Tag: سیر و سیاحت

  • چین بیجنگ کا سمر پیلس

    چین بیجنگ کا سمر پیلس

    بیجنگ کے نواح میں واقع سمر پیلس گرمیوں کی شدت سے بچنے کے لئے شاہی خاندان کا ایک بے مثال تفریحی مقام تھا جہاں شہزادے، شہزادیاں اپنے بے شمار خادموں اور کنیزوں کے ہمراہ سخت گرمی کا موسم نسبتاً بلندی پر واقع اس پر فضا مقام پر گزارتے۔

    بیجنگ چین کے شمال میں ہونے کے باعث سردیوں میں بے انتہا سرد ہو جاتا ہے جہاں درجۂ حرارت منفی آٹھ دس ڈگری تک چلا جاتا ہے لیکن یہاں کی گرمی بھی کم ستم نہیں ڈھاتی۔ بس اسی گرمی سے بچاؤ کے لئے شاہی خاندان شہر کے مرکزی محلات سے اٹھ کر اپنا پڑاؤ یہاں پر ڈال لیتے۔ اس مقام کی تعمیر چینی بادشاہت کے مشہور سلسلے چھنگ (Qing) کے بادشاہ چھیان لونگ نے سن 1750ء سے 1764ء کے دوران کی۔ چھنگ بادشاہوں کو آپ چین کے مغل حکمران سمجھ سکتے ہیں۔ سمر پیلس کے نام سے ہم نے یہی تاثر لیا تھا کہ ایک بڑا سا محل ہو گا جو دیو قامت فصیلوں اور دیواروں میں گھرا ہوا ہو گا اور ان سب روایتی چیزوں کو دیکھنے کے لئے دو سے تین گھنٹے کافی ہوں گے لیکن یہ تاثر غلط اور دو تین گھنٹوں کا وقت ناکافی تھا۔

    پیلس کے ٹکٹ خریدنے کے بعد محل کے در و دیوار دیکھنے کے لئے اندر داخل ہو کر جو نظر دوڑائی تو یہ انکشاف ہوا کہ انتہائی وسیع و عریض رقبے پر پھیلا ہوا یہ عجوبہ چند محلات نہیں بلکہ ایک خوب صورت جھیل اور اس کے اردگرد چھوٹے بڑے پلوں، روایتی عمارات اور عبادت گاہوں پر مشتمل ایک پوری بستی ہے۔

    آپ چین کے کسی بھی تاریخی اہمیت کے مقام یا قدیم گھروں کو دیکھیں تو ان کی تعمیر کو فطرت سے بہت ہم آہنگ پاتے ہیں۔ عمارتوں کے اطراف میں قدرتی حسن کو ایک خاص توازن سے رکھا جاتا ہے۔ جگہ جگہ کھلے صحن تالابوں، درختوں اور فواروں سے مزین ہوتے ہیں۔ راہداریوں کے ذریعے ہوا کے گزرنے کا قدرتی انتظام موجود ہوتا ہے۔ ان گھروں، عمارتوں اور باغات میں ایک خاص انداز کا ربط ہوتا ہے جو حیرت انگیز طور پر اعصاب کو بہت سکون پہنچاتا ہے۔ اس طرز تعمیر کے پیچھے مشہور چینی فلسفی کنفیوشس کی تعلیمات کا اہم کردار ہے جو فطرت سے ہم آہنگی پر بہت زرو دیتا تھا۔ سمر پیلس میں داخلے کے بعد شروع میں ہی بیٹھے مختلف اشیاء اور سوینیئرز فروخت کرنے والے اسٹالز کے رش سے گزر کر آپ جونہی آگے بڑھتے ہیں فطرت سے ہم آہنگ چینی فلسفہ اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیتا ہے۔ سمر پیلس کو چینی زبان میں ای ہایوآن (Yihe Yuan) کے نام سے جان جاتا ہے جس کا مطلب ہی آرام و سکون والا باغ ہے۔ تین کلو میٹر پر محیط مصنوعی جھیل اس مقام کے ایک بڑے حصے پر پھیلی ہوئی ہے اور اس کے اطراف میں چھوٹے بڑے پل اور راہداریاں ہیں جو ہرے بھرے درختوں اور بکھری ہوئی خوبصورت روایتی عمارات سے سجی ہوئی ہیں۔ سمر پیلس کا مرکزی مقام ایک پہاڑی ہے جسے Longevity Hill کے نام سے جانا جاتا ہے بتدریج بلند ہوتے اس حصے کی سیڑھیاں چڑھتے جائیں اور بالآخر جب آپ کا سانس پھول جائے اور فوراً پانی کی طلب ہو تو سمجھ جائیں کہ آپ اس کے سب سے بلند حصے اور مرکزی بدھ ٹیمپل کے سامنے پہنچ چکے ہیں۔ اس ٹیمپل کے اندر بدھ مت کے انتہائی خوبصورت اور دیو ہیکل سنہری مجسمے ہیں جہاں اگر بتیاں جلاتے ہوئے سیکڑوں عقیدت مند نظرآتے ہیں۔ یہ اس پیلس کا سب سے بلند مقام ہے جہاں سے کھڑے ہو کر آپ ارد گرد کے مناظر اسی طرح دیکھ سکتے ہیں جیسے شکر پڑیاں سے اسلام آباد کا نظارہ کیا جاتا ہے۔

    جہاں شاہی خاندانوں کی حیرت انگیز تعمیرات اور باغات کا ذکر ہو وہاں ان کی شاہانہ زندگی سے متعلق رنگین قصے نہ ہوں یہ ممکن نہیں۔ مشہور ہے کہ سمر پیلس کی خوبصورت جھیل (Kunming Lake) میں روایتی کشتیوں پر سوار بادشاہ اور ان کے حرم کی کنیزیں جھیل کے کناروں پر خصوصی دکانوں سے قیمتی اشیاء خریدتی تھیں۔ یہ خریداری محض ایک دکھاوا ہوتی کیونکہ پوری مارکیٹ ہی شاہی خاندان کی ملکیت تھی یعنی مفت کی شاپنگ محض تفریح طبع کے لئے ہوتی۔ پیلس کی اونچی نیچی راہداریوں، سر سبز اطراف میں چہل قدمی کرتے ہوئے اس کی منصوبہ بندی کرنے والوں کو داد دینی پڑتی ہے۔ جگہ جگہ بکھری عمارتوں میں شاہی خاندان کی رہائش گاہوں کے علاوہ دفتری امور سے متعلق بھی جگہیں موجود تھیں جہاں بادشاہ سلامت یا ملکۂ عالیہ سرکاری امور بھی سر انجام دیتے۔

    جس طرح بعض لوگ بھلی صورت پر صرف بری نگاہ ہی ڈالتے ہیں اسی طرح یہ خوبصورت مقام بھی چینی بادشاہوں اور مغربی اقوام کے درمیان ہونے والی جنگوں میں تاراج ہوا۔ برطانوی اور فرانسیسی دستوں نے کمزور پڑتی چینی بادشاہت سے مقابلے کے دوران اس جگہ کا گھیراؤ جلاؤ اور لوٹ مار کی۔ بادشاہت کے زوال کے دنوں میں اس کی تعمیر نو مشہور چینی ملکہ سی شی (Ci Xi) کے عہد میں ہوئی جس نے ایک طویل عرصے چین پر حکمرانی کی۔ ملکہ نے اس مقام پر نہ صرف مستقل ڈیرے ڈال لیے تھے بلکہ سرکاری معاملات بھی یہیں سے دیکھتی جس کے باعث یہاں ملکہ کی تفریح و طبع کے لئے روایتی تھیٹر کی عمارت سے لے کر ہر طرح کی آسائش کا انتظام موجود تھا۔ زوال کے ان دنوں میں بھی اس جگہ کی دیکھ بھال پر بھاری اخراجات جاری رہے جو بالآخر ملکہ کی موت اور اس کے چند برس بعد ہی 1912ء میں بادشاہت کے مکمل خاتمے کے ساتھ اپنے انجام کو پہنچے۔

    سمر پیلس کی خوبصورتی اور تاریخی اہمیت نے اسے دنیا کے بہترین سیاحتی مقامات میں سے ایک کا درجہ دلا دیا ہے۔ بادشاہتیں جہاں کی بھی رہی ہوں شان و شوکت کے اظہار کے لئے بادشاہوں نے کئی عجوبۂ عالم تعمیرات کیں اور اس معاملے میں چینی بادشاہوں نے تو اس فن کو کمال تک پہنچا دیا۔ اپنے عروج کے زمانوں میں انہوں نے اپنے لا محدود اختیارات کو بھر پور طریقے سے استعمال کیا اور رعایا سے ایسے ایسے کام کروا لئے کہ آج بھی ان کی نشانیاں حیرت زدہ کر دیتی ہیں۔

    (منصور خالد کے ایک کالم سے اقتباسات)

  • Liechtenstein: یورپ کا چھوٹا سا سرسبز و شاداب ملک (سیر و سیاحت)

    Liechtenstein: یورپ کا چھوٹا سا سرسبز و شاداب ملک (سیر و سیاحت)

    لیختینستائن (Liechtenstein) یورپ میں سوئٹزر لینڈ اور آسٹریا کے درمیان واقع ایک چھوٹا سا ملک ہے جس کا دارالحکومت ویڈز (Vaduz) ہے۔ یہاں کی دفتری زبان جرمن ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پانچ ہزار قبلِ مسیح میں بھی یہاں انسانی تہذیب موجود تھی۔

    آج لیختینستائن کا کُل رقبہ 62 مربع میل یا 160 مربع کلو میٹر سے بھی کم ہے جب کہ آبادی 38 ہزار سے کچھ زائد نفوس پر مشتمل ہے۔ یہ ملک پہاڑی علاقے پر مشتمل ہے اور قابلِ تجارت قدرتی وسائل سے محروم ہے بلکہ پہاڑی اور سخت پتھریلی زمین کے باعث یہاں کاشت کاری بھی ممکن نہیں اور لکڑی تک باہر سے درآمد کی جاتی ہے۔ اس کے باوجود یہ ایک خوشحال ملک ہے جس کی بڑی وجہ سیاحت ہے جو یہاں کی سب سے بڑی صنعت ہے۔

    لیختینستائن میں شرحِ خواندگی مردوں عورتوں میں سو فی صد ہے۔ کم آبادی والے اس ملک میں امن و امان قائم رکھنے اور تنازعات یا لوگوں کے جھگڑے نمٹانے کے لیے مختصر سی پولیس موجود ہے جب کہ اس کی سرحدوں کا دفاع سوئزر لینڈ نے اپنے ذمہ لیا ہے۔

    سرکاری مذہب عیسائیت (رومن کیتھولک) ہے جب کہ آئین میں دیگر مذاہب کو بھی تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ یہاں‌ کچھ فی صد مسلمان بھی بستے ہیں جن کی اکثریت غیرمقامی ہے۔ یہاں بارش اور برف باری بہت ہوتی ہے اور تقریباََ سارا سال بادل چھائے رہتے ہیں۔

    قدیم تاریخ دیکھی جائے تو معلوم ہو گاکہ یہ خطّہ رومی سلطنت کے صوبے ”ریتیا“ کا حصّہ رہا ہے، لیکن سولھویں صدی میں یہاں روس اور فرانس کی افواج قابض رہی ہیں۔ بعد میں یہ ملک جرمن یونین کا حصّہ بن گیا۔ پہلی جنگِ عظیم کے بعد اسے آزادی نصیب ہوئی۔ یہاں‌ کئی قلعے اور محلّات ہیں‌ جو قدیم دور کی یادگار ہیں اور یورپی طرزِ تعمیر کا خوب صورت شاہ کار بھی۔

    یورپ کی خوب صورتی اور سبزہ و شادابی کے ساتھ تعمیرات بھی مشہور ہیں جب کہ انتظامی امور میں بھی یورپی ممالک پاکستان جیسے ملکوں میں ایک مثال سمجھے جاتے ہیں اور یہ بھی ایسا ہی چھوٹا سا ملک ہے جس میں سڑکوں کا بہت عمدہ نظام اور ریلوے موجود ہے۔ لیکن یہاں صرف زمینی راستے سے پہنچا جاسکتا ہے اور یہاں کوئی ہوائی اڈا نہیں ہے۔

    19 مارچ اس ملک کے قومی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔

    (تلخیص و ترجمہ: منہاج الدّین)

  • کرونا، سیاحت کے شعبے میں تبدیلیاں اور ہم

    کرونا، سیاحت کے شعبے میں تبدیلیاں اور ہم

    تحریر: عمیر حبیب

    سیر و سیاحت اور تفریحی سرگرمیاں انسان کو نئی توانائی، ہمت، حوصلہ اور بہت کچھ سیکھنے سمجھنے کا موقع دیتی ہیں۔ سیاحت، سیر اور تفریح کے مقابلے میں باقاعدہ صنعت ہے جس سے دنیا بھر کے کروڑوں لوگوں کا روزگار جڑا ہوا ہے۔

    کرونا کی وبا نے جہاں عام زندگی اور کاروبار کو بری طرح متاثر کیا ہے، وہیں سیاحت اور اس پر انحصار کرنے والے ممالک کی معشیت پر بہت برا اثر پڑا ہے۔

    سیاحت سے متعلق اقوامِ متحدہ کی عالمی تنظیم کے محتاط اندازے کے مطابق سیاحت میں جہاں رواں سال 80 فی صد تک کمی سے کم از کم 100 ملین ملازمتوں کو خطرہ لاحق ہے، وہیں اگلے چند سال میں سیاحت ایک مختلف شکل میں ڈھل سکتی ہے۔

    دنیا کے کئی ممالک اب بھی اس وبا کی زد میں ہیں جب کہ بہت سے ممالک نے اس وبا پر قابو پانے کا دعویٰ کیا ہے، ان ممالک میں یونان بھی شامل ہے جس کی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ کرونا پر قابو پا چکے ہیں اور ملک کو یکم جولائی سے سیاحوں کے لیے کھول دیا جائے گا۔ یورپ کے ایسٹونیا، لٹویا اور لیتھوانیا نے تینوں ملکوں میں‌ شہریوں کی آمدورفت کے لیے سرحدیں کھولنے کا اعلان کیا ہے۔

    پرتگال میں ایمرجنسی ختم کردی گئی ہے، مگر کچھ شرائط کے ساتھ اندرون ملک سفری کی اجازت دی گئی ہے۔ جرمنی، فرانس اور اٹلی حالات پر قابو پانے کی کوشش کررہے ہیں اور ماضی کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ یورپ موجودہ حالات پر قابو پا لے گا۔

    پیسیفک ایشیا ٹریول ایسوسی ایشن (پاٹا) کے چیف ایگزیکٹو ماریو ہارڈی کے مطابق آئندہ چند ماہ کے دوران ویتنام اور تھائی لینڈ ایک ٹریول کوریڈور بنانے پر غور کر سکتے ہیں۔ سیاحت کے شعبے کے ماہر اور تجزیہ نگار برینڈن سوبی کو توقع ہے کہ یورپ اور امریکا میں بھی اسی طرح کے انتظامات دیکھنے کو ملیں گے، مگر سیاحت کے لیے ماحول سازگار بنانے میں اگلے چند سال تک خاموشی رہے گی۔

    ماہرین کے مطابق کرونا کے بعد سفر اور سیاحت کے لیے ماحول بننے میں کچھ وقت لگے گا جب کہ بعض ماہرین نے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم شاید دوبارہ کبھی اسی طرح سفر نہیں کرسکیں گے۔

    سیاحت ایک ایسی صنعت ہے جو اس وبا کے بعد مکمل تبدیل ہوسکتی ہے اور ممکنہ طور پر اس میں بہتری آنے کا امکان ہے، کیو‌ں کہ مستقبل میں صحتِ عامہ کا خاص خیال رکھا جائے گا۔ سیاحت صرف مسافر کو ہی فائدہ یا نقصان نہیں پہنچاتی بلکہ مقامی معیشتوں اور معاشروں پر بھی یکساں اثرات مرتب کرتی ہے۔

    اس وقت معاش اور معیشت دونوں داؤ پر لگے ہوئے ہیں۔ سبھی ممالک سیاحت کو رواں دواں رکھنے کے طریقے سوچ رہے ہیں۔ سیاحت کے شعبے سے متعلق ادارے اور ماہرین اس بات کی کھوج میں لگے ہیں کہ اس صنعت کو کس طرح جدید اور محفوظ بنایا جائے اور ایسے کون سے اقدامات کیے جائیں جن سے چند سال کے اندر نقصانات کو پورا کیا جا سکے۔

    ہمارے ملک میں بھی سیاحتی مقامات جن میں قدیم تہذیبوں کے آثار، تاریخی مقامات اور تفریح گاہیں شامل ہیں، کی کمی نہیں۔ کورونا کی قید میں سیاحت کے لیے گھر سے نکلنے کے بجائے شوقین اسے پڑھ رہے ہیں، یعنی کتابوں اور مختلف ذرایع سے دنیا بھر کے سیاحتی مقامات کے بارے میں معلومات اکٹھا کررہے ہیں۔

    ہم اس موقع سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے سیاحتی مقامات سے متعلق معلومات اور سفر و قیام کی سہولیات سے دنیا کو آگاہی دے سکتے ہیں۔ اس ضمن میں آزاد کشمیر کی وادیوں، پہاڑی سلسلوں، جھیلوں، صدیوں پرانی تہذیبوں اور قدیم عمارتوں کی تصویری جھلکیاں دکھائی جاسکتی ہیں اور ان مقامات کی ویڈیوز تیار کی جاسکتی ہیں جو سیاحوں کو آنے والے دنوں میں پاکستان کا رخ کرنے پر آمادہ کریں۔ اس سے نہ صرف ہمارے ملک کا امیج بہتر ہوگا بلکہ سیاحت کو فروغ ملے گا جس سے لڑکھڑاتی ہوئی معیشت کو سہارا دیا جاسکتا ہے۔

    (بلاگر علم و ادب کے شیدا اور مطالعے کے عادی ہیں۔ سماجی موضوعات، خاص طور پر عوامی ایشوز پر اپنے تجربات اور مشاہدات کو تحریری شکل دیتے رہتے ہیں۔)

  • آرتھر فلپ اور پینگوئن کی پریڈ

    آرتھر فلپ اور پینگوئن کی پریڈ

    آسٹریلیا کے باسی ایڈمرل آرتھر فلپ کو بحری فوج کے ایک ایسے افسر کے طور پر یاد کرتے ہیں جس نے اپنی ذہانت اور لیاقت سے کام لے کر اس خطے میں حقِ ملکیت اور آباد کاری سے متعلق تنازع کے تصفیے میں اہم کردار ادا کیا۔ 1814 میں اس دنیا سے رخصت ہونے والا آرتھر فلپ ریاست نیو ساؤتھ ویلز کا پہلا گورنر بھی رہا۔

    یہ سترھویں صدی عیسوی کی بات ہے جب اس سرزمین کے ایک حصے پر برطانیہ نے دعویٰ کیا اوربرطانوی کالونیاں بساتا چلا گیا۔ مقامی آبادی نے اسے مداخلت تصور کیا۔ تب ایک موقع پر آرتھر فلپ نے اس خطے میں‌ دریافت ہونے والے جزائر اور نئے علاقوں کی ملکیت اور آباد کاری سے متعلق مذاکرات کی سربراہی کی اور فریقین میں تصفیہ کروا کے تاریخ کے صفحات میں اپنا نام لکھوایا۔

    آرتھر فلپ ہی وہ شخص ہے جس کے نام پر یہاں ایک جزیرہ بھی آباد ہے، جس کی آبادی بہت کم، مگر یہ خوب صورت اور اپنے قدرتی حسن، صاف ستھری آب و ہوا اور جنگلی حیات کی وجہ سے مشہور ہے۔ اسے فلپ آئس لینڈ کا نام دیا گیا ہے۔

    اس علاقے کو آرتھر فلپ ہی نے دریافت کیا تھا۔ یہ جزیرہ میلبورن شہر سے تقریباً 148 کلو میٹر کے فاصلے پر جنوب مشرق میں واقع ہے۔ کہتے ہیں وہ 1798 میں بحری سفر کے دوران یہاں پہنچا تھا۔ اس جزیرے کا کل رقبہ ایک سو مربع کلو میٹر ہے۔

    آج یہ ایک مشہور سیاحتی مقام ہے جہاں کئی خوب صورت پارک، تفریح گاہیں قائم کی گئی ہیں۔ یہاں مقامی شہری اور ملک کے دوسرے علاقوں سے گھومنے پھرنے کے لیے لوگ آتے ہیں اور خاص طور پر چراگاہوں میں پھرتی گائیں، کینگرو، اڑتے ہوئے پرندوں، اور مخصوص مقامات پر احاطے کے اندر آزاد گھومتے دیگر جانوروں کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔

    اس پُرفضا مقام کا حُسن بڑھاتے پینگوئن تو بچوں، بڑوں سبھی کو اپنی طرف متوجہ کرلیتے ہیں اور لوگ خاص طور پر ان کی "پریڈ” دیکھنے یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ ساحل پر اس خوب صورت جاندار کے لیے گھر بھی بنائے گئے ہیں جن میں ان کے بچوں کی شرارتیں، شوخیاں دیکھنے والوں کو مسکرانے پر مجبور کردیتی ہیں۔

  • وانُواَتو کی سیر کیجیے!

    وانُواَتو کی سیر کیجیے!

    اگر آپ قدرتی حُسن اور فطرت کے نظاروں سے مالا مال کسی ملک کی سیر کرنا چاہتے ہیں تو دنیا میں بہت سے ممالک موجود ہیں، لیکن فطرت کے ساتھ سادہ طرزِ زندگی اور لوگوں کا رہن سہن دیکھنا ہو تو وانُواَتو (Vanuatu) کا انتخاب کریں۔

    آسٹریلیا کے شمال میں جزائر پر مشتمل اس ملک کا دارالحکومت اور سب سے بڑے شہر کا نام پورٹ ولا ہے اور اس پورے شہر کی سیر کرنے میں صرف تین گھنٹے لگیں گے۔

    جنوبی بحر الکاہل میں 83 جزائر پر مشتمل اس ملک کو نقشے میں دیکھیں تو یہ انگریزی حرف "Y ” کی طرح نظر آتا ہے۔ اس کے پڑوسی ممالک میں فجی، آسٹریلیا، سلومن آئی لینڈ واقع ہیں۔

    یہاں کی آبادی تین لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ وانُواتو جنت نظیر ہے۔ اس جزیرے میں سرسبز وادیاں، حسین پہاڑ، جنگلات، شفاف دریا اور ساتھ ہی بحرالکاہل کی ہوائیں اور اس کا ساحل آپ کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔

    اس ملک میں چند سو کی تعداد میں مسلمان بھی آباد ہیں جن کا تعلق مختلف ممالک سے ہے۔ یہاں کے باشندے قبائل اور مختلف برادریوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہاں باقاعدہ پارلیمانی نظام رائج ہے۔

    وانُواتو کو 1980 میں آزادی ملی تھی۔ یہ جزائر ایک عرصے تک اینگلو فرنچ کالونی رہے۔ یہاں کی مقامی زبان بسلاما ہے جو انگریزی سے کافی ملتی جلتی ہے، لیکن فرانسیسی اب بھی بولی اور سمجھی جاتی ہے۔

  • سنگ تراشی اور نقاشی کا شاہ کار، اجنتا کے صدیوں‌ پرانے غار

    سنگ تراشی اور نقاشی کا شاہ کار، اجنتا کے صدیوں‌ پرانے غار

    اورنگ آباد، ہندوستان کا ایک تاریخی شہر ہے جہاں اندرونِ شہر کئی قدیم عمارتیں اور آثار سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتے ہیں۔ اسی طرح اورنگ آباد سے باہر صدیوں پرانے اجنتا کے غاربیش قیمت ورثہ اور اعجوبہ ہیں، جو تحقیق و دریافت سے وابستہ ماہرین اور دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔

    اورنگ آباد شہر سے باہر شمال کی طرف شہرہ آفاق اجنتا کے غار عالمی ثقافتی مقام کا درجہ رکھتے ہیں۔

    بدھ مت کی تاریخ اجنتا کے آثار کی دیواروں پر تصاویر کی شکل میں موجود ہے جو یہاں آنے والوں کو ہزاروں سال پیچھے لے جاتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق یہ ایک زمانے میں بدھ مت کے پیرو کاروں کا مرکز تھا جس میں فن سنگ تراشی، نقاشی و تصویر کشی دیکھ کر آج کے دور کا انسان بھی دنگ رہ جاتا ہے۔

    اجنتا دراصل ہندوستان کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جسے ان غاروں کی وجہ سے دنیا بھر میں جانا جاتا ہے۔

    یہ غار انسانی ہاتھوں کی صناعی اور کاری گری کا شان دار نمونہ ہیں۔ محققین کے مطابق ان میں کچھ تقریباً ڈھائی ہزار سال قبل اور کچھ غار چھٹی صدی عیسوی میں تراشے گئے تھے۔

    کئی نسلوں کا مسکن رہنے والے یہ غار کیا ہیں، رہائشی تعمیر کا شاہ کار اور انوکھے محل اور مکانات ہیں جنھیں اس دور میں بے پناہ مشقت اورسخت محنت سے تراشا گیا ہو گا۔

    ان غاروں میں بنائی گئی تصاویر کی بات کی جائے تو معلوم ہو گا کہ اس دور کے فن کار نباتات اور جمادات کی مدد سے رنگ تیار کرتے اور نہایت مہارت و خوبی سے اپنے شاہ کار کوان کے ذریعے گویا زندہ کردیتے۔

    ماہرین کےمطابق اس دورکے فن کار جدت پسنداور صناعی و تخلیق کے ضمن میں بھی سائنسی سوچ کے مالک تھے۔ ان تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ علم ہندسہ جانتے، ناپ تول اور پیمائش کو خوب سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ تصاویر طول و عرض، قوسین، دائرے، فاصلے، حجم کے لحاظ سے قابلِ ذکر ہیں۔

     

    اس دور کے فن کاروں اور کاری گروں کا مشاہدہ نہایت عمیق، ذوق شاعرانہ اور ان میں مہارت اعلیٰ درجے کی تھی۔

    ان تصاویر میں محل کے دروازے پر کھڑا بھکشو، ستونوں‌ پر تراشی گئی تصاویر، محل میں رقص کی ایک محفل کا منظر، زیورات پہنے ہوئے کالی رانی، ہیلوں کی لڑائی کا منظر شامل ہیں۔

     

    اجنتا کے غار اورنگ آباد سے ایک سو دس کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔ ان غاروں تک پہنچنے کے لیے سڑک کا سفر کرنا پڑتا ہے۔

    اجنتا کے یہ غار نواب سکندر جاہ آصف ثالث کے عہد میں بازیافت ہوئے۔ مشہور ہے کہ چند شکاری اس مقام سے گزرے جنھوں نے یہ غار اور ان میں مورتیاں دیکھیں اور ایسٹ انڈیا کمپنی کواس کی اطلاع دی۔

    1924 میں نظام دکن میر عثمان علی خان کے حکم اس قدیم اور تاریخی ورثے کی حفاظت اور ضروری تعمیر و مرمت کے ساتھ غاروں تک پہنچنے کے لیے راستہ بنایا گیااور اس پر خطیر رقم خرچ کی گئی۔

    1885 میں ان غاروں کی تصاویر پر مشتمل ایک کتاب شایع کی گئی اور یوں سیاحوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو جس کے بعد ان غاروں کی شہرت دنیا بھر میں پھیل گئی۔

  • زمانے کی کج روی، فلک کی نامہربانیوں‌ کا شاہد، قلعہ مروٹ

    زمانے کی کج روی، فلک کی نامہربانیوں‌ کا شاہد، قلعہ مروٹ

    اگر آپ کبھی پاکستان کے مشہور صحرائی علاقے چولستان کی سیر کو گئے ہیں، تو وہاں موجود قلعے اور قدیم آثار میں قلعہ مروٹ بھی ضرور دیکھا ہو گا۔

    اس قدیم قلعے کی خستہ حالی اور بوسیدگی اور اس کے آثار کئی نسلوں کی کہانیاں اور راز اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔ یہ آثار زمانے کی کج روی، فلک کی نامہربانی اور موسموں کی سختی کے گواہ ہیں۔

    قلعہ مروٹ کے دروازے پر کبھی ایک کتبہ دیکھا گیا تھا جس پر مروٹ پاتھا، ملک جام سومرا، کوٹ پکی کھیل پھیرائی تحریر تھا۔ تاریخ نویسوں اور ماہرینِ آثار نے اس کتبے سے جانا کہ اس قلعے کو کسی زمانے میں جام سومرا نے بھی استعمال کیا اور 1941 میں اس کی مرمت کا کام بھی کروایا تھا۔

    تاریخی تذکروں میں لکھا ہے کہ اسے چتوڑ کے مہروٹ نے تعمیر کرایا تھا اور اسی کی راجا چچ سے جنگ بھی ہوئی تھی۔ اس کے بعد ہی قلعے کا نام قلعہ مہروٹ رکھا گیا جسے بعد میں مروٹ بولا جانے لگا۔

    یہ قلعہ چوں کہ ایک بلند ٹیلے پر تعمیر کیا گیا تھا، اس لیے دور ہی سے اس کے آثار نظر آجاتے ہیں۔ قلعہ مروٹ کی فصیل کے ساتھ بڑے برج بنائے گئے تھے جب کہ اس قلعے کے مغربی جانب بڑھیں تو وہاں ایک محل کے آثار بھی ملتے ہیں۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بیکانیر کے مہاراجا کا قصر تھا۔