Tag: سیارے

  • ہمارے نظام شمسی سے باہر بہت دور ایک سیارے پر زندگی کے آثار مل گئے!

    ہمارے نظام شمسی سے باہر بہت دور ایک سیارے پر زندگی کے آثار مل گئے!

    سائنسدان تو مریخ پر زندگی کے آثار ڈھونڈنے کی تگ ودو میں ہیں لیکن ہمارے نظام شمسی سے بہت دور ایک سیارے میں زندگی کے آثار مل گئے ہیں۔

    سائنسدان زمین سے باہر زندگی کے آثار تلاش کرنے کی جستجو میں ہیں۔ اس حوالے سے اب تک مریخ ان کا اہم ہدف رہا ہے تاہم اب اطلاعات کے مطابق سائنسدانوں کو زندگی کے آثار مل گئے ہیں تاہم یہ آثار ہمارے نظام شمسی سے بہت دور ایک اجنبی سیارے میں ملے ہیں۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں ایک اجنبی سیارے پر زندگی کے بارے میں مضبوط اشارہ ملا ہے۔تاہم یہ سیارہ ہمارے نظام شمسی سے باہر ہے اور اس کا سائنسی نام K2-18b ہے۔

    رپورٹ کے مطابق یہ سیارہ ہماری زمین سے 120 نوری سال کے فاصلے پر موجود ایک ستارے کے گرد گردش میں ہے۔

    محققین نے جب اس سیارے K2-18b کا جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ کا استعمال کرتے ہوئے جائزہ لیا تو اس کے ماحول میں 2 گیسوں- ڈائمتھائل سلفائیڈ، یا ڈی ایم ایس اور ڈائمتھائل ڈسلفائیڈ، یا ڈی ایم ڈی ایس کا پتا لگا۔

    مذکورہ دونوں گیسیں زمین پر بنیادی طور پر مائیکروبیل حیات جیسے سمندری فائٹو پلانکٹن جیسے جاندار عناصر سے پیدا ہوتی ہیں۔

    اس دریافت کے بعد محققین نے ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ سیارے پر دو گیسوں کا ہونا اس بات کا اشارہ ہے کہ وہاں زندگی ہو سکتی ہے، تاہم یہ حتمی نہیں بلکہ اس حوالے سے مزید مشاہدات کی ضرورت ہے۔

    یہ تحقیق کیمبرج یونیورسٹی کے فلکیاتی طبیعیات دان اور ایسٹرو فزیکل جرنل لیٹرز میں شائع ہوئی اور اس تحقیق کے سربراہ مصنف نکو مدھوسودھن کا کہنا تھا کہ نظام شمسی سے باہر زندگی کی تلاش میں تبدیلی کا لمحہ ہے جہاں ہم نے یہ ثابت کیا ہے کہ موجودہ سہولیات کے ساتھ ممکنہ طور پر قابل رہائش سیاروں میں حیاتیاتی نشانات کا پتا لگانا ممکن ہے، ہم فلکیات کے مشاہداتی دور میں داخل ہو چکے ہیں۔

  • ڈیڑھ سو سال بعد آج آسمان پر حیرت انگیز نظارہ دکھائی دے گا

    ڈیڑھ سو سال بعد آج آسمان پر حیرت انگیز نظارہ دکھائی دے گا

    آج 24 جون کی رات آسمان پر ایک حیرت انگیز نظارہ دکھائی دے گا، یہ نظارہ 158 سال قبل دکھائی دیا تھا۔

    اگر آپ فلکیات میں دلچسپی رکھتے ہیں تو پھر اس ہفتے آسمان پر ایک خوبصورت نظارہ آپ کا منتظر ہوگا، جو صدیوں بعد ہی دکھائی دیتا ہے۔ چاند 5 سیاروں کے ساتھ ایک قطار میں دکھائی دے گا۔

    آج سے زمین کا چاند نظام شمسی کے دیگر 5 ستاروں کے ساتھ ایک ترتیب تشکیل دے رہا ہے، جو اہل زمین کے لیے صدیوں بعد ایک دل نشین و محسور کن منظر پیش کرے گا۔

    ماہرین فلکیات کے مطابق یہ نظارہ اس سے قبل 158 سال قبل دکھائی دیا تھا، چاند کی اس ترتیب میں 5 سیارے عطارد، زہرہ، مریخ، مشتری اور زحل ایک قطار میں آجائیں گے اور یہ ترتیب اگلے 2 دن یعنی 25 جون تک برقرار رہے گی۔

    سورج کے ساتھ قربت کو برقرار رکھنے کے لیے یہ پانچوں ستارے ایک دل نشین پریڈ تشکیل دیں گے جو دیکھنے والوں کو حیرت سے گنگ کردینے کے لیے کافی ہے۔

    اس حوالے سے خلائی ماہرین کا کہنا ہے کہ نظام شمسی میں سیاروں کی چاند کے ساتھ یہ ترتیب شاذ و نادر ہوتی ہے، اس سے قبل یہ حیران کن نظارہ 5 مارچ 1864 میں دیکھا گیا تھا۔

    اس مظاہر قدرت میں سب سے شاندار بات تو یہ ہے کہ چاند بذات خود سیارہ نہیں ہے لیکن وہ بھی ان سیاروں کے ساتھ اس قطار کو ترتیب دے گا۔

    جون کے مہنے میں یہ پانچوں سیارے ترتیب پا چکے ہیں تاہم اس ماہ کے آخر تک انہیں واضح طور پر دیکھا جا سکے گا، یہ ترتیب آسمان پر ایک پھیلی ہوئی خم دار کمان کی شکل میں مشرق سے شمال مشرق اور پھر جنوب میں دکھائی دے گی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس دل آویز آسمانی پریڈ میں رات کے وسط تک زحل دکھائی دے گا، پھر بتدریج مشتری اور مریخ، اس کے 30 سے 40 منٹ بعد زہرہ اور طلوع آفتاب سے کچھ دیر قبل عطارد دکھائی دے گا۔

    چاند کی سیاروں کے ساتھ اس ترتیب سے زمین کو بھی اپنی پوزیشن کا تعین کرنے میں مدد ملتی ہے۔

  • کل آسمان پر ایک نایاب منظر دیکھا جائے گا

    کل آسمان پر ایک نایاب منظر دیکھا جائے گا

    کل آسمان پر ایک نایاب منظر دیکھا جائے گا جس میں ہمارے نظام شمسی کے 4 سیارے ایک قطار میں موجود ہوں گے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق کل نظام شمسی کے 4 سیارے ایک سیدھی قطار میں آجائیں گے، اس نایاب قدرتی مظہر کا نظارہ شمالی نصف کرے سے کیا جا سکے گا۔

    سیاروں کے سیدھی قطار میں آنے کا عمل 17 اپریل سے شروع ہو گیا تھا لیکن اس قطار کو بہترین شکل میں کل صبح کے وقت دیکھا جا سکے گا۔

    اس قطار کا نظارہ کل شفق پھوٹنے سے پہلے آسمان پر کیا جا سکے گا۔ 23 اپریل سے زمین کا چاند بھی اس قطار میں شامل ہو جائے گا۔

    24 جون کو نظام شمسی کے دیگر تمام سیارے مزید بڑی سیاراتی ترتیب میں جمع ہو جائیں گے لیکن اس کا نظارہ دوربین یا ٹیلی اسکوپ سے کیا جا سکے گا۔

    واضح رہے کہ آنکھ سے دیکھی جا سکنے والی ترتیب بہت کم دیکھنے میں آتی ہے، سنہ 2005 سے اب تک صرف تین دفعہ سیاروں کو قطار میں دیکھا گیا ہے۔

  • زمین کے علاوہ دوسرے سیاروں کا موسم جان کر آپ حیران رہ جائیں گے

    زمین کے علاوہ دوسرے سیاروں کا موسم جان کر آپ حیران رہ جائیں گے

    کیا آپ اپنے شہر کی گرمی سے سخت پریشان ہیں؟ موسم گرما آپ کے لیے سخت تکلیف لے کر آتا ہے؟ اسی طرح موسم سرما میں بھی آپ مختلف دشواریوں کا شکار ہوجاتے ہیں اور آپ کو یہ موسم سخت لگتا ہے؟

    اگر آپ نظام شمسی میں موجود دوسرے سیاروں کے موسم کے بارے میں جانیں تو زمین آپ کو جنت کا ٹکڑا دکھائی دے گی اور اس کا موسم خدا کی رحمت۔ آئیں دیکھتے ہیں ہمارے پڑوسی سیاروں پر موسم کیسا ہوتا ہے۔

    سیارہ عطارد ۔ مرکری

    سورج سے قریب ترین سیارہ مرکری سورج سے قریب ہونے کی وجہ سے گرم جھلسا دینے والی ہواؤں کا مرکز ہے۔ مرکری کی فضا میں آکسیجن بھی بے حد کم ہے۔

    علاوہ ازیں سورج کی تابکار شعاعیں بھی مرکری پر براہ راست آرہی ہوتی ہیں جو زمین پر آنے والی تابکار شعاعوں سے کئی گنا زیادہ خطرناک ہوسکتی ہیں۔

    سیارہ مرکری پر اگر آپ گرم ہوا سے جھلس کر یا آکسیجن کی کمی سے ہلاک نہ ہوں، تو تابکار شعاعیں ضرور آپ کو ہلاک کرسکتی ہیں۔

    سیارہ زہرہ ۔ وینس

    سیارہ زہرہ بادلوں سے ڈھکا ہوا سیارہ ہے، تاہم یہ بادل زہریلے ہیں اور ان سے سلفیورک ایسڈ کی بارش ہوتی ہے۔ یہ بارش چند لمحوں میں کسی بھی جاندار کے جسم کو گلا سکتی ہے۔

    سیارہ مریخ ۔ مارس

    مریخ لق و دق صحرا جیسا سیارہ ہے جہاں ہر وقت ہوائیں چلتی رہتی ہیں۔ تیز ہوا مٹی کو اڑا کر بڑے بڑے بگولے تشکیل دے دیتی ہے اور یہ بگولے زمین کی بلند ترین برفانی چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سے بھی بلند ہوسکتے ہیں۔

    علاوہ ازیں مریخ پر اکثر و بیشتر مٹی کے طوفان آتے رہتے ہیں جو کئی مہینوں تک جاری رہتے ہیں اور پورے سیارےکو ڈھک لیتے ہیں۔

    سیارہ مشتری ۔ جوپیٹر

    سیارہ مشتری پر ایک غیر معمولی حد تک بڑا سرخ دھبہ موجود ہے (جو خلائی دوربینوں سے نظر آتا ہے) جو دراصل مشتری کا وہ عظیم اور ہنگامہ خیز طوفان ہے جسے سائنسدان میگا اسٹورم کا نام دیتے ہیں۔

    اس طوفان کا مشاہدہ اس وقت سے کیا جارہا ہے جب سے دوربین ایجاد ہوئی ہے یعنی سترہویں صدی سے۔ گویا 300 سال سے یہ طوفان اس سیارے پر موجود ہے۔ اس طوفان کا حجم زمین سے بھی بڑا ہے۔

    اس میگا سٹورم کے علاوہ مشتری پر ایک اور چھوٹا طوفان موجود ہے۔ یہ زمین پر آنے والے درجہ 5 طوفان کے برابر ہے جسے اوول بی اے کا نام دیا گیا ہے۔

    یہ بڑے طوفان سے کچھ چھوٹا ہے اور اس کا حجم زمین کے برابر ہے۔ اس کا مشاہدہ پہلی بار سنہ 2000 میں کیا گیا ہے اور تب سے اب تک اس کے حجم میں مسلسل اضافہ دیکھا جارہا ہے۔

    سیارہ زحل ۔ سیچورن

    سیارہ زحل کے قطب شمالی میں ہوا کا ایک عظیم طوفان پنپ رہا ہے۔ اس طوفان کے چھ کونے ہیں جس کی وجہ سے اسے ہیگزاگون کا نام دیا گیا ہے، اس کا ہر کونا ہماری زمین سے بڑا ہے۔

    اس طوفان کے مرکز میں بادلوں کا ایک سسٹم موجود ہے جس کا دائرہ زمین پر آنے والے طوفانوں کے دائرے سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔

    سیارہ یورینس

    سیارہ یورینس دیگر سیاروں کی طرح اپنے مدار میں گول گھومنے کے بجائے ایک طرف کو جھک کر گردش کرتا ہے جس کی وجہ سے اس سیارے کے موسم طویل اور زیادہ شدت کے ہوتے ہیں۔

    یہاں موسم سرما میں بالکل اندھیرا ہوجاتا ہے۔ یہ سیارہ سورج سے خاصا دور ہے لہٰذا اس کے موسم سرما کا دورانیہ زمین کے 21 سالوں جتنا ہوتا ہے۔ اس دوران درجہ حرارت منفی 216 ڈگری سیلسیئس پر پہنچ جاتا ہے۔

    سیارہ نیپچون

    سیارہ نیپچون کو ہواؤں کا سیارہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں 1 ہزار 930 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوائیں چلتی ہیں۔

    یہ رفتار زمین پر آواز کی رفتار سے ڈیڑھ گنا زیادہ ہے جبکہ اس رفتار پر سفر کیا جائے تو امریکی شہر نیویارک سے لاس اینجلس پہنچنے میں صرف سوا 2 گھنٹے کا وقت لگے گا۔ یہ سفر عام طور پر 6 گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔

    ان تمام سیاروں کے موسم کے مقابلے میں زمین کا موسم نہایت معتدل ہے۔ نہ زیادہ گرمی، نہ زیادہ سردی اور نہ ہی طوفانی ہوائیں، اور ہاں یہاں تیزابی بارشیں، تابکاری اور مٹی کے عظیم بگولے بھی نہیں آتے۔ تو پھر زمین کے موسم کی شکایت کرنا چھوڑیں اور ہر موسم کا لطف اٹھائیں۔

  • اگر سیارے زمین سے قریب ہوتے تو آسمان پر کیسے دکھائی دیتے؟

    اگر سیارے زمین سے قریب ہوتے تو آسمان پر کیسے دکھائی دیتے؟

    ہمارے نظام شمسی میں تمام سیارے اپنے اپنے مدار میں گھوم رہے ہیں۔ یہ ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر موجود ہیں لہٰذا انہیں زمین سے دیکھنا ناممکن ہے۔

    لیکن اگر یہی سیارے زمین سے اس قدر قریب ہوتے کہ چاند کی طرح ہمارے آسمان پر نظر آتے تو کیسے دکھائی دیتے؟

    ایک علم فلکیات دان نک ہومز نے اینی میشن کے ذریعے بتانے کی کوشش کی ہے کہ نظام شمسی میں موجود دیگر سیارے زمین سے کیسے نظر آسکتے ہیں۔

    اس اینی میشن کی بنیاد اس نقطے پر ہے کہ اگر تمام سیارے زمین سے صرف اتنے فاصلے پر ہوتے جتنا کہ چاند ہے یعنی کہ زمین سے 3 لاکھ 84 ہزار 4 سو کلومیٹر کے فاصلے پر تو وہ کس طرح دکھائی دیتے۔

    مزید پڑھیں: طلوع آفتاب کا منظر دوسرے سیاروں پر کیسا ہوتا ہے؟

    یاد رہے کہ نظام شمسی میں واقع تمام سیارے زمین سے کروڑوں اربوں کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں۔

    اس اینی میشن میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اگر چاند زمین سے صرف اتنا دور ہوتا جتنا کہ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن زمین سے دور ہے، تو وہ کس طرح دکھائی دیتا۔

    خیال رہے کہ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن زمین کے محور سے 408 کلو میٹر باہر واقع ہے۔ یہ خلائی اسٹیشن اس وقت خلا میں موجود سب سے بڑی جسامت ہے جو بعض اوقات زمین سے بھی بغیر کسی دوربین کے دیکھی جاسکتی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • زمین جیسی جسامت کے 10 نئے سیارے دریافت

    زمین جیسی جسامت کے 10 نئے سیارے دریافت

    واشنگٹن: امریکی خلائی ادارے ناسا نے ہمارے نظام شمسی سے باہر زمین کے جیسی جسامت رکھنے والے 10 نئے سیارے دریافت کرلیے ہیں جن پر ممکنہ طور پر پانی موجود ہوسکتا ہے۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ 10 سیارے اپنے اپنے سورجوں کے گرد اتنے ہی فاصلے پر گردش کر رہے ہیں جتنے فاصلے پر ہماری زمین اپنے سورج کے گرد گردش کر رہی ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ یہ فاصلہ ان سیاروں کو زندگی کے لیے قابل سیارہ بنا دیتا ہے۔

    ناسا کی ابتدائی تحقیق کے مطابق ان سیاروں کی زمین پتھریلی ہے اور وہاں پانی کی موجودگی کا بھی امکان ہے۔

    یہ دریافت ناسا کی دوربین کیپلر کی بدولت عمل میں آئی جو اپنے مشن کے دوران کل 4 ہزار سے زائد سیارے دریافت کر چکی ہے۔ ان سیاروں کی تصدیق کیپلر کے علاوہ دوسری ٹیلی اسکوپس نے بھی کی ہے۔

    ماہرین کے مطابق کیپلر سے کی جانے والی تحقیق شاید اس سوال کا جواب دے سکے کہ ہماری کائنات میں زمین جیسے کتنے سیارے موجود ہیں؟

    یاد رہے کہ چند روز قبل بھی ایک ایسا سیارہ دریافت کیا گیا تھا جو سورج سے بھی دو گنا زیادہ گرم ہے۔

    مزید پڑھیں: سورج سے دوگنا گرم سیارہ دریافت

    یہ سیارہ جسامت میں ہمارے نظام شمسی کے سب سے بڑے سیارے مشتری سے بھی بڑا تھا اور ماہرین کے مطابق اس کی فضا کا درجہ حرارت 4 ہزار 300 ڈگری سینٹی گریڈ ہوسکتا ہے۔

    اس سے چند ماہ قبل سائنس دانوں نے ہماری کائنات میں ایک نیا نظام شمسی بھی دریافت کیا تھا جس میں 7 سیارے ایک ستارے کے گرد محو گردش تھے۔

    ٹریپسٹ 1 نامی یہ نظام زمین سے 39 نوری سال کے فاصلے پر موجود ہے اور ماہرین کے مطابق یہ زون یا علاقہ نہ تو اتنا گرم ہے جہاں پانی فوراً بھاپ بن جائے اور نہ ہی اتنا سرد ہے کہ ہر چیز منجمد ہوجائے۔ گویا یہ زندگی کے لیے نہایت سازگار ماحول ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔ 

  • دوسرے سیاروں پر زندگی حقیقت؟ زمین جیسے 7 نئے سیارے دریافت

    دوسرے سیاروں پر زندگی حقیقت؟ زمین جیسے 7 نئے سیارے دریافت

    ماہرین فلکیات کی زمین کے جیسے قابل رہائش سیارے کی طویل تلاش رنگ لے آئی اور خلا میں زمین کے جیسے 7 سیارے دریافت کر لیے گئے۔ سائنس دانوں کے مطابق ان سیاروں میں سے 3 پر پانی کی موجودگی کا امکان ہے جن کے باعث یہ سیارے قابل رہائش ہوسکتے ہیں۔

    ناسا کے مطابق ساتوں سیارے لگ بھگ زمین ہی کی جسامت اور ہجم جیسے ہیں اور ان کا زیادہ تر علاقہ پتھریلا ہے۔ یہ سیارے ایک ہی ستارے کے گرد گھوم رہے ہیں، گویا یہ زمین کے نظام شمسی جیسا نیا نظام ہے۔

    discovery-2

    ماہرین نے اس نظام کو ٹریپسٹ 1 نظام کا نام دیا ہے۔ یہ زمین سے 39 نوری سال کے فاصلے پر موجود ہے اور یہ زون یا علاقہ نہ تو اتنا گرم ہے جہاں پانی فوراً بھاپ بن جائے اور نہ ہی اتنا سرد ہے کہ ہر چیز منجمد ہوجائے۔ گویا یہ زندگی کے لیے نہایت سازگار ماحول ہے۔

    دریافت کے متعلق شائع ہونے والے مضمون کے مصنف بیلجیئم یونیورسٹی کے پروفیسر مائیکل گلن کا کہنا ہے کہ جس ستارے کے گرد یہ سیارے گھوم رہے ہیں وہ ستارہ کافی چھوٹا (اسے بونا ستارہ کہا جاسکتا ہے) اور سرد ہے، جس کی وجہ سے صرف امکان ظاہر کیا جا سکتا ہے کہ ان سیاروں پر پانی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ زندگی بھی موجود ہو۔

    ماہرین فلکیات کے مطابق اگر اس میں اوزون کے آثار ملتے ہیں تو یہ بات ان سیاروں پر زندگی کے آثار کی جانب اشارہ کرتی ہے۔

    دوسری جانب یونیورسٹی آف کیمبرج کے سائنسدان اماؤری ٹرائیوڈ نے دریافت سے متعلق کہا کہ ہم نے زمین کے علاوہ دوسرے سیاروں پر زندگی کے آثار کی کھوج لگانے سے متعلق اہم قدم اٹھا لیا ہے۔

    ان کے خیال میں اب مزید کسی سیارے کی دریافت ضروری نہیں ہے، کیونکہ اب صحیح ہدف حاصل کرلیا گیا ہے۔

    تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ سیارے دیگر سیاروں کی طرح ناقابل رہائش نکلتے ہیں تو یہ بہت مایوس کن بات ہوگی کہ کائنات میں صرف زمین ہی ایسا سیارہ ہو جو قابل رہائش ہو۔

    ماہر فلکیات کے مطابق ان سیاروں کا مشاہدہ ٹیلی اسکوپ کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔

  • طلوع آفتاب کا منظر دوسرے سیاروں پر کیسا ہوتا ہے؟

    طلوع آفتاب کا منظر دوسرے سیاروں پر کیسا ہوتا ہے؟

    سورج کے بغیر ہماری دنیا میں زندگی ناممکن ہے۔ اگر سورج نہ ہو تو ہماری زمین پر اس قدر سردی ہوگی کہ کسی قسم کی زندگی کا امکان بھی ناممکن ہوگا۔

    ہمارے نظام شمسی کا مرکزی ستارہ سورج روشنی کا وہ جسم ہے جس کے گرد نہ صرف تمام سیارے حرکت کرتے ہیں بلکہ تمام سیاروں کے چاند بھی اس سورج سے اپنی روشنی مستعار لیتے ہیں۔

    مختلف سیاروں پر دن، رات اور کئی موسم تخلیق کرنے کا سبب سورج ہماری زمین سے تقریباً 14 کروڑ سے بھی زائد کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور اس تک پہنچنا تقریباً ناممکن ہے، کیونکہ آدھے راستے میں ہی سورج کا تیز درجہ حرارت ہمیں پگھلا کر رکھ دے گا۔

    زمین پر سورج کے طلوع اور غروب ہونے کا منظر نہایت دلفریب ہوتا ہے۔ لیکن کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ دوسرے سیاروں پر یہ نظارہ کیسا معلوم ہوگا؟

    ایک امریکی ڈیجیٹل آرٹسٹ رون ملر نے اس تصور کو تصویر کی شکل دی کہ دوسرے سیاروں پر طلوع آفتاب کا منظر کیسا ہوگا۔ دیکھیے وہ کس حد تک کامیاب رہا۔


    سیارہ عطارد ۔ مرکری

    1

    سیارہ عطارد یا مرکری سورج سے قریب ترین 6 کروڑ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا یہاں کا درجہ حرارت دیگر تمام سیاروں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ یہاں پر طلوع آفتاب کے وقت سورج نہایت قریب اور بڑا معلوم ہوتا ہے۔


    سیارہ زہرہ ۔ وینس

    2

    سورج سے قریب دوسرے مدار میں گھومتا سیارہ زہرہ سورج سے 108 ملین یا دس کروڑ کلومیٹر سے بھی زائد فاصلے پر ہے۔ اس کی فضا موٹے بادلوں سے گھری ہوئی ہے لہٰذا یہاں سورج زیادہ واضح نظر نہیں آتا۔ یہاں کی فضا ہر وقت دھندلائی ہوئی رہتی ہے۔


    سیارہ مریخ ۔ مارس

    3

    ہماری زمین سے اگلا سیارہ (زمین کے بعد) سیارہ مریخ سورج سے 230 ملین کلومیٹر کے فاصلے پر ہے لیکن اس سے سورج کے نظارے پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔


    سیارہ مشتری ۔ جوپیٹر

    4

    سورج سے 779 ملین کلومیٹر کے فاصلے پر واقع سیارہ مشتری کی فضا گیسوں کی ایک موٹی تہہ سے ڈھکی ہوئی ہے۔ یہاں پر سورج سرخ گول دائرے کی شکل میں نظر آتا ہے۔


    سیارہ زحل ۔ سیچورن

    5

    سورج سے 1.5 بلین کلومیٹر کے فاصلے پر واقع زحل کی فضا میں برفیلے پانی کے ذرات اور گیسیں موجود ہیں۔ یہ برفیلے کرسٹل بعض دفعہ سورج کو منعکس کردیتے ہیں۔ کئی بار یہاں پر دو سورج نظر آتے ہیں جن میں سے ایک سورج اصلی اور دوسرا اس کا عکس ہوتا ہے۔


    سیارہ یورینس

    6

    سورج سے 2.8 بلین کلومیٹر کے فاصلے پر سیارہ یورینس سورج سے بے حد دور ہے جس کے باعث یہاں سورج کی گرمی نہ ہونے کے برابر ہے۔


    سیارہ نیپچون

    7

    نیپچون سورج سے 4.5 بلین کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اور اس کی سطح برفانی ہے۔ اس کے فضا میں برف، مٹی اور گیسوں کی آمیزش کے باعث یہاں سورج کی معمولی سی جھلک دکھائی دیتی ہے۔


    سیارہ پلوٹو

    8

    پلوٹو سیارہ جسے بونا سیارہ بھی کہا جاتا ہے سورج سے سب سے زیادہ 6 بلین کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہاں پر سورج کی روشنی ہمیں ملنے والی سورج کی روشنی سے 16 سو گنا کم ہے، اس کے باوجود یہ اس روشنی سے 250 گنا زیادہ ہے جتنی روشنی ہمارے چاند کی ہوتی ہے۔