Tag: سیاہ فام

  • سیاہ فام جارج فلائیڈ کو قتل کرنیوالے سابق پولیس افسر پر قاتلانہ حملہ

    سیاہ فام جارج فلائیڈ کو قتل کرنیوالے سابق پولیس افسر پر قاتلانہ حملہ

    امریکی ریاست مینیا پولس میں سیاہ فام جارج فلائیڈ کو قتل کرنیوالا سابق پولیس افسر قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہوگیا۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ امریکی ریاست مینیا پولس کے سابق پولیس افسر ڈیرک چوون پر ساتھ رہنے والے قیدی نے چاقو سے حملہ کیا جس میں وہ شدید زخمی ہوگیا۔

    امریکی میڈیا کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ یہ واقعہ ایری زونا میں واقع فیڈرل کریکشنل انسٹی ٹیوٹ میں جمعہ کو پیش آیا جس میں سابق پولیس افسر کو شدید زخم آئے ہیں۔

    فیڈرل بیورو آف پریزن نے ڈیرک پر چاقو سے حملے کی تصدیق کی اور ملزم کا نام بتانے سے گریز کیا ہے، جبکہ انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے اس واقعے پر فوری طور پر کوئی ردعمل جاری نہیں کیا گیا ہے۔

    یاد رہے کہ سال 2020 میں سیاہ فام امریکی شہری جارج فلایئڈ کو ریاست مینیا پولس میں اس وقت کے پولیس افسر ڈیرک نے گرفتار کرکے سڑک پر گھٹنے کے بل لٹا دیا تھا، اس دوران ڈیرک نے مسلسل 9 منٹ جارج کے گلے پر گھٹنا رکھا، جس کے باعث وہ موت کی وادی میں چلا گیا۔

    مذکورہ واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد دنیا بھر میں احتجاج کی لہر دوڑ گئی اور دنیا کے بیشتر ممالک میں ’بلیک لائیوز میٹر‘ کے نام سے ایک تحریک بھی چلائی گئی تھی۔

    مقامی عدالت کی جانب سے سابق پولیس افسر کو سیاہ فام شہری کے قتل کے الزام میں جون 2022 کو ساڑھے 22 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

  • روزا پارکس‌ کا تذکرہ جن کے ‘انکار’ نے تعصب کو شکست دی

    روزا پارکس‌ کا تذکرہ جن کے ‘انکار’ نے تعصب کو شکست دی

    ‘ظلم اسی وقت تک ظلم ہے جب تک اسے للکارا نہ جائے’، یہ قول روزا پارکس (Rosa Parks) سے منسوب ہے اور ہم پر ظلم اور ناانصافی کی حقیقت کو آشکار کرتا ہے۔ سیاہ فام امریکیوں کے لیے جدوجہد کا استعارہ بن جانے والی روزا پارکس 2005ء میں آج ہی کے روز انتقال کرگئی تھیں۔

    سیاہ فام امریکیوں کے شہری حقوق کی سب سے مؤثر تحریک کی بنیاد روزا پارکس کا وہ ‘انکار’ تھا جس نے غیر انسانی اور عدم مساوات پر مبنی قانون کو یکسر مسترد کر دیا تھا۔ اس انکار نے امریکہ میں سیاہ رنگت کی بنیاد پر مسلسل تذلیل اور حق تلفی برداشت کرنے والے کم زور انسانوں نیا حوصلہ بخشا اور ایک تحریک نے جنم لیا جس کا اختتام تاریخی فیصلے کا سبب بنا۔ روزا پارکس کو ان کی جرأت پر امریکہ کا سب سے بڑا سول ایوارڈ دیا گیا۔ درجنوں جامعات نے انھیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری پیش کی۔ ان کے امریکہ بھر میں نصب یادگاری مجسمے نہ صرف ان کی عزّت و تکریم کا اظہار ہیں بلکہ ہر مظلوم کو حق اور سچ پر ڈٹ جانے کا پیغام دیتے ہیں۔

    یکم دسمبر، 1955ء میں روزا پارکس نے ریاست الاباما کے شہر منٹگمری میں بس کے سفر کے دوران ایک سفید فام امریکی کے لیے اپنی نشست چھوڑنے سے انکار کر دیا تھا اور یہ اُس شہری قانون کی خلاف ورزی تھی جس کے تحت بس میں سفید فام اور کالی رنگت والے امریکی شہریوں کی الگ نشستیں مخصوص تھیں۔

    روزا پارکس کی عمر اُس وقت 42 برس تھی اور وہ حقوقِ‌ انسانی کی تنظیم کی کارکن تھیں‌۔ انھیں گرفتار کر لیا گیا۔ روزا پارکس کی گرفتاری کی خبر عام ہوئی تو اچانک سیاہ فام تنظیموں اور دوسرے راہ نماؤں نے ان بسوں کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا اور خاتون کی گرفتاری پر احتجاج بھی شروع کر دیا۔ یہ بائیکاٹ 385 دِنوں تک جاری رہا۔ یہ وہ بسیں تھیں‌ جن میں اکثر سیاہ فام سفر کرتے تھے اور ان کے بائیکاٹ کی وجہ سے کاروبار متاثر ہوا تھا۔ تب، امریکہ کی عدالتَ عظمیٰ کو شہر کے پبلک ٹرانسپورٹ میں اس بدترین تفریق کو ختم کرنے کا حکم دینا پڑا۔ یہ سیاہ فام امریکیوں کی بڑی جیت تھی۔

    روزا پارکس نے 92 برس کی عمر میں وفات پائی۔ سنہ 2013 میں امریکی ایوانِ نمائندگان کی عمارت میں اُن کا قد آور مجسمہ نصب کر کے خراج عقیدت پیش کیا گیا۔

    وہ امریکہ کہ ایک عام سیاہ فام گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ روزا پارکس فروری 1913 میں الاباما کے ایک علاقے میں پیدا ہوئیں۔ والدین میں علیحدگی کے بعد روزا پارکس اپنی والدہ کے ساتھ ننھیال میں رہنے لگیں۔ ان کی ابتدائی تعلیم مضافات کے اسکول میں ہوئی اور بعد میں انھوں نے متعدد پیشہ ورانہ کورسز بھی کیے، تاہم ان کی تعلیم کا سلسلہ نانی اور بعد میں والدہ کی بیماری کے دوران رک گیا اور وہ ان کی دیکھ بھال اور گھر کے کام کرتی رہیں۔ تعلیمی سلسلہ جڑا تو اس وقت تک سفید اور سیاہ فام افراد کے لیے ٹرانسپورٹ میں امتیازی بلکہ غیرانسانی قانون نافذ ہوچکا تھا اور کالی رنگت والے بچے پیدل اسکول جانے پر مجبور تھے۔ روزا پارکس اسکول جاتے ہوئے سڑک پر گوری چمڑی والے طلبہ کو بسوں میں سوار بہ سہولت منزل پر پہنچتے ہوئے دیکھ کر کڑھتی رہتی تھیں۔ یہ ان پر منفی اثرات مرتب کرتا تھا اور ان میں اضطراب پیدا کرنے کا سبب بنتا تھا۔ یہی وہ دن تھے جب روزا پارکس نے سفید اور سیاہ فام افراد کے مابین تفریق کو بری طرح محسوس کیا۔

    1932ء میں روزا پارکس کی شادی ایسے شخص سے ہوئی جو انسانی حقوق کی تنظیم سے وابستہ تھا۔ اس کے اگلے برس روزا پارکس نے ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کرلی۔ انھوں نے متعدد معمولی نوکریاں کیں اور پھر گورے اور کالے کی تفریق سے بیزار روزا پارکس بھی انسانی حقوق کی تنظیم کی رکن بن گئیں۔ یہ 1943ء کی بات ہے اور پھر وہ اس تنظیم میں مختلف حیثیت میں کام کرتی ہوئی مقامی سطح پر نمایاں ہوئیں۔ اسی سال پبلک ٹرانسپورٹ کے ایک ڈرائیور نے ‘بدترین مذاق’ کیا تھا۔ یہ واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک روز انھیں سیاہ فام افراد کے لیے مخصوص کی گئی پچھلی نشست پر جانے کی ہدایت کی گئی، کیوں کہ بس میں سفید فام مسافر سوار ہوچکے تھے اور قانون کے مطابق روزا کو اپنی نشست چھوڑنا تھی۔ اب انھیں بس کے اگلے دروازے سے نیچے اترنا تھا اور وہ پچھلے گیٹ سے داخل ہوکر اپنی مخصوص نشست پر بیٹھ سکتی تھیں۔ اُس روز بارش ہورہی تھی۔ روزا پارکس جیسے ہی نیچے اتریں، ڈرائیور جس کا نام جیمز ایف بلیک تھا، اس نے بس چلا دی۔ روزا پارکس بارش میں بھیگتی رہ گئیں۔ ان کا جگر چھلنی تھا۔ ایسی توہین، ایسی تذلیل اور وہ بھی صرف رنگت اور نسل کی بنیاد پر۔

    اس کے چند برس بعد روزا پارکس جس بس میں نسل پرستی پر مبنی قانون کے خلاف ڈٹ گئی تھیں، اتفاق سے اس کا بس ڈرائیور بھی وہی جیمز ایف بلیک تھا جس نے انھیں سڑک پر بھیگنے کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ روزا پارکس کی اپنے حق میں مزاحمت کے بعد شہر کا کوئی سیاہ فام بس پر سوار نہیں ہوا اور بسوں کا بائیکاٹ نسلی امتیاز کے خلاف تحریک کی بنیاد بن گیا۔ یہ جدوجہد طویل آئینی جنگ، مظاہروں، مزاحمت، ہنگاموں اور کئی صبر آزما مراحل سے گزرنے کے بعد کام یابی سے ہم کنار ہوئی۔ عدالت کے فیصلے کے بعد کوئی بھی سیاہ فام اپنی نشست چھوڑنے کا پابند نہیں رہا۔

    آج امریکہ ہی نہیں دنیا بھر میں شہری حقوق کی جدوجہد کو نئی سمت اور نئی جہت بخشنے والی روزا پارکس کی یاد تازہ کی جاتی ہے اور ان کی جرات کی داستان کبھی فراموش نہیں کی جاسکے گی۔

  • امریکی پولیس اہلکاروں کا سیاہ فام شہریوں پر بدترین تشدد کا اعتراف

    امریکی پولیس اہلکاروں کا سیاہ فام شہریوں پر بدترین تشدد کا اعتراف

    امریکی محکمہ انصاف کی جانب سے جاری کئے گئے بیان کے مطابق مسیسیپی پولیس کے چھ سفید فام اہلکاروں نے دو بے گناہ سیاہ فام شہریوں کو مختلف طریقوں سے ایک گھنٹے تک تشدد کا نشانہ بنایا اور آخر میں ایک شخص کے منہ اور گردن میں گولی مار دی۔

    فرانسیسی خبر رساں ادارے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ اس کیس میں ملزمان نے متاثرین کو تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے ناقابل بیان نقصان پہنچایا، سیاہ فام شہریوں کے شہری حقوق کی بد ترین خلاف ورزی کی گئی جن کی یہ حفاظت کرنے کی پابند تھے۔

    انہوں نے کہا کہ مذکورہ پولیس اہلکاروں نے اپنے دیئے گئے حلف کو شرمناک طور پر دھوکہ دیا جو انہوں نے قانون نافذ کرنے والے افسران کے طور پر لیا تھا۔

    یہ طرز عمل اور اس کے بعد اس کو چھپانے کی کوشش جس میں ملزمان نے اپنے جرائم کے ثبوت چھپاتے ہوئے ایک شخص کو زخمی حالت میں چھوڑدیا تھا، امریکہ کی پولیس پر نسلی امتیاز کا تازہ ترین داغ ہے۔

    مسیسیپی کے رینکن کاؤنٹی شیرف ڈیپارٹمنٹ کے پانچ سابق ممبران اور رچلینڈ پولیس ڈیپارٹمنٹ کے ایک سابق ممبر کو جمعرات کو شہری حقوق کے خلاف سازش، حقوق سے محرومی اور انصاف کی راہ میں رکاوٹ سمیت متعدد الزامات میں قصوروار ٹھہرایا گیا۔

  • دماغی بیماری اور پڑھنے لکھنے سے معذوری سے لے کر کیمبرج تک پہنچنے کا سفر

    دماغی بیماری اور پڑھنے لکھنے سے معذوری سے لے کر کیمبرج تک پہنچنے کا سفر

    کسی ذہنی یا دماغی معذوری کے ساتھ زندگی کی مشکلات کا مقابلہ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے، لیکن بلند حوصلہ افراد جب کامیابی کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیتے ہیں تو پھر کسی مشکل کو خاطر میں نہیں لاتے، اور اپنا مقصد حاصل کر کے رہتے ہیں۔

    برطانیہ سے تعلق رکھنے والے 37 سالہ جیسن آرڈے بھی ایسی ہی ایک مثال ہیں جو دماغی معذوری کے باعث 18 سال کی عمر تک لکھ اور پڑھ نہیں سکتے تھے، لیکن محنت اور لگن جاری رکھتے ہوئے انہوں نے نہ صرف غیر معمولی حالات کو شکست دی بلکہ اب کیمبرج یونیورسٹی کے سب سے کم عمر سیاہ فام پروفیسر بن گئے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق لندن کے رہائشی جیسن آرڈے بچپن میں آٹزم سپیکٹرم ڈس آرڈر کا شکار تھے، یہ ایک ایسی دماغی معذوری ہے جس میں لوگ اکثر سماجی رابطے اور لوگوں کا سامنا کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔

    رپورٹس کے مطابق جیسن نے بچپن سے آٹزم ڈس آرڈر کا سامنا کیا جس کی وجہ سے انہیں 11 سال کی عمر تک بولنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

    پھر ان میں کی گلوبل ڈویلپمنٹ ڈیلے کی تشخیص ہوئی جس سے بچوں کی بات کرنے، پڑھنے لکھنے اور کچھ نیا سیکھنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ معالجین نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ جیسن اپنی آئندہ زندگی اسی حالت میں گزاریں گے اور انہیں تاحیات کسی معاون کی ضرورت ہوگی۔

    رپورٹس کے مطابق جیسن ابتدا میں بات چیت کے لیے اشاروں کی زبان استعمال کرتے تھے، تاہم پھر ان کے گھر والوں نے نو عمری کے دوران ان کی خاصی مدد کی اور پھر انہوں نے آہستہ آہستہ پڑھنا اور لکھنا سیکھنا شروع کیا جس کے بعد وہ کالج میں داخلہ لینے کے قابل ہوگئے۔

    اسی دوران جیسن کے قریبی دوستوں اور کالج کے ٹیچرز نے انہیں کیریئر کے حوالے سے ترغیب دی، بعد ازاں یونیورسٹی آف سرے میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد جیسن اسکول میں فزیکل ایجوکیشن کے ٹیچر بن گئے۔

    اسکول ٹیچر بننے کے بعد بھی انہوں نے تعلیم کا حصول جاری رکھا اور وہ لیورپول جان مورز یونیورسٹی سے ایجوکیشنل اسٹیڈیز میں 2 ماسٹرز ڈگری اور پی ایچ ڈی کرنے کے بعد پروفیسر بن گئے۔

    جیسن کا کہنا ہے کہ ایک اسکول ٹیچر بننے سے مجھے عدم مساوات کے بارے میں پہلی بار سمجھ آئی جس کا سامنا نسلی اقلیتوں کے نوجوانوں کو تعلیم میں کرنا پڑتا ہے۔

    کیمبرج یونیورسٹی کی ویب سائٹ کے مطابق، جیسن جب 27 سال کے تھے انہوں نے پی ایچ ڈی کی تعلیم کے دوران اپنے کمرے کی دیوار پر زندگی کے کچھ اہداف لکھے تھے جس میں یہ ایک تھا کہ میں ایک دن آکسفورڈ یا کیمبرج میں کام کروں گا۔

    جیسن نے بچپن کی دماغی معذوری سے لڑتے ہوئے مسلسل محنت جاری رکھی اور اب دنیا کی اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں میں سے ایک کیمبرج میں بحیثیت پروفیسر تعینات ہوگئے۔

    جیسن 6 مارچ سے کیمبرج یونیورسٹی میں سوشیالوجی آف ایجوکیشن پڑھائیں گے۔

  • امریکی پولیس کے تشدد سے ہلاک سیاہ فام شہری ماں ماں پکارتا رہا، دل دہلا دینے والی ویڈیو

    نیویارک: امریکی پولیس کے تشدد سے ہلاک ہونے والے سیاہ فام شہری ٹائر نیکولس آخری لمحات میں ماں ماں پکارتا رہا، لیکن سفید فام اہل کاروں کے دل میں ذرا بھی رحم پیدا نہ ہوا، واقعے کی دل دہلا دینے والی ویڈیو بھی سامنے آ گئی ہے۔

    امریکی میڈیا کے مطابق جنوری کے شروع میں ٹریفک اسٹاپ کے دوران 29 سالہ سیاہ فام ٹائر نکولس کو پولیس اہل کاروں نے مکے مار مار کر قتل کر دیا تھا، میمفس پولیس ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے اب باڈی کیمرے کی فوٹیج جاری کی گئی ہے۔

    فوٹیج منظر عام پر آنے کے بعد نیویارک شہر سمیت امریکا کے کئی علاقوں میں احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔

    ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس اہل کار سیاہ فام شہری پر تشدد کر رہے ہیں اور نکولس ماں ماں پکارتے رہے، فوٹیج سامنے آںے کے بعد نیویارک میں لوگوں کی بڑی تعداد نے ریلی نکالی اور بلیک لائف پیٹرز کے نعرے لگائے۔

    مظاہرین نے کہا کہ نکلس کو انصاف نہ ملنے تک احتجاج جاری رہے گا، مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپ میں 3 افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔

    یاد رہے کہ 7 جنوری کو پولیس نے افریقی نژاد ٹائر نکولس کو نہ رکنے پر تشدد کا نشانہ بنایا تھا، اس کیس میں عدالت نے 5 پولیس اہل کاروں پر فرد جرم عائد کر دی ہے۔

    ٹائر نکولس کو میمفس میں مبینہ طور پر لاپرواہی سے گاڑی چلانے پر روکا گیا تھا، تاہم وہ بھاگا، جس پر اہل کاروں نے اسے پکڑا اور پھر تشدد کرنے لگے، جس پر وہ شدید زخمی ہو کر اسپتال پہنچ گیا اور 3 دن بعد مر گیا۔

    باڈی کیم فوٹیج سامنے آنے کے بعد پوری دنیا میں اس کی شدید مذمت کی جا رہی ہے۔

  • امریکی صدر نے پولیس سے متعلق اہم حکم نامے پر دستخط کر دیے، گلا دبانے پر پابندی

    امریکی صدر نے پولیس سے متعلق اہم حکم نامے پر دستخط کر دیے، گلا دبانے پر پابندی

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پولیس سے متعلق اہم ایگزیکٹو حکم نامے پر دستخط کر دیے، پولیس اہل کار کے لیے گلا دبانے پر پابندی ہوگی۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا میں سیاہ فام شہریوں کے ساتھ پولیس کے امتیازی سلوک کے مسلسل واقعات کے بعد ٹرمپ نے قانون نافذ کرنے والوں سے متعلق ایگزیکٹو حکم نامے پر دستخط کر دیے۔

    صدر ٹرمپ نے پریس کانفرنس میں کہا کہ پولیس اہل کار کے لیے گلا دبانے پر پابندی ہوگی سوائے اس کے کہ افسر کی جان کو خطرہ ہو۔ انھوں نے کہا پولیس محکموں کو بدنام کرنے اور انھیں تحلیل کرنے کی کوششوں کی سختی سے مخالفت کرتا ہوں۔

    امریکی میڈیا کے مطابق ٹرمپ کے دستخط شدہ حکم نامے میں طاقت کے بہترین طریقوں کے استعمال پر زور دیا گیا ہے، حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ پولیس محکموں میں ذہنی صحت اور دیگر امور کے لیے ماہرین تعینات کیے جائیں، اور اعلیٰ پولیسنگ کے معیار کو برقرار رکھا جائے۔ حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں میں احتساب کو فروغ دیا جائے اور پولیس افسران کو تعمیری کمیونٹی سروس کی تربیت دی جائے۔

    متعصب امریکی پولیس باز نہ آئی، ایک اور سیاہ فام ہلاک، پولیس چیف مستعفی

    قوانین میں اصلاحات کے حکم نامے پر دستخط کے بعد صدر ٹرمپ نے پریس کانفرنس میں کہا قانون کے بغیر انتشار اور سیکورٹی کے بغیر تباہی مچ سکتی ہے، محکمہ انصاف پولیس محکموں کو گرانٹ فراہم کرے گا۔ صدر ٹرمپ نے امریکی پولیس کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے کہا پولیس سروس کا ملک میں اعلیٰ ترین پیشہ ورانہ معیار ہے، تمام امریکیوں کے لیے امن، وقار اور مساوات کو یقینی بنانے کے لیے ہم متحد ہیں۔

    ٹرمپ نے بتایا کہ انھوں نے سفید فاموں کے ہاتھوں ہلاک احمد آربیری کے اہل خانہ سےملاقات کی ہے، نفرت اور تعصب کا نشانہ بننے والے دیگر افراد کے خاندانوں سے بھی ملاقات کی، تمام امریکی ان تمام خاندانوں کے ساتھ غم میں برابر کے شریک ہیں، آپ کے پیاروں کی جان رائیگاں نہیں جائے گی۔

    دریں اثنا، امریکا میں قانون نافذ کرنے والوں کی تنظیم ایف او پی نے ٹرمپ کے حکم نامے پر رد عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس حکم نامے کی موجودہ دور میں بہت ضرورت تھی، حکم نامے سے عوام اور افسران محفوظ ہوں گے۔

  • متعصب امریکی پولیس باز نہ آئی، ایک اور سیاہ فام ہلاک، پولیس چیف مستعفی

    متعصب امریکی پولیس باز نہ آئی، ایک اور سیاہ فام ہلاک، پولیس چیف مستعفی

    اٹلانٹا: امریکی ریاست جارجیا کے شہر اٹلانٹا میں ایک اور سیاہ فام نوجوان نسل پرست پولیس اہل کاروں کے ہاتھوں مارا گیا، واقعے کی ویڈیو سامنے آتے ہی اٹلانٹا میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔

    امریکی میڈیا کے مطابق امریکا کے شہر اٹلانٹا میں 27 سالہ سیاہ فام نوجوان ریشرڈ بروکس (Rayshard Brooks) ایک ریسٹورنٹ کے سامنے اپنی گاڑی میں سو رہا تھا کہ پولیس اسے گرفتار کرنے لگی، پولیس کی گرفت سے نکل بھاگنے کی کوشش پر اہل کار نے اس پر فائرنگ کر دی اور وہ موقع ہی پر ہلاک ہو گیا۔

    امریکہ : سیاہ فام کے ساتھ بہیمانہ سلوک کا دوسرا واقعہ، پولیس اہلکار نے گولی ماردی

    اٹلانٹا کی سیاہ فام میئر کیشا لانس باٹم نے نوجوان کی ہلاکت پر پولیس کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ پولیس اہل کار فیصلہ کر سکتا تھا کہ کیا کرنا چاہیے اور کیا کیا جا سکتا ہے، نوجوان کی ہلاکت کے بعد اٹلانٹا شہر کی خاتون پولیس چیف ایریکا شیلڈز نے بھی استعفیٰ دے دیا۔

    اس افسوس ناک واقعے کی ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد سے اٹلانٹا میں شدید مظاہرے جاری ہیں، اٹلانٹا میں 6 پولیس اہل کاروں پر پہلے ہی اختیارات سے تجاوز کا مقدمہ چل رہا ہے۔

    یاد کہ 25 مئی کو امریکی ریاست منیسوٹا کے شہر مینی پولس میں پولیس نے ایک غیر مسلح سیاہ فام جارج فلائیڈ کو گردن پر گھٹنا دبا کر مار ڈالا تھا، جس کے بعد امریکا بھر میں نسلی تعصب کے خلاف شدید احتجاج شروع ہوا۔

  • ایک اور سیاہ فام کے قتل کی دل دہلا دینے والی ویڈیو وائرل

    ایک اور سیاہ فام کے قتل کی دل دہلا دینے والی ویڈیو وائرل

    واشنگٹن: امریکا میں پولیس اہلکار کے ہاتھوں گزشتہ ماہ قتل ہونے والے سیاہ فام کی دل دہلا دینے والی ویڈیو منظر عام پرآگئی، مناظر میں پولیس کو فائرنگ کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکی ریاست نیوجرسی میں 23 مئی کو ’میورس گورڈن‘ نامی سیاہ فام کو پولیس اہلکار نے سڑک پر گولی مار کر ہلاک کردیا تھا جس کی ویڈیو اب منظر عام پر آچکی ہے۔

    نیوجرسی پولیس اہلکار نے گارڈن اسٹیٹ کے علاقے میں سیاہ فام کو ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر گرفتار کیا اور اپنی گاڑی میں ہی قید کردیا، میورس کی جانب سے مزاحمت پر اہلکار نے 6 گولیاں مار کر شہری کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

    اٹارنی جنرل ’گربر‘ کیس کی تحقیقات کررہا ہے، پولیس اہلکار کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کے احتساب سے متعلق قانون کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا ہے، اٹارنی جنرل نے مذکورہ اہلکار کی شناخت بھی ظاہر کردی ہے۔

    سیاہ فام کو ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر روکا گیا تھا جو بعد میں ہلاکت کا سبب بن گیا۔

  • کینیڈا میں ’عجیب وغریب‘ شخص کی گرفتاری، اصل حقیقت سامنے آگئی

    کینیڈا میں ’عجیب وغریب‘ شخص کی گرفتاری، اصل حقیقت سامنے آگئی

    اوٹاوا: کینیڈین پولیس نے نسل پرستی کے خلاف تحریک میں انتشار پھیلانے کی کوشش کرنے والے سفید فام شہری کو گرفتار کرلیا جس نے چہرے پر سیاہی مل کر سیاہ فام کا روپ دھار رکھا تھا۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکی پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام کی ہلاکت کے بعد دنیا بھر میں مظاہرے پھوٹ پڑے ہیں اور کینیڈا میں بھی احتجاج کیا جارہا ہے۔ مظاہرے کے دوران ایک نسل پرست سفید فام نوجوان منظر عام پر آیا جس نے پورے جسم میں کالی سیاہی مل رکھی تھی۔

    رپورٹ کے مطابق مذکورہ شخص نے مظاہرے میں شامل ہوکر سیاہ فام کے خلاف نعرے لگائے اور نسل پرستی کو ہوا دینے کی کوشش کی جس پر پولیس نے ایکشن لیتے ہوئے گرفتار کرلیا۔

    سیاہ فام کی ہلاکت کے خلاف امریکا میں احتجاج کا 12واں روز، ٹرمپ کا اہم بیان

    یہ واقعہ کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں ہونے والے مظاہرے کے دوران پیش آیا۔ ملزم کی گرفتاری کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی، احتجاج کے دوران مذکورہ نوجوان نے مغلظات بھی بکیں۔

    گرفتاری کے دوران ملزم چیختے ہوئے کہہ رہا تھا ’ مجھے ہر کام کرنے میں آزادی ہونی چاہیے‘۔ پولیس نے پرامن مظاہرے کو انتشار کا رنگ دینے کی کوشش کے جرم میں ملزم کو گرفتار کرکے مقدمہ درج کرلیا ہے۔

  • معروف یوٹیوبر چوری کرتے پکڑے گئے

    معروف یوٹیوبر چوری کرتے پکڑے گئے

    ایریزونا: امریکی ریاست ایریزونا کے ایک علاقے میں معروف یوٹیوبر اور سوشل میڈیا پرسن پر پولیس نے لوٹ مار کرنے کا مقدمہ کر دیا۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق ایریزونا کے صحرائی شہر اسکاٹسڈیل میں ایک یوٹیوبر جیک پال کے خلاف پولیس نے مبینہ لوٹ مار اور فسادات میں ملوث ہونے پر مقدمہ درج کر دیا ہے۔

    پولیس کا کہنا تھا کہ انھیں ایسی سیکڑوں ویڈیوز موصول ہوئی ہیں جن میں 23 سالہ جیک جوزف پال موجود ہے، وہ فیشن اسکوائر مال میں داخل ہوا اور مال بند ہونے کے باوجود وہاں غیر قانونی طور پر موجود رہا، پولیس نے وہاں مجمع لگانا بھی غیر قانونی قرار دیا تھا۔

    پولیس کے مطابق جوزف پال کو سمن بھیجا گیا ہے کہ وہ ایک ماہ کے اندر عدالت میں پیش ہوں، تاہم انھیں گرفتار نہیں کیا گیا۔

    جوزف پال نے جزوی طور پر الزامات قبول کرتے ہوئے کہا کہ ٹھیک ہے، مجھے میری سزا دو لیکن اس کے بعد جارج فلائیڈ کے معاملے پر توجہ مرکوز کریں، کیوں کہ سیاہ فاموں کی زندگی بھی اہم ہے۔

    پال نے ایک ٹویٹ کے ذریعے لوٹ مار کے حوالے سے کہا کہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ میں یا میرا کوئی ساتھی کسی بھی لوٹ مار یا توڑ پھوڑ میں ملوث نہیں ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ وہ مذکورہ مقام پر اپنے تجربات دوسروں سے شیئر کرنے اور جارج فلائیڈ کی موت پر اس غم و غصے کے اظہار کی فلم بندی کر رہا تھا جو ہر جگہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

    پولیس کا کہنا تھا کہ 30 مئی کو مال ایریا کے ارد گرد لوگوں کا مجمع اکھٹا ہو گیا تھا اور انھوں نے دکانوں میں توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی تھی۔ پولیس نے متعدد لوگوں کو گرفتار بھی کیا جن سے ہزاروں ڈالرز لوٹی رقم برآمد کی گئی۔

    واضح رہے کہ جوزف پال کے یو ٹیوب چینل پر 2 کروڑ سے زائد سبسکرائبرز ہیں۔