Tag: سیاحت

  • سڑک پر بنی ان لائنوں کا کیا مطلب ہے؟

    سڑک پر بنی ان لائنوں کا کیا مطلب ہے؟

    کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ سڑکوں پر بنی ہوئی زرد اور سفید حاشیے یا لائنز کا کیا مطلب ہے؟ بہت کم لوگ ان کا مطلب جانتے ہیں۔

    صرف سفر کے شوقین افراد سڑک پر بنے مختلف سائنز (نشانات) سے اچھی طرح آشنا ہوتے ہیں۔ انہیں علم ہوتا ہے کہ کس سائن کا کیا مطلب ہے۔

    دراصل ہم میں سے اکثر افراد اپنے تعلیمی اداروں اور دفاتر میں جانے کے لیے تقریباً روز ہی سفر کرتے ہیں لیکن ہم میں سے بہت کم افراد سگنل کی لال، زرد، سبز بتی کے علاوہ کسی اور سائن پر غور کرتے ہوں گے۔

    تو ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ سڑک پر کھنچی ان زرد اور سفید لائنوں کا کیا مطلب ہے۔

    :تقسیم شدہ سفید لائن

    road-2

    کچھ سڑکوں پر سفید رنگ کی ٹوٹی ہوئی یا تقسیم شدہ لائنز بنی ہوتی ہیں۔ یہ عموماً ان سڑکوں پر ہوتی ہیں جو مرکزی شاہراہ سے ذیلی سڑک میں تبدیل ہو رہی ہوتی ہیں اور ان پر بہت کم ٹریفک ہوتی ہے۔

    ان پر بنی سفید لائنز کا مطلب ہے کہ آپ احتیاط کے ساتھ اپنی لین تبدیل کرسکتے ہیں یعنی ایک قطار سے دوسری قطار میں جا سکتے ہیں۔ لیکن احتیاط کو ملحوظ خاطر رکھیں۔

    :غیر تقسیم شدہ سفید لائن

    road-3

    غیر تقسیم شدہ سیدھی سفید لائنوں کا مطلب ہے کہ آپ اپنی لین کسی صورت تبدیل نہیں کر سکتے۔ یہ لائن شہر کی مرکزی اور مصروف شاہراہوں پر بنی ہوتی ہے تاکہ جلدی میں لوگ لین بدلنے سے باز رہیں اور سڑک پر کوئی حادثہ رونما نہ ہو۔

    :تقسیم شدہ زرد لائن

    road-4

    ٹوٹی ہوئی زرد لائنوں کا مطلب ہے کہ آپ اپنی آگے والی گاڑی کو کراس کرسکتے ہیں لیکن ایسا کرنے سے پہلے آس پاس کے ٹریفک اور راہ گیروں کا خیال رکھیں۔

    :غیر تقسیم شدہ ایک زرد لائن

    road-6

    کسی سڑک پر ایک سیدھی زرد لائن آپ کو غیر معمولی احتیاط کے ساتھ گاڑی کراس کرنے کی ہدایت دیتی ہے۔

    :دو زرد لائنیں

    road-5

    سڑک پر دو سیدھی زرد لائنیں آپ کو اپنی لین میں سیدھا گاڑی چلانے کا انتباہ کرتی ہیں۔ اس لائن کا مطلب ہے کہ گاڑیوں کو کراس کرنے کی کوشش ہرگز مت کریں۔

    :ایک سیدھی اور ایک تقسیم شدہ زرد لائن

    road-7

    ان دو لائنوں کا مطلب ہے کہ اگر آپ تقسیم شدہ لائن کے ساتھ چل رہے ہیں تو آپ اگلی گاڑی کو کراس کر سکتے ہیں۔

  • زرافوں کے ساتھ ناشتہ کرنا چاہیں گے؟

    زرافوں کے ساتھ ناشتہ کرنا چاہیں گے؟

    دنیا کے مختلف ممالک اپنی سیاحت میں اضافہ کے لیے سیاحوں کو انوکھے اور عجیب و غریب تجربات سے روشناس ہونے کا موقع دیتے ہیں۔ بعض سیاحتی مقامات پر ایسے ریستوران بنائے جاتے ہیں جو برف سے، غار کے اندر، زیر سمندر یا کسی پہاڑ کی اونچی چوٹی پر بنے ہوتے ہیں۔

    مہم جو افراد ان مقامات پر جا کر انوکھے تجربات سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ لیکن کیا آپ نے کبھی تصور کیا ہے کہ آپ کسی ریستوران میں جائیں اور وہاں ناشتے میں آپ کے ساتھ جانور بھی شریک ہوں؟

    اور جانور بھی کوئی اور نہیں بلکہ زرافہ جو کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔

    اس انوکھے ناشتے سے لطف اندوز ہونے کے لیے آپ کو افریقی ملک کینیا کے دارالحکومت نیروبی کا سفر اختیار کرنا پڑے گا۔

    giraffe-2

    giraffe-3

    نیروبی کے اس ریستوران میں جس کا نام ’زرافوں کی جائیداد‘ ہے، آپ اپنے ناشتے کے دوران زرافوں سے ملاقات کا موقع حاصل کرسکتے ہیں۔

    giraffe-7

    giraffe-4

    ایک نجی زمین پر قائم اس ریستوران کی مالکہ نے کئی سال قبل کچھ ننھے زرافے یہاں پالے تھے۔

    جب یہ زرافے بڑے ہوگئے اور ان کی آبادی میں بھی اضافہ ہوگیا تو اس خاتون نے جسے اب ’جراف لیڈی‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، زرافوں کے رہنے کے لیے ایک باقاعدہ سینٹر قائم کرلیا جو ریستوران کے برابر میں ہی واقع ہے۔

    giraffe-5

    اب یہ زرافے اس ریستوران میں بھی آتے ہیں اور کھڑکیوں سے اپنی لمبی گردن ڈال کر سیاحوں کے ناشتہ میں ان کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔

    giraffe-8

    giraffe-6

    یہاں کا عملہ سیاحوں کو ہدایت دیتا ہے کہ اگر وہ زرافوں کے ساتھ ناشتے جیسے انوکھے تجربے سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں تو انہیں ٹھیک 7 بجے ناشتے کی میز پر موجود ہونا چاہیئے کیونکہ زرافے جلدی اٹھتے ہیں اور ناشتہ کے بعد واپس چلے جاتے ہیں۔

  • دنیا کی عظیم درسگاہ آکسفورڈ کی سیر کریں

    دنیا کی عظیم درسگاہ آکسفورڈ کی سیر کریں

    اگر آپ علم حاصل کرنے کے شوقین ہیں تو یقیناً دنیا کی بہترین یونیورسٹی آکسفورڈ یونیورسٹی میں پڑھنا آپ کا دیرینہ خواب ہوگا۔ کچھ خوش قسمت اپنے اس خواب کی تکمیل میں کامیاب رہتے ہیں۔

    آکسفورڈ دراصل دریائے آکس کے کنارے برطانیہ کا ایک شہر ہے۔ یہیں آکسفورڈ یونیورسٹی واقع ہے جو ایک قدیم درسگاہ ہے۔ سنہ 1133 سے شروع ہونے والے اس ادارے کو یونیورسٹی کی شکل سنہ 1163 میں دی گئی۔

    آکسفورڈ میں 28 کالج ہیں جن کے ساتھ علیحدہ ہاسٹلز بھی موجود ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کی شہرہ آفاق بوڈیلین لائبریری دنیا بھر کی سب سے بڑی لائبریری ہے۔

    دنیا کی سب سے بڑی اور مشہور درسگاہ کے بارے میں ایک حیرت انگیز حقیقت یہ ہے کہ اس کے قیام کے بعد سات صدیوں یعنی 1878 تک یہاں خواتین کا داخلہ ممنوع تھا۔ سنہ 1920 سے باقاعدہ یہاں سے خواتین کو ڈگریاں ملنا شروع ہوئیں۔

    یہاں ہم نے اس عظیم درسگاہ کی کچھ خوبصورت تصاویر جمع کی ہیں جنہیں دیکھ کر آپ خود کو اس درسگاہ میں موجود تصور کریں گے۔

    2

    1

    3

    4

    5

    6

    7

    8

    9

    11

    12

    13

    14

  • جنگ کی تباہ کاریوں سے محفوظ یمن کا خوش قسمت گاؤں

    جنگ کی تباہ کاریوں سے محفوظ یمن کا خوش قسمت گاؤں

    صنعا: مشرق وسطیٰ کے ملک یمن میں پچھلے 18 ماہ سے حکومت اور باغیوں کے درمیان لڑائی جاری ہے جس نے ملک کو خانہ جنگی کی جانب دھکیل دیا۔

    اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس خانہ جنگی میں اب تک 3 ہزار 800 کے قریب افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ 76 لاکھ افراد ایسے ہیں جو اپنا گھر بار چھوڑ کر ہجرت پر مجبور ہوچکے ہیں۔

    لیکن یمن میں ایک گاؤں ایسا بھی ہے جو جنگ کی تباہ کاریوں اور خوان خرابے سے مکمل طور پر محفوظ ہے۔

    yemen-6

    yemen-5

    یہ خوش قسمت گاؤں یمن کے مغربی حصہ میں چند پہاڑیوں کی چوٹی پر واقع ہے۔ گاؤں والے جنگ کا شکار تباہ حال گھرانوں کو اپنے پاس پناہ بھی دے رہے ہیں لیکن حفاظت ان کا پہلا اصول ہے اور یہ زیادہ لوگوں کی نظروں میں نہیں آنا چاہتے کہ کہیں باغی ان پر بھی حملہ آور نہ ہوجائیں۔

    yemen-3

    yemen-4

    yemen-2

    یہ گاؤں بنیادی سہولتوں سے محروم ہے لیکن یہاں رہنے والے افراد خوش قسمت ہیں کہ کم از کم ان کی جانیں اور گھر تو محفوظ ہیں۔

    12

    یمنی صوبے رمیہ میں واقع اس گاؤں کے گھر پہاڑ کی چڑھائی پر بنے ہوئے ہیں۔ یہ گاؤں حملہ آوروں کی دست برد سے تو محفوظ ہے تاہم یہ صورتحال زیادہ باعث اطمینان بھی نہیں ہے کیونکہ گاؤں والوں کو اپنا سامان ضرورت نیچے اتر کر لانا پڑتا ہے۔ اس کے لیے یا تو وہ پیدل سفر کرتے ہیں یا پھر کیبل کار ان کا ذریعہ سفر ہوتا ہے۔

    yemen-8

    گاؤں والے پانی کے نلکوں اور بجلی جیسی سہولیات سے ناواقف ہیں۔ یہاں موجود زیادہ تر افراد کا زریعہ روزگار زراعت ہے۔ یہ علاقہ شہد کی مکھیوں کی افزائش کے لیے بھی مشہور ہے۔ یہاں ان مکھیوں سے شہد حاصل کیا جاتا ہے جو جنگ سے قبل ملک بھر میں فروخت کیا جاتا تھا۔

    14

    yemen-9

    یہاں موجود خواتین گھروں میں ہی نصب چکی پر آٹا پیستی ہیں۔ گاؤں میں موجود گھر پتھروں سے تعمیر کیے جاتے ہیں اور کچھ گھر ایسے بھی ہیں جو کئی سو سال پرانے ہیں۔

    15

    16

    17

    گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ وہ ایک عرصے سے یہاں رہ رہے ہیں اور زندگی کی تمام تکالیف اور مصائب کے باوجود خوش ہیں۔

  • چین میں بلند ترین شیشے کا پل سیاحوں کے لیے کھول دیا گیا

    چین میں بلند ترین شیشے کا پل سیاحوں کے لیے کھول دیا گیا

    چین میں دنیا کا طویل اور بلند ترین شیشے کا پل سیاحوں کے لیے کھول دیا گیا۔

    بی بی سی کے مطابق شین جیاجی پارک میں واقعے شیشے کا پل سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز بنا ہوا ہے، چونتیس لاکھ ڈالر کی لاگت سے بنے اس پل پر سیاح سیلفیوں کے ساتھ تفریح بھی کررہے ہیں۔

    شیشے کا منفردپل چارسوتیس میٹرکی بلندی پر تین سو میٹر گہری کھائی کے اوپر بنا ہوا ہے،یہ دنیا کا سب سے اورنچا اور لمبا شیشے کا پل ہے، چین میں شیشے کا پُل خود کو باہمت ثابت کرنے والوں میں آج کل کافی مقبول ہے۔

    1 2

    ہونان صوبے میں شین جیاجی کے مقام پر بنایا گیا یہ پل ’اوتار‘ نامی دو پہاڑی چوٹیوں کو ملاتا ہے، اس نسبت کی وجہ یہ ہے کہ اوتار نامی فلم یہاں ہی فلمائی گئی تھی۔

    حکام نے کئی تقریبات میں مختلف طریقوں سے اس کی مضبوطی جانچ کر عوام کا تحفظ یقینی بنایا، اس پر ہتھوڑے چلائے گئے حتیٰ کے مسافروں سے بھری گاڑی اس پر ایک سِرے سے دوسرے سِرے تک چلائی گئی۔

    3

    4

    یہ پل دسمبر میں مکمل کیا گیا اور اس پر 34 لاکھ ڈالر کی لاگت آئی، اس میں شیشے کی تین شفاف تہوں کے 99 حصے ہیں۔

    حکام کے مطابق چھ میٹر چوڑے اس پل کو اسرائیلی آرکیٹیکٹ ہیم دوتان نے ڈیزائن کیا، وہ پہلے ہی دنیا بھر میں اپنی آرکیٹیکچر اور تعمیراتی کام کا ریکارڈ بنا چکے ہیں۔

    5

    6

  • بابوسر ٹاپ ۔ پاکستان کا حسین ترین پہاڑی مقام

    بابوسر ٹاپ ۔ پاکستان کا حسین ترین پہاڑی مقام

    عیدالفطرکی چھٹیاں ختم ہوچکی تھیں اور ہم نےطے کیا ہوا تھا کہ ٹھنڈے سیاحتی مرکزکی سیر کے لئے چھٹیوں کے بعد نکلیں گے کیونکہ ہمیں علم تھا کہ رمضان المبارک کے اختتام اورعید الفطر کی شروعات کے ساتھ ہی ملکی سیاح بڑی تعداد میں گرمی کی شدت سے کچھ دنوں کے لئے بچنے کی غرض سے پہاڑی علاقوں پر جب پہنچیں گے تو جہاں ٹریفک بدانتظامی کی باعث ایک گھنٹہ کا سفرپانچ گھنٹوں میں طے ہوگا وہی مہنگائی کا جن بھی بے قابو ہوگا۔ عید کے ایک ہفتے بعد جب ہم نے طے کیا کہ اس مرتبہ وادی ناران کی طرف جایا جائے تو ہمارے خیر خواہ زارا عالم اور ظہور درانی نے مشورہ دیا کہ ناران بازار میں ہوٹل میں قیام کی بجائے بازار سے تقریبا پندرہ کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع بٹا کنڈی کے مقام پر موجود گیسٹ ہاوس میں قیام ہونا چاہیے اوراس کے لئے انہوں نے بکنگ کا بھی بندوبست کرلیا تھا اورواقعی ہم جب بٹا کنڈی پہنچے تو پرسکون ہونے کے علاوہ یہ مقام انتہائی پر فضا بھی تھا۔ ایک جانب دریائے کنہارکا منظر، اس میں گرتا آبشاراورساتھ ہی بے پناہ خوبصورتی کی حامل لالہ زاروادی۔

    یہ خبربھی پڑھیں: سیف الملوک – جہاں پریاں اترتی ہیں

    POST 8
    بابو سرٹاپ کی تفصیلات پر مبنی بورڈ
    POST 7
    بابوسر ٹاپ کی جانب جانے والا راستہ

    یہاں ہم نے رہائش اختیار کی اورصبح سطح سمندر سے 16384فٹ بلندی پرواقع بابو سر ٹاپ کے لئے روانہ ہوگئے۔ ہمارے پاس تو ذاتی جیپ تھی لیکن ہمیں بتایا گیا کہ جو افراد مقامی جیپ استعمال کرتے ہیں تو ان کوناران سے بابو سر ٹاپ کے 75 کلومیٹر فاصلے کے دو اطراف کے لیے آٹھ سے دس ہزار روپے ادا کرنے پڑتے ہیں۔ بہرحال ہم بٹا کنڈی سے صبح آٹھ بجے روانہ ہوئے۔ بیشتر راستہ پختہ، ایک طرف قراقرم کا پہاڑی سلسلہ اوردوسری جانب دریائے کنہار کے دلکش مناظر، سرسبز آلو اورمٹر کے کھیت اوران میں بہتے جھرنے ایک لمحے کے لئے بھی تھکاوٹ کا احساس پیدا نہیں کرتے۔

    POST 10
    بابوسرٹاپ کے راستے میں مشینری برف ہٹاتے ہوئے

     

    POST 14
    بابوسرٹاپ پر پولیس کی جانب سے نصب بورڈ

    وادی ناران سطح سمندر سے تقریبا 8500 فٹ بلند اور بابوسرٹاپ کی بلندی جیسا کہ پہلا تحریر کیا جاچکا ہے16384 ہے تو بلندی کی طرف جاتے ہوئے ہرموڑ پر خوبصورت نطارے جہاں آپکی توجہ بٹنے نہیں دیتی وہی راستے میں سطح سمندر سے 11200 فٹ بلند لولوسرجھیل کی سحرانگیزی اورجادوئی کشش آپ کو اپنی جانب کھینچنے لگتی ہے۔

    POST 4
    لولو سرجھیل کے خصوصی مناظر

    چونکہ ہم بابو سر ٹاپ کی طرف رواں دواں ہیں اس لیے اس جھیل کی خوبصورتی کو بیان کرنے کے لئے علحیدہ مضمون تحریرکرنے کا ارادہ ہے۔ تقریبا دو گھنٹے کی ڈرائیونگ کے بعد جب خیبر پختونخواہ کی سرحد کو عبورکرکے گلگت بلتستان میں داخل ہوئی توبابوسر ٹاپ کے دلفریب مناظر ایک عجیب اور خوشگوار سماں پیش کرتے آپ کو خوش امدید کہہ رہے ہوتے ہیں اوریہی وہ لمحہ ہے جب بے اختیار یہ کہنا پڑتا ہے کہ واقعی قدرتی حسن سے مالا مال پاکستان میں بابو سر ٹاپ کو قدرت نے اپنے تمام ترحسن ودولت سے نوازا ہے، یہاں پرجولائی کے مہینے میں بھی پہاڑوں پرسفید برف ایک ایسا منظر پیش کرتی ہے جیساکہ کوئی پریوں کے دیس میں آنکلاہو۔

    اس پہاڑی چوٹی کو کراس کرنے کے بعد چلاس اورگلگت کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے بابو سرٹاپ پرجہاں کراچی، لاہور، فیصل آباد، پشاور، کوئٹہ، ملتان اور ملک کے دیگر شہروں کے افراد اپنی فیملی کے ساتھ نظر آتے ہیں، وہیں ہماری ملاقات اسٹریلیا سے آئے ہوئے دو موٹر سائیکل سواروں سے ہوئی گوکہ وہاں بے شمار ملکی موٹرسائیکلسٹ بھی پہنچے ہوئے تھے۔

    POST 3
    اے آروائی نیوز کے بیورو چیف ضیا الحق ، سیاحوں سے گفتگو کرتے ہوئے

    آسٹریلوی موٹر سائیکلسٹ نے بتایا کہ وہ اسلام اباد سے براستہ گلگت یہاں پہنچے ہیں اوریہی سے واپس جارہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس علاقے کی خوبصورتی سے بے پناہ متاثرہوئے ہیں۔ بابوسرٹاپ پرپانی کی شدید قلت محسوس کی گئی جبکہ یہاں سیاحوں کے لئے کوئی خاص انتظام بھی دیکھنے کو نہیں ملا۔ یہاں مقامی انتطامیہ کے ایک اہلکار سے بھی ملاقات ہوئی جن کا کہنا تھا کہ بابو سرٹاپ کا راستہ مئی سے اکتوبرتک کھلا رہتا ہے، کیونکہ سردی میں شدید برف باری کا باعث یہ راستہ اکثر بند ہوجاتا ہے اوراگرکھل بھی جائے تو پھسلن کے باعث ٹریفک کا چلنا محال ہوتا ہے۔

    POST 5
    سیاحوں کی بڑی تعداد بابوسر ٹاپ پر
    POST 13
    کراچی سے تعلق رکھنے والی سیاح

    انہوں نے سیاحوں سے اپیل کی وہ یہاں آنے کے لئے ہر لحاط سے بہترگا ڑی کا انتخاب کریں کیونکہ اگر یہاں گاڑی خراب ہوجائے تو مکینک کی سہولت موجود نہیں ہے ۔ یہیں موجود کراچی کے ایک رہائشی جمشید احمد نے اس خطہ زمیں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنے ملک کے جغرافیہ، موسم اور قدرتی حسن پرفخر کرنا چاہیے کیونکہ ہمارا ملک ایسے خطے میں موجود ہے جہاں اگرکوئی جہاز کا خرچہ اٹھا سکتا ہے تو کراچی سے بابو سر ٹاپ براستہ اسلام اباد ائیر پورٹ آٹھ گھنٹوں میں پہنچ سکتا ہے اورلاہور سے براستہ سڑک یہاں تقریبا بارہ گھنٹوں میں پہنچ سکتا ہے اگرراستہ میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ بابوسرٹاپ پرمقا می افراد نے ڈھابہ ہوٹل قائم کیے ہوئے ہیں جن ٕمیں چائے ، آلو پکوڑہ، سیخ تکہ اورسافٹ ڈرنکس ملتے ہیں۔

    POST 12
    دریا کے خوبصورت مناظر
    POST 1
    لولو سرجھیل کا ایک حسین منظر

    اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کوایک دورمیں سیاحت کے میدان میں اہم ترین مقام حاصل تھا لیکن دہشت گردی کی لہر نے اس پوزیشن کو بھی متاثر کیا لیکن اب ضرب عضب اپریشن کے بعد حالات بہتر ہورہے ہیں تو مقامی اور وفاقی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان علاقوں میں سیاحوں کی بہتری کے لئے اقدامات اٹھانے چاہے تاکہ جہاں متوسط طبقہ اس حسن کا نظارہ کرسکے وہی غیر ملکی سیاحوں کی آمد کا سلسلہ بھی دوبارہ شروع ہو، جس سے مقامی روزگار میں بھی اضافہ ہوگا اور ملک کو زرمبادلہ بھی میسر آئے گا اورسیاحت کو فروغ دینے سے ملک کا امیج بھی بہترہوگا۔

  • سیف الملوک – جہاں پریاں اترتی ہیں

    سیف الملوک – جہاں پریاں اترتی ہیں

    پاکستان میں جوں ہی گرم موسم کی شروعات ہوتی ہے تو ملکی وغیرملکی سیاح نسبتاً سرد موسم کی حامل پہاڑی علاقوں میں پہنچنا شروع ہوجاتے ہیں اور اس دوران جب تعلیمی اداروں اورسرکاری دفاترمیں چھٹیاں ہوتی ہے تو یہ علاقےعام شہری علاقوں کا منظرپیس کرنے لگتے ہیں جہاں بھیڑاورگاڑیوں کی لمبی قطاریں معمول بن جاتا ہے۔

    ویسے تو پاکستان کا ہرعلاقہ اپنی ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے لیکن ابھی ذکرکرتے ہیں خیبر پختونخواہ کے شمالی علاقے میں واقع وادی ناران سے آٹھ کلومیٹرکے فاصلے پرحسین وجمیل خوبصورتیوں سے مالا مال نیلگوں پانی کی سرزمین جھیل سیف الملوک کا جو سطح سمندرسے تقریبا 10500 فٹ پرواقع ہے۔

    POST 14

    جھیل تک پنچنے کے لئے وادی ناران سے گوکہ فاصلہ کم ہے لیکن اس کے لئے مقامی جیپ کا سہارا لینا پڑتا ہے جس کے لئے اپ کو دو اطراف کے چارسے پانچ ہزارروپےادا کرنے پڑتے ہیں۔

    ہم نے بھی اپنا سفر ناران سے شروع کیا اورحیرانگی بھی ہورہی تھی کہ اتنے کم فاصلے کے لئے اتنی زیادہ رقم ادا کرنے پڑ رہی ہے لیکن جب سفر شروع ہوا تو پتہ چلا کہ جہاں یہ پہاڑی راستہ پر پیچ ہے وہی حد درجہ کا کچا بھی اور جیب کو پتھروں پرسے گزرنا پڑتا ہے۔

    ہم جس جیپ میں سوار تھے اس کے ڈرائیور کا نام رضوان تھا اور اس سے جب دریافت کیا گیا کہ راستہ پختہ کیوں نہیں کیا جارہا ہے تو اس نے دو اہم انکشافات کیے۔ اس کا کہنا تھا کہ یہاں کے مقامی آبادی کے لئے موسم گرما کے پانچ ماہ کمائی کے ہوتے ہیں اور اس دوران جہاں ہوٹل آباد ہوتے ہیں، وہی مقامی ٹرانسپورٹر کچے راستے پر من مانے کرایہ حاصل کرتے ہیں اور راستوں کو پکا بھی نہیں ہونے دیتے کیونکہ پھر سیاح اپنی گاڑیاں استعمال کرنا شروع کردیں گے جس سے ان کے روزگار کو خطرہ ہوسکتا ہے۔

    POST 10

    رضوان نے یہ بھی بتایا کہ اس روٹ پرسو سے زائد جیپیں چلتی ہے، سڑک کے پختہ ہونے کے حوالے سے اس کا دعویٰ تھا کہ کاغذوں میں یہ سڑک بن چکی ہے۔ ڈرائیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے ہم 45 منٹ میں جھیل پہنچے اورچونکہ راستہ تنگ ہے اوراس دوران کسی جگہ لینڈسلائنڈنگ ہوجائے، گاڑی خراب ہو جائے، یا کوئی اوورٹیک کرے تو پھر وقت کی کوئی قید نہیں اورآپ کو گھنٹوں انتظاربھی کرنا پڑسکتا ہے۔

    جھیل تک جاتے ہوئے راستے میں گلیشئیر کے اوپر سے گزرنا پڑتا ہے جس کے لئے ماہر ڈرائیور کی ضرورت پڑتی ہے۔

    POST 3

    یہ تما م دشواریاں اور خطرات تو ایک حقیقت ہیں لیکن جب جیپ جھیل سیف الملوک پہنچتی ہے تو اس کے خوپصورت اور دلکش مناظر تمام تھکن ختم کردیتے ہیں، جونہی آپ جھیل کی حدود میں داخل ہوتے ہیں تو آپ کو برف پوش پہاڑوں کی چوٹیاں اوربڑی تعداد میں مختلف ماڈلز کی جیپیں کھڑی نظرآتی ہے اورجھیل کا نیلا پانی اوراس سے نکلنے والا آبشار آواز دل، دماغ اورآنکھوں کی ٹھنڈک کا ذریعہ بنتا ہے۔

    POST 7

    ایک جانب تو مقامی آبادی جھیل کی خوبصورتی کو قائم رکھنے کے لئے سیاحوں کے پھیلائے ہوئے گند صاف کرتے ہوئے نظرآتے ہیں، وہیں ان میں سے کچھ اس حسین جھیل سے منسوب پری بدیع الجمال اورشہزادہ سیف الملوک کی محبت کی رومانوی داستانیں سناتے نظرآتے ہیں۔

    پیالہ نماسیف الملوک جھیل اپنے حسن و جمال کے سبب دنیا بھرمیں اپنی مثال آپ ہے، اس کی لمبائی تقریبا 1420 فٹ اور چوڑائی 450فٹ کے قریب ہے جھیل کے سامنے 17390 فٹ بلندی کا حامل ملکہ پربت نامی عظیم پہاڑ سارا سال برف کا لبادہ اوڑھے، اپنی خوبصورتی اورجوبن کے حسین نظارے لیے قائم ہے۔

    POST 15

    ہمیں یہاں یہ بھی بتایا گیا کہ جھیل کا رنگ موسم کے ساتھ بدلتا رہتا ہے صاف موسم میں جھیل کے پانی کا رنگ نیلا، بادل ہوں تو سبز اورگہرے بادل ہو تو گہرا سبز پوجاتا ہے، یہاں جن ملکی اورغیر ملکی سیاحوں سے ملاقات ہوئی تو ہرکوئی اپنے انداز میں تعریف کرتے ہوائے ملا، جبکہ جھیل کے گرد گھوڑ سواری کرتے بچے جوان ہر منظرکی سیلفی لیتے اور فوٹو گرافی کرتے نظرآئے۔

    POST 13

    یہ تمام مناظردیکھنے کے بعد یقیناً یہ بے ساختہ کہنا پڑتا ہے کہ جھیل کی خوبصورتی کو دیکھنے کی تمنا ہرسیاح کو ہر مشکل اور دشواری سے بیگانہ کردیتی ہے، لیکن یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ حکومت کی جانب سے جھیل کی خوبصورتی میں اضافے اورسیاحوں کی سہولت کے لئے کوئی مناسب انتظام یا منصوبہ بندی نظرنہیں آئی۔

  • فن لینڈ ۔ جہاں 23 گھنٹے کا روزہ ہے

    فن لینڈ ۔ جہاں 23 گھنٹے کا روزہ ہے

    پاکستان میں روزے کا مجموعی دورانیہ لگ بھگ 16 گھنٹے کے قریب ہے لیکن دنیا میں ایک ایسی جگہ بھی ہے جہاں افطار اور سحری کے درمیان محض ایک گھنٹے سے بھی کم وقت ہوتا ہے یعنی 23 گھنٹے کا روزہ۔

    دنیا بھر کی طرح فن لینڈ میں بھی رمضان المبارک کا آغاز جون کے مہینے میں ہوا ہے۔ جون وہ مہینہ ہے جب شمالی فن لینڈ میں سورج غروب ہونا چھوڑ دیتا ہے یعنی 23 سے چوبیس گھنٹے دن کی روشنی موجود رہتی ہے۔

    fl-1

    fl-2

    بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے محمد اور ان کی فیملی سورج کی روشنی میں ہی سحری کرتی ہے اور ان کو سورج کی روشنی میں ہی افطار کرنا پڑتا ہے۔ محمد اور ان کی فیملی کو روزہ کھولنے اور دوبارہ سحری کرنے میں ایک گھنٹے سے بھی کم وقت ملتا ہے بلکہ اکثر وہ سحری اور افطاری ایک ساتھ ہی کرتے ہیں۔

    شمالی فن لینڈ میں 8 جولائی کے بعد سورج کی روشنی کا دورانیہ کم ہونا شروع ہوگا لیکن محمد اور ان کی فیملی کو پورا رمضان اسی طرح گزارنا پڑے گا۔

    fl-3

    fl-4

    فن لینڈ میں گرمیوں کے موسم میں سورج غروب نہیں ہوتا۔ ان دنوں یہاں رات میں بھی سفید سی روشنی پھیلی رہتی ہے جسے آدھی رات کا سورج یعنی ’مڈ نائٹ سن‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد سارا دن سورج چمکتا رہتا ہے۔ اسی طرح سردیوں میں یہاں سورج بالکل بھی نہیں نکلتا اور ساری سردیاں اندھیرے میں گزرتی ہیں۔

  • ایک ایساگاؤں جہاں صرف ساڑھے تین گھنٹے کا دن ہوتا ہے

    ایک ایساگاؤں جہاں صرف ساڑھے تین گھنٹے کا دن ہوتا ہے

    مسقط : کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا کی وہ کون سی جگہ ہے جہاں سب سے چھوٹا دن ہوتا ہے، آئیں اس حقیقت سے پرادہ اُٹھا تے ہیں۔

    عمان میں واقع ایک نواحی گاؤں ویکان جو سطح سمندر سے تقریبا 2000 میٹر بلند ہے، جہاں ساڑھے تین گھنٹے سے زیادہ وقت کا دن نہیں ہوتا ۔

    V2

    عمان کے ایک اخبار کے مطابق ویکان نامی اس گاوں میں سورج صبح تقریبا 11 بجے نکلتا ہے اور 2:30 بجے غروب ہوجاتا ہے۔

    V3

    سعودی اخبار اجیل کے مطابق اس گاﺅں میں روزے کا دورانیہ سب سے کم ہے تاہم یہ واضح نہیں ہوسکا کہ مکین مقامی وقت کی پیروی کرتے ہیں یا نہیں۔

    V4

    ایمریٹس 24/7کے مطابق دارلحکومت مسقط سے ایک سو پچاس کلومیٹر دور البتینہ کے شمال میں واقع اس گاﺅں میں جانے کیلئے گدھوں، گھوڑوں یا چاروں ٹائروں سے زور لگانیوالی گاڑیوں کاسہارا لینا پڑتا ہے ۔

    V1

    v5

  • پاکستان کے پانچ خوبصورت ریگستانی علاقے

    پاکستان کے پانچ خوبصورت ریگستانی علاقے

    کراچی : کراہ ارض پر موجود بنجر زمین کو ریگستان کہا جاتا ہے ، دنیا بھر میں سینکڑوں کی تعداد میں ریگستان موجود ہیں، جن میں سے کچھ بہت زیادہ گرم اور کچھ ٹھنڈے ہیں۔

    کیا آپ کے علم میں ہے کہ  پاکستان میں بھی پانچ صحرا واقع ہیں جن کے نام اور خصوصیات قابل ذکر ہیں جو درج ذیل ہیں۔

    صحرائے تھر

    1

    صحرائے تھر پاکستان کے جنوب مشرقی اور بھارت کے شمال مغربی سرحد پر واقع ہے، اس صحرا کو ’’ عظیم ہندوستانی صحرا‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

    اس کا رقبہ دو لاکھ مربع کلومیٹر یا ستتر ہزار مربع میل ہے۔اس کا شمار دنیا کے نویں بڑے گرم ترین صحرا میں کیا جاتاہے۔

    صحرائے چولستان

    5

    یہ صحرا  بہاولپورشہر اور پنجاب سے تیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، اس علاقے کو پنجاب کا اہم ترین صحرا جانا جاتا ہے اورمقامی طور پریہ علاقہ ’’روہی‘‘ کے نام سے مشہور ہے،  جنوب مشرق میں یہ صحرا راجھستان سے جاکرملتا ہے، عام طور پر یہاں رہنے والے مقامی افراد کو خانہ بدوش کہا جاتا ہے۔

    ہر سال اس صحرا میں پاکستان کی سب سے بڑی جیپ ریلی منعقد کی جاتی ہے جسے دنیا کے مختلف ممالک سے لوگ خصوصی طور پر دیکھنے آتے ہیں۔

    صحرائے تھل

    2

    یہ کوہِ نمک کے جنوب میں دریائے سندھ اور دریائے جہلم کے درمیان میانوالی ، بھکر ، خوشاب اور مضظرگڑھ کے علاقوں پر واقع ہے،خوشاب سے میانوالی کے جنوب کا سارا علاقہ تھل صحرا کا ہے۔

    دریائے سندھ سے نکالی جانے والی ایک نہر کے باعث یہاں کے لوگوں کو پانی کی قلت کا سامنا نہیں ہے، مقامی لوگوں کی محنت صحرا کو آہستہ آہستہ زرعی علاقے میں تبدیل کررہی ہے، جس سے اس علاقے کا قدرتی حسن ماند پڑتا جا رہا ہے۔

     صحرائے وادی سندھ

    4

    صحرائے وادیِ سندھ پاکستان کے شمالی علاقے میں غیرآباد صحرا ہے۔ دریائے چناب اور دریائے سندھ کے درمیان اور پنجاب کے شمال مغربی علاقے پر 19500 مربع کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہے۔

    عام طور پر یہ صحرا سردیوں میں بے حد ٹھنڈا اور گرمیوں میں ملک کے گرم ترین علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے، موسم کی تبدیلیوں کے باعث یہ صحرا غیرآباد علاقہ ہے۔

    صحرائے خاران

    3

    یہ صحرائے صوبہ بلوچستان کے جنوب مغرب میں واقعہ ہے، اس صحرا کو عام طور پر ’’مٹی کا صحرا‘‘ کہا جاتا ہے۔ پاکستان نے 30 مئی 1998 کو  اپنے دوسرا جوہری تجربہ ’’ چاغی‘‘ کا تجربہ بھی اسی صحرا میں کیا تھا۔