Tag: سیاستدان وفات

  • بش سینئر کا آپریشن ڈیزرٹ اسٹورم اور ‘کویت کی آزادی’

    بش سینئر کا آپریشن ڈیزرٹ اسٹورم اور ‘کویت کی آزادی’

    بش سینئر کے دورِ صدارت کو اُن کی خارجہ پالیسی کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔ وہ امریکا کے41 ویں صدر تھے۔ ان کے دور میں مشرقی یورپ میں کمیونزم دَم توڑ رہا تھا اور روسی ریاستوں کا اتحاد ٹوٹنے کے بعد امریکا دنیا کی واحد سپر پاور بن کر ابھرا۔

    جارج ہربرٹ واکر بُش جو بش سینئر مشہور ہیں، ان کی قیادت میں حکومتی پالیسیوں نے دنیا کو امریکا پر اعتماد کرنے پر آمادہ کیا۔ بش سینئر کا دورِ صدارت 1989ء سے 1993ء تک رہا۔ بعد میں ان کے بیٹے بش جونیئر بھی امریکا کے صدر بنے۔

    30 نومبر 2018ء کو 94 سال کی عمر میں وفات پانے والے بش سینئر کے دور میں‌ آپریشن ڈیزرٹ اسٹورم بھی کیا گیا تھا۔ یہ آپریشن عرب دنیا میں‌ تیل کی دولت سے مالا مال اور چھوٹے سے آزاد ملک کویت کے شہریوں کو تحفظ دینے اور وہاں پانچ ماہ سے جاری عراقی قبضہ چھڑانے کے لیے شروع کیا گیا تھا۔ عراق کے خلاف امریکا کی قیادت میں اتحادی ممالک نے یہ جنگ لڑی تھی۔

    آپریشن ڈیزرٹ اسٹورم 40 دن جاری رہا جس کے بعد عراقی فوج نے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ اسے امریکا نے کویت کی آزادی کی جنگ کہا، لیکن اس سے قبل واشنگٹن میں عراقی قبضے کے دوران امریکا کی جانب سے اس محاذ کو کھولنے پر سیاسی تنازع جاری رہا تھا۔ عرب گروپوں میں عراق کے قبضے کو ختم کرانے پر بحث و مباحثہ ہو رہا تھا اور امریکی حملے سے چند دن قبل ہی صدام حسین نے کویت سے مشروط انخلا کا اعلان کیا تھا، لیکن صدر بش نے کانگریس سے جنگ کی منظوری لے لی اور جنگ شروع ہوگئی۔

    بش سینئر کے دور کے اس آپریشن نے عرب خطّے اور دنیا پر دور رَس اثرات مرتب کیے جب کہ دوسری جانب عظیم روس بکھرنے کو تھا اور امریکا دنیا کی قیادت کے لیے تیّار۔

    ریپبلکن پارٹی کے بش سینئر کو امریکا کا کام یاب سیاست دان اور ایک منجھا ہوا سفارت کار کہا جاتا رہا، لیکن اپنے دورِ‌ حکومت میں بالخصوص کام یاب خارجہ پالیسیوں کے باوجود انھیں 1992ء کے صدارتی انتخابات میں‌ بل کلنٹن کے ہاتھوں شکست ہوگئی تھی۔ اس کا ایک سبب بش سینئر کے دور میں ابتر داخلی معاشی صورتِ حال تھی۔

    کویت کی آزادی کی جنگ کے بعد امریکی عوام میں ان کی مقبولیت 89 فی صد کی ریکارڈ سطح تک پہنچ گئی تھی، لیکن چند سال گزرنے کے بعد کویت عراق تنازع میں امریکا کی حکمتِ عملی کو تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگا، کیوں کہ آپریشن صرف کویت سے عراقی افواج کی بے دخلی تک محدود رکھا گیا تھا اور امریکا نے صدام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کی کوئی کوشش نہیں کی تھی۔

    1924ء میں پیدا ہونے والے بش سینئر کا آبائی تعلق شمالی ریاست کنیٹی کٹ سے تھا۔ بعد میں ان کا خاندان ٹیکساس منتقل ہوگیا جہاں اپنی کاروباری سرگرمیوں کا آغاز کیا اور آئل کمپنی کی بنیاد رکھی۔

    ان کے والد پریسکاٹ بش 1952ء سے 1963ء تک اپنے آبائی علاقے کی نشست پر سینیٹر بھی رہے تھے۔ بش سینئر 1964ء میں ریپبلکن کے پلیٹ فارم سے سیاست میں قدم رکھنے سے قبل ٹیکساس میں تیل اور پیٹرول کے بڑے تاجر تھے۔

    بش سینئر نے 941ء میں امریکی بحری اڈّے پرل ہاربر پر جاپانی فضائیہ کے حملے کے بعد خود کو بحریہ میں رضا کار کے طور پر پیش کیا اور دوسری جنگِ عظیم میں فضائیہ کا حصّہ بنے۔ انھوں نے باربرا پیئرس سے شادی کی تھی۔

    جارج ڈبلیو بش امریکا کے صدر بننے سے قبل رونالڈ ریگن کے دور میں آٹھ سال تک نائب صدر بھی رہے۔ یوں وہ عملی سیاست اور منصب و اختیار کا وسیع تجربہ بھی رکھتے تھے۔

    1976ء میں جارج بش سینئر سینٹرل انٹیلیجنس ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہوئے اور ایک سال تک خدمات انجام دیں جب کہ 1971ء سے 1973ء تک وہ اقوامِ متحدہ میں امریکا کے مندوب کی حیثیت سے فرائض انجام دیتے رہے۔

  • کمیونسٹ انقلاب کے سربراہ اور مشہور باغی فیدل کاسترو کا تذکرہ

    کمیونسٹ انقلاب کے سربراہ اور مشہور باغی فیدل کاسترو کا تذکرہ

    دنیا فیدل کاسترو کو ایک باغی اور ایسے انقلابی کے طور پر جانتی ہے جو امریکا کے دشمنوں کی فہرست میں‌ شامل تھے۔ وہ طویل عرصے تک اپنے وطن کے سربراہ رہے۔

    فیدل الیہاندرو کاسترو کا سنِ‌ پیدائش 1926ء ہے۔ وہ کیوبا کے ایک امیر خاندان میں پیدا ہوئے۔ وہ جاگیردار گھرانے کے فرد تھے اور عیش و آرام کی ہر سہولت انھیں میسّر تھی، لیکن وہ اپنے سماج میں اونچ نیچ اور امتیاز اور لوگوں کے مصائب اور مفلسی کو دیکھ کر باغی ہوگئے اور انقلابی سوچ نے انھیں گھر بار اور ہر سہولت کو چھوڑ کر جدوجہد شروع کرنے پر آمادہ کرلیا۔

    اس وقت کیوبا پر فلجینسیو بتیستا کی حکومت تھی جن کا اقتدار عوام کی مشکلات بڑھاتا جارہا تھا اور ملک میں بدعنوانی اور عدم مساوات کے ساتھ ایسی فضا بن گئی تھی جس میں گرفت اور سزا صرف عوام کا مقدّر بن رہی تھی۔ جرائم عام تھے اور جسم فروشی، جوئے بازی اور منشیات کی اسمگلنگ کا کوئی علاج نہ تھا بلکہ کیوبا ایسے کاموں کا گڑھ بن گیا تھا۔

    کاسترو نے اس کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا اور ایسے ساتھی اکٹھے کیے جو سیراما اسٹیا نامی پہاڑوں میں اپنے اڈے سے بڑے پیمانے پر گوریلا مہم شروع کرنے پر آمادہ ہوگئے۔ انھوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ظلم اور جبر کے خلاف بغاوت کردی۔ 1953ء میں انھیں بتیستا حکومت کے خلاف ناکام بغاوت کی سربراہی کرنے پر جیل جانا پڑا لیکن دو سال بعد عام معافی کے تحت رہا ہوگئے۔

    فیدل کاسترو نے 1956 حکومت کے خلاف عظیم باغی اور گوریلا لڑائی کے ماہر چی گویرا کے ساتھ مل کر ایک بار پھر مقصد کے حصول کے لیے اپنی لڑائی کا آغاز کیا اور 1959 میں بتیستا کو شکست دینے کے بعد کیوبا کے وزیر اعظم بنے۔

    1960 میں کاسترو نے کیوبا میں موجود ان تمام کاروباروں کو قومی ملکیت میں لے لیا جو دراصل امریکا کی ملکیت تھے۔ اس پر امریکا نے کیوبا پر تجارتی و اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں۔ انھیں قتل کرنے کی کوششیں بھی کی گئیں، لیکن وہ ہر بار بچ نکلنے میں کام یاب ہوگئے۔

    1960 میں انھوں نے بے آف پگ میں سی آئی کی سرپرستی میں ایک بغاوت کو بھی ناکام بنایا۔ 1976 میں کیوبا کی قومی اسمبلی نے انھیں صدر منتخب کرلیا۔ فیدل کی تمام زندگی گویا محاذ پر گزری۔ لیکن ایک وقت آیا جب کیوبا کے عوام بدترین حالات سے دوچار ہوئے اور جہاں انھیں چاہنے والے موجود تھے، وہیں ان کے لیے نفرت اور ناپسندیدگی کا اظہار بھی کیا جانے لگا۔ 80 کی دہائی کے نصف تک سیاسی منظر نامہ بدل رہا تھا جس میں کاسترو کا انقلاب بھی ڈوب گیا۔

    کاسترو کی طبیعت ناساز رہنے لگی تھی۔ 2008 میں وہ اپنی ذمہ داریاں چھوڑ کر منظرِ عام سے ہٹ گئے تھے۔ فیدل کاسترو کی یک جماعتی حکومت تقریباً نصف صدی تک رہی اور سابق صدر اور کمیونسٹ انقلاب کے سربراہ نے 2016 میں آج ہی کے دن وفات پائی۔ ان کی عمر 90 سال تھی۔

  • مارگریٹ تھیچر کی پالیسیوں سے برطانیہ میں بے روزگاری کی شرح بڑھ گئی تھی

    مارگریٹ تھیچر کی پالیسیوں سے برطانیہ میں بے روزگاری کی شرح بڑھ گئی تھی

    جنوبی بحرِ اوقیانوس میں ارجنٹائن کے ساحل سے 480 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود جزائر کا مجموعہ فاک لینڈ کے نام سے مشہور ہے۔ اس میں 776 چھوٹے جزائر اور دو بڑے جزیرے مشرقی فاک لینڈ اور مغربی فاک لینڈ کہلاتے ہیں۔ یہ رقبے کے اعتبار سے 12,000 مربع کلومیٹر سے زائد پر محیط ہیں اور یہاں کی‌ آبادی 3 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔

    ان جزائر کا انتظام 1833ء سے برطانیہ نے سنبھال رکھا ہے، لیکن ارجنٹائن بھی ان پر اپنا حقِ ملکیت جتاتا ہے اور اس حوالے سے دونوں ممالک کے مابین تعلقات کشیدہ رہے ہیں۔ برطانیہ اور ارجنٹائن کے درمیان 1982ء میں ان جزائر پر قبضے کے لیے جنگ بھی ہوچکی ہے جس میں ارجنٹائن کو پیچھے ہٹنا پڑا تھا۔

    1982ء میں‌ مارگریٹ تھیچر برطانیہ کی حکم راں تھیں اور جب ان جزائر پر قبضے کے لیے ارجنٹائن کی جانب سے فوجی کارروائی کی گئی تو مارگریٹ تھیچر نے طاقت ہی سے اس کا جواب دینے کا فیصلہ کیا۔

    برطانیہ کی سابق وزیرِ اعظم مارگریٹ تھیچر 2013ء میں‌ آج ہی کے روز انتقال کرگئی تھیں۔ ان کی موت سے صرف ایک ماہ قبل یعنی 10 مارچ 2013ء کو فاک لینڈ میں‌ عوامی ریفرنڈم میں‌ وہاں کے باسیوں‌ نے برطانیہ کی عمل داری قبول کی تھی۔ ارجنٹائن کے حق میں‌ صرف 3 ووٹ آئے تھے۔

    مارگریٹ تھیچر کو برطانیہ میں ‘آئرن لیڈی’ کہا جاتا ہے۔ وہ مضبوط اعصاب کی مالک اور اپنے فیصلے پر ڈٹ جانے والی خاتون تھیں۔ 3 اپریل 1982ء کو ارجنٹائن نے ان جزائر پر قبضہ کرنے کے لیے فوج اتاری تو انھوں نے وزیرِ اعظم کی حیثیت سے جنگ کے لیے ایک سو جنگی بحری جہاز اور 27 ہزار فوجی روانہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اپریل میں شروع ہونے والی فاک لینڈ جنگ 74 دنوں تک جاری رہی اور جون کے مہینے میں‌ ارجنٹائن کی فوج نے ہتھیار ڈال دیے۔

    مارگریٹ تھیچر کے فوجی کارروائی کے فیصلے کی برطانوی عوام نے بھی کھل کر تائید اور حمایت کی تھی اور اسی فیصلے نے انھیں‌ برطانیہ کے اگلے عام انتخابات میں بھی کام یاب کروایا۔

    اگلی بار بھاری کام یابی کے بعد مارگریٹ تھیچر نے اپنے ایک مشکل ترین فیصلے سے خود کو پھر آئرن لیڈی ثابت کیا، ان کے اس دورِ حکومت میں برطانیہ میں نمایاں اقتصادی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں۔

    وہ برطانیہ کی پہلی خاتون وزیرِاعظم تھیں، ان کا پورا نام مارگریٹ ہلڈا تھیچر تھا۔ وہ اپنے ارادوں کی پختگی اور سخت گیر مؤقف کے لیے ہی مشہور نہیں‌ تھیں‌ بلکہ ناقدین انھیں‌ سخت اور مفاہمت نہ کرنے والی خاتون بھی کہتے تھے۔

    مارگریٹ تھیچر نے ثابت کیا کہ ملکی سیاست اور اس عہدے کے لیے ان کا انتخاب غلط نہ تھا۔ اپنے دور میں انھوں‌ نے کئی سیاسی، اقتصادی اور عسکری فیصلے کیے جو نہایت مشکل تھے، لیکن انھوں نے اس پر اپنی سخت مخالفت اور تنقید کی بھی پروا نہ کی۔

    انھیں تین بار اپنے ملک کے اہم ترین منصب کے لیے منتخب کیا گیا۔

    مارگریٹ تھیچر کا سنِ پیدائش 1925ء ہے۔ وہ گرانتھم، لنکاشائر میں پیدا ہوئی تھیں۔
    ان کے والد سبزی فروش تھے۔ وہ ایک جُزوقتی مبلغ اور مقامی کونسلر بھی تھے جن کا ان کی بیٹی کی زندگی پر اثر تھا۔

    وہ کہتی تھیں کہ ’میرے والد نے میری ایسی تربیت کی ہے کہ میں ہر اس چیز پر یقین کروں جس پر مجھے یقین ہو۔‘

    آکسفورڈ میں تعلیم حاصل کرنے والی مارگریٹ تھیچر کیمسٹری کے مضمون میں ڈگری لینے کے بعد 1947ء سے لے کر1951ء تک ایک ادارے میں تحقیق میں مصروف رہیں۔

    1951ء میں شادی کے بعد بھی مارگریٹ تھیچر نے تعلیمی سلسلہ جاری رکھا، مگر اب وکالت ان کا مضمون تھا۔ 1953ء میں امتحان میں کام یابی کے بعد وہ ٹیکس اٹارنی بن گئیں۔ یہاں سے انھیں سیاست کے میدان میں قدم رکھنے کا موقع ملا اور وہ کنزرویٹو پارٹی سے وابستہ ہو گئیں۔

    مارگریٹ تھیچر 1959ء میں اپنی جماعت کے ٹکٹ پر دارالعوام کی رکن منتخب ہوئیں۔ ان کی سیاسی بصیرت اور اہلیت نے انھیں آگے بڑھنے کا موقع دیا اور ایک روز وہ برطانیہ کی وزیراعظم بنیں۔

    مارگریٹ تھیچر کے دور میں برطانیہ میں کئی شعبوں میں اصلاحات کے سبب وہاں عوام کو کئی مشکلات پیش آئیں اور انھیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا، لیکن بعد میں‌ ان اصلاحات اور بطور وزیرِ اعظم مارگریٹ تھیچر کے فیصلوں کے مثبت اثرات ظاہر ہونے لگے۔ ان کی پالیسیوں کے باعث برطانیہ میں بے روز گاری کی شرح بہت بڑھ گئی تھی، تاہم وقت کے ساتھ ساتھ انہی پالیسیوں کی وجہ سے برطانوی معیشت میں دیرپا ترقّی دیکھنے میں آئی۔

    ان کی پالیسیوں کے تحت برطانیہ میں نجکاری کا عمل تیز ہوا۔ انھوں نے اپنے ملک میں ’فری مارکیٹ اکانومی‘ کی ترقّی کے لیے کام کیا۔ ان کے دور میں مزدور یونین تنظیموں کے اثرات کو کم کرنے اور نجکاری کے لیے قوانین متعارف کرانے کے علاوہ کونسل کے گھروں میں رہنے والوں کو وہی گھر خریدنے کی اجازت جیسے اہم فیصلے کیے گئے تھے۔

    برطانیہ اور ارجنٹائن جنگ کے دوران ان کی کام یاب خارجہ پالیسی کو بھی بہت سراہا جاتا ہے۔

    بعض ناقدین کی نظر میں سخت مزاج اور اپنا مؤقف تبدیل نہ کرنے والی مارگریٹ تھیچر کے بارے میں ان کے بعد وزیرِاعظم کا عہدہ سنبھالنے والے سَر جان میجر نے کہا تھا، ’ان کی اقتصادی اور مزدور تنظیموں کے قوانین میں اصلاحات اور فاک لینڈ جزیروں پر برطانوی کنٹرول یقینی بنانے کے اقدامات نے انھیں ایک اعلیٰ پائے کے سیاست دان ثابت کیا۔ یہ ایسی کام یابیاں تھیں جو شاید کوئی اور راہ نما حاصل نہیں کر سکتا تھا۔‘

    مارگریٹ تھیچر بیسویں صدی کی اہم ترین سیاسی شخصیات میں شمار کی جاتی ہیں جنھوں‌ نے 1979ء، 1983ء، اور 1987ء کے عام انتخابات میں کام یابی حاصل کی تھی۔

    برطانیہ کی آئرن لیڈی 1992ء میں پارلیمان کے ایوانِ زیریں ریٹائر ہوئیں۔ ان کی سیاست کا بعد میں بھی آنے والے راہ نماؤں کی پالیسیوں پر گہرا اثر رہا۔