمران ترک تھے۔ یہ سلطنت تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اور جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے زیر نگیں تھا۔

    سنہ 1453 سے 1922 تک اس عظیم سلطنت کا دارالخلافہ قسطنطنیہ تھا جسے آج استنبول کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

    تاہم اس شہر کی پہچان صرف یہی نہیں۔ قسطنطنیہ سنہ 330 سے 395 تک رومی سلطنت اور 395 سے 1453 تک بازنطینی سلطنت کا دارالحکومت بھی رہا۔

    اس شہر بے مثال کی بنیاد 667 قبل مسیح میں یونان کی توسیع کے ابتدائی ایام میں ڈالی گئی۔ اس وقت شہر کو اس کے بانی بائزاس کے نام پر بازنطین کا نام دیا گیا۔ 330 عیسوی میں قسطنطین کی جانب سے اسی مقام پر نئے شہر کی تعمیر کے بعد اسے قسطنطنیہ کا نام دیا گیا۔

    قسطنطنیہ کی فتح کی بشارت حضور اکرم ﷺ نے دی تھی۔ حضور ﷺ نے فرمایا تھا، ’تم ضرور قسطنطنیہ کو فتح کرو گے، وہ فاتح بھی کیا باکمال ہوگا اور وہ فوج بھی کیا باکمال ہوگی‘۔

    حضور اکرم ﷺ کی اس بشارت کے باعث قسطنطنیہ کی فتح ہر مسلمان جرنیل کا خواب تھی۔

    قسطنطنیہ پر مسلمانوں کی جنگی مہمات کا آغاز حضرت عثمان غنی ؓ کے زمانے سے ہوا تھا تاہم ان میں کوئی خاص کامیابی نہ مل سکی۔

    بالآخر ترک سلطان مراد دوئم کا ہونہار بیٹا سلطان محمد قسطنطنیہ فتح کرنے کے نکلا اور کام کو ممکن کر دکھایا۔ قسطنطنیہ کی فتح نے سلطان محمد فاتح کو راتوں رات مسلم دنیا کا مشہور ترین سلطان بنا دیا۔

    سلطان نے اپنے دور میں قسطنطنیہ میں 300 سے زائد عالیشان مساجد تعمیر کروائیں جن میں سے سلطان محمد مسجد اور ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ مسجد بہت ہی مشہور ہیں۔

    فتح کے بعد قسطنطنیہ کو اسلامبول، یعنی اسلام کا گھر، کا نام دیا گیا جو بعد میں استنبول کہلایا جانے لگا۔

    آج ہم تاریخ کے صفحات سے آپ کو قسطنطنیہ کی کچھ نادر تصاویر دکھانے جارہے ہیں۔ یہ تصاویر سلطنت عثمانیہ کے بالکل آخری ادوار کی ہیں جنہیں بہت حفاظت کے ساتھ بحال کر کے دوبارہ پیش کیا گیا ہے۔


    قسطنطنیہ کی ایک گلی


    بندرگاہ کے مناظر


    دریائے باسفورس


    فوارہ سلطان احمد


    مسجد یلدرم بایزید


    مسجد ینی کیمی جو سلطان کے والد سے منسوب ہے


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ایسا دریا جس سے قوس قزح پھوٹتی ہے

    ایسا دریا جس سے قوس قزح پھوٹتی ہے

    کیا آپ نے کبھی ایسے دریا کے بارے میں سنا ہے جو بے حد رنگین ہو اور اس میں سے قوس قزح پھوٹتی دکھائی دیتی ہو؟

    جنوبی امریکی ملک کولمبیا میں واقع ایک دریا ایسا ہی ہے جسے 5 رنگوں کے دریا یا مائع قوس قزح کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہ خوبصورت دریا کولمبیا کے سیرینیا ڈیلا مکرینا صوبے میں واقع نیشنل پارک میں موجود ہے۔

    یہ علاقہ طویل عرصے تک خانہ جنگی کی زد میں رہا جس کی وجہ سے کوئی یہاں آنے کی ہمت نہیں کر پاتا تھا۔

    بالآخر حکومت اور باغیوں کے درمیان امن معاہدے کے ایک سال بعد یعنی گزشتہ برس 2017 میں اس پارک کو عوام کے لیے کھول دیا گیا۔

    دنیا کے خوبصورت ترین دریاؤں میں سے ایک شمار کیے جانے والے اس دریا کی انفرادیت اس کی تہہ میں اگنے والے رنگ برنگے آبی پودوں کی وجہ سے ہے۔ گلابی، جامنی اور سرخ رنگ کے ان پھولوں کے کھلنے کا موسم ستمبر اور نومبر ہے۔

    چھوٹی چھوٹی آبشاروں اور پتھریلے راستوں پر مشتمل یہ خوبصورت دریا 100 کلو میٹر طویل ہے۔

    اس علاقے میں امن قائم ہونے کے بعد اب ملکی و غیر ملکی افراد یہاں آنے لگے ہیں جس سے یہاں کی رونقیں بحال ہوگئی ہیں اور سیاحت کی بدولت مقامی افراد کی زندگی میں بھی خوشحالی آگئی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔