ٹوکیو: جاپان میں طوفانی بارشوں اور سیلاب کے باعث مختلف حادثات میں مرنے والے افراد کی تعداد 199 ہوگئی جبکہ لاکھوں افراد بے گھرہوچکے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق جاپان میں طوفانی بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب اور تودے گرنے سے اب تک 199 افراد ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہوچکے ہیں۔
طوفانی بارشوں کے باعث سڑکیں زیرآب آگئیں جبکہ دریاؤں میں پانی کی سطح خطرناک حدتک بلند ہوگئی ہے۔ امدادی کارکنان لوگوں کو بچانے کے لیے ریسکیو آپریشنز میں مصروف ہیں۔
بارشوں کے باعث آنے والے سیلابی ریلوں کی وجہ سے ملک کے مغربی اور وسطی علاقوں سے لگ بھگ 20 لاکھ افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔
محکمہ موسمیات کے مطابق جاپان کے چند علاقوں میں ابھی بھی سیلاب آنے کا اندیشہ ہے جس کے نتیجے میں ہلاکتوں میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔
خیال رہے کہ اس سے قبل جاپانی محکمہ موسمیات نے بارشوں کی پیشگوئی کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ سلسلہ اتوار تک جاری رہے گا۔
واضح رہے کہ جاپانی حکام کا کہنا ہے کہ 30 سالوں میں سیلاب اور بارش کی وجہ سے ہلاک ہونے والے افراد کی یہ سب سے زیادہ تعداد ہے۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔
بھارت کی شمال مشرق وسطی ریاست آسام میں تیز بارش سے سیلاب آگیا۔ سیلاب سے 56 گاؤں کے 40 ہزار خاندان متاثر ہوئے ہیں جبکہ 30 سے زائد افراد لقہ اجل بن چکے ہیں۔
بھارتی خبر رساں ایجنسی کے مطابق ریاست آسام کے 5 لاکھ لوگ اس وقت براہ راست سیلاب کی زد میں ہیں۔
خیال رہے کہ ریاست کے درمیان سے گزرنے والے دریائے برہم پترا میں ہر سال سیلاب آتا ہے جس سے آسام میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوتی ہے۔
گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ہونے والی موسلا دھار بارش سے کم از کم 56 گاؤں سیلاب کی نذر ہو چکے ہیں اور 40 ہزار سے زائد افراد متاثر ہوئے۔
سیلاب میں 30 سے زائد افراد کی ہلاکت بھی ہوچکی ہے۔ متاثرین کو ریسکیو کر کے محفوظ مقامات پر منتقل کردیا گیا ہے تاہم مزید بڑے پیمانے پر امدادی کارروائیوں کی ضرورت ہے۔
آسام میں موجود خطرے کا شکار جانوروں کی پناہ گاہ قاضی رنگا وائلڈ لائف سنکچری بھی موجود ہے جو سیلاب کی زد میں ہے۔
گزشتہ سال آنے والے سیلاب سے یہاں 300 سے زائد جنگلی جانور ہلاک ہوئے تھے۔
اس وقت ہونے والی شدید بارش سے دریائے برہم پترا میں پانی کی سطح خطرے کے نشان سے اوپر ہوگئی ہے اور ہر گھنٹے پانی کی سطح 2 سے 3 سینٹی میٹر بڑھ رہی ہے۔
یہ سیلاب کی پہلی لہر ہے اور بارشوں کا سلسلہ ابھی جاری ہے۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔
موغادیشو: شمالی ہند میں اٹھنے والےطوفان نےافریقی ملک صومالیہ میں تباہی مچادی جس کے نتیجے میں 50 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے۔
تفصیلات کے مطابق شمالی افریقہ کے ملک صومالیہ میں طوفان بادوباراں کے نتیجے میں 50 سے زائد افراد جان کی بازی ہار گئے جبکہ درجنوں افراد لاپتہ ہیں۔
دوسری جانب موغادیشو کے میئرعبدی رحمان عمرعثمان کے مطابق صومالیہ کے دارالحکومت میں ساگر نامی سائیکلون سے کم از کم 12 افراد ہلاک جبکہ شدید بارشوں کے باعث 300 سے زائد مکان تباہ ہوگئے۔
صومالیہ کے دیگر علاقوں عودل، ساحل اور سلال میں کم ازکم 35 افراد ہلاک ہوگئے جبکہ متعدد افراد مختلف حادثات میں زخمی ہوئے ہیں۔
صومالی صدر کی جانب سے اپنے بیان میں کہا گیا ہے کہ طوفان سے 7 لاکھ 70 ہزار کے قریب لوگ متاثرہوئے ہیں جبکہ بڑے پیمانے پرفصلیں تباہ اور 80 فیصد مویشی ہلاک ہوگئے۔
صومالیہ کی حکومت اور اقوام متحدہ کی جانب سے حالیہ طوفان اور سیلاب سے متاثرہ جنوبی وسطی علاقوں کے لیے 8 کروڑ ڈالر کی فوری مدد کی درخواست کی گئی ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ سال بھی صومالیہ میں تباہ کن خشک سالی کے قہرسے 6 لاکھ لوگ متاثر ہوئے تھے اور اس کے چند ماہ بعد لوگوں کو شدید بارش اور سیلاب کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔
کابل: افغانستان کے مختلف صوبوں میں سیلاب کے باعث 34 افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوگئے جبکہ سو سے زائد مکانات مکمل طور پر تباہ ہوگئے۔
تفصیلات کے مطابق افغانستان میں گذشتہ ہفتے ہونے والی شدید بارش سیلابی شکل اختیار کر چکی ہے، جس کے باعث اب تک درجنوں افراد اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ نظام زندگی بھی بری طرح مفلوج ہے اور متعدد شہریوں کے گھر بھی تباہ ہوچکے ہیں۔
قدرتی آفات سے نمٹنے والے ادارے (اے این ڈٖی ایم این) کے مطابق سیلاب کے نتیجے میں تقريباً 343 مکانات مکمل طور پر تباہ ہو گئے جبکہ 663 مکانات کو بھاری نقصان پہنچا ہے، علاوہ ازيں زراعت کے ليے زير استعمال تقريباً چار لاکھ اسکوائر ميٹر زمين بھی متاثر ہوئی ہے۔
ترجمان (اے این ڈی ایم این) عمر محمدی کا کہنا تھا کہ حالات کا بخوبی جائزہ لے رہے ہیں اور خطے کو مزید نقصانات سے بچانے کے لیے حکمت عملی تیار کر رہے ہیں، جبکہ ملکی و بين الاقوامی امدادی تنظيموں کے تعاون سے ريسکيو کارروائياں بھی جاری ہیں۔
افغان حکام کا کہنا ہے کہ سیلاب افغانستان کے مغربی علاقوں میں آیا جس کے نتیجے میں 13 سے زائد مغربی صوبے متاثر ہوئے ہیں تاہم قدرتی آفات سے نمٹنے والے ادارے کو جلد حالات سے نمٹنے کے لیے احکامات جاری کر دیئے ہیں۔
خیال رہے کہ افغانستان کے مشرقی علاقوں میں 2014 میں آنے والے سیلاب نے قیامت ڈھا دی تھی، جس کے باعث سینکڑوں افراد اپنی زندگی کی بازی ہار گئے تھے اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ بے گھر بھی ہوئے تھے بعد ازاں حکومت نے ایمرجنسی نافذ کر کے عوام کو اس مشکل حالات سے نکالا۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔
سال 2017 موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے حوالے سے ایک تباہ کن سال ثابت ہوا۔ فرسٹ ورلڈ امریکہ سے لے کر تیسری دنیا کے جنوبی ایشیا تک طوفانوں اور سیلابوں نے وہ تباہی مچائی کہ دنیا لرز اٹھی۔
یہ بات اب دنیا کو سمجھنی ہوگی کہ گو کہ ہم نے زمین سے مماثلت رکھنے والے کئی سیارے دریافت تو کرلیے ہیں، لیکن فی الحال ہمارے پاس رہنے کے لیے صرف ایک ہی سیارہ زمین ہے جہاں باقاعدہ زندگی ہے اور انسانی زندگی کو مطلوب مکمل ضروریات موجود ہیں، اور بدقسمتی سے اب اس زمین کا کوئی بھی حصہ قدرتی آفات سے محفوظ نہیں رہا جسے عاقبت نا اندیش انسان نے خود اپنے ہاتھوں سے دعوت دی۔
اے آر وائی نیوز نے اس سلسلے میں خصوصی طور پر چند بین الاقوامی ماہرین سے گفتگو کی اور جاننے کی کوشش کی کہ قدرتی آفات میں اور ان کی تباہ کن شدت میں اس قدر اضافہ کیوں ہوگیا ہے، اور ان سے نمٹنا یا ان کی شدت کو کم کرنا ممکن ہے۔
اس سے قبل ہم گزشتہ 2 ماہ میں دنیا کے کئی ممالک کو متاثر کرنے والے سمندری طوفانوں، سیلابوں اور ان سے ہونے والے نقصانات کا مختصراً جائزہ لیں گے۔
جنوبی ایشیا کا تباہ کن مون سون
بارشوں کا سیزن مون سون ایک قدرتی عمل ہے جو جنوبی ایشیا میں جون سے ستمبر تک ہر سال آتا ہے تاہم سینٹر فار ریسرچ آن دا ایپیڈ مولوجی آف ڈیزاسٹر کے مطابق 2017 کے مون سون کا آخری سائیکل جس کا آغاز اگست میں ہوا، نے جنوبی ایشیائی ممالک نیپال، بنگلہ دیش، بھارت اور پاکستان میں بے تحاشہ تباہی مچائی۔
اس اسپیل نے چاروں ممالک میں لگ بھگ 13 سو افراد کو لقمہ اجل بنایا جبکہ مجموعی طور پر 4 کروڑ افراد اس سے براہ راست متاثر ہوئے اور ناقابل تلافی نقصانات کا شکار بنے۔
اس آخری سائیکل نے بیک وقت بھارت، بنگلہ دیش اور نیپال کو اپنا نشانہ بنایا۔ خوش قسمتی سے پاکستان میں اس نوعیت کی تباہی دیکھنے میں نہیں آئی جیسی ان 3 ممالک میں نظر آئی۔
بھارت
مون سون کی یہ معمول کی بارشیں جب غیر معمولی صورت اختیار کر گئیں تو انہوں نے بھارت کے شمالی حصے بشمول ممبئی اور بھارتی ریاستوں آسام، مغربی بنگال، بہار اور اتر پردیش کو بدترین طور پر متاثر کیا۔
اس سیلاب نے 3 کروڑ سے زائد افراد کو متاثر کیا، 8 لاکھ سے زائد گھر بہہ گئے جبکہ ریاست آسام میں واقع نایاب نسل کے گینڈوں اور چیتوں پر مشتمل کازی رنگا نیشنل پارک بھی سیلاب کی زد میں آگیا۔
بعد ازاں وہاں کئی گینڈوں اور چیتوں کی لاشیں بھی تیرتی ہوئی پائی گئیں۔
بھارتی شہر ممبئی بھی مذکورہ سیلاب سے بے حد متاثر ہوا، لگاتار پورا دن ہونے والی بارش کے نتیجے میں شہر میں سیلابی صورتحال پیدا ہوگئی، ممبئی کے ریلوے ٹریکس بھی زیر آب آگئے۔
بھارت میں امدادی کاموں میں تاخیر اور غفلت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا لیکن یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جنوب ایشیائی شہری ہونے کی حیثیت سے یہ اس خطے کا معمول کا حکومتی رویہ ہے اور خود عوام بھی اس رویے کو سہنے کی عادی ہے۔
بنگلہ دیش
بنگلہ دیشی دارالحکومت ڈھاکہ اور مختلف شمالی و مشرقی حصوں میں معمول کی بارشیں اچانک شدت اختیار کرنے سے سیلابی صورتحال پیدا ہوئی جس سے 60 لاکھ افراد متاثر ہوئے۔ 7 لاکھ گھر تباہ ہوئے، جبکہ 46 لاکھ 80 ہزار ہیکٹرز پر کھڑی فصلیں بہہ گئیں۔
ڈھاکہ بارشوں کے بعد
نیپال
نیپال میں ان تباہ کن بارشوں نے 143 افراد کو موت کے گھاٹ اتارا جبکہ مجموعی طور 17 لاکھ افراد اس سے متاثر ہوئے۔ 4 لاکھ سے زائد لوگ بے گھر ہوئے جبکہ 34 ہزار مکانات بالکل تباہ ہوگئے۔
سب سے بڑا نقصان مہندرا ہائی وے کو ہوا جو ملک کے مشرقی اور مغربی حصے کو ملانے والا واحد زمینی ذریعہ تھی اور یہ ہائی وے ان بارشوں میں بہہ گئی۔
سیلاب سے برات نگر ایئرپورٹ کا رن وے بھی زیر آب آگیا جس کے باعث ایئرپورٹ کو بند کرنا پڑا۔
سیلاب کے بعد برات نگر ایئرپورٹ کا ایک منظر
زرعی ماہرین کے مطابق بارشوں اور سیلاب میں چاول کی فصلیں بھی بہہ چکی ہیں جو نیپال کی اہم غذائی فصلوں میں سے ایک ہے، اور نیپال میں بہت جلد ایک غذائی قلت اور مہنگائی کا عفریت سر اٹھانے والا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ نیپال کی تاریخ کا بدترین سیلاب تھا جس نے ملک کے ایک تہائی حصے کو متاثر کیا اور کم ترقی یافتہ اور دیہی علاقے خاص طور پر اس کا نشانہ بنے۔
پاکستان
پاکستان میں مون سون کے اس آخری سائیکل نے اس نوعیت کی تباہی تو نہ مچائی تاہم سندھ کے کئی دیہی علاقے زیر آب آگئے جبکہ کراچی جیسا میٹرو پولیٹن شہر بھی اربن فلڈ کی زد میں آگیا۔
یاد رہے کہ رواں سال مون سون شروع سے پاکستان کے لیے کچھ اچھا نہ تھا اور مختلف سائیکل ملک کے مختلف حصوں میں تباہی مچاتے رہے جن میں صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے نشیبی اور دیہی علاقے شامل ہیں۔ لیکن یہاں یہ بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ سیلاب ہر سال ہی پاکستانی مون سون کا حصہ ہیں۔
ماہرین روز اول سے چیخ رہے ہیں کہ پاکستان میں آنے والے سیلاب خود ہمارے اپنے پیدا کردہ ہیں۔ سال کا آدھا حصہ ہم پیاس سے مرتے ہیں جبکہ بقیہ سال سیلاب ہمیں مارتا ہے۔
اگر سیاسی جھگڑوں کو چھوڑ کر دانشمندانہ حکمت عملی سے کام لیا جائے تو ڈیمز اور دیگر جدید ذرائع سے اس پانی کو محفوظ کیا جاسکتا ہے جو سیلابی صورت اختیار کرتا ہے۔ اس طرح نہ تو سیلاب پیدا ہوں گے اور نہ سال کے کسی حصے میں کہیں خشک سالی کی صورتحال ہوگی۔
شہر کراچی میں آنے والا اربن فلڈ بھی صوبائی و شہری حکومتوں کی غفلت اور نااہلی کا منہ بولتا ثبوت تھا جنہوں نے نکاسی آب کے راستوں کو کچرے اور غلاظت سے بھر رکھا ہے، نتیجتاً معمول سے زیادہ ہونے والی بارشیں نکاس نہ ہوسکیں اور سیلاب کی شکل اختیار کر گئی۔
ماہرین کا واضح طور پر کہنا ہے کہ اربن فلڈ آتے ہی اس وقت ہیں جب کسی شہر کو بغیر منصوبہ بندی کے بساتے چلے جایا جائے اور مستقبل اور موسمی حالت کو پیش نظر رکھتے ہوئے کوئی منصوبہ بندی نہ کی جائے۔
معمول سے ذرا سی زیادہ بارش نے شہر کراچی کا یہ حال کردیا
مغربی ممالک کے خوفناک طوفان
امریکا میں بحر اوقیانوس میں سب سے پہلے ہاروی طوفان مشاہدے میں آیا اور اس سے قبل ہی امریکی ماہرین خبردار کرچکے تھے کہ اوقیانوس میں اس وقت 3 فعال طوفان موجود ہیں جن کی شدت کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
امریکا میں ہریکین ہاروی کی نوعیت کا شدید اور تباہ کن طوفان اس سے قبل سنہ 2005 میں آیا تھا جس کا نام ولما تھا۔ رواں برس آنے والے سمندری طوفان لینڈ سلائیڈنگ کا سبب بھی بنے جس نے نقصان کی شدت میں اضافہ کردیا۔
یاد رہے کہ بحر اوقیانوس 10 کروڑ 64 لاکھ 60 ہزار اسکوائر کلومیٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا بحر ہے اور یہ بحر الکاہل کے بعد زمین کا دوسرا بڑا بحر ہے۔ یہ زمین کے رقبے پر کل 20 فیصد حصے پر مشتمل ہے۔
متعدد افریقی، امریکی و یورپی ممالک اس کے کناروں پر واقع ہیں لہٰذا اوقیانوس میں معمولی سی ہلچل کا مطلب ہے کہ متعدد مغربی و افریقی ممالک میں نقصانات کا خدشہ۔
ہریکین ہاروی
گزشتہ ماہ 215 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ہواؤں اور اس کے نتیجے میں 100 سینٹی میٹر کی ہونے والی بارشوں نے امریکا میں تباہی کی تاریخ رقم کردی۔
اوقیانوس میں ایک بڑی لہر سے شروع ہونے والا یہ طوفان 17 اگست کو بدترین سمندری طوفان کی شکل اختیار کرگیا۔ ایک معمولی نوعیت کے طوفان کی حیثیت سے یہ سب سے پہلے ونڈ ورڈ جزائر سے گزرا اس کے بعد کیریبیئن جزائر کے ملک بارباڈوس پہنچا لیکن ابھی بھی یہ ایک کم شدت کا طوفان تھا۔
تاہم کم ترقی یافتہ کیریبیئن ملک بارباڈوس اس طوفان کو سہہ نہ سکا اور بے تحاشا نقصان دیکھنے میں آیا۔
کیریبیئن جزائر سے لے کر کولمبیا کے سفر تک اس طوفان کی شدت میں کبھی کمی اور کبھی اضافہ دیکھا جاتا رہا۔ بعد ازاں 24 اور 25 اگست کی رات یہ اچانک درجہ 4 کےطوفان میں تبدیل ہوگیا، اس وقت یہ امریکی ریاست ٹیکسس میں داخل ہوچکا تھا۔
ہاروی طوفان اور بارشوں سے پیدا ہونے والے سیلاب نے ٹیکسس کے شہر ہیوسٹن کو بے تحاشہ نقصان پہنچایا۔
طوفان اور سیلاب کے دوران ٹیکسس کے شہر ہیوسٹن کا ایک منظر
اس دوران یہ اپنے پیچھے تباہی و بربادی کی داستان رقم کرتا چلا آرہا تھا۔ اس کے بعد یہ بحر اقیانوس کے ساحلی نشیب گلف میکسیکو میں داخل ہوا جہاں اس کی شدت ابھی برقرار تھی۔
ہاروی نے وہاں پر واقع امریکی ریاست لوزیانا میں بے حد نقصان بشمول لینڈ سلائیڈنگ برپا کی، اس کے بعد کمزور ہوتا چلا گیا اور پھر یکایک اوقیانوس کی گہرائیوں میں گم ہوگیا۔
ہریکین ہاروی نے ونڈ ورڈ آئی لینڈز، سوری نام، گیانا، نکارا گوا، ہنڈراس، اور جنوبی اور مغربی امریکی ریاستوں خصوصاً ٹیکس اور لوزیانا کو بری طرح متاثر کیا۔ طوفان میں کل 83اموات رپورٹ ہوئیں جن میں 82 امریکی ریاستوں میں تھی۔
طوفان نے ان ممالک و جزائر کی معیشتوں کو ابتدائی تخمینے کے مطابق 200 ارب ڈالرز کا نقصان پہنچایا۔
ہریکین ارما
ابھی ہاروی طوفان کی تباہ کاریوں کا جائزہ لیا جارہا تھا اور امدادی کام جاری تھا کہ ارما طوفان بھی سر پر آ پہنچا۔ امریکی ماہرین ارما کے گرداب اور لہروں کا مشاہدہ سنہ 2007 سے کر رہے تھے تاہم ہاروی نے اس کو بے پناہ تقویت دی اور یہ چیختا چھنگاڑتا سمندر کے کناروں سے باہر اچھل آیا۔
پہلے درجے سے شروع ہوتا ہوا 6 ستمبر کو یہ پانچویں درجے تک جا پہنچا جس میں ہواؤں کی شدت 295 کلو میٹر فی گھنٹہ تھی۔
ذرا سے مختلف راستوں سے گزرتا ہوا یہ کیپ ورڈی، لی وارڈ جزائر، اور کیریبیئن جزائر کے ملک کیوبا میں تباہی مچاتا جس وقت امریکی ریاست فلوریڈا پہنچا اس وقت یہ اپنےعروج پر تھا۔
امریکی ریاست فلوریڈا میں طوفان کے بعد تباہی
اس دوران یہ کم ہو کر چوتھے درجے پر بھی پہنچا لیکن ایک بار پھر پانچویں درجے پر پہنچ کر بدترین لینڈ سلائیڈنگ کا سبب بنا۔ تاہم اس کے بعد اس کی شدت میں کمی آتی گئی۔
ارما نے کیریبیئن جزائر کے علاقوں بارباڈوس، سینٹ بارتھیلمی، سینٹ مارٹن اور برطانوی ورجن جزائر اور ہیٹی میں خوب تباہی مچائی جس میں سے بارباڈوس پہلے ہی ہاروی سے تباہ حال تھا۔
مقامی حکام کے مطابق بربودہ یا بارباڈوس میں ارما اور ہاروی کی وجہ سے 95 فیصد عمارتیں تباہ ہو گئیں۔ جزیرہ پورٹو ریکو کے نصف سے زائد مکانات گر گئے جبکہ سینٹ مارٹن جزیرے کا 95 فیصد انفرا اسٹرکچر تباہ ہوچکا تھا۔
بالآخر جب طوفان ختم ہوا تو یہ 101 افراد کی زندگیاں نگل چکا تھا جن میں 44 کیریبیئن جزائر اور 57 امریکی ریاستوں میں ہوئیں۔ ارما نے امدادی کاموں کو بھی متاثر کیا جو ہاروی کے بعد کیا جارہا تھا۔
ہریکین ماریا
بحر اوقیانوس میں آنے والا تیسرا خوفناک شدت کا طوفان ہریکین ماریہ تھا جو فی الحال جاری ہے۔ اس طوفان نے کیریبیئن جزائر کے ملک ڈومنیکا کو شدید نقصان پہنچایا جب اس جزیرے سے یہ 5 درجے کے طوفان کی حیثیت سے ٹکرایا۔
ڈومنیکا میں اس طوفان نے 33 افراد کو موت کے منہ میں پہنچایا۔ مقامی افراد گھر، بجلی، پانی سب سے محروم ہوچکے ہیں۔
اس کے بعد یہ ڈومنیکا کے قریب دوسرے جزیرے پورٹو ریکو پہنچا۔ گو کہ یہاں سے اس طوفان کو گزرے ایک ہفتہ ہوچکا ہے تاہم یہاں کے لوگ تاحال امدادی کاموں کے منتظر ہیں۔
جزیرے میں 16 لاکھ افراد بجلی سے تاحال محروم ہیں جبکہ 16 افراد اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔
بعد ازاں یہ ورجن آئی لینڈز کی جانب بڑھا۔ یہاں تاحال 48 ہزار افراد بجلی سے محروم ہیں جبکہ مذکورہ جزیرے سمیت کیریبیئن کے متعدد جزائر میں تباہی کی عبرت ناک داستان رقم ہوچکی ہے۔
دونوں دنیاؤں کے طوفانوں میں فرق کیا ہے؟
دنیا کے 2 مختلف حصوں میں آنے والے دو مختلف نوعیت کے طوفانوں نے مختلف تباہی مچائی۔
اس بارے میں سابق امریکی صدر بارک اوباما کے دونوں ادوار میں وائٹ ہاؤس آفس آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پالیسی کے ڈائریکٹر اور صدر اوباما کے ماحولیاتی مشیر پروفیسر جان پی ہولڈرن سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ جنوبی ایشیا میں آنے والے سیلاب ٹائی فون تھے جبکہ امریکا کو متاثر کرنے والے طوفان ہریکین تھے۔
پروفیسر جان پی ہولڈرن فی الحال جان ایف کینیڈی اسکول آف گورنمنٹ میں ماحولیاتی شعبہ کے پروفیسر ہیں جبکہ ہارورڈ یونیورسٹی کے سائنس اینڈ پالیسی ڈیپارٹمنٹ برائے ارتھ اینڈ پلینٹری سائنس شعبہ سے بھی منسلک ہیں۔
ان کے مطابق بیان کیے گئے ان دونوں طوفانوں کا فرق سمجھنے کے لیے آپ کو زمین کے دو بڑے بحروں کے بارے میں جاننا ہوگا۔
بحرالکاہل یا پیسیفک اوشین زمین کا سب سے بڑا اور گہرا سمندر ہے جس کا رقبہ 16 کروڑ 50 لاکھ اسکوائر کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہے۔ شمالی اور جنوبی بحر الکاہل کے نام سے جانے جانے والے اس بحر کے کناروں پر ایک طرف ایشیائی ممالک واقع ہیں جبکہ اس کی وسعت کی دوسری جانب امریکی براعظم کے کچھ ممالک بھی موجود ہیں۔
یہ زمین کے کل رقبے کے 30 فیصد سے زائد حصے پر محیط ہے۔
دوسری جانب بحر اوقیانوس یا انٹلانٹک اوشین کے بارے میں آپ اوپر پڑھ چکے ہیں کہ 10 کروڑ 64 لاکھ 60 ہزار اسکوائر کلومیٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا یہ بحر زمین کا دوسرا بڑا بحر ہے۔ یہ زمین کے رقبے پر کل 20 فیصد حصے پر مشتمل ہے۔
اب بات آتی ہے ہریکین اور ٹائی فون میں کیا فرق ہے۔
عالمی موسمیاتی تنظیم کے مطابق مغربی شمالی اوقیانوس، بحر الکاہل کے مرکزی اور جنوب شمالی حصے، کیریبیئن سمندر اور گلف میکسیکو میں آنے والے طوفان ہریکین کہلاتے ہیں۔
مغربی شمالی بحر الکاہل کے حصے میں آنے والے طوفان ٹائی فون کہلاتے ہیں۔
تاہم یاد رہے کہ جنوبی ایشیائی ممالک کو سیلاب کا شکار کرنے والا کوئی ٹائی فون یا سمندری طوفان نہیں تھا بلکہ یہ معمول کی مون سون بارشیں تھیں جو شدت اختیار کر گئیں تاہم انہوں نے سمندر کی لہروں کو بھی متاثر کر کے انہیں غیرمعمولی بنا دیا۔
اس بارے میں اسلام آباد میں مقیم کلائمٹ چینج ایکسپرٹ عارف رحمٰن کہتے ہیں کہ یہ موازنہ کرنا غلط ہوگا کہ دونوں میں کون سا زیادہ شدید ہے۔
ہاشو فاؤنڈیشن سے بطور سینئر پروگرام مینیجر برائے کلائمٹ چینج منسلک عارف رحمٰن کا کہنا تھا کہ بظاہر دیکھا جائے تو ٹائی فون ہریکین سے زیادہ شدید ہوتے ہیں تاہم اگر ہریکین اپنی پوری شدت پر ہوں تو ٹائی فون سے کہیں زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں جیسا کہ حالیہ امریکی تباہی کی صورت میں سامنے آیا۔
ان کے مطابق ایک اور فرق ٹائی فون کی درجہ بندی نہ ہونا ہے۔ جبکہ ہریکین کی درجہ بندی ہوتی ہے اور اس درجہ بندی کے حساب سے وہ شدت اختیار کرتا ہے۔ مختلف عوامل جیسے ہوا کا دباؤ، مذکورہ علاقے پر پڑنے والے موسمیاتی تغیرات اور مذکورہ علاقے کی زمین کی نوعیت بھی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جو طوفان کی شدت کا تعین کرتے ہیں۔
ہریکین کی درجہ بندی
اب ہم آتے ہیں ہریکین کی درجہ بندی کی طرف جس سے آپ کو علم ہوگا کہ کون سا درجہ کتنا شدید ہے۔
درجہ 1: کیٹگری 1 کے ہریکین میں ہوا کی رفتار 119 سے 153 کلومیٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ جب ہوا کی رفتار 119 کلومیٹر فی گھنٹہ سے تجاوز کر جائے تویہ طوفان ہے جو کہیں ٹائی فون اور کہیں ہریکین کا سبب بنتا ہے۔
یہ کچھ حد تک نقصان پہنچاتا ہے جبکہ بجلی کی فراہمی میں تعطل کا سبب بنتا ہے۔
درجہ 2: اس درجے میں ہوا کی رفتار 154 سے 177 کلو میٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے اور یہ شدید نقصان کا سبب بنتا ہے۔
درجہ 3: ہوا کی رفتار 178 سے 208 کلو میٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے جو پختہ تعمیر کیے گئے مکانات کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔
درجہ 4: ہوا کی رفتار 209 سے 251 کلومیٹر فی گھنٹہ جو زمین میں مضبوطی سے گڑے درختوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتی ہے۔
درجہ 5: ہوا کی رفتار 252 کلو میٹر فی گھنٹہ یا اس سے زائد، یہ طوفان کی شدید ترین قسم ہے جو عمارتوں کو تباہ کردیتی ہے اور اس کے آخر میں تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں بچتا۔
طوفان کے راستے کا تعین کیسے کیا جاتا ہے؟
پروفیسر جان پی ہولڈرن کے مطابق جب طوفان شروع ہوتا ہے تو اس پر پڑنے والے دباؤ جسے کوریولس فورس کہا جاتا ہے اس کی سمت کا تعین کرتے ہیں۔
یہ فورس طوفان کو دائیں یا بائیں طرف گھمانے کی صلاحیت رکھتی ہے اور اسی کی بنیاد پر تعین کیا جاتا ہے کہ آنے والا طوفان کن مقامات پر کتنی شدت سے آئے گا۔
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟
امریکی میڈیا کے مطابق گزشتہ برس جب دنیا صدر ٹرمپ اور ہیلری کلنٹن کی انتخابی مہمات میں مگن تھی اس وقت سائنس دان مسلسل خبردار کر رہے تھے کہ شدید نوعیت کے طوفان امریکا کی طرف بڑھ رہے ہیں اور ان کے لیے تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے یہ بھی خبردار کیا تھا کہ ان طوفانوں کی شدت ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوگی۔
لیکن سوال یہ ہے کہ ان طوفانوں میں اتنی شدت آ کیوں رہی ہے؟
اس بارے میں اے آر وائی نیوز نے آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کے زمینی و آبی سائنس (ارتھ اینڈ میرین سائنسز) شعبے کے پروفیسر ڈاکٹر بریڈلے اوپ ڈک سے رابطہ کیا تو انہوں نے ساری صورتحال کو ایک جملے میں سمود یا۔
ان کا کہنا تھا، ’سمندروں میں آنے والا گرم پانی (جو مختلف دریاؤں سے آتا ہے) سمندر کے پانی کو گرم کرتا ہے، جس سے پانی مزید تیزی سے بخارات بن کر بادلوں اور پھر بارشوں کو تخلیق کرتا ہے‘۔
ڈاکٹر بریڈلے اوپ ڈک کے مطابق سمندروں کا گرم درجہ حرارت پہلے سے موجود طوفانوں کو تقویت دیتا ہے، نئے طوفان پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے، اور یہ طوفان بارشوں کا سبب بنتے ہیں جو بڑے پیمانے پر سیلاب اور جانی و معاشی نقصان کا باعث بنتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک براہ راست تعلق نہیں، بلکہ بالواسطہ تعلق ہے، یعنی کہ کوئی شے کسی سے جڑی ہے اور وہ مزید کسی شے سے جڑی ہے، لیکن اس کا بنیادی سبب ہےعالمی درجہ حرات میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ۔
یہ بات قطعاً سمجھنا مشکل نہیں کہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے باعث عالمی درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جس سے نہ صرف خود سمندر کا پانی گرم ہورہا ہے، بلکہ مختلف دریاؤں کا گرم ہونے والا پانی بھی سمندر میں آکر مل جاتا ہے یوں یہ عمل عظیم تباہیوں کا سبب بنتا ہے۔
اس بات کی مزید وضاحت پروفیسر جان پی ہولڈرن نے کی۔
پروفیسر ہولڈرن کے مطابق یہ تاریخی تباہ کن آندھیاں یا طوفان کوئی اتفاقیہ یا اچانک نہیں ہیں۔ ’ہم انسان جس قسم کی ترقی کر رہے ہیں یہ اسی کا نتیجہ ہے اور سائنس و ماحولیات کے ماہرین نہ صرف یہ بات جانتے ہیں بلکہ چیخ چیخ کر دنیا کو خبردار بھی کر رہے ہیں‘۔
انہوں نے بھی یہی بات دہرائی کہ اس قسم کے طوفان اور آندھیاں گرم پانیوں کی وجہ سے طاقت پارہے ہیں اور یہ گلوبل وارمنگ ہے جس کی وجہ سے سمندر کا پانی گرم ہو رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جب گرم پانیوں کے بخارات اوپر اٹھتے ہیں تو یہ گرم ہواؤں کا سبب بھی بنتے ہیں جو سطح سمندر کو مزید گرم کرتے ہیں اور اس مقام پر ہوا کا دباؤ کم کرتے ہیں۔
اب یہ سب کچھ سمندر کے اندر ہو رہا ہے جو پانی کو زور آور بنا رہا ہے جو طوفان کی شکل میں کسی نہ کسی دن باہر نکلے گا اور یہ ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ گرم ہوائیں اور گرم پانی سمندر کی جتنی گہرائی تک جائیں گی یہ ٹھنڈے پانی کی مقدار کو اتنا ہی کم کرتی جائیں گی نتیجتاً ہمارے پاس سمندر کی گہرائی میں بھی گرم پانی موجود ہوگا۔
انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ گو کہ ان طوفانوں اور ان کے بننے کی دیگر کئی وجوہات ہیں تاہم بنیادی وجہ گلوبل وارمنگ ہے جو فضا اور سمندروں کو گرم کر رہی ہے۔ گرم پانی ہی سمندری طوفانوں اور آندھیوں کو جنم دیتے ہیں۔
جنوبی ایشیا میں صورتحال پر کیسے قابو پایا گیا؟
اس سلسلے میں اے آر وائی نیوز نے مختلف ایشیائی ماہرین سے بھی گفتگو کی اور سیلاب کے بعد امدادی کارروائیوں کے بارے میں جاننے کی کوشش کی۔
بھارت میں مقیم سماجی کارکن راکھی سوریا پرکاش اپنی قائم کردہ تنظیم سن شائن ملینیئم کے ذریعے بھارت میں ماحول دوست توانائی کے ذرائع پر کام کرتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ گزشتہ برس جب بھارتی ریاست تامل ناڈو کے شہر چنئی میں سیلاب آیا تھا تو اس کے کچھ عرصے بعد ایک کانفرنس میں سابق بھارتی وزیر ماحولیات پرکاش جاویدکر نے متنبہ کردیا تھا کہ آنے والے برسوں میں مزید شدید سیلابوں اور طوفانوں کا خطرہ ہے۔
راکھی کے مطابق اس ضمن میں مودی سرکار ماحولیاتی و موسمیاتی خطرات سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ ہے اور ملک بھر میں شجر کاری مہمات اور ماحول دوست توانائی کے ذرائع پر کام کر رہی ہے۔
چند روز قبل ہی بھارت نے سنہ 2030 تک اپنے تمام جدید ذرائع آمد و رفت بجلی کے ذریعے چلانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ فاسل فیولز یعنی پیٹرول اور ڈیزل کی لعنت سے چھٹکارہ پا کر فضائی آلودگی میں کمی کی جاسکے۔
انہوں نے بتایا کہ گو کہ ارلی وارننگ سسٹم کے تحت قبل از وقت پیشن گوئی جاری کردی گئی تھی اور امدادی ٹیمیں ممکنہ طور پر متاثر ہونے والے علاقوں میں موجود تھیں تاہم نقصان ان کی توقعات سے کہیں زیادہ تھا۔
اس کے بعد اے آر وائی نیوز نے نیپال میں مقیم بنود پارا جولی سے خصوصی گفتگو کی۔ بنود ایک محقق ہیں اور ہائی اویئر پروجیکٹ کے تحت ہمالیہ اور اس کے پانیوں پر مختلف تحقیق سر انجام دے رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ نیپال کے مشرقی اور مغربی حصے کو ملانے والا واحد زمینی ذریعہ مہندرا ہائی وے کی تعمیر کا کام شروع کردیا گیا ہے۔
ان کے مطابق چاول کی فصل نیپال کی اہم غذائی فصلوں میں سے ایک ہے اور ان کے بہہ جانے کے بعد اب ایک غذائی بحران منہ کھولے نیپال کی طرف بڑھ رہا ہے۔
بنود کے مطابق قبل از وقت پیشن گوئیاں جاری کردیے جانے کے باوجود حکام نے سستی اور غفلت کا مظاہرہ کیا۔ ’یہ ہم جنوبی ایشیائی شہریوں کا المیہ بن چکا ہے‘۔
شائلہ کے مطابق بنگلہ دیش کے شمالی اور مشرقی حصوں میں سیلاب نے بہت سے نواحی گاؤں دیہاتوں کو متاثر کیا ہے جہاں بدقسمتی سے تاحال امداد نہیں پہنچائی جاسکی۔
تاہم قابل رسائی علاقوں میں حکومتی طور پر یا نجی سطح پر جس طرح بھی ممکن تھا امداد پہنچائی گئی، اس ضمن میں مقامی افراد نے بھی بے حد تعاون کیا اور اپنے سیلاب متاثرین ہم وطنوں کی ہر ممکن مدد کی۔
انہوں نے بتایا کہ بنگلہ دیش پیرس معاہدے کا بھی دستخط کنندہ ہے اور اس ضمن میں مختلف ماحول دوست منصوبوں پر بھی کام کر رہا ہے۔
مذکورہ بالا تمام صورتحال اور تجزیوں کو دیکھتے ہوئے یہ بات کہنا بے حد آسان ہے، اور ماہرین بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ ہماری زمین اور دنیا کو دہشت گردی سے بھی بڑا خطرہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج سے لاحق ہے، اور اگر موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر ہم نے دفاعی ہنگامی اقدامات نہ اٹھائے تو ’ہماری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں‘۔
اس مضمون کی تیاری میں مندرجہ ذیل اداروں و شخصیات سے مدد لی گئی۔
کراچی: محکمہ موسمیات نے منگل کی شام سے جمعہ تک ہونے والی بارش کے باعث کراچی اور سندھ کے دیگر زیریں علاقوں میں اربن فلڈ کی باقاعدہ وارننگ جاری کردی۔
محکمہ موسمیات نے سندھ کے علاوہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی شدید بارش کی پیش گوئی کی ہے۔
محکمے کی جانب سے جاری کی گئی پریس ریلیز کے مطابق مون سون کا طاقتور اسپیل ملک کے جنوبی حصوں کو متاثر کرے گا۔
پریس ریلیز کے مطابق ہزارہ ڈویژن، راولپنڈی، گوجرانولہ، لاہور، سرگودھا، فیصل آباد، ڈیرہ غازی خان، ملتان، بہاولپور، میرپور خاص، شہید بینظیر آباد، حیدرآباد، قلات، کوئٹہ، سبی، ژوب، نصیر آباد، اسلام آباد اور کشمیر میں طوفان اور شدید بارشیں ہوں گی جبکہ آج کا دن موسم گرم اور مرطوب رہے گا۔
محکمہ موسمیات نے کراچی، حیدرآباد اور میرپور خاص میں اربن فلڈ کی وارننگ جاری کردی ہے جبکہ مشرقی بلوچستان کے ندی نالوں میں پانی بھر جانے سے فلیش فلڈ کا خطرہ بھی ظاہر کیا ہے۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
ٹیکسس : امریکی ریاست ٹیکسس میں سمندری طوفان ہاروی کی وجہ سے مختلف حادثات میں 9 افراد ہلاک جبکہ ایک ہزار سے زائد افراد کو بچالیا گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق امریکی ریاست ٹیکسس کے شہرہیوسٹن میں سمندری طوفان ہاروی کے باعث ہونے والی طوفانی بارشوں کے بعد شہر میں پھنسے اب تک 1000 سے زائد افراد کو بچالیا گیا ہے۔
نیشنل ویدر سروس کے مطابق اب تک 9 افراد ہلاک ہونے کی خبرآئی ہے لیکن صرف ایک شخص کی موت کی تصدیق ہوسکی ہے جبکہ سمندری طوفان کی وجہ سے ہیوسٹن اور دیگرعلاقوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے۔
گورنزٹیکسس گریگ ایبٹ کا کہنا ہے کہ سیلاب کی وجہ سے انہیں سخت پریشانی کا سامنا ہے جبکہ ہیوسٹن اور کارپس سٹی میں اب تک 20 انچ بارش ریکارڈ کی گئی ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے پیغام میں کہا تھا کہ وہ بہت جلد ٹیکسس کا دورہ کریں گے۔
I will be going to Texas as soon as that trip can be made without causing disruption. The focus must be life and safety.
واضح رہے کہ امریکی ریاست ٹیکسس میں سیلاب کے باعث امدادی کارروائیوں میں 1800 امریکی فوجیوں کی خدمات لی گئی ہیں۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
عام سیلاب اور شہری سیلاب (اربن فلڈ) میں کیا فرق ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ماہر ماحولیات رفیع الحق نے بتایا کہ عام سیلاب اس وقت آتا ہے جب کسی دریا یا نالے کے کنارے بھر جائیں، پانی ابل پڑے اور آس پاس کی آبادیاں زیر آب آجائیں۔ یہ ایک قدرتی عمل اور قدرتی آفت ہے۔
تاہم ان کے مطابق اربن فلڈ ناقص شہری منصوبہ بندی کے باعث رونما ہوتا ہے اور یہ سراسر انسانی ہاتھوں کی کارستانی ہے۔
انہوں نے مثال دیتے ہوئے بتایا، ’جہاں کہیں سڑکوں پر نشیب واقع تھا اور پانی بہہ کر ایک طرف ہو جاتا تھا، وہاں کوئی رکاوٹ کھڑی کردی گئی یا اسپیڈ بریکر بنا دیا گیا جس کے باعث پانی کی آمد و رفت رک گئی۔ اب جب اس جگہ پر بے تحاشہ پانی کھڑا ہوجائے گا تو وہ مقام زیر آب آجائے گا‘۔
انہوں نے کہا کہ پورے شہر میں بغیر کسی منصوبہ بندی کے پھیلاؤ جاری ہے، کہیں نہر ہے، نالہ ہے یا دریا ہے وہاں گھر بنا کر پانی کا بہاؤ روک دیا گیا۔ ’پورا شہر کچرے سے اٹا ہوا ہے، نکاسی آب کے ذرائع کچرے سے بھرے پڑے ہیں، ایسی صورت میں پانی جمع ہو کر شہر میں سیلاب ہی لاسکتا ہے‘۔
کراچی کا گجر نالہ
رفیع الحق نے بتایا کہ اربن فلڈ آنے کی ایک وجہ درختوں کا نہ ہونا بھی ہے کیونکہ درخت کسی مقام کی مٹی کو تھام کر رکھتے ہیں یوں زمین کے اوپر کوئی بڑا نقصان نہیں ہونے پاتا، ’لیکن ہم نے درختوں کو بھی کاٹ دیا، پورا شہر عمارتوں کا جنگل بن چکا ہے‘۔
مستقبل کو مدنظر رکھنا ضروری
رفیع الحق کا کہنا تھا کہ اب بدلتے ہوئے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے شہری منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ ’بظاہر سعودی دارالحکومت ریاض بہت منصوبہ بندی سے بنایا ہوا شہر ہے لیکن جب وہاں غیر معمولی بارشیں ہوئیں تو شہر میں سیلاب آگیا اور پورا شہر زیر آب آگیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے سائنسی بنیادوں پر طویل المدتی منصوبہ بندی نہیں کی۔ ان کے خیال میں کم بارشیں ساری زندگی ہوتی رہیں گی‘۔
انہوں نے کہا کہ ’پہلے کراچی میں بارش کی چھینٹ پڑنے کی دیر تھی کہ اسکول اور دفاتر میں چھٹیاں ہوجایا کرتی تھیں اور لوگ خوشی خوشی بارش کا لطف اٹھانے سڑکوں پر نکل آیا کرتے تھے، لیکن اب یہ حال ہے کہ بارشیں ہوتے ہی ہلاکتوں اور تباہ کاریوں کی خبریں سامنے آتی ہیں‘۔
انہوں نے ایک بار پھر موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اب ہر وقت ہر قسم کے حالات سے تیار رہنے کی ضرورت ہے۔ صحرا میں برف باری ہو یا خشک ترین شہروں میں بارشوں اور سیلابوں کا آنا، اب ہر جگہ کے لوگوں کو، ہر قسم کے موسم کو مدنظر رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔
تحفظ کیسے ممکن ہے؟
رفیع الحق نے ارلی وارننگ یعنی قبل از وقت انتباہ کی اہمیت بتاتے ہوئے کہا کہ یہ اسی صورت میں فائدہ مند ہوسکتی ہیں جب ان پر عمل کر کے آنے والے وقت سے نمٹنے کے لیے تیاری کرلی جائے۔
انہوں نے کہا کہ اگر کراچی میں بارش شروع ہونے سے قبل ہنگامی بنیادوں پر کسی حد تک صفائی کر کے نکاسی آب کے راستوں کو بحال کردیا جائے تو آنے والے سیلاب کا خدشہ خاصی حد تک کم ہوجائے گا۔
یاد رہے کہ محکمہ موسمیات نے کراچی کے علاوہ سندھ کے دیگر ساحلی علاقوں میں بھی بارش کی پیشگوئی کی ہے۔ بدھ سے جمعہ تک ٹھٹہ، بدین، سجاول، مٹھی، تھر پارکر اور نواب شاہ میں بھی بارش کا امکان ہے۔
نئی دہلی: بھارت میں مون سون بارشوں نے قیامت برپا کردی۔ مون سون بارشوں کے باعث آنے والے خوفناک سیلاب نے 76 افراد کی جانیں نگل لیں۔
بھارتی میڈیا کے مطابق سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر اروناچل پردیش، آسام، اڑیسہ اور بہار کی ریاستیں ہوئی ہیں۔ صرف ریاست آسام میں 60 افراد ہلاک ہوئے جس کے بعد بڑے پیمانے پر امدادی کام شروع کردیا گیا ہے۔
آسام کی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق ریاست کے 21 اضلاع میں 118 ریلیف کیمپس قائم کردیے گئے ہیں۔
سیلاب سے متاثرہ تمام ریاستوں میں بجلی معطل ہوگئی ہے جبکہ ریلوے سمیت دیگر آمد و رفت کے ذرائع بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔
ادھر بھارتی ریاست گجرات کے ایک حکومتی عہدیدار پنکج کمار کے مطابق ریاست میں سیلاب سے 11 افراد ہلاک ہوئے جبکہ 4 افراد لاپتہ بھی ہیں۔
دوسری جانب ارونا چل پردیش میں سیلاب کے ساتھ لینڈ سلائیڈنگ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
مرکزی حکومت نے امدادی کاموں کے لیے فوج کو طلب کرلیا ہے۔
لاہور: صوبہ پنجاب کے شہروں جھنگ اور بہاولپور کے نواحی علاقوں میں سیلاب نے تباہی مچا دی۔ کئی دیہاتوں میں پانی داخل ہونے سے لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوگئے۔
ملک بھر میں ہونے والی مون سون کی بارشوں کے بعد پنجاب میں سیلاب نے تباہی مچانا شروع کردی۔
پانی کے بہاؤ اور دریاؤں کی سطح میں اضافہ ہوا تو بہاولپور میں ہیڈ سمہ سٹہ کے قریب کینال سکس ایل برانچ میں 20 فٹ چوڑا شگاف پڑ گیا۔ سینکٹروں ایکڑ پر پھیلی کپاس کی فصل زیر آب آگئی۔
بہاولپور کی بستی سپرواں اور ڈھورے وال کی آبادی میں بھی پانی داخل ہونے سے کچے پکے مکان شدید متاثر ہوئے۔
جھنگ میں بھی ڈیڑھ لاکھ کیوسک کے ریلے نے نواحی علاقوں میں تباہی مچادی۔
کئی علاقوں میں دریا کے کٹاؤ کے باعث لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوگئے ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ سیلاب کے پیش نظر انتظامیہ نے کوئی اقدامات نہیں کیے۔
یاد رہے کہ مون سون کی بارشیں شروع ہونے کے بعد انتظامیہ نے دعویٰ کیا تھا کہ پنجاب میں سیلاب کا کوئی خطرہ نہیں، تاہم گزشتہ 2 روز میں پنجاب کے کئی نواحی علاقے اور دیہات سیلاب سے متاثر ہوچکے ہیں۔
گزشتہ روز رنگ پور میں دریائے چناب کی نشیبی بستیوں کے لیے کروڑوں روپے کی لاگت سے بنائے جانے والے بندوں میں جگہ جگہ گڑھے پڑ گئے جس سے پانی آبادی میں داخل ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا۔
چنیوٹ میں بھی سیلابی ریلے سے 15 سے زائد گاؤں متاثر ہونے کی اطلاعات ہیں۔
سیلابی ریلوں نے تیار فصلوں کو بھی نقصان پہنچایا ہے جس سے غذا کی فراہمی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔