Tag: سیروسیاحت

  • نیوزی لینڈ کے شہر کروم ویل کے حُسن و جمال کا قصّہ

    نیوزی لینڈ کے شہر کروم ویل کے حُسن و جمال کا قصّہ

    نیوزی لینڈ کی آبادی 53 لاکھ بتائی جاتی ہے۔ یہاں امن و امان بھی ہے، اقتصادی خوش حالی بھی اور یہ دنیا کا وہ ملک ہے جسے قدرت نے خوب خوب نوازا ہے۔ یہاں حسین نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں اور پہاڑوں، دریاؤں، جھیلوں کے دامن میں بے پناہ کشش کے ساتھ حکومت کا حسنِ انتظام بھی نیوزی لینڈ کے شہروں کو خوب صورت اور پُرسکون بناتا ہے۔

    وہ ویڈیو شاید آپ نے بھی دیکھی ہو جس میں ایک خاتون سیاست داں پارلیمنٹ میں ایک بل کی کاپی پھاڑتے ہوئے دکھائی دیتی ہیں اور ان کے ساتھی اپنی نشستوں پر مخصوص رقص کرنے لگتے ہیں۔ یہ واقعہ نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ کے اجلاس میں پیش آیا تھا جس کے بعد اجلاس کی کارروائی ملتوی کردی گئی تھی۔ یہ ماؤری قبائل کے اراکین تھے جنھوں نے ایک قانون کے مسوّدے کو مسترد کرتے ہوئے اس پر ووٹنگ روکنے کے لیے ہاکا رقص کیا تھا۔ خیر، یہ ایک الگ قصّہ ہے۔ ہم یہاں‌ اپنے قارئین کے لیے اسی ملک کے ایک حسین شہر کروم ویل کا خوب صورت اور مختصر سفر نامہ نقل کررہے ہیں جو طارق محمود مرزا نے لکھا ہے۔ آسٹریلیا میں مقیم طارق صاحب کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنّف ہیں۔ اس شہر کی سیر کرتے ہوئے قارئین طارق محمود مرزا کے خوب صورت اور دل نشیں‌ طرزِ تحریر کا لطف بھی اٹھائیں گے۔

    وہ لکھتے ہیں: نیوزی لینڈ کا شہر کروم ویل (Cromwell) ان تاریخی قصبوں میں شامل ہے جنہیں اس کی ابتدائی ہیئت میں دوبارہ بنایا اور بسایا گیا۔ یہاں کشادہ سڑکیں، فٹ پاتھوں کے کناروں پر گھاس کے قطعات اور پھولوں کے پودے، جگہ جگہ دلکش وسیع و عریض پارک اور سڑکوں پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر ہے۔ سبزہ، رنگا رنگ پھول، درختوں کی قطاریں اور فاصلے پر بنے مکانات۔ نہ یہاں جدید دور کی بڑی بڑی عمارتیں ہیں نہ گاڑیوں کا شور شرابا۔ دھوئیں اور گرد و غبار کا آزار ہے نہ انسانوں کی گہما گہمی۔

    پورے قصبے پر خاموشی اور سکون کا راج ہے۔ ایسے لگتا ہے یہاں وقت رک گیا ہے۔ یہ شہر ڈیڑھ دو صدی قبل کی زندگی جی رہا ہے۔ ہم اس شہر کے خاموش حسن اور سکوت سے محظوظ ہوتے اس کے دوسرے کنارے پہنچے تو یکلخت نیلے پانیوں والی بہت بڑی جھیل ہمارے سامنے آ گئی۔ یہ جھیل اتنی وسیع ہے کہ دور پہاڑوں کے دامن تک پھیلی ہوئی ہے۔ دائیں اور بائیں طرف اس کے کنارے نظر نہیں آتے۔ ان نیلے پانیوں کے پاس گاڑی روکتے ہی بہت سی خوب صورتیاں اور دل چسپیاں ہماری منتظر تھیں۔
    جھیل کے کنارے سبز گھاس کے قطعے کارپٹ کی طرح نرم اور تصویر کی طرح سندر تھے۔ ان قطعات کے کناروں پر نیلے، پیلے، سرخ، سبز اور سفید ہر رنگ کے پھولوں نے رنگوں کی برکھا برسائی ہوئی تھی۔ گھاس میں بنچ اور میزیں لگی تھیں۔ کیفے کے صحن میں رنگ برنگی خوبصورت چھتریوں تلے خوبصورت چوبی میزیں موجود تھیں۔ جن پر سیاح بیٹھے کھانے، کافی اور ماحول سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ وہاں ایک ٹورسٹ انفارمیشن سنٹر بھی موجود تھا۔ ہم سنٹر کے اندر گئے تو ایک خاتون نے مسکرا کر ہمارا استقبال کیا۔ اس دلکش مگر پر وقار خاتون نے سیاحوں کی دلچسپی کے تمام مقامات کی فہرست اور نقشے وغیرہ دیے۔ میں نے پوچھا ”اگر آپ کے پاس وقت ہے تو ہمیں کروم ویل شہر، اس جھیل اور ڈیم کے بارے میں کچھ بتائیے۔ “

    خاتون جس کا نام سارا تھا بولی ”آپ اتنی دور آسٹریلیا سے آئے ہیں۔ پہلے آپ بتائیں کیا پئیں گے، کافی یا چائے۔“

    میں نے تکلف سے کام لینا چاہا تو وہ بولی ”آپ پریشان نہ ہوں کروم ویل کی مقامی حکومت نے سیاحوں کی خاطر مدارت کے لئے فنڈ مختص کیا ہے۔“ ہم نے اس کا شکریہ ادا کیا اور کافی لے کر سنٹر کے باہر رکھے بنچ پر آ بیٹھے۔ اس وقت سنہری دھوپ نے سماں باندھا ہوا تھا۔ ہمارے سامنے نیلے شفاف پانیوں میں چند رنگین بادبانی کشتیاں تیر رہی تھیں۔ ہماری میزبان سارا بھی کافی کا کپ تھامے ہمارے سامنے بنچ پر آ بیٹھی۔ اس نے بتایا ”اس قصبے کی بنیاد 1863 میں پڑی جب جان نامی ایک شخص نے یہاں اپنا ہٹ بنایا۔ کچھ عرصے کے بعد اس کے گھر دو جڑواں بچے میری اور جین پیدا ہوئے۔

    یہ بچے اس قصبے میں پیدا ہونے والے پہلے یورپین نسل گورے بچے تھے۔ اس سے پہلے ماؤری قبائل کے کچھ لوگ یہاں غاروں وغیرہ میں رہتے تھے۔ اس کے بعد ان دونوں دریاؤں میں بہہ کر آنے والی لکڑیوں سے یہاں کاٹیج اور گھر بننے لگے۔ جب سونے کے کان کنوں کا رش تھا تو یہاں ہوٹلوں کی تعداد تیس تک پہنچ گئی تھی۔ پھر دریا کے کنارے گھروں اور گھوڑوں کے اصطبلوں میں اضافہ ہونے لگا۔

    1871 ء تک کروم ویل کی آبادی 497 افراد تک پہنچ گئی جو اب 2022 میں پانچ ہزار ہے۔ جہاں تک سونے کا تعلق ہے اس دریا اور یہاں کی کانوں سے کتنا سونا نکلا اس کا درست علم تو نہیں۔ تاہم سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 1873 ء تک یہاں سے 19947 اونس خالص سونا نکالا گیا۔ جہاں تک اس جھیل کا تعلق ہے تو یہ قدرتی نہیں بلکہ انسانی ہاتھوں کا کارنامہ ہے۔ جس جگہ ہم آج بیٹھے ہیں یہ نوے کی دہائی میں بسایا گیا ہے۔ جھیل جو ہمارے سامنے پھیلی ہوئی ہے اس کے نیچے پرانا کروم ویل شہر دفن ہے۔

    ان تاریخی عمارتوں کو اپنی اصل شکل میں محفوظ رکھنے کے لیے حکومت، مقامی رضاکاروں اور ہنرمندوں نے انتہائی محنت اور جانفشانی سے کام کیا۔ کچھ عمارتیں پوری کی پوری اٹھا کر دوسری جگہ منتقل کی گئیں اور کچھ کو اسی میٹریل اور اسی نمونے کے تحت دوبارہ اسی شکل میں بنا دیا گیا۔ یوں پورا شہر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوا۔ نئے ڈیم سے نہ صرف یہ دو دریا آپس میں مل گئے بلکہ اس کے ساتھ اس نئی جھیل نے جنم لیا۔ جس نے 1980 ء سے پہلے کا کروم ویل دیکھا تھا اب دیکھے تو حیران رہ جائے گا۔ اسے لگے گا کہ جنات نے پورا شہر اٹھا کر دوسری جگہ پر رکھ دیا ہے۔ اسی طرح اس وسیع و عریض جھیل کو دیکھ کر کوئی یقین نہیں کر سکتا کہ انسانی ہاتھوں نے اتنا بڑا کام انجام دیا ہے۔ یوں نیوزی لینڈ کی حکومت اور اس کے شہریوں نے ایک نئی تاریخ رقم کی۔ ”

    میں نے پوچھا ”چینی کان کنوں کی آمد کا سلسلہ کب شروع ہوا اور ان کان کنوں کی نیوزی لینڈ میں قانونی اور سماجی حیثیت کیا تھی؟“

    سارا نے بتایا ”امریکہ اور آسٹریلیا کی نسبت نیوزی لینڈ میں چینیوں کی آمد دیر سے شروع ہوئی۔ جب یورپین کان کن کمپنیاں یہاں سے واپس چلی گئیں تو بچا کھچا سونا ڈھونڈنے کی مشکل مہم کے لیے چینیوں کو بلایا گیا۔ یہ زیادہ تر چین کے جنوبی حصے کو رنگ ٹونگ سے آئے تھے کیونکہ وہاں سب سے زیادہ غربت تھی۔ 1865 سے 1900 ء تک چینی وزٹ ویزے پر مزدوری کے لیے نیوزی لینڈ آتے رہے۔ اس دوران میں ان چینیوں کی زندگی کافی مشکل تھی۔“ سارہ ہر سوال کا تسلی سے جواب دیتی تھی جیسے پروفیسر ہو۔ جب یہی بات میں نے کہی تو وہ ہنس کر کہنے لگی ”آپ کا اندازہ غلط نہیں ہے۔ میں ریٹائرڈ پروفیسر ہوں۔ وقت گزاری کے لئے یہ جاب کر رہی ہوں۔ “

    سارا نے دوسری مرتبہ ہمیں حیرانی سے دو چار کیا۔ وہ یونیورسٹی پروفیسر تھی اور تاریخ پڑھاتی رہی تھی۔ اب وہ اس چھوٹے سے قصبے کے اس چھوٹے سے دفتر میں کام کرتی تھی جہاں صفائی ستھرائی سمیت تمام کام اس کے ذمہ تھے۔ پھر مجھے خیال آیا کہ یہ نیوزی لینڈ ہے جہاں اسٹیٹس، اسٹینڈرڈ اور عہدوں اور کرسیوں کی نہیں بلکہ اخلاق اور محنت کی قدر کی جاتی ہے۔ یہاں وزیر اعظم بھی اپنا دفتر خود صاف کرتا ہے۔ اپنے گھر کا سارا کام خود کرتا ہے۔ اپنی گاڑی خود دھوتا ہے۔ اپنے گھر کی گھاس بھی خود کاٹتا ہے۔ دفتر میں اپنی چائے بھی خود بناتا ہے کیونکہ اس ملک میں چپراسی اور کلینر نہیں ہوتے۔ یہاں ڈرائیور اور خانساماں رکھنے کا بھی رواج نہیں ہے کیونکہ ان کی تنخواہ ادا کرنا کسی کے بس میں نہیں ہے۔ یہاں امیر اور غریب کے طرز حیات اور معیار زندگی میں فرق بہت کم رہ جاتا ہے۔ اگر تھوڑا بہت فرق ہو بھی تو کوئی امیر اپنی امارت کا رعب نہیں جما سکتا ہے اور نہ کم آمدنی والا کسی کے رعب میں آتا ہے۔ روزمرہ زندگی میں یہاں سب برابر ہیں۔ یہ اس معاشرے کی خصوصیت اور یہی اس کا طرۂ امتیاز ہے۔

     

  • شرم الشیخ کی سیر

    شرم الشیخ کی سیر

    مصر کے سیاحتی مقام شرم الشیخ کا شمار دنیا کے ان شہروں میں ہوتا ہے جہاں پاکستانیوں کے لئے ” آن ارائیول ویزا” ۔۔ یعنی آمد پر ویزا کی سہولت موجود ہے ۔

    یہ ایک پرسکون مقام ہے جو کہ اس کی وجہ شہرت بھی ہے ۔ شرم الشیخ کے لفظی معنی شیخ کی خلیج کے ہیں ۔۔ اس شہر کو دنیا کا پرامن شہر بھی کہا جاتا ہے ۔ اسی لیے یہاں متعدد پیس کانفرنسز منعقد کی جا چکی ہیں ، جبکہ دو ہزار بائیس میں شرم الشیخ میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق عالمی کانفرنس کا انعقاد ہوا تھا ۔ شرم الشیخ بحیرہ احمر، ریڈ سی کے ساحل پر پھیلا ہوا ہے ۔ یہاں کی آبادی صرف پچھتر ہزار ہے ، قاہرہ سے شرم الشیخ کا براستہ سڑک سفر آٹھ سے دس گھنٹے کا ہے ۔ تمام راستہ ویران اور سنسان ہے ، مٹی کے ٹیلے ، خاموش پہاڑی سلسلے کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ۔ قاہرہ سے شہر میں داخل ہوتے ہوئے کئی چیک پوسٹ سے گزرنا پڑتا ہے ۔ ویران سڑکوں پر بسوں کو خالی کرایا جاتا ہے ، مسافروں اور سامان کی جامہ تلاشی لی جاتی ہے ۔ سفر کی تھکن اور سخت چیکنگ میں مسافر خود کو دہشتگرد تصور کرنے لگتے ہیں ، بدگمان سیکیورٹی اہلکاروں کی تلاشی کی رہی سہی کسر سراغ رساں کتے سامان سونگھ کر پوری کرتے ہیں ۔ شرم الشیخ اپنے محل وقوع کی وجہ سے خاص اہمیت کا حامل ہے ۔ سخت سیکیورٹی کی ایک وجہ یہ بھی ہے ۔ مصراسرائیل چھ روزہ جنگ کے دوران تل ابیب نے شرم الشیخ پر قبضہ کرلیا تھا ۔ جسے بعد میں امن معاہدے کے تحت واپس مصر کو سونپا گیا

    شرم الشیخ میں دو ہزار سے زیادہ ریزورٹس ہیں ۔ بیشتر ساحل کے قریب ہیں ، جہاں پہنچ کر سفر کی تھکن دور ہوجاتی ہے۔ واٹر اسپورٹس اس شہر کا خاصہ ہے ۔ دو روز کے لئے ہمارا قیام پیرامیسا نامی ریزورٹ میں ہوا ۔۔ یہ شارکس بے کے قریب ہے ۔ اس ریزوٹ کا ایک بڑا حصہ زیرتعمیر تھا ۔۔ لیکن جتنا رقبہ آپریشنل ہے اسکی سیر کے لئے بھی کم از کم ہفتہ درکار تھا ۔ یہاں کشادہ ڈائننگ ایریا ۔۔ کئی ریستوران ۔۔ اسنیک بار ۔ متعدد سوئمنگ پولز ۔۔ کڈز پلے ایریا ۔ بال روم ۔ جمنازیم ، اسپا ، جیکوزی اور اسپورٹ ایرینا سمیت کئی سیر و تفریح کے مقامات ہیں ۔ ہمیں چھ ہزار والے بلاک میں روم دستیاب تھا ، جہاں سے سمندر کا راستہ نزدیک اور دلکش ہے ۔ ساحل کے قریب ٹیلوں پر چھتریوں کا سایہ ہے ۔ ٹھنڈے ٹھار مشروبات کے ساتھ لہروں کے دیدار کے لئے بہترین آرم گاہ بنائی گئی ہے ۔ سن باتھ کے لئے یورپی بلخصوص روسی مہمانوں کا تانتا تھا ۔ پاکستانیوں کے لئے سورج کی سکائی زیادہ پرکشش نہیں ۔ اسکی بڑی وجہ ہماری رنگت بھی ہے جو جھلس کر سیاہ ہوجاتی ہے ۔

    شرم الشیخ میں دو روزہ قیام کسی رولر کوسٹر رائیڈ سے کم نہ تھا ۔ دو روز میں ریزورٹ اور بحیراحمر کی سیر ناممکن ٹاسک تھا ، جسے پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ۔ اس دوران پیراسیلنگ ، اسپیڈ بوٹنگ ، اسنارکلنگ ، اور سی ٹوور سے لطف اندوز ہوئے ۔ میری چیک لسٹ میں سمندر کنارے سورج طلوع ہونے کا نظارہ دیکھنا ، خاموش ساحل پر چند لمحوں کے لئے خواب خرگوش کے مزے لینا بھی شامل تھا ، جسے میں انجام دینے میں کامیاب رہی ۔ بحیرہ احمر میں لہریں کم اور پانی بے حد شفاف ہے ۔ مچھلیاں تیرتی دکھائی دیتی ہیں ، لیکن سمندر اس قدر نمکین ہے کہ پانی میں ڈبکی لگانے والے بلبلا اٹھتے ہیں ۔ یہ سمندر کئی رنگ بدلتا ہے ، کسی مقام پر یہ ہلکا تو کہیں گہرا نیلا ہے ۔ بلیو لگونا پر ریف دیکھنے کے لئے لے جایا جاتا ہے ، جہاں سمندر آسمانی رنگ کا ہے اور پانی قدرے کم نمکین ہے ۔ بلیو لگونا کے سامنے آپ کو ایک جزیرہ دکھائی دے گا ، جسے Tiran island کہتے ہیں ۔ یہ جزیرہ اب سعودی عرب کی ملکیت ہے ۔۔

    شرم الشیخ کے ڈاؤن ٹاؤن میں قائم شاپنگ سینٹرز بھی پرکشش مقام ہے ۔۔ جگہ جگہ سینڈ آرٹسٹ دکھائی دیں گے ، بڑے برانڈز کے ساتھ مقامی اشیا کے اسٹورز کی بھی بھرمار ہے۔ شاپنگ کے شوقین افراد اس بات کا ضرور خیال رکھیں کہ مصر میں وہی خریدار کامیاب ہے جو سودے بازی جانتا ہے ، پانچ ہزار مصری پونڈز سے شروع ہونے والی چیز سو مصری پونڈز میں بھی مل جاتی ہے ۔۔

    سودے بازی کا فارمولا سروسز پر بھی لاگو ہوتا ہے ۔۔ شوہر نامدار نے واٹر رائڈز میں اس صلاحیت کا بھرپور مظاہرہ کیا تھا ۔۔ ریزورٹ میں ہماری ملاقات انتظامیہ کی ایک خاتون سے ہوئی ۔ جس کا نام وکٹوریہ تھا ۔ خاتون نے چیک آوٹ کے بعد وین کے انتظار میں ہمارے لئے نماز کی جگہ کا انتظام کیا تھا ۔ یوکرائن سے تعلق رکھنے والی خاتون نے بتایا کہ وہ اسلام سے متعلق تعلیم لے رہی ہے ۔ وہ اسلام قبول کرنے جارہی ہے ۔ اور چاہتی ہے اسکے خاندان والے بھی اسکی پیروی کریں ۔

    شرم الشیخ کی مقامی زبان عربی ہے ۔ لیکن یہاں روسی ، جرمن اور فرانسیسی زبانیں بھی مقبول ہیں ۔ پرسکون مقام کے متلاشی کے لئے یہ ایک بہترین شہر ہے جو کہ زیادہ جیب پر بھاری نہیں پڑتا ۔ یہاں زیادہ سے زیادہ تو من بھاتا قیام کیا جاسکتا ہے لیکن بھرپور لطف اٹھانے کے لئے کم از کم بھی ہفتہ درکار ہے ، ورنہ ہماری طرح دو روز کی زیارت کر کے شرم الشیخ سے واپسی پر بڑی شرم آئے گی ۔۔

  • آسٹریلیا کے دیہی علاقے کا ایک فارم ہاؤس (سیر و سیاحت)

    آسٹریلیا کے دیہی علاقے کا ایک فارم ہاؤس (سیر و سیاحت)

    میں جب بھی شہر کی گہما گہمی سے اکتاتا ہوں تو آسٹریلیا کے کسی دیہی علاقے کا رُخ کرتا ہوں۔ یہاں چھوٹے چھوٹے قصبات بلکہ گاؤں میں بھی ہوٹل دستیاب ہیں۔ جدید سہولتوں کے باوجود گاؤں کی زندگی اب بھی زیادہ نہیں بدلی۔ بلکہ صدیوں پرانی طرز پر قائم ہے۔

    وسیع رقبے پر بنے سادہ سے مکانات، کشادہ سڑکیں، درختوں اور سبزے کی بہتات، صاف ستھری آب و ہوا اور حدّ نظر تک پھیلے کھیت اور کھلیان فطرت سے بہت قریب محسوس ہوتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ تنہائی اور سکوت درکار ہو تو فارم ہاؤس بھی کرائے پر مل جاتے ہیں۔

    چند ماہ قبل ہمیں ایسے ہی ماحول کی طلب محسوس ہوئی تو ہم نے نیو ساؤتھ ویلز اور کوئنز لینڈ کے درمیان واقع شہر ٹاری کے مضافات میں ایک فارم ہاؤس چند دنوں کے لیے بُک کرا لیا۔ راہ کے خوشگوار مناظر دیکھتے، سبزے اور درختوں کے بیچ ہموار سڑک پر چلتے اور بھیڑوں، گائیوں اور گھوڑوں کے فارمز کا مشاہدہ کرتے پانچ گھنٹے کے بعد ہم اس فارم کی طرف مڑنے والی سڑک کے سامنے جا پہنچے۔ فارم ہاؤس کی طرف جانے والی یہ دو کلومیٹر سڑک کچی تھی مگر اس پر چھوٹے چھوٹے پتھروں کا فرش بچھا ہوا تھا۔ جس پر گاڑی چلنے سے کڑکڑاہٹ کی آواز آتی تھی۔ سڑک کے دونوں اطراف گھنے، اُونچے اور قدیم درخت ایستادہ تھے جن کی خستہ ڈالیاں ٹوٹ ٹوٹ کر گرتی رہتی ہیں۔ ہم فارم ہاؤس کے سامنے پہنچے تو دور دور تک جنگلوں میں گھرے، آبادیوں سے دور اس اکلوتے گھر کو دیکھ کر یوں لگا جیسے جنگل میں بہار آگئی ہے۔ کیونکہ گھر کے چاروں اطراف بڑے درختوں کے بجائے بے شمار چھوٹے اور پھول دار پودے رنگ بکھیر رہے تھے۔ ان میں پھلوں سے لدے لیمن، مالٹے،سٹرابری اور سیب کے درخت بھی شامل تھے۔ مرکزی دروازے کے پاس لگی انگور کی بیل گھر کی دیوار پر پھیلی تھی۔ جب کہ عقب میں کافی دور تک گھاس کا میدان تھا جہاں بکریاں، گائیں اور گھوڑے چر رہے تھے۔ گھر کے ارد گر آہنی تاروں کی باڑ تھی اور سامنے دھکیل کر کھلنے والا گیٹ تھا۔

    گیٹ کھول کر ہم گاڑی اندر لے گئے اور ایک شیڈ کے نیچے پارک کر دی۔ گھر کے باہر نمبر کے علاوہ کچھ نہیں لکھا تھا اس لیے مجھے کچھ شک تھا کہ یہی ہمارا مطلوبہ فارم ہاؤس ہے۔ یہ شک رفع کرنے کے لیے وہاں کوئی فرد موجود نہیں تھا۔ میں نے فارم کی مالکن کو فون کر کے بتایا کہ ہم یہاں پہنچ گئے ہیں۔ اس نے فون پر ہی خوش آمدید کہا اور بتایا ’’چابی مرکزی دروازے کے سامنے دیوار پر چسپاں ایک بکس کے اندر ہے اور باکس کھولنے کے لیے کوڈ نمبر یہ ہے۔ گھر کے اندر آپ کو ہر شے تیار اور صاف ستھری ملے گی۔‘‘

    ہم اس خاتون کی ہدایت کے مطابق دروازہ کھول کر اندر گئے تو واقعی پورا گھر سجا دھجا اور صاف ستھرا تھا۔ بستر کی چادریں، تکیے، تولیے، فریج، ٹی وی، چولہے، برتن ، کیتلی، ٹوسٹر، لائبریری، ویڈیو، برآمدے میں باربی کیو چولہا اور دیگر سب چیزیں موجود اور صاف ستھری تھیں۔

    ہم چار دن وہاں رہے، اس دوران کوئی شخص وہاں نہیں آیا۔ آخری دن کرایہ بھی وہیں رکھ کر آئے۔ دراصل ہم نے یہ فارم ہاؤس صرف تین دن کے لیے لیا تھا۔ تیسری رات میرا ایک دوست بھی اپنی بیگم کے ساتھ وہاں آگیا۔ حالانکہ وہاں دیکھنے والا کوئی نہیں تھا پھر بھی میں نے فون کر کے مالکن کو بتایا، ’’ آپ کو مطلع کرنا تھا کہ ہمارے دو مہمان آئے ہیں۔ دوسرے یہ پوچھنا تھا کہ کیا ہم ایک رات مزید یہاں رُک سکتے ہیں۔

    میں توقع کر رہا تھا کہ وہ اضافی افراد کا اضافی کرایہ طلب کرے گی۔ کیونکہ گھر میں جتنے زیادہ لوگ ہوتے ہیں، اتنا بجلی اور پانی زیادہ خرچ ہوتا ہے۔ مگر اس نے یہ جواب دے کر ہمیں حیران کر دیا، ’’مہمانوں کا کوئی مسئلہ نہیں، ہاں آپ ایک رات مزید رک سکتے ہیں کیونکہ کل کوئی اور مہمان نہیں آرہا۔ اس اضافی رات کا کرایہ دینے کی بھی ضرورت نہیں۔’’

    یہ جواب میرے لیے انتہائی غیر متوقع تھا۔ کافی دیر تک یقین نہیں آیا کہ ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جنہیں لالچ چھو کر بھی نہیں گزرتی۔ ہم اچھی طرح جانتے تھے کہ فارم ہاؤس کی مالک خاتون ایک ریستوراں میں اور اس کا میاں کھیتوں میں مزدوری کرتے ہیں۔ یہ بات اس نے خود مجھے فون پر بتائی تھی۔ فارم ہاؤس کا خرچ نکال کر انہیں اس سے معمولی آمدنی ہوتی ہے۔ اس کے باوجود انہیں لالچ اور حرص نہیں تھی۔

    اس فارم میں درجن بھر گائیں، اتنی ہی بکریاں اور دو گھوڑے تھے۔ فارم کے مکین کی حیثیت سے آپ کو ان کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ وہ پچیس ایکڑ میں پھیلے اس فارم میں خود ہی چرتے پھرتے ہیں۔ دھوپ اور بارش سے پناہ لینی ہو تو درختوں کے جھنڈ تلے چلے جاتے ہیں۔ فارم میں تین چھوٹے چھوٹے تالاب ہیں جہاں بارش کا پانی جمع رہتا ہے۔ وہیں سے یہ اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔ ہاں مہمان اپنے شوق کی خاطر انہیں چارہ ڈالنا چاہیں تو فارم ہاؤس کے عقب میں ایک شیڈ میں گائے، گھوڑے اور بکریوں کے لیے الگ الگ چارہ موجود ہے۔ چارہ لے کر باڑ کے پاس جائیں تو گھوڑے اور گائیں جمع ہو جاتے ہیں، آپ باڑ کے اوپر سے انہیں گھاس ڈال سکتے ہیں۔ بکریوں کا الگ باڑہ ہے۔ وہاں پرانا سا شیڈ بھی ہے جہاں وہ سردی اور بارش میں پناہ لیتی ہیں۔ فارم ہاؤس میں بجلی کی سپلائی ہے مگر اس کے ساتھ شمسی توانائی بھی استعمال ہوتی ہے۔ آسٹریلیا میں شمسی توانائی کا استعمال عام ہے خاص طور پر دیہی علاقوں میں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ فارم ہاؤس میں استعمال ہونے والا تمام پانی بارش سے جمع کیا ہوا ہے۔ گھر سے ملحق دو بڑے بڑے پلاسٹک کے ٹینک ہیں جہاں چھت سے بارش کا پانی جمع ہوتا ہے۔ یہی پانی نہانے دھونے، کھانے پینے ہر مقصد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

    میں سوچتا تھا کہ آسٹریلیا اور ہندوستان پاکستان کے موسموں میں بہت مماثلت ہے۔ بارشیں اور دھوپ دونوں جگہوں کی مشترکہ خصوصیات ہیں۔ بلکہ پاکستان میں دھوپ زیادہ پڑتی ہے۔ وہاں ایسے شمسی پلانٹ آسانی سے اور ارزاں داموں لگ سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں بارش کا پانی جمع کر کے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تیسری بات یہ کہ ہمارے دیہات میں بھی ایسے تالاب بنائے جا سکتے ہیں جیسے اس فارم میں بنے ہیں۔ جب بارش نہ تو یہ پانی مویشیوں اور فصلوں کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔ ان میں سے کوئی کام بھی مشکل اور مہنگا نہیں ہے۔ نہ جانے اس طرف کسی کی توجّہ کیوں نہیں ہے۔

    اس علاقے میں شہد کے بہت سے فارم ہیں۔ علاوہ ازیں سیب، ناشپاتی ، سٹرابری، انگور اور دیگر پھلوں کے باغات ہیں۔ ہم اس علاقے میں ڈرائیونگ کرتے تو کئی گھروں کے آگے شہد اور ان پھلوں کی فروخت کا بورڈ رکھا نظر آتا۔ ایک جگہ گاڑی روک کر ہم اندر گئے۔ وہاں برآمدے میں میز پر خالص شہد کی بوتلیں اور پھلوں کی ٹوکریاں رکھی تھیں۔ ان پر قیمت درج تھی اور ایک طرف کھلا بکس رکھا تھا، جہاں سے بڑا نوٹ ہونے کی صورت میں آپ اپنا چینج بھی لے سکتے ہیں۔ وہاں نہ کوئی شخص تھا اور نہ کوئی کیمرا۔ لیکن مجال ہے کہ کوئی شخص چوری یا بے ایمانی کرے۔

    گاؤں کے یہ لوگ سادہ اور فطری زندگی گزارتے ہیں۔ ان کے پاس مال و دولت نہیں ہوتی مگر وہ قناعت کی دولت سے مالامال ہیں۔ پرانے گھروں ، چھوٹی گاڑیوں اور قدرے غربت کے باوجود بڑے شہروں سے دور رہ کر اپنے طرزِ حیات سے خوش ہیں۔ یہاں آبادی اور ذرائع روزگار دونوں کم ہیں۔ کیونکہ اس علاقے کی سطح مرتفع پر فصلیں نہیں اُگتیں صرف مویشی بانی، باغبانی اور دیگر چھوٹے چھوٹے مشاغل ہیں جن کی محدود آمدنی ہے مگر وہ صبر شکر کے ساتھ اس سے گزارہ کر لیتے ہیں۔

    ایسے علاقے میں قیام کی صورت میں ہ میں اشیائے خوردونوش کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ کیونکہ یہاں ریستوراں کم اور حلال کھانا نایاب ہے۔ اس لیے ہم زیادہ سے زیادہ اشیائے خورد و نوش اپنے ساتھ لے کر جاتے ہیں۔ اسی علاقے کے ایک دور دراز گاؤں کی سیر کے دوران ہمیں اشتہا محسوس ہوئی تو وہاں نظر آنے والے واحد کیفے کے اندر چلے گئے۔ سہ پہر کے اس وقت وہاں کوئی اور گاہک نہیں تھا۔ کیفے کی مالکن اُدھیڑ عمر آسٹریلین خاتون سے ہم نے دستیاب کھانوں کے بارے میں دریافت کیا تو ہمارے مطلب کی کوئی حلال شے موجود نہیں تھی۔ ہمیں مایوس دیکھ کر یہ خاتون بھی پریشان ہو گئی۔ حالانکہ اس کا کوئی قصور نہیں تھا۔ میں نے پوچھا ‘‘ آپ کے پاس ڈبل روٹی اور انڈے ہیں؟’’ اس نے فوراً اثبات میں جواب دیا۔ ہمارے کہنے پر اس نے ڈبل روٹی، انڈے، پنیر، مکھن، ٹماٹر اور پیاز نکالے۔ ہم سب نے مل جل کر پیاز، ٹماٹر اور انڈوں کا آملیٹ بنایا، ٹوسٹ گرم کیا، مکھن لگایا اور مزے سے تازہ اور گرم کھانا کھایا جو اس علاقے کی نسبت سے غنیمت تھا۔ خاتون ہمیں خوش اور مطمئن دیکھ کر بہت خوش تھی۔

    ہم نے نماز ادا کرنے کی خواہش ظاہر کی تو اس مہمان نواز خاتون کو پہلے تو سمجھ نہیں آیا کہ ہم کیا چاہتے ہیں۔ ہم نے سمجھایا کہ ہمیں صاف جگہ اور صاف کپڑا درکار ہے۔ جب سمجھ آیا تو اس نے فوراً جگہ صاف کی، صاف ستھری چادر بچھائی اور خود دروازے سے باہر چلی گئی۔ نماز کے بعد ہم نے اس مہربان خاتون کا شکریہ ادا کیا تو نہ جانے کیوں اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ شاید یہ اس کی زندگی کا انوکھا تجربہ تھا۔ ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہنے والی اس خاتون نے مسلمانوں کے بارے میں نجانے کیا کچھ سن رکھا تھا۔ آج پہلی مرتبہ سامنا ہوا تو وہ ششدر رہ گئی۔ ہمارے لیے بھی یہ ‘پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے’ والا معاملہ تھا۔

    یہ دنیا تو ہے ہی حیرت کدہ! یہاں ایسی حیرتیں اکثر ملتی رہتی ہیں۔ واپسی کے سفر میں، میں سوچ رہا تھا کہ قوموں کی سر بلندی کے لیے وسائل کی نہیں۔ حسنِ اخلاق اور بلند کردار کی ضرورت ہوتی ہے۔ اطمینان و مسرت کے لیے روپے پیسے کی نہیں قناعت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس خطے میں سکون اور اطمینان کی یہی وجوہات ہیں۔

    (آسٹریلیا میں مقیم افسانہ نگار اور کئی کتابوں کے مصنّف طارق مرزا کی ایک منتخب تحریر)

  • سمندر سے محروم ”ملاوی“ کی کہانی

    سمندر سے محروم ”ملاوی“ کی کہانی

    جمہوریہ ملاوی، جسے ماضی میں ”نیسا لینڈ“ کہا جاتا تھا، سمندر سے محروم ملک ہے۔

    افریقا کے جنوب مشرق واقع یہ ملک سطح مرتفع اور جھیلوں کی خوب صورت سرزمین رکھتا ہے جس کے شمال میں تنزانیہ، مشرق اور جنوب میں موزمبیق اورمغرب میں زمباوے واقع ہے۔ اس مختصر سی مملکت کا کل رقبہ 46 ہزارمربع میل سے کچھ کم ہے جب کہ اس رقبہ میں ایک بہت بڑی جھیل بھی شامل ہے جس کا مقامی نام تو کچھ اور ہے لیکن دنیا کے نقشوں پر اسے ”ملاوی جھیل“ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

    ایک زمانے تک ”زومبا“ اس مملکت کا دارُالحکومت تھا جو ملک کے جنوب میں واقع تھا لیکن 1975ء کے بعد سے نسبتاََ وسطی علاقے کا شہر”للونگوے“ یہاں کا دارُالحکومت ہے، یہ شہر ملک کا صنعتی اور کاروباری مرکز بھی ہے۔ اس سرزمین پر انسانی قدموں کی تاریخ پچاس ہزار سال قدیم ہے۔

    ”بنٹو“ زبان بولنے والے قبائل نے یہاں تیرہویں صدی سے پندرہویں صدی کے درمیان حکومت کی ہے، ان خاندانوں کا طرّۂ امتیاز ہے کہ انہوں نے تعلیم و تعلم کی اس قدر سرپرستی کی کہ اس دوران اور اس کے بعد کی مکمل تاریخ رقم کی گئی اور بہت کچھ جزیات تک بھی کتابوں میں میسر ہیں جب کہ افریقا جیسی سرزمین پر اس حد تک معلومات کی فراہمی شاذ و نادر ہی ہوا کرتی ہے۔

    اٹھارویں صدی کے آخر میں یورپی فاتحین نے یہاں یلغار کی اور ان کا مقصد انسانوں کے شکار کے ذریعے غلاموں کی فراہمی تھا، چنانچہ جب تک یورپی سامراج یہاں رہا ”ملاوی“ کا علاقہ غلام فراہم کرنے والی بہت بڑی منڈی بنا رہا۔ 6 جولائی 1964ء کو ملاوی نے آزادی پائی۔

    آبادی میں اضافے کی شرح پورے براعظم افریقا میں یہاں سب سے زیادہ ہے۔ اس ملک میں شہری زندگی نہ ہونے کے برابر ہے اور آبادی کی اکثریت دیہات میں ہی رہتی ہے۔

    ملاوی کا نصف علاقہ قابلِ زراعت ہے اور لگ بھگ اتنے ہی علاقے پر وسیع و عریض جنگلات قائم ہیں۔ ملاوی کی جھیل یہاں پانی کے حصول کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ اسی کے کنارے پر غلاموں کی خرید و فروخت کا بہت بڑا مرکز تھا جو اب ایک طرح سے بندرگاہ کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ تمباکو، چائے اور گنّا یہاں کی نقد آور فصلیں ہیں۔ زرعی ترقی کے باعث ملاوی افریقہ کا واحد ملک ہے جو خوراک میں خود کفیل ہے۔ یہاں کی آبادی میں افریقا کی تقریباََ تمام زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن ”چچوا“ یہاں کی مقامی و قومی زبان ہے اور کم و بیش دو تہائی اکثریت یہ زبان بولتی ہے۔ برطانوی سامراجی حکومت کی باقیات کے طور پر انگریزی کو دفتری زبان کا درجہ حاصل ہے اور پڑھے لکھے لوگوں کی اکثریت انگریزی سے بھی شناسا ہے۔

    افریقی جنگلوں کی طرح یہاں بھی چیتے، شیر، ہاتھی اور زیبرے کثرت سے پائے جاتے ہیں اور کسی حد تک ان کے شکار کی اجازت بھی ہے۔

    (مترجم: ڈاکٹر ساجد خاکوانی)

  • برطانوی تہذیب کا حال

    برطانوی تہذیب کا حال

    آنسہ عنبرہ سلام کی پیشِ نظر تحریر نیاز فتح پوری کے معروف رسالے "نگار” میں‌ 1928 میں‌ شایع ہوئی تھی۔ اس کا عنوان تھا، "بلادِ مغرب، ایک مشرقی خاتون کی نگاہ سے۔”

    یہاں‌ ہم نے اس تحریر سے جو پارہ نقل کیا ہے، اس سے یہ جاننے کا موقع ملتا ہے کہ برطانوی راج میں جب ہر ہندوستانی آزادی کا نعرہ بلند کر رہا تھا، ایک طبقہ بالخصوص مشرقی خواتین نے انگلستان کی تہذیب اور معاشرت کو کس طرح دیکھا اور اس کی خوبیوں اور اپنے مشاہدات کو کیسے بیان کیا۔ جب کہ اس دور میں‌ انگریزوں کی مخالفت عروج پر تھی۔ ہندو، مسلمان اور دیگر مذاہب کے ماننے والے ہندوستانی برطانوی تہذیب و ثقافت سے سخت نفرت کرتے تھے اور ان کی تعریف کرنے والوں کو بھی مطعون کیا جاتا تھا۔ آنسہ لکھتی ہیں:

    "انگلستان جانے کے بعد سب سے پہلے جو لفظ میں نے سنا وہ [decent] تھا۔ اس کا استعمال یہاں کے لوگ بار بار کرتے ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر چیز کا جمالی پہلو ہی ان کے سامنے رہتا ہے۔ اور مشکل سے کبھی لفظ [nasty] ان کے منہ سے سننے میں آئے گا جو اوّل الذّکر لفظ کا بالکل ضد ہے۔”

    "اس میں شک نہیں کہ اس قوم میں نقائص بھی ہیں اور برائیاں بھی ہیں لیکن کریم النّفسی کی مثالیں ان میں زیادہ پائی جاتی ہیں۔ وطن پرستی، مفادِ قومی، تعاونِ باہمی، یہ وہ خصوصیات ہیں جو ایک شخص کی کریم النّفسی پر دلالت کرتی ہیں اور یہاں کی آبادی کا غالب حصہ (مرد و عورت دونوں کا) ان صفات سے متصف نظر آتا ہے۔”

    "یہاں کی تہذیب کا یہ حال ہے کہ زندگی کے ہر شعبہ سے ظاہر ہوتی ہے۔ دکان میں مال بیچنے والا، اسٹیشن پر ٹکٹ دینے والا پہلے شکریہ ادا کرے گا اور پھر مال یا ٹکٹ دے گا۔ بلکہ اس سے زیادہ یہ کہ نوکر کا بھی شکریہ ادا کیا جاتا ہے اور ایک افسر اپنے ماتحت کی خدمت کا بھی اعتراف شکریہ سے کرتا ہے۔”

    "دوسروں کی خدمت و امداد کے لیے یہاں کے لوگ ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ میں ایک مرتبہ رشمونڈ پارک میں ٹہل رہی تھی اور میری چھوٹی بہن جو بیمار تھی میرے بھائی کی گود میں تھی جس کو وہ بہت دیر سے لیے ہوئے تھا۔”

    "ہمارے ساتھ ہی ساتھ ایک اور مرد بزرگ بھی جس کی عمر 60 سال کی ہوگی مع اپنی بیوی ٹہل رہا تھا، صورت و لباس سے یہ لوگ بہت معزّز معلوم ہوتے تھے۔ میرے بھائی نے تھک کر چاہا کہ بچّی کو گود سے اتار دے لیکن وہ اسے زمین تک نہ لایا ہوگا کہ اسی مردِ ضعیف نے اپنی چھڑی اپنی بیوی کو دی اور بڑھ کر آگے آیا اور بولا کہ "اب اس بچّی کو گود میں لے کر چلنے کی باری میری ہے۔”

    "جانوروں کے ساتھ بھی یہاں لطف و رحم کا سلوک کیا جاتا ہے۔ میں دو سال انگلستان میں رہی لیکن اس دوران میں نے کسی کے منہ سے ایک کلمہ بھی ایسا نہیں سنا جو دل کو برا لگتا۔ میں روزانہ صبح کو ریل میں بیٹھ کر ایک گھنٹہ کے لیے سفر کو نکل جاتی تاکہ میں یہاں کے لوگوں کا زیادہ قریب سے مطالعہ کروں۔ ریل میں ہجوم کا یہ عالم ہوتا کہ تل رکھنے کو جگہ نہ ملتی لیکن میں نے بھی نہیں دیکھا کہ یہاں کے مرد عورت ریل میں بھی اپنا وقت ضائع کریں۔ جس کو دیکھیے یا تو وہ کسی اخبار کا مطالعہ کرتا ہوا ملے گا یا کوئی کتاب پڑھ رہا ہو گا۔ یہی حال عورتوں کا ہے۔”

    "ایک دود ھ بیچنے والا نکلتا ہے اور ہر دروازہ پر دودھ کی بوتلیں رکھتا ہوا چلا جاتا ہے، نہ وہ دروازہ کھٹکھٹاتا ہے اور نہ چوری کا اندیشہ اس کو ہوتا ہے۔ راستہ میں میز کے اوپر اخبار رکھے ہوئے ہیں، لوگ گزرتے ہیں، قیمت وہیں رکھ دیتے ہیں اور اخبار لے کر چلے جاتے ہیں۔”

    "پھر یہ دیانت و امانت پولیس یا قانون کے خوف سے نہیں بلکہ حقیقتاً ان کے ذہن ہی میں یہ بات نہیں آتی کہ کوئی انسان ایسی نحیف و ذلیل حرکت بھی کرسکتا ہے اور یہ نتیجہ ہے صرف ان کی اعلیٰ تربیتِ ذہنی کا۔

    برنارڈ شا کہتا ہے کہ "مدنیت نام ہی اس کا ہے کہ تم میرا اور میری خصوصیات کا احترام کرو، میں تمہارا اور تمہاری خصوصیات کا احترام کروں گا۔”

    "حقیقت یہ ہے کہ اہلِ انگلستان نے اس کو پوری طرح سمجھا اور نہایت تکمیل کے ساتھ اپنے ملک کے اندر اس پر عمل کر رہے ہیں۔”

  • سوئیڈن اور فن لینڈ کے درمیان واقع آلینڈ کی کہانی

    سوئیڈن اور فن لینڈ کے درمیان واقع آلینڈ کی کہانی

    فن لینڈ براعظم یورپ کے شمال میں واقع ہے۔ اس ملک نے بھی سوئیڈن کے بعد روس کا قبضہ اور تسلّط دیکھا اور بعد میں وقت کا دھارا تبدیل ہوا تو آزادی حاصل کی۔

    اسی فن لینڈ کے کئی چھوٹے چھوٹے جزائر پر مشتمل علاقے کو دنیا آلینڈ (Aland) کے نام سے جانتی ہے۔ یہ ایک جزیرہ نما اور خود مختار علاقہ ہے۔ آج ہم آپ کی دل چسپی کے لیے آلینڈ کے بارے میں کچھ بنیادی باتیں اور ضروری معلومات آپ تک پہنچا رہے ہیں۔

    آلینڈ بحرِ بالٹک میں فن لینڈ اور سویڈن کے درمیان موجود ایک خلیج کے جنوبی سرے پر واقع ہے۔ اس کی آبادی محض چند ہزار نفوس پر مشتمل ہے جب کہ آلینڈ 6500 جزائر پر مشتمل ہے۔ ان جزائر میں سے صرف ساٹھ ہی انسانوں نے آباد کررکھے ہیں اور باقی چند جزائر ہی تفریحی مقام کے طور پر انسانوں کی آمد و رفت دیکھتے ہیں اور ان میں سے اکثر مکمل طور پر ویران پڑے ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ فن لینڈ کا حصّہ ہونے کے باوجود آلینڈ میں ٹیکس کا اپنا نظام ہے، ڈاک ٹکٹ الگ ہیں، اس کا جھنڈا بھی الگ ہے اور سرکاری زبان سویڈش ہے۔

    یہ انتہائی خوب صورت اور وسائل سے مالا مال علاقہ ہے۔ حکومت نے مختلف جزائر کو آپس میں ملانے کے لیے پُلوں، سڑکوں اور کشتیوں کا انتظام کر رکھا ہے۔ آلینڈ سیروسیّاحت کے لیے بھی مشہور ہے اور یہاں آنے والے کشتی رانی، ماہی گیری، سمندری مہم جوئی، گولف، سائیکلنگ وغیرہ سے ضرور لطف اندوز ہوتے ہیں۔

    چوں کہ فن لینڈ پر ایک عرصہ سویڈن نے اپنا تسلّط برقرار رکھا، لہٰذا یہاں سے جانے اور فن لینڈ کی آزادی کے بعد بھی جزائر آلینڈ کی ملکیت کا تنازع ان ممالک کے بیچ رہا ہے۔ دراصل یہ جزائر دونوں ملکوں کے درمیان واقع ہیں اور ان ممالک کے لیے کئی لحاظ سے اہمیت رکھتے ہیں۔ تاہم یہاں کے باشندوں نے دونوں ملکوں کو چھوڑ کر آزاد اور خود مختا رہنا پسند کیا۔ یہ تنازع 1930ء میں حل کر لیا گیا جس کی رُو سے ان جزائر کے باشندوں کو مکمل آزادی تو نہیں ملی مگر یہ اپنے بنیادی معاملات طے کرنے میں آزاد اور فیصلوں میں خود مختار قرار پائے جس کی مثال مختلف نظام ہائے ریاست ہیں جن میں‌ کوئی ملک مداخلت نہیں‌ کرتا۔

    یہاں کے لوگ خوش مزاج، نرم گفتار اور صفائی ستھرائی کے اصولوں کے ساتھ قوانین کی پاس داری کے لیے مشہور ہیں۔

  • پرتگالی ’’سیام‘‘ سے کچھ حاصل نہ کرسکے!

    پرتگالی ’’سیام‘‘ سے کچھ حاصل نہ کرسکے!

    تاریخ کے مطابق تھائی، چائنا کے جنوب مغرب میں رہنے والی قوم ہے۔ اقوامِ عالم میں طویل عرصہ تک ’’سیام‘‘ کے نام سے پہچانی جاتی تھی۔ سیام سنسکرت زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے ’’شوخ‘‘ یا ’’بھورا۔‘‘

    مشرقِ بعید میں رہنے والی دوسری اقوام کے مقابلے میں ان کی رنگت قدرے شوخ اور بھوری ہوتی ہے۔ چینی سیام کو ’’سیان‘‘ بولتے ہیں۔ تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ اقوامِ عالم میں سب سے پہلے پرتگالیوں نے اس لفظ کا استعمال کیا تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح پرتگالیوں نے بھی سترھویں صدی کے اوائل میں سفارتی مشن بھیجا، مگر انگریز کے لیے جیسی سونے کی چڑیا ہندوستان ثابت ہوا، سیام سے پرتگالیوں کو کچھ نہ ملا۔

    زمانۂ قدیم سے یہ علاقہ چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں منقسم رہا۔ چنگ سین ایوٹایا، چنگ مائی، لانا اور سوکھ تائی، یہ ریاستیں قدیم زمانے سے ایک دوسرے سے دست و گریباں اور قریبی ریاستوں ویت نام اور برما کے لیے دردِ سر بنی رہیں۔ 1767ء میں برمیوں نے ایوٹایا کی چار سو سال سے قائم ریاست پر حملہ کر دیا۔ دارالحکومت کو گویا آگ لگا دی۔ ہزاروں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور اپنی عمل داری قائم کی۔

    1769ء میں جنرل تاکسن نے بچی کھچی ریاست کو دوبارہ منظّم کیا۔ تون بری کو نیا دارالخلافہ بنایا اور خود جنرل تاکسن سے کنگ تاکسن دی گریٹ بنا، تیرہ سالہ حکم رانی میں جنرل کو اندرونی خلفشار، بیرونی سازشوں اور مسلسل جنگی حالات نے ذہنی طور پر مفلوج کر دیا۔ پاگل پن کے دورے پڑنے شروع ہوئے اور آخر کار راہب کا لبادہ اوڑھ کر جنگل کی طرف بھاگ گیا اور اس کے بعد کہیں نظر نہ آیا۔

    1782ء میں جنرل چکری نے اُن کی جگہ لی۔ خود کو راما کا خطاب دیا اور یوں چکری خاندان کی بادشاہت کی داغ بیل ڈالی۔ اسی سال چاؤ پریا نامی دریا کے دونوں کناروں کو پختہ کرکے نئی بستی بسائی اور پھر اس کو دارالحکومت کا درجہ دے کر بنکاک کے نام سے موسوم کیا۔ 1790ء میں برمیوں کو شکست دی اور اپنی بادشاہت قائم کر لی۔

    سترھویں اور اٹھارویں صدی میں جب مغربی اقوام نے باقی دنیا پر اپنی حکم رانی کے شکنجے کسے اور جگہ جگہ اپنی کالونیاں قائم کیں تو مشرقِ بعید بھی ان کے طوقِ غلامی سے محفوظ نہ رہا۔ برطانوی اور فرانسیسی افواج نے جب یہاں کا رُخ کیا تو تھائی لینڈ پر قبضے سے دونوں نے اجتناب برتا اور اس کو بفرزون بنایا تاکہ دونوں افواج کی آپس میں مڈبھیڑ نہ ہو۔ دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے کے تیس سال بعد 1973ء میں عوام کو حکومت بنانے کا موقع دیا گیا۔

    (الطاف یوسف زئی کے سفر نامے کا ایک ورق)

  • "رام کوٹ” کی سیر کیجیے!

    "رام کوٹ” کی سیر کیجیے!

    یوں تو وطنِ عزیز میں کائنات کا ہر رنگ، ہر نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے اور قدرتی حسن میں بلند و بالا پہاڑی چوٹیاں، کوہ سار، چشمے، جھیلیں، دریا اور سمندر کے علاوہ صحرا، ریگستان اور حسین و سرسبز وادیاں شامل ہیں، مگر یہ خطۂ زمین اپنی تہذیب اور بیش قیمت آثار کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔

    پاکستان کے قدیم تہذیبی آثار اور تاریخی عمارتوں کی سیر کرنے والا آج بھی انھیں دیکھ کر مبہوت اور دنگ رہ جاتا ہے۔

    ہمارے ملک میں اہم تاریخی اور قدیم دور کی یادگاروں میں کئی قلعے بھی شامل ہیں جنھیں مختلف بادشاہوں، راجاؤں نے تعمیر کروایا اور یہ شان و شوکت اور ان کے دورِ سلطانی کی عظیم نشانیاں ہیں۔

    قلعہ رام کوٹ بھی انہی میں‌ سے ایک ہے جو آزاد کشمیر میں منگلا ڈیم کے نزدیک واقع ہے۔ کشمیر کی حسین وادی کے علاقے دینا سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع اس قلعے تک پہنچنے کے لیے کشتی سے سفر کرنا پڑتا ہے۔ تاہم سیر کے لیے جانے والے جب آزاد کشمیر کے علاقے میر پور سے قلعے کو سفر کریں تو سڑک کے ذریعے پہنچ سکتے ہیں۔

    تاریخ بتاتی ہے کہ سولھویں اور سترھویں صدی عیسوی کے درمیان کشمیر کے راجاؤں نے یہاں کئی قلعے تعمیر کروائے تھے اور رام کوٹ بھی اسی دور کی یادگار ہے۔

    یہ قلعہ ایک اونچی پہاڑی پر قائم کیا گیا تھا، جس کے اطراف دریا اور سبزہ ہی سبزہ تھا۔ قلعے کے اندر مختلف کمرے، ہال اور تالاب بھی موجود ہیں اور یہ در و دیوار ماضی کی شان و شوکت کی کہانی سناتے معلوم ہوتے ہیں۔

    بدقسمتی سے اس اہم تاریخی ورثے اور طرزِ تعمیر کے شاہ کار کو حکومت اور انتظامیہ کی عدم توجہی اور غفلت کی وجہ سے نہ تو دنیا اور مقامی سیاحوں کی توجہ حاصل ہوئی اور نہ ہی اس کی حفاظت اور دیکھ بھال کا کوئی بہتر اور مناسب انتظام کیا جاسکا۔ ماہرینِ آثار کے مطابق دفاعی اعتبار سے اس قلعے کی تعمیر کا مقام نسبتا بلند اور رسائی کے لحاظ سے پُرپیچ اور دشوار ہے، لیکن اب حکومت کو چاہیے کہ وہ یہاں تک پہنچنے کے لیے سفری سہولیات دے اور اس کی مرمت اور دیکھ بھال کرے۔

  • درون نیشنل پارک میں دیکھنے کے لیے کیا کچھ ہے؟

    درون نیشنل پارک میں دیکھنے کے لیے کیا کچھ ہے؟

    بلوچستان فطری حُسن اور دل فریب مناظر کے ساتھ کئی تاریخی مقامات کے لیے بھی شہرت رکھتا ہے۔

    بلوچستان میں متعدد تفریح گاہیں ہیں جو سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتی ہیں۔ ان میں مشہور علاقہ زیارت، درون نیشنل پارک، ہزار گنجی، چلتن نیشنل پارک، قدرتی حُسن سے مالا مال ہر بوئی جنگلات، ہنگول نیشنل پارک وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔

    ہم درون نیشنل پارک کی بات کریں تو یہ لسبیلہ سے مغرب میں 115 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس نیشنل پارک کی سب سے اونچی چوٹی کا نام ”سرکوہ“ ہے، جس کی بلندی 5185 فٹ ہے۔

    اسی چوٹی پر کسی زمانے میں ایک اونچا ٹاور بنایا گیا تھا جس پر کھڑے ہو کر لسبیلہ اور کراچی کا کچھ علاقہ بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

    یہ ٹاور اب خستہ ہو چکا ہے۔ 1988 میں حکومتِ بلوچستان نے اس مقام کو نیشنل پارک کی حیثیت دے دی تھی۔ یہاں حیوانات اور نباتات کی مختلف اقسام کو قدرتی ماحول میں پروان چڑھنے کا موقع دیا گیا اور ان کی افزائشِ نسل کی گئی۔

    درون نیشنل پارک میں عام جانور جیسے پہاڑی بکرے، خرگوش، جنگلی بلیاں وغیرہ دیکھی جاسکتی ہیں، اسی طرح چنکارہ ہرن، مور، چیتے، بھڑیے، چیتا بلی، لومڑی، گیڈر، اڑیال بھی پھرتے نظر آتے ہیں۔

    درختوں پر خوب صورت کبوتر، چڑیا، توتے کے علاوہ تیتر، سیسی، کوہی جیسے پرندے بھی نظر آجاتے ہیں۔ اسی طرح اژدھے، زہریلے سانپ اور دیگر موذی حشرات بھی اس پارک میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہاں مختلف چشموں میں آبی نباتات کے علاوہ مچھلی و دیگر جاندار بھی پائے جاتے ہیں۔

    درون نیشنل پارک سے دل چسپ قصے اور مختلف پُراسرار واقعات بھی منسوب ہیں جسے مقامی لوگ یہاں آنے والے سیاحوں کو سناتے ہیں اور یوں ان کی دل چسپی اور توجہ حاصل کرتے ہیں۔

  • پرتگال کی سیر کیجیے

    پرتگال کی سیر کیجیے

    بحرِاوقیانوس کے کنارے آباد پرتگال جنوب مغربی یورپ کاحصّہ ہے۔ جغرافیائی حقیقت اپنی جگہ مگر یہ بات شاید آپ کی دل چسپی کا باعث ہو کہ پرتگال کسی پڑوسی ملک سے محروم ہے۔

    اسی ملک پرتگال سے تعلق رکھتے ہیں انتونیو گوتریس، جن کا ملکی ذرایع ابلاغ میں خوب چرچا ہو رہا ہے۔ وہ پاکستان میں ہیں اوراہم تقاریب میں شرکت کے ساتھ مختلف تاریخی مقامات کا دورہ بھی کررہے ہیں جس سے وہ ہماری تاریخ، اس خطے کی تہذیب، ثقافت اور رسم و رواج کے بارے میں جان سکیں گے۔

    ہم بھی انتونیو گوتریس کے وطن پرتگال چلتے ہیں جس پر صدیوں پہلے مسلمان حکم رانی کیا کرتے تھے۔

    پرتگال کے مشرق اور شمال میں صرف اسپین آبادہے۔یوں کہیے کہ اسپین کی سرحد کے علاوہ اس ملک کے باسی ہر طرف ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر دیکھتے ہیں۔

    رقبے کے اعتبار سے اسے ایک چھوٹا ملک کہا جاسکتا ہے، لیکن یورپ میں مختلف حوالوں سےپرتگال اہمیت رکھتا ہے۔ قدیم زمانے میں بھی اس علاقے کو یورپ کےلیے راستے اور گزر گاہ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔

    تاریخی اعتبار سے یہ علاقہ مسلم اسپین کاحصہ رہاہے۔ تاہم اس سے قبل یہاں مختلف تہذیبوں کااثر رہا، جن کے آثار میں رومیوں کے دور کی آبادیاں اور شہرقابلِ ذکر ہیں۔ 868عیسوی میں پرتگال ایک عیسائی ریاست میں تبدیل ہو گیا جب کہ 1139 میں یہاں خود مختار شاہی ریاست قائم کر دی گئی۔ یہاں ایک زمانےمیں یہودی بھی بڑی تعداد میں آباد تھے۔

    1910 کے بعد پرتگال نے جمہوریت کا سفر شروع کیا۔ تاہم 1974 کے انقلاب نے اس ملک کی سیاست اور سماج پر گہرے اثرات مرتب کیے اور یہاں کے دستور میں ریاست کا سربراہ صدر ِمملکت ٹھیرا جس کا انتخاب قوم براہِ راست کرتی ہے۔ وزیرِاعظم اور اس کی کابینہ کے ہاتھوں میں ملکی نظم و نسق اور انتظامات آئے۔

    پاکستان کا دورہ کرنے والے انتونیو گوتریس نے پرتگال کے شہر لزبن میں آنکھ کھولی اور انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کر کے اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے تدریس کا سلسلہ شروع کیا، مگر بعد میں سیاسی مصروفیات کی وجہ سے یہ سلسلہ ترک کر دیا۔ سوشلسٹ پارٹی کے یہ راہ نما پرتگال کے وزیرِ اعظم کے عہدے تک پہنچے اور آج اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔