Tag: سیاسی جماعتوں

  • الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کی تازہ ترین فہرست جاری کر دی

    الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کی تازہ ترین فہرست جاری کر دی

    اسلام آباد : پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی تازہ ترین فہرست سامنے آگئی ، جس میں چار سیاسی جماعتیں بغیر سربراہ کے رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں میں شامل ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ملک کی سیاسی جماعتوں کی تازہ ترین فہرست جاری کر دی ہے، جس میں الیکشن کمیشن میں درج سیاسی جماعتوں کی تعداد 167 ہوگئی ہے۔

    فہرست ک میں بتایا گیا کہ چار سیاسی جماعتیں اس وقت بغیر سربراہ کے رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں میں شامل ہیں۔ ان میں پاکستان تحریک انصاف، عوامی ورکرز پارٹی، پاک سرزمین پارٹی اور پاکستان عوامی راج پارٹی شامل ہیں۔

    الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ سنی اتحاد کونسل کے قائم مقام چیئرمین صاحبزادہ حسن رضا مقرر کیے گئے ہیں جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ خالد مگسی ہیں۔ اسی طرح نعیم حسین چٹھہ پاکستان مسلم لیگ کونسل کے صدر ہیں۔

    دوسری جانب زرتاج گل کی نااہلی کے باعث خالی ہونے والی قومی اسمبلی کی نشست پر ہونے والا ضمنی انتخاب بھی مؤخر کردیا گیا ہے۔

    الیکشن کمیشن نے ضمنی انتخاب کا شیڈول پشاور ہائی کورٹ کے حکم پر معطل کیا ہے، زرتاج گل این اے 185 ڈی جی خان سے منتخب ہوئی تھی۔

  • سیاسی جماعتوں میں مذاکرات ہونا خوش آئند ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر

    سیاسی جماعتوں میں مذاکرات ہونا خوش آئند ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر

    ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ پاک فوج کسی سیاسی جماعت اور سیاسی نظریے کے خلاف نہیں ہے۔

    ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ کہا ہے کہ پاک فوج کسی سیاسی جماعت اور سیاسی نظریے کے خلاف نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں میں مذاکرات اور اس پر جواب دینا انہی کا استحقاق ہے اور سیاسی جماعتوں میں مذاکرات ہونا خوش آئند ہے۔

    لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ کچھ لوگ سیاست کیلیے زہریلے پروپیگنڈے سے گمراہ کرتے ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ سیاستدان مل بیٹھ کر بات چیت کے ذریعے اختلافات اور مسائل حل کریں اور متحد ہو کر کہیں کہ دہشتگردی پر مزید سیاست نہیں ہوگی۔

    https://urdu.arynews.tv/dg-ispr-press-conference-9-may/

  • سیاسی جماعتوں میں اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے دہشتگردی میں اضافہ ہورہا ہے: یوسف رضا گیلانی

    سیاسی جماعتوں میں اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے دہشتگردی میں اضافہ ہورہا ہے: یوسف رضا گیلانی

    پیپلز پارٹی کے رہنما و سینیٹر یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ سیاسی جماعتوں میں اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے دہشتگردی میں اضافہ ہورہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ سیاسی جماعتوں میں اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے دہشت گردی میں اضافہ ہورہا ہے، مذاکرات اگر ہورہے ہیں تو اچھی بات ہے۔

    یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھا کہ اختلافات بھلا کر متحد ہونے کی صورت ہے، قومی معاملات پر سیاسی جماعتوں کو مذاکرات کرنے چاہیے، تحریک انصاف کو بھی آگے بڑھ کر مذاکرات کرنے چاہیے۔

     یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کو اس وقت مذاکرات کو لیڈ کرنا چاہیے، پی پی نے ہمیشہ مذاکرات کیے ہیں، چاہے وہ اپوزیشن میں ہو یا حکومت میں، جب ہم اپوزیشن میں تھے، ملک بدر تھے، ہم نے میاں نواز شریف سے بات چیت کی تھی۔

    چیئرمین سینیٹ کا کہنا تھا کہ اس وقت ٹیم کے کپتان شہباز شریف ہیں، انہیں فیصلے کرنے چاہیے اور آگے بڑھنا چاہیے، میں اس وقت ملک اور اتحاد کی بات کررہا ہوں۔

    ان کا کہنا تھا کہ پی پی تقسیم کی سیاست نہیں کرتی ہے، مشکلات میں سب سیاسی جماعتوں کو اکٹھا ہو جانا چاہیے، وزیراعظم  کوئی فیصلہ اور بات کریں گے تو ان کا ساتھ دیں گے۔

  • ’بانی پی ٹی آئی اور تحریک انصاف حقیقت، نواز شریف گرینڈ ڈائیلاگ کیلیے تیار ہیں‘

    ’بانی پی ٹی آئی اور تحریک انصاف حقیقت، نواز شریف گرینڈ ڈائیلاگ کیلیے تیار ہیں‘

    مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی اور تحریکِ انصاف ایک حقیقت ہیں، ان کے ساتھ گرینڈ ڈائیلاگ کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے۔

    نجی ٹی وی چینل پر گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثنااللہ نے کہا کہ ماحول کو سازگار بنانے کے لیے گرینڈ ڈائیلاگ کے سوا کوئی آپشن نہیں اور مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف گرینڈ ڈائیلاگ کیلئے تیار ہیں۔

    رانا ثنااللہ نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی پربھی اتفاق ہوسکتا ہے، ڈائیلاگ غیر مشروط ہوں گے، بانی پی ٹی آئی کو ماننا ہوگا کہ جس طرح وہ ایک حقیقت ہیں اسی طرح نوز شریف اور آصف زرداری بھی ایک حقیقت ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ اگر ڈائیلاتگ پولیٹیکل ہے تو اس میں سیاسی جماعتوں کو ہی شامل ہونا چاہیے، دوسرے اسٹیج پر گرینڈ ڈائیلاگ میں ادارے شامل ہوسکتے ہیں، گرینڈ ڈائیلاگ میں ادارے شامل ہوں گے تو ہی بات بنے گی۔

  • الیکشن 2024 پاکستان : سیاسی جماعتوں سے انتخابی نشان واپس لینے کا قانون چیلنج

    الیکشن 2024 پاکستان : سیاسی جماعتوں سے انتخابی نشان واپس لینے کا قانون چیلنج

    لاہور : سیاسی جماعتوں سے انتخابی نشان واپس لینے کا قانون چیلنج کردیا گیا ، جس میں استدعا کی گئی کہ پی ٹی آئی کا انتخابی نشان واپس لینے کوغیر قانونی قراردے۔

    تفصیلات کے مطابق سیاسی جماعتوں سے انتخابی نشان واپس لینے کے قانون کیخلاف درخواست دائر کردی گئی۔

    لاہورہائیکورٹ میں درخواست اظہر صدیق ایڈووکیٹ کی جانب سے دائرکی گئی ، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ الیکشن ایکٹ کی شق 215 آئین اور بنیادی حقوق کےخلاف ہے ، الیکشن کمیشن کے کسی جماعت سےانتخابی نشان واپس لینےکااختیار آئین کےمنافی ہے۔

    درخواست میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ قرار دے چکی پارٹی الیکشن کاعام انتخابات پر کوئی اثر نہیں ہو سکتا۔

    درخواست میں استدعا کی گئی کہ عدالت الیکشن ایکٹ کی شق 215 کو کالعدم قرار دےاور پی ٹی آئی کا انتخابی نشان واپس لینے کوغیر قانونی قراردے۔

  • آئی ایم ایف مشن کی پاکستان میں سیاسی جماعتوں سے ملاقات کا امکان نہیں

    آئی ایم ایف مشن کی پاکستان میں سیاسی جماعتوں سے ملاقات کا امکان نہیں

    اسلام آباد : پاکستان آنے والے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) مشن کی سیاسی جماعتوں سے ملاقات کا کوئی امکان نہیں۔

    تفصیلات کے مطابق عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) مشن کی سیاسی جماعتوں سے ملاقات کا امکان نہیں ، ذرائع نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف مشن کی سیاسی جماعتوں سے ملاقات کا اب تک کوئی شیڈول نہیں۔

    حکام کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کی نمائندہ کی سیاسی جماعتوں سے ملاقات جولائی 2023 میں ہوئی تھی، جولائی میں سیاسی جماعتوں سے ملاقات میں ضروری یقین دہانیاں ہوگئی تھیں۔

    حکام نے کہا کہ آئی ایم ایف نے اسٹینڈ بائی پروگرام پر عمل درآمد کیلئے سیاسی جماعتوں سے یقین دہانی مانگی تھی، سیاسی جماعتوں کی یقین دہانیوں کے بعد 12 جولائی کو قرض پروگرام کی پہلی قسط جاری ہوئی تھی۔

    ذرایع کے مطابق آئی ایم ایف مارچ 2024 تک قرض پروگرام کے اختتام تک شرائط پر عمل درآمد چاہتا ہے۔

    یاد رہے 2 نومبر کو عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کا مشن اقتصادی جائزہ لینے پاکستان پہنچ گیا،

  • سیاسی مخالف جماعتوں کے درمیان بڑا بریک تھرو

    سیاسی مخالف جماعتوں کے درمیان بڑا بریک تھرو

    اسلام آباد : سیاسی جماعتوں کے درمیان گرینڈ ڈائیلاگ پر کام شروع ہوگیا، پی ٹی آئی وفد اور مولانا فضل الرحمان ملاقات گرینڈ ڈائیلاگ کی جانب ایک بڑا قدم ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سیاسی مخالف جماعتوں کے درمیان بڑا بریک تھرو سامنے آیا ، سیاسی جماعتوں کےدرمیان گرینڈ ڈائیلاگ پر کام شروع ہوگیا۔

    ذرائع نے کہا کہ پی ٹی آئی وفد اور مولانا فضل الرحمان ملاقات گرینڈ ڈائیلاگ کی جانب ایک بڑا قدم ہے، فضل الرحمان، آصف زرداری ملاقات میں بھی گرینڈ ڈائیلاگ پر بات چیت کی گئی۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ مولاناپہلےہی سیاسی جماعتوں کوایک دوسرےکیلئےاسپیس پیداکرنےکامشورہ دےچکےہیں ، گرینڈڈائیلاگ میں سب سےبڑی حریف جماعتیں جےیوآئی اورپی ٹی آئی بھی شامل ہوں گی۔

    ذرائع کے مطابق گرینڈ ڈائیلاگ میں پیپلز پارٹی اورن لیگ سمیت تمام جماعتوں کوشامل کیا جائے گا۔

    گذشتہ روز جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے پاکستان تحریک انصاف کے اعلیٰ سطحی وفد نے اہم ملاقات کی تھی، جس میں سابق اسپیکر اسد قیصر،علی محمد خان، بیرسٹرسیف اور جنید اکبر جیسے رہنما شامل تھے۔

    ملاقات میں ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال پر بھی بات چیت کی گئی ہے اور دنوں جانب سے اپنے خیالات کا اظہار کیا گیا، اس دوران نماز کا وقت ہونے پر پی ٹی آئی کے وفد میں شامل ارکان نے فضل الرحمان کے پیچھے نماز ادا کی۔

  • عام انتخابات میں تاخیر کے معاملے پر سیاسی جماعتوں اور قانون دانوں کا شدید ردعمل

    عام انتخابات میں تاخیر کے معاملے پر سیاسی جماعتوں اور قانون دانوں کا شدید ردعمل

    عام انتخابات میں تاخیر کے معاملے پر سیاسی جماعتوں اورقانون دانوں کا شدید ردعمل سامنے آگیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق عام انتخابات میں تاخیر کے معاملے پر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما نیئربخاری کہتے ہیں آرٹیکل 48 میں واضح ہے نوے دن میں الیکشن کرانا ہوں گے۔

    پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے رہنما بابر اعوان کا کہنا ہے الیکشن الیکشن نہ کھیلیں، الیکشن تو کرانا پڑے گا۔

    خیبرپختونخوا اسمبلی کے اسپیکر مشتاق غنی کہتے ہیں الیکشن کمیشن انتخابات نہیں کرا سکتا تو اسے تالے لگا دیں۔

    ماہر قانون لطیف کھوسہ کہتے ہیں سپریم کورٹ سی سی آئی کے فیصلے کو اُڑائے گی تو نوے دن میں الیکشن کرانا پڑیگا۔

  • فوج نہیں یہ سیاسی جماعتوں نے کیا ہے، 9 مئی واقعے پر عوام کی رائے

    فوج نہیں یہ سیاسی جماعتوں نے کیا ہے، 9 مئی واقعے پر عوام کی رائے

    9 مئی واقعے پر ڈی جی آئی ایس پی آر کی حالیہ پریس کانفرنس کے اہم بیانات پرپاکستانی عوام نے اپنی رائے دی ہے۔

    عوام نے 9 مئی واقعات میں ملوث کرداروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی بھر پور حمایت کی ہے، عوامی رائے کے مطابق فوج حفاظت کرتی ہے، اس کیخلاف نہ بات ہوسکتی ہے نہ کرنی چاہیے، شرپسندوں نے ملک کا نقصان کیا ہے، فوج ایسا نہیں کرسکتی۔

    عوام رائے کے مطابق اپنے ملک کی ہم نے اینٹ سے اینٹ بجادی، دشمنوں کو کہنے کی کیا ضرورت ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کو پہلے خود اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے، ہماری  پوری دنیا میں بدنامی ہوئی ہے، ایسے کرداروں کو عبرتناک سزا دینی چاہیے۔

    عوام کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے تھا، جن  سویلینز نے وہاں مداخلت کی ہے ان کا بھی محاسبہ ہونا چاہیے، یہ سزا کے لائق ہیں، عوام کو پریشان کیا ہوا ہے، ہمارے افسروں نے بہت اچھی بات کہی ہے۔

    عوام رائے کے مطابق مجھے نہیں لگتا عوام فوج کے خلاف جائے گی اور نہ جاتی ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کو ایسے نہیں کرنا چاہیے تھا جیسے ان لوگوں نے کیا ہے، اتنی ہاسٹیلیٹی نہیں دکھانی چاہیے تھی، یہ کچھ لوگوں کی سازش کی وجہ سے ہوا ہے۔

    9 مئی واقعے پر ایک شرکا کا کہنا تھا کہ میں سرکار سے اپیل کرتا ہوں کہ ان لوگوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جائے، فوج نہیں یہ سیاسی جماعتوں نے کیا ہے، میں سخت مذمت کرتا ہوں، پاک آرمی کے ساتھ ہر وقت کھڑے ہیں،  جو اس کی سپورٹ کرتے بھی ہیں میرے خیال میں وہ بھی غلط ہیں۔

    عوامی رائے کے مطابق جس کی بھی سازش تھی اس کے خلاف کارروائی کی جائے، جو بھی ڈی جی آئی ایس ایس پی آر نے کہا ہے سب صحیح کہا ہے، پاکستان آرمی کا کوئی قصور نہیں ہے، یہ سیاسی پارٹی صحیح نہیں ہے، عوام کے ساتھ جو غداری کی ہے، ان کو سزا ملنی چاہیے، جو بھی ملوث تھے ان کو سامنے لایا جائے۔

  • 3 رکنی بینچ کے فیصلے پر احتجاج کرنا سیاسی جماعتوں کا حق ہے، شیری رحمان

    3 رکنی بینچ کے فیصلے پر احتجاج کرنا سیاسی جماعتوں کا حق ہے، شیری رحمان

    اسلام آباد : پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے کہا ہے کہ 3 رکنی بینچ کے فیصلے پر احتجاج کرنا سیاسی جماعتوں کا حق ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ قانونی اور اخلاقی تقاضے پورے نہیں ہونگے تو فیصلوں پر سوالات اٹھیں گے۔

    شیری رحمان کا کہنا تھا کہ بینچ کی تشکیل اور تقسیم نے اس عمل کو ہی متنازع بنا دیا تھا، یکم مارچ کو 4 ججز نے ازخود نوٹس کے خلاف فیصلہ دیا جب ججز کی اکثریت فیصلہ دے چکی تھی تو 3 رکنی بینچ کیوں بنا؟۔

    انہوں نے ٹوئٹ میں مزید لکھا کہ 4 ججز کے فیصلے کو 3 رکنی بینچ نہیں بلکہ لارجربینچ یا فل کورٹ بینچ ہی مستردکر سکتی تھی، فل کورٹ بینچ بنانے کی استدعا کو بار بار مسترد کیا گیا سیاسی جماعتیں فریق بننے کی درخواست کرتی رہیں۔