Tag: سیلاب

  • عمان میں تباہ کن بارشیں، متعدد افراد جاں بحق

    عمان میں تباہ کن بارشیں، متعدد افراد جاں بحق

    مشرق وسطیٰ کے ملک عمان کے متعدد علاقوں میں طوفانی بارشوں کے بعد سیلابی صورتحال ہے جس سے انفرااسٹرکچر کو بے تحاشہ نقصان پہنچا ہے۔

    حکام کا کہنا ہے کہ عمان میں 7 جولائی سے جاری شدید بارشوں کے باعث 16 افراد جان کی بازی ہار گئے ہیں جبکہ 4 افراد لاپتہ ہیں۔

    پولیس کے آپریشنز کے جنرل ڈائریکٹر محمد بن ناصر الکنیدی نے بتایا کہ ملک بھر میں ہونے والی طوفانی بارشوں کی وجہ سے انفراسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچا ہے۔

    اب تک 40 سے زائد افراد کو بچالیا گیا ہے۔

    سیلاب زدہ علاقوں سے نہایت خوفناک تصاویر سامنے آرہی ہیں، موسمیاتی ادارے نے پہاڑی علاقوں میں مزید بارشوں کا سلسلہ جاری رہنے کی پیشگوئی کی ہے۔

  • سیلاب میں تیرتی بریانی سوشل میڈیا پر وائرل

    سیلاب میں تیرتی بریانی سوشل میڈیا پر وائرل

    رواں برس مون سون کی بارشوں نے جہاں سیلابی صورت اختیار کر کے بے تحاشہ نقصان کیا، وہیں اس دوران کچھ دلچسپ مناظر بھی دیکھنے کو ملے۔

    سوشل میڈیا پر وائرل ایک دلچسپ ویڈیو میں بریانی کی دیگ کو سیلابی پانی میں تیرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

    بظاہر یہ ویڈیو بھارتی ریاست حیدر آباد کی لگ رہی ہے، ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بارش کے پانی میں تیرتی دیگ کی ویڈیو کو فلمانے اور اسے دیکھنے والے لوگ ہنس رہے ہیں اور اس پر تبصرے بھی کر رہے ہیں۔

    سوشل میڈیا پر اس ویڈیو پر مختلف تبصرے کیے جارہے ہیں، ایک صارف نے لکھا کہ جس شخص کو اپنا یہ بریانی کا آرڈر نہیں ملے گا وہ بہت ناخوش ہوگا۔

    کچھ صارفین نے کہا کہ بارشوں کے دوران کھانے کی ڈیلیوری پہنچانے کا یہی مؤثر ترین ذریعہ ہے۔

  • کاچھو میں سیلاب سے سینکڑوں گاؤں ڈوب گئے: ’بارش نہ ہو تو تکلیف، ہوجائے تو دہرا عذاب‘

    کاچھو میں سیلاب سے سینکڑوں گاؤں ڈوب گئے: ’بارش نہ ہو تو تکلیف، ہوجائے تو دہرا عذاب‘

    رپورٹ: فریحہ فاطمہ / جی ایم بلوچ

    پاکستان میں مون سون کے حالیہ اسپیل نے ملک کے بیشتر حصے کو شدید متاثر کیا ہے اور متعدد علاقوں میں سیلاب آچکا ہے، ان گنت علاقے تباہی و بربادی کی تصویر بن چکے ہیں۔

    بارشوں کے حالیہ سلسلے نے جہاں صوبائی دارالحکومت کراچی میں اربن فلڈنگ کی صورتحال پیدا کردی وہیں سندھ کے دیگر حصے بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں اور کاچھو کا علاقہ بھی انہی میں سے ایک ہے۔

    سندھ کے ضلع دادو میں واقع کاچھو کا علاقہ کیرتھر کے پہاڑی سلسلے کے دامن میں ہے اور یہ صوبہ سندھ اور بلوچستان کا سرحدی علاقہ ہے، سندھ اور بلوچستان کے درمیان موجود یہ قدرتی سرحد یعنی کیرتھر کے پہاڑ 9 ہزار اسکوائر کلو میٹر طویل ہیں اور سندھ کی طرف اس کا سب سے بڑا علاقہ کاچھو کہلاتا ہے جو سندھ کے 2 اضلاع دادو اور قمبر شہداد کوٹ پر محیط ہے۔

    انتظامی طور پر یہ علاقہ 9 یونین کاؤنسلز میں تقسیم ہے جس میں چھوٹی بڑی بے شمار آبادیاں ہیں اور اندازاً یہاں کی آبادی 2 سے ڈھائی لاکھ کے قریب ہے۔ یہ علاقہ بارانی ہے اور یہاں کے رہائشی فصل کی افزائش اور پینے کے لیے بارش کے پانی کے محتاج ہیں۔

    ہر سال بارشوں کے دوران کیرتھر کے پہاڑوں سے پانی مختلف چھوٹی بڑی ندیوں کی صورت میں بہہ کر آتا ہے، یہاں کی سب سے بڑی ندی نئیں گاج کے نام سے ہے۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ بارشوں کے دوران پہاڑوں سے پانی کا بہہ کر آنا، اور پھر وہاں سے سندھ کی منچھر جھیل میں چلے جانا، معمول کا قدرتی عمل ہے لیکن گزشتہ 2 سال سے، اور اب یہ تیسرا سال ہے جس میں پانی کی مقدار اس قدر ہے کہ پورا علاقے میں سیلاب آچکا ہے۔

    تمام زمینی راستے منقطع

    ضلع دادو میں سرگرم عمل صحافی اور سماجی کارکن رشید جمالی کا کہنا ہے کہ گزشتہ 1 ماہ سے بلوچستان میں ہونے والی بارشوں سے مستقل پانی یہاں آرہا ہے، کیرتھر کے پہاڑوں سے آنے والے پانی اور یہاں کی سب سے بڑی ندی نئیں گاج کے اوور فلو سے علاقہ زیر آب آچکا تھا، اور اب ہونے والی بارشوں کے بعد بے شمار گاؤں سیلاب کے پانی میں گھر چکے ہیں اور آس پاس کے علاقوں سے ان کا رابطہ منقطع ہوچکا ہے۔

    ان کے مطابق بارش کے کچھ روز گزرنے کے بعد کچھ دیہات ایسے بھی ہیں جہاں پانی تو اتر گیا، لیکن اب وہاں دلدل اور کیچڑ ہوچکی ہے اور اب وہاں نہ تو کوئی کشتی جا سکتی ہے نہ ہی کوئی گاڑی۔

    رشید پچھلے کچھ روز سے اپنے ساتھیوں کے ساتھ کشتی میں ایک قریبی گاؤں میں کھانا پہنچا رہے ہیں، کیچی شاہانی نامی یہ گاؤں بھان سعید آباد سے 20 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔

    گاؤں کیچی شاہانی

    رشید نے بتایا کہ صرف کیچی شاہانی میں اس وقت 600 کے قریب افراد موجود ہیں جن میں 200 بچے بھی ہیں، فی الوقت یہ تمام لوگ کھانے سے بھی محروم ہیں جبکہ اب بارش کے بعد وبائی امراض بھی پھیلنا شروع ہوگئے ہیں جن کے سدباب کے لیے کوئی طبی سہولیات موجود نہیں۔

    کیچی شاہانی کے رہائشی حاجی محمد خان کا کہنا ہے کہ ان کے گاؤں میں گزشتہ 1 ماہ سے سیلابی پانی کھڑا ہے، تاحال کسی حکومتی نمائندے نے جھانک کر نہیں دیکھا، گاؤں والوں کے پاس نہ کھانا ہے، نہ راشن نہ کوئی طبی سہولت۔ یہاں سے نقل و حرکت کے لیے واحد ذریعہ کشتی ہی ہے جس کے ذریعے وہ طویل راستہ طے کر کے قریبی شہر تک جا سکتے ہیں اور راشن یا ادویات لا سکتے ہیں۔

    گاؤں کی رہائشی ایک خاتون نوراں بی بی نے بتایا کہ ان کا گزر بسر کھیتی باڑی پر ہے جس کے لیے بارش درکار ہے، بارش نہ ہو تو بھی وہ فاقے کرتے ہیں، ہوجائے تو سیلاب کی صورت میں دہرا عذاب ہوجاتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ علاقے میں عام حالت میں بھی اسپتال، ڈاکٹر یا طبی سہولیات کا نام و نشان نہیں۔ کوئی شدید بیمار ہو یا کسی خاتون کی ڈلیوری ہو تو کئی کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے جوہی شہر تک جانے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن اکثر یا تو مریض راستے میں دم توڑ جاتا ہے یا پھر سواری میں ہی بچے کی پیدائش ہوجاتی ہے۔

    امدادی کارروائیوں کے حکومتی دعوے

    ڈپٹی کمشنر دادو سید مرتضیٰ شاہ کا دعویٰ ہے کہ سیلاب کے بعد انتظامیہ کی ٹیمیں پورے علاقے میں متحرک ہیں اور امدادی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

    اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ کاچھو کی 9 یونین کاؤنسلز میں چھوٹی بڑی بے شمار آبادیاں ہیں، سینکڑوں گھروں پر موجود گاؤں بھی ہیں اور چھوٹی چھوٹی سیٹلمنٹس بھی جن میں 10، 12 یا 20 گھر ہیں، یہ سب ملا کر اس علاقے میں 900 سے 1 ہزار کے قریب گاؤں ہیں جن میں 30 ہزار گھرانے اور 2 سے ڈھائی لاکھ کے قریب افراد ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ اب تک کیے گئے سروے کے مطابق حالیہ سیلاب سے کاچھو کے 251 گاؤں متاثر ہوئے ہیں، پورے ضلع دادو میں 500 کے قریب مکانات منہدم ہوئے ہیں جن میں سے زیادہ تر کاچھو میں ہیں، جبکہ پورے ضلعے میں مختلف حادثات سے 6 اموات ہوچکی ہیں۔

    ڈپٹی کمشنر کا کہنا تھا کہ ہر دفعہ بارشوں میں کیرتھر کے پہاڑوں سے پانی آتا ہے، چند گھنٹے وہاں رہتا ہے اس کے بعد منچھر جھیل میں چلا جاتا ہے، تو گاؤں والوں کے لیے یہ عام سی بات ہے، لیکن گزشتہ کچھ سال سے بارشوں کا پانی باقاعدہ سیلاب میں تبدیل ہورہا ہے اور پورا علاقہ زیر آب آجاتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ حالیہ سیلاب کے دوران کاچھو میں 16 مقامات پر، جو بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں اور وہاں سے انخلا کیا جانا ضروری تھا، مقامی افراد کو سرکاری کشتیاں مہیا کی گئی تھیں، لیکن وہ کشتیاں گاؤں والوں کی طرف سے انخلا کے بجائے نقل و حرکت کے لیے استعمال کی گئیں۔ ضلع بھر میں جہاں جہاں ریلیف کیمپس لگائے گئے تھے ان مقامات کے بارے میں بھی نوٹیفائی کردیا گیا تھا تاہم کاچھو کے لوگوں نے اپنے گھر چھوڑنے سے گریز کیا۔

    ڈی سی کے مطابق علاقے میں میڈیکل ٹیمز کو بھی متحرک کردیا گیا ہے جو بارشوں کے بعد پھیلنے والے وبائی امراض کی دوائیں، دیگر طبی امداد اور مویشیوں کی ویکسینز فراہم کر رہی ہیں، متعدد ایسے خاندان جن کے گھر گر گئے تھے انہیں خیمے فراہم کیے گئے ہیں، جبکہ اب تک 15 سو خاندانوں کو راشن فراہم کیا جاچکا ہے۔

    صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) سندھ کے مطابق 20 جون سے 31 جولائی 2022 تک ہونے والی بارشوں کے دوران صوبے میں 105 افراد جاں بحق اور 74 زخمی ہوچکے ہیں، 408.6 کلومیٹر کی سڑکیں متاثر ہوئی ہیں جبکہ 3 لاکھ 70 ہزار 143 ایکڑز پر کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچا ہے۔

    مستقبل میں کاچھو کو سیلاب سے بچانے کے لیے کیا اقدامات کیے جارہے ہیں؟

    کیرتھر کے پہاڑوں سے آنے والا پانی اب عام حالات کے برعکس سیلاب کا سبب بن رہا ہے، اور گزشتہ 3 سال سے یہی صورتحال ہے جس میں قیمتی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے، کیا صوبائی حکومت کے پاس اس کا کوئی مستقل حل ہے؟

    اس کے جواب میں ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ کاچھو سے 6 سڑکیں ہیں جو اسے دیگر علاقوں سے جوڑتی ہیں جن میں واہی پاندھی، جوہی، چھنی، حاجی خان، ڈرگھ بالا اور شاہ حسن شامل ہیں، یہ چھ کے چھ راستے بارشوں میں زیر آب آجاتے ہیں اور کاچھو کا رابطہ دیگر صوبے سے کٹ جاتا ہے۔

    ان کے مطابق کم از کم 3 راستوں پر پل بنانے کے منصوبے زیر غور ہیں جس میں سے ایک ڈرگھ بالا میں بنایا جانے والا پل منظور کیا جاچکا ہے، 10 کروڑ روپے کی لاگت سے اس پل پر رواں برس تعمیراتی کام شروع کردیا جائے گا جس کے بعد سیلاب کے دوران بھی کاچھو تک جانے والے راستے مکمل طور پر بند نہیں ہوں گے۔

  • بلوچستان کے سیلاب زدہ علاقوں میں پاک بحریہ کی امدادی کارروائیاں

    بلوچستان کے سیلاب زدہ علاقوں میں پاک بحریہ کی امدادی کارروائیاں

    کراچی: سیلاب سے متاثر ہونے والے صوبہ بلوچستان میں پاک بحریہ کی امدادی کارروائیاں جاری ہیں، سیلاب متاثرین کو کھانا، راشن اور دیگر ضروری سامان فراہم کیا جارہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ترجمان پاک بحریہ کا کہنا ہے کہ پاک بحریہ کا سیلاب سے متاثر بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ریلیف آپریشن جاری ہے، بے گھر ہونے والے افراد کے لیے بیلہ میں ٹینٹ ولیج قائم کیا گیا ہے۔

    ترجمان کا کہنا ہے کہ ٹینٹ ولیج کا قیام پاک بحریہ، پی ڈی ایم اے اور ضلعی انتظامیہ کے تعاون سے کیا گیا ہے۔

    ترجمان کے مطابق ٹینٹ ولیج کے ساتھ مفت میڈیکل کیمپ بھی قائم کیا گیا ہے، پاک بحریہ کے ڈاکٹرز اور عملہ علاج اور ادویات فراہم کر رہا ہے، ضلع لسبیلہ کے علاقوں میں تیار کھانا، راشن اور دیگر ضروری سامان فراہم کیا جارہا ہے۔

    ترجمان کا مزید کہنا ہے کہ پاک بحریہ سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے پرعزم ہے۔

  • بلوچستان میں تباہی کی داستان رقم، 127 جاں بحق، 7 ڈیم ٹوٹ گئے، بیراجوں میں سیلاب، سکھر بیراج سے مزید لاشیں برآمد

    بلوچستان میں تباہی کی داستان رقم، 127 جاں بحق، 7 ڈیم ٹوٹ گئے، بیراجوں میں سیلاب، سکھر بیراج سے مزید لاشیں برآمد

    کوئٹہ: بلوچستان میں طوفانی بارشوں نے تباہی کی داستان رقم کر دی ہے، 127 افراد جاں بحق ہو گئے ہیں، صوبے میں 7 ڈیم ٹوٹ چکے ہیں، دوسری طرف ملک کے متعدد بیراج سیلاب کی زد میں ہیں، اور سکھر بیراج سے مزید لاشیں برآمد ہو گئی ہیں، جس کے بعد رواں ماہ برآمد لاشوں کی تعداد 20 ہو گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان کے صوبے بلوچستان میں طوفانی بارشوں اور سیلاب سے سب کچھ اجڑ گیا ہے، اور متاثرین کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں، 10 سے زائد اضلاع میں نظام زندگی معطل ہو گیا ہے، کوئٹہ، جھل مگسی، مستونگ اور چمن میں تباہی کے مناظر دیکھے جا رہے ہیں، سیکڑوں مکانات منہدم ہو چکے ہیں، توبہ اچکزئی میں موسلا دھار بارشیں ہو رہی ہیں، سیلابی ریلا مال مویشی، کھڑی فصلیں، سیب کے باغات بہا کر لے گیا۔

    پی ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں بارشوں سے 7 ڈیم ٹوٹ چکے ہیں، جب کہ متعدد ڈیم پانی سے بھر گئے ہیں، مون سون کی بارشوں سے دریائے سندھ میں بھی پانی کے بہاؤ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جس سے کچے کے علاقے زیر آب آ گئے ہیں اور کئی شہروں سے رابطہ منقطع ہو گیا، جھل مگسی سے بھی سیلابی ریلا سندھ کی جانب بڑھ رہا ہے۔

    پی ڈی ایم اے کے مطابق تربت میں میرانی ڈیم بھر گیا ہے، جس کی وجہ سے اسپل وے کھول دیے گئے ہیں اور پانی کا اخراج جاری ہے،  میرانی ڈیم کی بلند ترین سطح 244 فٹ، اور پانی کی موجودہ سطح 246 فٹ ہے۔ حب ڈیم میں پانی کی سطح 339 فٹ ہے جب کہ اسپل وے کی حد 350 فٹ ہے، شادی کور ڈیم گوادر میں پانی کی بلند ترین سطح 54 میٹر جب کہ پانی کی موجودہ سطح 51.34 میٹر ہے۔

    میانوالی میں جناح بیراج میں نچلے درجے کا سیلاب آ گیا ہے، بیراج کی سالانہ دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے متعددگیٹ جام ہو گئے اور مشینری زنگ آلود ہو گئی ہے، جن کی بحالی کا کام جاری ہے۔ جناح بیراج میں پانی کی سطح بلند ہونے کا سلسلہ بھی بدستور جاری ہے، بیراج میں پانی کی آمد 2 لاکھ 78 ہزار 666 اور اخراج 2 لاکھ 75 ہزار 166 کیوسک ہے۔

    ادھر گڈو بیراج پر پانی میں 24 گھنٹے کے دوران 20 ہزار کیوسک کا اضافہ ہوا ہے، تربیلا، چشمہ، تونسہ، گڈو اور سکھر بیراج میں نچلے درجے کا سیلاب ہے۔

    کنٹرول روم کا کہنا ہے کہ آئندہ 24 گھنٹے کے دوران گڈو بیراج میں پانی کی سطح میں مزید اضافے کا امکان ہے، بیراج میں اس وقت نچلے درجے کا سیلاب برقرار ہے، ضلعی انتظامیہ کی جانب سے کچے کے رہائش پذیر افراد کو محفوظ مقام پر منتقل ہونے کی ہدایت بھی جاری کی گئی ہے۔

    تربیلا میں پانی کی آمد 3 لاکھ 10 ہزار 600، اور اخراج 2 لاکھ 57 ہزار 900 کیوسک ریکارڈ کیا گیا ہے، کالا باغ میں پانی کی آمد 2 لاکھ 71 ہزار 579، اور اخراج 2 لاکھ 68 ہزار 79 کیوسک ریکارڈ کیا گیا۔

    بلوچستان میں طوفانی بارشوں سے تباہی، جڑہ اور تبینہ ڈیم ٹوٹ گئے

    چشمہ میں پانی کی آمد 3 لاکھ 41 ہزار 418، اور اخراج 3 لاکھ 33 ہزار 418 کیوسک، تونسہ میں پانی کی آمد 2 لاکھ 98 ہزار 900، اور اخراج 2 لاکھ 92 ہزار 900 کیوسک ریکارڈ کیا گیا۔

    گڈو بیراج میں پانی کی آمد 3 لاکھ 11 ہزار 615، اور اخراج 2 لاکھ 86 ہزار کیوسک، سکھر بیراج میں پانی کی آمد 2 لاکھ 61 ہزار 584، اور اخراج 2 لاکھ 22 ہزار کیوسک ریکارڈ کیا گیا۔

    کوٹری بیراج میں پانی کی آمد ایک لاکھ 40 ہزار 985، اور اخراج ایک لاکھ 14 ہزار کیوسک ریکارڈ کیا گیا ہے۔

    گزشتہ روز بلوچستان میں طوفانی بارشوں سے جڑہ اور تبینہ ڈیم بھی ٹوٹ چکے ہیں جس کی وجہ سے کئی علاقوں سے رابطہ منقطع ہو چکا ہے۔

    تازہ ترین اطلاعات کے مطابق پنجاب کے شہر روجھان میں سیلابی ریلے سے موضع، صفدر آباد، شاہوالی کی درجنوں بستیاں زیر آب آ گئی ہیں، پانی گھروں میں داخل ہو گیا ہے، سیلابی ریلے سے ہزاروں ایکڑ زیر کاشت فصل تباہ ہو گئی۔ا

  • وزیر اعظم کا بلوچستان کے سیلاب متاثرہ علاقوں کا دورہ ایک بار پھر ملتوی

    وزیر اعظم کا بلوچستان کے سیلاب متاثرہ علاقوں کا دورہ ایک بار پھر ملتوی

    اسلام آباد: وزیر اعظم شہباز شریف کا صوبہ بلوچستان کے سیلاب متاثرہ علاقوں کا دورہ ایک بار پھر ملتوی ہوگیا، وزیر اعظم سیلاب متاثرین سے ملاقات کرنے والے تھے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف کا سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ ایک بار پھر ملتوی ہوگیا، وزیر اعظم کو طے شدہ شیڈول کے مطابق بلوچستان کا دورہ کرنا تھا تاہم ان کی بلوچستان روانگی موسم کی شدید خرابی کے سبب مؤخر ہوگئی۔

    وزیر اعظم نے ہدایت کی ہے کہ موسم بہتر ہوتے ہی بلوچستان روانہ ہوا جائے۔

    خیال رہے کہ وزیر اعظم کو سندھ، بلوچستان اور پنجاب میں متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنا تھا جہاں وہ سیلاب متاثرین سے ملاقات کرنے والے تھے جبکہ ریسکیو اور ریلیف کے اقدامات کا بھی جائزہ لینا تھا۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ موسم بہتر ہوتے ہی وزیر اعظم متاثرہ علاقوں کا دورہ کریں گے۔

  • وزیر صحت کی ملک بھر میں سیلاب متاثرین کی ہر ممکن مدد کی ہدایت

    وزیر صحت کی ملک بھر میں سیلاب متاثرین کی ہر ممکن مدد کی ہدایت

    اسلام آباد: وفاقی وزیر صحت عبد القادر پٹیل کا کہنا ہے کہ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ سمیت پورے پاکستان میں سیلاب متاثرین کی ہر ممکن مدد کر رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر صحت عبد القادر پٹیل نے ملک بھر میں سیلاب متاثرین کی ہر ممکن مدد کی ہدایت کی ہے، انہوں نے کہا کہ پاکستان بھر خصوصاً بلوچستان اور پختونخواہ میں عملی اقدامات کو یقینی بنا رہے ہیں۔

    وزیر صحت کا کہنا تھا کہ نیشنل ہیلتھ ایمرجنسی، قومی ادارہ صحت، ملیریا کنٹرول پروگرام اور ڈریپ مل کر کام کر رہے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ علاج معالجہ کی جگہوں کو جراثیم سے پاک کرنے والی اشیا فراہم کی جا رہی ہیں، بلوچستان کے 11 اضلاع میں مچھر و کیڑے مار بیڈ اور نیٹ مفت تقسیم کیے جائیں گے۔ بلوچستان میں ملیریا کے مریضوں کو مفت علاج اور تشخیص فراہم کی جا رہی ہے۔

    وزیر صحت کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخواہ کے 2 اضلاع میں مچھروں سے بچاؤ کی جالیاں مفت تقسیم کی جائیں گی۔

  • بلوچستان میں دفعہ 144 نافذ، طوفانی بارشوں کے بعد امدادی سرگرمیاں جاری

    بلوچستان میں دفعہ 144 نافذ، طوفانی بارشوں کے بعد امدادی سرگرمیاں جاری

    کوئٹہ: حکومت بلوچستان نے دفعہ 144 نافذ کرتے ہوئے صوبے بھر میں ڈیمز، آبی ذخائر اور نہروں میں تیراکی پر پابندی عائد کردی ہے، طوفانی بارشوں اور سیلاب کے بعد امدادی سرگرمیاں بھی جاری ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ بلوچستان کے مختلف اضلاع میں بارشوں کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے، کوئٹہ، قلات، خضدار، آواران، تربت، قلعہ سیف اللہ، مسلم باغ، لسبیلہ، چمن، کوہلو و دیگر اضلاع میں شدید بارشوں کے بعد ریلیف اور ریسکیو سرگرمیاں جاری ہیں۔

    کمانڈر 12 کور لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی نے صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی بلوچستان کا دورہ کیا اور امدادی کارروائیوں کے لیے متعلقہ اداروں کو ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کروائی۔

    پی ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ متاثرہ اضلاع میں 4 ہزار 165 خیمے، 2500 کمبل، 743 سولر لائٹس اور خوراک و دیگرامدادی سامان پہنچا دیا گیا ہے۔

    تیراکی پر پابندی عائد

    دوسری جانب حکومت بلوچستان نے دفعہ 144 نافذ کرتے ہوئے صوبے بھر میں ڈیمز، آبی ذخائر اور نہروں میں تیراکی پر پابندی عائد کردی ہے۔

    اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ بارشوں اور سیلابی صورتحال میں انسانی جانوں کے ضیاع کا خدشہ ہے، ڈیمز، آبی ذخائر اور نہروں کے قریب پکنک منانے پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے۔

    مزید بارشیں متوقع

    صوبائی محکمہ موسمیات نے کوئٹہ سمیت بلوچستان کے مختلف اضلاع میں آج بھی بارشوں کی پیش گوئی کی ہے، کوئٹہ، خضدار، قلات، لسبیلہ، پنجگور، آواران، خاران اور دیگر علاقوں میں گرج چمک کے ساتھ بارش متوقع ہے۔

  • طوفانی بارشیں اور سیلاب: کراچی تا خیبر پاک فوج کے جوان امدادی سرگرمیوں میں مصروف

    طوفانی بارشیں اور سیلاب: کراچی تا خیبر پاک فوج کے جوان امدادی سرگرمیوں میں مصروف

    کراچی / پشاور / کوئٹہ: ملک بھر میں طوفانی بارشوں اور سیلابی صورتحال کے پیش نظر پاک فوج کے جوان امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں اور انتظامیہ کی بھرپور مدد کر رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی سے خیبر تک فوجی افسران و جوان طوفانی بارشوں میں ریلیف اور ریسکیو مشن پر مامور ہیں، پاک فوج کی جانب سے تمام کور ہیڈ کوارٹرز کو فوری ہدایات جاری کی گئی تھیں جن میں کہا گیا تھا کہ بارشوں کی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے مکمل تیاری رکھیں۔

    ریسکیو اور ریلیف فراہم کرنے اور زیر آب علاقوں کو کلیئر کرنے کے لیے فوج کو انتظامیہ کی بھرپور مدد کی ہدایت کی گئی تھی۔

    کراچی میں پاک فوج کی 388 ڈی واٹرنگ ٹیمز مصروف عمل ہیں، پاک فوج، رینجرز سندھ، ایف ڈبلیو او اور این ایل سی کی ٹیمیں انتظامیہ کی معاونت کر رہی ہیں۔

    راولپنڈی اور اسلام آباد میں راولپنڈی کور مسلسل صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے اور کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔

    صوبہ خیبر پختونخوا کے شہروں ٹانک اور صوابی میں فلیش فلڈنگ کی صورتحال ہے، پشاورکور نے روڈ شندور چترال کو ٹریفک کے بہاؤ کے لیے کھولنے میں انتظامیہ کی مدد کی۔

    صوبہ بلوچستان کے شہر لسبیلہ میں 400 افراد کو سیلابی پانی سے ریسکیو کیا گیا، کوئٹہ کور نے ہر ضلع میں ایک رابطہ افسر مقرر کیا ہے۔ رابطہ افسر پی ڈی ایم اے اور سول انتظامیہ کے ساتھ آپریشن میں مصروف عمل ہے۔

    قراقرم ہائی وے، جگلوٹ اسکردو روڈ اور بابوسر شاہرائیں لینڈ سلائیڈنگ کے باعث بلاک تھیں جنہیں ایف ڈبلیو او اور این ایچ اے نے ٹریفک کے لیے بحال کر دیا ہے، ایف سی این اے ٹروپس ضلع غذر میں سول انتظامیہ کی مدد میں مصروف عمل ہیں۔

  • خوفناک سیلاب میں پولیس اسٹیشن بہہ گیا، دل دہلا دینے والی ویڈیو

    خوفناک سیلاب میں پولیس اسٹیشن بہہ گیا، دل دہلا دینے والی ویڈیو

    بھارتی ریاست آسام میں طوفانی بارشوں اور سیلاب نے تباہی مچا دی، سوشل میڈیا پر ایک پولیس اسٹیشن کے ڈوبنے کی ویڈیو وائرل ہورہی ہے۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق آسام میں آنے والے سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ سے اب تک سینکڑوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

    سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہورہی ہے جس میں ایک 2 منزلہ عمارت میں قائم پولیس اسٹیشن کو سیلاب میں ڈوبتے دیکھا جاسکتا ہے۔

    ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے عمارت کی نچلی منزل پانی میں ڈوب گئی ہے، اس کے بعد اچانک عمارت منہدم ہوجاتی ہے، خوش قسمتی سے اس وقت کوئی شخص عمارت کے اندر موجود نہیں تھا۔

    مقامی ڈیزاسٹر مینجمنٹ حکام کا کہنا ہے کہ ریاست میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مزید 10 افراد جان کی بازی ہار گئے، اپریل سے اب تک سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ سے مرنے والوں کی تعداد 117 ہوگئی ہے۔

    حکام کے مطابق سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ سے 3 ہزار 510 دیہات کے 33 لاکھ سے زائد مکین متاثر ہوئے ہیں۔

    حکام نے یہ بھی اعلان کیا کہ کیچار کے علاقے میں دو ڈرون طیاروں کی مدد سے فضا سے سیلاب کی صورت حال کا تعین کیا جارہا ہے، اور ناقابل رسائی علاقوں میں امدادی سامان بھیجنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔