سیکرٹری سیاحت کیپٹن (ریٹائرڈ) مشتاق احمد نے محکمہ سیاحت میں آغا خان کلچرل سوسائٹی آف پاکستان کے عہدیداروں سے ملاقات کی۔ اس موقع پر کامران لاشاری، توصیف احمد (سی ای او اے کے سی ایس پی)، راشد مکدوم (کنزرویشن ماہر)، وجاہت علی (کنزرویشن آرکیٹیکٹ) اور کرسٹوفر بولیو (میوزیم کے ماہر) موجود تھے۔
اجلاس کے دوران اس بات پر تبادلہ خیال کیا گیا کہ ایک کمیٹی بنائی جائے جس میں ہر شعبہ کے دو سے تین ماہرین ایک ٹیم کے طور پر کام کریں۔ سیکرٹری سیاحت نے کہا کہ وراثت کا تحفظ باقی چیزوں کی طرح اہم ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے پاس ایسا ورثہ ہے جسے ضائع نہیں ہونا چاہیے، لاہور اور ٹیکسلا میں واقع عجائب گھر قومی اور بین الاقوامی سطح پر بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ ہمیں صلاحیت کی تعمیر کے ذریعے اپنے عملے کو تربیت دینے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ ٹیکسلا میوزیم کی بحالی کے لیے فوری اقدامات کریں۔ انہوں نے ہم آہنگی اور قدر پیدا کرنے کے لیے متعلقہ محکموں کے درمیان تعاون کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
“محکمہ سیاحت صوبے بھر میں میوزیم اور تاریخی اہمیت کے دیگر مقامات کی بحالی کے لیے کام کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ ہم آنے والی نسلوں کے لیے ایک شاندار ورثے کو محفوظ کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس مقصد کے لیے لاہور میوزیم ایکٹ کا مسودہ تیار کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
مزید برآں، شرکاء نے حضوری باغ میں حفظان صحت اور صفائی کی سہولیات کو بہتر بنانے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا۔ ملاقات میں کھڑک سنگھ حویلی کی بحالی کا معاملہ بھی اٹھایا گیا۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج سیاحت کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ کرونا وائرس کی وجہ سے سفری پابندیوں کے باعث سال 2020 اور 2021 کے دوران پاکستان کی مقامی سیاحت میں بے حد اضافہ ہوا۔
سیاحت کا عالمی دن ورلڈ ٹورازم آرگنائزیشن کی ایگزیکٹو کونسل کی سفارشات پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں قرارداد کی منظوری کے بعد سے 1970 سے ہر سال 27 ستمبر کو منایا جاتا ہے۔
اس دن کو منانے کا مقصد سیاحت کے فروغ، نئے سیاحتی مقامات کی تلاش، آثار قدیمہ کو محفوظ بنانے، سیاحوں کے لیے زیادہ سے زیادہ اور جدید سہولیات پیدا کرنے، سیاحوں کے تحفظ ، نئے سیاحتی مقامات تک آسان رسائی سمیت دیگر متعلقہ امور کو فروغ دینا ہے۔
پاکستان کا شمار اپنے جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے دنیا کے ان خوش قسمت ممالک میں ہوتا ہے جہاں ایک جانب بلند و بالا پہاڑ ہیں تو دوسری جانب وسیع وعریض زرخیز میدان بھی موجود ہیں۔
دنیا کے بیشتر ممالک میں ایک بھی دریا نہیں بہتا جبکہ پاکستان کی سرزمین پر 17 بڑے دریا بہتے ہیں، یہاں سبزہ زار بھی ہیں اور ریگ زار بھی۔
پاکستان میں مقبول ترین سیاحتی مقامات سوات، ہنزہ، ناران، کاغان اور مری وغیرہ سمجھے جاتے ہیں۔ تاہم آج ہم آپ کو ان مقامات کے علاوہ 5 نہایت خوبصورت مقامات کے بارے میں بتانے جارہے ہیں جہاں آپ کو زندگی میں کم از کم ایک بار ضرور سفر کرنا چاہیئے۔
چندا ویلی
چندا ویلی اسکردو سے قریب ایک وادی ہے جہاں قدرت نے حسن کے تمام جلوے بکھیر رکھے ہیں۔ سطح سمندر سے 10 ہزار فٹ بلند یہ ہری بھری وادی ایک غیر معروف سیاحتی مقام ہے چنانچہ شہروں کی بھیڑ بھاڑ سے دور یہاں زندگی کا حسین ترین وقت گزارا جاسکتا ہے۔
وادی نلتر
نلتر گلگت سے 40 کلو میٹر کی مسافت پر واقع ہے، یہ وادی اپنی رنگین جھیلوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ خزاں میں جب درختوں سے سنہری پتے جھڑتے ہیں تو یہ وادی جنت کا ٹکڑا معلوم ہونے لگتی ہے۔
راما میڈو
گلگت بلتستان کے ضلع استور سے 11 کلو میٹر دور واقع راما میڈو شمال کے خوبصورت ترین دیہات میں سے ایک قرار دیا جاسکتا ہے۔
کھلا سرسبز میدان، میدان میں نالیوں کی صورت میں بہتا ٹھنڈا برف دودھیا پانی، پانی کے کناروں پر میدان میں جا بجا گائیں اور بھیڑیں، ارد گرد چیڑ کے لمبے سرسبز درخت، عقب میں پہاڑی ڈھلوان پر چیڑ کا جنگل، اس کے اوپر چونگڑا کی برف پوش چوٹی، چوٹی کے ساتھ نانگا پربت کی جنوبی دیوار اور نیلے آسمان پر پہاڑ کی چوٹیوں کو چھوتے بادلوں کا سحر انگیز منظر راما میڈو میں ہی مل سکتا ہے۔
وادی نیلم
وادی نیلم آزاد کشمیر کی ایک خوبصورت وادی ہے۔ یہ مظفر آباد کے شمال اور شمال مشرق میں دریائے نیلم کے دونوں اطراف واقع ہے۔ یہ وادی 144 کلو میٹر طویل ہے جو بلند و بالا پہاڑوں، گھنے جنگلات اور خوبصورت باغات پر مشتمل ہے۔
ٹیکسلا
صوبہ پنجاب کے شہر راولپنڈی میں واقع ٹیکسلا کے کھنڈرات تاریخی اہمیت رکھتے ہیں، یہ مقام گندھارا دور میں بدھ مت اور ہندو مت کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔
یہاں گوتھک طرز کا ایک عجائب گھر ہے، جس میں پانچویں صدی قبل مسیح کے گندھارا آرٹ کے نمونے، 10 ہزار سکے، زیورات، ظروف اور دیگر نوادرات رکھے ہیں۔
پشاور: عید الاضحیٰ میں خیبر پختون خوا کے سیاحتی مقامات سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنے رہے، ملاکنڈ اور ہزارہ ڈویژن کے سیاحتی مقامات میں سیاحوں کا رش رہا۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق عید کے دنوں میں خیبر پختون خوا میں سیاحتی مقامات پر سیاحوں کا رش رہا، اور مختلف شعبہ جات سے وابستہ افراد کو 4 ارب روپے سے زائد آمدن ہوئی۔
محکمہ سیاحت خیبر پختون خوا کے ترجمان سعد بن اویس نے اے آر وائی نیوز کو بتایا کہ عید کی تعطیلات میں ہزارہ ڈویژن کے سیاحتی مقام گلیات میں 2 لاکھ سے زائد گاڑیوں کی انٹری ہوئی اور 10 لاکھ سے زائد گلیات کی پُرفضا مقامات کی سیر سے لطف اندوز ہوئے، جب کہ 5 لاکھ 50 ہزار سے زائد سیاح جنت نظیر وادی سوات کے نظارے دیکھنے گئے۔
کاغان میں 3 لاکھ سے زائد گاڑیوں میں 12 لاکھ سے زائد سیاحوں نے پر فضا مقامات کا رخ کیا۔
سعد نے بتایا کہ خیبر پختون خوا کے جنوبی علاقوں کے سیاحتی مقامات بھی سیاحوں کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں، عید کے دنوں میں شمالی وزیرستان کے علاقے رزمک کے خوب صورت نظاروں سے ایک لاکھ سے زائد سیاح محظوظ ہوئے۔
سیاحتی مقامات کی سیر سے جہاں سیاح لطف اندوز ہوتے ہیں وہاں پر مقامی افراد کو روزگار کے مواقع بھی میسر آتے ہیں، محکمہ سیاحت خیبر پختون خوا کے مطابق عید کے ایام میں سیاحتی شعبے سے وابستہ افراد کو 4 ارب روپے کی آمدن ہوئی ہے۔
خیبر پختون خوا کے سیاحتی مقامات میں اس وقت بھی لاکھوں کی تعداد سیاح موجود ہیں، سیاحتی مقامات کی سیر کے لیے جانے والے سیاحوں کو ٹریفک کے مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کالام، سوات کے نئے سیاحتی مقام گبین جبہ، ملم جبہ، ہزارہ ڈویژن کے سیاحتی مقام کاغان، ناران میں ٹریفک کی روانی متاثر رہی، جس کی وجہ سے سیاحوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
مردان سے تعلق رکھنے والے سید احمد خان اپنے دوستوں کے ساتھ عید کے تیسرے دن کالام سیر وتفریح کے لیے جا رہے تھے، سید احمد نے بتایا کہ جب وہ بحرین پہنچے تو آگے راستہ بند تھا، گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی تھیں اور انتظامیہ بھی منظر سے غائب تھی۔ کئی فیملیز کو دیکھا جو رش میں پھنسی ہوئی تھیں، لوگ پیدل سفر پر مجبور تھے، سیاحوں نے صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا کہ سیاحتی مقامات میں ٹریفک کے مسائل حل کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں تاکہ سیاح اپنی منزل مقصود پر پہنچ کر ان لمحوں کو یادگار بنا سکیں۔
جانوروں سے محبت ہونے کے باوجود پاکستانی چڑیا گھروں کی سیر کرنا مجھے ہرگز پسند نہیں جس کی وجہ وہاں رکھے گئے جانوروں کی حالت زار ہے، لیکن بیرون ملک سفر کے دوران میری ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ جس شہر میں بھی جاؤں وہاں کے چڑیا گھر ضرور جاؤں اور وہاں کے مقامی جانور اور انہیں چڑیا گھر میں رکھے جانے کا انداز دیکھوں۔
سنہ 2019 میں ایک فیلو شپ کے سلسلے میں امریکا جانا ہوا تو میں نے پہلے ہی گوگل پر سرچ کرلیا کہ جن شہروں میں ہم جائیں گے وہاں کے چڑیا گھروں میں کون کون سے جانور موجود ہیں۔ ایک چڑیا گھر میں دنیا کے نایاب ترین جاندار پینگوئن کی موجودگی نے مجھے پرجوش کردیا اور میں نے طے کرلیا کہ زندگی کبھی کسی برفانی خطے میں جا کر پینگوئن سے ملاقات کا موقع تو شاید نہ دے، لہٰذا امریکا کے چڑیا گھر میں ہی اسے دیکھ لیا جائے۔
سینٹ لوئیس زولوجیکل پارک
پاکستانی صحافیوں کے لیے منعقدہ اس فیلو شپ میں مجھ سمیت ملک بھر سے تقریباً 10 صحافیوں کو منتخب کیا گیا تھا۔ ہمارے دورے میں واشنگٹن ڈی سی سمیت امریکا کے 3 شہر شامل تھے۔ نومبر کی ایک صبح جب ہم ریاست میزوری کے شہر سینٹ لوئیس میں اترے تو درجہ حرارت منفی 1 تک گر چکا تھا۔ اس سے قبل ہم ریاست اوکلوہاما میں تھے جہاں درمیان کے تین دن موسلا دھار بارش رہی اور شروع اور آخر کے 2 دن میں تیز دھوپ نے ہمیں جھلسا دیا تھا۔
اس کے بعد سینٹ لوئیس کا منفی ڈگری سینٹی گریڈ ہم سب کو ٹھٹھرا دینے کے لیے کافی تھا۔ سردی اس قدر شدید تھی کہ پنجاب اور بالائی علاقوں کی سخت سردیوں کے عادی صحافی دوست بھی ٹھٹھر رہے تھے، ہم کراچی والوں کا تو حال ہی برا تھا جنہیں سردیاں کم ہی نصیب ہوتی تھیں۔
ایک روز جب ہمارے طے شدہ پروگرام میں سینٹ لوئیس کے تاریخی گیٹ وے آرچ اور بوٹینکل گارڈن کی سیر شامل تھی، منتظمین نے ہماری ٹھٹھرتی حالت پر ترس کھاتے ہوئے گارڈن کا دورہ منسوخ کردیا اور ہمیں واپس ہوٹل جا کر آرام کرنے کا مشورہ دیا۔
سینٹ لوئیس کا تاریخی گیٹ وے آرچ
آرام کس کافر کو کرنا تھا۔ ہوٹل کے قریب ایک ریستوران میں لنچ کرتے ہوئے سب نے پروگرام بنایا کہ وقت مل گیا ہے تو وال مارٹ جا کر تحفے تحائف کی ادھوری شاپنگ مکمل کی جائے۔ میں نے صاف انکار کردیا کہ ایسے موسم میں مجھے ہوٹل کا گرم کمرا اور بستر زیادہ پرکشش لگ رہا ہے۔ اس دوران سینٹ لوئیس زو ذہن میں تھا۔
میں نے دبے لفظوں میں کہا کہ کیوں نا چڑیا گھر چلا جائے لیکن شاپنگ کی زور و شور سے ہونے والی بحث میں میری آواز دب گئی چانچہ میں کان لپیٹ کر کھانے میں مصروف ہوگئی۔ تاحال میرا ارادہ اکیلے کہیں نہ جانے اور ہوٹل واپس جا کر سونے کا ہی تھا۔
ہوٹل کے کمرے میں پہنچ کر سردی سے جما ہوا دماغ کچھ بحال ہوا تو چڑیا گھر کی ویب سائٹ اور تصاویر کھول کر دیکھیں۔ تصاویر دیکھ کر یاد آگیا کہ مجھے پینگوئن دیکھنا تھا۔ استقبالیہ پر کال کر کے راستے کی معلومات لینی چاہیں تو ریسیپشن پر بیٹھی خاتون نے جاں فزا خبر سنائی کہ ہوٹل کی مفت شٹل سروس مجھے چڑیا گھر تک چھوڑ اور واپس لے سکتی ہے۔
بس پھر کیا تھا، میں نے سونے کا ارادہ واپس کراچی جانے تک مؤخر کیا، موٹی جیکٹ چڑھائی، اپنے پاس موجود تمام ڈالرز بیگ میں ڈالے کہ کہیں پینگوئن پر لگے مہنگے ٹکٹ کی وجہ سے مجھے نامراد نہ لوٹنا پڑے اور نیچے آگئی۔
شٹل کے لمبے چوڑے سیاہ فام ڈرائیور نے بتایا کہ مجھ سے پہلے اسے ایک گروپ نے وال مارٹ کے لیے بک کرلیا ہے، وہ مجھے چڑیا گھر چھوڑ تو آئے گا لیکن واپسی میں پہلے اس گروپ کو ہوٹل پہنچائے گا اور پھر مجھے لینے آئے گا۔ میں نے اسے بتایا کہ وہ میرے ہی دوست ہیں اور انہیں ہرگز اعتراض نہ ہوگا اگر وہ انہیں وال مارٹ سے لینے کے بعد چڑیا گھر پہنچے اور پھر مجھے وہاں سے لے کر سب کو ایک ساتھ ہوٹل پر اتارے، وہ مان گیا۔
کم آن لیڈی کہہ کر وہ وین میں بیٹھ گیا اور میں بھی اس کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی، اگلے دو منٹ کے اندر جب گاڑی ہوٹل چھوڑ کر خزاں رسیدہ درختوں سے بھرے نہایت سنسان راستوں سے گزرنے لگی تو مجھے ایک لمحے کو خوف بھی محسوس ہوا۔ راستہ نہایت خوبصورت تھا، دو رویہ درختوں سے ڈھکا ہوا، خزاں نے ان درختوں کو بے رنگ کر کے گویا عجب خوبصورتی عطا کردی تھی۔ 10 منٹ طویل راستہ اختتام پذیر ہوا اور چڑیا گھر کے سائن بورڈز نظر آئے تو میں خوش ہوگئی۔
نیک طنیت شٹل ڈرائیور نے چڑیا گھر کے مرکزی دروازے پر چھوڑا اور مسکراتے ہوئے ’انجوائے یور وزٹ‘ کہہ کر ہاتھ ہلا کر واپس چلا گیا۔
چڑیا گھر کے استقبالیہ پر مجھے زو کا نقشہ تھمایا گیا اور بتایا گیا کہ زو 4 بجے بند ہوجائے گا یعنی میرے پاس صرف 1 گھنٹہ تھا۔ انٹری اور پورے چڑیا گھر کی سیر بالکل مفت تھی۔ مجھے کراچی کے تفریحی مقامات یاد آئے جہاں داخلے کی فیس الگ لی جاتی ہے جبکہ اندر موجود تفریحی سہولیات پر الگ ٹکٹ ہیں۔ تقشہ تھام کر چڑیا گھر کے اندر چلنا شروع کیا۔
چڑیا گھر کی گزرگاہیں دیکھ کر اردو شاعروں کی حزنیہ شاعری یاد آگئی جنہیں خزاں میں درختوں کے گرتے پتے اور سنسان راستے دیکھ کر محبوب کی یاد آجاتی تھی۔
سینٹ لوئیس زو جس کا مکمل نام سینٹ لوئیس زولوجیکل پارک ہے سنہ 1910 میں قائم کیا گیا۔ اس کے پہلے ڈائریکٹر جارج ولہرل تھے جو کہا کرتے تھے، ایک زندہ دل شہر کو 2 چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے، ایک اچھا چڑیا گھر، اور ایک اچھی بیس بال ٹیم۔
سینٹ لوئیس کے چڑیا گھر میں موجود کئی جانوروں کو عالمی شہرت حاصل ہے۔ جیسے فل نامی گوریلا کو لائف میگزین کے سرورق پر جگہ ملی۔ چڑیا گھر کا پہلا ہاتھی سنہ 1992 میں پیدا ہوا جس کے والدین ایشیائی تھے اور اس کا نام راجہ رکھا گیا۔
اس چڑیا گھر کا شمار اینیمل مینجمنٹ، ریسرچ اور تحفظ جنگلی حیات کے اقدامات کے حوالے سے دنیا کے اہم اداروں میں کیا جاتا ہے اور یہاں موجود جانوروں، پرندوں اور حشرات الارض کی تعداد سینکڑوں میں ہے جو دنیا کے مختلف خطوں سے لائی اور نہایت حفاظت و خیال سے رکھی گئی ہیں۔
میں نے جب اس چڑیا گھر کی سیر کی تب سخت سردی تھی اور زو کے بند ہونے کا ٹائم قریب تھا لہٰذا وہاں لوگ نہ ہونے کے برابر تھے۔ میرا اصل مقصد پینگوئن دیکھنا تھا چنانچہ میں راستے میں مختلف جانوروں کو سرسری نظر سے دیکھتی ہوئی گزری۔
تمام جانداروں کے انکلوژز بڑے اور کھلے ہوئے تھے اور شیشے کی دیواروں سے ان کی حد بندی کی گئی تھی۔ گو کہ یہ کھلے انکلوژر بھی ان جانوروں اور پرندوں کے لیے ناکافی تھے کہ وہ جنگلوں اور فضاؤں کی وسعتوں کے لیے پیدا ہوئے تھے، لیکن ان کی حالت پاکستانی چڑیا گھروں سے خاصی مختلف اور بہتر تھی۔
مختلف راستوں سے گزر کر میں اس انکلوژر میں پہنچی جہاں پینگوئن موجود تھے۔ یہاں ان کی مختلف اقسام موجود تھیں، ان کے لیے دو تالاب بھی بنائے گئے تھے جس کے سرد پانی میں ڈبکیاں لگاتے پینگوئن نہال تھے۔
دنیا بھر میں پینگوئن کی 18 اقسام پائی جاتی ہیں جو زمین کے سرد ترین علاقوں میں رہتی ہیں۔ سنہ 1959 میں 12 ممالک نے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت برفانی خطوں میں موجود جانداروں کو محفوظ رکھنے کے لیے انہیں نقصان پہنچانے یا کسی بھی طرح ان کے قریب جانے کو غیر قانونی قرار دیا جاچکا ہے۔
معاہدے کے تحت پینگوئن کے شکار یا اس کے انڈے جمع کرنے پر بھی پابندی عائد ہے، یہی وجہ ہے کہ زمین کا نایاب ترین جانور ہونے کے باوجود اسے معدومی کا کوئی خطرہ نہیں اور اس کی نسل مستحکم ہے۔
اچھلتے کودتے پینگوئنز کی تصاویر اور ان کے ساتھ سیلفیاں بنا کر میں واپس ہوئی تو نقشے میں ایک جگہ جانے پہچانے زرافے دکھائی دیے۔ اپنے صحافتی سفر میں وائلڈ لائف کو کور کرتے کرتے ان جانوروں سے بھی واقفیت ہوگئی تھی جن کا پاکستان میں نام و نشان بھی نہ تھا اور سوچتی تھی کہ کیا کبھی ان جانوروں کو دیکھنے، انہیں چھونے اور پیار کرنے کا موقع ملے گا؟ اب زرافے کا پتہ چلا تو دل دھڑک اٹھا کہ یہاں تک آ ہی گئے تو یہ خواہش بھی پوری کرلی جائے۔
گھڑی دیکھی تو وقت کم تھا اور راستہ طویل۔ لیکن سوچا کہ زرافہ نہ دیکھنے کے پچھتاوے سے بہتر ہے ایک رات کے لیے چڑیا گھر میں بند ہوجانا۔ سو باہر نکل کر زرافے کے انکلوژر کی جانب چلنے لگی۔
اونچے نیچے بل کھاتے راستے، دونوں طرف سرخ اور زرد پتوں سے لدے درخت، زمین پر گرے زرد پتے اور انسان کا نام و نشان نہیں۔ یہ وہ راستے تھے جن پر کھو جانے کی آرزو کی جاتی ہے۔ صرف راستے ہی نہیں جانوروں کے لیے مخصوص کردہ احاطے بھی خالی تھے جس کی وجہ بعد میں پتہ چلی۔
میں چونکہ راستوں اور سمتوں کے معاملے میں خاصی بھلکڑ واقع ہوئی ہوں سو رک رک کر ایک ایک موڑ کی نشانی ذہن نشین کرتی ہوئی آگے بڑھتی گئی۔ جب دائیں یا بائیں مڑنا ہوتا تو پلٹ کر دیکھتی اور سوچتی کہ واپسی کے وقت دایاں بائیں میں تبدیل ہوچکا ہوگا، راستہ بتانے والا آس پاس کوئی نہیں ہے لہٰذا خود ہی یاد رکھ کر واپس آنا ہوگا۔
خاصا فاصلہ طے کرنے کے بعد جب اس جگہ پہنچی جہاں زرافوں کا سائن بورڈ لگا تھا تو لکڑی کی باڑھ سے ارد گرد سبز قطعہ، جہاں زرافوں کو ہونا چاہیئے تھا، خالی تھا۔ آس پاس کچھ اجنبی قسم کے بندر اپنے محدود کردہ حصے میں اچھلتے دکھائی دیے لیکن زرافہ غائب تھا۔ میں مایوس ہو کر پلٹنے کو تھی کہ اندر سبز قطعے کے ساتھ موجود بند جگہ سے ایک شخص باہر آتا دکھائی دیا۔
میں نے اس سے زرافوں کا پوچھا تو اس نے بتایا کہ ویسے تو چڑیا گھر کے بند ہونے کا وقت 4 بجے ہے جس کے بعد جانوروں کو کھلے حصے سے اندر بند جگہ لے جایا جاتا ہے، لیکن آج چونکہ سردی بہت زیادہ ہے لہٰذا مقررہ وقت سے پہلے ہی جانوروں کو اندر بند کیا جاچکا ہے۔ میرے چہرے پر مایوسی دیکھ کر اس نے کہا کہ چونکہ میں ٹورسٹ لگتی ہوں تو وہ خصوصی طور پر مجھے اندر لے جا کر زرافے دکھا سکتا ہے۔
میں اس کے پیچھے ایک تاریک کمرے کی طرف چل پڑی۔ اندر ہیٹر کے درجہ حرارت سے گرم ایک طویل کمرہ تھا جس کے دونوں طرف پنجرے تھے جن کی سلاخیں چھت تک جارہی تھیں۔ ان پنجروں میں زرافے، شتر مرغ، ایک قسم کا ہرن اور دیگر کئی جانور تھے۔
بقیہ جانور تو آرام سے ان پنجروں میں بند تھے لیکن زرافوں کی طویل گردنیں چھت سے ٹکرا رہی تھی۔ وہ بیچارے اپنی گردن جھکاتے تو وہ سلاخوں سے لگتیں۔ غرض وہ نہایت غیر آرام دہ حالت میں پنجرے میں موجود تھے اور ان کو دیکھ کر میری خوشی ماند پڑ گئی۔ قریب سے دیکھنے پر ان کے چہرے کا نرم فر نہایت بھلا محسوس ہوا۔
زرافہ جسے افریقی ممالیہ کہا جاتا ہے، زمین پر پایا جانے والا طویل ترین جانور ہے۔ 21 جون کو جب زمین کے ایک حصے پر سال کا طویل ترین دن، اور دوسرے حصے پر سال کی طویل ترین رات ہوتی ہے، اس طویل القامت جانور کا دن بھی منایا جاتا ہے۔
زرافے کو عالمی اداروں نے معدومی کے خطرے سے دو چار جانداروں میں سے ایک قرار دے رکھا ہے جس کی وجہ افریقہ میں ہونے والی خانہ جنگیاں اور ان کے باعث جنگلات کا اجڑ جانا شامل ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں موجود زرافوں کی تعداد ایک لاکھ سے بھی کم ہے اور ماہرین تحفظ جنگلی حیات اس کے حوالے سے تحفظات کا شکار ہیں۔
سینٹ لوئیس زو میں انکلوژر کے نگران نے زرافوں کے ساتھ خوشدلی سے میری تصاویر کھینچیں۔ تمام جانوروں کو دیکھتے ہوئے میں باہر نکل آئی اور اس بھلے آدمی کا بے حد شکریہ ادا کیا۔ واپسی میں درختوں سے گھرے وہی سنسان راستے اور سناٹا تھا۔ ہیلووین کی مناسبت سے زو میں جگہ جگہ جنوں بھوتوں کی ڈیکوریشن کی گئی تھی اور چمکتا ہوا دن اب جب آہستہ آہستہ اندھیرے میں ڈھل رہا تھا تو یہ ڈیکوریشنز خوفناک ثابت ہوسکتی تھیں۔
واپسی میں ایک تالاب میں پانی کی بلیوں (سیل) کو کھانا کھلایا جارہا تھا جہاں رکنا لازم تھا۔
اس کے بعد میں تقریباً بھاگتی ہوئی واپس مرکزی دروازے تک پہنچی۔ ڈرائیور میرے دوستوں کو وال مارٹ سے لے کر راستے میں تھا۔ سووینیئر شاپ سے میں نے یادگار کے طور پر چند منی ایچر جانور خریدے جنہیں آج تک کامیابی سے گھر کے بچوں سے چھپا رکھا ہے۔
تھوڑی دیر بعد واپسی کے لیے وین موجود تھی۔ میں وین میں داخل ہوئی تو خفا دوستوں نے پوچھا، اکیلے ہی پروگرام بنا لیا؟ میں نے جواب دیا کہ پوچھا تو تھا، تم سب نے دلچسپی ہی نہ دکھائی۔ ہوٹل واپس پہنچ کر ہم سب نے ڈرائیور کا ٹپ جار ایک اور دو ڈالرز کے نوٹوں اور سکوں سے بھردیا اور اس کا شکریہ ادا کر کے گاڑی سے اتر گئے۔ سیاہ فام ڈرائیور کی آنکھیں بھرا ہوا ٹپ جار دیکھ کر چمک رہی تھیں۔
کیلاش: محکمہ سیاحت خیبر پختون خوا نے سیاحوں کی سہولت کے لیے مختلف مقامات پر نہایت خوب صورت کیمپنگ پاڈز قائم کر لیے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق کیلاش کی جنت نظیر وادی کی یہ تصاویر دیکھ کر آپ حیران رہ جائیں گے اور آپ کا دل چاہے گا کہ پہلی فرصت میں سامان سفر باندھ کر اس کی سیر کے لیے نکل پڑیں۔
کے پی محکمہ سیاحت نے حال ہی میں وادی کیلاش کے تاریخی اہمیت کے حامل سیاحتی مقام بمبوریت میں کیمپنگ پاڈز قائم کیے ہیں، جن میں دوران سیاحت سیاح پُرسکون ماحول میں قیام کر سکیں گے، یہ جنت نظیر سیاحتی مقام سیاحوں کے لیے اس سیزن یعنی جون کے مہینے میں کھول دیا جائے گا۔
سیاح ان خوبصورت کیمپنگ پاڈز میں قیام کر کے وادی کیلاش کے خوب صورت نظاروں سے لطف اندوز ہو سکیں گے۔
اے آر وائی نیوز سے بات کرتے ہوئے محکمہ سیاحت کے ترجمان سعد بن اویس نے بتایا کہ پاڈز 2 اور 4 بیڈز پر مشتمل ہیں، دو بیڈز کے 3 ہزار روپے اور چار بیڈز کے 5 ہزار روپے رات کا کرایہ ہے، ان پاڈز میں قیام کے لیے سیاح ٹیلی فون پر رابطہ کر کے اپنے لیے بکنگ کر سکتے ہیں۔
پاڈز کے ساتھ ایک کچن بھی ہے، سیاح اپنے ساتھ خود بھی کھانے پکانے کے لیے سامان لے جا سکتے ہیں اور اپنے لیے کھانا پکا سکتے ہیں اور اگر خود نہیں بنانا چاہتے تو وہاں پر باورچی بھی ہر وقت موجود رہتا ہے۔
محکمہ سیاحت خیبر پختون خوا کے ترجمان کے مطابق اب تک 10 سیاحتی مقامات میں 260 بیڈز پر مشتمل کیمپنگ پاڈز قائم کیے گئے ہیں، جن میں 6 مقامات ٹھنڈیانی، شاران، بیشیگرام، یخ تنگی، شیخ بدین اور گبین جبہ میں قائم پاڈز سیاحوں کے لیے پہلے سے کھول دیے گئے ہیں۔
4 نئے مقامات مہابن، شہیدے سر(بونیر)، الئی (بٹگرام) اور بمبوریت (کیلاش) میں قائم پاڈز میں سیاح جون سے انٹری کر سکیں گے۔
محکمہ سیاحت کے ترجمان نے سیاحوں سے اپیل کی ہے کہ وہ سیاحتی مقامات کی سیر کے لیے ضرور جائیں لیکن صفائی کا خیال رکھیں تاکہ سیاحتی مقامات کا قدرتی حسن متاثر نہ ہو۔
ریاض: سعودی عرب میں سیاحت کی بین الاقوامی تنظیم اپنا دفتر قائم کرے گی جس سے مملکت میں سیاحت کو فروغ ملے گا۔
سعودی ویب سائٹ کے مطابق دارالحکومت ریاض میں عالمی تنظیم سیاحت کا ریجنل آفس قائم کرے گا جو مملکت کی طرف سے عالمی تنظیم کے لیے تحفہ ہوگا۔
سعودی سرکاری گزٹ ام القریٰ نے جمعے کو یہ اطلاع شائع کی ہے کہ سعودی کابینہ نے عالمی تنظیم سیاحت اور مملکت کے درمیان ریجنل آفس کے حوالے سے ہونے والے معاہدے کی منظوری دی ہے۔
عالمی تنظیم اور سعودی عرب نے 17 ستمبر 2020 کو تبلیسی سٹی میں معاہدہ کیا تھا جو 10 نکات پر مشتمل ہے۔ اس کے تحت سعودی عرب عالمی تنظیم کو ریجنل آفس کے لیے مفت عمارت مہیا کرے گا البتہ ریاض میں دفتر کی جگہ کا انتخاب فریقین مل جل کر کریں گے۔
عالمی تنظیم سیاحت ریجنل آفس کے تمام اہلکاروں کا تقرر کرے گی، ڈائریکٹر سمیت تمام اہلکاروں کی تقرری آرگنائزیشن ہی انجام دے گی۔ تمام اہلکار عالمی تنظیم کے سیکریٹری جنرل کی نگرانی میں کام کریں گے۔
گلگت بلتستان: سیاحت کے لیے جی بی آنے والے سیاحوں کے لیے کرونا نیگٹیو رپورٹ لازمی قرار دے دی گئی۔
تفصیلات کے مطابق جی بی حکومت نے گلگت بلتستان آنے والوں سیاحوں کے لیے کرونا نیگیٹو ہونا لازمی قرار دے دیا۔
جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ یہ فیصلہ ملک میں بڑھتے کرونا کیسز کے پیش نظر کیا گیا ہے، کرونا نیگٹیو رپورٹ پر ہی سیاحوں کو داخلے کی اجازت ہوگی۔
واضح رہے کہ ملک بھر میں کرونا کیسز میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، گزشتہ روز 3 ہزار 876 نئے کیسز رپورٹ ہوئے، اور خطرناک وائرس مزید 42 افراد کی جان لے گیا۔
وزیر اعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر فیصل سلطان کہتے ہیں این سی او سی نے جو اقدامات اٹھائے بد قسمتی سے ان پر صحیح طرح عمل درآمد نہ ہو سکا، اب انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے ورنہ صورت حال ہاتھ سے نکل سکتی ہے۔
ٰخیال رہے کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی کرونا وائرس بے قابو ہو چکا ہے، اور مثبت کرونا کیسز کی ہفتہ وار شرح خطرناک حد کو چھونے لگی ہے، ڈی ایچ او اسلام آباد ڈاکٹر زعیم کے مطابق پازیٹو کرونا کیسز کی موجودہ ہفتہ وار شرح 8.76 فی صد ہے۔ جب کہ 11 تا 17 جنوری مثبت کرونا کیسز کی ہفتہ وار شرح 2.47 فی صد تھی، کرونا کی کم ترین ہفتہ وار شرح 1 تا 7 فروری کو 1.57 فی صد تھی۔
ادھر پنجاب میں بھر میں کرونا مریضو ں میں اضافہ ہو چکا ہے، جس پر پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن نے نجی اسپتالوں کو بستر بڑھانے کی ہدایات جاری کی ہیں۔
پشاور: سیاحت کے فروغ کے لیے اقدامات کے تحت برسوں سے بند پڑے سوات کے سیدو شریف ایئر پورٹ کو دوبارہ سے آپریشنل کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق پی آئی اے کا سیدو شریف کے لیے فلائٹ آپریشن شروع کر نے کا فیصلہ کیا گیا ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ قومی ایئر لائن رواں ماہ کے آخری ہفتے میں سیدو شریف ایئر پورٹ پر اے ٹی آر طیارے کی ٹیسٹ فلائٹ کرے گی۔
پی آئی اے کے شعبہ ٹریفک کے عملے کو تیاری کی ہدایت کر دی گئی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ٹیسٹ فلائٹ کے لیے سیدو شریف ایئر پورٹ پر انتظامات کیے جائیں۔
خیال رہے کہ سیدو شریف ایئر پورٹ طویل عرصے سے غیر فعال ہے، امن و امان کی صورت حال کے باعث اسے 2004 میں بند کیا گیا تھا، ایئر پورٹ پر ترقیاتی کام کیا جا رہا تھا جسے اب مکمل کر لیا گیا ہے۔
سول ایوی ایشن اتھارٹی کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے اجازت ملتے ہی سیدو شریف ایئر پورٹ کو طیاروں کی آمد و روانگی کے لیے کھول دیا جائے گا۔
سی اے اے کے مطابق سیدو شریف ایئر پورٹ کا رن وے مکمل طور پر تیار ہو چکا ہے، آپریشن شروع کرنے کے لیے پی آئی اے کو ایک ہفتے کے نوٹس پر دیگر سہولیات بھی فراہم کر دی جائیں گی۔
سی اے اے کا کہنا ہے کہ ایئر پورٹ پر ایئر بس 320 طیاروں کی لینڈنگ کے لیے منصوبہ بندی شروع ہو چکی ہے، اور اس پر کام جلد شروع کیا جائے گا۔
اسلام آباد: پاکستان اور سری لنکا کے درمیان سیاحتی شعبے میں فروغ کی کوششیں تیز ہوگئیں، وزیر اعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری اور سری لنکن حکام کے درمیان رابطے میں دونوں ممالک کا سیاحتی شعبے میں تعاون بڑھانے پر اتفاق طے پا گیا۔
تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے امور اوور سیز پاکستانی زلفی بخاری اور سری لنکا کے سیاحتی حکام کا ویڈیو لنک پر رابطہ ہوا۔ سری لنکن ٹور ازم ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی چیئر پرسن سے بھی مشاورت ہوئی۔
ڈیجیٹل ملاقات کے دوران دونوں ممالک کا سیاحتی شعبے میں تعاون بڑھانے پر اتفاق طے پا گیا، مفاہمتی یادداشت کے معاہدوں پر دستخط کی تقریب جلد ہوگی۔
زلفی بخاری کا کہنا تھا کہ پاکستان اور سری لنکا میں سیاحتی سرگرمیوں کے وسیع مواقع ہیں، دونوں ممالک ٹور ازم کے فروغ کے لیے متفقہ کوششوں پر تیار ہیں، بہت جلد سیاحتی شعبے سے متعلق معاہدوں کو حتمی شکل دیں گے۔
سری لنکن حکام نے دو طرفہ رابطوں میں تیزی کو خوش آئند قرار دیا ہے۔
ابو ظہبی: متحدہ عرب امارات میں سیاحتی و صحرائی تفریحی دوروں پر سے پابندی اٹھا لی گئی، محکمہ سیاحت نے سیاحوں کے لیے ایس او پیز جاری کردی ہیں۔
مقامی ویب سائٹ کے مطابق متحدہ عرب امارات میں ادارہ فروغ سیاحت و تجارت نے شارجہ میں سیاحتی اور صحرائی سفر بحال کر دیے ہیں۔
ٹورسٹ گائیڈز کے مطابق اب مقامی شہریوں اور غیر ملکیوں کو صحرا میں سیر و سیاحت کے پروگرام بنانے کی اجازت دے دی گئی ہے تاہم ایس او پیز کی پابندی کرنا ہوگی۔
ادارہ فروغ سیاحت کا کہنا ہے کہ سیاحوں، ملاقاتیوں، ملازم پیشہ افراد، مقامی شہریوں اور مقیم غیرملکیوں کو صحت و سلامتی کے ضوابط کی پابندی کرنا ہوگی۔
ادارے کے سربراہ خالد المدفع نے کہا کہ شارجہ کے حکام نے صحرائی اور سیاحتی تفریحی دوروں سے پابندی اٹھا کر تمام سیاحتی سرگرمیوں کی راہ بحال کردی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سب کچھ بتدریج بحال ہوجائے گا، اس حوالے سے ادارہ فروغ سیاحت نے ایس او پیز گائیڈ بھی جاری کر دی ہے۔