Tag: سیارچہ

  • آج زمین کے قریب سے اسٹیڈیم جتنا بڑا سیارچہ گزرے گا

    آج زمین کے قریب سے اسٹیڈیم جتنا بڑا سیارچہ گزرے گا

    امریکی خلائی ادارے ناسا نے ایک اسٹیڈیم کے سائز جتنے بڑے سیارچے کے بارے میں خبردار کیا ہے۔

    امریکی خلائی ایجنسی کی جیٹ پروپلشن لیبارٹری کے مطابق 290 میٹر چوڑا خطرناک سیارچہ زمین سے دس لاکھ کلو میٹر قریب سے گزرے گا، چالیس ہزارکلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرنے والا یہ سیارچہ اپنے موجودہ راستے پر زمین کیلئے کوئی خطرہ نہیں ہے۔

    لیکن اصل راستے سے تھوڑا سا ہٹنے پر بڑے نتائج کا سبب بن سکتا ہے جس دن یہ زمین کے قریب ترین مقام سے گزرے گا، آسمان دیکھنے والے اس کے بجائے ایک نایاب جزوی چاند گرہن دیکھ سکیں گے۔

    یہ آسمانی منظر پورے یورپ اور افریقا میں دیکھا جا سکے گا، شمالی اور جنوبی امریکا اور ایشیا کے کچھ حصوں میں بھی اس کا دیکھا جانا ممکن ہے۔

    خلا کا یہ پتھر جو کبھی چاند کا حصہ تھا، آخری بار 2013 میں زمین کے قریب سے گزرا تھا اور یہ 2035 میں دوبار اس کے قریب سے گزرے گا۔

  • زمین سے ٹکرانے والے سیارچے کو 2 گھنٹے قبل دیکھ لیا گیا

    زمین سے ٹکرانے والے سیارچے کو 2 گھنٹے قبل دیکھ لیا گیا

    ماہرین فلکیات اور یورپی اسپیس ایجنسی کی دفاعی کمیٹی برائے سیارہ نے حال ہی میں زمین سے ٹکرانے والے سیارچے کی ٹکر سے چند گھنٹے قبل نشان دہی کی۔

    یہ سیارچہ بحر منجمد میں نارویجیئن جزیرے جین ماین کے 40 کلو میٹر جنوب میں گرا، جس کی وجہ سے 2 سے 3 ہزار ٹن ٹی این ٹی پھٹنے کے برابر دھماکا ہوا۔

    2022 EB5 نام پانے والا یہ سیارچہ پہلی خلائی چٹان ہے جس کا یورپ سے خلا میں زمین سے ٹکرانے سے قبل مشاہدہ کیا گیا، اور اب تک کی پانچویں خلائی چٹان ہے جو زمین سے ٹکرانے سے قبل خلا میں مشاہدے میں آئی ہے۔

    یورپی خلائی ایجنسی کے نیئر ارتھ آبجیکٹس کوآرڈینیشن سینٹر کی نیوز ریلیز کے مطابق ہنگری کے ماہرِ فلکیات کرسٹرین سارنیکزکی نے زمین کے گرد گھومتی اس تیز رفتار چیز کو دریافت کیا۔

    ابتدائی اندازوں کے مطابق اس چٹان کے زمین سے ٹکرانے کے امکانات ایک فیصد سے بھی کم تھے۔

    لیکن گرینج معیارِ وقت کے مطابق رات 8 بج کر 25 منٹ پر یورپی خلائی ایجنسی کے میرکٹ ایسٹیرائڈ امپیکٹ وارننگ سسٹم نے ایک انتباہ جاری کیا جس کے مطابق اس خلائی چٹان کے زمین ٹکرانے کے 100 فیصد امکانات ہیں اور وہ رات 9 بج کر 21 منٹ سے 9 بج کر 25 منٹ کے درمیان آئس لینڈ کے شمال میں چند کلو میٹر کے فاصلے پر ایک ہزار کلومیٹر کے مربع میں گرے گی۔

    ماہرینِ فلکیات نے اس شے کا مشاہدہ کرنے کی کوشش کی جو زمین سے 50 ہزار کلو میٹر کے فاصلے کے اندر تھی لیکن کوئی بھی اس شعلے کی تصویر یا ویڈیو نہیں بنا پایا۔

  • ناسا نے زمین کو خلا سے لاحق بڑے خطرے سے خبردار کر دیا

    ناسا نے زمین کو خلا سے لاحق بڑے خطرے سے خبردار کر دیا

    ناسا کے سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ ایک بہت بڑا سیارچہ زمین کی طرف تیز رفتاری سے بڑھتا چلا آ رہا ہے، یہ سیارچہ فرانس کے ایفل ٹاور سے بھی بڑا ہے، اور ناسا کی جانب سے اسے زمین کے لیے ممکنہ طور پر خطرناک قرار دے دیا گیا ہے۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ آسمان سے ایک دیوہیکل آفت تیزی سے زمین کی طرف بڑھ رہی ہے، یہ آفت 4660 Nereus نامی سیارچہ ہے جو فرانس کے ایفل ٹاور سے بھی بڑا ہے۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ سیارچے کے رواں ہفتے کے آخر تک زمین کے بہت قریب پہنچنے کا امکان ہے۔

    امریکی خلائی ادارے ناسا کے مطابق یہ سیارچہ 11 دسمبر کو زمین کے مدار سے گزرے گا، اس سیارچے کا قطر 330 میٹر سے زیادہ ہے، اور یہ تقریباً 3.9 ملین کلومیٹر کے فاصلے سے زمین کے پاس سے گزرے گا۔

    اگرچہ اس سے ہماری زمین کو کوئی فوری خطرہ نہیں ہے، اور 4660 نیریوس کی مطلق شدت 18.4 ہے، تاہم ناسا نے 22 سے کم شدت کے سیارچے کو ممکنہ طور پر خطرناک قرار دیا ہے۔

    ناسا کے مطابق یہ سیارچہ پہلی بار 1982 میں دریافت ہوا تھا، اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ زمین کے قریب سے گزرتا ہے، سورج کے گرد اس کا 1.82 سالہ مدار اسے تقریباً ہر 10 سال بعد ہمارے قریب لاتا ہے۔

    تاہم خلائی سائنس کے نقطہ نظر سے اس کا ’قریب‘ ہونا بھی ایک محفوظ فاصلہ ہے، 1982 سے ناسا اور جاپانی خلائی ایجنسی JAXA اس سیارچے کی نگرانی کر رہے ہیں، چاند زمین سے جتنا دور ہے یہ سیارچہ اس سے دس گنا زیادہ دوری پر چکر کاٹ رہا ہے۔

  • زمین کو خطرہ؟ یکم جون کو ایک بڑا سیارچہ قریب سے گزرے گا

    زمین کو خطرہ؟ یکم جون کو ایک بڑا سیارچہ قریب سے گزرے گا

    واشنگٹن: ناسا کا کہنا ہے کہ بھارت میں موجود مجسمہ اتحاد سے بھی بڑا سیارچہ یکم جون کو زمین کے قریب سے گزرے گا، جو ممکنہ طور پر خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق یکم جون کو زمین سے 72 لاکھ کلو میٹر فاصلے سے ایک سیارچہ گزرے گا، ناسا کا کہنا ہے کہ اس کا سائز بھارتی شہر گجرات میں ایستادہ ولبھ بھائی پٹیل کے 182 میٹر بلند مجسمے سے بھی بڑا ہے اور اس کا سائز 186 میٹر ہے۔

    ناسا نے اس سیارچے (Asteroid) کو KT1 کا نام دیا ہے، اگرچہ اس کا فاصلہ زمین اور چاند کے درمیان فاصلے سے بھی 20 گنا زیادہ ہے تاہم اس کے باوجود اس کو فلکیاتی پیمانے پر ’قریب‘ سمجھا جاتا ہے۔

    66 ملین سال پہلے جب قُطر میں محض چند کلو میٹر پر مشتمل ایک سیارچہ زمین سے ٹکرایا تھا، تو اس نے ہمارے نیلے سیارے پر پودوں اور جانوروں کی تین چوتھائی نسل کا صفایا کر دیا تھا، ان میں ڈائناسارز بھی شامل تھے، اور اس سے جو دھماکا ہوا وہ کئی لاکھ نیوکلیئر ہتھیاروں کے بہ یک وقت دھماکے کے برابر تھا۔

    سیارچوں پر نگاہ رکھنے کے لیے ناسا کی قائم کردہ جیٹ پروپلژن لیبارٹریز کے مطابق کے ٹی وَن نامی یہ سیارچہ 31 مئی سے 2 جون کے درمیان زمین سے نہایت نزدیکی میں گزرنے والے پانچ سیارچوں میں سے ایک ہے۔

    ایک بس جتنا سیارچہ آج (اکتیس مئی) کو زمین کے قریب سے گزرے گا، اس کا فاصلہ چاند کے فاصلے کا ایک تہائی ہوگا، دیگر سیارچوں میں دو ایسے ہیں جو عام گھر جتنے ہیں، اور ایک سیارچہ ہوائی جہاز جتنا ہے، یہ سیارچے زمین سے 11 لاکھ کلو میٹر سے لے کر 59 لاکھ کلو میٹر کے درمیان فاصلوں سے گزریں گے۔

    اسپیس ایجنسی کا کہنا ہے کہ چوں کہ ان سیارچوں کا سائز چھوٹا ہے اس لیے یہ نقصان دہ نہیں ہیں، تاہم کے ٹی وَن سیارچہ سائز میں بڑا ہے، ناسا ہر اس سیارچے کو ممکنہ خطرناک قرار دیتا ہے جو 150 میٹر سے بڑا اور 75 لاکھ کلو میٹرز کے فاصلے کے اندر ہو۔

    ناسا ایسے سیاروں کا باریک بینی سے مشاہدہ کرتا ہے، کیوں کہ وقت کے ساتھ ساتھ متحرک سیاروں سے آنے والی کشش ثقل کھینچاؤ میں تبدیلی کی وجہ سے کوئی سیارچہ اپنا راستہ تبدیل کر سکتا ہے۔

    مذکورہ سائز کا کوئی سیارچہ اگر زمین سے ٹکرا جائے تو اس سے ہمارے نیلے سیارے پر تباہ کن اثر پڑ سکتا ہے، خوش قسمتی سے ناسا ایسی ٹیکنالوجیز تیار کر چکا ہے جسے خلا میں بھیج کر خطرناک سیارچے کو ٹکڑے ٹکڑے کیا جا سکتا ہے۔

  • خلا کی وسعتوں میں‌ "خزانے” کا انکشاف

    خلا کی وسعتوں میں‌ "خزانے” کا انکشاف

    مریخ اور مشتری ہمارے نظامِ شمسی کے دو ایسے سیّارے ہیں جن کے بارے میں ہم اکثر پڑھتے رہتے ہیں اور ان پر تحقیق کے ساتھ ان سے متعلق مزید انکشافات کا سلسلہ بھی جاری ہے، لیکن ان دونوں‌ سیّاروں کے درمیان گردش کرتے ہوئے ایک سیّارچے نے حال ہی میں‌ ماہرینِ فلکیات کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا لی ہے۔

    پلینٹری سائنس جرنل میں‌ شایع ہونے والی ایک ریسرچ رپورٹ کے مطابق یہ سیّارچہ مکمل طور پر نِکل اور لوہے کا بنا ہوا ہے۔ ماہرین نے اس کی مالیت کا تخمینہ ایک کروڑ کھرب ڈالر لگایا ہے۔ اس سیّارچے اور اس کی دھاتی خصوصیت کا کھوج امریکی سائنس دانوں‌ نے لگایا ہے۔

    سائنس دانوں کے مطابق اکثر سیّارچے چٹانوں یا برف پر مشتمل ہوتے ہیں، لیکن یہ سیّارچہ جس کا نام (16) سائیکی ہے، اسے مکمل طور پر دھاتی کہا جاسکتا ہے۔

    ماہرینِ فلکیات اور اس حوالے سے ریسرچ ٹیم کے اراکین نے بالائے بنفشی شعاعوں کی مدد سے اس سیّارچے کی ساخت کا مطالعہ کیا جس کے دوران کسی خلائی جسم سے نکلنے والی روشنی کا مخصوص طریقے سے مشاہدہ کر کے یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ اس کی ساخت میں ممکنہ طور پر کون سے عناصر شامل ہوسکتے ہیں۔

    اس سائنسی تحقیق کی شریک مصنفہ ڈاکٹر ٹریسی بیکر کے مطابق دھات سے بنے ہوئے شہابِ ثاقب تو ہم نے دیکھے ہیں، لیکن اس سیّارچے کی انفرادیت ممکنہ طور پر اس کا نِکل اور لوہے پر مشتمل ہونا ہے۔

    پلینٹری سائنس جرنل کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق (16) سائیکی کا قطر تقریبا 225 کلومیٹر ہے۔ اگر ہم اس قطر (فاصلے) کو سمجھنا چاہیں‌ تو یہ فاصلہ لگ بھگ لاہور سے راولپنڈی کے برابر ہو گا‌‌۔

    امریکی خلائی ادارہ ناسا 2022 میں اس سیارچے کی طرف ایک مشن روانہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ سیّارچہ زمین سے تقریباً 30 کروڑ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

    ماہرینِ فلکیات کا خیال ہے کہ (16) سائیکی کا کسی اور سیّارے یا سیارچے سے تصادم ہوا تھا جس میں اس کی سطح کو زبردست نقصان پہنچا اور اس کی مختلف سطحیں‌ برباد ہوجانے کے بعد صرف یہ دھاتی مرکز ہی سلامت رہ سکا جو آج ہمارے سامنے آیا ہے۔

    لوہے کے علاوہ نِکل ایک بے حد قیمتی دھات ہے اور نکل سے مختلف اشیا تیار کی جاتی ہیں۔ دورِ جدید میں یہ دھات بیٹریوں کی تیاری میں نہایت اہمیت رکھتی ہے۔

  • زمین سے ایک سیارچہ ٹکرانے جارہا ہے

    زمین سے ایک سیارچہ ٹکرانے جارہا ہے

    امریکی خلائی ادارے ناسا کا کہنا ہے کہ رواں برس نومبر میں ایک سیارچہ زمین سے ٹکرائے گا تاہم زمین کو اس سے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔

    ناسا نے حال ہی میں ایک سیارچے کا مشاہدہ کیا ہے جو خلا میں زمین سے براہ راست تصادم کے راستے پر ہے، 6.5 میٹر قطر کا یہ سیارچہ نومبر تک زمین کے قریب پہنچ جائے گا۔

    ناسا کے مطابق امریکا میں صدارتی انتخاب سے ایک روز قبل 2 نومبر کو یہ سیارچہ زمین کی فضا میں داخل ہوجائے گا۔ زمین پر اس کے اثرات ایک فیصد سے بھی کم ہوں گے لہٰذا یہ سیارچہ زمین کے لیے کسی قسم کا خطرہ ثابت نہیں ہوگا۔

    اس سیارچے کو کیلی فورنیا کی رصد گاہ میں 2 سال قبل دیکھا گیا تھا۔

    اس سے قبل سنہ 2018 میں ایک خطرناک جسامت کا سیارچہ زمین کے نہایت قریب آگیا تھا، ویسٹا نامی یہ سیارچہ پاکستان کے کل رقبے جتنا بڑا تھا جبکہ سیارچے میں 13 میل بلند پہاڑ بھی موجود تھے۔

    ناسا کا کہنا تھا کہ وہ سیارچہ جو زمین سے ٹکرا کر ڈائنو سارز کے نسل کے خاتمے کی وجہ بنا، صرف 10 سے 15 کلومیٹر چوڑا تھا، جبکہ ویسٹا کی چوڑائی 252 کلو میٹر تھی۔ اس کے زمین سے ٹکرانے کی صورت میں زمین پر سے زندگی کا خاتمہ ہوسکتا تھا۔

    تاہم خوش قسمتی سے زمین سے انتہائی قریب ہونے کے باجوود یہ اس راستے پر نہیں تھا جس پر زمین سے اس کا تصادم ہوسکے، چنانچہ یہ زمین کو کوئی نقصان پہنچائے بغیر اپنے راستے پر خلا کی وسعتوں میں گم ہوگیا۔

  • لندن آئی سے بڑا پتھر زمین کی طرف تیز رفتاری سے بڑھنے کا انکشاف

    لندن آئی سے بڑا پتھر زمین کی طرف تیز رفتاری سے بڑھنے کا انکشاف

    واشنگٹن: ناسا نے خبردار کیا ہے کہ لندن آئی سے بڑا ایک پتھر خلا سے برق رفتاری کے ساتھ زمین کی جانب بڑھ رہا ہے، اور یہ ممکنہ طور پر خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

    برطانوی میڈیا کے مطابق ناسا نے کہا ہے کہ ایک بہت بڑا ایسٹرائیڈ زمین کی جانب بڑھتا آ رہا ہے، ناسا نے اس پتھر کو Asteroid 2020ND کا نام دیا ہے، ایسٹرائیڈ وہ عظیم الجثہ پتھر ہیں جو خلا میں سورج کے گرد گھومتے ہیں۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ یہ پتھر لندن آئی سے ڈیڑھ گنا بڑا ہے، اور امکانی طور پر یہ زمین کے لیے پُر خطر خلائی پتھروں میں سے ہے، خیال رہے کہ لندن آئی یا ملینیم پہیا لندن میں دریائے ٹیمز کے جنوبی کنارے پر نصب دنیا کا وہ سب سے بڑا پہیا ہے جس کی ساخت 135 میٹر (443 فٹ) ہے اور اس کا قطر 120 میٹر ہے۔

    ناسا نے اس پتھر کے بارے میں کہا ہے کہ یہ اگلے ہفتے ہمارے سیارے کے بہت قریب سے گزرے گا، اور یہ ممکنہ طور پر خطرناک ثابت ہو سکتا ہے، سائنس دانوں خبردار کیا کہ یہ سماوی پتھر زمین کے مدار کی جانب ہی بڑھ رہا ہے اور صرف 0.034 فلکیاتی یونٹس کے اندر ہمارے سیارے کے پاس سے گزرے گا۔ فلکیاتی (astronomical) یونٹ طوالت کا یونٹ ہے جو زمین سے لے کر سورج تک اندازے پر مبنی فاصلہ ہے اور یہ تقریباً 150 ملین کلو میٹرز کے مساوی ہے۔

    سائنس دانوں نے اس خلائی پتھر کی پیمائش کے بارے میں بتایا کہ اس کی لمبائی 170 میٹر ہے، اور یہ اگلے جمعے، 24 جولائی کو زمین کے بالکل قریب آ جائے گا، اسپیس ایجنسی کا کہنا ہے کہ جن خلائی پتھروں کو نقصان دہ کہا جاتا ہے انھیں دراصل زمین کے زیادہ سے زیادہ قریب آنے کے امکان کے پیش نظر خطرناک قرار دیا جاتا ہے۔

    ناسا کے مطابق وہ تمام ایسٹرائیڈز جو زمین کے مدار میں کم سے کم 0.05 اتصالی فاصلہ (MOID) رکھتے ہوں انھیں PHA (پوٹنشلی ہزرڈس ایسٹرائیڈ یعنی ممکنہ طور پر خطرناک) قرار دیا جاتا ہے۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس پتھر کو ایک مدار میں کھسکایا جا سکتا ہے، جس سے دیگر سیاروں کی کشش ثقل کی وجہ سے یہ زمین کے علاقے کی خلا میں پہنچ جائے گا۔

  • آج بڑی تباہی کا خطرہ ، ناسا نے خبردار کردیا

    آج بڑی تباہی کا خطرہ ، ناسا نے خبردار کردیا

    واشنگٹن : امریکی خلائی تحقیقی ادارے ناسا نے خبردار کیا ہے کہ آج انتہائی بڑےسائزکاسیارچہ زمین کےقریب سے گزرےگا، تاہم اس سے زمین کو کوئی خطرہ نہیں۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی خلائی تحقیقی ادارہ ’نیشنل ایرو ناٹکس اینڈ اسپیس ایڈ منسٹریشن (ناسا) کا کہنا ہے کہ انتہائی بڑے سائز کا سیارچہ آج زمین کے قریب سے گزرے گا ، سیارچہ پاکستانی وقت کےمطابق شام چاربجےزمین کےقریب ہوگا۔

    سیارچےکی لمبائی ساڑھے تین ہزارفٹ ہے اور یہ تقریبا 34،000 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین کی طرف سفر کررہا ہے۔

    سیارچہ زمین سے35 لاکھ 90ہزارمیل کےفاصلےسےگزرےگا تاہم خوش قسمتی سے زمین سے انتہائی قریب ہونے کے باجوود یہ اس راستے پر نہیں ہے ، جس سے زمین کو کسی قسم کا کوئی خطرہ ہو۔

    اس سیارچے کو 2002 پی زیڈ 39 کے نام سے جانا جاتا ہے اور اسے اگست2002 میں دریافت کےبعدسےٹریک کیا جارہاہے۔

    ماہرین کا ماننا ہے کہ اس سیارچے سے دنیا کو کوئی نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہیں تاہم ناسا مزید معلومات حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

    واضح رہے اس سیارچے کو سائز کے اعتبار سے برج خلیفہ سے بڑا کہا جارہا ہے ، کیونکہ اس کا ساڑھے تین ہزارفٹ جبکہ دنیا کی سب سے بڑی عمارت برج خلیفہ 2 ہزار 717 فٹ لمبا ہے۔

    خیال رہے  ستمبر 2017 میں فلورنس نامی سیارچہ زمین سے 43 لاکھ 91 ہزار میل کے فاصلے سے گزرا تھا جبکہ  اپریل 2017 کو 2014 جے او 25 نامی سیارچہ زمین سے محض 11 لاکھ میل کے فاصلے سے گزرا تھا، یہ فاصلہ زمین اور چاند کے درمیان فاصلے سے 4.6 گنا زیادہ تھا۔

  • اگر کوئی سیارچہ زمین سے ٹکرا جائے تو کیا ہوگا؟

    اگر کوئی سیارچہ زمین سے ٹکرا جائے تو کیا ہوگا؟

    یہ 16 اپریل 2018 کا دن تھا۔ خلا سے جی ای 3 نامی ایک سیارچہ تیزی سے زمین کی طرف بڑھ رہا تھا اور سائنس دان اس راستے کو دیکھ کر تشویش میں مبتلا تھے جہاں سے اس سیارچے کا زمین سے تصادم یقینی تھا۔

    تھوڑی دیر بعد سیارچہ زمین سے صرف 1 لاکھ 90 ہزار کلو میٹر کے فاصلے پر رہ گیا۔ یہ اس فاصلے سے بھی نصف تھا جو چاند سے زمین کا ہے یعنی 3 لاکھ 84 ہزار 400 کلو میٹر۔

    یکایک اس سیارچے نے اپنا راستہ تبدیل کیا اور سورج کی طرف جانے لگا جس کے ساتھ ہی دنیا بھر کے خلائی مراکز میں اسکرینز پر نظریں جمائے بیٹھے سائنسدان خوشی سے اچھل پڑے اور ایک دوسرے کو مبارکباد دینے لگے۔ زمین سے اس سیارچے کے تصادم کا خطرہ ٹل چکا تھا۔

    خطرہ تو ٹل چکا تھا تاہم یہ واقعہ اپنے پیچھے کئی سوالات چھوڑ گیا۔ ایک فٹبال کے میدان جتنا یہ سیارچہ اگر اپنا راستہ تبدیل نہ کرتا اور اسی طرح بڑھتا رہتا تو زمین کے باسیوں کا مقدر کیا تھا؟

    کیا اس سے پہلے آنے والے سیارچوں کی طرح یہ سیارچہ بھی زمین کی فضا میں داخل ہوتے ہی تباہ ہوجاتا؟ اور اگر اپنے بڑے حجم کی وجہ سے یہ تیزی سے زمین کی طرف پہنچنے میں کامیاب بھی ہوجاتا تو اس کے بعد کیا ہونا تھا؟

    خلا سے مختلف سیارچوں کا زمین کی طرف آنا معمول کی بات ہے۔ ہر روز خلا سے تقریباً 100 ٹن ریت اور مٹی زمین سے ٹکراتی ہے۔

    سال میں صرف ایک بار کسی کار کے جتنی جسامت رکھنے والا سیارچہ زمین کے قریب آتا ہے لیکن یہ زمین کی فضا میں داخل ہوتے ہی تباہ ہوجاتا ہے اور کبھی بھی زمین کی سطح سے نہیں ٹکراتا۔

    وہ سیارچہ جو 10 کلومیٹر چوڑا تھا اور جس نے ڈائنو سار کی نسل کا خاتمہ کردیا، کئی لاکھ سال میں شاذ و نادر زمین کی طرف اپنا رخ کرتا ہے۔

    ہماری اصل پریشانی کا سبب وہ پتھر ہیں جو جسامت میں سیارچے سے چھوٹے ہوتے ہیں اور انہیں شہاب ثاقب کہا جاتا ہے۔ یہ شہاب ثاقب بھی 2 ہزار سال میں ایک بار زمین کی طرف آتے ہیں۔

    تصور کریں ایک 100 میٹر طویل پتھر 19 میل فی سیکنڈ کی رفتار سے آپ کی جانب آرہا ہو تو یہ نظارہ کس قدر خوفناک ہوگا۔

    اگر یہ شہاب ثاقب زمین کی فضا سے صحیح سلامت گزر گیا تو اسے زمین کی سطح سے ٹکرانے میں صرف 3 سیکنڈ لگیں گے۔

    چونکہ زمین کے صرف 3 فیصد حصے پر آبادی موجود ہے لہٰذا قوی امکان ہے کہ شہاب ثاقب سمندر میں جا گرے۔ تاہم ان میں سے کوئی آدھ ایسا بھی ہوسکتا ہے جو کسی پرہجوم شہر سے جا ٹکرائے۔

    اس کے بعد کیا ہوگا؟

    اگر واقعی ایسا ہوجاتا ہے، کوئی شہاب ثاقب زمین کی سطح سے آ ٹکراتا ہے تو نیویارک جیسے پرہجوم شہر میں یہ واقعہ 25 لاکھ اموات کا سبب بن سکتا ہے۔

    یہ شہاب ثاقب جس مقام پر گرے گا اس مقام کے 2 میل کے دائرے میں ہر چیز تباہ ہوسکتی ہے جبکہ 7 میل کے دائرے تک میں موجود عمارتوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

    ایک امکان یہ بھی ہے کہ خلا میں بھیجے جانے والے انسانی مشنز کی بدولت یہ پتھر تابکاری سے آلودہ ہوں۔ ایسی صورت میں یہ تابکار پتھر زمین پر گرتے ہی آدھی سے زیادہ آبادی کو چند لمحوں میں فنا کرسکتے ہیں۔

    ایسے ممکنہ تصادم کی صورت میں تابکار پتھر کا ملبہ زمین کے گرد ویسے ہی حلقوں کی صورت گھومنے لگے گا جیسے سیارہ زحل کے گرد حلقے موجود ہیں۔

    اس میں سے زیادہ تر ملبہ بھی واپس زمین پر آ گرے گا جس سے شہروں اور جنگلات میں آگ لگ جائے گی۔

    زمین کی سطح پر بے تحاشہ دھول اور دھواں پھیل جائے گا جس سے بچنے کے لیے زندہ رہ جانے والے انسانوں کو زیر زمین بنکرز میں جانا ہوگا۔

    یہ دھواں اور گرد و غبار سورج کی روشنی کو زمین پر پہنچنے سے روک دے گا۔ سورج کے بغیر زیادہ تر پودے اور جانور مر جائیں گے۔

    تقریباً ایک سال بعد زمین کی فضا گرد و غبار سے کچھ صاف ہوگی تاہم اس وقت تک انسانوں کے کھانے کے لیے نہایت قلیل مقدار میں اشیا موجود ہوں گی۔

    ماہرین کے مطابق اس ممکنہ تصادم، اس کی تباہی اور بعد ازاں خوراک کی ناپیدگی انسانوں کی نسل کو ایسے ہی معدوم کردے گی جیسے آج سے ساڑھے 6 کروڑ سال قبل ڈائنو سارز کی نسل معدوم ہوگئی۔

    خوش آئند بات یہ ہے کہ زمین سے اوپر اس کی فضا ایسی ہے جو سیارچوں کو زمین کی طرف آنے سے روک دیتی ہے اور فضا میں موجود گیسیں سیارچوں اور خلا سے آنے والے پتھروں کی تباہی کا سبب بن جاتی ہیں۔

    دوسری جانب دنیا کا سب سے بڑا خلائی مرکز ناسا بھی ہر وقت زمین کے ارد گرد خلا میں نظر رکھے ہوئے ہے۔

    تاہم بری خبر یہ ہے کہ سیارچے کے زمین سے تصادم کا اس وقت تک معلوم نہیں ہوسکتا جب تک وہ زمین سے بہت قریب نہ آجائے، اور ایسی صورت میں ہمارے پاس بچنے کے لیے بہت کم وقت ہوگا۔

  • پاکستان کے رقبے سے بڑا سیارچہ زمین سے خطرناک حد تک قریب

    پاکستان کے رقبے سے بڑا سیارچہ زمین سے خطرناک حد تک قریب

    پاکستان کے کل رقبے جتنا بڑا سیارچہ زمین سے خطرناک حد تک قریب آگیا۔ سیارچے کو رات کے اوقات میں بغیر کسی ٹیلی اسکوپ کے باآسانی دیکھا جاسکتا ہے۔

    ویسٹا نامی یہ سیارچہ ہمارے نظام شمسی کے اندر موجود چوتھا بڑا معلوم سیارچہ ہے۔ یہ زمین سے صرف 10 کروڑ 60 لاکھ میل کے فاصلے پر موجود ہے۔

    اس سیارچے کا رقبہ پاکستان کے کل رقبے سے معمولی سا زیادہ یعنی 8 لاکھ کلو میٹر ہے۔ سیارچے میں 13 میل بلند پہاڑ بھی موجود ہے۔

    یہ سیارچہ نہایت آسانی سے آسمان پر دیکھا جاسکتا ہے کیونکہ اس کی بیرونی سطح روشنی کو چاند سے زیادہ منعکس کرتی ہے۔

    اگر یہ سیارچہ زمین سے ٹکرا گیا تو زمین سے زندگی کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔

    اس کو سمجھنے کے لیے یہ کہنا کافی ہوگا کہ وہ سیارچہ جو زمین سے ٹکرا کر ڈائنو سارز کے نسل کے خاتمے کی وجہ بنا، صرف 10 سے 15 کلومیٹر چوڑا تھا، جبکہ ویسٹا کی چوڑائی 252 کلو میٹر ہے۔

    ناسا کا کہنا ہے کہ خوش قسمتی سے زمین سے انتہائی قریب ہونے کے باجوود یہ اس راستے پر نہیں ہے جس پر زمین سے اس کا تصادم ہوسکے۔

    خیال رہے کہ گزشتہ برس بھی دو سیارچے زمین کے انتہائی قریب سے گزرے ہیں۔

    اپریل 2017 کو 2014 جے او 25 نامی سیارچہ زمین سے محض 11 لاکھ میل کے فاصلے سے گزرا تھا۔ یہ فاصلہ زمین اور چاند کے درمیان فاصلے سے 4.6 گنا زیادہ تھا۔

    ستمبر 2017 میں فلورنس نامی سیارچہ زمین سے 43 لاکھ 91 ہزار میل کے فاصلے سے گزرا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔