Tag: سیاسی تاریخ

  • سیاسی تاریخ کو بامعنی بنانا ناممکن نہیں!

    سیاسی تاریخ کو بامعنی بنانا ناممکن نہیں!

    یہ روبس پیئر کا دورِ دہشت تھا جس نے کانٹ کو، جس نے انقلاب فرانس کا خیر مقدم کیا تھا، یہ سبق سکھایا تھا کہ حریت، مساوات اور اخوت کے نام پر کتنے گھناﺅنے جرائم کا ارتکاب کیا جا سکتا ہے۔

    یہ بہت قبیح جرائم ہیں جو صلیبی جنگوں کے زمانے میں مسیحیت کے نام پر، وچ ہنٹنگ کے مختلف ادوار میں اور تیس سالہ جنگ کے دوران میں روا رکھے گئے۔ کانٹ کی مانند ہم بھی انقلابِ فرانس کی دہشت ناکی سے یہ سبق سیکھ سکتے ہیں کہ جنونیت دائمی برائی ہے اور کثرتی معاشرے کے مقاصد کے ساتھ ہم آہنگ نہیں اور ہمارے اوپر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ جنونیت کی ہر صورت کی مخالف کریں۔ اس وقت بھی جب اس کے مقاصد اخلاقی اعتبار سے قابلِ اعتراض نہ ہوں اور بالخصوص اس وقت بھی جب اس کے مقاصد ہمارے ذاتی مقاصد سے ہم آہنگ ہوں۔ جنونیت کے خطرات سے آگاہی اور ہر حال میں ان کی مخالفت کا فرض وہ دو اہم ترین سبق ہیں جو ہم تاریخ سے سیکھ سکتے ہیں۔

    دورِ جدید کے عظیم انقلابات میں سب سے پہلے وقوع پذیر ہونے والے برطانوی انقلاب کا نتیجہ آسمانی بادشاہت کے قیام کی بجائے چارلس اوّل کے قتل اور کرامویل کی آمریت کی صورت میں برآمد ہوا تھا۔ اس انقلاب کے نتائج سے مکمل مایوسی نے انگلینڈ کو یہ سبق دیا کہ وہ قانون کی حکمرانی کی ضرورت کا قائل ہوگیا۔ جیمز دوم کی رومن کیتھولک مذہب کو طاقت کے ذریعے دوبارہ رائج کرنے کی کوشش اسی رویے کی وجہ سے ناکام ہو گئی تھی۔ مذہبی اور سول تنازع سے تنگ آیا ہوا انگلستان نہ صرف جان لاک اور روشن خیالی کے دوسرے پیش روﺅں کے مذہبی رواداری سے متعلق دلائل سننے پر آمادہ تھا بلکہ اس نے یہ اصول بھی تسلیم کرلیا کہ بالجبر مسلط کردہ مذہب کی کوئی وقعت نہیں۔ لوگوں کو چرچ کا راستہ دکھایا تو جا سکتا ہے مگر ان کے عقائد کے برعکس انہیں کسی چرچ میں جانے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا (جیساکہ پوپ انوسنٹ یازدہم نے بیان کیا تھا) امریکی انقلاب جنونیت اور عدم رواداری کے پھندے میں گرفتار ہونے سے محفوظ رہا۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ سوئٹزرلینڈ‘ انگلستان اور امریکہ کو اگرچہ سیاسی تجربات میں مایوسیوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن یہ ممالک جمہوری اصلاحات کے ذریعے ان سیاسی اور اخلاقی مقاصد کے حصول میں کامیاب رہے ہیں جن کا حصول انقلاب، جنونیت، آمریت اور طاقت کے استعمال کے ذریعے مکن نہ تھا۔

    ہم نہ صرف انگریزی زبان بولنے والی جمہوریتوں سے بلکہ سوئٹزر لینڈ اور سیکنڈے نیویا کی تاریخ سے بھی یہ سبق سیکھ سکتے ہیں کہ ہم نہ صرف اپنے لیے مقاصد کا تعین کرسکتے ہیں بلکہ بعض اوقات انہیں حاصل بھی کرسکتے ہیں۔ بشرطیکہ وہ مقاصد نہ بہت زیادہ جامع ہوں نہ بہت زیادہ مانع بلکہ انہیں طے کرتے وقت کثرتی روح کو پیش نظر رکھا گیا ہو۔ یعنی وہ آزادی اور مختلف النوع انسانوں کے حد درجہ متنوع عقائد و افکار کے احترام پر مشتمل ہوں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارا سیاسی تاریخ کو بامعنی بنانا ناممکن نہیں۔

    (مشہور فلسفی، سماجی مبصّر کارل پوپر کی تحریر سے اقتباسات، مترجم ڈاکٹر ساجد علی)

  • کیا ایم کیوایم 24 سال بعد اپنی سیاسی تاریخ دہرارہی ہے؟

    کیا ایم کیوایم 24 سال بعد اپنی سیاسی تاریخ دہرارہی ہے؟

    کراچی : آج سے چوبیس سال پہلے انیس سو بانوے میں اخبارات میں چھپنے والی سرخیاں آج پھر الیکٹرانک میڈیا میں نمایاں ہیں۔ متحدہ قومی مووومنٹ کے قائد نے پارٹی سے علیحدگی اورسیاست سے دستبرداری کا جتنی مرتبہ اعلان کیا شاید ہی دنیا میں کسی اور سیاسی رہنما نے ایسا کیا ہو۔

    MQM POST 4

    کیا متحدہ قومی موومنٹ ایک بار پھر اپنی سیاسی تاریخ دہرارہی ہے۔ جون بانوے میں جب آفاق احمدکی ایم کیو ایم حقیقی منظر عام پر آئی تو شہر قائد کی دیواریں ” جو قائد کا غدار ہے وہ مو ت کا حق دار ہے”جیسے نعروں سے رنگین ہوگئیں ۔

    MQM POST 2

    بعد ازاں متحدہ کے قائد الطاف حسین نے قیادت چھو ڑنے کااعلان کردیا، جس کے بعد عظیم احمد طارق ایم کیو ایم کے نئے سربراہ کے طور پر سامنے آئے، انہوں نے بھی کم وبیش وہی الفاظ کہے جو آج ڈاکٹر فاروق ستار دہرا رہے ہیں۔

    عظیم احمد طارق نے کہا تھا کہ ایم کیوایم الطاف حسین کی ذات نہیں۔ انیس سو بانوے میں ہی حقیقی اورعظیم طارق گروپ کے اتحاد کی خبروں کی بازگشت نے زور پکڑا تو یکم مئی انیس سو ترانوے کو عظیم احمد طارق کا قتل ہوگیا۔

    MQM POST 3

    ابھی عظیم احمد طارق کے خون کی سرخی کم بھی نہ ہو ئی تھی کہ ایم کیوایم کا مرکز نائن زیرو فعال اورقیادت دوبارہ الطاف حسین نے سنبھال لی، آج پھر کم وبیش ویسے ہی حالات ہیں۔

    ایم کیو ایم سے منحرف ہونے والے سابق سٹی ناظم اور سابق سینیٹر مصطفیٰ کمال نے پی ایس پی کی صورت میں سیاست میں چند ما ہ پہلے ہی انٹری دی ہے۔

    MQM POST 5

    ایم کیوایم لندن اور پاکستان میں تقسیم ہوگئی ہے، ایم کیو ایم پاکستان کی کمان ڈاکٹر فاروق ستار کے پاس ہے، جبکہ الطاف حسین کی دماغی حالت پر شکوک کا اظہار کرتے ہوئے ماضی کی طرح قائد تحریک کو ایک بار پھر پارٹی سے الگ کرنے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔

    MQM POST 1

    انیس سو بانوے کی طرح آج بھی ایم کیوایم لندن کی جانب سے مکمل خاموشی اختیار کی گئی ہے، لیکن شہر میں بدلہ گروپ کے نام سے وال چاکنگ نے ڈاکٹر فاروق ستار سے متعلق خدشات بڑھا دیئے ہیں۔

    اب کی بار واضح فرق یہ ہے کہ پاکستان مخالف نعرے لگانے پر حکومت متحدہ قائد کے خلاف کارروائی کیلئے برطانوی حکام کو خط لکھ چکی ہے۔