Tag: سیاہ فام امریکی

  • ایک زہریلی پھلی جو سیاہ فام پرسی جولین کی وجہِ شہرت بنی

    ایک زہریلی پھلی جو سیاہ فام پرسی جولین کی وجہِ شہرت بنی

    جہاں بہت سے لوگ میز پر رکھے ہوئے کسی پھلی کے بیج کو محض بیچ اور ایک دانہ سمجھتے تھے، وہاں پرسی جولین (Percy Lavon Julian) کو وہ میز اپنے لیے ایک تجربہ گاہ نظر آتی تھی۔ پھلی کا وہ دانہ بھی اس کے لیے بہت اہم ہوتا تھا۔

    جولین آگے چل کر ایک کیمیا دان بنے۔ وہ نباتات کے ماہر تھے۔ پودوں کے قدرتی اجزا اور ان کی خصوصیات پر تحقیق اور تجربات کرتے ہوئے انھوں نے انسانوں کے بعض امراض کا علاج دریافت کیا۔

    انھوں نے کالا بار پھلی سے معمر افراد میں اندھے پن کی ایک بڑی وجہ بننے والی بیماری، موتیے کا علاج دریافت کیا۔ سویا بین پر ان کی تحقیق اور تجربات سے جوڑوں کے درد کی بیماری، گٹھیا کے لیے ٹیکوں سے لے کر دوسری عالمی جنگ میں طیارہ بردار جہازوں پر لگنے والی آگ کو روکنے کے لیے استعمال ہونے والی بہت سی چیزیں انہی کی دریافت ہیں۔

    کالا بار ایک زہریلی پھلی ہے جس کے بارے میں اس کیمیا دان نے کہا تھا، “جب میں نے پہلی بار اسے دیکھا تو جامنی رنگ کی یہ پھلی خوب صورت دکھائی دی، مگر یہ نہ صرف دیکھنے میں خوبصورت ہے بلکہ اس کے اندر جو کچھ ہے، وہ بھی کارآمد ہے۔”

    جولین کا شمار بیسویں صدی کے عظیم امریکی سائنس دانوں میں ہوتا ہے۔ وہ افریقی نژاد امریکی تھے جنھیں‌ اس زمانے میں‌ نسل پرستی اور سیاہ فاموں سے ناروا سلوک اور ہر میدان میں تفریق و امتیاز کا سامنا بھی رہا، لیکن انھوں‌ نے اپنی تمام توانائی انسانوں کو فائدہ پہنچانے اور دنیا کی بھلائی پر صرف کی اور اپنے کام میں‌ مگن رہے۔

    1975ء میں جولین اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ جولین 1899ء میں منٹگمری، الاباما میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ امریکا میں‌ غلام بنا کر لائے گئے افریقیوں کی اولاد تھے۔ اس دور میں‌ سیاہ فاموں‌ کو سفید فام امریکیوں کے مقابلے میں‌ تعلیم کے یکساں‌ اور معیاری مواقع میسر نہیں‌ تھے، جولین نے بھی نسلی بنیادوں پر قائم کردہ اسکولوں میں تعلیم حاصل کی جہاں سیاہ فام طلبا آٹھویں جماعت سے آگے نہیں پڑھ سکتے تھے۔

    جولین کے والدین استاد تھے اور انھوں نے اپنے چھے بچّوں کے لیے گھر میں‌ ایک لائبریری بنا رکھی تھی جس نے جولین کو لکھنے پڑھنے اور آگے بڑھنے میں مدد دی۔ بعد میں‌ جولین نے انڈیانا کی ڈی پاؤ یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔

    کالج کے زمانے میں‌ جولین نے ویٹر کے طور پر کام کیا۔ یہی نہیں بلکہ طلبا کی ایک رہائشی عمارت کے آتش دانوں میں لکڑیاں جھونکنے کا کام بھی کیا جس کے بدلے انھیں کیمپس میں رہائش کے لیے ایک کمرہ ملا ہوا تھا۔ 1920ء میں گریجویشن مکمل کرنے کے بعد جب انھوں نے ملازمت حاصل کرنا چاہی تو بعض نجی کمپنیوں نے انکار کردیا۔ جولین مایوس نہیں ہوئے اور کوشش جاری رکھی، بالآخر گلڈن کمپنی نے انھیں موقع دیا اور جولین نے بھی خود کو اہل ثابت کیا۔ سویا بین پر ان کی تحقیق نے لیٹکس رنگوں کی تیاری میں اس کمپنی کو بہت مدد دی۔

    1935ء میں جولین نے دنیا بھر میں شہرت حاصل کی اور کالا بار پر تحقیق اور تجربات سے فائیسو سٹیگمین کی وہ مقدار حاصل کرنے میں‌ کام یاب رہے جس سے موتیے کے مریضوں کے علاج میں‌ مدد ملی۔ ان کی کوششوں کے بعد ہی موتیے کے علاج کے لیے کافی مقدار میں فائیسو سٹیگمین بننا شروع ہوئی۔

    امریکا اور دنیا بھر میں‌ اس سیاہ فام کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں‌ متعدد ایوارڈز سے نوازا گیا اور انھیں آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔

  • 2020ء: ‘میں سانس نہیں لے پا رہا ہوں!’

    2020ء: ‘میں سانس نہیں لے پا رہا ہوں!’

    امریکا کے اُس شہری کی جلد کا رنگ کالا تھا اور وہ غیرمسلح تھا۔ دنیا اُسے مظلوم کہتی ہے، کیوں کہ جس وقت اس کی موت واقع ہوئی، وہ ایک پولیس افسر کی گرفت میں‌ تھا۔ مکمل طور پر بے بس اور وہ وہاں‌ سے بھاگ بھی نہیں‌ سکتا تھا۔ اس کے گرد دوسرے پولیس اہل کار بھی موجود تھے۔

    25 مئی 2020ء کو، اس سیاہ فام، غیر مسلح شخص کو ایک سفید فام پولیس افسر نے ‘موت کے گھاٹ’ اتار دیا۔ اس کا نام جارج فلوئیڈ تھا جسے ایک سڑک پر پولیس افسر نے ‘قابو’ کیا اور پھر اس کی گردن پر اپنا گھٹنا رکھ دیا۔ 46 سالہ جارج یہ بوجھ برداشت نہ کرسکا اور اس نے دَم توڑ دیا۔

    پولیس کی اس بربریت اور سفاکی کی ویڈیو منظرِ عام پر آئی تو لوگوں کو معلوم ہوا کہ سڑک پر تکلیف دہ حالت میں پڑا ہوا سیاہ فام شخص اور وہاں موجود افراد اُس پولیس افسر کو گردن پر دباؤ کم کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔

    جارج کہہ رہا تھا، ’میں سانس نہیں لے پا رہا ہوں۔‘ لیکن اس کی یہ آواز پولیس افسر کو اپنے ارادے سے باز نہیں‌ رکھ سکی اور جارج فلوئیڈ مر گیا۔

    اس سیاہ فام کے آخری جملے نے امریکیوں کو غم و غصّے اور احتجاج کی طرف دھکیل دیا۔ اس دردناک منظر کو دیکھنے والے امریکیوں اور دنیا کے مختلف ممالک کے شہریوں نے ‘بلیک لائیوز میٹر’ کا نعرہ بلند کیا اور عظیم ریاست اور سپر پاور ہونے کے دعوے دار امریکا کو اس غیر انسانی سلوک اور ناانصافی پر مطعون کرتے ہوئے جارج کے لیے انصاف کا مطالبہ کردیا۔

    امریکا کی تاریخ میں‌ 2020ء کا یہ واقعہ سیاہ فام افراد سے نفرت، تعصب اور ظلم و ناانصافی کی بدترین مثال کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

    گو کہ امریکا میں‌ کسی سیاہ فام کی ہجوم یا پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کا یہ پہلا واقعہ نہیں، لیکن اس واقعے نے کووڈ 19 کی وبا کے دوران لوگوں‌ کو اس کے خلاف اجتماع اور سڑکوں پر مظاہروں پر مجبور کردیا تھا۔ ان میں‌ سفید فام امریکی بھی شامل تھے۔

    سیاہ فام امریکا کی کُل آبادی کا 13 فی صد بتائے جاتے ہیں۔ ان کے اجداد افریقی تھے جنھوں نے غلام کی حیثیت سے اس سرزمین پر قدم رکھا تھا۔ آج بھی امریکا میں غلاموں‌ کی یہ اولادیں‌ رہائش، تعلیم اور روزگار کے حوالے سے بدترین مسائل سے دوچار ہیں۔ انھیں‌ تعصب اور نسل پرستی کے عفریت کا سامنا ہے جس کے خلاف کئی تنظیمیں سرگرمِ عمل ہیں، لیکن تارکینِ وطن سیاہ فام افراد پر پولیس تشدد اور ان کی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے۔

    2020ء میں‌ نسل پرستی کے خلاف ‘بلیک لائیوز میٹر’ وہ بڑی تحریک تھی جس نے کرونا وائرس سے خوف زدہ انسانوں دنیا بھر میں اکٹھا ہوکر اس کے خلاف احتجاج پر اکسایا۔

    امریکا میں نسل پرستی، سیاہ فام افراد سے امتیازی سلوک اور پولیس کے ہاتھوں قتل کے ایسے واقعات کے خلاف سڑکوں پر آنے والوں کا کہنا تھاکہ صدیوں پرانی عصبیت اور مخصوص ذہنیت کے نتیجے میں پروان چڑھنے والی سوچ نے ایک اور نہتّے اور بے بس انسان سے اس کی زندگی چھین لی۔

    اس واقعے کے خلاف آسٹریلیا، برطانیہ، فرانس اور ہالینڈ میں بھی احتجاجی اجتماعات ہوئے، اور‌ شرکا نے نسلی مساوات اور سیاہ فام امریکیوں‌ کے حق میں‌ آواز بلند کی اور بلیک لائیوز میٹر کی تحریک نے زور پکڑا۔ امریکا میں‌ مظاہرین جائے وقوع پر جمع ہوئے اور جارج کے آخری الفاظ دہراتے رہے۔

    اس برس انتخابات نے ثابت کیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ بھی امریکی عوام کو محبوب نہیں‌ رہے اور انھیں وائٹ ہاؤس سے رخصت ہونا پڑے گا، لیکن اس سے پہلے انھوں نے احتجاجی مظاہرین کو بھی اپنے سخت اور متنازع بیان کی وجہ سے مایوس اور ناراض کیا تھا۔

    ڈونلڈ ٹرمپ افریقی اور جنوبی امریکی ممالک کے تارکینِ وطن کے بارے میں اشتعال انگیز کلمات ادا کرنے سے خود کو نہیں روک سکے تھے جس نے اس بحث کو بھی جنم دیا کہ کیا وہ نسل پرست ہیں؟

    گو سیاہ فاموں کے حق میں مظاہرے امریکا میں‌ پہلے بھی ہوتے رہے ہیں، لیکن اس گزرتے ہوئے سال میں‌ جارج فلوئیڈ کی موت نے ایک بار پھر امریکی معاشرے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور نسلی امتیاز کے خلاف اس کے آخری الفاظ اور اس کی فریاد ایک نعرہ بن گئی۔

  • ایک اجلی صبح کا خواب دیکھنے والا امریکی سیاہ فام!

    ایک اجلی صبح کا خواب دیکھنے والا امریکی سیاہ فام!

    سیاہ فام مارٹن لوتھر کنگ کو دنیا ایک عظیم راہ نما اور انسانی حقوق کا علم بردار مانتی ہے۔

    امریکا کی جنوبی ریاست جارجیا کے ایک سیاہ فام پادری کے گھر آنکھ کھولنے والے مارٹن لوتھر کنگ کو نفرت کے ایک پرچارک نے قتل کردیا، لیکن ان کی فکر آج بھی زندہ ہے اور زمین پر بسنے والے اربوں انسانوں کو دوستی، مساوات، بھائی چارہ، مدد اور تعاون کے لیے آمادہ کرتی اور روشن راستوں پر مل کر آگے بڑھنے کی ترغیب دیتی ہے۔

    مارٹن لوتھر کنگ نے افریقی امریکی شہریوں کے حقوق کی شان دار اور پُرامن مہم چلائی اور امریکا میں شہریوں کے مساوی حقوق کے عظیم راہ نما بن کر ابھرے۔

    ان دنوں امریکا میں ایک سیاہ فام شخص کی ہلاکت کے بعد احتجاج اور پُرتشدد مظاہرے ہورہے ہیں جو دنیا بھر میں پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کی شہ سرخیوں میں‌ ہیں۔

    امریکا میں سیاہ فاموں کی تاریخ چار سو سال پر محیط ہے جب کہ رنگ و نسل کی بنیاد پر تعصب اور قتل و غارت گری کا سلسلہ بھی دہائیوں سے جاری ہے۔

    مارٹن لوتھر کنگ عدم تشدد کا فلسفہ سامنے رکھتے ہوئے نسلی تفریق کے خاتمے کی کوشش کی اور ان کی جدوجہد نے حقوق کے راستے میں کئی سنگِ میل طے کیے۔

    مارٹن لوتھر کنگ کی ایک تقریر دنیا بھر میں مشہور ہے اور اسے شان دار خطاب اور عظیم تقریر شمار کیا جاتا ہے۔ مارٹن لوتھر کنگ نے یہ تقریر 28 اگست 1963 کو کی تھی۔

    اس تقریر کا یہ ٹکڑا دنیا بھر میں سنا اور پڑھا گیا اور ان کی تقریر کے مختلف زبانوں میں تراجم ہوئے۔

    ’’میرا اک خواب ہے کہ جارجیا کی سرخ پہاڑیوں پر ایک دن سفید فام آقاؤں اور سیاہ فام غلاموں کے وارث ایک دوسرے سے معانقہ کریں۔

    میرا اک خواب ہے کہ میرے بچے اپنے رنگ کے بجائے اپنے کردار کے سبب پہچانے جائیں۔۔۔۔‘‘

    اس تقریر میں مارٹن لوتھر نے نسلی تعصب پر مبنی امتیازی قوانین کے خاتمے کا مطالبہ کیا تھا جو امریکا کی مختلف ریاستوں میں‌ نافذ تھے جن کے تحت سیاہ فام غلام شہریت اور بنیادی حقوق سے محروم تھے۔ اس شان دار تقریر کو I have a dream کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔

  • امریکی باکسر نے سیاہ فام مقتول کے جنازے کے اخراجات اٹھا لیے

    امریکی باکسر نے سیاہ فام مقتول کے جنازے کے اخراجات اٹھا لیے

    مینیسوٹا: امریکی ریاست مینیسوٹا میں سفید فام پولیس اہل کاروں کے ہاتھوں جان گنوانے والے سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کے جنازے کے اخراجات ایک سابقہ سیاہ فام امریکی باکسر نے اٹھا لیے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکی باکسر فلائیڈ مے ویدر نے سیاہ فام مقتول جارج فلائیڈ کے جنازے کے اخراجات اٹھانے کی پیش کش کی تھی، جسے جارج فلائیڈ کے اہل خانہ نے قبول کر لیا ہے۔

    اجازت ملنے پر فلائیڈ مے ویدر کی جانب سے جنازے کے لیے 88 ہزار 500 ڈالر کا چیک بھجوایا گیا۔ مے ویدر نے اس سے قبل اپنے سابقہ حریف باکسر جنارو ہرنینڈز اور 2011 میں امریکی لے جنڈ پروفیشنل باکسر جو فریزر کے جنازوں کے اخراجات بھی اٹھائے تھے۔

    ریاستیں حالات قابو نہ کر سکیں تو فوج تعینات کر دی جائے گی

    یاد رہے کہ 25 مئی کو امریکی ریاست مینیسوٹا کے شہر مینی پولس میں ایک سفید فام اہل کار ڈیرک شوین نے سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کو اس کی گاڑی سے اتار کر ہاتھ پیچھے ہتھکڑی سے باندھے اور پھر زمین پر گرا کر گھٹنے سے اس کی گردن اس وقت تک دباتا رہا جب تک اس کی سانس رک نہیں گئی۔ اس دوران تین اور پولیس اہل کار بھی موقع پر موجود تھے۔ ڈیرک شوین کی بیوی کیلی نے اس واقعے کے بعد اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے شوہر سے طلاق کی درخواست دائر کر دی۔

    اس افسوس ناک واقعے کے بعد امریکا بھر میں نسلی فسادات کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے، سیاہ فام امریکیوں نے ملک بھر میں پر تشدد مظاہرے کیے، وائٹ ہاؤس کے باہر بھی مسلسل احتجاج کیا جا رہا ہے۔

    ادھر 31 مئی کو ٹرمپ انتظامیہ نے مظاہروں پر قابو پانے کے لیے مختلف شہروں میں کرفیو نافذ کرنے کا اعلان کیا، گزشتہ روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دی کہ اگر ریاستیں ابتر ہونے والے حالات پر قابو نہ کر سکیں تو فوج تعینات کر دی جائے گی۔ انھوں نے کہا جارج فلائیڈ کو انصاف فراہم کیا جائے گا، ہم ان کی ہلاکت پر جاری پر امن احتجاجی مظاہرین کے ساتھ ہیں، لیکن مظاہروں کی آڑ میں کچھ لوگ انتشار، لوٹ مار، جلاؤ گھیراؤ میں ملوث ہیں۔