Tag: سیف الدین سیف

  • سیف الدین سیف: لازوال فلمی نغمات کا خالق

    سیف الدین سیف: لازوال فلمی نغمات کا خالق

    شاعری سیف الدین سیف کا بنیادی حوالہ اور ان کا تعارف ہے، لیکن بطور فلم ساز، ہدایت کار اور مصنّف ان کی فلم کرتار سنگھ (1959ء) انھیں ایک قابل اور باکمال فن کار ثابت کرتی ہے۔ سیف ان شخصیات میں سے ایک ہیں جنھوں نے اپنی فکر اور خیالات سے زندگی کو آسودگی بخشی اور اظہار و ابلاغ کی نئی نئی راہیں بھی تراشی ہیں۔

    سیف الدین سیف 12 جولائی 1993ء کو انتقال کرگئے تھے۔ ان کا بچپن امرتسر کی گلیوں میں گزرا جہاں وہ 20 مارچ 1922ء کو کوچۂ کشمیراں کے ایک گھرانے میں‌ پیدا ہوئے تھے۔ ابتدائی تعلیم مسلم ہائی اسکول سے حاصل کرنے کے بعد ایم اے او کالج امرتسر میں داخلہ لیا جہاں اس وقت پرنسپل ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر اور انگریزی کے لیکچرار فیض احمد فیض تھے ان عالی دماغ اور بلند قامت شخصیات کی قربت نے سیف الدین سیف میں علمی و ادبی ذوق پیدا کیا۔

    سیف الدین سیف کو شروع ہی سے شاعری سے لگاؤ تھا اور کالج کے زمانے میں وہ شاعری کا آغاز کرچکے تھے۔ قیام پاکستان سے قبل ہی ان کا فلمی دنیا سے بطور گیت نگار تعلق جڑ گیا تھا، مگر اتفاق ہے کہ وہ فلمیں ریلیز نہ ہو سکیں۔ عملی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد انھوں نے فلموں کے لیے مکالمے لکھنا شروع کیے۔ یہی ان کا ذریعۂ معاش تھا، لیکن شہرت اور مقبولیت بحیثیت گیت نگار پائی۔ وہ ایک عمدہ غزل گو شاعر بھی تھے اور مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی۔ رباعی اور طویل و مختصر نظمیں کہنے والے سیف الدین سیف کو ذاتی طور پر غزل گوئی پسند رہی۔

    سیف الدین سیف نے اپنے فلمی سفر کا آغاز بطور نغمہ نگار اردو فلم تیری یاد سے کیا تھا جسے پہلی پاکستانی فلم کہا جاتا ہے۔ انھوں نے اس فلم کے لیے چار گیت لکھے تھے۔ ان کا پہلا گیت جو سپر ہٹ ثابت ہوا اس کے بول تھے، "پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے” جسے اقبال بانو نے گایا تھا۔ اردو فلم شمع اور پروانہ (1970) کا گیت "میں تیرا شہر چھوڑ جاؤں گا اور "میں تیرے اجنبی شہر میں، ڈھونڈتا پھر رہا ہوں تجھے…. ان کے مقبول ترین فلمی گیت ہیں۔ مشہورِ زمانہ امراؤ جان ادا کا یہ نغمہ "جو بچا تھا لٹانے کے لیے آئے ہیں” اسی شاعر کا تخلیق کردہ ہے۔ ایک نغمہ نگار کی حیثیت سے سیف الدین سیف کو سب سے زیادہ شہرت فلم ’’گمنام‘‘ کے گیت ’’تو لاکھ چلے ری گوری تھم تھم کے‘‘ سے ملی جسے اقبال بانو نے گایا تھا۔

    سیف الدین سیف لاہور کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • یومِ‌ وفات: سدا بہار نغمات کے خالق سیف الدّین سیف کے سفرِ زیست پر ایک نظر

    یومِ‌ وفات: سدا بہار نغمات کے خالق سیف الدّین سیف کے سفرِ زیست پر ایک نظر

    سیف الدین سیف بنیادی طور پر ایک شاعر تھے، لیکن فلم ساز، ہدایت کار اور مصنّف کے طور پر فلم کرتار سنگھ (1959ء) بنا کر انھوں نے خود کو باکمال فن کار ثابت کیا۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔ 12 جولائی 1993ء کو ان کی زندگی کا سفر تمام ہوگیا۔

    سیف الدین سیف نے 20 مارچ 1922ء کو کوچۂ کشمیراں امرتسر کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ سیف کا بچپن امرتسر کی گلیوں میں گزرا اور ابتدائی تعلیم مسلم ہائی اسکول سے حاصل کی، ایم اے او کالج امرتسر میں داخل ہوئے تو اس وقت پرنسپل ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر اور انگریزی کے لیکچرار فیض احمد فیض کی قربت نصیب ہوئی جس نے ان میں علمی و ادبی ذوق پیدا کیا۔

    انھوں نے فلمی مکالمے لکھنا ذریعہ معاش بنایا اور بعد میں‌ گیت نگار کے طور پر مشہور ہوئے۔ سیف کو شروع ہی سے شعروسخن سے دل چسپی تھی۔ انھوں نے غزل، رباعی، طویل و مختصر نظموں کے ساتھ گیت نگاری میں‌ نام کمایا۔ غزل ان کی محبوب صنفِ‌ سخن رہی۔

    سیف الدین سیف نے اپنے فلمی سفر کا آغاز بطور نغمہ نگار اردو فلم تیری یاد سے کیا تھا جسے پہلی پاکستانی فلم کہا جاتا ہے۔ انھوں نے اس فلم کے لیے چار گیت لکھے تھے۔ ان کا پہلا گیت جو سپر ہٹ ثابت ہوا اس کے بول تھے، "پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے” جسے اقبال بانو نے گایا تھا۔ اس نغمہ نگار کے کئی گیت مقبول ہوئے اور فلموں کی کام یابی کا سبب بنے جن میں اردو فلم شمع اور پروانہ (1970) کا گیت "میں تیرا شہر چھوڑ جاؤں گا اور "میں تیرے اجنبی شہر میں، ڈھونڈتا پھر رہا ہوں تجھے شامل ہیں۔ مشہورِ زمانہ امراؤ جان ادا کا یہ نغمہ "جو بچا تھا لٹانے کے لیے آئے ہیں” اسی شاعر کا تخلیق کردہ ہے۔

    پاکستان کے اس ممتاز شاعر اور کئی مقبول گیتوں کے خالق کو لاہور کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔