Tag: سیلاب زدگان

  • پاک فوج کی سیلاب زدگان کے لیے امدادی سرگرمیاں، راشن کی تقسیم

    پاک فوج کی سیلاب زدگان کے لیے امدادی سرگرمیاں، راشن کی تقسیم

    منچن آباد: بھارت آبی جارحیت سے باز نہ آیا، دریائے ستلج میں سیلابی پانی چھوڑے جانے کے باعث متعدد دیہات زیر آب آچکے ہیں، جبکہ پاک فوج کی جانب سے سیلاب زدگان کیلئے امدادی سرگرمیاں جاری ہیں، متاثرین میں راشن بھی تقسیم کیا جا رہا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق پاک فوج کی جانب سے بہاولپور ڈویژن کے نشیبی علاقوں میں امدادی سرگرمیاں جاری ہیں، سیلاب متاثرین کیلئے فری میڈیکل کیمپس، ریسکیو آپریشن سمیت راشن کی تقسیم کا عمل جاری ہے۔

    پاک فوج کی جانب سے میلسی، چشتیاں، منچن آباد، پاکپتن سے متاثرین کی محفوظ مقامات پر منتقلی کا سلسلہ بھی جاری ہے، جبکہ عارف والا، وہاڑی، لودھراں، بورے والا، ہیڈسلیمانکی سے بھی متاثرین کی محفوظ مقامات پر منتقلی جاری ہے۔

    سیلاب کے دوران وبائی امراض سے بچانے کیلیے میڈیکل کیمپس بھی قائم کر دیئے ہیں، پاک فوج کے لگائے گئے کیمپس میں بڑی تعداد میں متاثرین کو طبی امداد فراہم کی جارہی ہے۔

    واضح رہے کہ بھارت کی جانب سے آبی جارحیت کے باعث دریائے ستلج ہیڈ سلیمانکی کے مقام پر اونچے درجے کاسیلاب ہے، جبکہ پانی کی آمد میں اضافے کا خدشہ موجود ہے۔

    پانی کے تیزبہاؤسے چک اعظم چھینہ گاؤں اور 3 ہزار ایکڑ اراضی مکمل ڈوب گئی ہے، جبکہ سیلاب نے درجنوں آبادیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور ہر طرف پانی ہی پانی ہے۔

  • قصور کے سیلاب زدگان کیلئے پاک فوج کی بڑے پیمانے پر امدادی سرگرمیاں جاری

    قصور کے سیلاب زدگان کیلئے پاک فوج کی بڑے پیمانے پر امدادی سرگرمیاں جاری

    قصور: پاک فوج کی جانب سے حالیہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بڑے پیمانے پر امدادی سرگرمیاں جاری ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق متاثرہ علاقوں میں گنڈا سنگھ والا، دھپ سری، اٹاری، گھٹی کلنگر، اولاکے، جمعیوالا، کمال پورہ، بکرکے اور نجابت شامل ہیں، پاک فوج کی جانب سے دن بھر ہزاروں افراد کو سیلاب سے نکالنے اور محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کا عمل جاری رہا۔

    پاک فوج کی ریسکیو ٹیمیں کشتیوں کے ذریعے امدادی سرگرمیوں میں مصروف رہیں، پاک فوج کی ریسکیو ٹیموں کی جانب سے ہزاروں متاثرہ خاندانوں میں 16 ٹن مفت راشن بھی تقسیم کیا گیا۔

    راشن پیکس آٹا، دال، چاول، گھی اور دودھ سمیت ضروری اشیائے خوردونوش شامل ہیں، تلوارپل، ٹھٹی بخشی اور نجابت کے مقامات پر راشن کی تقسیم جاری رہی۔

    اس کے ساتھ ساتھ سیلاب زدگان کیلئے ضروری طبی امدادکابھی خاطرخواہ انتظام کیاگیا، امدادی کارروائیاں سیلاب کی صورتحال بہترہونے اورمعمولات زندگی بحال ہونے تک جاری رہیں گی۔

  • 7 ماہ میں سندھ، بلوچستان کے سیلاب زدگان کی مشکلات ختم نہ ہو سکیں

    7 ماہ میں سندھ، بلوچستان کے سیلاب زدگان کی مشکلات ختم نہ ہو سکیں

    قیامت خیز سیلاب کو سات ماہ گزرنے کے باوجود سندھ اور بلوچستان کے سیلاب زدگان کی مشکلات ختم نہ ہو سکیں۔

    ذرائع کے مطابق سندھ بھر میں بے گھر 26  ہزار 203 سیلاب متاثرین میں سے 5 ہزار 132 سندھ کے ایک فلڈ ٹینٹ سٹی میں پناہ گزین ہیں۔

    ذرائع نے بتایا کہ بلوچستان کی  یونین کونسلز  ڈوڈیکہ اور گادی صحبت پور میں سیلابی پانی تاحال  کھڑا ہونے کے  باعث ڈوڈیکہ اور گادی صحبت پور میں سیلاب متاثرین عارضی گھروں میں رہائش رکھنے پر مجبور ہیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے سیلاب متاثرہ علاقوں میں مکمل طبی سہولیات دستیاب نہ ہونے پر موبائل ہیلتھ کیمپوں کا انعقاد جاری ہے، سندھ اور بلوچستان کے سیلابی علاقوں کی بعض یونین کونسلوں میں ملیریا وبائی شکل اختیار کر رہا ہے۔ سندھ، بلوچستان کے سیلاب زدہ میں امراض کی مانیٹرنگ اور سرویلنس جار ی ہے ۔

    ذرائع نے بتایا کہ سندھ، بلوچستان میں ہیضہ، ڈینگی کے حوالے سے صورتحال کنٹرول میں ہے تاہم آبی امراض کو بدستور خطرہ قرار دیا جا رہا ہے ۔بلوچستان میں طبی عملے کی شدید غذائی قلت سے نمٹنے کی ٹریننگ مکمل کر لی گئی ہے، سیلاب زدہ علاقوں کے ملیریا کیسز والے علاقوں میں اہم ادویات اور مچھردانیوں کی تقسیم جاری ہے ۔

    ذرائع کے مطابق پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے سیلاب زدہ علاقوں میں ملیریا کی  11760 ٹیسٹ کٹس تقسیم ہو چکی ہیں۔

  • سیلاب زدگان کے لیے سعودی عرب کی امداد تاحال جاری

    ریاض / اسلام آباد: سعودی عرب کے شاہ سلمان مرکز برائے امداد و انسانی خدمات نے پاکستانی سیلاب زدگان میں فوڈ باسکٹس تقسیم کیں۔

    اردو نیوز کے مطابق سعودی عرب میں شاہ سلمان مرکز برائے امداد و انسانی خدمات، پاکستانی سیلاب زدگان میں امدادی سامان کی تقسیم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔

    شاہ سلمان مرکز نے پنجاب میں راجن پور اور ڈیرہ غازی خان کے انتہائی ضرورت مند افراد کو 15 سو فوڈ باسکٹ تقسیم کیں، شاہ سلمان مرکز پاکستان میں غذائی کفالت پروگرام چلارہا ہے اور فوڈ باسکٹس کی تقسیم اسی سلسلے کی کڑی ہے۔

    علاوہ ازیں شاہ سلمان مرکز نے افغانستان کے قلعہ فتح اللہ کے علاقے میں بھی 390 راشن پیکٹس تقسیم کیے جن سے 2 ہزار 340 افراد کو فائدہ پہنچا ہے۔

    سعودی امدادی ادارہ اسلامی تعاون تنطیم (او آئی سی) کے تعاون سے افغانستان میں سیلاب زدگان اور انتہائی ضرورت مند افراد کو کھانے پینے کی اشیا ہنگامی طور پر تقسیم کر رہا ہے۔

  • سیلاب کے 7 ماہ بعد بھی سندھ میں ہزاروں متاثرین تاحال بے گھر

    سیلاب کے 7 ماہ بعد بھی سندھ میں ہزاروں متاثرین تاحال بے گھر

    کراچی / کوئٹہ: ملک بھر میں قیامت خیز سیلاب گزرنے کے 7 ماہ بعد بھی سیلاب متاثرین کی مشکلات کم نہ ہو سکیں، صوبہ سندھ میں تاحال 87 ہزار سے زائد سیلاب زدگان بے گھر ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سیلاب کے 7 ماہ بعد بھی سب سے زیادہ متاثر صوبوں بلوچستان اور سندھ سے سیلابی پانی کی مکمل نکاسی نہ ہو سکی۔

    بلوچستان کے سیلاب زدہ اضلاع سے پانی کی نکاسی کا عمل تاحال جاری ہے، ضلع جعفر آباد کی یوسیز جانان اور گندکہ، ضلع صحبت پور کی یونین کونسلز خدائے داد اور ڈوڈئیکا، نصیر آباد کی یو سی منجھی شیری اور ضلع جھل مگسی کی یو سی بریجہ میں تاحال سیلابی پانی موجود ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ بلوچستان بھر میں فلڈ کیمپس بند کیے جا چکے ہیں اور سیلاب متاثرین گھروں کو جا چکے ہیں، صرف ضلع صحبت پور میں 8 ہزار سیلاب متاثرین تاحال بے گھر ہیں۔

    دوسری جانب ذرائع وزارت صحت کا کہنا ہے کہ 7 ماہ گزرنے کے باوجود سندھ میں 87 ہزار 537 سیلاب زدگان تاحال بے گھر ہیں۔

    سندھ کے 6 ٹینٹ سٹیز میں 7 ہزار 136 متاثرین اب بھی موجود ہیں۔ سندھ کے سیلاب متاثرہ علاقوں میں ملیریا اور سانس کی بیماریوں کے کیسز بھی سامنے آرہے ہیں۔

    دوسری جانب بلوچستان کے ساتھ ساتھ صوبہ خیبر پختونخواہ اور پنجاب میں فلڈ آئی ڈی پی کیمپس بند ہو چکے ہیں۔

  • 2 کروڑ سیلاب زدگان کو فوری امداد کی ضرورت ہے: شیری رحمٰن

    2 کروڑ سیلاب زدگان کو فوری امداد کی ضرورت ہے: شیری رحمٰن

    اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے کلائمٹ چینج شیری رحمٰن کا کہنا ہے کہ ملک میں ابھی بھی 2 کروڑ سیلاب زدگان کو فوری امداد کی ضرورت ہے، اپوزیشن کی سیاست کا محور ملک اور عوام نہیں عمران خان کا ذاتی مفاد ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر برائے کلائمٹ چینج شیری رحمٰن نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ٹویٹ میں کہا کہ ملک میں ابھی بھی 2 کروڑ سیلاب زدگان کو فوری امداد کی ضرورت ہے، تحریک انصاف سندھ اور بلوچستان کے متاثرین کو تاثر دے رہی ہے کہ عمران خان کی سیاست اہم ہے۔

    شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ دوسری طرف دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے، ان کو سیلاب زدگان اور بڑھتی ہوئی دہشت گردی سے کوئی سروکار نہیں۔

    وفاقی وزیر نے اپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مزید کہا کہ لوگ اب ان کی طرز سیاست سے تنگ آچکے ہیں، ان کی سیاست کا محور ملک اور عوام نہیں عمران خان کا ذاتی مفاد ہے۔

  • یورپی یونین کی جانب سے سیلاب زدگان کے لیے 30 ملین یورو کی امداد

    یورپی یونین کی جانب سے سیلاب زدگان کے لیے 30 ملین یورو کی امداد

    اسلام آباد: وزیر اعظم شہباز شریف نے یورپی یونین کی جاب سے 30 ملین یورو کی امداد پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی تعاون سے خوراک اور صحت کے چیلنجز کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ٹویٹ میں کہا کہ یورپی یونین نے سیلاب متاثرین کے لیے 30 ملین یورو کی امداد کا اعلان کیا ہے۔

    وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ امداد کے لیے یورپی یونین، بالخصوص صدر یورپی یونین کمیشن وانڈرلین کے مشکور ہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ عالمی تعاون سے خوراک اور صحت کے چیلنجز کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔

  • کے الیکٹرک نے سیلاب زدگان کو بھی نہیں بخشا، 2 کروڑ مانگ لئے

    کے الیکٹرک نے سیلاب زدگان کو بھی نہیں بخشا، 2 کروڑ مانگ لئے

    کراچی : کےالیکٹرک نے ملیر میں سیلاب زدگان ٹینٹ سٹی کو بجلی فراہم کرنے کے لئے 2 کروڑ مانگ لئے۔

    تفصیلات کے مطابق کے الیکٹرک نے سیلاب زدگان کوبھی نہیں بخشا ، کےالیکٹرک نے ملیرانتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ پہلے 2 کروڑ دو پھر سیلاب زدگان ٹینٹ سٹی کو بجلی دیں گے۔

    ڈی سی ملیر نے بتایا پوری دنیا سیلاب زدگان کی مفت میں مدد کر رہی ہے لیکن کے الیکٹرک پیسے مانگ رہی ہے، سیلاب زدگان ٹینٹ سٹی کو بجلی دینے کیلئے ہمیں کے الیکٹرک کو پیسے دینے پڑ رہےہیں۔

    سیلاب زدگان کا کہنا ہے کہ کے الیکٹرک کا رویہ ہم کبھی نہیں بھولیں گے۔

    یاد رہے کراچی کے علاقے ملیر میں سندھ حکومت نے سیلاب زدگان کے لیے ٹینٹ سٹی کی تعمیر کے لیے 100 ایکڑ زمین مختص کی ہے۔

    اس حوالے سے ڈپٹی کمشنر ملیر نے بتایا تھا کہ ملیر ضلع کے سیکٹر 18 کو 100 ایکڑ اراضی ملی ہے ، جس میں تقریباً 100,000 سیلاب متاثرین کو ہزاروں خیموں میں رکھا جائے گا۔

  • پاکستان کو سیلابی  پانی میں  ڈوبنے سے بچانے کے لیے ڈیموں کی تعمیر ناگزیر

    پاکستان کو سیلابی پانی میں ڈوبنے سے بچانے کے لیے ڈیموں کی تعمیر ناگزیر

    پاکستان میں تاریخ کے تباہ کن سیلاب کے بعد ایک بار پھر ڈیموں کی تعمیر بازگشت سنائی دینے لگی ہے۔ نہ صرف عوامی سطح پر بلکہ مقتدر اور بااختیار حلقوں کی جانب سے بھی کالا باغ سمیت دیگر چھوٹے بڑے ڈیموں کی تعمیر کو ناگزیر قرار دیا جا رہا ہے۔

    حالیہ سیلاب کو اس لحاظ سے تاریخ کا تباہ کن سیلاب کہا جارہا ہے کہ یہ دریائی سیلاب نہیں جو گلیشیئر پگھلنے سے ملک کے طول وعرض میں تباہی پھیلاتا ہے، بلکہ اس کی وجہ دنیا بھر میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلیاں ہیں جس کے نتیجے میں پاکستان میں بالخصوص زیریں اور وسطی علاقوں میں غیر معمولی طوفانی بارشیں ہوئیں اور ایک بڑا حصّہ سیلاب کی زد میں‌ آگیا۔ ان غیر معمولی بارشوں کے نتیجے میں ملک کا 70 فیصد حصّہ زیر آب آگیا ہے، ہزاروں افراد اس سیلاب کی نذر ہوگئے، لاکھوں مویشی پانی میں بہہ گئے، لاکھوں ایکڑ زرعی اراضی اور فصلیں تباہ اور گھر برباد ہوگئے ہیں‌ جس سے لوگ متاثر جب کہ معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچا ہے۔ ہزاروں لوگ کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں جب کہ سیلاب کے بعد اب وہاں پھوٹنے والے وبائی امراض ان غریبوں کے ساتھ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے لیے امتحان بن کر آئے ہیں۔ سیلاب زدگان کی دنیا بھر سے امداد کا سلسلہ جاری ہے لیکن ہر چند سال بعد سیلاب اور تباہی کے بعد اب یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ آخر ملک و قوم کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچانے کے لیے ڈیمز کیوں نہیں بنائے جا رہے ہیں؟

    حالیہ سیلاب کے بعد صدر مملکت عارف علوی، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے ڈیم کی تعمیر سے متعلق بیانات میڈیا کی زینت بن چکے ہیں۔

    صدر عارف علوی نے کہا ہے کہ پانی ذخیرہ کرنے کیلیے ڈیم وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے، صوبوں میں اعتماد فروغ دے کر کالا باغ ڈیم کا مسئلہ حل کرنا ہوگا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سندھ کے سیلاب زدہ علاقے دادو کے دورے کے موقع پر کہا کہ سیلابی پانی کو کنٹرول کرنے کے لئے پاکستان میں مزید بڑے ڈیمز بنانا پڑیں گے اور پانی سے بجلی بھی بنائی جاسکے گی۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے بھی وزیراعظم شہباز شریف کے ہمراہ ڈی آئی خان کے سیلاب زدہ علاقوں کے دورے کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چھوٹے ڈیموں کی فوری تعمیر کی ضرورت پر زور دیا۔ صرف حکام نہیں بلکہ اب ملک کے مختلف حلقوں میں یہ بازگشت سنائی دینے لگی ہے کہ ڈیم وقت کی ضرورت ہیں اور اگر ہم نے ڈیم بنا لیے ہوتے تو شاید اتنی تباہی نہ ہوئی ہوتی۔

    یوں تو پاکستان میں اس وقت 150 ڈیم اور دیگر آبی ذخائر موجود ہیں۔ پاکستان کے پاس دنیا کے دو بڑے ڈیم، تربیلا اور میرانی ہیں۔ ہری پور ضلع میں تربیلا کے مقام پر دریائے سندھ پر بنایا گیا تربیلا ڈیم حجم کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا اور مٹی سے بنا ہوا سب سے بڑا ڈیم ہے۔ بلوچستان میں دریائے دشت پر قائم میرانی ڈیم سیلاب سے بچاؤ کے لیے حجم کی بنیاد پر سب سے بڑا ڈیم ہے۔ اس کے علاوہ دیگر مشہور ڈیموں میں منگلا، راول ڈیم، وارسک ڈیم، نیلم جہلم ڈیم، حب ڈیم، نمل ڈیم، گومل زام ڈیم اور زیرِ تعمیر دیامر بھاشا ڈیم شامل ہیں۔ عمران خان کے دورِ حکومت میں مہمند ڈیم سمیت 10 دیگر چھوٹے آبی ذخائر کے منصوبوں پر کام شروع کیا گیا تھا جن کی تکمیل 2028 تک متوقع ہے۔ تاہم ماہرین کے مطابق 22 کروڑ سے زائد آبادی والے اس ملک کی ضروریات پوری کرنے کے لیے یہ آبی ذخائر ناکافی ثابت ہوں گے۔

    اس کے برعکس ہم اپنے پڑوسی ملک بھارت پر نظر ڈالیں تو وہاں 5 ہزار سے زائد ڈیمز موجود ہیں جب کہ مزید کئی تعمیر کے مراحل میں ہیں۔ بھارت کے دریائے چناب پر منصوبوں بہلگہار، دولہستی، سلال، پاکل دول، کیرتھاری، برساسر، سوالکوٹ، رتلے، کروار، جیپسا ملا کر 17 پروجیکٹ ہیں، جس میں دریائے جہلم پر کشن گنگا قابل ذکر ہے۔ دریائے سندھ سمیت مغربی دریاؤں پر بھارت کے ہائیڈرو پاور کے 155 کے قریب چھوٹے اور بڑے منصوبے ہیں۔ بھارت ان منصوبوں کی وجہ سے چناب کا پانی روک سکتا ہے اور جب چاہے چھوڑ سکتا ہے اور یہ پانی سیلاب کی صورت میں ہر چند سال بعد پاکستان میں داخل ہو کر تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔

    پاکستان میں جب بھی نئے ڈیموں کی تعمیر کی بات ہوتی ہے تو سب سے پہلے ذہنوں میں کالا باغ ڈیم کا ہی نام آتا ہے، جو کہ اپنی تعمیر کے آغاز سے قبل ہی متنازع ہو کر اب تک صرف فائلوں کی زینت بنا رہا ہے۔ اس سے قبل کہ ہم اس بات کا جائزہ لیں کہ اس ڈیم پر کیا تنازعات ہیں اور ان کی حقیقت کیا ہے، ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ کالا باغ ڈیم منصوبہ ہے کیا؟

    مجوزہ کالا باغ ڈیم میانوالی میں کالا باغ کے مقام پر بننا ہے۔ ’’کالا باغ‘‘ میانوالی سے 20 میل کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس قصبے میں قیام پاکستان سے قبل کیلوں کے بہت سارے باغات تھے جو دور سے سیاہ رنگ کے بادل لگتے تھے اور اپنے اس پیش منظر کے باعث ہی اس جگہ کا نام کالا باغ پڑ گیا۔ اس مقام پر دریائے سندھ ایک قدرتی ڈیم کی صورت اختیار کرلیتا ہے جس کے اطراف پہاڑیوں کا سلسلہ ہے اور دریا کے آگے صرف ایک دروازہ لگا کر اسے ڈیم کی شکل دی جاسکتی ہے۔

    اس ڈیم کے لیے پہلا سروے برطانوی حکومت نے 1873 میں کیا تھا، قیام پاکستان کے بعد گورنر جنرل قائداعظم کی اجازت سے فروری 1948 میں میانوالی کے مقام پر ہائیڈرو پاور پروجیکٹ تعمیر کیا گیا جسے جناح بیراج کہا جاتا ہے ایوب دور میں دیگر آبی منصوبے تعمیر کیے گئے لیکن کالا باغ کا منصوبہ کاغذات کی حد تک رہا جس پر جنرل ضیا الحق کے دور میں کام شروع ہوا لیکن وہ بھی اپنے منطقی انجام کو نہ پہنچا۔

    سابق صدر ضیا الحق کے دور حکومت میں ڈاکٹر کینیڈی کمیٹی بنائی گئی جس نے 1983 میں رپورٹ پیش کی۔ رپورٹ کے مطابق ڈیم کی اونچائی 925 فٹ، پانی کی اسٹوریج 6.13 ملین ایکڑ فٹ ہوگی، 50 لاکھ ایکڑ رقبے کو سیراب کرے گا اور سستی ترین 5 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا ہوگی۔ اس کی تعمیر میں زیادہ سے زیادہ 5 سال اور کم سے کم 3 سال کا عرصہ لگ سکتا تھا۔ اسی دور حکومت میں کالا باغ کے منصوبے کی تعمیر کیلیے دفاتر تعمیر کیے گئے، روڈ بنائے اور مشینری لگائی گئی۔ لیکن پھر کئی دہائیاں گزر گئیں اور یہ سب کچھ اب تباہ ہوچکا ہے۔

    اب آتے ہیں کالا باغ ڈیم منصوبے پر تنازع اور اس کے بعد اب تک اس کی تعمیر نہ ہونے کے موضوع پر۔ جب کالا باغ ڈیم تعمیر کرنے کا منصوبہ بنا تو برطانیہ سے ایک ٹیم نوشہرہ آئی جس نے سیٹلائٹ ایمیجنگ کے لیے علاقے میں عمارتوں کی چھتوں پر نشانات لگائے تاکہ ریسرچ اسٹڈی مکمل کرکے تعمیر شروع کی جاسکے، جس کے بعد نوشہرہ ڈوبنے کی جھوٹی افواہ اڑائی گئی۔ یوں پاکستان دشمنوں کو یہ جھوٹا پروپیگنڈہ مفت میں مل گیا اور اسی کی آڑ میں سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنا شروع کردیا گیا، تب سے یہ افواہیں پھیلنا شروع ہوئیں کہ کالا باغ ڈیم بنا تو صوبے کے شہر نوشہرہ، چارسدہ، صوابی، مردان اور پبی ڈوب جائیں گے، اس کے ساتھ ہی سندھ نے کہنا شروع کردیا کہ اس ڈیم کے بننے سے سندھ بنجر ہو جائے گا۔

    ضیا دور میں ڈاکٹر کینیڈی کمیٹی کی رپورٹ کے بعد اس وقت کے صوبہ سرحد (موجودہ خیبرپختونخوا) نے اعتراض اٹھایا کہ اس ڈیزائن سے نوشہرہ ڈوب جائے گا، اعتراض دور کرنے کیلیے ڈیم کی اونچائی کم کر کے 925 سے 915 فٹ کردی گئی، اس صوبے کی بات مانی گئی تو سندھ نے اعتراض کر دیا کہ پنجاب سندھ کو پانی کا حصہ نہیں دے گا۔ اس اعتراض کو دور کرنے کیلیے صوبوں کو پانی کی تقسیم کے قابل عمل معاہدے پر راضی کیا گیا۔ اس معاہدے کے مطابق دریائے سندھ سے پنجاب 37 فیصد، سندھ 33، کے پی کے 14 اور بلوچستان 12 فیصد پانی لیں گے۔

    یہ دو بڑے اعتراضات دور کرنے کے بعد بھی بات آگے نہ بڑھی اور کالا باغ ڈیم منصوبہ وقت کے ساتھ ساتھ تیکنیکی سے زیادہ سیاسی مسئلہ بن گیا۔ ہماری سیاسی جماعتوں کے ساتھ قوم پرست جماعتوں نے قومی مفاد کی آڑ میں ذاتی سیاست چمکانے کے لیے اس کا نام استعمال کر کے یہ ڈیم نہیں بننے دیا اور جنرل ضیا بھی کالا باغ ڈیم بنانے کا خواب لیے دنیا سے چلے گئے۔ 1999 میں اقتدار سنبھالنے والے جنرل پرویز مشرف نے کالا سمیت چھ بڑے آبی منصوبوں پر کام کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ ڈیم نہیں بنائیں گے تو مرجائیں گے لیکن طاقت ہونے کے باوجود وہ بھی اس خواب کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے۔

    دنیا بھر کے ماہرین یہ دعویٰ کرچکے ہیں کہ اس ڈیم سے نوشہرہ اور مردان کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس سے سندھ کی زمینیں بھی متاثر نہیں ہوں گی۔ وہ یوں کہ کالا باغ ڈیم کا سب سے اونچا حصہ 915 فٹ ہے یعنی ڈیم مکمل بھر بھی جائے تو کسی شہر کو نقصان نہیں ہوگا، کیونکہ ڈیم سے نوشہرہ کا نچلا ترین حصہ 25 فٹ بلند، چار سدہ کا نچلا ترین حصہ 40 فٹ، پبی کا 45 فٹ، مردان کا 55 اور صوابی کا نچلا ترین حصہ 85 فٹ بلند ہے۔ جو کالا باغ ڈیم کی بلند ترین سطح سے کہیں زیادہ اونچے ہیں اور ان کے ڈوبنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

    ماہرین کے مطابق میانوالی جہاں یہ ڈیم بننا ہے سطح سمندر سے 688 فٹ بلند ہے جب کہ نوشہرہ کی بلندی 889 فٹ بلند ہے، ڈیم کی تعمیر سے کل 27 ہزار 500 ایکڑ رقبہ زیر آب آئے گا، جس میں پنجاب کا کل رقبہ 24500 ایکڑ پنجاب جب کہ کے پی کے کا صرف 3 ہزار ایکڑ رقبہ زیر آب آئے گا یعنی یہ ڈیم بنا تو نقل مکانی کرنے والوں کی بڑی تعداد بھی پنجاب سے ہی ہوگی۔

    اس وقت پاکستان کے تین بڑے ڈیمز تربیلا، منگلا ڈیم اور چشمہ بیراج کی مجموعی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 13 ملین ایکڑ فٹ جب کہ کالا باغ تنہا چھ ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرسکتا ہے، 50 لاکھ ایکڑ بنجر زمین سیراب، سالانہ 15 ارب ڈالر کی زرعی پیداوار ملے گی جب کہ زرعی اجناس میں ملک خود کفیل ہوجائے گا۔ صرف یہی نہیں درآمدات میں کمی اور برآمدات کے اضافے کے ساتھ ایک لاکھ افراد کو روزگار میسر آئے گا۔ ڈیم کے قریبی علاقوں میں درجۂ حرارت میں کمی واقع ہو گی۔

    کے پی کے اور پنجاب کے جنوبی علاقے سندھ کے زیریں اور بلوچستان کے مشرقی حصے ڈیم کے پانی سے قابل کاشت بنائے جاسکتے ہیں۔ کے پی کے، کے جنوبی اضلاع کرک، بنوں، لکی مروت، ٹانک، ڈی آئی خان کو مزید 20 لاکھ ایکڑ فٹ پانی، سندھ کو اضافی 40 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ملے گا، جس سے سندھ کے ریگستانی علاقوں کی پیاس بجھ سکتی ہے اور 8 لاکھ ایکڑ زمین سیراب ہوگی۔ بلوچستان کو اس سے 15 لاکھ ایکڑ پانی اضافی مل سکتا ہے، مشرقی بلوچستان کا سات لاکھ ایکڑ رقبہ اضافی سیراب ہوسکے گا۔

    پاکستان میں جو بھی حکومت آئی، اُس نے یہ کہا کہ کالا باغ ڈیم ضرور بننا چاہیے کیونکہ یہ قومی مفاد میں ہے، لیکن جیسے ہی اس منصوبے کی بازگشت شروع ہوتی ہے تو اس کے مخالف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ پھر احتجاج، دھرنوں، دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور شاید ڈیم کے مخالف حکومتوں سے زیادہ طاقتور ہیں کہ تمام حکومتوں نے اُن کے آگے سر جھکایا اور اس پر عمل درآمد سے باز رہیں۔ پاکستان کے تین صوبے سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی حکومتیں اس ڈیم کی تعمیر کے خلاف کئی متفقہ قراردادیں پاس کر چکی ہیں۔ بلوچستان کا براہ راست اس منصوبے سے کوئی تعلق نہیں مگر صوبے کا یہ موقف ہے کہ چونکہ وہ اپنا پانی صوبہ سندھ سے لیتے ہیں، اس لیے معاملے میں سندھ کے موقف کی تائید کریں گے۔

    سیاسی اور علاقائی مخالفتوں کے علاوہ اس منصوبے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ وہ عالمی قانون برائے تقسیم آب ہے جس کے مطابق کسی بھی دریا کے آخری حصے پر موجود فریق کا یہ قانونی اور قدرتی حق ہے کہ اس تک پانی کی ترسیل ممکن رہے اسی وجہ سے دریائے سندھ کے آخری حصے پر موجود فریق یعنی صوبہ سندھ کی مرضی کے بغیر اس کی تعمیر ممکن ہی نہیں، البتہ اس قانون میں یہ بھی شامل ہے کہ اگر دریا کے آخری حصہ پر موجود فریق دریا کے پانی کو استعمال میں نہیں لاتا تو بند کی تعمیر ممکن بنائی جا سکتی ہے۔

    پانی کے ضیاع کے حوالے سے آبی ماہرین کہتے ہیں کہ 2010 کے سیلاب میں پانی کا بہاؤ 100 ملین ایکڑ فٹ تھا جو 12 خالی ڈیموں کو بھرنے کے لیے کافی تھا، ہر سال 35 ملین ایکڑ فٹ پانی کوٹری بیراج سے گزر کر سمندر میں چلا جاتا ہے اس سے کالا باغ جیسے 6 ڈیم بھرے جاسکتے ہیں۔

    یہاں یہ سوچنے کی بات ضرور ہے کہ دریائے سندھ پر ڈیم بنانے پر کچھ ملک گیر سیاسی جماعتیں اور کچھ قوم پرست یک زبان ہو کر اس کی مخالفت میں سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور ڈیم کو تین صوبوں کو بنجر بنانے کا منصوبہ قرار دے کر اسے متنازع بنا دیا جاتا ہے لیکن بھارت نے پاکستان میں داخل ہونے والے دریاؤں پر 14 ڈیم بنائے اور مزید بنانے جا رہا ہے، جس پر یہ جماعتیں کوئی آواز بلند نہیں کرتیں، کیا وہاں سے ہنگامی صورت میں پانی پاکستان میں نہیں داخل ہوتا؟

    امریکا کی پانی ذخیرہ کرنے کی استعداد 900 دن ہے۔ آسڑیلیا کی 600 دن اور بھارت کی 170 دن ہے جب کہ پاکستان کی صرف 30 دن کی ہے اور منگلا تربیلا بالترتیب اپنی 20 سے 35 فیصد پانی ذخیرہ کی صلاحیت کھوچکے ہیں۔ اس لیے کالا باغ سمیت دیگر چھوٹے ڈیموں کی تعمیر ناگزیر ہے۔ کیونکہ پاکستان کی 80 فیصد سے زائد آبادی کو ’پانی کی شدید قلت‘ کا سامنا ہے جس کے لیے سنجیدہ بنیادوں پر فوری منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

    پاکستان میں اس وقت ایک بڑا ڈیم دیامر بھاشا زیرتعمیر ہے دیگر چھوٹے ڈیموں‌ کے منصوبے بھی زیر غور یا ان پر کام شروع ہونا ہے لیکن اس سے ملک میں‌ پانی کی ضرورت پوری نہیں‌ ہوسکتی اور یہ آبی وسائل ناکافی ہیں۔ اس لیے اب ہمیں کالا باغ ڈیم کی طرف بڑھنا چاہیے اور اس کے لیے قومی سطح‌ پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ تمام تر مصلحتیں بالائے طاق رکھتے ہوئے ہمیں پاکستان کی ترقی کی سوچ کے ساتھ اس حوالے سے آگے بڑھنا ہو گا اور جب تک اس کا کوئی حل نہیں نکلتا ہمیں چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کا سلسلہ تیز کرنا ہوگا۔

    اس وقت پوری دنیا موسمیاتی تبدیلی کا شکار ہے لیکن پاکستان اس کلائمیٹ چینج سے متاثرہ ممالک میں سرفہرست ہے۔ ماہرین ارضیات اور موسمیات اس حوالے سے پیشگوئی کرچکے ہیں کہ آنے والے برسوں میں مون سون مزید شدت اختیار کرے گا، دوسرے معنوں میں زیادہ تباہی لائے گا۔ اب یہ مسند اقتدار پر براجمان سیاست دانوں اور بااختیار افراد اور اداروں کی ذمے داری ہے کہ وہ سنجیدگی سے ملک اور قوم کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے آگے بڑھیں اور کالا باغ سمیت دیگر ڈیموں کی تعمیر کے لیے راہ ہموار کی جائے۔

    اگر اب بھی ذاتی خواہشات اور سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر اجتماعی مفاد میں فیصلے نہیں کیے تو ہمارا جو انجام ہو گا، اس سے خبردار کرنے کے لیے ہم شاعر مشرق علامہ اقبال یہ شعر (معمولی ردوبدل کے ساتھ) یہاں رقم کررہے ہیں…

    نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے پاکستانیو!
    تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

  • آرمی چیف کے دورے کے اثرات، چین کا پاکستانی سیلاب زدگان کیلئے مزید امداد کا اعلان

    آرمی چیف کے دورے کے اثرات، چین کا پاکستانی سیلاب زدگان کیلئے مزید امداد کا اعلان

    اسلام آباد : چین نے پاکستانی سیلاب زدگان کیلئے مزید 500 ملین یوان کی امداد کا اعلان کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق آرمی چیف کے دورے کے اثرات نمایاں ہونے لگے ، چین نے سیلاب زدگان کیلئے مزید امداد کا اعلان کردیا۔

    چین نے ہنگامی بنیاد پر انسانی ہمدردی کے تحت پاکستان کے لئے 100 ملین یوان دینے کا اعلان کیا۔

    چینی حکومت سیلاب متاثرین کے لئے 300 ملین یوان دے گی جبکہ پیپلز لبریشن آرمی کی جانب سے سیلاب زدگان کیلئے 100 ملین یوان کا اعلان کیا گیا ہے۔

    چین سیلاب زدگان کیلئے مجموعی طور پر 500 ملین یوان امداد دے گا ، چینی امداد 71.3 ملین ڈالر اور پاکستانی کرنسی میں 15.8 ارب روپے بنتی ہے۔

    یاد رہے اس سے قبل آرمی چیف کی طرف سے سیلاب زدگان کیلئے اپیل پر یو اے ای سمیت عالمی امدادی ادارے بڑے اعلان کرچکے ہیں۔