Tag: سیلاب

  • بنگلا دیشی شہر مکمل طور پر پانی میں ڈوب گیا

    بنگلا دیشی شہر مکمل طور پر پانی میں ڈوب گیا

    نئی دہلی/ڈھاکا: بھارت اور بنگلا دیش میں 20 سال کے بدترین سیلاب سے ایک کروڑ کے قریب افراد متاثر ہو چکے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق بھارت اور بنگلا دیش میں طوفان برق و باراں اور سیلاب سے اب تک کم از کم 116 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جب کہ بنگلا دیش کا شہر سلہٹ مکمل طور پر پانی میں ڈوب گیا ہے۔

    بھارت اور بنگلا دیش میں مون سون کی موسلا دھار بارشوں نے ایک ہوائی اڈے کو ڈبو دیا ہے اور سیل فون ٹاور، پل اور بجلی کی لائنیں گرا دی ہیں، لاکھوں لوگوں کا مواصلاتی رابطہ منقطع ہے اور لاکھوں افراد نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں۔

    سلہٹ میں گلیوں میں کشتیاں چلنے لگی ہیں، دوسری طرف بھارتی ریاست آسام کے 35 میں 32 اضلاع پانی میں گِھر گئے ہیں اور مختلف مقامات پر پینے کے پانی کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے۔

    ماحولیاتی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ آنے والے چند دنوں میں سیلاب مزید شدید ہونے کا خدشہ ہے، جب کہ بنگلا دیش کے کچھ سرکاری عہدے داروں نے حالیہ سیلاب کو 2004 کے بعد ملک کا بدترین سیلاب قرار دے دیا ہے۔

    سیلاب زدہ علاقوں میں لاکھوں لوگ اب بھی پھنسے ہوئے ہیں جب کہ ہنگامی کارکنان متاثرہ افراد تک پہنچنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے سیلاب زدہ علاقوں میں مون سون کی بارشوں نے مزید مصائب پیدا کر دیے ہیں، لاکھوں افراد نقل مکانی کر چکے ہیں اور مواصلاتی رابطہ منقطع ہے۔

    بنگلا دیش میں اسکولوں کو عارضی پناہ گاہوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے، اور پانی کے بڑھنے کے نتیجے میں پڑوسی برادریوں سے کٹے ہوئے گھرانوں کو نکالنے کے لیے فوج کو تعینات کیا گیا ہے۔

  • بلوچستان کے 17 شہروں میں 445 ملی میٹر بارش ریکارڈ

    بلوچستان کے 17 شہروں میں 445 ملی میٹر بارش ریکارڈ

    کوئٹہ: صوبہ بلوچستان کے مختلف شہروں میں بارش کے اعداد و شمار جاری کر دیے گئے، بارشوں سے صوبے میں سیلابی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بلوچستان کے 17 شہروں میں 24 گھنٹے کے دوران بارشوں کے اعداد و شمار جاری کر دیے گئے، 17 شہروں میں 445 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔

    محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ صبح 8 بجے تک پسنی میں سب سے زیادہ 115 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی، گوادر میں 64، اوماڑہ میں 60، خضدار میں 42، پنجگور میں 29، جیوانی میں 27 اور تربت میں 25 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔

    محکمہ موسمیات کے مطابق لسبیلہ اور پشین میں 21، 21، کوئٹہ میں 18، قلات میں 18، زیارت میں 9، مسلم باغ میں 8 جبکہ بارکھان اور کوہلو میں 4 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔

    اسی طرح سبی میں 3 اور لورالائی میں 2 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔

    یاد رہے کہ موسلا دھار بارشوں سے بلوچستان کے مختلف شہروں میں سیلابی صورتحال ہے جس کے باعث سیاح اور مقامی آبادی شدید مشکلات میں پھنس گئے، گزشتہ روز مختلف علاقوں میں پھنسے سیاحوں اور گاڑیوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔

    کوسٹل ہائی وے پسنی، سور بندر، نگور اور جیوانی میں ریسکیو آپریشن بھی کیا گیا اور اس دوران خوراک ‏کے ساتھ رہائش بھی فراہم کی گئی۔

  • مسقط میں موسلا دھار بارشوں سے تباہ کن سیلاب

    مسقط میں موسلا دھار بارشوں سے تباہ کن سیلاب

    عمان کے مختلف حصوں میں موسلا دھار بارشوں سے سیلابی صورتحال پیدا ہوگئی، متعدد افراد سیلاب میں پھنس گئے جنہیں امدادی کارکنوں نے بچایا۔مسقط: عمان کے مختلف حصوں میں موسلا دھار بارشوں سے سیلابی صورتحال پیدا ہوگئی، متعدد افراد سیلاب میں پھنس گئے جنہیں امدادی کارکنوں نے بچایا۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق سلطنت عمان میں منگل کو آنے والے تباہ کن سیلاب سے نظام زندگی درہم برہم ہو گیا، دارالحکومت مسقط اور متعدد صوبے سیلاب میں گھر گئے۔

    امدادی ٹیموں نے مسقط میں ہنگامی آپریشن کر کے 5 افراد کو جو السیب صوبے کے شمالی علاقے الحیل کے سیلاب میں پھنس گئے تھے بچالیا۔

    عمانی شہری دفاع کے محکمے نے مقامی شہریوں اور مقیم غیر ملکیوں سے اپیل کی ہے کہ وہ احتیاطی تدابیر سے کام لیں، وادیوں اور سیلاب والے مقامات پر جانے کا خطرہ نہ مول لیں۔

    عمانی شہری دفاع کی امدادی ٹیموں نے بوشر صوبے کے الغبرۃ مقام پر پھنسے 35 افراد کو بچالیا، الغبرۃ میں پانی کی سطح اچانک بلند ہوگئی تھی۔ عمانی شہریوں کو محفوظ مقام پر منتقل کردیا گیا۔

    عمان آبزرور، عمانی شہری دفاع کے مطابق مسقط میں موسلا دھار بارش اور سیلاب کی وجہ سے متعدد رہائشی علاقے زیر آب آگئے ہیں، مسقط کے کئی گاؤں اخدود العزم طوفان سے متاثر ہونے کے باعث زیر آب آگئے ہیں۔

    عمانی پولیس نے موسلا دھار بارش کے دوران عوام کی سلامتی کی خاطر مسقط کے متعدد روڈز بند کردیے جبکہ مسقط کی جانب جانے والے وزارتوں والے علاقے میں جانے والا روڈ بھی بند کردیا۔

    عمانی محکمہ موسمیات نے توجہ دلائی ہے کہ غیر مستحکم موسم کا سلسلہ ہنوز جاری رہے گا، بحر عمان اور مسندم صوبے کے ساحلوں پر اونچی لہریں اٹھ رہی ہیں، اس کا امکان ہے کہ سمندر میں طغیانی سے نشیبی ساحلی علاقے کل بھی متاثر ہوں۔

  • بھارت میں شدید بارشوں سے ہولناک تباہی

    بھارت میں شدید بارشوں سے ہولناک تباہی

    نئی دہلی: بھارت میں شدید بارشوں کا سلسلہ جاری ہے جس سے کئی ریاستوں میں سیلابی صورتحال پیدا ہوگئی ہے، مکانات اور گاڑیاں ڈوب چکے ہیں جبکہ لینڈ سلائیڈنگ بھی ہورہی ہے۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق ملک بھر میں شدید بارشوں کا سلسہ جاری ہے جس سے گجرات کے میدانوں سے لے کر ہما چل پردیش اور اترا کھنڈ کے پہاڑوں تک ہولناک تباہی ہوئی ہے۔

    ریاست گجرات میں سڑکوں پر سیلاب کا منظر ہے، گھر اور گاڑیاں سیلاب کے پانی میں ڈوب گئے ہیں۔ اتراکھنڈ میں بھی لینڈ سلائیڈنگ سے درجنوں راستے اور شاہراہیں بند ہو چکی ہیں۔

    گجرات میں بارش سے سب سے زیادہ تباہی سوراشٹر کے علاقہ میں ہوئی ہے۔ محکمہ موسمیات نے پورے علاقہ میں ہائی الرٹ جاری کر دیا ہے۔

    محکمہ موسمیات نے بارش کا سلسلہ جاری رہنے کی پیشگوئی کی ہے۔ گجرات کے نئے وزیر اعلیٰ بھوپیندر پٹیل نے بھی ریاست کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا امدادی کارروائیاں تیز کرنے کی ہدایت کی۔

    اترا کھنڈ کے بھی بیشتر علاقے شدید بارش سے متاثر ہیں، ریاست میں لینڈ سلائیڈنگ کے واقعات بھی رونما ہو رہے ہیں۔ شدید بارشوں کی وجہ سے امدادی کاموں میں بھی پریشانی کا سامنا ہے۔

    پہاڑی ریاست ہماچل پردیش میں بھی لینڈ سلائیڈنگ زوروں پر ہے، کنور میں پہاڑ سے نیشنل ہائی وے پر بڑی چٹانیں ٹوٹ کر آگری ہیں۔ اس کے بعد کنور اور اسپیتی کے لئے ٹریفک بند کردیا گیا۔ سڑکوں پر ملبہ آجانے کی وجہ سے متعدد سڑکیں بھی بند ہیں۔

  • نئی دہلی میں ریکارڈ بارشیں، شہر میں سیلابی صورتحال

    نئی دہلی میں ریکارڈ بارشیں، شہر میں سیلابی صورتحال

    نئی دہلی: بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں ریکارڈ بارشیں ہوئیں جس کے بعد شہر میں جل تھل ایک ہوگیا، دہلی میں اس وقت سیلابی صورتحال ہے اور مزید بارشوں کا امکان بھی ہے۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق دارالحکومت نئی دہلی میں ریکارڈ بارشیں ہوئی ہیں، یکم ستمبر سے 11 ستمبر کی دوپہر تک دہلی میں 380 ملی میٹر بارش ہوئی، جس سے گزشتہ 77 سال کا ریکارڈ توڑ گیا۔

    بھارت میں 121 سال پہلے ایسی بارش ریکارڈ ہوئی تھی جبکہ سنہ 1944 میں بھی تباہ کن بارشیں ہوئی تھیں۔

    شہر میں شدید بارشوں کی وجہ سے سیلابی صورتحال پیدا ہوگئی، دہلی ائیر پورٹ پر طیارے تیرتے ہوئے دیکھے گئے اور ایک جگہ بس پانی میں پھنسنے کی وجہ سے مسافروں کو بڑی مشکل کے بعد ریسکیو کیا جا سکا۔

    بھارتی محکمہ موسمیات نے مزید بارش کا امکان ظاہر کیا ہے۔

    سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ دہلی کے متعدد علاقے پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں، گھروں کے باہر اور سڑکوں پر موجود گاڑیاں بھی پانی میں تیرتی ہوئی دکھائی دیں۔

    ایئرپورٹ پر سیلابی صورتحال کی وجہ کئی پروازیں بھی متاثر ہوئیں۔

  • سیلاب سے چند لمحے قبل زندہ بچ نکلنے والا خوش قسمت شخص

    سیلاب سے چند لمحے قبل زندہ بچ نکلنے والا خوش قسمت شخص

    امریکا میں سمندری طوفان آئیڈا نے شمالی ریاستوں میں ہولناک تباہی مچائی ہے، سیلاب سے اب تک 22 ہلاکتیں ہوچکی ہیں تاہم ایک خوش قسمت خاندان ایسا بھی ہے جو سیلاب میں پھنسنے کے باوجود زندہ بچ نکلا۔

    ریاست نیو جرسی کے رہائشی اس خاندان کو سیلاب کے دوران بدترین صورتحال کا سامنا کرنا پڑا، والد اور بیٹا کسی طرح جان بچا کر باہر نکل گئے اور جبکہ والدہ اور دیگر 2 بیٹے گھر کے اندر پھنس گئے۔

    امریکی میڈیا کے مطابق ایک نوجوان کو والد اور بھائی نے کھڑکی توڑ کر باہر نکالا جبکہ والدہ بھی خاصی دیر تک گھر کے اندر پھنسی رہیں۔

    حال ہی میں سامنے آنے والی سیکیورٹی کیمرے کی ایک اور فوٹیج میں مزید دل دہلا دینے والے مناظر سامنے آئے ہیں، فوٹیج میں دیکھا جاسکتا کہ تہہ خانے میں پانی بھر چکا ہے اور وہاں ایک شخص موجود ہے۔

    وہ شخص سیڑھیوں کی طرف بڑھتا ہے اور اسی وقت پانی کا زور دار ریلا تہہ خانے کی دیوار توڑ کر اندر داخل ہوتا ہے اور تہہ خانے میں موجود تمام سامان بہہ جاتا ہے۔

    2 پلرز پر کھڑا تہہ خانہ بعد ازاں منہدم ہوجاتا ہے تاہم وہاں موجود شخص صرف چند لمحے قبل وہاں سے نکلنے میں کامیاب رہتا ہے۔

    سمندری طوفان آئیڈا کی وجہ سے شمالی ریاستوں میں ریکارڈ توڑ بارشیں ہوئی ہیں جن میں ہزار سے زائد گھر تباہ ہوئے ہیں اور اب تک 50 ملین ڈالر سے زائد کا نقصان ہوچکا ہے۔

    سیلاب کی وجہ سے اب تک 22 ہلاکتیں ہوچکی ہیں جبکہ متعدد افراد لاپتہ بھی ہیں۔

  • امریکا میں سیلاب، ہلاکتیں رپورٹ

    امریکا میں سیلاب، ہلاکتیں رپورٹ

    واشنگٹن: امریکا کی جنوبی ریاست ٹینیسی میں سیلاب سے 22 افراد ہلاک ہو گئے۔

    تفصیلات کے مطابق ٹینیسی کی ہیمپفریز کاؤنٹی میں ہفتے کے روز شدید سیلاب کے باعث کم از کم 22 افراد ہلاک جب کہ 30 سے زائد لاپتا ہوگئے ہیں۔

    اس تباہ کن سیلاب میں دو جڑواں بچے بھی بہہ کر ہلاک ہو گئے ہیں، بچے اپنے والد کی گود میں تھے، لیکن وہ انھیں نہیں سنبھال سکے اور پانی میں گر کر بہہ گئے۔

    ہیمپفریز کاؤنٹی کے شیرف کرس ڈیوس نے میڈیا کو بتایا کہ اس علاقے میں اپنے 28 سال کے دوران انھوں نے یہ بدترین سیلاب دیکھا ہے، بجلی کی بندش اور موبائل فون کی سہولت میں کمی نے بھی مسائل میں اضافہ کیا۔

    امریکی میڈیا کے مطابق ہفتے کے روز وسطی ٹینیسی کے کچھ حصوں میں 12 انچز (30.48 سینٹی میٹر) بارش کے بعد پوری کاؤنٹی کی دیہی سڑکیں اور شاہراہیں بہہ گئیں اور تباہ کن سیلاب آیا۔

    امریکی قومی محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ بارش نے دریائے پینی میں پانی کی سطح کا ریکارڈ توڑ دیا ہے، جب کہ قومی محکمہ موسمیات ناشویلے نے ٹویٹ کیا کہ اس وقت علاقے میں صورت حال جان لیوا ہے۔

    ماہر موسمیات کریسے ہورلے نے میڈیا کو بتایا کہ لوگ گھروں میں پھنسے ہوئے ہیں، اور وہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے، پانی ان کی گردنوں سے اوپر تک ہے، یہ تباہ کن ہے اور بدترین صورت حال ہے۔

  • خبردار! ہیٹ ویو، سیلاب اور خشک سالی کے لیے تیار رہیں

    خبردار! ہیٹ ویو، سیلاب اور خشک سالی کے لیے تیار رہیں

    جنیوا: اقوام متحدہ کے ماحولیات سے متعلق ایک ادارے نے خبردار کیا ہے کہ دنیا بھر کے لوگ ہیٹ ویو، سیلاب، بارشوں اور خشک سالی کے لیے تیار رہیں۔

    تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ کے ماحولیاتی ادارے بین الحکومتی پینل (IPCC) نے ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق ایک رپورٹ جاری کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ دنیا کو ہیٹ ویو، سیلاب، بارشوں اور خشک سالی کا سامنا کرنا پڑے گا، اور یہ ماحولیاتی تبدیلی انسانی بقا کے لیے خطرناک ہے۔

    رپورٹ کے مطابق عالمی درجہ حرارت 2030 تک 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ سکتا ہے جب کہ عالمی حدت میں انسانوں کا کردار حد سے زیادہ اور واضح ہے، اقوام متحدہ کے سائنس دانوں کے مطابق انسان دنیا کے ماحول پر بری طرح سے اثر انداز ہو رہا ہے اور اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

    رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ جس حساب سے گیسز کا اخراج جاری ہے ایک عشرے میں درجۂ حرارت کی حد کے تمام ریکارڈ ٹوٹ سکتے ہیں اور اس صدی کے اختتام تک سمندر کی سطح میں 2 میٹر تک اضافے کے خدشے کو رد نہیں کیا جا سکتا۔

    واضح رہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں یہ دنیا کی اب تک کی سب سے بڑی رپورٹ ہے، جسے جلد شائع کیا جائے گا ، جس میں ہماری زمین کی حالت کی واضح حقیقت بیان کی جائے گی۔ یہ مطالعہ بین الحکومتی پینل کی طرف سے کیا گیا ہے جس نے 14 ہزار سے زائد سائنسی مقالوں کو پڑھا۔

    آنے والی دہائیوں میں گلوبل وارمنگ دنیا کو کس طرح بدل دے گی، یہ رپورٹ اس کا تازہ ترین جائزہ ہوگی۔

  • چلاس میں بارشوں اور سیلاب سے فصلیں متاثر، بجلی گھروں کی پیداوار بھی رک گئی

    چلاس میں بارشوں اور سیلاب سے فصلیں متاثر، بجلی گھروں کی پیداوار بھی رک گئی

    دیامیر: گلگت بلتستان کے ضلع دیامیر میں بارشوں اور سیلاب سے تباہی کی داستان رقم ہوگئی، سیلابی ریلوں سے فصلیں متاثر ہوئی ہیں جبکہ بجلی گھروں کی پیداوار بھی رک گئی۔

    تفصیلات کے مطابق گلگت بلتستان کے شہر چلاس میں وقفے وقفے سے بارش کا سلسلہ جاری ہے۔ سیلابی ریلے سے ہائیڈرو پاور بجلی گھروں اور فصلوں کی پیداوار متاثر ہوئی ہے، بابوسر تھک نیاٹ میں لینڈ سلائیڈنگ ہوئی جس کے بعد بابوسر شاہراہ بند ہوگئی۔

    فیری میڈوز میں رابطہ سڑک بھی لینڈ سلائیڈنگ کی زد میں آ کر بند ہوگئی جس کے بعد وہاں موجود سیاح پھنس گئے۔ بابوسر ناران نیشنل ہائی وے کی بندش سے گاڑیاں بھی پھنس گئیں جن میں بچے اور خواتین کی کثیر تعداد موجود ہے۔

    بٹو گاہ اور کھنیر کی رابطہ سڑکیں بھی سیلاب کی نذر ہوگئیں، رابطہ شاہراہوں اور سڑکوں کی بحال کا کام تاخیر کا شکار ہے۔

    مجموعی طور پر پورے ضلع دیامیر میں سیلابی صورتحال نے ہر طرف تباہی مچا دی ہے۔ سب ڈویژن داریل اور تانگیر میں بارش سے نالے بپھر گئے، نیاٹ اور کھنیر ویلی میں بارش اور سیلاب سے فصلیں متاثر ہوئیں جبکہ ایک مکان بھی گر گیا۔

    بٹو گاہ میں بارشوں نے فصلیں تباہ کر دیں جبکہ رابطہ سڑکیں بھی شدید متاثر ہوئی ہیں۔

  • وہ ملک جو عظیم سیلاب سے محفوظ رہا

    وہ ملک جو عظیم سیلاب سے محفوظ رہا

    عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی نے جہاں کئی خطرات کو جنم دیا ہے، وہیں ایک بہت بڑا خدشہ ساحلی علاقوں کو بھی لاحق ہے۔ تحقیق کے مطابق عالمی حدت بڑھنے کی وجہ سے سنہ 2040 تک سمندر کی سطح میں 2 فٹ کا اضافہ ہونے کا خدشہ ہے اور اگر ایسا ہوا تو دنیا کے کئی ساحلی شہر زیرِ آب آجائیں گے۔

    بظاہر تو 2 فٹ کا اضافہ بہت زیادہ نہیں لگتا، لیکن در حقیقت اس کے اثرات بہت گمبھیر ہوں گے۔ مثلاً امریکی ریاست فلوریڈا کے جنوبی علاقوں کی میٹھے پانی کے ذخائر تک رسائی ختم ہو جائے گی، نکاسی آب کا نظام درہم برہم ہو جائے گا اور ایک بہت بڑا علاقہ مستقل سیلابی پانی کی زد میں ہوگا۔

    اس کے علاوہ میامی کے مشہور ساحل اور کئی جزائر کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ چین، بھارت، مصر، بنگلہ دیش اور دوسرے ملکوں میں جہاں بہت بڑے دریائی ڈیلٹا موجود ہیں، وہاں سطح سمندر میں محض دو یا تین فٹ کے اضافے کا نتیجہ کروڑوں افراد کی نقل مکانی اور بہت بڑے پیمانے پر زرعی زمین کی تباہی کی صورت میں نکلے گا۔

    یعنی مستقبل بہت بھیانک ہو سکتا ہے لیکن دنیا میں ایک ملک ایسا بھی ہے جو اس صورتحال کا نہ صرف سامنا کر چکا ہے بلکہ حیرت انگیز طور پر اب تک خود کو محفوظ بھی کر رکھا ہے، یہ ہے شمالی یورپ کا ملک نیدرلینڈز، جسے ہم ہالینڈ بھی کہتے ہیں۔

    جنوری 1953 میں بحیرہ شمال میں مد و جزر کی وجہ سے خطرناک لہروں نے نیدر لینڈز کے ساحلی علاقوں میں تباہی مچا دی تھی۔ تقریباً 2 ہزار افراد کی جانیں گئیں لیکن اس واقعے کے تقریباً 54 سال بعد جب ایک مرتبہ پھر یہی صورتحال پیدا ہوئی تو نیدر لینڈز پہلے سے تیار تھا۔

    نومبر 2007 میں ایک سمندری طوفان کے نتیجے میں جیسے ہی سطحِ سمندر میں اضافہ ہوا، جدید کمپیوٹر سنسرز کی قبل از وقت اطلاعات مل گئی اور ہنگامی اقدامات شروع کر دیے گئے۔ صرف 30 منٹ میں 240 میٹرز کے دو بہت بڑے آہنی دروازے آپس میں مل گئے اور یوں اس آبی راستے کو طوفانی لہروں سے بچا لیا گیا جس سے نیدر لینڈز کے اندرونی علاقوں میں سیلاب آنے کی توقع تھی۔ صبح تک طوفان ختم ہو چکا تھا اور اس غیر معمولی طوفان سے بہت معمولی سا سیلاب آیا۔

    یہ سب ایک عظیم بند کی وجہ سے ممکن ہوا جو 680 ٹن کے بال جوائنٹ کی مدد سے حرکت کرتا ہے اور لہروں کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کر دیتا ہے۔ یہ اس بند کا پہلا عملی تجربہ تھا جس میں وہ بھرپور کامیاب بھی ہوا۔

    یہ انسان کا تیار کردہ دنیا کا سب سے بڑا حرکت پذیر ڈھانچا ہے اور بلاشبہ انجینیئرنگ کا ایک شاہکار بھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ 1998 میں مکمل ہونے والا بند سیلابی پانی پر قابو پانے کے لیے ایک عظیم انٹرلاکنگ سسٹم کا محض ایک حصہ ہے۔ اس پورے نظام کو ڈیلٹا ورکس کہا جاتا ہے جو دنیا بھر میں سیلاب سے بچنے کا سب سے پیچیدہ نظام ہے۔

    دراصل نیدر لینڈز یورپ کے تین بڑے دریاؤں رائن، شیلٹ اور میوز کے ڈیلٹا پر واقع ہے اور ملک کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ سطحِ سمندر سے نیچے واقع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سطح سمندر میں معمولی سے اضافے سے بھی یہاں سیلاب کا خدشہ کھڑا ہو جاتا ہے۔

    سنہ 1953 میں جب سمندری طوفان اور اس کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی لہروں نے ملک کے بڑے علاقے میں تباہی مچائی تو حکومت نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے باضابطہ اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا اور ڈیلٹا کمیشن تشکیل دیا، جس کا ہدف تھا کہ ملک کے جنوب مغربی علاقے کو تحفظ دینا۔

    اس کمیشن کی توجہ گنجان آباد شہروں میں سیلاب کے خدشات کو 10 ہزار میں سے 1 تک لانا تھا، یعنی ایک اوسط ساحلی شہر کے مقابلے میں بھی 100 گنا محفوظ بنانا۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے جنوب مغربی ساحلوں کے ساتھ بڑے انفرا اسٹرکچر کی ضرورت تھی۔ اس مقصد کے لیے پہلی دفاعی لائن سمندری کھاڑیوں پر بند باندھنا تھی، جو سب سے زیادہ سیلاب کی زد میں ہوتی تھیں۔

    انہی کھاڑیوں سے دریاؤں کا پانی بحیرہ شمال میں گرتا ہے، لیکن سمندر میں طوفان کی صورت میں سیلابی پانی زمینی علاقوں میں داخل ہو کر تباہی مچا دیتا تھا۔ اس لیے ڈیلٹا کمیشن نے مختلف ڈیموں کے ذریعے ان کھاڑیوں کو وسیع و عریض جھیلوں میں بدل دیا۔ اس کے علاوہ پشتے، خندقیں اور کنکریٹ کی سمندری دیواریں بھی مختلف مقامات پر کھڑی کی گئیں بلکہ ڈیلٹا ورکس پروجیکٹ کا بیشتر حصہ انہی پر مشتمل ہے۔

    اگلی دہائیوں میں ڈیلٹا ورکس کو بہتر بنانے کے لی مزید اقدامات بھی اٹھائے گئے اور اندرونی علاقوں کو بھی سیلاب سے محفوظ بنانے کے لیے کام کیا گیا۔ ان میں سے ایک منصوبہ روم فار دا ریور تھا، جس کے تحت کھیتوں اور پشتوں کو ساحل سے دور نئی جگہ پر منتقل کیا گیا۔ یوں پانی کو مزید جگہ دی گئی کہ سیلابی صورت میں وہ نشیبی علاقوں میں جمع ہو جائے۔ یوں کئی آبی ذخائر نے جنم لیا اور مقامی جنگلی حیات کو نئے مساکن ملے۔ یوں نہ صرف سیلاب کا خطرہ گھٹ گیا بلکہ شہریوں کی منتقلی کی بدولت زیادہ گنجان اور پائیدار آبادیاں بنیں۔ ان میں سب سے شاندار شہر روٹرڈیم ہے۔ یہ ملک کا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے جس کی آبادی ساڑھے 6 لاکھ سے زیادہ ہے۔ یہ دنیا کی بڑی بندرگاہوں میں شمار ہوتا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ تقریباً پورا شہر کی سطحِ سمندر سے نیچے واقع ہے۔

    جب طوفان اور سیلاب کا خطرہ ہوتا ہے تو شہر کے انتہائی گنجان آباد پرانے علاقے کو روایتی پشتوں سے تحفظ ملتا ہے۔ جبکہ نئے علاقوں تو مصنوعی طور پر اونچے کیے گئے علاقوں پر بنے ہوئے ہیں۔ بارش کا پانی محفوظ کرنے کے لیے بیشتر گھروں کی چھتوں پر باغ بنائے گئے ہیں جبکہ شہر میں کئی عمارات کو بھی پانی محفوظ کرنے والی تنصیبات میں تبدیل کیا گیا ہے، مثلاً پارکنگ گیراج اور پلازے۔ اس کے علاوہ شہر کے ساحلوں کے ساتھ ایسے عوامی مقامات بنائے گئے ہیں جو پانی کی سطح پر تیرتے ہیں۔ ان میں شمسی توانائی اور پانی کی صفائی کے نظام بھی لگائے گئے ہیں۔

    یہ سب مل کر نیدرلینڈز کو دنیا کا جدید ترین واٹر مینجمنٹ سسٹم رکھنے والا ملک بناتے ہیں۔ البتہ یہ ملک اب بھی قدرتی آفات کے مقابلے میں اپنے شہروں کے تحفظ کو بہتر بنانے کے لیے نت نئے طریقے ڈھونڈ رہا ہے۔

    عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے دنیا بھر کے ساحلی نشیبی علاقے خطرے کی زد میں آرہے ہیں، نیدرلینڈز ایک عملی مثال ہے کہ کس طرح ارادہ، عزم اور ساتھ ہی انجینئرنگ انسانوں کو مشکل ترین حالات میں بھی جینے کے راستے دکھاتی ہے۔