Tag: سیاہ فام

  • سیاہ فام جارج فلائیڈ کی دردناک موت، فیفا نے بھی احتجاج میں آواز شامل کرلی

    سیاہ فام جارج فلائیڈ کی دردناک موت، فیفا نے بھی احتجاج میں آواز شامل کرلی

    برن: فٹ بال کی عالمی تنظیم فیفا (FIFA) نے بھی سیاہ فام امریکی جارج فلائیڈ کی دردناک موت پر اٹھنے والی احتجاجی آوازوں میں اپنی آواز شامل کر لی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا میں پولیس حراست کے دوران غیر مسلح سیاہ فام جارج فلائیڈ کی موت پر سامنے آنے والے غم و غصے کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لیے دنیا بھر کی اسپورٹس لیگز، ٹیموں اور کھلاڑیوں کے ساتھ فیفا نے بھی خود کو شامل کر لیا ہے۔

    امریکا میں نیشنل فٹ بال لیگ، نیشنل ہاکی لیگ اور نیشنل باسکٹ بال ایسوسی ایشن نسلی تعصب کے خلاف بیانات جاری کر چکے ہیں، میجر لیگ بیس بال کو ابھی بیان جاری کرنا ہے، ان چاروں لیگز کی 123 ٹیموں میں سے 74 ٹیموں (60 فی صد) نے احتجاج کے حوالے سے اپنے بیانات جاری کیے۔

    ان لیگوں سے تعلق رکھنے والے چند نمایاں امریکی کھلاڑیوں نے احتجاج کے حق میں بھرپور آواز اٹھائی، مشہور گالفر ٹائیگر ووڈ بھی پیچھے نہیں رہے، اگرچہ وہ سماجی معاملات پر بہت کم منہ کھولتے ہیں تاہم جارج فلائیڈ کی موت پر انھوں نے تبدیلی کے لیے واضح آواز بلند کی۔

    امریکا میں سیاہ فام کی ہلاکت پر ڈیرن سیمی بول پڑے

    جارج فلائیڈ کی موت پر امریکا میں اٹھنے والی آوازیں اب امریکی سرحدوں سے باہر نکل کر پوری دنیا میں سنی جا رہی ہیں، رواں ہفتے جرمنی میں میچز کے دوران متعدد فٹ بال کھلاڑیوں نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا، اتوار کو میچ کے دوران برطانوی پلیئر جیڈن سانچو اور ہسپانوی پلیئر اشرف حکیمی نے ایسے شرٹس پہنے جس پر لکھا تھا ‘جارج فلائیڈ کو انصاف دو’۔

    واضح رہے کہ فیفا ایک ایسی تنظیم ہے جو سیاست، مذہب اور سماجی مسائل پر میدان کے اندر کھلاڑیوں کی جانب سے ذاتی خیالات کے اظہار کو ذرا برابر بھی برداشت نہیں کرتی۔ تاہم اتوار کو جب جیڈن سانچو اور اشرف حکیمی کے احتجاج پر ایکشن لیا گیا تو فیفا نے رد عمل میں ٹورنامنٹ کے منتظمین سے کہا کہ وہ اس پر ‘کامن سینس’ سے کام لیں۔

    منگل کو جاری ایک بیان میں فیفا نے کہا جارج فلائیڈ کے معاملے میں دردناک حالات کی روشنی میں فٹ بالرز کے جذبات اور خدشات کی گہرائی کو سمجھا جا سکتا ہے، فیفا کے صدر جیان انفنٹینو نے ایک بیان میں مذکورہ پلیئرز کے سلسلے میں کہا تھا کہ انھیں سزا نہیں بلکہ ان کو سراہا جانا چاہیے تھا۔ خیال رہے کہ فیفا کئی بار ہر قسم کی نسلی پرستی اور امتیازی سلوک کے خلاف اپنے مؤقف کا واضح اظہار کر چکی ہے، اور نسل پرستی کے خلاف کئی کمپینز چلا چکی ہے۔

    ادھر ویسٹ انڈیز کرکٹ ٹیم کے کپتان ڈیرن سیمی نے آئی سی سی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اور اس کے ممبر ممالک بھی اس سماجی نا انصافی کے خلاف آواز بلند کریں۔ انھوں نے ٹویٹر اکاؤنٹ کے ذریعے کہا آئی سی سی اور دیگر بورڈز کیا نہیں دیکھ رہے کہ مجھ جیسے لوگوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے، کیا آپ اس کے خلاف نہیں بولیں گے؟

  • امریکی باکسر نے سیاہ فام مقتول کے جنازے کے اخراجات اٹھا لیے

    امریکی باکسر نے سیاہ فام مقتول کے جنازے کے اخراجات اٹھا لیے

    مینیسوٹا: امریکی ریاست مینیسوٹا میں سفید فام پولیس اہل کاروں کے ہاتھوں جان گنوانے والے سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کے جنازے کے اخراجات ایک سابقہ سیاہ فام امریکی باکسر نے اٹھا لیے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکی باکسر فلائیڈ مے ویدر نے سیاہ فام مقتول جارج فلائیڈ کے جنازے کے اخراجات اٹھانے کی پیش کش کی تھی، جسے جارج فلائیڈ کے اہل خانہ نے قبول کر لیا ہے۔

    اجازت ملنے پر فلائیڈ مے ویدر کی جانب سے جنازے کے لیے 88 ہزار 500 ڈالر کا چیک بھجوایا گیا۔ مے ویدر نے اس سے قبل اپنے سابقہ حریف باکسر جنارو ہرنینڈز اور 2011 میں امریکی لے جنڈ پروفیشنل باکسر جو فریزر کے جنازوں کے اخراجات بھی اٹھائے تھے۔

    ریاستیں حالات قابو نہ کر سکیں تو فوج تعینات کر دی جائے گی

    یاد رہے کہ 25 مئی کو امریکی ریاست مینیسوٹا کے شہر مینی پولس میں ایک سفید فام اہل کار ڈیرک شوین نے سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کو اس کی گاڑی سے اتار کر ہاتھ پیچھے ہتھکڑی سے باندھے اور پھر زمین پر گرا کر گھٹنے سے اس کی گردن اس وقت تک دباتا رہا جب تک اس کی سانس رک نہیں گئی۔ اس دوران تین اور پولیس اہل کار بھی موقع پر موجود تھے۔ ڈیرک شوین کی بیوی کیلی نے اس واقعے کے بعد اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے شوہر سے طلاق کی درخواست دائر کر دی۔

    اس افسوس ناک واقعے کے بعد امریکا بھر میں نسلی فسادات کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے، سیاہ فام امریکیوں نے ملک بھر میں پر تشدد مظاہرے کیے، وائٹ ہاؤس کے باہر بھی مسلسل احتجاج کیا جا رہا ہے۔

    ادھر 31 مئی کو ٹرمپ انتظامیہ نے مظاہروں پر قابو پانے کے لیے مختلف شہروں میں کرفیو نافذ کرنے کا اعلان کیا، گزشتہ روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دی کہ اگر ریاستیں ابتر ہونے والے حالات پر قابو نہ کر سکیں تو فوج تعینات کر دی جائے گی۔ انھوں نے کہا جارج فلائیڈ کو انصاف فراہم کیا جائے گا، ہم ان کی ہلاکت پر جاری پر امن احتجاجی مظاہرین کے ساتھ ہیں، لیکن مظاہروں کی آڑ میں کچھ لوگ انتشار، لوٹ مار، جلاؤ گھیراؤ میں ملوث ہیں۔

  • امریکی سیاہ فام کا قاتل کہاں ہے؟

    امریکی سیاہ فام کا قاتل کہاں ہے؟

    واشنگٹن: امریکی سیاہ فام کے قاتل سابق پولیس اہلکار کو ملک کے سب سے محفوظ ترین جیل میں رکھا گیا ہے۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ساہ فام کے قتل کے بعد امریکا بھر میں پرتشدد مظاہروں کے پیش نظر ’ڈیرک چون‘ نامی قاتل پولیس اہلکار کو ملک میں قائم سب سے محفوظ ترین جیل میں رکھا گیا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق امریکی ریاست ’منی سوٹا‘ میں قائم جیل کو ملک کے اہم ترین جیلوں میں شمار کیا جاتا ہے جہاں سیکیورٹی کے فل پروف انتظامات کے علاوہ قیدیوں پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے۔

    ’جیورج فلوئڈ‘ نامی سیاہ فام کے قتل کے بعد ملک بھر میں مظاہرے پھوٹ پڑے ہیں جبکہ انتظامیہ کو خدشہ ہے کہ مظاہرین ڈیرک چون پر حملے کے لیے جیل تک بھی پہنچ سکتے ہیں اسی کے پیش نظر اقدامات سخت کردیے گئے ہیں۔

    امریکا : مظاہروں میں مزید شدت، ٹرمپ اہلخانہ سمیت محفوظ مقام پر منتقل

    سابق پولیس اہلکار کو پہلی بار 8 جون کو عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

    خیال رہے کہ کچھ روز قبل امریکی ریاست منی سوٹا میں سابق پولیس افسر ڈیرک چون کے تشدد کے باعث سیاہ فام امریکی جارج فلوئڈ ہلاک ہوگیا تھا، سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پولیس افسر متاثرہ شخص کی گردن پر کافی دیر تک گھٹنا رکھے بٹھا رہا جو اس کی موت کا باعث بنا۔

    سیاہ فام شخص کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے خلاف مسلسل چھٹے روز بھی مظاہرے جاری ہیں، مشتعل افراد نے کئی گاڑیوں اور درجنوں املاک کو نذر آتش کردیا ہے، مظاہرین نے پولیس اسٹیشن کو بھی آگ لگا دی، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے پر درجنوں افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔

  • نسلی فسادات کا دائرہ امریکا بھر میں پھیل گیا، پولیس اہل کاروں پر قتل کا مقدمہ درج

    نسلی فسادات کا دائرہ امریکا بھر میں پھیل گیا، پولیس اہل کاروں پر قتل کا مقدمہ درج

    واشنگٹن: امریکا کی ایک ریاست مینیسوٹا میں سیاہ فام شخص کی ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے نسلی فسادات کا دائرہ امریکا بھر میں پھیل گیا ہے۔

    امریکی میڈیا کے مطابق سیاہ فام شخص کی مینی پولس شہر میں ہلاکت کے بعد آج احتجاج کا چوتھا روز ہے، مینیسوٹا پولیس سے شروع ہونے والے احتجاج کا دائرہ امریکا بھر میں پھیل چکا ہے، احتجاج کے دوران مظاہرین نے پولیس اسٹیشن سمیت سرکاری و نجی املاک اور گاڑیاں نذر آتش کیں۔

    توڑ پھوڑ، جلاؤ گھیراؤ اور لوٹ مار کے الزام میں درجنوں مظاہرین کو گرفتار کیا گیا، مینیسوٹا کے مئیر نے نیشنل گارڈز کو طلب کر لیا، کئی مقامات پر کرفیو بھی نافذ کر دیا گیا ہے، ادھر جارج فلائیڈ کے قتل میں ملوث پولیس اہل کاروں کو گرفتار کر کے ان کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کر لیا گیا۔

    امریکا میں سیاہ فام کی دردناک موت پولیس افسران کو لے ڈوبی

    وائٹ ہاؤس کے سامنے بھی مظاہرین کی بہت بڑی تعداد پہنچ گئی، مظاہرین نے امریکی صدر ٹرمپ کو پولیس تشدد کے واقعات کا ذمہ دار قرار دے دیا۔ ادھر ٹرمپ نے جارج فلائیڈ کے لواحقین کو فون کر کے انھیں انصاف فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی۔

    یاد رہے کہ 25 مئی کو امریکی شہر مینی پولس میں ایک سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کو پولیس اہل کاروں نے پکڑ کر ہتھکڑیاں لگانے کے بعد گھٹنے سے گردن دبا کر قتل کر دیا تھا، جس پر واقعے میں ملوث 4 پولیس اہل کاروں کو نوکری سے فارغ کر دیا تھا۔

    ٹوئٹر نے ڈونلڈ ٹرمپ کو وارننگ جاری کردی

    اس واقعے کے بعد مختلف شہروں میں نسلی فسادات شروع ہو گئے، جس پر ڈونلڈ ٹرمپ نے متنازع ٹویٹ کیا کہ لوگ لوٹ مار کرنے لگے ہیں، ایسا ہوگا تو ان پر فائرنگ بھی ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ مینی پولیس کے میئر جیکب فرے نہایت کم زور لیڈر ثابت ہوئے، احتجاج کرنے والے غنڈے مقتول جارج فلائیڈ کی تضحیک کر رہے ہیں۔ اس ٹویٹ پر ٹویٹر کی جانب سے امریکی صدر کو وارننگ بھی جاری کی گئی۔

  • امریکا میں سیاہ فام کی دردناک موت پولیس افسران کو لے ڈوبی

    امریکا میں سیاہ فام کی دردناک موت پولیس افسران کو لے ڈوبی

    مینیسوٹا: امریکی شہر مینی پولس میں ایک سیاہ فام امریکی کی موت 4 پولیس افسران کو لے ڈوبی۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکی ریاست مینیسوٹا کے شہر مینی پولس میں ایک سیاہ فام امریکی جارج فلائیڈ کی موت پر 4 پولیس افسران کو نوکری سے فارغ کر دیا گیا۔

    پولیس افسران کے خلاف یہ کارروائی ایک ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد کی گئی، جس میں ایک سفید فام پولیس اہل کار کو جارج فلائیڈ کی گردن پر گھٹنا دبا کر رکھے دیکھا گیا، جب کہ سیاہ فام شخص اس وقت غیر مسلح تھا۔

    یہ افسوس ناک واقعہ پیر کے روز پیش آیا تھا، پولیس افسر نے جارج فلائیڈ کے ہاتھ پیچھے کر کے ہتھ کھڑی لگا دی تھی اور اسے زمین پر منہ کے بل گرا کر اس کی گردن پر گھٹنا رکھ کر دباتا رہا، اس دوران سیاہ فام شخص تکلیف کے عالم میں اسے اٹھنے کے لیے کہتا رہا کہ وہ سانس نہیں لے پا رہا۔

    جارج فلائیڈ اور ان کی فیملی

    یہ ویڈیو کسی راہ گیر نے بنائی تھی، جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، اس میں سیاہ فام شخص کی آواز سنائی دیتی ہے، وہ بار بار درخواست کرتا ہے: پلیز مین، میں سانس نہیں لے پا رہا، میں سانس نہیں لے پا رہا۔ چند ہی منٹ کے بعد جارج فلائیڈ کی آنکھیں بند ہو گئیں اور آواز بھی خاموش ہو گئی۔

    تاہم پولیس افسر نے اپنا گھٹنا اس کی گردن سے نہیں ہٹایا، راہ گیر بھی چلاتے رہے کہ وہ حرکت نہیں کر رہا ہے، اسے مدد کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر ایک اور پولیس افسر پاس کھڑے ہو کر لوگوں کو دیکھتا رہا۔ بعد ازاں، جارج فلائیڈ کو اسپتال پہنچایا گیا لیکن وہ جاں بر نہ ہو سکا اور مر گیا۔ مینی پولس پولیس چیف میداریا ارادوندو نے ایک نیوز کانفرنس میں پولیس اہل کاروں کے نام نہ بتاتے ہوئے کہا کہ مذکورہ افسران کو فارغ کر دیا گیا ہے۔

    ریاست کی بیورو آف کریمنل اپریہنشن اور ایف بی آئی نے الگ الگ اس واقعے کی تحقیقات شروع کر دی ہیں، جارج فلائیڈ کی فیملی کے وکیل بین کرمپ کا کہنا تھا کہ جو کچھ ہوا وہ طاقت کا نہایت غلط، بہت زیادہ اور غیر انسانی استعمال تھا، جس نے ایک انسانی جان لے لی، پولیس اسے قید کر کے پوچھ گچھ کر سکتی تھی۔

    وکیل نے مینی پولس پولیس ڈپارٹمنٹ سے سوال کیا کہ آخر کتنی سفید و سیاہ فام جانیں مزید درکار ہوں گی اس نسلی امتیاز اور سیاہ فاموں کی ناقدری کے خاتمے کے لیے۔ دریں اثنا، مینی پولس کے میئر جیکب فرے نے اپنے بیان میں کہا کہ پولیس افسران کو فارغ کرنے کا فیصلہ ہمارے شہر کے لیے بالکل درست ہے، ہم اپنی اقدار بیان کر چکے ہیں، اب ہمیں ان کے مطابق زندگی گزارنا ہے۔

  • کیا ہماری زندگی بیکار ہے؟ سیاہ فام یہودیوں کا اسرائیل کے خلاف احتجاج

    کیا ہماری زندگی بیکار ہے؟ سیاہ فام یہودیوں کا اسرائیل کے خلاف احتجاج

    تل ابیب : سیاہ فام نوجوان کی پولیس افسر کے ہاتھوں ہلاکت کے خلاف ہونے والے شدید مظاہروں کے پیش نظر کچھ جگہوں پر پولیس نے اہم شاہراہیں بند کردیں، ملک کے 12 اہم راستوں کو بند کردیا جس کے باعث شدید ترین ٹریفک جام ہوگیا۔

    تفصیلات کے مطابق ناجائز صیہونی ریاست اسرائیل میں ایک پولیس اہلکار کے ہاتھوں غیر مسلح سیاہ فام لڑکے کی ہلاکت کے خلاف پر تشددمظاہروں کا رُکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ ایک آف ڈیوٹی پولیس افسر اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ کھیل کے میدان میں موجود تھا جب انس نے دیکھا کہ 2 افراد جھگڑ رہے ہیں،جب افسر نے اپنی شناخت کروائی تو سلمان تیکاہ نامی لڑکے نے ان پر پتھر پھینکے جس پر پولیس افسر نے خوفزدہ ہو کر اپنی زندگی بچانے کے لیے گولی چلادی جس سے نوجوان زخمی ہوگیا ۔

    پولیس کا کہنا تھا کہ طبی امداد فراہم کرنے والے عملے نے زخمی نوجوان کو فوری طور پر اسپتال منتقل کیا تاہم وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا تاہم عینی شاہدین نے پولیس کے اس موقف کو مسترد کردیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ مذکورہ واقعہ منظر عام پر آنے کے بعد اسرائیل کی سیاہ فام کمیونٹی احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر آگئی، 4 روز سے جاری ان مظاہروں میں کاروں اور ٹائرز کو آگ لگائی گئی، ایمبولینسز کو نقصان پہنچایا گیا اور احتجاج کا یہ سلسلہ پورے اسرائیل میں پھیل چکا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ ہزاروں افراد اپنے غم و غصے کا اظہار کرنے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے ہیں اوردارالحکومت تل ابیب سمیت ملک کے 12 اہم راستوں کو بند کردیا جس کے باعث شدید ترین ٹریفک جام ہوگیا، حتجاجی مظاہرے اس قدر شدت اختیار کر گئے ہیں کہ کچھ جگہوں پر پولیس نے اہم شاہراہیں بند کردیں۔

    غیر ملکی خبررساں اداروں کے مطابق مذکورہ واقعے کی تفتیش کے لیے افسر کو حراست میں لے کر چھوڑ دیا گیا لیکن احتجاج کے پیشِ نظر انہیں گھر میں نظر بند کردیا گیا۔

    اہم بات یہ ہے کہ یہ اقدام مظاہرے شروع ہونے کے کافی وقت بعد اٹھایا گیا جس میں دونوں اطراف سے درجنوں افراد زخمی ہوئے اور اب تک 136 مظاہرین کو حراست میں لیا جاچکا ہے۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق نوجوان کی ہلاکت پر احتجاج کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ سیاہ فام اسرائیلی طبقے کو روزانہ جس قسم کے نسل پرستی پر مبنی امتیازی سلوک کا سامنا ہے یہ احتجاج اس کے خلاف بھی ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ انہیں اپنی جلد کے رنگ کی وجہ سے طویل عرصے سے رہائش، تعلیم اور ملازمت میں بڑے پیمانے پر امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔

    خیال رہے کہ نسلی تعصب کے خلاف مظاہرے امریکا میں عمومی بات ہے اس سے قبل 2015 میں اسرائیل میں 2 پولیس افسران کے ہاتھوں ایک سیاہ فام فوجی کی پٹائی پر بھی بڑے پیمانے پر احتجاج ہوئے تھے۔

  • امریکا کے تینوں بڑے مقابلہ حسن سیاہ فام خواتین کے نام

    امریکا کے تینوں بڑے مقابلہ حسن سیاہ فام خواتین کے نام

    واشنگٹن: امریکا کی تاریخ میں پہلی بار 3 بڑے مقابلہ حسن مس امریکا، مس ٹین یو ایس اے اور مس یو ایس اے کا تاج سیاہ فام خواتین نے سر پر سجا لیا۔

    امریکا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 3 بڑے مقابلہ حسن مس امریکا، مس ٹین یو ایس اے اور مس یو ایس اے سیاہ فام خواتین نے جیت لیے۔ امریکا کی ان بلیک بیوٹیز میں نیا فرینکلن، کیلیک گیرس اور چیلسی کرسٹ شامل ہیں۔

    25 سالہ نیا فرینکلن گزشتہ برس ستمبر میں مس امریکا بنیں جبکہ گزشتہ ہفتے 18 سالہ کیلیگ گیرس نے مس ٹین یو ایس اے کا تاج اپنے سر سجایا۔ مس یو ایس اے کا تیسرا بڑا مقابلہ بھی سیاہ فام حسینہ 28 سالہ چیلسی کرسٹ نے جیتا۔

    ان 3 سیاہ فام خواتین کی فتح کو امریکا میں خوبصورتی کے بدلتے ہوئے پیمانوں کا مظہر سمجھا جارہا ہے جس میں کئی صدیاں لگ گئیں۔

    مقابلے میں فتح کے بعد نیا فرینکلن نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’کہا جاتا ہے کہ نسل معنی نہیں رکھتی، یا نسل پرستی کا وجود نہیں۔ لیکن امریکا میں صدیوں کی غلامی کی تاریخ کی وجہ سے یہ ایک حقیقت ہے‘۔

    مزید پڑھیں: ہالی ووڈ واک آف فیم پر 60 سال بعد ایشیائی اداکارہ کا نام درج

    3 سیاہ فام خواتین کی فتح نے کئی حکومتی خواتین کو بھی متاثر کیا۔ کئی اراکین کانگریس اور سنہ 2020 کی متوقع صدارتی امیدوار سینیٹر کمالہ حارث نے بھی تینوں خواتین کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر مبارکباد دی۔

    امریکا میں نسل پرستی اور تعصب کی طویل تاریخ کے باعث اب سیاہ فام حسیناﺅں کا انتخاب بڑی اہمیت کا حامل سمجھا جارہا ہے۔

  • کیا آپ ’ٹپ‘ دینے کی کی تاریخ جانتے ہیں؟

    کیا آپ ’ٹپ‘ دینے کی کی تاریخ جانتے ہیں؟

    ریستوران میں بیروں، ڈرائیورز یا چپراسیوں وغیرہ کو ٹپ کے طور پر معمولی سی رقم دینا اچھا عمل سمجھا جاتا ہے، لیکن کیا آپ اس کی تاریخ جانتے ہیں؟

    ٹپ دینا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ آپ نے اپنے سے کمتر شخص کے لیے ایک اچھا کام کیا، لیکن اس کی تاریخ نہایت نسل پرستانہ ہے۔

    دو صدیوں قبل امریکی ٹپ سسٹم کا آغاز ہی اس لیے کیا گیا تاکہ وہ غلام جو آزاد ہوگئے تھے انہیں غریب رکھا جائے، اور امیر افراد کو سستی قیمت پر ملازم فراہم کیے جاسکیں۔

    سنہ 1865 میں جب امریکا میں خانہ جنگی ختم ہوئی تو لاکھوں امیر لوگ ان غلاموں سے محروم ہوگئے جن سے وہ مفت میں بیگار لیتے تھے۔

    تاہم اس کے باوجود غلاموں پر سے ان کے آقاؤں کا اثر و رسوخ ختم نہ ہوسکا جو 200 سال سے انہیں غلام بنائے ہوئے تھے۔

    یہ آقا اب بھی چاہتے تھے کہ ان کا کام مفت میں کیا جائے اور سارا منافع ان کی اپنی جیبوں میں جائے جس کے لیے وہ نئے طریقے ڈھونڈنے میں لگے تھے۔

    بالآخر ابھرتی ہوئی ریستوران کی صنعت ایک بار پھر سے بلا معاوضہ لوگوں کو ملازم رکھنے میں کامیاب ہوگئی، اور اس کی جگہ انہیں کہا گیا کہ وہ گاہکوں سے ٹپ وصول کیاکریں۔

    یہ سلسلہ 1938 تک چلتا رہا اور اسی سال کم سے کم اجرت کا قانون منظور کیا گیا جو نہ ہونے کے برابر تھی۔

    اس وفاقی قانون کے تحت ٹپ لینے والی صنعتوں سے وابستہ مزدوروں کو 2 ڈالر فی گھنٹہ معاوضہ دیا جانا ضروری تھا اور یہ بہت کم معاوضہ تھا۔

    اس قانون کی بھی صرف 17 ریاستوں نے پابندی کی اور ملازمین سے 2 ڈالر فی گھنٹہ اجرت پر کام کروانے لگے۔

    یہاں پر بھی سیاہ فام گھاٹے میں رہے اور سفید فاموں نے ان پر سبقت لے لی۔ جب بھی کسی ریستوران میں سفید فام کو ملازمت دی جاتی تو اسے نسبتاً اچھی تنخواہ دی جاتی جبکہ ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ انہیں گاہکوں سے ٹپ بھی زیادہ ملتی۔

    اس کے برعکس امریکا میں آباد مختلف رنگ و نسل کی دیگر قوموں کا بری طرح استحصال ہونے لگا، دو ڈالر فی گھنٹہ کی ملازمت انہیں زندگی کی بنیادی سہولیات بھی فراہم کرنےسے قاصر تھی۔

    گو کہ اب صورتحال پہلے جیسی نہیں ہے اور امریکا سمیت دیگر ممالک میں کم سے کم اجرت کی رقم میں خاصا اضافہ کردیا گیا ہے تاہم ٹپ دینے کی روایت غلامی کے بدترین دورکی یاد دلاتی ہے۔

  • نیلسن منڈیلا کی چوتھی برسی پر خراج تحسین

    نیلسن منڈیلا کی چوتھی برسی پر خراج تحسین

    جوہانسبرگ : جنوبی افریقہ کے سابق صدر نیلسن منڈیلا کی چوتھی برسی پر انھیں خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے خصوصی تقریبات کا اہتمام کیا گیا اور ان کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے عزم کا اعادہ کیا گیا.

    تفصیلات کے مطابق نسلی تعصب کےخلاف جدوجہد کی علامت آنجہانی نیلسن منڈیلا کی آج چوتھی برسی جنوبی افریقہ سے دنیا بھر میں منائی گئی اور ذبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے محسن انسانیت کے فکر و فلسفہ کے فروغ کے لیے اقدامات پر تبادلہ خیال کیا گیا.

    سرکاری سطح پر مرکزی تقریب میں افکار نیلسن منڈیلا سے سجی محفل میں ان کی زندگی اور جدوجہد پر سیر ھاصل گفتگو کی گئی اور مرحوم کی جدوجہد کو نسلی تعصب کے تابوت میں آخری کیل قرار دیا گیا.

    جنوبی افریقہ کے عوام نے اپنے ہر دلعزیز قائد اور مسیحا کے درجات کی بلندی کے لیے دعائیہ تقریبات کا انعقاد کیا اور نیلسن منڈیلا کی قد آور تصاویر کے سامنے شمعیں روشن کیں اور انہیں خراج تحسین پیش کیا.

    مخالف، عظیم انقلابی، بابائے جمہوریت آنجہانی نیلسن منڈیلا 1918 میں جنوبی افریقہ میں پیداہوئے اور سیاہ فام لوگوں کوغلامی سے نجات دلانے کیلئے جدو جہد کا آغاز کیا اس وقت سیاہ فام قوم کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا اور ان سے تیسرے درجے کے شہری سے بھی برتر سلوک کیا جاتا تھا.

    نیلسن منڈیلا نے اپنی قوم کے خلاف نسلی تعصب اور ناروا سلوک کے خلاف اور جائز حقوق کے لیے کم سنی سے ہی جدوجہد شروع کی اور کچھ عرصہ مسلح جدوجہد بھی کی بعد ازاں انہوں نے سیاسی محاز سنبھالا جس کی پاداش میں انہوں نے مسلسل اٹھائیس سال جیل میں گزارے لیکن اپنے مشن سے پیچھے نہیں ہٹے.

    بلآخر نیلسن منڈیلا کی جدو جہد رنگ لے آئی اور نیلسن منڈیلا کی طویل پرامن جدوجہد کے نتیجے میں جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کا خاتمہ ہوا اور سیاہ فام کو سفید فام لوگوں کے برابر حقوق حاصل ہوئے اور انہیں غلامی کی زندگی سے ہمیشہ کے لیے نجات مل گئی جس کا سہرہ صرف اور صرف نیلسن منڈیلا کو جاتا ہے.

    نیلسن منڈیلا کی انہی خدمات کا اعتراف عالمی سطح پر کیا گیا چنانچہ 1993 میں انہیں سب سے بڑے ایوارڈ امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا وہ 95 برس کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے اور اس درخشان عہد کا اختتام ہوا جس کی روشنی رہتی دنیا تک جگمگاتی رہے گی.