Tag: سیارہ

  • ممکنہ طور پر زندگی رکھنے والا سیارہ دریافت

    ممکنہ طور پر زندگی رکھنے والا سیارہ دریافت

    امریکی ماہرین نے ایک ایسا سیارہ دریافت کیا ہے جو نہ صرف ممکنہ طور قابل رہائش ہوسکتا ہے بلکہ وہاں پہلے سے زندگی کی موجودگی کا بھی امکان ہے۔

    امریکی ماہرین فلکیات کا یہ تحقیقی مقالہ نیچر آسٹرونومی جنرل میں شائع ہوا ہے جس میں ماہرین فلکیات نے اپنی دریافت کے بارے میں تحریر کیا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے نظام شمسی سے باہر موجود یہ سیارہ زمین سے 12 نوری سال کے فاصلے پر ہے اور یہ مربوط ریڈیو سگنلز بھی بھیج سکتا ہے۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ یہاں ممکنہ طور پر مقناطیسی میدان موجود ہے اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ یہاں زندگی ہوسکتی ہے یا آگے چل کر پنپ سکتی ہے، کیونکہ مقناطیسی میدان تابکاری کو روک کر زندگی کو ممکن بناتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی سیارے پر مقناطیسی میدان اس بات کی پہلی علامت ہے کہ یہ قابل رہائش ہوسکتا ہے۔ زمین اور ہمارے نظام شمسی میں موجود دیگر سیاروں پر بھی یہ میدان موجود ہے۔

    اس سیارے کو YZ Ceti کا نام دیا گیا ہے اور یہاں سے مسلسل ریڈیو سگنلز بھی خارج ہو رہے ہیں، ماہرین کا کہنا ہے کہ سگنلز کا اخراج وہاں پر کسی کی موجودگی کا نہایت واضح اشارہ ہے۔

    امریکی ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ اس سیارے پر مزید تحقیق سے انہیں یہ بھی علم ہوگا کہ دوسرے سیاروں پر مقناطیسی میدان کیسے کام کرتا ہے، جبکہ کائنات میں قابل رہائش سیارے ڈھونڈنے کے کام میں بھی مزید مدد ملے گی۔

  • مشتری جیسا سیارہ دریافت

    مشتری جیسا سیارہ دریافت

    فلکیاتی ماہرین نے زمین سے 17 ہزار نوری سال کے فاصلے پر بالکل مشتری جیسے سیارے کو دریافت کیا ہے، اس سیارے کی ساخت چٹانی نہیں بلکہ مشتری کی طرح گیسز پر مبنی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق سائنس دانوں نے انکشاف کیا ہے کہ زمین سے 17 ہزار نوری سال کے فاصلے پر ایک ستارے کے گرد سیارے کو گردش کرتے دیکھا گیا ہے جو بالکل مشتری کے جیسا ہے۔

    اس سیارے کی نشان دہی ناسا کی کیپلر ٹیلی اسکوپ سے کی گئی ہے۔

    مانچسٹر کے ماہرینِ فلکیات کے مطابق نظام شمسی کے باہر موجود K2-2016-BLG-0005Lb نامی سیارہ وزن اور اپنے مرکزی ستارے سے فاصلے کے اعتبار سے تقریبآ مشتری سے ملتا جلتا ہے۔

    یہ سیارہ اپنے مرکزی ستارے سے تقریباً 42 کروڑ میل کے فاصلے پر ہے جبکہ مشتری سورج سے 46.2 کروڑ میل کے فاصلے پر ہے۔

    دوسری جانب سیارے کا وزن مشتری کی نسبت 1.1 گُا زیادہ ہے جبکہ جس ستارے کے گرد یہ گھومتا ہے اس کا وزن ہمارے سورج کے 60 فیصد تک ہے۔

    یہ سیارہ اور اس کا ستارہ سیگٹیریس ستاروں کی جھرمٹ مین موجود ہیں جو گلیکٹک سینٹر کے اطراف کا علاقہ گھیرتا ہے، یہ ہماری ملکی وے کہکشاں کے محور کا مرکز ہے۔

    یہ نئی تحقیق یونیورسٹی آف مانچسٹر کے جوڈریل بینک سینٹر کے آسٹرو فزکس کے ماہرین کی بین الاقوامی ٹیم کی جانب سے کی گئی۔

    جوڈریل بینک کے ڈاکٹر ایمن کرنس کے مطابق سیارے کی ساخت چٹانی نہیں بلکہ مشتری کی طرح گیسز پر مبنی ہے۔

  • زمین جیسے ماحول والا سیارہ دریافت

    زمین جیسے ماحول والا سیارہ دریافت

    ماہرین فلکیات نے ایسا سیارہ دریافت کیا ہے جس کا ماحول زمین جیسا ہے، یہ زمین سے 322 نوری سال کے فاصلے پر ہے۔

    حال ہی میں ایک تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ نظامِ شمسی کے باہر موجود ایک انتہائی گرم مشتری کے جیسے سیارے میں، جس کا درجہ حرارت 32 سو ڈگری سیلسیس تک چلا جاتا ہے، حیران کن طور پر زمین کے جیسے ایٹماسفیئر کی تہہ ہے۔

    سوئیڈن اور سوئٹزرلینڈ کا ماہرین نے ہائی ریزولوشن اسپیکٹرواسکوپی کا استعمال کرتے ہوئے نظام شمسی کے باہر موجود سیارے کے پیچیدہ ایٹماسفیئر کے متعلق مزید باتیں دریافت کیں۔

    سنہ 2018 میں وائڈ اینگل سرچ فار پلینٹس کے تحت دریافت کیا گیا کہ یہ گیس کا دیو ہیکل سیارہ، جو زمین سے 322 نوری سال کے فاصلے پر ہے، اپنے مرکزی ستارے کے گرد گھومتا ہے۔

    اب ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ سیارے کا ایٹماسفیئر ایک کاک ٹیل پر مشتمل ہے جس میں ٹائٹینیم آکسائیڈ، آئرن، ٹائٹینیم، کرومیم، وینیڈیم، میگنیشیم اور میگنیز شامل ہیں۔

    اس کو پہلے انتہائی متشدد سیاروں کے طور پر بیان کیا گیا تھا جس کی سطح کا درجہ حرارت اتنا گرم ہے کہ فولاد بھی بخارات میں تبدیل ہوجاتا ہے۔

    مشتری سے ڈیڑھ گنا بڑے سیارے کا اپنے مرکزی سیارے سے فاصلہ، زمین اور سورج کے درمیان فاصلے کی نسبت 20 گنا کم ہے کیونکہ یہ اپنے مرکزی ستارے سے اتنا قریب ہے اس لیے اس سیارے کا سال 2.7 دن کا ہوتا ہے۔

    اس سیارے کی منفرد خصوصیات کے باوجود ماہرین نے سیارے کے ایٹماسفیئر کا موازنہ زمین سے کیا ہے، کم از کم سطحوں کے اعتبار سے۔ زمین کا ایٹماسفیئر یکساں لفافے کی طرح نہیں ہے لیکن مختلف تہوں پر مشتمل ہوتا ہے، جس میں ہر ایک میں علیحدہ خصوصیات ہوتی ہیں۔

  • ہمارے نظام شمسی سے باہر پہلی بار اہم دریافت

    ہمارے نظام شمسی سے باہر پہلی بار اہم دریافت

    ماہرین فلکیات نے پہلی بار ہمارے نظام شمسی سے باہر کسی سیارے کا مشاہدہ کیا ہے، نظام شمسی سے باہر سیاروں کو اب تک ان کی ثقلی امواج کے ذریعے دریافت کیا جاتا تھا۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق ماہرین فلکیات کی جانب سے تاریخ میں پہلی بار نظام شمسی سے باہر کسی سیارے کا براہ راست مشاہدہ کیا گیا ہے اور اس کی اصل تصاویر لی گئی ہیں۔

    اب سے قبل تک نظام شمسی سے باہر کسی سیارے (ایگزو پلینٹ) کا براہ راست مشاہدہ نہیں کیا جاتا تھا بلکہ ثقلی امواج یا اس کے اثر سے سیارے کا پتہ لگایا جاتا تھا۔

    جرنل آف ایسٹرونومی اینڈ ایسٹرو فزکس میں گزشتہ روز شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق نظام شمسی سے باہر یہ سیارہ زمین سے 63 نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے جو گیسی ستارے، بیٹا پِکٹورِس سی کے گرد گھوم رہا ہے۔

    یہ سیارہ بہت نوا خیز اور سرگرم ہے جس کی عمر صرف 23 ملین سال ہے، اس سیارے کے گرد گیس اور گرد و غبار اب بھی موجود ہے جس کے ساتھ ساتھ کئی سیارے بھی موجود ہیں، اب تک ایسے دو سیارے دریافت ہو چکے ہیں۔

    ماہرین فلکیات کی جانب سے پہلی بار براہ راست اس کی روشنی اور کمیت بھی نوٹ کی گئی ہے، اپنی نو عمری کی وجہ سے اس پر تحقیق کر کے سیاروں کی تشکیل کو بہت حد تک سمجھا جاسکتا ہے۔

    ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ اب تک کسی بھی ایگزو پلینٹ کو براہ راست نہیں دیکھا گیا ہے تاہم اب جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے پہلی بار کسی سیارے کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔

  • وہ سیارہ جہاں دھاتیں پگھل کر ہوا میں اڑ جاتی ہیں

    وہ سیارہ جہاں دھاتیں پگھل کر ہوا میں اڑ جاتی ہیں

    سوئٹزرلینڈ کے ماہرین نے ایسا سیارہ دریافت کرلیا ہے جہاں پر لوہے کے قطروں کی بارش ہوتی ہے اور اس کا درجہ حرارت4 ہزار 400 فارن ہائیٹ ہے۔

    حال ہی میں دریافت کیا گیا یہ سیارہ زمین سے 640 نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے اور اس کا نام واسپ ۔ 76 بی رکھا گیا ہے۔

    اس سیارے کو سوئٹزرلینڈ کی جنیوا یونیورسٹی کے محققین نے دریافت کیا ہے جنہوں نے چلی میں نصب یورپی سدرن اوبزرویٹری کی ٹیلی اسکوپ کے ذریعے اس کا مشاہدہ کیا۔

    جنیوا یونیورسٹی کے پروفیسر ڈیوڈ کے مطابق دن میں اس سیارے کا درجہ حرارت 4 ہزار 400 فارن ہائیٹ (2 ہزار 426 سینٹی گریڈ) رہتا ہے جبکہ شام کے وقت یہاں بارش ہونے لگتی ہے، یہ الگ بات ہے کہ وہ بارش دھاتی ہوتی ہے۔

    تصوراتی خاکہ

    سیارہ دن اور رات میں انتہائی موسموں کا حامل ہے۔ یہ سیارہ اس رخ پر گردش کرتا رہتا ہے کہ اس کا ایک حصہ مستقل طور پر اپنے سورج کے سامنے رہتا ہے  نتیجتاً اس حصے پر قیامت خیز گرمی ہوتی ہے جو دھاتوں کو پگھلا دیتی ہے۔

    اس کے بعد ان پگھلی ہوئی دھاتوں کے قطرے اڑ کر سیارے کے دیگر نسبتاً ٹھنڈے حصوں پر گرتے ہیں۔

    دن کے وقت دھاتوں کے بخارات کی طرح اڑ جانے کے بعد شام کے وقت گرمی کم ہونے پر ان کے بادل بن جاتے ہیں اور پھر اس میں سے دھاتوں کے قطروں کی بارش ہونے لگتی ہے۔

    یہاں چلنے والی ہوا کی رفتار 11 ہزار 784 میل فی گھنٹہ ہے۔ رات کے وقت یہاں کا درجہ حرارت 18 سو فارن ہائیٹ (982 سینٹی گریڈ) ہوجاتا ہے۔

    سائنسدانوں کے مطابق یہاں دن اور رات کا صرف موسم ہی الگ نہیں بلکہ کیمسٹری بھی الگ ہے۔ ان کے مطابق اس طرح کے سیاروں کی دریافت سے ہمیں اپنی کائنات میں پائے جانے والے مختلف موسموں کے بارے میں جاننے میں مدد ملے گی۔

  • "یہ سیارہ ہمارا اپنا ہے”: 16 سالہ طالبہ کی اپیل پر دنیا بھر میں مظاہرے

    "یہ سیارہ ہمارا اپنا ہے”: 16 سالہ طالبہ کی اپیل پر دنیا بھر میں مظاہرے

    لندن: ماحولیاتی بگاڑ کے خلاف دنیا بھر میں‌ مظاہرے جاری ہیں، ان مظاہروں کا محرک ایک سولہ سالا سویڈش طالبہ ہے، جو ماحول کے تحفظ کی توانا ترین آواز بن گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق آج  دنیا کے سو بڑوں شہروں میں ہونے والا  احتجاج بین الاقوامی تحریک ’فرائیڈے فار فیوچر‘ کی اپیل پر کی جارہا ہے۔  اس منفرد تحریک کی بنیاد سویڈن کی ٹین ایجر گریٹا تھون برگ نے رکھی.

    ایمنسٹی انٹرنیشنل کا اعلیٰ ترین اعزاز اپنے نام کرنے والی اس بچی کی جدوجہد اور کہانی ٹائم میگزین کے سرورق کی بھی زینت بن چکی ہے۔

    گریٹا تھون برگ کی شہرت کی ابتدا اگست 2018 میں اسٹاک ہولم میں سویڈش پارلیمان کے باہر  ہر جمعے کو  کیے جانے والے احتجاج سے ہوئی، جو وہ اکیلے کیا کرتی تھی۔

    دھیرے دھیرے لوگ اس تحریک میں شامل ہوتے گئے، کاررواں بنتا گیا اور آج سو سے زاید شہروں میں ماحول کو بچانے کے لیے احتجاج جاری ہے۔ 

    احتجاج کا سلسلہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ہونے والے مظاہروں سے شروع ہوا، بعد ازاں برطانیہ میں‌ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد بینر اٹھائے سڑکوں پر نکلے.

    یہ مظاہرے ایشیا، یورپ، افریقہ اور امریکی براعظموں کے تمام بڑے شہروں میں کیے جا رہے ہیں۔

    اس مہم کے تحت دنیا کے سو دس سے زائد بڑے شہروں میں مظاہروں کا اہتمام کیا گیا ہے، اس وقت بھی مختلف خطوں میں ریلیاں جاری ہیں۔

  • روشن آسمان، چمکتے ستارے، کہکشاؤں کی جھرمٹ اور ٹوٹتے تارے

    روشن آسمان، چمکتے ستارے، کہکشاؤں کی جھرمٹ اور ٹوٹتے تارے

    چین : آسمانوں پر سجی کہکشاؤں کی جھرمٹ نے دلکش نظارے کو اس وقت اور حسین بنادیا جب سیارہ جوزہ سے ٹوٹتے روشن تارے بارش کی طرح برستے نظر آنے لگے۔

    دنیا کے لیے محو حیرت مناظر ہر سال 4 دسمبر سے 17 دسمبر کو مختلف جگہوں پر دیکھے جا سکتے ہیں لیکن چین میں واقع پہاڑی علاقے سے یہ مناظر مزید دیدنی ہوجاتے ہیں جسے دیکھنے کے لیے سیاح دنیا کے طول و عرض سے یہاں کھینچے چلے آتے ہیں۔

    ان مناظر کا سب سے روشن پہلو تاروں کا ٹوٹنا ہے جو اتنی تیزی ہوتا ہے جیسے گمان ہونے لگتا ہے کہ زمیں کی جانب ستاروں کی بارش ہو رہی ہو اور ان دنوں میں صرف ایک گھنٹے میں 16 دفعہ یہ منظر دیکھا جا سکتا ہے۔

    خیال رہے یہ جوزائیہ بارش ہر سال مستقل بنیادوں پر برپا ہوتی ہے جو کہ 3 ہزار 2 سو فیتنوں (Phaethon) کے ٹوٹنے کے باعث پیش آتا ہے

    کہا جاتا ہے کہ یہ سیارہ جوزے کے ناکارہ پتھریلی حصے ہوتے ہیں جو کمزور یا ناقص ہوجانے کے باعث ٹوٹ کر گرنے لگتے ہیں یہ ایک قدرتی عمل ہے جسے فطرت ہر سال دہراتی ہے تاہم سورج کی روشنی کے باعث ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ٹوٹے ہوئے حصے کوئی چمکدار ستارے ہیں

    کہکشاؤں کی بارش سے متعلق ہر مذہب، قوم اور ملک میں الگ الگ نظریات رائج ہیں کچھ اسے خوش بختی کی علامت سمجھتے ہیں جس کا پورا سال انتظار کیا جاتا ہے اور عین ٹوٹتے تارے کے دوران خصوصی دعائیں کی جاتی ہیں جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایسا کرنے سے دلی مراد بر آتی ہے جب کہ پریمیوں کے لیے بھی یہ لمحات خاص اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔

    تاہم کچھ ممالک ایسے بھی ہیں جہاں اسے خوش قسمت نہیں سمجھا جاتا بلکہ اسے دیوتا کی ناراضی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور دیوتا کو منانے کے لیے خصوصی قربانیاں نذر کی جاتی ہیں اور چڑھاوے چڑھائے جاتے ہیں جب کہ اسلام میں چاند گرہن و سورج گرہن کی طرح اس موقع پر بھی نفل نمازوں کے اہتمام کی ہدایت ملتی ہے۔

     دلفریب نظاروں کی ویڈیو دیکھیں



    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • سورج سے دوگنا گرم سیارہ دریافت

    سورج سے دوگنا گرم سیارہ دریافت

    سائنس دانوں نے ہمارے نظام شمسی سے دور ایک ایسا سیارہ دریافت کیا ہے جو سورج سے بھی دوگنازیادہ گرم ہے۔

    زمین سے 650 نوری سال کے فاصلے پر واقع یہ سیارہ کیلٹ 9 سیارہ مشتری سے دگنی جسامت کا ہے جو اپنے سورج کے گرد محو گردش ہے۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس سیارے کی گردش اپنے سورج کے گرد اس قدر تیز ہے کہ یہ ایک چکر صرف 2 دن میں مکمل کرلیتا ہے گویا یہاں کا ایک سال ہماری زمین کے 2 دن جتنا ہے۔

    اسے دریافت کرنے والے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ سیارے میں دن کے اوقات میں درجہ حرات 4 ہزار 300 ڈگری سینٹی گریڈ ہوسکتا ہے۔ ان کے مطابق اس کی عمر صرف 30 کروڑ سال ہے اور یہ جسامت میں ہمارے سورج سے بھی دوگنا ہے۔

    ماہرین کے مطابق سیارہ اپنے ستارے سے تقریباً جڑا ہوا ہے یعنی اس کا ایک ہی رخ عام طور پر اپنے سورج کی طرف رہتا ہے۔

    سیارے کی اپنی حرارت اور پھر اپنے سورج سے اس قدر قریب ہونے کے باعث سیارہ آہستہ ختم ہورہا ہے کیونکہ اس کا سورج بے تحاشہ تابکار شعاعیں خارج کر رہا ہے۔

    چونکہ سیارے کی فضا میں موجود گیس تابکاری سے پھٹ پھٹ کر خلا میں گم ہوتی جا رہی ہے لہٰذا بہت جلد یہ سیارہ قصہ پارینہ بن جائے گا۔

    سیارے کی موجودگی حیرت انگیز

    کیلٹ 9 سیارے کو سنہ 2014 میں دریافت کیا گیا تھا۔ تاہم اس کی موجودگی اور ساخت اس قدر حیران کن تھی کہ سائنسدان اسے اپنی آنکھوں کا دھوکہ سمجھتے رہے اور مکمل تصدیق کے لیے انہیں 3 سال کا عرصہ لگا۔

    سائنسدانوں نے 3 سال تک اس سیارے کے بارے میں تحقیق کی اور ان کا کہنا ہے کہ اب یہ سیارہ اپنے خاتمے کے قریب پہنچ چکا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • سیارہ مشتری کا عظیم طوفان

    سیارہ مشتری کا عظیم طوفان

    واشنگٹن: عالمی خلائی ادارے ناسا نے سیارہ مشتری کے سرخ دھبے کی نہایت خوبصورت تصاویر جاری کی ہیں۔

    یہ سرخ دھبہ دراصل سیارہ مشتری کا وہ عظیم اور ہنگامہ خیز طوفان ہے جسے سائنسدان میگا اسٹورم کا نام دیتے ہیں۔ اس طوفان کا مشاہدہ اس وقت سے کیا جارہا ہے جب سے دوربین ایجاد ہوئی ہے یعنی سترہویں صدی سے۔

    jupiter-3

    اس طوفان کا حجم زمین سے بھی بڑا ہے۔

    jupiter-2

    تصاویر میں 3 مزید دھبے بھی واضح طور پر دکھائی دے رہے ہیں جو کم شدت کے طوفان ہیں۔

    یہ تصاویر جونو کیم سے لی گئی ہیں جو مشتری کا مشاہدہ کرنے والی خلائی گاڑی جونو میں نصب ہے۔

    گزشتہ برس جولائی سے اپنے سفر کا آغاز کرنے والی خلائی گاڑی جونو نظام شمسی کے سب سے بڑے سیارے مشتری کے مدار میں سرگرداں ہے اور اس دوران وہ زمین پر مشتری کی تازہ ترین تصاویر و معلومات بھیج رہی ہے۔

    مزید پڑھیں: سیارہ مشتری پر زندگی کا امکان؟

    سائنسدانوں کے مطابق جونو سے لی جانے والی معلومات سے نظام شمسی اور سیاروں کے بارے میں بہت سی نئی اور مفید معلومات سامنے آئیں گی۔

    جونو کا یہ مشن فروری 2018 تک جاری رہے گا جس کے بعد جونو مشتری کی فضا کے اندر غوطہ لگا کر ’خودکشی‘ کر لے گا۔