Tag: سیاستدان انتقال

  • پروفیسر غفور احمد:‌ مثالی سیاست داں، بامروت اور وضع دار انسان

    پروفیسر غفور احمد پاکستان کے اُن چند سیاست دانوں میں سے ایک ہیں جن کے اوصافِ حمیدہ گنوانے سے قلم قاصر ہے۔ آج ملکی سیاست میں صادق اور امین، حق گو اور جرأتِ اظہار کے کسی خوگر کا تذکرہ کرنا ہو تو مشکل نظر آتا ہے، لیکن 2012ء تک پروفیسر غفور احمد جیسے مدبّر، قابل اور باصلاحیت سیاست داں ہمارے درمیان موجود تھے۔

    عہد ساز شاعر منیر نیازی بھی 26 دسمبر ہی کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے تھے جن کے ایک شعر کا مصرع ہے:

    آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے…

    پروفیسر غفور احمد بامروت، وضع دار، سراپا عجز و انکسار اور مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک تھے جو سیاست کو توفیقِ خداوندی اور خدمت سمجھتے تھے۔

    کیا عجب اتفاق ہے کہ 1927 میں جون کے مہینے میں جب پروفیسر غفور احمد نے اس دنیا میں‌ آنکھ کھولی تو تاریخ 26 ہی تھی اور جب یہاں سے کوچ کیا تو ماہِ دسمبر کی 26 تاریخ ہی تھی۔

    پروفیسر غفور احمد نائبِ امیرِ جماعتِ اسلامی رہے، دو مرتبہ رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوئے، سینیٹر بنے، 1973 کی آئین ساز کمیٹی کے رکن، 77 میں دوبارہ انتخابات کروانے کے لیے ذوالفقار علی بھٹو کی ٹیم سے مذاکرات کرنے والی کمیٹی کے سربراہ، وفاقی وزیر بھی رہے اور چارٹرڈ اینڈ انڈسٹریل اکاؤنٹینسی کے استاد بھی تھے۔ 1950ء سے 1956ء تک وہ اردو کالج میں کامرس اور معاشیات کے استاد رہے۔ سندھ یونیورسٹی کی سلیبس کمیٹی، سندھ یونیورسٹی بورڈ برائے کامرس اور کراچی یونیورسٹی سلیبس بورڈ کے رکن کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ اپنی ایک مل کی ملازمت کے دوران لیبر یونین سے وابستگی کے دور میں مزدوروں کی بہبود کے لیے بڑا کام کیا جس کی پاداش میں مالکان نے انھیں ملازمت سے بر طرف کر دیا۔

    1950 میں جماعتِ اسلامی کے باقاعدہ رکن بن گئے اور تاحیات یہ وابستگی برقرار رہی۔ 1958 میں انھوں نے جماعتِ اسلامی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا اور کراچی میونسپل کارپوریشن کے کونسلر منتخب ہوئے۔ بعد میں کراچی تنظیم کے امیر منتخب اور پھر مجلس شوریٰ کے رکن بھی بنے۔ ایوب خان کے دور میں‌ گرفتار کیے گئے اور 9 ماہ تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ 1970 میں عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ وفاقی وزیرِ صنعت بن کر بھی اپنی ذمے داریاں نہایت ایمان داری کے ساتھ نبھائیں۔

    وہ قومی اتحاد کی اس مذاکراتی ٹیم کے بھی روح رواں تھے جس نے 1977 کے پُر آشوب دور میں پیپلز پارٹی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک کے دوران مذاکرات کیے تھے۔ 1973 کا آئین تشکیل دینے میں بھی اپنا کردار ادا کیا اور مخالفین کو بھی اپنا ہم نوا بنانے میں‌ کام یاب رہے۔

    غفور صاحب کا شمار ان چند گنے چنے سیاستدانوں میں ہوتا ہے جن کا دامن ہمیشہ صاف رہا۔ ان کی صاف گوئی، صلح جوئی، نرم گفتاری، سیاسی بصیرت اور دور اندیشی ایک مثال بنی۔

  • لاڑکانہ کی بیگم اشرف عباسی کا تذکرہ جو قومی اسمبلی کی پہلی ڈپٹی اسپیکر تھیں

    لاڑکانہ کی بیگم اشرف عباسی کا تذکرہ جو قومی اسمبلی کی پہلی ڈپٹی اسپیکر تھیں

    بیگم اشرف عباسی کا نام پاکستان کی سیاسی اور آئینی تاریخ میں‌ قومی اسمبلی کی پہلی ڈپٹی اسپیکر کے طور پر درج ہے۔ ان کی وابستگی پیپلز پارٹی سے رہی اور ذوالفقار علی بھٹو انھیں سیاست کے میدان میں لائے تھے۔

    ڈاکٹر بیگم اشرف عباسی کا تعلق لاڑکانہ سے تھا۔ وہ 1925 میں حکیم محمد سعید خان عباسی کے گھر پیدا ہوئیں اور ابتدائی تعلیم لاڑکانہ سے حاصل مکمل کرنے کے بعد دہلی اور کراچی کے تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم رہیں۔ یہ تعلیمی سلسلہ شادی کے بعد بھی جاری رہا اور وہ دو بچّوں‌ کی ماں تھیں جب ڈاؤ کالج سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی۔

    بے نظیر بھٹو لاڑکانہ کے اس عباسی خاندان پر بہت اعتماد کرتی تھیں۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی تحریک پر عملی سیاست میں قدم رکھنے والی اشرف عباسی 1962ء میں صوبائی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں اور 1973 میں قومی اسمبلی میں‌ پہنچیں جس کے بعد انھیں قومی اسمبلی کی پہلی ڈپٹی اسپیکر بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ وہ اس کمیٹی کی بھی رکن رہیں جس نے 1973 کا آئین مرتب کیا تھا۔ 1977 کے انتخابات ہوئے تو بیگم اشرف عباسی کو صوبائی اسمبلی کی نشست پر کام یابی کے بعد محکمۂ بلدیات کا قلمدان سونپا گیا تھا۔

    پاکستان پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان سے قریبی مراسم ہونے کی وجہ سے جنرل ضیاءُ الحق کے دور میں سیاسی اور عوامی جدوجہد کرنے والے راہ نماؤں اور کارکنوں‌ کے ساتھ انھوں نے بھی متعدد مرتبہ نظر بندی اور قید جھیلی۔ اسی طرح بے نظیر بھٹو کی سیاسی جدوجہد اور مختلف مواقع پر احتجاج کی قیادت کے دوران انھوں نے بھی لاٹھی چارج اور دوسری مشکلات کا سامنا کیا اور ثابت قدم رہیں۔

    سندھ میں بحالیٔ جمہوریت کی تحریک شروع ہوئی تو بیگم اشرف عباسی بھی اگلی صفوں‌ میں رہیں اور اسی پاداش میں 14 ماہ جیل میں بھی گزارنے پڑے۔

    1988ء کے عام انتخابات میں وہ لاڑکانہ سے قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی تھیں۔ عملی سیاست سے دور ہوجانے کے بعد بیگم اشرف عباسی کئی جامعات کی سینڈیکیٹ ممبر اور ’شہید ذوالفقار بھٹو انسٹیٹیوٹ‘ لاڑکانہ کی چیئرپرسن بھی رہیں۔ انھوں نے ایک ٹرسٹ قائم کیا تھا اور اس پلیٹ فارم سے مستحق اور نادار خواتین کی امداد کی جاتی تھی۔

    بیگم اشرف عباسی نے اپنی سیاسی زندگی اور ذاتی حالات اور واقعات پر مشتمل ایک کتاب سندھی زبان میں ’جیکی ھلن اکیلیوں‘ کے عنوان سے تحریر کی جس کا اردو ترجمہ بھی کیا گیا۔ بیگم اشرف عباسی نے 2014ء میں‌ آج ہی کے دن 89 برس کی عمر میں‌ وفات پائی۔

  • ہندوستانیوں سے نفرت کرنے والے ونسٹن چرچل کو دنیا سیاسی مدبّر تسلیم کرتی ہے

    ہندوستانیوں سے نفرت کرنے والے ونسٹن چرچل کو دنیا سیاسی مدبّر تسلیم کرتی ہے

    ونسٹن چرچل کو دنیا اعلٰی درجے کا مدبّر تسلیم کرتی ہے، لیکن اسے سخت متعصّب اور انتہائی قدامت پرست سیاست دان بھی کہا جاتا ہے۔ مغرب کا یہ پامرد سپاہی اور سیاسی ہیرو برصغیر میں‌ لاکھوں انسانوں کی موت کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔

    تعصّب کیا بلا ہے اور اگر کسی قوم کا حکم ران اس کا شکار ہو تو اس کے کیا ہولناک نتائج سامنے آتے ہیں، اس کا اندازہ‌ آپ سر سیّد احمد خان کے ایک مضمون کے چند پارے پڑھ کر بخوبی کرسکتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں،

    انسان کی خصلتوں میں سے تعصّب ایک بدترین خصلت ہے۔ یہ ایسی بدخصلت ہے کہ انسان کی تمام نیکیوں اور اس کی تمام خوبیوں کو غارت اور برباد کرتی ہے۔ متعصّب گو اپنی زبان سے نہ کہے، مگر اس کا طریقہ یہ بات جتلاتا ہے کہ عدل وانصاف اس میں نہیں ہے۔ متعصّب اگر کسی غلطی میں پڑتا ہے تو اپنے تعصّب کے سبب اس غلطی سے نکل نہیں سکتا، کیوں کہ اس کا تعصّب اُس کے برخلاف بات سننے، سمجھنے اور اُس پر غور کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور اگر وہ کسی غلطی میں نہیں ہے، بلکہ سچّی اور سیدھی راہ پر ہے تو اس کے فائدے اور اس کی نیکی کو پھیلنے اور عام ہونے نہیں دیتا۔

    اگر بات کی جائے چرچل کے متعصّب ہونے کی تو ایک موقع پر اس نے کہا تھا کہ اسے ہندوستانیوں سے نفرت ہے۔ اس نے نہ صرف یہاں کے لوگوں سے نفرت بلکہ ہندوستان کے مذاہب کے لیے بھی ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔ اس کے باوجود اس زمانے کے نو آبادیاتی دور اور برطانوی حکومت کے بارے میں متضاد آرا پڑھنے کو ملتی ہیں۔ مغربی مصنّفین ہی نہیں‌ اس وقت کے ہندو اور مسلمان بھی برطانوی حکومت سے متعلق مختلف جذبات اور خیالات رکھتے تھے۔

    کہا جاتا ہے کہ چرچل کی مدبّرانہ سوچ نے دوسری جنگِ عظیم میں برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کی ایک بڑی مخالف طاقت جرمنی کی شکست میں اہم کردار ادا کیا اور بعض مصنّفین نے لکھا ہے کہ چرچل نہ ہوتا تو شاید آج دنیا کی سیاسی اور جغرافیائی تاریخ کچھ مختلف ہوتی، لیکن اس کے باوجود ونسٹن چرچل کی شخصیت متنازع بھی ہے۔

    برطانوی راج میں طوفان اور سیلاب کے ساتھ بنگال میں شدید قحط سے اموات اور مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کے قیام میں چرچل کا کردار بھی موضوعِ بحث رہا ہے۔

    بنگال میں قحط سے ہلاکتوں اور لاکھوں انسانوں کے متاثر ہونے کا زمانہ وہی ہے جب برطانیہ میں ونسٹن چرچل پہلی مرتبہ وزیرِ اعظم منتخب ہوا۔ نوآبادیات پر متعدد برطانوی اور ہندوستانی تاریخ نویسوں نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ اعلیٰ افسران نے اپنی حکومت کو تحریری طور پر قحط کی تباہ کاریوں اور لاکھوں انسانی زندگیوں کو درپیش خطرے سے آگاہ کرتے ہوئے خوراک اور دوسری امداد کی درخواست کی تھی، لیکن انھیں نظر انداز کر دیا گیا۔

    ایک خیال یہ ہے کہ چرچل نے جان بوجھ کر لاکھوں ہندوستانیوں کو بھوکا مرنے دیا۔ یہ بات ہے 1942ء کی جب سمندری طوفان اور سیلاب کے باعث بنگال میں قحط پڑ گیا تھا اور خوراک نہ ملنے سے لاکھوں انسان لقمۂ اجل بن گئے، اُس وقت کے برطانوی وزیرِ اعظم کا خیال تھا کہ مقامی سیاست دان بھوک سے مرتے ہوئے لوگوں کی بہتر مدد کرسکتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ برطانوی حکومت کے اسی رویّے نے بدترین حالات پیدا کر دیے تھے۔ اسے امریکیوں کے استحصال کا ذمہ دار بھی کہا جاتا ہے۔ چرچل میں برطانوی ہونے کے ناتے خود کو برتر خیال کرتا تھا اور کہا جاتا ہے کہ وہ دنیا کی دیگر اقوام اور ان کے مذاہب کے احترام سے بے نیاز تھا۔

    ونسٹن چرچل 30 نومبر 1874ء کو آکسفورڈ شائر میں پیدا ہوا۔ اس نے کم و بیش دس سال برطانیہ میں وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر گزارے اور 24 جنوری 1965ء کو لندن میں انتقال کر گیا۔ اس کی عمر 90 برس تھی۔

    وہ سیاست میں آنے سے قبل ہندوستان کی شمال مغربی سرحد اور پھر جنوبی افریقا میں سپاہی اور اخباری نمائندے کی حیثیت سے کام کرچکا تھا۔ وہ 1901ء میں پہلی بار پارلیمنٹ کا رکن بنا اور بعد میں‌ خزانہ، داخلہ سمیت وزارتِ عظمٰی کا منصب سنبھالا۔

    ونسٹن چرچل برطانیہ میں کنزرویٹو اور لبرل پارٹی کا حصّہ رہا اور سیاست کے ساتھ اس نے متعدد کتب بھی تصنیف کیں۔ وہ مصوّر بھی تھا اور کئی فن پارے تخلیق کیے۔ 1953ء میں چرچل نے ادب کا نوبل انعام وصول کیا تھا۔

  • چارلس ڈیگال: عظیم قوم پرست راہ نما اور سیاسی مدبّر

    چارلس ڈیگال: عظیم قوم پرست راہ نما اور سیاسی مدبّر

    اگست 1944ء میں پیرس کے عوام نازی تسلط کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ان کی قیادت فرانس کی آزادی کے متوالے راہ نما اور وہ مزاحمت کار کر رہے تھے جنھیں‌ پیرس کی عورتوں اور پادریوں کی حمایت اور ان کا ساتھ بھی حاصل تھا۔

    دوسری جنگِ عظیم کے دوران جرمنی اور اس کی اتحادی افواج نے فرانس پر قبضہ کرلیا تھا۔ پیرس میں بڑے پیمانے پر قید وبند کے سلسلے کے ساتھ قتل و غارت گری ہوئی، لیکن عظیم قوم پرست راہ نما چارلس ڈیگال کی قیادت میں‌ فرانسیسی عوام نے اپنی خود مختاری اور آزادی کی جنگ لڑی اور کام یاب ہوئے۔

    سٹی ہال کے باہر ڈیگال نے کہا تھا کہ ’پیرس مشتعل ہوا، پیرس ٹوٹا اور پیرس شہید ہو گیا، لیکن پیرس آزاد ہو گیا، خود ہی آزاد ہو گیا اور اس کے لوگوں نے اسے آزاد کیا۔‘

    چارلس ڈیگال نے روپوشی اختیار کی، جلا وطنی کاٹی اور وطن سے دور رہے، لیکن اپنے عوام اور فوج کو متحد و منظّم کرکے اس خواب کو پورا کر دکھایا جس کے لیے انھوں نے کئی قربانیاں‌ دی تھیں اور جب پیرس آزاد ہوا تب فرانسیسیوں کا یہ محبوب لیڈر وطن لوٹا جہاں ٹاؤن ہال کے سامنے اپنا مشہورِ زمانہ خطاب کیا۔ ڈیگال نے مزاحمت کاروں کی قیادت کرنے والے جرنیلوں اور دوسرے جاں‌ نثار فوجیوں کے ساتھ شہر کا گشت کیا جہاں لاکھوں لوگ ان کے استقبال کے لیے موجود تھے۔

    ڈیگال کو 1958ء میں ملک کا صدر منتخب کیا گیا اور وہ 1969ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ انھوں نے 9 نومبر 1970ء کو وفات پائی۔ چارلس ڈیگال نے فرانس میں 22 نومبر 1890ء کو آنکھ کھولی تھی۔ ان کا تعلق ایک رومن کیتھولک خاندان سے تھا۔ ڈیگال کے والد تاریخ اور ادب کے پروفیسر تھے۔

    چارلس ڈیگال کا شمار ان قوم پرست قائدین میں ہوتا ہے جنھوں نے بیسویں صدی میں‌ دنیا سے اپنے عزم و استقلال کو منوایا۔ انھیں بہترین فرانسیسی جنرل اور قوم کے مدبّر کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔

    دوسری جنگِ عظیم کے دوران فرانس پر جرمنی کے تسلط کے بعد ڈیگال نے بڑی ذہانت اور حکمتِ‌ عملی سے کام لیا اور اپنی فوج اور عوام سے رابطہ برقرار رکھا، ان کے پیغامات فرانس کے عوام تک پہنچتے جن میں‌ وہ عوامی اتحاد کو سڑکوں پر نکلنے اور فرانسیسی فوج کا ساتھ دینے پر آمادہ کرتے رہے۔

    دوسری جنگِ عظیم کے دوران ڈیگال فرانس میں بریگیڈیئر جنرل کے عہدے پر فائز تھے۔ سیاسی افراتفری اور جنگ کے زمانے میں جب انتشار اور حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے غیر ملکی افواج نے فرانس پر اپنا تسلط جمانا چاہا اور وہاں‌ جرمن نواز حکومت قائم ہوگئی تو ڈیگال نے جنگ کا اعلان کردیا۔

    ابتدا میں انھیں اور مزاحمت کاروں کو شکست ہوئی لیکن ڈیگال کا اصرار تھا کہ فرانس کو ایک بڑی طاقت کے طور پر تسلیم کیا جائے اور اس کی آزاد اور خود مختاری ناگزیر ہے۔ وہ ایسے زبردست قوم پرست راہ نما تھے جنھوں نے قومی مفاد کے لیے کسی کی پروا نہ کی۔ اس زمانے میں ان کی برطانیہ اور امریکا سے محاذ آرائی بھی ہوئی، لیکن ڈیگال اپنے مؤقف سے پیچھے نہ ہٹے۔

    چارلس ڈیگال کا ایک اور کارنامہ آزادی کے بعد 1945ء میں فرانس کو اقوامِ متحدہ کی مستقل نشست پر براجمان کروانا تھا۔ جنگ کے بعد وہ فرانس کی عبوری حکومت میں‌ وزیرِ اعظم منتخب ہوئے، مگر سیاسی تنازعات کی وجہ سے 1946ء میں‌ مستعفی ہوگئے۔ تاہم 1947ء میں‌ انھوں نے اپنی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی اور سیاسی سفر کو آگے بڑھایا۔ بعد میں‌ یہ جماعت انتشار کا شکار ہو کر کم زور پڑگئی تھی، لیکن اپنی وفات تک ڈیگال فرانس کے عوام کی حمایت اور ان کی محبوبیت سے محروم نہیں ہوئے۔

    چارلس ڈیگال دیانت داری اور عزم و استقلال کا پیکر تھے جو دنیا بھر میں قوم پرستوں کے لیے مثالی راہ نما بن کر ابھرے۔ ان کی سیاسی بصیرت اور اصول پسندی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب فرانس کے مشہور فلسفی سارتر نے الجزائر کی جنگِ آزادی کی حمایت کی تو ڈیگال پر اس کی گرفتاری کے لیے دباؤ ڈالا جانے لگا، لیکن اس راہ نما نے کہا کہ فرانس سارتر ہے اور سارتر فرانس ہے، یہ نہیں‌ ہوسکتا کہ اسے گرفتار کیا جائے۔

    ڈیگال سمجھتے تھے کہ فرانس کی حکومت اور قوم کو کسی دوسرے ملک پر انحصار نہیں‌ کرنا چاہیے، کیوں‌ کہ وہ خود ایک بڑی طاقت ہیں۔ انھوں نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد فرانس کی تعمیرِ نو میں‌ زبردست کردار ادا کیا۔ ہر سال آنجہانی چارلس ڈیگال کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے عوام کی بڑی تعداد پیرس میں ان کے مقبرے پر حاضری دیتی ہے۔

  • یومِ وفات: سادگی پسند اور ہاکی کے کھلاڑی میر ظفرُ اللہ بلوچستان کے پہلے منتخب وزیرِاعظم رہے

    یومِ وفات: سادگی پسند اور ہاکی کے کھلاڑی میر ظفرُ اللہ بلوچستان کے پہلے منتخب وزیرِاعظم رہے

    23 نومبر 2002ء کو میر ظفرُ اللہ جمالی نے پاکستان میں وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالا تھا۔ وہ بردبار اور دھیمے مزاج کے سیاست دان مشہور تھے۔ ان کا شمار بلوچستان کے اُن سیاست دانوں میں ہوتا ہے جنھوں نے وفاق کی سیاست کو ترجیح دی اور قوم پرست جماعتوں سے خود کو دور رکھا۔

    ظفرُ اللہ جمالی کا تعلق بلوچستان کے علاقے روجھان جمالی سے تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ اس صوبے کے پہلے منتخب وزیرِ اعظم تھے۔ وہ 76 سال کی عمر میں پچھلے سال 2 دسمبر کو وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی پہلی برسی ہے۔ سابق وزیرِ اعظم میر ظفرُ اللہ جمالی آبائی علاقے روجھان جمالی میں آسودۂ خاک ہوئے۔

    وفات سے چند روز قبل دل کا دورہ پڑنے کے باعث انھیں راولپنڈی کے ایک اسپتال منتقل کردیا گیا تھا جہاں وہ‌ خالقِ‌ حقیقی سے جا ملے۔

    میر ظفرُ اللہ جمالی 1944ء میں پیدا ہوئے۔ پرائمری تعلیم کے بعد گھوڑا گلی مری میں بورڈنگ اسکول میں داخل ہوئے اور بعد میں لاہور کے ایچی سن کالج اے لیول کیا۔ پنجاب یونیورسٹی سے سیاست میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ وہ اردو کے علاوہ پنجابی، سندھی، پشتو اور براہوی زبانیں‌ جانتے تھے۔

    ان کا گھرانا مسلم لیگی تھا۔ ان کے چچا جعفر خان جمالی کو بانیِ پاکستان محمد علی جناح اور بعد میں ان کی بہن فاطمہ جناح کے قریب رہنے کا موقع ملا۔ ظفرُ اللہ جمالی نے بھی نوجوانی میں فاطمہ جناح کے انتخابی دورے کے وقت ان کے گارڈ کے طور پر فرائض سَر انجام دیے تھے اور بعد میں ان کے پولنگ ایجنٹ بھی مقرر ہوئے۔

    انھوں نے اپنے چچا کی وفات کے بعد سیاست میں قدم رکھا اور پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ 1970ء کے انتخابات میں وہ سیاسی حریف سے شکست کھا گئے اور 1977ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی میں‌ پہنچے، وہ مارشل لا کے زمانے میں اُن سیاست دانوں میں شامل تھے جنھوں نے جنرل ضیاءُ الحق کا ساتھ دیا۔

    1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں انھیں قومی اسمبلی کا رکن منتخب کیا گیا اور اس بار پانی و بجلی کی وزارت ان کے حصّے میں آئی اور محمد خان جونیجو کی حکومت کی برطرفی کے بعد ظفر اللہ جمالی بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بنے۔ 1988ء میں ایک بار پھر انھوں نے پیپلز پارٹی کا ساتھ دیا اور انتخابات میں کام یاب ہونے کے بعد صوبے کے وزیر اعلیٰ کا منصب سنبھالا۔

    میر ظفرُ اللہ جمالی وفاق میں مسلم لیگ، مسلم لیگ ق اور تحریکِ انصاف میں شامل رہے۔ وہ اپنے سیاسی سفر کے دوران سینیٹ کے رکن بھی رہے۔

    2004ء کو انھوں نے وزراتِ عظمیٰ کے منصب سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ میر ظفرُ‌اللہ جمالی کھیلوں میں‌ بڑی دل چسپی رکھتے تھے اور ہاکی ان کا پسندیدہ کھیل تھا۔ انھوں نے زمانۂ طالب علمی میں خود بھی ہاکی کھیلی تھی۔ وہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر بھی رہے۔ انھوں نے 1984ء کے لاس اینجلز اولمپکس میں پاکستانی دستے کی سربراہی بھی کی تھی۔

    میر ظفرُ اللہ جمالی سادگی پسند تھے۔ انھوں نے اپنے تمام سیاسی ادوار اور وزیرِاعظم بننے کے بعد بھی شان و شوکت اپنانے کے بجائے سادہ زندگی گزاری اور کوشش کی کہ ان کی ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔ ان کے بارے میں‌ کہا جاتا تھا کہ سیاسی میدان میں بھی وہ کسی کو بھی اپنی بات سے رنج پہنچانے سے گریز کرتے رہے۔

  • پیپلز پارٹی کے وفادار سیاست دان امین فہیم شاعر بھی تھے

    پیپلز پارٹی کے وفادار سیاست دان امین فہیم شاعر بھی تھے

    مخدوم امین فہیم رومی، شاہ عبدُاللطیف بھٹائی اور سچل سرمست کے شیدا و پرستار تھے۔ وہ ان بزرگوں کے فلسفۂ حیات اور شاعری سے بے حد متاثر تھے اور کہتے تھے کہ انہی کے کلام نے انھیں محبّت اور وفا کرنا سکھایا ہے۔ آج مخدوم امین فہیم کی برسی ہے۔

    21 نومبر 2015ء کو کراچی میں‌ وفات پانے والے امین فہیم سندھ کی سروری جماعت کے روحانی پیشوا بھی تھے جس کے سندھ بھر میں مریدین اور عقیدت مند موجود ہیں۔

    بلاشبہ مخدوم خاندان نے سندھ کے شہر ہالا کو روحانی اور سیاسی پہچان دی اور سیاست کے علاوہ اس خاندان کی شخصیات کو سماجی کاموں اور بالخصوص علم و ادب سے اپنے شغف اور تخلیقی کاموں کے سبب امتیاز حاصل ہوا۔

    مخدوم امین فہیم بھی شاعر تھے جن کے دو مجموعہ ہائے کلام زیورِ طبع سے آراستہ ہوئے اور قارئین تک پہنچے۔ انھیں دھیمے مزاج کا مالک اور ایک غیر متنازع شخصیت مانا جاتا تھا، جن کا سیاسی کیریئر بے داغ رہا، لیکن بے نظیر بھٹو کی الم ناک موت کے بعد امین فہیم کو بعض الزامات میں مقدمات کا سامنا کرنا پڑا اور سیاسی میدان میں مخدوم خاندان کے پیپلز پارٹی سے فاصلے بھی بڑھ گئے۔

    امین فہیم کے والد مخدوم محمد زمان طالبُ المولیٰ ایک وضع دار اور بااصول انسان تھے۔ وہ شاعر اور ادیب بھی تھے جن کی متعدد تصانیف شایع ہوئیں۔ مخدوم خاندان شروع ہی سے اپنے وقت کے ایک کامل بزرگ حضرت لطفُ اللہ مخدوم نوح صدیقی سہروردیؒ کا ارادت مند رہا اور طالبُ المولیٰ ان بزرگ کے روحانی سلسلے کے سولہویں سجادہ نشین بنے۔ وہ 1993ء میں وفات پاگئے تھے اور امین فہیم سروری جماعت کے روحانی پیشوا چنے گئے۔

    ہالا کی روحانی اور سماجی شخصیت طالبِ المولیٰ کا سیاسی سفر پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کے ساتھ ہی شروع ہوا اور وہ ذوالفقار علی بھٹو کے قریب آئے جس میں کئی مرتبہ قیادت سے اختلاف اور ناراض بھی ہوئے، مگر ان کا خاندان ہر موقع پر پیپلز پارٹی کے ساتھ کھڑا رہا۔ پارٹی کا ساتھ نہ چھوڑنے کی اسی "روایت” کو امین فہیم نے بھی نبھایا، لیکن محترمہ کے بعد ان کے اپنی پارٹی کی مرکزی قیادت سے تعلقات میں کئی اتار چڑھاؤ آئے۔

    پی پی پی کے ساتھ اپنے سیاسی سفر میں مخدوم امین فہیم تین مرتبہ وزراتِ عظمیٰ کی کرسی کے قریب پہنچے، لیکن کبھی سیاسی وفاداری تو کبھی پارٹی قیادت کی وجہ سے وہ اس کرسی پر براجمان نہ ہو سکے۔ ملک میں‌ ضیاءُ الحق کے دور میں انھیں اس منصب کی پیشکش ہوئی، اور پرویز مشرف نے بھی انھیں یہ آفر کی، لیکن مخدوم خاندان نے اسے دونوں بار مسترد کردیا تھا۔

    بے نظیر بھٹو کی وفات کے بعد بھی وزارتِ‌ عظمیٰ کے منصب کے لیے مخدوم امین فہیم کا نام لیا جارہا تھا، لیکن پارٹی کی قیادت نے مخدوم یوسف رضا گیلانی کو اس منصب کے لیے نام زد کیا۔

    پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری اور مخدوم خاندان میں‌ اختلافات اور دوریوں کے عرصہ میں مخدوم امین فہیم کی شخصیت متنازع بن رہی اور ان پر یہ الزامات لگائے گئے کہ وہ بے نظیر کی شہادت سے پہلے اور بعد میں پرویز مشرف سے رابطے میں رہے اور ان کی قیادت میں پارٹی میں‌ فارورڈ بلاک بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، لیکن ایسا کوئی بلاک سامنے نہیں‌ آیا۔

    مخدوم امین فہیم 4 اگست 1939ء کو ہالا میں پیدا ہوئے تھے۔ یہ وہی شہر ہے جہاں‌ پیپلز پارٹی کا پہلا کنونشن منعقد کیا گیا تھا۔ 1958ء انھوں نے سندھ یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی اور 1970ء میں‌ عملی سیاست میں قدم رکھا۔ مخدوم امین فہیم نے چار شادیاں کی تھیں۔

    وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر پہلی بار ٹھٹھہ سے رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے اور اس کے بعد مسلسل عام انتخابات میں کام یابی ان کا مقدّر بنتی رہی۔ وہ پارٹی کے اُن راہ نماؤں میں سے تھے جو غیر جماعتی بنیادوں پر ہونے والے کسی انتخابی عمل کا حصّہ نہیں‌ بنے اور ہر پیشکش ٹھکرا دی۔

    جب بے نظیر بھٹو ملک سے باہر خود ساختہ جلا وطنی کے دن کاٹ رہی تھیں، تو اس زمانے میں پاکستان میں سیاست دانوں اور ہر قسم کے رابطے اور اہم معاملات کی ذمہ داری مخدوم امین فہیم پر عائد تھی جو اُن کی سیاسی بصیرت اور سوجھ بوجھ کے ساتھ اُن پر محترمہ کے اعتماد کا بھی مظہر تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز رجسٹرڈ ہوئی تو اس کی قیادت بھی مخدوم امین فہیم کو سونپی گئی تھی۔

    سیاست، روحانیت کے ساتھ علم و ادب سے وابستہ امین فہیم کے دادا بھی اعلیٰ پائے کے شاعر تھے جن کی دو اولادیں بھی ادیب اور شاعر ہوئیں، اور انہی میں‌ سے ایک امین فہیم کے والد تھے۔ مخدوم امین فہیم نے شاعری میں اپنے والد سے اصلاح لی۔

    امین فہیم نے وفاقی وزیر کی حیثیت سے بے نظیر بھٹو کے 1988ء سے 1990ء تک کے اوّلین دورِ حکومت میں مواصلات جب کہ 1994ء سے 1996ء تک حکومتی دور میں ہاؤسنگ اینڈ پبلک ورکس کی وزارت سنبھالی۔

  • فاروق احمد لغاری: سیاسی سرگرمی سے اختیارات کی گرماگرمی تک

    فاروق احمد لغاری: سیاسی سرگرمی سے اختیارات کی گرماگرمی تک

    سول سروس سے ملکی سطح کی سیاست میں‌ قدم رکھنے والے سردار فاروق احمد لغاری کا نام پاکستان کے اہم اور بڑے سیاست دانوں‌ میں‌ شامل ہے۔ مختلف پارٹی عہدے اور وزارتیں سنبھالنے والے فاروق لغاری صدرِ پاکستان بھی رہے۔ آج ان کی برسی ہے۔ 2010ء میں فاروق لغاری وفات پاگئے تھے۔

    سردار فاروق احمد لغاری کا تعلق ایک جاگیر دار بلوچ گھرانے سے تھا۔ انھوں نے 1940ء میں ڈیرہ غازی میں آنکھ کھولی اور لاہور سے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد بیرونِ ملک پڑھنے چلے گئے اور بعد سول سروس کا حصّہ بنے۔ انھوں نے مشرقی پاکستان میں فرائض انجام دیے۔ اپنے والد کی وفات کے بعد انھوں نے سیاسی سفر کا آغاز کیا اور پیپلز پارٹی کے سرکردہ راہ نماؤں میں‌ ان کا شمار ہوا۔ وہ پنجاب اسمبلی کے علاوہ کئی مرتبہ رکنِ قومی اسمبلی بھی منتخب ہوئے۔

    1993ء میں وہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حمایت سے صدر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اس وقت تک فاروق احمد خان لغاری پیپلز پارٹی کے سرکردہ راہ نما سمجھے جاتے تھے، لیکن صدر بننے کے بعد پیپلز پارٹی سے دوریاں بڑھ گئیں اور وہ سیاسی میدان میں اس جماعت کے سخت مخالف کے طور پر سامنے آئے۔

    اسی دور میں صدر لغاری نے اپنے صوابیدی اختیارات سے پیپلز پارٹی کی حکومت کو ختم کردیا۔ صدر لغاری کی جانب سے حکومت پر کرپشن اور کراچی میں ماورائے عدالت قتل کے الزامات لگائے گئے تھے۔

    پی پی پی سے وابستگی کے زمانے میں وہ بے نظیر بھٹو کے قریبی رفقا میں‌ شمار ہوتے تھے اور پیپلز پارٹی پنجاب کے سیکرٹری خزانہ اور مرکزی سیکرٹری جنرل بھی رہے۔ فاروق لغاری ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں سینیٹ کے رکن بھی رہے اور پھر وفاقی وزارت میں پیداوار کا قلم دان بھی سنبھالا۔

    1988ء میں فاروق لغاری وفاقی کابینہ میں بجلی کے وزیر بنے۔ 1990ء میں پیپلز پارٹی کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر اور بعد میں مختصر عرصے کے لیے بلخ شیر مزاری کی نگران حکومت میں وزیرِ خزانہ بھی رہے۔

    سیاسی مفادات، مجبوریوں اور ایوانِ اقتدار کی معرکہ آرائیوں میں جب پی پی پی کی حکومت ختم ہونے کے بعد میاں نواز شریف وزیرِ اعظم منتخب ہوئے اور صدر کے صوابیدی اختیارات کو ختم کیا تو صدر اور وزیراعظم میں ٹھن گئی اور ایک تنازع کی وجہ سے فاروق لغاری کو مستعفی ہونا پڑا۔

    فاروق احمد لغاری نے صدارت کے بعد سیاست کے میدان میں ملّت نامی پارٹی قائم کرکے اپنا سیاسی سفر شروع کیا، لیکن ان کی پارٹی کو پذیرائی نہ ملی تو اسے مسلم لیگ ق میں ضم کر دیا۔

    سردار فاروق لغاری نے 1970ء میں بنکاک اور پھر 1974ء میں تہران میں منعقدہ ایشین گیمز میں شوٹنگ کے مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی بھی کی تھی۔ انھوں نے پسٹل ایونٹ میں حصّہ لیا تھا۔

    وہ ڈیرہ غازی خان میں چوٹی زیریں کے مقام پر آسودہ خاک ہیں۔