Tag: سیلاب

  • سندھ میں سیلاب متاثرین کے لیے 2 ہزار سے زائد ریلیف کیمپس قائم

    سندھ میں سیلاب متاثرین کے لیے 2 ہزار سے زائد ریلیف کیمپس قائم

    کراچی: صوبہ سندھ میں بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ افراد کے لیے 2 ہزار سے زائد ریلیف کیمپس قائم کیے گئے ہیں، متاثرین میں اب تک ڈیڑھ لاکھ کے قریب خیمے تقسیم کیے گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ سندھ میں بارش اور سیلاب سے 20 اگست سے اب تک ہونے والی امدادی سرگرمیوں اور نقصانات کی تفصیلات جاری کردی گئیں۔

    فوکل پرسن فلڈ ریلیف کا کہنا ہے کہ صوبے کے متاثرہ اضلاع میں اب تک متاثرین کے لیے 2 ہزار 31 ریلیف کیمپ قائم کیے گئے ہیں، 5 لاکھ 91 ہزار 950 متاثرین کو ان ریلیف کیمپوں میں منتقل کیا جا چکا ہے۔

    فوکل پرسن کے مطابق شہید بے نظیر آباد ڈویژن میں 577، سکھر ڈویژن میں 568، لاڑکانہ ڈویژن میں 481، حیدر آباد ڈویژن میں 296، میر پور خاص ڈویژن میں 68 اور کراچی ڈویژن میں 41 ریلیف کیمپ قائم کے گئے ہیں۔

    متاثرین میں اب تک 1 لاکھ 40 ہزار 610 خیمے تقسیم کیے گئے ہیں جبکہ 9 لاکھ 23 ہزار 255 مچھر دانیاں، 4 ہزار 293 فولڈنگ بستر اور 1350 چولہے بھی تقسیم کیے گئے ہیں۔

    فوکل پرسن کے مطابق بارش کے باعث ہونے والے نقصانات کا سروے جاری ہے، بارش اور سیلاب متاثرین کو ریسکیو کرنا ترجیح ہے۔

    اب تک بارشوں کے باعث 583 افراد جاں بحق جبکہ 11 ہزار 556 افراد زخمی ہوئے ہیں، صوبے بھر میں 45 ہزار 483 مویشی بھی ہلاک ہوئے ہیں۔

    بارشوں کے باعث 16 لاکھ 81 ہزار 380 مکانات کو نقصان پہنچا، 44 لاکھ 26 ہزار 431 ایکڑ پر کاشت کی گئی فصلیں تباہ ہوگئیں۔

    فوکل پرسن کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر بارشوں سے 235 تعلقہ اور 1051 یونین کونسلز متاثر ہوئی ہیں۔

  • سیلاب متاثرین کے لیے امداد: عرب امارات سے مزید پروازیں پہنچ گئیں

    سیلاب متاثرین کے لیے امداد: عرب امارات سے مزید پروازیں پہنچ گئیں

    کراچی: متحدہ عرب امارات سے سیلاب متاثرین کے لیے امدادی سامان لے کر مزید پروازیں کراچی پہنچ گئیں، گزشتہ روز بھی 5 امدادی پروازیں کراچی آئی تھیں۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان میں سیلاب متاثرین کے لیے متحدہ عرب امارات سے امدادی پروازوں کی آمد جاری ہے، عرب امارات سے امدادی سامان لے کر چھٹی اور ساتویں پروازیں کراچی پہنچ گئیں۔

    امدادی سامان لے کر آنے والی دونوں پروازیں ایک ساتھ جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر اتریں، عرب امارات کے سفارتخانے، وزارت دفاع کے نمائندوں و دیگر اعلیٰ حکام نے خیر مقدم کیا۔

    متحدہ عرب امارات سے گزشتہ روز بھی 5 پروازیں امدادی سامان لے کر کراچی آئی تھیں۔

    گزشتہ روز ترکمانستان سے بھی خصوصی طیارہ سیلاب متاثرین کے لیے امدادی سامان لے کر کراچی پہنچا تھا، امدادی سامان میں خیمے، کمبل اور کھانے پینے کی اشیا شامل ہیں۔

  • سیلاب متاثرہ علاقوں میں کتنی ادویات پہنچائی گئیں؟

    سیلاب متاثرہ علاقوں میں کتنی ادویات پہنچائی گئیں؟

    لاہور: صوبہ پنجاب کے سیلاب سے متاثر اضلاع میں 60 سے زائد اقسام کی کروڑوں ادویات پہنچائی گئیں، فراہم کردہ ادویات کے اعداد و شمار جاری کردیے گئے۔

    تفصیلات کے مطابق جون سے 5 ستمبر تک سیلاب سے متاثرہ اضلاع کو فراہم کردہ ادویات کےاعداد و شمار جاری کردیے گئے، 4 اضلاع میں محکمہ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر کی جانب سے 69 مختلف ادویات فراہم کی گئیں۔

    راجن پور ضلع کے ایک ڈی ایچ کیو، 2 ٹی ایچ کیو اسپتالوں، 7 رورل ہیلتھ سینٹرز اور 32 بنیادی مراکز صحت میں ادویات فراہم کی گئیں۔

    وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر اختر ملک کا کہنا ہے کہ راجن پور میں 5 کروڑ 91 لاکھ 66 ہزار ادویات پہنچائی گئی ہیں۔

    ضلع لیہ کے ایک ڈی ایچ کیو، 6 ٹی ایچ کیو اسپتالوں، 6 رورل ہیلتھ سینٹرز اور 36 بنیادی مراکز صحت میں 6 کروڑ 9 لاکھ ادویات فراہم کی گئیں، ڈیرہ غازی خان کے 2 ٹی ایچ کیو اسپتالوں، 9 رورل ہیلتھ سینٹرز اور 53 بنیادی مراکز صحت میں 4 کروڑ 2 لاکھ ادویات دستیاب کی گئیں۔

    ضلع مظفر گڑھ کے 1 ڈی ایچ کیو، 4 ٹی ایچ کیو، 14 رورل ہیلتھ سینٹرز اور 71 بنیادی مراکز صحت میں 6 کروڑ 81 لاکھ ادویات پہنچائی گئیں۔

    ڈاکٹر اختر ملک کا مزید کہنا تھا کہ فراہم شدہ ادویات میں ٹائیفائڈ، ملیریا، ہیضہ، پیچش اور گلے کی خرابی کی ادویات موجود ہیں جبکہ کتے کے کاٹے اور سانپ کے کاٹے سے بچاؤ کی ویکسین بھی شامل ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں ادویات کا اسٹاک وافر مقدار میں موجود ہے۔

  • سکھر بیراج کے 2 گیٹ ناکارہ ہو گئے، سیلاب کے دوران گیٹ کھل نہ سکے

    سکھر بیراج کے 2 گیٹ ناکارہ ہو گئے، سیلاب کے دوران گیٹ کھل نہ سکے

    سکھر: سکھر بیراج کے 2 گیٹ ناکارہ ہو گئے ہیں، بڑے سیلاب کے دوران گیٹ ہی کھل نہ سکے۔

    تفصیلات کے مطابق سکھر بیراج کے 2 گیٹ ناکارہ ہو گئے ہیں، گیٹ نمبر 4 اور گیٹ نمبر 6 کوششوں کے باوجود کھل نہ سکے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ گیٹ نہ کھلنے پر انتہائی اونچے درجے کا سیلاب آنے کی صورت میں بڑا نقصان ہو سکتا تھا، اور گیٹ بند ہونے کے باعث پانی کے اخراج میں دشواری کا سامنا ہوا۔

    بیراج کے تمام دروازے خستہ حالی کا شکار ہیں، دو سال سے بیراج کے دروازوں کی تبدیلی کا عمل جاری ہے، اور صرف ایک دروازے کو تبدیل کیا جا سکا ہے۔

    ادھر دادو میں سیلابی پانی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، دادو، میہڑ اور جوہی شہر کو شدید خطرہ برقرار ہے، رنگ بند پر پانی میں اضافے کے بعد دباؤ بڑھ گیا ہے، ایم این وی ڈرین میں بھی پانی کی سطح میں اضافہ ہو گیا۔

    ایم این وی ڈرین میں چھنڈن موری کے قریب پشتے میں سیلابی پانی کا رساؤ ہو رہا ہے، پشتے پر کام کرنے والے علاقہ مکینوں نے دادو کے شہریوں کو باہر نکلنے کی اپیل کی ہے۔

    جوہی شہر کے اطراف میں بھی پانی میں اضافہ ہو رہا ہے، شہری رنگ بند کو مضبوط بنا رہے ہیں، شہری اور پولیس جوان مٹی کی بوریاں ڈالنے میں مصروف ہیں۔

    ادھر متاثرین نے دہائی دی ہے کہ بچے پانی میں پھنسے ہوئے ہیں، لیکن کشتی والے کرایہ 500 سے 600 روپے مانگ رہے ہیں۔

    کوٹری بیراج پر بھی پانی کی سطح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، بیراج پر پانی کی سطح 6 لاکھ کیوسک سے اوپر ہو گئی ہے، پانی کی آمد 6 لاکھ 8 ہزار 147 کیوسک ہے، جب کہ ڈاؤن اسٹریم میں پانی کا اخراج 5 لاکھ 84 ہزار 272 کیوسک ہے۔

    کوٹری بیراج سے اس وقت اونچے درجے کا سیلابی ریلا گزر رہا ہے، سیلابی ریلے سے کوٹری کے علاقے خانپور اور کاروکھو زیر آب آ گئے ہیں۔

  • سیلاب ملکی معیشت کے اہداف کو لے ڈوبا

    سیلاب ملکی معیشت کے اہداف کو لے ڈوبا

    اسلام آباد : ملک میں سیلاب کے باعث رواں مالی سال کے دوران شرح نمو کی گروتھ 2.3 فیصد تک محدود ہونے کا خدشہ ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سیلاب ملکی معیشت کے اہداف کولے ڈوبا، سیلاب کے باعث رواں سال معاشی شرح نمو کا ہدف حاصل نہیں ہو سکے گا۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ وزارت خزانہ کو سیلاب کے باعث نقصانات اور تباہی پر نئی حکمت علمی تیار کرنا پڑے گی۔

    وزارت خزانہ نے بتایا کہ رواں مالی سال کے دوران شرح نمو کی گروتھ 2.3 فیصد تک محدود ہونے کا خدشہ ہے ، سیلاب سے ملکی معیشت کو 2 ہزار ارب سے زائد کا نقصان ہوا۔

    وزارت خزانہ نے مزید کہا کہ رواں مالی سال مہنگائی کی شرح 25 سے 27 فیصد تک رہنے کا خدشہ ہے۔

    رواں مالی سال 2022-23 کیلئے معاشی شرح نمو کا ہدف 5 فیصد مقرر کیا گیا تھا۔

    سیلاب کے باعث سالانہ ترقیاتی پلان میں دیے گئے اہداف بھی حاصل نہیں کیے جا سکیں گے، رواں مالی سال اہم فصلوں کا ہدف 3.9 فیصد سے کم ہو کر 0.7 فیصد رہنے کا امکان ہے۔

    دستاویز کے مطابق صنعتی شعبے میں گروتھ کاہدف 5.9فیصد سےکم ہو کر1.9 فیصد ، خدمات کے شعبے میں گروتھ کا ہدف 5.1 فیصد سے کم ہو کر 3.5 فیصد رہ سکتا ہے۔

    وزارت خزانہ نے بتایا کہ بیلنس آف پیمنٹ اور قرضوں تلے دبی ملکی معیشت سیلاب سےمزید متاثر ہو گئی اور سیلاب سے تباہی کے باعث مہنگائی کی شرح میں مزید اضافہ ہو گا۔

    دستاویز میں بتایا گیا کہ ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے دوست ممالک اور ڈیولپمنٹ پارٹنرسےتعاون درکارہوگا۔

  • سیلاب : عذاب الہٰی یا حکمرانوں کی نااہلی؟

    سیلاب : عذاب الہٰی یا حکمرانوں کی نااہلی؟

    پاکستان اس وقت تاریخ کے بدترین سیلاب کی زد میں ہے، نصف سے زائد ملک پانی میں ڈوبا ہوا ہے، ایک ہزار سے زائد افراد زندگی کی بازی ہارچکے ہیں۔ لاکھوں گھر پانی میں بہہ گئے ہیں اور دوسری عمارتوں کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ لوگوں کی جمع پونجی پانی کی نذر ہوگئی ہے۔ ملک بھر میں‌ لاکھوں خاندان کھلے آسمان تلے آگئے ہیں۔ یہ المیہ اتنا بڑا ہے کہ نہ تو کوئی قلم اسے پوری طرح ضبطِ تحریر میں لاسکتا ہے اور نہ ہی کوئی کیمرہ اس کی مکمل عکس بندی کرسکتا ہے۔

    وزارت ماحولیات تبدیلی کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق طوفانی بارشوں کے بعد آنے والے سیلاب سے ملکی معیشت کو ابتدائی تخمینے کے مطابق 10 ارب امریکی ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ ملک کا 70 فیصد حصہ زیر آب ہے اور پاکستان کے جنوبی حصوں میں کئی مقامات پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اموات کی تعداد 1500 کے قریب پہنچ چکی ہے۔ جب کہ 3 ہزار سے زائد زخمی رپورٹ ہوئے ہیں۔ دریاؤں میں اب تک اونچے درجے کا سیلاب ہے۔ 10 لاکھ سے زائد مکانات کو نقصان پہنچا ہے اور 3 کروڑ 30 لاکھ سے زائد آبادی متاثر ہے۔ متاثرہ علاقوں میں 5 ہزار کلومیٹر سے زیادہ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جبکہ 243 پل تباہ ہوگئے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر صوبہ سندھ ہوا ہے، سندھ کا 90 فیصد اور ملک کی کل فصلوں کا 45 فیصد حصہ زیر آب ہے۔

    یہ تو سرکاری رپورٹ ہے لیکن آزاد ذرائع کے مطابق سیلاب سے جانی نقصان مذکورہ اعداد وشمار سے کئی گنا زیادہ ہوسکتا ہے اور اس کا اصل اندازہ سیلاب اترنے کے بعد ہی ہوسکے گا کیونکہ اب تک 100 فیصد سیلاب متاثرہ علاقہ رپورٹ نہیں ہوسکا ہے۔ پاکستان کے سیلاب متاثرین کے لیے عالمی، ملکی اور عوامی سطح پر امدادی سرگرمیاں شروع ہوچکی ہیں۔ اس دوران بعض صاحب اقتدار لوگوں کی جانب سے اسے عذاب الہٰی سے بھی تعبیر کیا گیا ہے جس پر سوال اٹھ رہا ہے کہ ہر چند سال بعد یہ عذاب الہٰی صرف غریب عوام پر ہی کیوں ٹوٹتا ہے؟

    ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ ملک کو سیلابی پانی نے گھیرا ہو۔ اس سے قبل بھی کئی بار سیلاب آئے اور تباہی کی ایک داستان رقم کرکے چلے گئے۔ اس وقت بھی مسندِ اقتدار پر براجمان افراد نے پھرتیاں دکھائیں، امدادی سرگرمیاں ہوئیں، بین الاقوامی امداد آئی، پھر وقت گزرا اور سب لوگ حسب روایت بھول بھال کر اپنی روزمرہ کی زندگی میں مصروف ہوگئے لیکن یہاں جن کی ذمے داری تھی یعنی صاحبان اقتدار، انہوں نے اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا اور نہ ہی مستقبل میں ایسی آفات سے نمٹنے کیلیے کوئی جامع منصوبہ بندی کی۔

    مون سون کے آغاز سے کئی ماہ قبل ہی محکمہ موسمیات نے فروری، مارچ میں حکومت سمیت ریلیف کے تمام اداروں کو آگاہ کردیا تھا کہ اس بار ملک میں مون سون نہ صرف طویل ہوگا، بلکہ معمول سے کئی گنا زائد اور شدید طوفانی بارشیں ہوسکتی ہیں، جس سے شہری و دیہی علاقے سیلاب کی زد میں آسکتے ہیں اور انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس پیشگوئی کے بعد حکومت اور اس سے جڑے ادارے حرکت میں آجاتے اور پیشگی اقدامات شروع کردیتے تو شاید تباہی آج اپنی انتہا پر نہ ہوتی اور آسمان سے برستا جل اس ملک کے غریبوں کے لیے شاید فرشتہ اجل ثابت نہ ہوتا، لیکن اس وقت تو ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات کرسی، سیاست، اکھاڑ پچھاڑ تھی تو اس جانب کیا توجہ دی جاتی۔

    جون میں برساتوں کا سلسلہ شروع ہوا تو جولائی تک ملک کے بیشتر حصوں میں پھیل گیا طوفان اور سیلاب نے سب سے پہلے صوبہ بلوچستان کو اپنا ہدف بنایا جہاں ہر چیز خس وخاک کی طرح اس سیلابی ریلے میں بہہ گئی، لیکن یہ ہماری روایتی بے حسی کہہ لیں جب بلوچستان ڈوب رہا تھا، لاشیں کیچڑ میں لت پت مل رہی تھیں، ماؤں کے سامنے ان کے بچے سیلابی ریلوں میں بہہ کر جارہے تھے اور وہ اپنے جگر گوشوں کو بچانے کیلیے کچھ بھی نہیں کر پارہے تھے، اس وقت بھی ہمارا معاشرہ روایتی بے حسی کی چادر اوڑھے سو رہا تھا جب کہ میڈیا بھی سیاسی رنگینیوں کی داستانیں سناتے ہوئے تھک نہیں رہا تھا، سیلاب کی تباہی پر حکومت وقت کی نظر اس وقت پہنچی جب پانی اپنی راہ بدل کر سندھ اور جنوبی پنجاب میں داخل ہورہا تھا اس کے بعد جب پانی خیبر پختونخوا میں بپھرا تو انسانی جانوں کے ساتھ وادی سوات کا سارا حسن بھی اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔

    یہ تباہی اتنی بڑی تھی کہ صدر مملکت، وزیراعظم اور وزیر خارجہ کو عالمی برادری سے امداد کی اپیل کرنی پڑی، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بھی اقوام عالم سے پاکستان کی امداد کی اپیل کرچکے۔ چین، ترکی، سعودی عرب، یو اے ای، ایران، امریکا، کینیڈا، قطر سمیت دیگر ممالک نے انسانی بنیادوں پر مدد شروع کر بھی دی اس کے ساتھ حکومت سمیت پاک فوج، رینجرز، دیگر اداروں نجی سطح پر بھی امداد کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے، سابق وزیراعظم عمران خان نے ٹیلی تھون کرکے دنیا بھر سے ساڑھے پانچ ارب سے زائد رقم جمع کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ دعوت اسلامی، جے ڈی آئی، الخدمت فاؤنڈیشن، سیلانی ویلفیئر، تحریک لبیک پاکستان سمیت دیگر سیاسی اور سماجی تنظیمیں اور لوگ انفرادی سطح پر امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے ہیں لیکن یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ آج ملک میں جو تباہی پھیلی ہے یہ یقیناً قدرتی آفت تو ہے لیکن کیا حکومت جس کی بنیادی ذمے داری عوام کے جان و مال کا تحفظ ہوتا ہے، کیا وہ اس آفت سے نمٹنے کیلیے پیشگی اقدامات نہیں کرسکتی تھی؟ کہ اگر اس سے مکمل بچا نہ جاسکتا تھا تو نقصان کا حجم کم تو کیا جاسکتا تھا یا کم از کم ایسے اقدامات کیے جاسکتے تھے کہ جس سے انسانی جانوں کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کیا جاسکے۔

    یوں تو چاروں صوبے ہی کسی نہ کسی طرح سیلاب سے متاثر ہیں لیکن سندھ اور بلوچستان میں جو المیے جنم لے رہے ہیں اس سے ہر حساس دل تڑپ رہا ہے، یہ دور سوشل میڈیا کا ہے جہاں کوئی بات چھپ نہیں پاتی ہے، ملکی میڈیا کے ساتھ سوشل میڈیا پر بھی ایسے ایسے المناک مناظر سامنے آرہے ہیں جسے دیکھنے والی ہر انسانی آنکھ نم ہورہی ہے۔ الہٰی یہ کیسی تباہی ہے کہ جنازے تو ہیں لیکن انہیں دفنانے کیلیے خشک زمین میسر نہیں، لیکن ان حالات میں جب کروڑوں لوگ بے کس و بے بس بنے ہوئے ہیں اس ملک میں ضمیر فروشوں کی بھی کمی نہیں ہے، اول تو اشیائے ضرورت دستیاب نہیں ہیں اگر ہیں تو ان کی قیمتیں اتنی بلند کردی ہیں کہ آسمان بھی اس کے آگے نیچا دکھائی دینے لگا ہے، صرف اسی پر بس نہیں ضمیر فروش ملنے والی امداد پر بھی قابض ہورہے ہیں جس کی ویڈیوز سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا بھر میں وائرل ہوکر اس ملک کا مذاق بنوا رہی ہیں۔

    اس وقت سیلاب متاثرہ لوگوں کی سب سے بڑی ضرورت بھوک اور پیاس، کپڑے، سر چھپانے کیلیے عارضی پناہ گاہیں ہیں کئی رپورٹس کے مطابق بعض جگہوں پر تو سیلاب متاثرین بے لباس بیٹھے ہیں، اس سے زیادہ حیوانیت کہاں ملے گی کہ جب ہر طرف قیامت صغریٰ کا منظر تھا وہاں انسانیت کے دعویدار حیوان نما انسان بنت حوا کی روٹی کے بدلے عزت اتار رہے ہیں سانگھڑ میں ایک خاتون کو راشن دینے کے نام پر دو دن تک اس کی عصمت دری کی گئی میڈیا میں خبر آنے پر ملزمان پکڑے گئے لیکن کیا اس قیامت خیز منظر نامے میں ایسا انسانیت سوز واقعہ ہونا چاہیے تھا؟ وزرا، سیاستدانوں اور وڈیروں نے اپنی زمینیں بچانے کیلیے عارضی بند بناکر پانی کا رخ غریبوں کی بستیوں کی جانب موڑ دیا جس نے تباہی میں مزید اضافہ کیا۔

    حکومت اور سیاستدانوں کی بے حسی کے کیا کہنے کہ جب سیلاب بلوچستان میں پوری طرح تباہی پھیلا رہا تھا اور وہاں موت رقصاں تھی تو یہاں ہمارے عوام کے ہمدرد حکمراں جشن آزادی کے نام پر ناچ گانا دیکھنے میں مصروف تھے۔ صرف اسی پر بس نہیں کیا، جیسے جیسے سیلاب کا دائرہ کار اور تباہی بڑھتی گئی ہمارے حکمرانوں کی بے حسی بھی بڑھتی گئی۔ لوگ ڈوب اور ایک ایک روٹی کو ترس رہے تھے، ایسے وقت میں ہمارے اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف 25 رکنی وفد کے ساتھ 65 ویں کامن ویلتھ کانفرنس میں شرکت کیلیے کینیڈا گئے، لیکن میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق اس میں سے نصف اراکین نے تو یہ کانفرنس اٹینڈ ہی نہیں کی بلکہ فیملی کے ساتھ سیر سپاٹے اور لگژری زندگی کے مزے لیتے رہے۔ خود راجا پرویز اشرف کے وفد کے ہمراہ اور نیاگرا فال کے نظارے دیکھنے اور پرتعیش ہوٹلوں میں لذیذ کھانے کھانے کی تصاویر میڈیا کی زینت بنی رہیں۔ اسی دوران وزیراعظم دورہ قطر پر تشریف لے گئے 40 رکنی وفد کے ہمراہ یہ دورہ تین روزہ تھا جس پر عوام کا ہی پیسہ خرچ ہوا اگر ایسے وقت میں یہ دورہ ضروری بھی تھا تو مختصر وفد کے ساتھ بھی ہوسکتا تھا۔ عوام پر موت کے سائے بڑھتے جا رہے تھے اور مولانا فضل الرحمٰن لاؤ لشکر کے ہمراہ ترکیہ کے نجی دورے پر تھے جس کا مقصد تو صوفی بزرگ شیخ محمود آفندی کے انتقال پر تعزیت کرنا تھا لیکن ان کی وہاں ایک فیری میں تفریح کی تصویریں میڈیا پر چلیں تو پتہ چلا کہ وہ وہاں تفریح کرکے سیلاب متاثرین کا غموں کا مداوا کر رہے ہیں۔

    صرف یہ نہیں بلکہ جو سیاسی رہنما سیلاب زدہ علاقوں میں گئے بھی تو وہاں اپنے طرز عمل سے ان کی اشک شوئی کے بجائے زخموں پر نمک ہی چھڑکا، پی پی کے ایک صوبائی وزیر منظور وسان جو خواب دیکھنے کے ماہر ہیں انہوں نے جاگتی آنکھوں سیلاب زدہ علاقے کو اٹلی کے شہر وینس سے تعبیر کر ڈالا، ایک ایم این اے امیر علی شاہ شاہانہ انداز میں پلنگ پر بیٹھے اور منرل واٹر سے جوتے دھوتے نظر آئے، آصف زرداری کے بہنوئی اور فریال تالپور کے شوہر نے تو سیلاب متاثرین میں 50 پچاس روپے تقسیم کرکے اس کی ویڈیو بھی بنوائی۔ اس پر طرفہ تماشہ یہ کہ حکمراں طبقے نے بجائے اپنی نااہلی کا اعتراف کرنے کے اسے عذاب الہٰی سے تعبیر کیا اور سندھ کے کئی وزرا کی جانب سے اسے عوام کے گناہوں کا ثمر قرار دیا گیا۔

    شاید حکمرانوں اور سیاستدانوں کے یہی حاکمانہ ذہنیت کے طرز عمل تھے کہ گزشتہ 5 دہائیوں کے مسلسل جیے بھٹو کا نعرہ لگانے والوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور گزشتہ 14 سال سے سندھ کے اقتدار پر مسلسل براجمان پی پی پی کے کبھی نہ پورے ہونے والے وعدوں نے ان کی آنکھیں کھول دیں تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سندھ کے سیلاب زردگان نے متاثرہ علاقوں میں آنے والے حکمرانوں کا گھیراؤ شروع کردیا پھر چاہے وزیراعظم شہباز شریف ہوں، یا وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری، وزیراعلیٰ مراد علی شاہ ہوں یا قائم مقام گورنر سراج درانی یا پھر سندھ کے دیگر وزرا، غریبوں نے انہیں آئینہ دکھانا شروع کیا تو لاڑکانہ، دادو، سکھر، خیرپور، ٹھٹھہ، نوشہروفیروز سمیت تمام سیلاب متاثرہ علاقوں میں ان ہی حکمرانوں کو زمین پر اترنا دشوار ہوگیا لیکن ستم یہ ہوا کہ وڈیرانہ سوچ کے حامل حکمرانوں نے بجائے ان نازک حالات میں ان کی داد رسی کرنے کے اپنی بے کسی کا اظہار کرنے پر ان کے خلاف ہی مقدمات درج کرا دیے اور سکھر میں وزیراعظم شہباز شریف کے دورے کے بعد 100 سے زائد نامعلوم سیلاب متاثرین کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔

    سیلاب متاثرین کے مصائب اور ان کی مشکلات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ان کی امداد کے اعلانات ہی کافی نہیں‌حکمرانوں اور سیاستدانوں کو اپنے رویے اور طرز عمل سے بھی خود کو مصیبت کی اس گھڑی میں عوام کا حقیقی ہمدرد اور خیر خواہ ثابت کرنا ہو گا۔

    bostancı escort bayan
    ümraniye escort bayan
    ümraniye escort
    anadolu yakası escort bayan
    göztepe escort bayan
    şerifali escort
    maltepe escort
    maltepe escort bayan
    tuzla escort
    kurtköy escort
    kurtköy escort bayan

  • ’ابتدائی سروے کے مطابق 102 ارب کا نقصان ہوچکا ہے‘

    ’ابتدائی سروے کے مطابق 102 ارب کا نقصان ہوچکا ہے‘

    پشاور: صوبہ خیبر پختونخواہ کے وزیر شوکت یوسف زئی کا کہنا ہے کہ ابتدائی سروے کے مطابق بارشوں اور سیلاب سے 102.3 ارب کا نقصان ہوا ہے، سوات میں 34 جاں بحق افراد کے خاندانوں کو 4 لاکھ روپے معاوضہ دیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق صوبائی وزیر شوکت یوسف زئی کا کہنا ہے کہ ابتدائی سروے کے مطابق 102.3 ارب کا نقصان ہوا ہے، 1400 کلو میٹر سے زائد سڑکیں تباہ ہوئی ہیں، صوبے میں سیلاب اور بارشوں سے 289 اموات ہوچکی ہیں۔

    شوکت یوسف زئی کا کہنا تھا کہ سوات میں سب سے زیادہ 34 اموات ہوئی ہیں، جن کی اموات ہوئی ہیں ان کےخاندان کو 4 لاکھ روپے معاوضہ دیا گیا ہے، زخمی ہونے والے افراد کا معاوضہ 1 لاکھ 60 ہزار کر دیا گیا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ محمود خان نے شروع دن سے اپنا ہیلی کاپٹر مہیا کیا ہے، ہیلی کاپٹر سے بڑی تعداد میں لوگوں کو ریسکیو کیا گیا۔

    صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کے نمائندے صرف تصاویر بنوانے آئے، انہوں نے صرف ریلیف کی رقم کا اعلان کیا ہے۔

  • سیلاب زدہ علاقوں میں شاہراہوں اور رابطہ سڑکوں کی بحالی کا کام تیزی سے جاری

    سیلاب زدہ علاقوں میں شاہراہوں اور رابطہ سڑکوں کی بحالی کا کام تیزی سے جاری

    اسلام آباد: وزیر اعظم شہباز شریف کی ہدایت پر سیلاب زدہ علاقوں میں شاہراہوں اور رابطہ سڑکوں کی بحالی کا کام جاری ہے، متعدد سڑکوں کی بحالی کا کام ہوچکا ہے جبکہ متعدد شاہراہوں پر بحالی کا کام فی الحال جاری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف کی ہدایت پر سیلاب زدہ علاقوں میں شاہراہوں اور رابطہ سڑکوں کی بحالی کا کام جاری ہے، وزیر اعظم مواصلات اور سڑکوں کی بحالی کے کام کی نگرانی خود کر رہے ہیں۔

    وزیر اعظم کو مواصلات اور سڑکوں کی بحالی سے متعلق روزانہ رپورٹ پیش کی جا رہی ہے، وفاقی وزیر مواصلات اور چیئرمین این ایچ اے قومی شاہراہوں کی بحالی کو یقینی بنا رہے ہیں۔

    گزشتہ 15 دن میں چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان میں سیلاب متاثرہ شاہراہوں کو بحال کیا گیا ہے۔ قومی شاہراہ این 15 مانسہرہ سے چلاس براستہ ناران ٹریفک کے لیے بحال کردی گئی۔

    کراچی سے چمن قومی شاہراہ این 25 بھی حب سے خضدار تک سیلاب سے متاثر تھی جسے ٹریفک کے لیے بحال کر دیا گیا، قراقرم ہائی وے این 35 انڈس کوہستان اور ہنزہ اضلاع میں بند تھی وہ بھی بحال کردی گئی۔

    متعدد شاہراہوں پر بحالی کا کام تیزی سے جاری ہے۔

  • کراچی میں کتنے سیلاب متاثرین موجود ہیں؟

    کراچی میں کتنے سیلاب متاثرین موجود ہیں؟

    اسلام آباد: نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے اجلاس میں بتایا گیا کہ صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں اب تک 15 ہزار سے زائد سیلاب متاثرین کو لایا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے اجلاس میں فوکل پرسن نے بتایا کہ کراچی کے 6 اضلاع میں قائم 39 ریلیف کیمپس میں 15 ہزار 274 متاثرین موجود ہیں۔

    مفوکل پرسن کا کہنا ہے کہ متاثرین کو تیار خوراک، پانی، مچھر دانیاں اور دوائیں فراہم کی جارہی ہیں۔

    اجلاس کو بتایا گیا کہ ضلع شرقی میں 15 کیمپوں میں 7 ہزار 350 متاثرین سیلاب کو رکھا گیا ہے، ضلع غربی کے 6 کیمپوں میں 3 ہزار 490، ضلع کورنگی کے ایک کیمپ میں 466، ضلع ملیر کے 8 کیمپوں میں 3 ہزار 175 اور ضلع کیماڑی کے 7 ریلیف کیمپوں میں 793 سیلاب متاثرین کو رکھا گیا ہے۔

    فوکل پرسن کا کہنا تھا کہ ضلع وسطی کے 2 ریلیف کیمپوں میں بھی متاثرین کو رکھا جائے گا۔

  • فرانس کی جانب سے سیلاب متاثرین کے لیے امدادی سامان پاکستان پہنچ گیا

    فرانس کی جانب سے سیلاب متاثرین کے لیے امدادی سامان پاکستان پہنچ گیا

    اسلام آباد: فرانس کی جانب سے سیلاب متاثرین کے لیے امدادی سامان پاکستان پہنچ گیا، وفاقی وزیر صحت عبد القادر پٹیل کا کہنا تھا کہ سیلاب متاثرین کے لیے امداد کی فراہمی پر فرانس کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق فرانس کی جانب سے سیلاب متاثرین کے لیے امدادی سامان نور خان ایئر بیس پہنچ گیا، وفاقی وزیر صحت عبد القادر پٹیل نے فرانس کے سفیر سے امدادی سامان وصول کیا۔

    وزارت صحت کا کہنا ہے کہ وزیر صحت نے فرانسیسی عملے، انجینیئرنگ ٹیم اور فرانسیسی سفیر کا استقبال کیا اور فرانسیسی زبان میں ان کا شکریہ ادا کیا۔

    اس موقع پر وزیر صحت کا کہنا تھا کہ سیلاب متاثرین کے لیے امداد کی فراہمی پر فرانس کا شکریہ ادا کرتے ہیں، مشکل کی اس گھڑی میں پاکستان کے عوام کے ساتھ ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ فرانس سے آنے والے امدادی سامان میں سیلابی پانی نکالنے والے بڑے پمپ بھی شامل ہیں، فرانس کی جانب سے ڈاکٹرز اور ٹریننگ دینے والے ماہرین بھی ساتھ ہیں۔

    وزیر صحت کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک میں سفارتی سطح پر دیرینہ تعلقات ہیں۔