کوئٹہ: صوبہ بلوچستان میں بارشوں اور سیلاب سے ہونے والے نقصانات کی تفصیل سامنے آگئی، 3 سو سے زائد اموات اور ڈیڑھ لاکھ سے زائد گھر متاثر ہوئے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کی جانب سے بلوچستان میں اموات اور تباہ کاریوں سے متعلق رپورٹ جاری کردی گئی۔
پی ڈی ایم کا کہنا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں مزید 12 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی ہے جس کے بعد جاں بحق افراد کی مجموعی تعداد 322 ہوگئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق سیلاب سے 5 لاکھ سے زائد مویشی ہلاک ہوئے ہیں، صوبے میں مجموعی طور پر 1 لاکھ 85 ہزار گھر متاثر ہوئے۔ 65 ہزار گھر مکمل تباہ ہوئے جبکہ 1 لاکھ 20 ہزار گھروں کو جزوی طور پر نقصان پہنچا۔
پی ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ سیلابی صورتحال سے بلوچستان میں مجموعی طور پر 103 ڈیمز متاثر ہوئے، 9 لاکھ ایکڑ کے زرعی رقبے کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
بارشوں میں 2 ہزار 198 کلو میٹر پر مشتمل مختلف شاہرائیں بھی شدید متاثر ہوئیں جبکہ مختلف مقامات پر 22 پل ٹوٹ چکے ہیں۔
کراچی: سندھ حکومت نے کراچی کے سوا تمام اضلاع کے ترقیاتی فنڈز منجمد کردیے، فی الحال محکمہ آبپاشی، پی ڈی ایم اے اور ڈی سیز کو ریسکیو اور بندوں کی مرمت کے لیے 10 ارب 84 کروڑ روپے جاری کیے گئے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق سندھ میں سیلاب کے بعد حکومت سندھ نے کراچی کے سوا تمام اضلاع کے ترقیاتی فنڈز منجمد کردیے، محکمہ ترقی و منصوبہ بندی نے تمام سیکریٹریز کو آگاہ کردیا۔
رواں مالی سال میں 4 ہزار 158 ترقیاتی منصوبوں کے لیے 332 ارب روپے رکھے گئے، 118 ارب ریلیز کیے جا چکے ہیں اور ان میں سے صرف 20 ارب روپے خرچ کیے گئے ہیں۔
فی الحال محکمہ آبپاشی، پی ڈی ایم اے اور ڈی سیز کو 10 ارب 84 کروڑ روپے جاری کیے گئے ہیں، یہ فنڈز ریسکیو اور بندوں کی مرمت کے لیے جاری کیے گئے ہیں۔
کراچی: صوبہ سندھ کے سیلاب زدہ علاقوں میں وبائی امراض سے مزید 9 سیلاب متاثرین دم توڑ گئے، سندھ میں اب تک 318 سیلاب متاثرین مختلف وبائی امراض کے باعث انتقال کر چکے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق صوبہ سندھ کے سیلاب زدہ علاقوں میں وبائی امراض شدت اختیار کر گئے، گزشتہ 24 گھنٹے میں 9 سیلاب متاثرین دم توڑ گئے۔
ذرائع وزارت صحت کا کہنا ہے کہ انتقال کر جانے والے متاثرین وبائی امراض میں مبتلا تھے، 3 سیلاب متاثرین کا تعلق نوشہرو فیروز سے تھا، 2 جیکب آباد، 2 ٹنڈو الہٰ یار اور 2 قمبر عمر کوٹ سے تعلق رکھتے تھے۔
ذرائع کے مطابق انتقال کر جانے والے متاثرین میں 5 مرد اور 4 خواتین شامل ہیں۔
جاں بحق ہونے والے سیلاب متاثرین گیسٹرو، ڈائریا، ملیریا، بخار اور امراض قلب کا شکار تھے۔ سندھ میں اب تک 318 سیلاب متاثرین انتقال کر چکے ہیں۔
اسلام آباد: سیلاب سے ملک بھر کے نظام صحت کے بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچنے کا انکشاف ہوا ہے، سیلاب سے ملک کے چاروں صوبوں کے 1625 مراکز صحت کو پہنچنے والے نقصانات کا تخمینہ 65 ارب روپے سے زائد ہے۔
تفصیلات کے مطابق وزارت قومی صحت کے ذرائع کے ملک بھر میں سیلاب سے ہیلتھ اسٹرکچر کو ہونے والے نقصانات کا تخمینہ لگانے کے لیے کیے گئے اسسمنٹ سروے کے دوران شعبہ صحت کے بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچنے کا انکشاف ہوا ہے۔
ہیلتھ اسٹرکچر کو ہونے والے نقصانات سے متعلق اسسمنٹ سروے صوبائی حکومتوں کے تعاون سے کیا گیا، جس کی رپورٹ وفاقی حکومت کو ارسال کر دی گئی ہے۔
ذرائع کے مطابق سیلاب سے ملک بھر میں سب سے زیادہ نقصان سندھ کے ہیلتھ اسٹرکچر کو پہنچا ہے، سندھ میں سیلاب سے 1091 مراکز صحت کو نقصان پہنچا ہے اور نقصانات کا تخمینہ 34 ارب 13 کروڑ سے زائد لگایا گیا ہے۔
بلوچستان میں سیلاب سے 297 مراکز صحت کو نقصان پہنچا ہے اور نقصانات کا تخمینہ 18 ارب 98 کروڑ 80 لاکھ لگایا گیا ہے۔
خیبر پختون خوا میں سیلاب سے 221 مراکز صحت کو نقصان پہنچا ہے جب کہ ہیلتھ سسٹم کو نقصانات کا تخمینہ 8 ارب 37 کروڑ 90 لاکھ ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ خیبر پختون خوا میں سیلاب سے 53 مراکز صحت مکمل تباہ ہوئے ہیں، 155 مراکز صحت کو جزوی جب کہ 13 کو معمولی نقصان پہنچا ہے۔
خیبر پختون خوا میں سیلاب سے دو تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال مکمل تباہ ہو چکے ہیں جب کہ 5 کو جزوی نقصان پہنچا ہے، صوبے میں 29 بنیادی مراکز صحت اور چار دیہی مراکز صحت مکمل تباہ ہوئے ہیں۔ خیبر پختون خوا میں سیلاب سے 18 کمیونٹی ڈسپنسریز مکمل تباہ ہو چکی ہیں۔
وزارت قومی صحت کے ذرائع کے مطابق پنجاب میں سیلاب سے 16 مراکز صحت کو نقصان پہنچا ہے، راجن پور میں 7 مراکز صحت، جام پور 6 اور روجھان میں 3 مراکز صحت کو نقصان پہنچا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پنجاب میں سیلاب سے 16 مراکز صحت کو نقصان کا تخمینہ 7 کروڑ 55 لاکھ لگایا گیا ہے۔
پشاور: صوبہ خیبر پختونخواہ میں سیلاب سے تباہ مکانات کی تعمیر نو کے لیے رقم جاری کی جارہی ہے، اس سلسلے میں ایک اسمارٹ فون ایپ تیار کرلی گئی ہے۔
تفصیلات کے مطابق صوبہ خیبر پختونخواہ کی حکومت نے سیلاب سے تباہ مکانات کے سروے کے لیے موبائل ایپلی کیشن تیار کرلی۔
صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے ڈائریکٹر جنرل کا کہنا ہے کہ صوبے میں مکمل تباہ شدہ مکانوں کے مالکان کو پیکج کے تحت 4 لاکھ روپے دیے جائیں گے۔
ڈی جی کا کہنا ہے کہ جزوی تباہ شدہ مکانا کے لیے 1 لاکھ 60 ہزار روپے دیے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ مکانات کا معاوضہ دینے کے لیے 15 ستمبر سے سروے کا آغاز کیا، ایپ میں متاثرہ مکان اور اس کے سربراہ کا شناختی کارڈ و دیگر کاغذات کی تصاویر کو اپلوڈ کیا جاتا ہے۔
معاوضہ بینک آف خیبر کے اے ٹی ایم اور چیک بکس سے ادا کیے جائیں گے۔
اسلام آباد: ملک میں حالیہ سیلاب کے باعث رواں برس بجٹ خسارہ بڑھنے کا خدشہ ہے، بے تحاشہ مالی نقصان کی وجہ سے صوبے وفاق کو طے کردہ سرپلس نہیں دے سکیں گے۔
تفصیلات کے مطابق سیلاب کی وجہ سے ملک میں بجٹ خسارہ بے قابو ہونے کا خدشہ ہے، ذرائع وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ صوبوں کی جانب سے وفاق کو سرپلس میں کمی کا خدشہ ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال صوبے وفاق کو 750 ارب روپے کا سرپلس نہیں دے سکیں گے، آئی ایم ایف نے شرط عائد کی تھی کہ صوبے وفاق کو 750 ارب کا سرپلس دیں گے۔
ذرائع کے مطابق رواں مالی سال بجٹ خسارے کا ہدف 3 ہزار 797 ارب سے زائد ہونے کا خدشہ ہے، بجٹ خسارے کو محدود کرنا مشکل سے مشکل تر ہو جائے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سیلاب سے چاروں صوبوں میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی، سیلاب میں ریلیف اقدامات کے باعث صوبوں کےاخراجات بڑھ جائیں گے۔
صوبے ریلیف اور تعمیر نو پر مقررہ بجٹ سے زیادہ خرچ کریں گے، زیادہ اخراجات کے باعث صوبے وفاق کو بجٹ سرپلس ہدف سے کم دے سکتے ہیں۔
اسلام آباد: نیشنل فلڈ رسپانس کوآرڈینیشن سینٹر کے اہم اجلاس میں بتایا گیا کہ 3 کروڑ 40 لاکھ سے زیادہ بچوں کو لائف سیونگ سپورٹ کی فوری ضرورت ہے، سیلاب کے نقصانات کا اندازہ لگانے کے لیے مشترکہ سروے جنگی بنیادوں پر مکمل کیا جائے۔
تفصیلات کے مطابق نیشنل فلڈ رسپانس کوآرڈینیشن سینٹر کا اہم اجلاس منعقد ہوا، اجلاس میں سیلاب سے انسانی زندگیوں، لائیو اسٹاک اور انفراسٹرکچر کو نقصانات پر بریفنگ دی گئی۔
اجلاس میں بتایا گیا کہ موجودہ سیلاب ملکی تاریخ کا بدترین تباہ کن سیلاب ہے، موجودہ سیلاب 2010 کے سیلاب سے کئی گنا زیادہ تباہی لایا۔
این ایف آر سی سی کے مطابق سیلاب سے متاثر ہونے والے 33 ملین افراد میں سے 16 ملین بچے ہیں، 3 کروڑ 40 لاکھ سے زیادہ بچوں کو لائف سیونگ سپورٹ کی فوری ضرورت ہے، سیلاب سے ہونے والی 1500 اموات میں 500 سے زیادہ بچے بھی شامل ہیں۔
بریفنگ میں بتایا گیا کہ بچوں اور حاملہ خواتین کو غذائیت کی کمی سے بچانے کی ضرورت ہے۔
این ایف آر سی سی کے مطابق سندھ میں پانی سے پھیلنے والی بیماریوں کا زیادہ خطرہ منڈلا رہا ہے، ڈینگی اور ہیضہ جیسی وباؤں کو روکنے کے لیے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔
اجلاس میں کہا گیا کہ نقصانات کا اندازہ لگانے کے لیے مشترکہ سروے جنگی بنیادوں پر مکمل کیا جائے، سروے کے بعد موسم سرما سے پہلے عملی اقدامات کو یقینی بنایا جائے۔
این ایف آر سی سی نے ہنگامی بنیادوں پر انفراسٹرکچر کی بحالی کا بھی تفصیلی جائزہ لیا۔
31 سالہ زبیدہ صوبہ سندھ کے ضلع بدین کے ایک گاؤں حیات خاصخیلی کی رہائشی تھیں، مون سون کی طوفانی بارشوں کے بعد جب ان کے گاؤں میں سیلابی صورتحال پیدا ہوئی تو ان کا خاندان سب کچھ چھوڑ کر صرف اپنی جان بچا کر وہاں سے نکل آیا۔
اب ان کا خاندان دیگر سینکڑوں خاندانوں کے ساتھ جھڈو (ضلع میرپور خاص) میں سڑک پر قائم ایک خیمہ بستی میں مقیم ہے۔ جب زبیدہ سے بیت الخلا کی دستیابی کے بارے میں دریافت کیا جائے تو وہ بھڑک اٹھتی ہیں، ’واش روم؟ وہ یہاں کہاں ہے، گاؤں میں تو ہم نے دو پیسے کما کر کچا پکا چند اینٹوں کا واش روم کم از کم بنا تو لیا تھا، یہاں تو سرے سے ہے ہی نہیں‘۔
زبیدہ ان لاکھوں خواتین میں سے ایک ہیں جو سیلاب زدہ علاقوں سے نکل کر اب ریلیف کیمپس میں مقیم ہیں اور ایک وقت کھانے کے علاوہ انہیں کوئی سہولت موجود نہیں۔
جھڈو کے قریب سڑک پر، اور اس سمیت پورے سندھ میں قائم خیمہ بستیوں میں بیت الخلا کا کوئی مناسب انتظام موجود نہیں جس سے تمام ہی افراد پریشان ہیں، تاہم خواتین اس سے زیادہ متاثر ہیں۔
باقاعدہ بیت الخلا موجود نہ ہونے، اور آس پاس غیر مردوں کی موجودگی میں رفع حاجت کے لیے جانا سیلاب سے متاثر ہونے والی ان خواتین کے لیے آزمائش بن چکا ہے۔
سیلاب متاثرہ علاقوں میں کام کرنے والے سماجی کارکنان کا کہنا ہے کہ ان خواتین نے رفع حاجت سے بچنے کے لیے پانی پینا اور کھانا کھانا بے حد کم کردیا ہے جس سے پہلے سے ہی کم خوراکی کا شکار یہ خواتین مزید ناتوانی کا شکار ہورہی ہیں، یاد رہے کہ ان میں درجنوں خواتین حاملہ بھی ہیں۔
سکھر کی صحافی سحرش کھوکھر بتاتی ہیں کہ اکثر کیمپوں میں موجود خواتین چار، پانچ کا گروپ بنا کر ذرا سناٹے میں جاتی ہیں، اور چادروں یا رلی کی آڑ سے حوائج ضروریہ سے فارغ ہورہی ہیں۔
سڑک کنارے آباد ہوجانے والی خیمہ بستیوں میں لاکھوں سیلاب زدگان موجود ہیں
سحرش کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ 15، 20 روز سے سکھر اور ملحقہ علاقوں میں فلڈ ریلیف کیمپس کی کوریج کے لیے جارہی ہیں، نہ انہیں کہیں مناسب بیت الخلا کا انتظام دکھائی دیا، نہ ہی میڈیکل کیمپس میں لیڈی ڈاکٹرز موجود ہیں جو خواتین کی بیماریوں کا علاج کرسکے۔
جھڈو کی خیمہ بستی میں بھی زیادہ تر افراد نے اپنے خیموں کے قریب رلیوں کے ذریعے ایک مخصوص حصہ مختص کر کے عارضی بیت الخلا بنایا ہوا ہے۔
زبیدہ اور دیگر خواتین نے بتایا کہ انہیں بیت الخلا کے لیے پانی بھی دستیاب نہیں اور وہ آس پاس گڑھوں میں جمع بارش کا پانی جو اب گندا ہوچکا ہے، اس مقصد کے لیے استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔
سیلاب زدہ علاقوں میں کام کرنے والے فلاحی کارکنان کا کہنا ہے کہ بیت الخلا کی عدم دستیابی سے خواتین عدم تحفظ اور بے پردگی کا شکار ہوگئی ہیں، ان کی کوشش ہے کہ رفع حاجت کے لیے وہ دن کی روشنی میں نہ جائیں اور وہ اندھیرا ہوجانے کا انتظار کرتی ہیں، تاہم کئی علاقوں میں ہراسمنٹ کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں جس سے خواتین مزید خوفزدہ ہوگئی ہیں۔
سندھ کے سیلاب متاثرہ علاقوں میں فلاحی اداروں کے ساتھ کام کرنے والی ڈاکٹر ساجدہ ابڑو بتاتی ہیں، کہ رفع حاجت کی ضروریات سے نمٹنے کے لیے سب سے آسان طریقہ تو ان لوگوں کو کھلے میں رفع حاجت کا نظر آرہا ہے۔
اب چونکہ وہاں لوگوں نے رہائش بھی اختیار کر رکھی ہے، تو کھلے میں رفع حاجت وہاں پر بیماریوں کا باعث بن رہی ہے، کھڑے پانی کی وجہ سے ویسے ہی وہاں مکھیوں اور مچھروں کی بہتات ہے۔ یہ تمام عوامل مل کر مختلف وبائی امراض اور جلدی انفیکشنز کا باعث بن رہے ہیں جس کا شکار ان کیمپوں میں موجود ہر تیسرا شخص دکھائی دے رہا ہے۔
ڈاکٹر ساجدہ کا کہنا ہے کہ رفع حاجت روکنے اور اس کے لیے گندا پانی استعمال کرنے، اور چونکہ یہ لوگ بے سرو سامانی کی حالت میں اپنی جانیں بچا کر نکلے ہیں تو خواتین کے پاس مناسب ملبوسات بھی نہیں، تو خواتین میں پیشاب کی نالی میں انفیکشنز کی شکایت عام دیکھی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ رفع حاجت روکنے کی وجہ سے، یا گندے پانی کے استعمال سے ہونے والا انفیکشن بڑھ کر گردوں تک کو متاثر کرسکتا ہے۔
ڈاکٹر ساجدہ کا کہنا ہے کہ جھجھک کی وجہ سے خواتین یہ مسئلہ لیڈی ڈاکٹرز تک کو نہیں بتا پاتیں، جس کی وجہ سے اس کا علاج نہیں ہوتا اور مرض بڑھتا رہتا ہے۔ بعض علاقوں میں لیڈی ڈاکٹرز سرے سے موجود ہی نہیں، چنانچہ یہ توقع رکھنا بے کار ہے کہ خواتین مرد ڈاکٹرز سے اپنا علاج کروائیں گی۔
اس بات کی تصدیق صحافی سحرش کھوکھر نے بھی کی کہ متعدد علاقوں میں کیمپس کے قریب لیڈی ڈاکٹر تو کیا سرے سے میڈیکل کیمپ ہی موجود نہیں، اکثر میڈیکل کیمپ شہر کے مرکز میں لگائے گئے ہیں اور سیلاب متاثرین کو وہاں آنے کے لیے کہا گیا ہے، اب ان سیلاب متاثرین کا پاس وہاں تک جانے کا کرایہ ہی نہیں تو وہ جا کر کیسے اپنا علاج کروائیں گے۔
سیلاب سے سندھ کے 23 اضلاع تباہی و بربادی کی تصویر بن چکے ہیں
دوسری جانب محکمہ صحت کے ضلعی رین ایمرجنسی فوکل پرسن ڈاکٹر زاہد اقبال نے اے آر وائی نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ ضلعے میں 5 مخصوص مقامات پر فکسڈ میڈیکل کیمپ لگائے گئے ہیں، جبکہ کئی موبائل کیمپس بھی ہیں جو مختلف مقامات پر موجود ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہر فکسڈ میڈیکل کیمپ میں 2 مرد اور 2 خواتین ڈاکٹرز موجود ہیں۔
ڈاکٹر زاہد کا کہنا ہے کہ آلودہ پانی پینے کی وجہ سیلاب زدگان میں ڈائریا کا مرض بے تحاشہ پھیل رہا ہے، صفائی کے فقدان سے جلدی بیماریاں اور مچھروں کی بہتات کے باعث ملیریا بھی زوروں پر ہے جبکہ حاملہ اور دیگر خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ دستیاب وسائل میں تمام امراض کا علاج کرنے اور سیلاب زدگان کو طبی سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
خواتین کی ماہواری ان کی مشکلات میں اضافے کا سبب
پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ایک بحث چھڑی ہوئی دکھائی دی جس میں پہلے تو کہا گیا کہ سیلاب سے بے گھر ہوجانے والی خواتین کو ماہواری کے لیے بھی سامان درکار ہے، لہٰذا اس بات کی ترغیب دی گئی کہ سیلاب متاثرین کو بھجوائے جانے والے امدادی سامان میں سینیٹری پیڈز بھی شامل کیے جائیں۔ تاہم اس پر تنقید کرتے ہوئے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے سینیٹری پیڈز کو شہری خواتین کی عیاشی قرار دیا اور کہا کہ دیہی خواتین اس کا استعمال تک نہیں جانتیں۔
جھڈو میں سڑک کنارے قائم خیمہ بستی میں خواتین سے جب اس حوالے سے دریافت کیا گیا، تو زیادہ تر خواتین نے سینیٹری پیڈز سے لاعلمی کا اظہار کیا، تاہم انہوں نے ماہواری کے دنوں کو اپنی آزمائش میں اضافہ قرار دیا۔
26 سالہ ہاجرہ نے کہا، ’یہاں چاروں طرف لوگ موجود ہیں، واش روم کے لیے جانا ویسے ہی بہت مشکل ہے، اوپر سے ان دنوں میں مشکل اور بھی بڑھ جاتی ہے‘۔
انہوں نے بتایا کہ عام حالات میں وہ ماہواری کے لیے سوتی کپڑا استعمال کرتی تھیں، عموماً تمام خواتین ہی ان کپڑوں کو دوبارہ دھو کر استعمال میں لاتی ہیں، لیکن اب کیمپ میں سامان کی بھی کمی ہے، پھر دھونے کے لیے گڑھوں میں موجود بارش کا گندا پانی ہی دستیاب ہے، ’کیا کریں، کہاں جائیں، بس مشکل ہی مشکل ہے‘، ہاجرہ نے بے بسی سے کہا۔
کیمپ میں موجود 15 سالہ یاسمین البتہ سینیٹری پیڈز سے واقف تھی۔ یاسمین نے ٹی وی پر ان کے اشتہارات دیکھ رکھے تھے، اور ایک بار انہیں استعمال بھی کرچکی تھی۔ یاسمین نے بتایا کہ سینیٹری پیڈز استعمال کرنے کے بعد اس نے انہیں دھو کر تلف کیا تھا۔ ’کیونکہ دھوئے بغیر پھینکنا گناہ ہے‘، اس نے بتایا۔
سندھ کے سیلاب متاثرہ علاقوں میں مصروف عمل سماجی کارکن فریال احمد کا کہنا ہے کہ ان کے ادارے نے نہ صرف خواتین میں سینیٹری پیڈز تقسیم کیے ہیں بلکہ انہیں استعمال کا طریقہ بھی سکھایا ہے۔
دوسری جانب ڈاکٹر ساجدہ ابڑو کا کہنا ہے کہ ماہواری کے دوران صفائی ستھرائی کا خیال نہ رکھا جائے تو یہ تولیدی اعضا میں مختلف انفیکشنز اور بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے، اس کا اثر بعض اوقات آگے چل کر حمل کے دوران بھی ہوسکتا ہے جس سے دوران حمل یا بچے کی پیدائش میں مختلف پیچیدگیاں جنم لے سکتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بعض صورتحال میں ماہواری کے دوران ہونے والے مسائل بانجھ پن تک کا سبب بن سکتے ہیں۔
15 سالہ یاسمین کا کہنا ہے، ’ہم ماہواری کے لیے بار بار نئے کپڑوں کا استعمال نہیں کرسکتے اسی لیے استعمال شدہ کپڑے دھو کر دوبارہ استعمال کرتے ہیں، جو امیر ہیں ان کی جیب انہیں ایک دفعہ کی استعمال شدہ اشیا پھینک دینے کی اجازت دیتی ہے، لیکن ہم غریب ہیں، مجبوری میں استعمال شدہ سامان دوبارہ استعمال کرتے ہیں‘۔
کراچی: وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا ہے کہ بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی بحالی کا پروگرام بنا لیا ہے، متاثرہ علاقوں سے برسات کے پانی کو نکلنے میں 3 سے 6 ماہ لگ سکتے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے آج اتوار کو کراچی میں قائم مقام گورنر سندھ آغا سراج درانی کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کی۔
وزیر اعلیٰ نے بتایا کہ سیلاب سے سندھ میں سوا کروڑ کے قریب لوگ متاثرہیں، اس خطے کے لوگوں کا قصور نہیں ہے، یہ سب قدرت سے لڑنے کی وجہ سے ہوا ہے، پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کا اثر سامنے آیا ہے، سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ نے کہا کہ اتنی بڑی تباہی کہیں نہیں دیکھی۔
انھوں نے کہا برسات کے پانی کو نکلنے میں 3 سے 6 ماہ لگ سکتے ہیں، لوگوں کی بحالی کا پروگرام بنا لیا ہے، یو این سیکریٹری جنرل سے کہا کہ ہمیں پیسے نہیں بلکہ ضروری سامان اور دوائیں چاہئیں۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ کراچی میں 18 ہزار کے قریب سیلاب متاثرین آئے ہیں، جن کا ریکارڈ بھی موجود ہے۔
وزیر اعلیٰ نے بتایا کہ بارش اور سیلاب سے 1500 کے قریب لوگوں کی اموات ہو چکی ہیں، 50 ارب روپے کا نقصان لائیو اسٹاک کا ہوا ہے، ہزاروں گھر منہدم ہوئے، کسانوں کو ساڑھے 3 سو ارب روپے کا نقصان ہوا۔
کراچی میں گرمی کے حوالے سے انھوں نے کہا میں گزشتہ روز لاڑکانہ میں تھا، کراچی سے زیادہ وہاں گرمی ہے، تاہم کراچی میں لوڈ شیڈنگ سے متعلق پاور ڈویژن اور وزیر اعظم تک پیغام پہنچا دیا ہے، ہم پاور کمپنیوں کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔
اسلام آباد: وزارت خزانہ نے سیلاب سے نقصانات پر مبنی رپورٹ وزیراعظم آفس کو ارسال کردی ، جس میں بتایا سیلاب سے معیشت کو ناقابل تلافی 12 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا۔
تفصیلات کے مطابق وزارت خزانہ نے سیلاب سے نقصانات پر مبنی رپورٹ تیار کرلی اور وزیراعظم آفس کو ارسال کردی۔
ذرائع وزارت خزانہ نے بتایا کہ سیلاب سے معیشت کو ناقابل تلافی 12 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا، معاشی شرح نمو 5 فیصد سے کم ہو کر 3.3 فیصد رہنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
وزارت خزانہ نے کہا کہ معاشی شرح نمو میں کمی سے روزگار فراہمی کی شرح میں 1.2 فیصد تک کمی کاخدشہ ہے ، سیلاب سے تقریباً 180 ارب روپے کے ترقیاتی منصوبے مکمل نہیں ہوسکیں گے۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ ترقیاتی منصوبوں کے متاثر ہونےسے 6 لاکھ روزگار بھی فراہم نہیں کئے جا سکیں گے۔
وزارت خزانہ نے بتایا کہ آئی ایم ایف، عالمی بینک ، اے ڈی بی ودیگر مالیاتی اداروں سے امداد لینے کا فیصلہ کیا ہے ، وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے آئی ایم ایف حکام سے رابطہ کیا۔
ذرائع کے مطابق سیلاب سے تباہ کاریوں سےملکی معاشی صورتحال اور مالیاتی امداد کیلئے درخواست کی، ایشیائی ترقیاتی بینک،عالمی بینک ودیگر مالیاتی اداروں کو بھی رپورٹ بھیجی جائے گی۔
اےڈی بی، عالمی بینک اور دیگر مالیاتی اداروں سے مالیاتی امداد کی اپیل کا فیصلہ کیا ہے، سیلاب سے زراعت اور انفراسٹرکچر سمیت دیگر نقصان شامل ہے۔