Tag: سیاسی اقتباسات

  • نظام حیدر آباد اور جذباتی قاسم رضوی

    نظام حیدر آباد اور جذباتی قاسم رضوی

    تقسیم کے فوراً بعد جذباتیت کا جیسا مظاہرہ حیدر آباد (دکن) کے سلسلے میں ہوا تھا، ویسا شاید ہی اور کسی مسئلے کے بارے میں ہوا ہو۔ حیدر آباد برصغیر میں سب سے بڑی مسلمان ریاست تھی۔ ذہنی طور پر یہاں لوگ اس کے لیے بالکل تیار نہیں تھے کہ اس ریاست کا الحاق ہندوستان سے ہو جائے۔

    اتفاق سے ان دنوں ہم ایک ہفتہ وار رسالہ کے ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے اور تبادلے میں حیدر آباد کے سارے اردو اخبارات، روزنامے بھی اور ہفت روزے بھی ہمیں موصول ہوتے تھے اور کس انہماک سے ہم یہ ساری خبریں اور تبصرے پڑھتے تھے۔ حیدر آباد میں ایک تنظیم تھی جس کا نام ہمیں اگر غلط یاد نہیں تو وہ تھا ’مجلس اتحاد المسلمین‘، اس کے سربراہ تھے سید قاسم رضوی۔ کیسے شعلہ فشاں خطیب تھے۔ اپنی تقریروں میں اخباری بیانات میں انگارے اُگلتے تھے۔ اعلان کرتے تھے کہ ہم موسیٰ ندی کو جمنا ندی سے ملا دیں گے اور لال قلعے پر ریاستِ عثمانیہ کا پرچم لہرائیں گے۔

    ان تقریروں نے ادھر حیدر آباد میں سخت جذباتی فضا پیدا کر دی تھی۔ ادھر پاکستان میں بھی یار لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ حیدر آباد کے محاذ پر بڑا معرکہ پڑنے والا ہے۔ ساتھ میں ہتھیاروں کے ایک ایجنٹ کا نام خبروں میں بہت آرہا تھا، خبریں یہ تھیں کہ حیدرآباد میں ہتھیار بہت بڑی تعداد میں پہنچ رہے ہیں۔ بس جب معرکہ پڑے گا تو دیکھنا کیا ہوتا ہے۔ نو نیزے پانی چڑھے گا۔

    نظام حیدر آباد ایسی جذباتی مخلوق کے نرغے میں تھے۔ اس کے باوصف درون پردہ افہام و تفہیم کی بہت کوششیں ہو رہی تھیں جس کے نتیجہ میں اسٹینڈ اِسٹل اگریمنٹ) Agreement Still (Stand کے نام سے ایک سمجھوتا ہوا، جس کی رو سے یہ طے ہوا کہ اگلے پانچ سال تک ریاست حیدر آباد جوں کی توں رہے گی۔ پانچ سال کے بعد ٹھنڈے دل سے ریاست کے مسئلے پر سوچ بچار کیا جائے گا۔

    سنا گیا کہ اس سمجھوتے کے کرانے میں ہندوستان کے بعض مسلمان زعما نے یعنی نیشنلسٹ مسلمان زعما نے بہت کردار ادا کیا تھا۔ خاص طور پر دو نام لیے جا رہے تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد اور سر مرزا اسماعیل۔ بس ادھر پاکستان میں شور مچ گیا کہ نظام نے حیدر آباد کو بیچ ڈالا…!

    ادھر حیدر آباد میں سید قاسم رضوی کی تنظیم نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ وہ مجاہد اعظم، موسیٰ ندی کو جمنا ندی سے ملانے کے لیے پَر تول رہا تھا۔ حیدر آباد سے لے کر پاکستان تک ’نظام‘ پر تُھو تُھو ہونے لگی اور اب اس تنظیم کا احوال سن لیجیے۔ ہم نے ’بی بی سی‘ کے ایک نمایندے کی ایک رپورٹ ایک کتاب میں پڑھی تھی۔ اس نے اس تنظیم کے ہیڈ کوارٹر کا دورہ کیا اور سید قاسم رضوی سے ملاقات کی۔ اس کا بیان ہے کہ یہ سب رضا کار مرنے مارنے کے لیے تیار تھے، مگر تیاری ان کی یہ تھی کہ ان کے پاس ہتھیار کے نام بلم تھے۔ رائفل اس گروہ کے پاس صرف ایک تھی۔ تو جو ہونا تھا وہی ہوا۔ یعنی ؎

    بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
    جو چیرا تو اک قطرہ خوں نہ نکلا

    جب ہندوستان کی طرف سے فوجی کارروائی ہوئی، جسے ’پولیس ایکشن‘ کا نام دیا گیا تھا، تو چند جوشیلے رضا کار ٹینکوں کی زد میں آکر کچلے گئے کارروائی چند گھنٹوں میں مکمل ہو گئی۔

    ہندی مسلمانوں کی سیاست ہمیشہ اس طرح رنگ لائی کہ سیاسی سوجھ بوجھ کم‘ جذبات کی ندی چڑھی ہوئی، جیسے دشمنوں کو بہا کر لے جائے گی، مگر آخر میں ٹائیں ٹائیں فش۔ جذباتیت کے ہاتھوں تحریک کا انجام ہوتا ہے۔ مگر الزام دیا جاتا ہے اِکا دُکا ان افراد کو جو جذبات سے ہٹ کر زمینی حقائق کو جانچتے پرکھتے ہیں اور مفاہمت کی راہ نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ جذباتی مخلوق یہ سو لگائے بیٹھی تھی کہ حیدر آباد پاکستان سے الحاق کا یا آزاد ریاست ہونے کا اعلان کرے گا۔ ادھر اور ہی گُل کھلا۔ ہندوستان سے مفاہمت اور مولانا ابوالکلام آزاد کے واسطے سے۔ بھلا یہ واقعہ کیسے ہضم ہو جاتا۔ یاروں کو اس واقعے سے سازش کی بو آنے لگی۔ حیدرآباد کے لوگوں کو جو پانچ سال کی مہلت ملی تھی وہ ہم میں سے کسی کو گوارا نہ ہوئی۔ جو شور پڑا اس میں سید قاسم رضوی خوب چمکے دمکے۔ نظام حیدر آباد سمجھوتا کر کے چور بن گئے۔ اس کے بعد وہی ہوا کہ کتنی خلقت حیدر آباد سے اُکھڑ کر پاکستان کے لیے نکل کھڑی ہوئی اور کراچی کی مہاجر کالونیوں میں ایک کالونی کا اور اضافہ ہو گیا…. حیدر آباد کالونی۔

    (ممتاز فکشن نگار اور ادیب انتظار حسین کے کالم ’زوالِ حیدرآباد کی کہانی‘ سے لیا گیا)

  • جب دکن کے ’نظام‘ کو ’غدار‘ کہا گیا!

    جب دکن کے ’نظام‘ کو ’غدار‘ کہا گیا!

    ایک انتہائی پریشان کن ملاقات کے چند روز بعد قصرِ گورنر جنرل سے پھر میری طلبی ہوئی۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی غلام محمد صاحب نے کہا، ”میں نے تمھارے لیے ملازمت کا بندوبست کر دیا ہے۔ تم لاہور چلے جاؤ۔“

    حیدر آباد میں، میں نے ”شہر بدر“ کی اصطلاح سن رکھی تھی۔ میرے مقدر میں کراچی بدر ہونا تھا۔ ان کے چہرے پر درشتی کے آثار دیکھ کر میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا، ”کیا حکومتِ پاکستان نے ’حیدر آباد ایجنسی‘ کو بند کرنے کا قطعی فیصلہ کر لیا ہے اور کیا پاکستان نے حیدرآباد (دکن) پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کو تسلیم کر لیا ہے؟“ اس کا جواب بڑے تیز لہجے میں یہ تھا، ”تم سے میں نے ایک بار کہہ دیا کہ یہ میرا فیصلہ ہے۔“ اب میں کیا کہتا کہ ایک جمہوری نظام میں صدر مملکت کو یہ اختیار کیسے حاصل ہو گیا۔ اور ایک زیرِ نزاع بین الاقوامی مسئلہ میں یہ اقدام کیسے ممکن ہے، جب متعلقہ وزارت کو اس کا سرے سے علم ہی نہیں۔

    حضور نظام نے چند خطوط جو مجھے 1952ء اور 1953 میں لکھے تھے وہ اپنے ساتھ لے گیا تھا۔ دھونس اور ناجائز دباؤ کی اس کیفیت کو دیکھ کر میں نے وہ خطوط پیش کیے۔ ان خطوط میں مجھے واضح طور پر ہدایت تھی کہ میں حیدر آباد کے موقف پر قائم رہوں اور جو کام کرتا رہوں اسے برابر کرتا رہوں۔ ان میں ایجنسی کے بند ہونے کی افواہوں پر تشویش کا اظہار بھی تھا۔ ان خطوط کو پڑھ کر وہ زیادہ بگڑے اور ان کے اصلی ہونے پر اپنے شبے کا اظہار کیا اور مجھ سے دریافت کیا کہ وہ مجھے کیسے اور کس طرح وصول ہوئے۔ میں نے عرض کیا کہ جہاں تک ان کے اصلی ہونے کا تعلق ہے، ان پر شبہ کرنا ایک طرح سے میری دیانت اور ایمان داری پر الزام دھرنے کے مترادف ہے۔ وہ خود حیدر آباد (دکن) کے وزیر مالیات کے عہدہ پر فائز رہ چکے ہیں۔ ان سے بہتر حضور نظام کی ذاتی پرائیویٹ مہر سے کون واقف ہوگا۔ اس پر وہ منہ ہی منہ میں کچھ کہتے ہوئے اور غصے میں کانپتے ہوئے اپنے کمرے سے باہر برآمدے میں چلے گئے۔ رہ رہ کر مجھے خیال آتا تھا کہ اگر ہمارے مابین گفتگو کے ردعمل سے اس نحیف اور بیمار آدمی کی صحت پر کوئی مضر اثر پڑ جائے، تو میرا کیا حشر ہوگا۔ مروجہ سفارتی آداب میں بھی تو ان حالات میں کوئی رہبری نہیں ملتی! چند لمحات کے بعد جب وہ دوبارہ کمرے میں آئے تو کہا ”اگر بالفرض یہ نظام ہی کے خطوط ہیں، تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ تمھارے نظام کی حیثیت ہی کیا ہے۔ ہم اسے تسلیم نہیں کرتے۔“

    ان کے غصے سے تمتماتے چہرہ کو دیکھ کر پہلے تو میں چند لمحات خاموش رہا، مگر پھر اس خیال سے کہ اگر یہ بات میں نے اس وقت نہ کہی، تو پھر اسے کہنے کا مجھے کبھی موقع نہیں ملے گا۔ میں نے عرض کیا ”جناب یہی وہ نظام ہیں، جنھوں نے پاکستان کے آڑے وقت پر آپ کی درخواست پر فراخ دلی سے مالی مدد کی تھی اور جن کے دیے ہوئے خریط کو حیدرآباد کے المیے کے چار پانچ برس بعد ہی آپ تسلیم کرتے ہیں۔“ انھوں نے جواب دیا ”وہ غدار ہے…!“ یہ کہہ کر نامعلوم، انھوں نے منہ ہی منہ میں کیا کہا۔ چند لمحات کے بعد اپنے غصے پر ذرا قابو پایا تو فرمایا۔ ”میں بہرحال حیدر آباد ایجنسی کو بند کر رہا ہوں۔ تمھارے لیے ریلوے میں ایک ملازمت کا انتظام ہو گیا ہے۔ تم لاہور چلے جاؤ۔“

    زبردستی ملازمت اختیار کرنے اور کراچی میری رخصتی پر اصرار میرے لیے ناقابل فہم تھا۔ میں ایک مخمصے میں پڑ گیا، مگر اپنے جذبات اور ردعمل کو نظرانداز کر کے میں نے اپنی بات کی طرف رجوع کر کے عرض کیا ”مگر جناب جب تک حیدر آباد کا مقدمہ اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر ہے اور زیر تصفیہ ہے، ایجنسی بند کیسے ہو سکتی ہے؟ نواب زادہ لیاقت علی خاں نے مجھے اس بارے میں آپ کی موجودگی میں یقین دہانی کرائی تھی۔“ یہ سن کر وہ طیش میں آگئے…. ”میں نہیں جانتا لیاقت علی خاں نے تمھیں کیا یاد دہانی کرائی تھی۔ بہرحال حالات بدل گئے ہیں۔ ہم لیاقت علی خاں کی یقین دہانیوں کے پابند نہیں ہیں۔ بہتر ہے کہ تم لاہور چلے جاؤ۔“

    حالات ہی نہیں بدلے تھے، اقدار بدل گئی تھیں۔ نظریں بدل گئی تھیں۔ میں نے اس موضوع پر مزید گفتگو کرنے کی کوشش کی اور جس میٹنگ میں مجھے یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی اس کی مصدقہ روداد کا ذکر کیا تو ان کا پارہ اور چڑھ گیا اور انھوں نے انتہائی غصے کے عالم میں کہا، ”اگر تم میرے کہنے پر عمل نہیں کرو گے، تو میں ایجنسی کے اخراجات کی ادائیگی کی ممانعت کر دوں گا۔“ یہ دھمکی سن کر مجھ پر سکتے کا عالم طاری ہو گیا اور سوچنے لگا کہ اگر روپے پیسے کے معاملے میں یوں بندش ہوگی تو میں اسٹاف کی تنخواہیں کہاں سے دوں گا اور ایجنسی کیسے چل سکے گی۔ اگر میں تنِ تنہا ڈٹے رہنے کا قصد بھی کر لوں، تو پھر کیا کروں گا اگر حکومتِ پاکستان میرا خریطہ واپس لے لے۔

    میری خاموشی پر انھوں نے کہا۔ ”اس لیے بہتر ہے کہ تم لاہور چلے جاؤ۔ مجھے معلوم ہے کہ ریلوے کے جس عہدے پر تمھارے تقرر کی تجویز زیر غور ہے، تم اس سے بہت سینئر عہدے پر تھے۔“ پھر بڑی شانِ بے اعتنائی سے فرمایا۔ ”مگر اس سے زیادہ ہم تمھارے لیے کچھ نہیں کر سکتے۔“ میں نے بھرے دل سے جواب دیا۔ ”میں نے نہ تو کسی ملازمت کی آپ سے درخواست کی ہے اور نہ ہی میں نے براہ راست یا بالواسطہ آپ سے اس قسم کی کسی خواہش کا اظہار کیا ہے۔“ اس پر انھوں نے سوال کیا ”پھر آخر تم کیا کرو گے؟“

    میں نے جواب دیا۔ ”اللہ رزاق بھی ہے اور مسبب الاسباب بھی۔ وہ انشا اللہ رزق بھی دے گا اور اس کا سبب بھی بنا دے گا۔“ میرا یہ جواب سن کر انھوں نے ایک ایسی بات کہی جسے سن کر میں ششدر رہ گیا۔ ”تم بات بات میں اللہ کو کیوں بیچ میں لاتے ہو۔“

    اسی سکتے کے عالم میں میرے منہ سے یہ بات نکل گئی۔ ”اگر مملکتِ اسلامیہ پاکستان میں اللہ کا نام نہ لیا جائے، تو پھر آخر کہاں لیا جائے۔“

    اس پر انھوں نے غصے میں فرمایا۔ اچھا میں بحث نہیں کرتا۔ تم میں کج بحثی کی بہت عادت ہے۔ تم جا سکتے ہو۔“

    (مشتاق احمد خان کی خود نوَشت ”کاروانِ حیات“ سے منتخب پارہ)

  • ’آپ اپنے دین کے لیے نذرانہ پیش نہ کرسکے!‘

    ’آپ اپنے دین کے لیے نذرانہ پیش نہ کرسکے!‘

    ہندوستان کی جنگِ آزادی میں مدارس کے بوریا نشینوں اور معمر باریش غازیوں نے موت سے بے نیاز ہو کر میرِ کارواں کا کردار ادا کیا۔ مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانوی بھی انہی میں سے ایک تھے۔ وہ ہندو مسلم اتحاد کے بڑے داعی اور تقسیمِ ہند کے مخالف تھے۔

    ان کی گاندھی سے ایک ملاقات اور اس دوران ہونے والی گفتگو قارئین کی دل چسپی کے لیے پیش ہے، جس کے راوی سید محمد اسلم ہیں جو اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: میں نے ظہر کی نماز جامع مسجد میں ادا کی۔ مسجد کے شمالی دروازے کے باہر ایک چھوٹا سا قبرستان ہے، جو امام صاحب کا قبرستان کہلاتا ہے۔ اسی قبرستان میں مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانوی (م 1956ء) اور مولوی سمیع اللہ (م 1969ء) محو خوابِ ابدی ہیں۔

    مولانا لدھیانوی ایک زمانے میں مجلسِ احرار کے صدر تھے اور پاکستان کی مخالفت میں پیش پیش تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد موصوف مہاجروں کے قافلے کے ساتھ پاکستان پہنچے، لیکن یہاں ان کا جی نہ لگا اور موصوف دسمبر 1947ء کے اواخر میں دوبارہ بھارت چلے گئے۔ 3 جنوری 1948ء کو وہ ’گاندھی جی‘ سے ملے۔ گاندھی جی نے ان سے کہا۔ مولانا کیا آپ بھی پاکستان چلے گئے تھے؟ کیا آپ نے لدھیانہ کی سکونت اس بنا پر ترک کی کہ وہاں کے ہندو اور سکھ آپ کو قتل کرنا چاہتے تھے، اگر آپ کا یہی جرم تھا تو آپ اپنے دین کے لیے جان کا نذرانہ پیش نہ کر سکے۔ یہ بات خود مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانوی نے راقم الحروف کو سنائی تھی۔

    ان کا یہ کہنا تھا کہ وہ گاندھی جی کی باتیں سن کر اس قدر شرمندہ ہوئے کہ انہیں کوئی جواب نہ دے سکے۔ یہ گاندھی کے ساتھ ان کی آخری ملاقات تھی۔ 30 جنوری 1948ء کو نتھو رام گوڈسے نے انہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

    (کتاب ’سفرنامۂ ہند‘، از قلم سید محمد اسلم)

  • کشمیر اور برٹرینڈ رسل کا احساسِ نامرادی

    کشمیر اور برٹرینڈ رسل کا احساسِ نامرادی

    نوبیل انعام یافتہ فلسفی برٹرینڈ رسل نے دنیا کو تدبّر اور فہم و فراست کا درس دیتے ہوئے کئی خرد افروز مضامین یادگار چھوڑے ہیں جنھیں بہت سراہا گیا۔

    برٹرینڈ رسل کشمیری عوام کے حقِ خود ارادیت کا بھی زبردست حامی تھا۔ اس نے پنڈت نہرو کے کشمیر کے مسئلے پر دھاندلی کے مؤقف کی مذمت کی اور وہ بارہا بھارت کے سامراجی عزائم کے خلاف بولا۔

    اس نے کہا، ’’بھارتی حکومت بین الاقوامی معاملات میں بلند نظری کی پرچارک ہے لیکن جب میں دیکھتا ہوں کہ اپنی اس بلند نظری کو بھارت نے کشمیر کے معاملے میں خاک میں ملا دیا ہے تو دل پر ایک احساس نامرادی چھا جاتا ہے۔‘‘ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں اس نے بھارتی حملے کو ’’ننگی جارحیت‘‘ قرار دیا۔ رسل کو پاکستان اور اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹوسے بھی محبت تھی۔ اس نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو سراہتے ہوئے کہا:’’میں عرصے سے حکومتِ پاکستان کی پالیسی کو قدر کی نگاہ سے دیکھ رہا ہوں، کیونکہ یہ ایک آزاد پالیسی ہے۔‘‘

    1965ء کے بعد ویت نام کا مسئلہ رسل کی توجہ کا مرکز بنا۔ یہ معاملہ سیاہ رخ امریکہ کی درندگی اور بربریت کی شرمناک مثال ہے۔ چورانوے سالہ زرد رو بوڑھا فلسفی اپنے وطن سے ہزاروں میل دور اس ظلم و تشدد کے خلاف آہنی دیوار بن کر ڈٹ گیا۔ اس نے ویت نام کے قومی محاذ آزادی کے ریڈیو سے ویت نام میں لڑنے والے امریکی فوجیوں سے مخاطب ہو کر کہا: ’’اگر یہ سب کچھ امریکہ میں آپ کے والدین، بیویوں اور بچوں کے ساتھ ہوتا، تو آپ کیا محسوس کرتے؟ میں یہ سوال اس لیے پوچھتا ہوں کیونکہ اس کی ذمہ داری آپ پر ہے، اس بات کا فیصلہ بھی آپ نے کرنا ہے کہ یہ مجرمانہ جنگ جاری رہے گی یا نہیں۔‘‘

    ویت نام کی جنگ میں ’’مہذب‘‘ برطانیہ، امریکہ کا حواری رہا تھا۔ اس صورتِ حال میں رسل جو لیبر پارٹی کا ممتاز رکن تھا، یہ کہنے پر مجبور ہو گیا: ’’میں خود کو عہدِ حاضر کی سب سے زیادہ شرم ناک غداری کا مرتکب پاتا ہوں۔ ہٹلر کم از کم انسانیت کا دعویٰ تو نہیں کرتا تھا، لیکن یہ لوگ جو حکومت کی کرسیوں کو ناپاک کر رہے ہیں، انتخابات سے پہلے انسانیت کے اعلیٰ ترین نظریات کا پرچار کرتے تھے۔‘‘

    اس تقریر کے فوراً بعد اس نے لیبر پارٹی کی رکنیت کا کارڈ پھاڑ دیا۔ بعد ازاں اس نے ویت نام میں جنگی جرائم کی تفتیش اور جنگی مجرموں کو انسانی ضمیر کے روبرو پیش کرنے کی خاطر دنیا بھر کے ممتاز دانشوروں اور قانون دانوں پر مشتمل ایک ٹریبونل قائم کیا۔ جس میں پاکستان کے قانون دان محمود علی قصوری، فرانسیسی فلسفی سارتر، فرانسیسی دانشور سمون دی بوار کے علاوہ امریکہ، جاپان اور فرانس کے جنگ دشمن تحریک کے علم بردار شامل تھے۔ ٹریبونل کی باقاعدہ کارروائی کا آغاز2 مئی 1967ء کو اسٹاک ہوم میں ہوا۔ رسل خرابی صحت کی وجہ سے شرکت نہ کر سکا اور سارتر نے اس اجلاس کی صدارت کی۔ ٹریبونل نے حاصل شدہ شہادتوں کی بنا پر 10 مئی 1967ء کو امریکہ اور اس کے اتحادی آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی کوریا کو مجرم قرار دیا اور اس وقت کے امریکی صدر جانسن اور جنرل مورلینڈ کو ’’سزائے موت‘‘ کا حکم سنایا۔ بلاشبہ ان قومی مجرموں کو جسمانی طور پر سزا دینا ممکن نہ تھا۔ تاہم ایسی گہری ملامت انصاف پسند عالمی ضمیر کی آوازیں بن کر ضرور گونجیں۔ آخری ایام میں وہ اسرائیل کے خلاف بھی ایسی ہی کارروائی کا ارادہ رکھتا تھا۔

    رسل کی زندگی جنگ، ظلم ، ناانصافی اور ایٹمی ہتھیاروں کیخلاف جدوجہد میں بسر ہوئی۔اسے جولائی 1955ء میں تخفیفِ اسلحہ کے مسئلہ پر جنیوا سربراہ کانفرنس سے پر امن مستقبل کی کرن نظر آنے لگی تھی، لیکن جب روس نے ایٹمی ہتھیاروں پر بین الاقوامی کنٹرول کے بارے میں امریکی تجاویز مسترد کردیں تو بوڑھا امن پسند فلسفی مایوس ہوا۔

    رسل جب تک زندہ رہا، ظلم کے خلاف سینہ سپر رہا۔ اٹھانوے برس کی عمر میں موت نے اس جری سپاہی کی تلوار اس سے چھین لی۔ 2 فروری 1970ء کو وہ انتقال کر گیا۔ 5 فروری کو اس کی وصیت کے مطابق اس کی نعش کو نذرِ آتش کیا گیا۔ اس موقع پر کوئی مذہبی تقریب نہیں ہوئی۔ کسی شخص نے کوئی لفظ نہیں کہا اور نہ ہی موسیقی کی دھنیں بجائی گئیں۔ آخری رسوم کی ادائیگی کے وقت اس کی بیوی اور ایک بیٹے کے علاوہ کوئی درجن بھر سوگوار موجود تھے۔

    (ظفر سپل فلسفی، ادیب اور متعدد کتب کے مصنف ہیں، یہ اقتباس ان کی کتاب ’’فلسفۂ مغرب‘‘ سے لیا گیا ہے)