Tag: سیفران

  • سول نافرمانی اور بیرونی دنیا میں لابنگ سے کچھ حاصل نہیں ہوگا: امیر مقام

    سول نافرمانی اور بیرونی دنیا میں لابنگ سے کچھ حاصل نہیں ہوگا: امیر مقام

    وفاقی وزیر امیر مقام نے پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی، فریقین کی سنجیدگی اور مطالبات کی نوعیت پر منحصر کر دی۔

    وفاقی وزیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان و سیفران انجینئر امیر مقام نے  اے آر وائی نیوز سے گفتگو میں کہا کہ پی ٹی آئی کو سول نافرمانی اور بیرونی دنیا میں لابنگ سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

    وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف نے ماضی میں بھی سول نافرمانی کی تحریک چلائی تھی، سول نافرمانی سے کچھ نہیں ہوگا ماضی کی طرح اس دفعہ بھی پہیہ چلتا رہےگا۔

    انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف والے اپنی ذات سے نکل ہی نہیں رہے ہیں، تحریک انصاف کی آخری کال بھی عوام نے دیکھی جو مس کال ثابت ہوئی، بیرونی دنیا میں بھی لابنگ کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

    انہوں نے کہا کہ ہماری پہلے دن سے مذاکرات کی خواہش تھی اب تحریک انصاف کی ہے، 2018 میں شہبازشریف نے مذاکرات کی دعوت دی تھی ان لوگوں نے مسترد کی ہم ان سے بار بار مذاکرات کی بات کرتے تھے پی ٹی آئی کی کسی اور کیساتھ مذاکرات کی خواہش تھی۔

    امیر مقام کا کہنا تھا کہ مذاکرات ان شرائط پر ہونے چاہئیں جن پر بات ہو سکتی ہو اور حکومت کی ڈومین میں ہوں، حکومت اور تحریک انصاف دونوں کو ملک کی بہتری کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے، کچھ چیزیں ہمارے اختیار میں ہیں نہ کسی اور کے اس کا فیصلہ عدالتوں نے کرنا ہے۔

    وفاقی وزیر نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کا فیصلہ عدالتوں نے کرنا ہے وہاں سے جو فیصلہ ہوگا سب کو قبول ہوگا، تحریک انصاف کی مذاکراتی کمیٹی کے پاس کتنا اختیار ہے سب کو پتہ ہے، ہماری کمیٹی با اختیار ہے جس میں تمام اتحادیوں کی نمائندگی ہے۔

    امیر مقام نے مزید کہا کہ مذاکرات کی کامیابی کا انحصار مطالبات اور فریقین کی سنجیدگی پر ہے، 9 مئی کے حوالے جو مطالبہ کیا جا رہا ہے وہ کسی کے اختیار میں نہیں ہے، ملٹری کورٹ سے سزائیں آئین اور قانون کے مطابق دی گئی ہیں، ملٹری کورٹ سے سزائیں پیغام بھی ہے کوئی یہ نہ سمجھے اس کو سزا نہیں ملے گی، جو کوئی بھی ملک کے خلاف کام کریگا اس کو ضرور سزا ملے گی۔

  • پشتون نے کبھی بھی پاکستان کے خلاف نعرہ نہیں لگایا: شہریار آفریدی

    پشتون نے کبھی بھی پاکستان کے خلاف نعرہ نہیں لگایا: شہریار آفریدی

    اسلام آباد: وزیر مملکت برائے سیفران شریار خان آفریدی کا کہنا ہے کہ ہم چاہتے تھے کہ محسن داوڑ اور علی وزیر کو قومی دھارے میں لایا جائے۔ پشتون نے کبھی بھی پاکستان کے خلاف نعرہ نہیں لگایا۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر مملکت برائے سیفران شریار خان آفریدی نے قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کیا امریکا نے اس ملک کے فیصلے کرنے ہیں؟ غفار خان، ولی خان میرے بزرگ ہیں۔

    شہریار آفریدی کا کہنا تھا کہ نقیب اللہ محسود کے لیے سارے جمع ہوئے، 9 نکاتی ایجنڈا آیا وہی تھا جو عمران خان نے دیا تھا۔ طاہر داوڑ میرا بھائی تھا میرا پاکستانی شہری تھا۔

    انہوں نے افغان انٹیلی جنس ایجنسی پر برستے ہوئے کہا کہ این ڈی ایس نے میت ہمیں کیوں نہیں دی، وہ لوگ جن کے ذہنوں کو واش کیا گیا آج کیا کر رہے ہیں۔

    وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ ڈرگ، انسانی اسمگلنگ اور دیگر کئی جرائم میں کام کیوں نہیں کیا؟ ماضی کی حکومتوں نے تحفظ کا کیوں نہیں سوچا؟ یہ پھر کہتے ہیں وفاق فنڈز نہیں دیتا۔

    انہوں نے کہا کہ وہ پشتون، وہ بلوچ، وہ سندھی، وہ پنجاب جنہوں نے ہر فورم پر قربانیاں دی۔ ایک لاکھ 81 ہزار بلاک کارڈ کلیئر کیے گئے، چاہتے تھے کہ محسن داوڑ اور علی وزیر کو قومی دھارے میں لایا جائے۔

    شہریار آفریدی کا کہنا تھا کہ یہ روایت کیوں ہے کوئی بھی واقعہ ہو تو محرومی پھیلائی جاتی ہے، طاہر داوڑ کیس سے متعلق پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی قیادت سے ملا تھا۔ 8 ماہ پہلے طافتان کی بات آئی تو بتایا گیا پہلا حکومتی وزیر ہے جو وہاں گیا۔ صوبوں میں مسئلہ ہو تو کہا جاتا ہے اسلام آباد ساتھ نہیں دے رہا۔ جب اسلام آباد کچھ کرنا چاہے تو کہا جاتا ہے صوبائی خود مختاری ہے۔

    انہوں نے کہا کہ پشتون نے کبھی بھی پاکستان کے خلاف نعرہ نہیں لگایا، نقیب اللہ محسود کے مسئلے پر جب وہاں تقریر کی تو بہت تالیاں بجیں۔ علی وزیر اور محسن داوڑ کو مین اسٹریم میں لانا چاہتے تھے۔ پہلے دن سے پرویز خٹک اور میں ان سے رابطے میں ہیں۔

  • فاٹا پر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں بریفنگ، ٹیکسوں کی بوچھاڑ پر اظہار تشویش

    فاٹا پر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں بریفنگ، ٹیکسوں کی بوچھاڑ پر اظہار تشویش

    اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی سیفران میں فاٹا (کے پی میں ضم شدہ قبائلی علاقہ جات) پر اراکین کو بریفنگ دی گئی، جس میں فاٹا کے عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ لادے جانے پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی سیفران کا تاج محمد آفریدی کی زیرِ صدارت اجلاس منعقد ہوا، چیئرمین کمیٹی نے اجلاس میں یاد دلایا کہ حکومت نے فاٹا اصلاحاتی عمل کے نام پر کچھ وعدے کیے تھے۔

    چیئرمین کمیٹی تاج آفریدی نے کہا کہ فاٹا والوں سے جو وعدے کیے گئے ان پر عمل درآمد حکومتی ذمہ داری ہے، فاٹا کے بے حال عوام پر ٹیکسوں کی بوچھاڑ کر دی گئی ہے۔

    اجلاس میں اراکین کو ایف بی آر اور ٹیسکو کی جانب سے فاٹا میں بجلی کے ٹیکس محصولات کے معاملے پر بریفنگ دی گئی۔

    یہ بھی پڑھیں:  حکومت نے انضمام شدہ قبائلی علاقوں کی ترقی کے لیے 10 سالہ منصوبہ بندی کر لی

    اراکین کا کہنا تھا کہ فاٹا اصلاحات کے نام پر 5 سال تک کوئی ٹیکس نہ لینے کا فیصلہ ہوا تھا، رکن کمیٹی اورنگ زیب اورکزئی نے کہا کہ فاٹا والوں سے بجلی پر ٹیکس وصولی نا انصافی ہے۔

    دوسری جانب ٹیسکو حکام نے بریفنگ میں کہا کہ فاٹا کے ذمے 2 ارب روپے کے واجبات ہیں، بجلی کے بل نہ ملنے تک آگے نہیں بڑھ سکتے۔

    دریں اثنا، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے وزارت خزانہ، اسٹیٹ بینک اور زرعی ترقیاتی بینک کے حکام کو طلب کر لیا۔

    یاد رہے کہ 17 اپریل کو وزیرِ اعظم عمران خان کی زیر صدارت اجلاس میں ضم شدہ قبائلی علاقہ جات کی تعمیر و ترقی میں پیش رفت کا جائزہ لیا گیا تھا، اور یہ کہا گیا تھا کہ حکومت نے خیبر پختون خوا میں ضم کیے گئے علاقوں کی تعمیر و ترقی کے لیے 10 سالہ منصوبہ بندی کر لی ہے۔

  • افغان مہاجرین کو عزت سے رخصت کریں گے،عبدالقادر بلوچ

    افغان مہاجرین کو عزت سے رخصت کریں گے،عبدالقادر بلوچ

    اسلام آباد : سیفران کے وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ کاکہناہے کہ افغان مہاجرین کو پا کستان سے راتوں رات نہیں بجھوایا جائے گا،اکتیس دسمبر 2015 تک افغان مہاجرین کو ملک میں رکھنے کے پابند ہیں۔

    اسلام آباد میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کاکہناتھاکہ کسی بھی افغان مہاجر کا کسی بھی دہشت گردی کی کارروائی میں ملوث ہونے سے متعلق کوئی بھی ثبوت نہیں ملا ہے۔

    عبدالقادر بلوچ کاکہناتھاکہ افغان مہاجرین کی افغانستان باعزت واپسی کو یقینی بنایا جائے گا،جس کیلئے افغان حکومت یواین ایچ سی آر اور عالمی براداری کے ساتھ رابطے جاری ہیں۔

    انھوں نے بتایاکہ پاکستان میں رجسٹر ڈ افغان مہاجرین کی تعداد سولہ لاکھ کے قریب ہے جبکہ اتنی ہی تعدا دمیں بغیر رجسٹریشن کے افغان شہری پاکستان میں رہ رہے ہیں، جنھیں پاکستانی قانون کے مطابق ملک سے نکالا جائے گا۔

    عبدلقادر بلوچ نے بتایاکہ افغان مہاجرین کے باعث پاکستان کی معیشت کو 200 ارب ڈالر کا نقصان ہو اہے جبکہ بدلے میں عالمی برداری نے افغان مہاجرین کو بھلا رکھا ہے اور مہاجرین کی فلاح و بہبود کیلئے پاکستان کوسو ارب بھی موصول نہیں ہوئے۔