Tag: سید ضمیر جعفری

  • بینگن کے بھرتے پر چخ چخ اور بے جی کی یاد

    بینگن کے بھرتے پر چخ چخ اور بے جی کی یاد

    ہماری آنکھ آیائوں کی گود میں نہیں کھلی، ماں کی گود اور ماں کی کمک پر محبت میں امڈی ہوئی ماسیوں، چاچیوں، پھوپھیوں اور رشتے کی بڑی بہنوں کی گود میں کھلی۔

    یوں بھی بے جی (والدہ مکرمہ) کے پاس عورتوں کا گزری میلہ سا لگا رہتا تھا۔ کچھ تو برادری کی معاصر خواتین ہوتیں جو ایک دوسرے کے گھروں میں باقاعدہ آتی جاتی رہتی تھیں کہ اپنی گائے بھینس کے تذکرے میں اپنی بہو کی بات ملا کر چلم کا تمباکو اور اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرسکیں، لیکن بڑی تعداد آس پاس کے دیہات کی چرواہوں کی ہوتی جو اپنے ڈھورڈنگروں کو ہانکتی پھراتی ہمارے گائوں کے رقبوں میں لے آتیں اور پھر کچھ سستانے، لسی پانی پینے یا یونہی گپ شپ لڑانے کے لیے بستی میں اپنی اپنی ’’سیدھ‘‘ (جان پہچان) کے گھروں میں پھیل جاتیں۔

    ہمارا مکان ایک تو گائوں سے باہر اس طور واقع تھا کہ اگر بیرونی دیواریں مضبوط نہ ہوتیں تو کھیتوں کی فصلیں ہمارے صحن میں آ کر لہلہانے لگتیں۔ پھر اس کے ساتھ کنواں بھی، پھر ملحق ایک کھلا میدان جس کو ہم ’’کھلا کہتے ہیں (شاید کھلیان سے)۔ بہرحال ہمارے گھر میں ان سادہ روزگار اور سخت معاش چرواہوں کی ریل پیل کچھ زیادہ ہی لگی رہتی۔

    ہمارے کنبے کی آمدنی اگر آج بھی وہی ہوتی تو ہمیں دو وقت کی روٹی مشکل ہوجاتی، لیکن اس زمانے میں ہمارا گھر بستی کے خوش حال گھروں میں شمار ہوتا اور ہماری حویلی اپنے چبارے کی وجہ سے، جو مدت تک گائوں کا اکلوتا چبارہ رہا، کسی قدر منفرد حیثیت رکھتی تھی، لیکن ہمارے گھر کی جانب اطراف و اکناف کی عورتوں کا رخ ہماری ’’آسودہ حالی‘‘ سے زیادہ دراصل بے جی کی دریا دلی کی وجہ سے تھا۔

    پیسے تو ان کے پاس ہوتے نہ تھے، البتہ حویلی کی تاریک ترین کوٹھڑی میں رکھی ہوئی لکڑی کی بنی ہوئی ایک اونچی مخروطی ’’گہی‘‘ (اجناس کی ذخیرہ دانی) سے گیہوں، باجرے، جوار کے ’’ٹوپے‘‘ اور پڑوپیاں‘‘ (اجناس مانپنے کے پیمانے) بھر بھر کر حاجت مندوں میں تقسیم کرتی رہتیں۔ بے جی کا نام سردار بیگم تھا اور وہ اپنی سخاوت سے تھیں بھی ایک سردار خاتون۔

    بے جی اتنے تڑکے اٹھتیں کہ ہم دونوں بھائی ان کے ساتھ اٹھ کر پھر سوجاتے، پھر اٹھتے پھر سو جاتے، لیکن جب بھی اٹھے، مطلع عالم پر تاریکی کا پہرہ مسلط ہوتا۔ گھر کے کام کاج ان کو دن بھر سر اٹھانے کی مہلت نہ دیتے۔ آئے گئے والا گھر تھا، ایک گیا دو آگئے۔

    تنور ہر وقت گرم رہتا۔ بارہ بارہ کوس میں وعظ کی مجلس خواہ کسی گائوں میں جمتی، واعظین کا پڑائو ہمارے گھر پر ہوتا۔ ہزاروں لاکھوں مریدوں کے پیرصاحبان اس علاقے میں قدم رنجا فرماتے تو ارادت مندوں کے جلو میں ایک وقت کی ضیافت ہمارے گھر پر بھی تناول فرماتے۔

    خاندان کے متعدد بزرگوں کی سالانہ برسیاں جو اب مہینے میں دو دو مرتبہ ہو رہی تھیں، مزید براں تھیں، چنانچہ صحن میں چاول کے ’’دیگ برے‘‘ (بڑے دیگچے) اور آلو گوشت کے ’’کٹوے‘‘ (مٹی کی بڑی بڑی ہانڈیاں) چولہوں پر چڑھے رہتے۔

    بے جی گھر بار کے کسی کام کو اپنے ہاتھوں کرنے میں کوئی عار محسوس نہ کرتیں۔ سمے کی معاشرت ہی ایسی تھی۔ بھینسیں دوہنا تو عورتوں کے لیے کوئی اچنبھے کی بات نہ تھی، ہم نے انہیں ایک دو مرتبہ راج مستریوں سے کرنڈی چھین کر چھت کی لپائی کرتے بھی دیکھا۔

    اس کو کہتے ہیں عالم آرائی

    ہانڈی پکانے سے چھت کی لپائی تک کسی دوسرے کا کیا ہوا کام انہیں مشکل ہی سے کبھی پسند آتا۔ آج تک ہم دونوں بھائیوں کی جتنی چخ چخ اپنی بیویوں کے ساتھ بینگن کے بھرتے پر ہوئی ہے، اس نے زندگی کا بھرتی کر رکھا ہے۔

    (بابائے ظرافت سید ضمیر جعفری کے اپنی والدہ سے متعلق ایک مضمون سے اقتباس)

  • آ کے ہم کو بھی ”تا” کرے کوئی!

    آ کے ہم کو بھی ”تا” کرے کوئی!

    بابائے ظرافت سید ضمیر جعفری کو ہم سے بچھڑے بیس برس بیت چکے ہیں۔ اردو ادب میں‌ نثر ہو یا نظم طنز و مزاح کے لیے مشہور شخصیات میں‌ ضمیر جعفری‌ کا نام اپنے موضوعات اور شائستہ انداز کی وجہ سے سرِفہرست رہے گا۔

    سماج کے مختلف مسائل، خوبیوں اور خامیوں‌ کو اجاگر کرنے کے ساتھ انھوں نے ہماری تفریحِ طبع کا خوب سامان کیا۔

    سید ضمیر جعفری نے ہمیشہ پُر وقار انداز میں بامقصد تفریح کا موقع دیا۔ ان کی یہ غزل آپ کو ضرور مسکرانے پر مجبور کردے گی۔

    نمکین غزل
    شب کو دلیا دلا کرے کوئی
    صبح کو ناشتہ کرے کوئی

    آدمی سے سلوک دنیا کا
    جیسے انڈا تلا کرے کوئی

    سوچتا ہوں کہ اس زمانے میں
    دادی اماں کو کیا کرے کوئی

    جس سے گھر ہی چلے نہ ملک چلے
    ایسی تعلیم کیا کرے کوئی

    ایسی قسمت کہاں ضمیرؔ اپنی
    آ کے پیچھے سے ”تا” کرے کوئی

  • پروقار مزاح کے شاعر ضمیر جعفری کی برسی

    پروقار مزاح کے شاعر ضمیر جعفری کی برسی

    اردو ادب کے معروف شاعر اور مزاح نگار سید ضمیر جعفری کو اپنے مداحوں سے بچھڑے ہوئے 18 برس بیت گئے۔

    ضمیر جعفری کی مزاحیہ شاعری نہایت مہذب اور پروقار ہے جس میں اپنے مزاج کے مطابق انہوں نے پھکڑ پن سے پرہیز کیا ہے۔ ان کا مزاح معاشرے کے مسائل کا عکاس ہے جس میں ان کا اندرونی کرب بھی جھلکتا ہے۔

    اردو کے مشہور مصنف شورش کاشمیری نے ایک بار ان کے لیے کہا، ’طبعاً مسلمان ہیں۔ مسکراتے ہوئے الفاظ میں بھر پور طنز کرنے کا جو ڈھنگ اور رنگ انہیں آتا ہے اس سے سارے پاکستان میں شاید ہی کوئی شخص بہرہ مند ہو‘۔

    مزاحیہ شاعری کی صنف میں انہیں اکبر الہٰ آبادی کے بعد دوسرا بڑا شاعر مانا جاتا ہے۔

    ضمیر جعفری 50 سے زائد تصانیف کے مصنف ہیں۔ ان کی مشہور کتابوں میں مافی الضمیر، مسدس بدحالی، ولایتی زعفران، نشاط تماشا شامل ہیں۔

    اپنی زندگی میں وہ اخبارات کے لیے کالم بھی لکھا کرتے تھے جس میں ہلکے پھلکے اور پر مزاح انداز میں زندگی کی تلخ حقیقتوں کی طرف توجہ مبذول کرواتے۔

    ضمیر جعفری کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی، ہمایوں گولڈ میڈل اور تمغہ قائد اعظم سے نوازا گیا۔

    ہر عام انسان کی طرح زندگی کی ستم ظریفیوں کا شکار، لیکن مزاج، الفاظ اور چہرے پر شگفتگی سجائے رکھنے والا یہ شاعر سنہ 1999 میں آج ہی کے دن ہم سے بچھڑ گیا۔

    ان کی موت پر احمد ندیم قاسمی صاحب نے کہا کہ، ’ضمیر جعفری کو دیکھ کر کچھ اور زندہ رہنے کو جی چاہا کرتا تھا کہ زندگی کا حسن اور محبت کی گہما گہمی اور شگفتگی اس ایک شخص میں مجسم ہو کر رہ گئی تھی۔ ضمیر محبتوں کا کروڑ پتی بھی ہے اور تخلیقی صلاحیتوں کا جنریٹر بھی۔ مجھے یقین ہے کہ وہ سیدھے جنت میں گئے ہوں گے‘۔

    سید ضمیر جعفری کے چند مشہور اشعار ملاحظہ کریں۔

    درد میں لذت بہت، اشکوں میں رعنائی بہت
    اے غم ہستی ہمیں دنیا پسند آئی بہت

    شوق سے لختِ جگر نورِ نظر پیدا کرو
    ظالمو تھوڑی سی گندم بھی مگر پیدا کرو

    بس یہی فرق ہے نالج اور فالج میں
    جیسے مرد چوکیدار لڑکیوں کے کالج میں

    محسوس کیا دستِ صبا کو نہیں دیکھا
    دیکھا بھی خدا کو تو خدا کو نہیں دیکھا

    مزید پڑھیں: اردو کے 100 مشہور اشعار


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔