Tag: سیاسی جماعتیں

  • الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں سے اکاؤنٹس کے گوشوارے طلب کرلیے

    الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں سے اکاؤنٹس کے گوشوارے طلب کرلیے

    الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے ملک کی سیاسی جماعتوں سے اکاؤنٹس کے گوشوارے طلب کرلیے گئے ہیں۔

    سیاسی جماعتوں سے کہا گیا ہے کہ انھیں سال 24-2023 کے گوشوارے 29 اگست تک جمع کرانا ہونگے، الیکشن کمیشن کے مطابق سیاسی جماعتوں کو اپنی سالانہ آمدن، اخراجات، فنڈنگز ذرائع، اثاثے اور واجبات کی تفصیلات پیش کرنا ہونگی۔

    الیکشن کمیشن نے سیاسی پارٹیوں سے جو گوشوارے طلب کیے ہیں اس میں سیاسی جماعتوں کو بتانا ہوگا کہ انھیں ممنوعہ ذرائع سے پارٹی فنڈزنہیں ملا۔

    دریں اثنا الیکشن کمیشن نے مخصوص سیٹوں سے متعلق اہم کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن نے کبھی نہیں کہا کہ پی ٹی آئی سیاسی پارٹی نہیں ہے۔

    الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی سیاسی پارٹی ہے اور اس کا نام بھی سیاسی پارٹیوں کی فہرست میں موجود ہے۔

    ادارے نے بتایا تھا کہ پی ٹی آئی کا نام الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہے، الیکشن کمیشن نے کسی فیصلے کی غلط تشریح نہیں کی ہے۔

    انٹرا پارٹی الیکشن درست نہ ہونے پر پی ٹی آئی سے بلے کا نشان لیا گیا تھا، الیکشنز ایکٹ کی دفعہ 215 کے تحت بلے کا نشان لیا گیا تھا۔

  • پاکستان میں سیاسی جماعتیں سیاست کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں، مصطفیٰ کمال

    پاکستان میں سیاسی جماعتیں سیاست کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں، مصطفیٰ کمال

    متحدہ قومی موومنٹ (ایم اکیو ایم) پاکستان کے رہنما مصطفیٰ کمال کا کہنا ہے کہ ہم کوشش کر رہے تھے کہ مردم شماری پر سیاست نہ ہو، مگر پاکستان میں سیاسی جماعتیں سیاست کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں۔

    کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مصطفیٰ کمال کا کہنا تھا کہ مردم شماری ایک اہم مسئلہ ہے ہم اس اہم مسئلہ پر کسی کو سیاست نہیں کرنے دیں گے، ایم کیو ایم ہی واحد جماعت ہے جو مسائل کے حل کی جینوئن آواز  ہے۔

    رہنما مصطفیٰ کمال کا کہنا تھا کہ کراچی کی آبادی 1 کروڑ 43 لاکھ سے زائد دکھا رہے ہیں، پچھلی مردم شماری میں آبادی 1 کروڑ 60 لاکھ بتائی گئی تھی یعنی باقی رہ جانے والی مردم شماری میں 2، 3 لاکھ اور بڑھ جائیں گے۔

    سید مصطفی کمال کا کہنا تھا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے یہ تو 2017 کی مردم شماری سے بھی کم اعداد و شمار دکھائے جارہے ہیں اس وقت بھی ایم کیو ایم واحد جماعت تھی جس نے 2017 کی مردم شماری کے اعدادوشمار کو مسترد کیا تھا۔

    انہوں نے کہا کہ پاکستان میں 2017 میں 18 سال بعد مردم شماری ہوئی تھی، یہ مردم شماری 5 سال کے بعد ہورہی ہے، ہماری جدوجہد کی وجہ سے مردم شماری 5 سال قبل کی جارہی ہے۔

    ایم کیو ایم رہنما کا کہنا تھا کہ ہم نے ادارہ شماریات کی سپورٹ کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کیا، ایم کیو ایم اور اسکا ایک ایک کارکن پچھلے کئی ماہ سے عوام میں آگاہی مہم چلارہے ہیں ہم نے اپنے تمام دوسرے تنظیمی کام چھوڑ کر اسی کام میں لگ گئے، ہمارے علاوہ کسی اور جماعت نے اس پر کوئی ایک کام نہیں کیا۔

    مصطفی کمال نے بتایا کہ 9 فروری کو ایم کیو ایم پاکستان نے مردم شماری کے حوالے سے آگاہی مہم کا باقاعدہ آغاز کیا، 11 اپریل کو ایم کیوایم کے وفد نے وزیراعظم صاحب سے ملاقات کی 12 اپریل کو ایم کیو ایم کے وفد کی گورنر سندھ اور وزیر اعلی سندھ سے پھر ملاقات ہوئی۔

    انہوں نے کہا کہ یہ ساری تفصیل بتانے کا  مقصد سیاسی جماعتوں کی منافقت سے آگاہ کرنا ہے، یہ تمام سیاسی جماعتیں گزشتہ 3 ماہ سے کہاں غائب تھیں۔

  • چیئرمین نادرا کا 150 سیاسی جماعتوں کو خط

    چیئرمین نادرا کا 150 سیاسی جماعتوں کو خط

    اسلام آباد: نادرا نے سیاسی جماعتوں سے انتخابی فہرستوں پر رائے طلب کر لی۔

    تفصیلات کے مطابق چیئرمین نادرا طارق ملک نے 150 سیاسی جماعتوں کو خط لکھ کر انتخابی فہرستوں پر ان سے رائے طلب کر لی ہے۔

    چیئرمین نادرا نے چیف الیکشن کمشنر کو بھی معاملے سے آگاہ کر دیا، الیکشن کمیشن کی جانب سے نادرا کی جانب سے منعقدہ اجلاسوں میں اپنا نمائندہ بھی بھیجا جائے گا۔

    خط کے مطابق نادرا کی جانب سے انتخابی فہرستوں پر خدشات اور سوالات کے لیے انٹرایکٹو سیشن کا اہتمام کیا جائے گا، انتخابی فہرستوں پر اوپن ہاؤس سیشن بھی ہوگا، جس کے لیے سیاسی جماعتوں سے مناسب تاریخ اور شرکا کی فہرست طلب کی گئی ہے۔

    واضح رہے کہ نادرا کمپیوٹرائزڈ انتخابی فہرستوں کی تیاری میں 2011 سے الیکشن کمیشن کی مدد کر رہا ہے۔

    چیئرمین نادرا طارق ملک نے کہا کہ آرٹیکل 219 کے تحت الیکشن کمیشن انتخابی فہرستوں کی تیاری اور ووٹرز کے اندراج کا مجاز ہے، جب کہ ایس ایم ایس سروس 8300 کو نادرا ہوسٹ کرتا ہے۔

  • سیاسی جماعتوں کو بروقت انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کا حکم جاری

    سیاسی جماعتوں کو بروقت انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کا حکم جاری

    اسلام آباد: الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سیاسی جماعتوں کو بر وقت انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کا حکم دے دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سیاسی جماعتوں کے انٹرا پارٹی انتخابات کے معاملے پر ای سی پی نے تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو مراسلہ جاری کیا ہے۔

    مراسلے میں الیکشن کمیشن نے کہا یہ مشاہدے میں آیا ہے کہ سیاسی جماعتیں بروقت پارٹی الیکشن نہیں کراتیں، بر وقت پارٹی الیکشن نہ کرانا قانون اور جماعتی دستور کی خلاف ورزی ہے۔

    الیکشن کمیشن نے کہا کہ جب وقت گزر جاتا ہے تو پھر سیاسی جماعتوں کی جانب سے الیکشن کمیشن سے مہلت کے لیے درخواستیں کی جاتی ہیں، مراسلے میں ای سی پی نے حکم دیا کہ سیاسی جماعتیں مقررہ وقت کے اندر انٹرا پارٹی الیکشن یقینی بنائیں۔

    مراسلے میں واضح کیا گیا کہ سیاسی جماعتیں ہر 5 سال کے اندر انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کی پابند ہیں۔

    ‏’لگتا ہے الیکشن کمیشن اپوزیشن کا ہیڈکوارٹر بن گیا‘ ‏

    واضح رہے کہ گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں الیکشن کمیشن کی جانب سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر اعتراضات پر رد عمل میں وفاقی وزیر اطلاعات نے قومی ادارے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا لگتا ہے الیکشن کمیشن اپوزیشن کا ہیڈ کوارٹر بن گیا ہے اور چیف الیکشن کمشنر اپوزیشن کے ماؤتھ پیس کے طور پر کام کرنا چاہتے ہیں۔

  • ذہین لوگ کہاں گئے؟

    ذہین لوگ کہاں گئے؟

    یورپ میں بادشاہت کے نظام کے دوران امرا کا طبقہ ریاست کے تمام شعبوں پر پوری طرح سے حاوی تھا۔ یہ لوگ سیاسی عہدوں پر فائز ہوتے تھے۔

    فوج کے اندر اعلیٰ عہدے بھی ان ہی کے لیے تھے، چرچ میں بھی اونچے عہدوں پر ان ہی کا تقرر ہوتا تھا۔ لہٰذا خاندان در خاندان مراعات سے فائدہ اٹھاتے تھے، اور اس تمام سلسلہ میں عام لوگوں کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی، کیوں کہ تقرر کی وجہ خاندان تھا، ذہانت نہیں تھی۔

    چاہے یہ ذہنی طور پر اوسط درجہ کے لوگ ہی کیوں نہ ہوں، اپنے خاندانی رشتوں اور تعلقات کی وجہ سے ریاست کے تمام عہدے ان کے لیے تھے۔

    اس فرق کو ہم اس وقت محسوس کرتے ہیں کہ جب امریکا آزاد ہوتا ہے تو چوں کہ اس کے معاشرے میں کوئی امرا کا طبقہ نہیں تھا، اس لیے ان لوگوں کے لیے جو ذہین، محنتی اور لائق تھے، کام یابی کے تمام مواقع موجود تھے۔

    یورپ سے بھی جو غریب اور مزدور یا کسان طبقوں سے لوگ امریکا ہجرت کرکے گئے، انہیں وہاں کام کرنے اور اپنی ذہانت کو استعمال کرنے کے پورے مواقع ملے۔ مثلاً اینڈریو کارنیگی، ایک کاری گر کا لڑکا تھا، جو اسکاٹ لینڈ سے امریکا گیا، اگر یہ وہیں رہتا تو اپنے باپ کے پیشہ کو اختیار کرکے زندگی گزار دیتا، مگر امریکا میں اس کو اپنی ذہانت اور محنت دکھانے کے موقع ملے۔ اور یہ وہاں کا بڑا سرمایہ دار اور صنعت کار بن گیا۔

    اس نے خاص طور سے اپنے سرمایہ کو لوگوں کے فائدے کے لیے استعمال کیا اور شہروں میں جگہ جگہ کتب خانے قائم کیے۔ کارنیگی کی طرح کے اور بہت سے افراد تھے کہ جنہوں نے خاندان کی بنیاد پر نہیں، بلکہ اپنی ذہانت کے بل بوتے پر کام یابی حاصل کر کے نام پیدا کیا، یہ لوگ سیاست میں بھی آئے اور ان میں اکثر غریب خاندان کے لڑکے ملک کے صدر بنے اور اعلیٰ عہدوں پر رہے۔

    پاکستان کے ابتدائی دنوں میں چوں کہ یہاں ہر طبقے کے لوگوں کے لیے تعلیم کی یکساں سہولتیں تھیں، اس لیے پبلک اسکولوں میں امیر و غریب دونوں کے بچّے پڑھتے تھے اور یہ تعلیم یونیورسٹی تک اسی طرح سے بغیر کسی فرق کے تھی، اس لیے ذہین طالب علموں کے لیے یہ ممکن تھا کہ وہ مقابلے کے امتحانوں میں کام یاب ہوجائیں، یا دوسری ملازمتوں کے مقابلہ میں اپنی ذہانت کی بنیاد پر کام یابی حاصل کریں۔

    لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس نظام میں تبدیلی آتی چلی گئی۔ دولت مند اور امرا کا طبقہ اپنے اثر و رسوخ کو بڑھاتا چلا گیا، انہوں نے اپنے بچّوں کے لیے پرائیویٹ اسکولوں کی ابتدا کردی جو بڑھتے بڑھتے اس قدر مہنگے ہوئے کہ اس میں عام لوگوں کے بچّوں کے لیے تعلیم حاصل کرنا ناممکن ہوگیا۔ اس کے ساتھ ہی پبلک اسکولوں کا معیار گرتا چلا گیا، اور سلسلہ یہاں تک پہنچا کہ غریب لوگوں کے بچّوں کے لیے تعلیم کے بعد آگے بڑھنے یا ترقی کرنے کے تمام راستے بند ہوگئے۔

    یہاں بھی مواقع ان کے لیے ہیں کہ جن کے پاس سرمایہ ہے، جو اس سے محروم ہیں، چاہے وہ کتنے ہی لائق اور محنتی کیوں نہ ہوں، ان کے لیے معاشرے میں کوئی عزت اور وقار کی جگہ نہیں رہی ہے۔

    مراعات سے محروم طبقوں کے لیے زندگی میں اگر کچھ حاصل کرنا ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ذہانت کی جگہ خوشامد سے کام لیں، اور طبقۂ اعلیٰ کے لوگوں کی چاپلوسی کر کے ان سے جو بچ جائے وہ حاصل کرلیں۔

    اس کی مثال پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔ ان جماعتوں کے سربراہ یا تو بڑے جاگیردار ہیں یا سرمایہ دار، انہی بنیادوں پر ان کو سربراہی ملی ہوئی ہے، اس لیے نہیں کہ ان میں کوئی اہلیت یا صلاحیت ہے۔ اب اگر ان کی پارٹی میں باصلاحیت لوگ ہیں، تو پارٹی میں آگے بڑھنے اور ترقی کے لیے ضروری ہے کہ وہ سربراہ کی خوشامد میں مصروف رہیں، کیوں کہ جب یہ اقتدار میں آتے ہیں تو ان ہی افراد کی سرپرستی کرتے ہیں، جو ان کے مصاحب ہوتے ہیں۔ انہیں اس سے غرض نہیں ہوتی کہ کسی فرد میں کس قدر لیاقت ہے اور وہ پارٹی کے لیے یا اقتدار میں آنے کے بعد ملک و قوم کے لیے فائدہ مند ہوسکتا ہے۔

    اگر کبھی کسی فرد سے ان کی شان میں گستاخی ہو جاتی ہے، یا وہ اپنی رائے کو آزادی کے ساتھ ظاہر کرتا ہے تو اس کی سزا یہ ہے کہ اسے یا تو پارٹی سے نکال دیا جاتا ہے یا اسے تمام سرگرمیوں سے علیحدہ کر کے خاموش کر دیا جاتا ہے۔ لہٰذا اب پاکستان میں عہد وسطیٰ کے امرا اور طبقہ اعلیٰ کی جگہ جاگیردار اور سرمایہ دار خاندان غالب آگئے ہیں اور ان کے خاندانوں کی حاکمیت مستحکم ہوگئی ہے۔

    اس پورے سلسلہ میں معاشرے کے ذہین افراد جن کا تعلق عوام یا نچلے طبقوں سے ہے، ان کو محروم کر کے ان کی ذہانت کو ختم کر دیا گیا ہے۔

    سیاسی خاندانوں کے اس تسلط کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوا کہ وہ افراد بھی کہ جو اپنی محنت اور صلاحیت سے اپنی ذہانت کو تسلیم کراچکے ہیں، جب انہیں معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ملتی تو وہ یا تو خاموش ہوکر گوشہ نشینی اختیار کرلیتے ہیں، یا ملک سے ہجرت کرکے نئے مواقعوں کی تلاش میں باہر چلے جاتے ہیں۔

    ذہین افراد اس کمی کے باعث ہم دیکھتے ہیں کہ ملک میں نالائق اور اوسط ذہن کے لوگ آگے آگے ہیں، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبہ میں زوال اور پس ماندگی کے آثار پوری طرح سے ظاہر ہورہے ہیں۔

    المیہ یہ ہے کہ ایک طرف تو امریکا اور یورپ کے ملک باصلاحیت اور ماہرین کی تلاش میں ملک ملک گھومتے ہیں، مگر ہمارے ہاں باصلاحیت لوگ اپنے ہی حکم رانوں کے ہاتھوں محرومی کا شکار ہورہے ہیں۔

    یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب ذہانت کو نظر انداز کیا جائے گا تو ایسا معاشرہ کبھی بھی ترقی نہیں کرسکے گا۔ یورپ میں جمہوری روایات نے امرا کے خاندان کے تسلّط کو توڑا اور ذہین لوگوں کے لیے راہ ہموار کی، ہمارے ہاں بھی اس کی ضرورت ہے، مگر اس کام کو کون کرے گا؟

    (ڈاکٹر مبارک علی کی کتاب "تاریخ کی گواہی” سے انتخاب)

  • کورونا کی دوسری لہر، سیاسی جماعتیں 3 ماہ کے لیے جلسے جلوس ملتوی کر دیں

    کورونا کی دوسری لہر، سیاسی جماعتیں 3 ماہ کے لیے جلسے جلوس ملتوی کر دیں

    اسلام آباد : وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ کورونا کی دوسری لہر کے باعث شادیوں اور دیگر تقریبات کو محدود کرنے کا کہا گیا ہے، سیاسی جماعتیں 3 ماہ کے لیے جلسے جلوس ملتوی کر دیں۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا کہ کورونا کی دوسری لہر کے پیش نظراین سی اوسی کے نئےایس اوپی جاری کردی ہے ، جس میں شادیوں اور دیگر تقریبات کو محدود کرنے کا کہا گیا ہے۔

    فوادچوہدری کا کہنا تھا کہ سمجھتا ہوں سیاسی جماعتوں کو ذمےداری کا ثبوت دینا چاہیے، سیاسی جماعتیں 3ماہ کے لیے جلسے جلوس ملتوی کر دیں، زندگی کا احترام کریں، اپوزیشن بھی تحریک اگلے سال تک ملتوی کر دے۔

    یاد رہے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) نے ملک بھر میں کرونا کے بڑھتے کیسز کے پیش نظر نئی گائیڈ لائنز جاری کیں تھیں، گائیڈ لائنز میں کہا گیا تھا کہ عوامی اجتماعات کرونا میں اضافے کا سبب بن سکتے ہیں لہذا ایسے پروگراموں کے انعقاد سے ہر ممکن گریز کیا جائے، بڑے اجتماعات کےانعقادکوروکنے پرغور کیا جارہا ہے ۔

    این سی او سی کے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ ’دنیا بھر میں بڑے عوامی اجتماعات پر پابندی عائد ہے کیونکہ ایسے پروگرام کرونا کے بڑے خطرے کا سبب ہیں، انتہائی ضروری اجتماعات ایس او پیز کے ساتھ منعقد کیے جائیں‘۔

    این سی او سی کا کہنا تھا ’عوامی اجتماعات سے کرونا سمیت دیگر بیماریوں کے پھیلاؤ کا امکان ہے، ایسے اجتماعات سے کرونا کے خلاف قومی کامیابی خطرے میں پڑ سکتی ہے، ایسے پروگراموں کا انعقاد کسی صورت نہیں ہونا چاہیے‘۔

  • اپوزیشن کی پالیسیاں بہتر ہوئیں توحکومت بھی ویلکم کرے گی، فردوس عاشق

    اپوزیشن کی پالیسیاں بہتر ہوئیں توحکومت بھی ویلکم کرے گی، فردوس عاشق

    اسلام آباد: معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ اپوزیشن کی پالیسیاں بہتر ہوئیں توحکومت بھی ویلکم کرے گی، پرامید ہیں اپوزیشن ملک کے مفاد میں حکومت کے ساتھ کھڑی ہوگی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ سیاسی جماعتوں نے اہم قومی معاملے پر یکجہتی کا اظہار کیا، سیاسی جماعتوں نے پختگی کا مظاہرہ کر کے قانون سازی کی۔

    معاون خصوصی نے کہا کہ ملکی سلامتی، دفاع کو یقینی بنانا وزیراعظم کی ذمہ داری ہوتی ہے، آج وزیراعظم نے اپنی ذمہ داری نبھائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی قیادت،جمہوری سوچ رکھنے والی جماعتوں نے پاکستان کو تقویت دی، پاکستان کا دفاع مضبوط بنانے کے لیے مثبت قدم اٹھایا گیا۔

    فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ پرامید ہیں اپوزیشن ملک کے مفاد میں حکومت کے ساتھ کھڑی ہوگی، سیاسی محاذ پر ایک دوسرے سے سیاسی انداز میں گفتگو جمہوریت کا حسن ہے، اختلاف یا تنقید کرنا جمہوریت کا حصہ ہے۔

    انہوں نے کہا کہ یہ قانون سازی کسی ایک شخصیت یاا دارے کے سربراہ کے لیے نہیں تھی، یہ قانون سازی ہمارے محفوظ مستقبل کے لیے تھی۔

    معاون خصوصی نے کہا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے کوئی ایسی بات نہیں آئی کہ نوٹی فکیشن غلط تھا، ہمیں مثبت سوچ کو آگے لے کر چلنا ہے، سپریم کورٹ کی گائیڈلائن کو ہی ہم نے عملی جامعہ پہنایا ہے۔

    سینیٹر شبلی فرار نے کہا کہ قانون سازی کا مرحلہ آج مکمل ہوا ہے، تمام سیاسی جماعتوں نے یکجہتی کا مظاہرہ کیا، موجودہ صورت حال کے پیش نظر یہ ضروری تھا۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ تب ہی مضبوط ہوتی ہے جب عوامی مسائل حل ہوں۔

    سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ یہ قومی مفاد کی قانون سازی ہے، ان بلز کا کثرت رائے سے منظور ہونا بڑی کامیابی ہے، آگے بھی جو بلز ایوان میں آئیں تو ان میں بھی سنجیدگی ہونی چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سال 2020 کا بہت اچھا آغازہوا ہے، ہم اب تیزی سے قانون سازی لائیں گے جن کا براہ راست فائدہ عوام کو ہوگا۔

  • سوا کروڑ خواتین رجسٹرڈ ہی نہیں ہوں گی تو شفاف الیکشن کیسے ہوگا، بابر یعقوب

    سوا کروڑ خواتین رجسٹرڈ ہی نہیں ہوں گی تو شفاف الیکشن کیسے ہوگا، بابر یعقوب

    اسلام آباد: سیکریٹری الیکشن کمیشن بابریعقوب کا کہنا ہے کہ سوا کروڑ خواتین رجسٹرڈ ہی نہیں ہوں گی تو شفاف الیکشن کیسے ہوگا، سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے خواتین ووٹرز کی رجسٹریشن یقینی بنائیں۔

    تفصیلات کے مطابق سیکریٹری الیکشن کمیشن بابریعقوب نے انتخابی اصلاحات کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن فافن کی آبزرویشن، تنقید پراسے اپنا پارٹنرسمجھتا ہے، فافن کی سفارشات پر باقاعدہ ورکنگ گروپ تشکیل دیا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ آبادی کے تناسب کے حوالے سے نمائندگی پرغور کرنا چاہیے، کینیڈا، آسٹریلیا میں مقبول جماعتیں حکومت میں نہیں آ سکیں، سیاسی جماعتوں سے درخواست کروں گا ہم سے تعاون کریں۔

    سیکریٹری الیکشن کمیشن نے کہا کہ سوا کروڑ خواتین رجسٹرڈ ہی نہیں ہوں گی تو شفاف الیکشن کیسے ہوگا، سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے خواتین ووٹرز کی رجسٹریشن یقینی بنائیں۔

    بابر یعقوب نے کہا کہ الیکشن 2018 سے پہلے 43 لاکھ خواتین ووٹرز کو رجسٹر کیا گیا، خدشہ ہےغیر رجسٹرڈ خواتین ووٹرز کی تعداد بڑھ نہ جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ خواتین ووٹرز کی رجسٹریشن کے لیے نادرا سے مل کر کام کر رہے ہیں، سیاسی جماعتوں کی جانب سے خواتین ووٹرز پرتعاون کا فقدان ہے۔

  • ملکی معیشت کی بحالی کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر بیٹھنا چاہیے، اسد قیصر

    ملکی معیشت کی بحالی کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر بیٹھنا چاہیے، اسد قیصر

    اسلام آباد: اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کا کہنا ہے کہ پُرامن احتجاج سیاسی جماعت کا حق ہے لیکن یہ حق قانون اور آئین کی حدود میں رہتے ہوئے استعمال کرنا چاہیے۔

    تفصیلات کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا کہ حزب اختلاف کو قائل کرنے کے لیے ضروری کردار ادا کریں گے تاکہ میثاق معیشت پر اتفاق رائے کی راہ ہموار ہوسکے، مقصد ملک کو اقتصادی بحران سے نجات دلانا ہے۔

    اسد قیصر نے اقتصادی بحران کو ایک قومی مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہرسیاسی جماعت کو اس معاملے پر سیاست سے گریز کرتے ہوئے قومی معیشت کی بحالی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

    اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ پُرامن احتجاج سیاسی جماعت کا حق ہے لیکن یہ حق قانون اور آئین کی حدود میں رہتے ہوئے استعمال کرنا چاہیے۔

    اسد قیصر نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ شہبازشریف نے اچھی پیشکش دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں لیڈر شپ سے مل کر کوشش کروں گا تاکہ میثاق معیشت پر ایک کمیٹی بنائی جائے۔

    اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ کوشش کروں گا کہ اس اسپیشل کمیٹی میں تمام پارلیمانی جماعتوں کی نمائندگی ہو۔

  • سیاسی جماعتوں کے ترجمانوں کے ضمیر نوکریوں کی زنجیروں سے بندھے ہوئے ہیں: زرتاج گل

    سیاسی جماعتوں کے ترجمانوں کے ضمیر نوکریوں کی زنجیروں سے بندھے ہوئے ہیں: زرتاج گل

    اسلام آباد: وزیر مملکت زرتاج گل نے کہا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے ترجمانوں کے ضمیر نوکریوں کی زنجیروں سے بندھے ہوئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگ زیب کے بیان پر وزیرِ مملکت زرتاج گل نے سخت رد عمل ظاہر کیا ہے، انھوں نے کہا کہ ان کے ضمیر نوکریوں کی زنجیروں سے بندھے ہوئے ہیں۔

    زرتاج گل کا کہنا تھا کہ عوام کو دلاسے دینے والے کرپشن کنگز ہیں، کرپشن کنگز لوٹ مار نہ کرتے تو آج یہ حالات نہ ہوتے۔

    وزیر مملکت نے سیاسی جماعتوں پر کڑی تنقید کی، کہا یہ سیاسی جماعتیں نہیں بلکہ پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں ہیں جنھوں نے ملک لوٹا، سیاسی جماعتوں کی آڑ میں پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیوں کے ترجمان لگائے جا رہے ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں:  مریم اورنگزیب کی نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم اور وزیر اعظم پر الزامات کی بارش

    زرتاج گل نے کہا ’ان کے ضمیر نوکریوں کی زنجیروں سے بندھے ہوئے ہیں، عمران خان اور فواد چوہدری سچ بولتے ہیں تو کرپشن کنگز کو تکلیف ہوتی ہے، لیکن ہم سچ بول کر قوم کا پیسا لوٹنے والوں کی چیخیں سنتے رہیں گے۔‘

    خیال رہے کہ مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگ زیب نے نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم پر کڑی تنقید کرتے ہوئے اسکیم کو وزیر اعظم ہاؤس یونی ورسٹی کا ایکشن ری پلے قرار دیا تھا۔

    مریم اورنگ زیب نے کہا ’میں وزیر اعظم کو شہباز شریف کے منصوبے کی نقل پر مبارک باد دیتی ہوں، شہباز شریف نے 2011 میں آشیانہ اقبال، آشیانہ قائد کی بنیاد رکھی تھی، لیکن یہ نہ تو گھر بنا سکتے ہیں، نہ ہی بس سروس بنا سکتے ہیں۔‘