Tag: سیلاب

  • نائیجیریا میں سیلاب سے 150 جان سے گئے

    نائیجیریا میں سیلاب سے 150 جان سے گئے

    شمال مشرقی نائیجیریا میں گزشتہ ماہ آنے والے سیلاب کے باعث 150 سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق نائجیرین ایمرجنسی ایجنسی کے ریاست بورنو جنرل مینیجر محمد برکیندو نے گزشتہ ماہ بورنو کے دارالحکومت میدوگوری اور دیگر کئی علاقوں میں شدید بارشوں کے باعث سیلاب کی تباہ کاریوں سے متعلق آگاہ کیا۔

    اُن کا کہنا تھا کہ شمال مشرقی علاقوں میں گزشتہ ماہ آنے والے سیلاب کے باعث 150 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

    برکیندو نے بتایا کہ سیلاب کے باعث سینکڑوں افراد بے گھر ہوچکے ہیں جبکہ حکومت کی جانب سے متاثرین کے لئے امدادی سرگرمیاں جاری ہیں۔ سیلاب کے باعث ریاست میں ہیضے کی وبا پھیل چکی ہے۔

    اقوام متحدہ کے بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرین نے بورنو ریاست میں سیلاب زدگان کی امداد کے لیے 1.8 ملین ڈالر کی امداد کی منظوری دی، جب کہ سوئس حکومت نے 1.2 ملین یورو کا عطیہ دیا ہے۔

    اس سے قبل گزشتہ ہفتے نائیجیریا میں آئل ٹینکر کے خوفناک دھماکے میں 147 افراد زندہ جل گئے۔

    خبرایجنسی کے مطابق ماجیا میں آئل ٹینکر ڈرائیور سے بے قابو ہو کر سڑک پر الٹ گیا تھا جیسے ہی لوگ ایندھن جمع کرنے پہنچے تو آئل ٹینکر میں آگ لگنے سے دھماکا ہو گیا۔

    آئل ٹینکر میں آگ لگنے کے باعث دھماکے سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلی اور ایندھن جمع کرنے والے افراد زندہ جل گئے۔

    حکام نے خوفناک واقعے میں 147 افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی ہے جب کہ درجنوں زخمی ہیں جن میں کئی کی حالت تشویشناک ہے۔

    ایران کے لئے جاسوسی، 7 اسرائیلی شہری گرفتار

    پولیس کے مطابق ٹینکر نے ہمسایہ ریاست کانو سے تقریباً 110 کلومیٹر (68 میل) کا سفر طے کیا تھا اور ماجیا قصبے میں ٹرک سے ٹکرانے سے بچتے ہوئے الٹ گیا۔

  • مالک نے اپنے 125 مگرمچھوں کو کرنٹ لگا کر مار ڈالا

    مالک نے اپنے 125 مگرمچھوں کو کرنٹ لگا کر مار ڈالا

    تھائی لینڈ میں مگرمچھوں کی افزائش کرنے والے ایک فارم کے مالک نے اپنے 125 مگر مچھوں کو کرنٹ لگا کر مار ڈالا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق شمال مغربی تھائی لینڈ کے صوبہ لامفون میں مگرمچھ کے پالنے والے نتھپاک خمکد نے بتایا کہ موسلاد ھار بارش سے فارم کی دیواروں میں دراڑیں پڑ گئی ہیں۔ مگر مچھ باہر پانی میں نکل سکتے تھے۔

     فارم کے مالک نے کہا کہ ہمیں ڈر تھا کہ سیلاب کے دوران یہ مگر مچھ فرار ہوسکتے ہیں اور ان کی وجہ سے آبادی کو خطرہ ہوسکتا ہے، اس لئے لوگوں  کو بچانے کے لئے یہ اقدام کیا گیا۔

    فارم کے مالک نے کہا کہ بدقسمتی سے ان رینگنے والے جانوروں میں سے 125 کو مارنا پڑا جن کو میں 17 سال سے پال رہا تھا، سیامی نسل کے نایاب مگرمچھوں کو بجلی کے کرنٹ سے مارا گیا۔

    مالک کا کہنا ہے کہ مگر مچھ پانی سے بھاگنے کے بعد میں گاؤں والوں اور مویشیوں پر حملہ کر سکتے تھے، مالک نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر تصاویر پوسٹ کی ہیں جن میں جانوروں کی باقیات کو دیوار سے نکالا جا رہا ہے۔

    سیامی مگرمچھ کی لمبائی تین میٹر کمبی ہوتی ہے، یہ جنوب مشرقی ایشیا میں انتہائی خطرے سے دوچار نسل ہے، لیکن اس کی جلد سے فائدہ اٹھانے کے لیے اسے تھائی لینڈ کے فارموں میں اب بھی پالا جاتا ہے۔

     فارم کے مالک نے بتایا کہ اس نے حکام سے رابطہ کیا تھا کہ مگرمچھوں کو عارضی پناہ گاہ میں رکھیں لیکن اس کو اجازت نہیں ملی۔

  • سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچاؤ کیسے ممکن ہے؟ ماہر ماحولیات نے بتادیا

    سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچاؤ کیسے ممکن ہے؟ ماہر ماحولیات نے بتادیا

    موسم کی موجودہ صورتحال میں پاکستان کو بڑے سیلاب اور اس وجہ سے ہونے والی تباہ کاریوں کا سامنا ہے، ملک کے مختلف حصوں میں آنے والے سیلابوں سے ہونے والے نقصانات کی رپورٹس باعث تشویش ہیں۔

    پاکستان بننے کے بعد دریائے سندھ میں پہلا سیلاب 1956 میں آیا، پھر 1976، 1986اور 1992 میں سیلاب آئے مگر ان میں بھی کالا باغ اور چشمہ کے مقام پر پانی کا اخراج نو لاکھ کیوسک سے زیادہ نہیں بڑھا تھا۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام اعتراض ہے میں ماہر ماحولیات عباد الرحمان نے سیلاب کی وجوہات اور اس سے ہونے والے نقصانات سے بچاؤ کی تدابیر پر روشنی ڈالی۔

    انہوں نے کہا کہ سیلاب کی ممکنہ تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے حکومت وقت کو فوری نوعیت کے اقدامات کرنا چاہئیں تاکہ مستقبل میں بھی معیشت کو پہنچنے والے نقصانات سے بچنے کا مستقل حل تلاش کیا جا سکے۔

    ان کا کہنا تھا کہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی سیلاب آتے ہیں لیکن بہترین انفرااسٹرکچر اور حکمت عملی کے سبب اس کے اثرات اور نقصانات پر کافی حد تک قابو پالیا جاتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ پرانی کہاوت ہے کہ پانی اپنا راستہ کبھی نہیں چھوڑتا چاہے سو سال بعد بھی آئے لیکن آتا ضرور ہے، لیکن ہوتا یہ ہے کہ ہم کسی نہ کسی صورت میں اس کے راستے میں آجاتے ہیں۔

    عباد الرحمان نے بتایا کہ بدقسمتی سے ہمارے یہاں جنگلات کی شدید کمی ہے اور جنگلات کی موجودگی سیلاب کی تباہ کاریوں کو روکنے کا بہت بڑا ذریعہ ہوتی ہے۔

    ماہر ماحولیات کا کہنا تھا کہ ضروری ہے کہ ہم مستقبل میں اس طرح کی تباہی کا سامنا کرنے سے بچنے کے لئے ابھی سے کام شروع کردیں تاکہ دہائیوں سے جاری سیلاب کی تباہ کاریوں سے معیشت کو پہنچنے والے نقصان سے بچنے کا مستقل حل تلاش کیا جا سکے۔

  • سیلاب نے بنگلادیش کو ڈبو دیا، 6 لاکھ خاندان بے گھر، درجنوں ہلاک

    سیلاب نے بنگلادیش کو ڈبو دیا، 6 لاکھ خاندان بے گھر، درجنوں ہلاک

    ڈھاکا: بنگلادیش ابھی شیخ حسینہ واجد کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد نئی حکومت کی صورت میں نئے سرے سے ابھرنے کی کوششوں میں تھا کہ خوف ناک سیلاب نے اسے ڈبو دیا ہے، منگل کو سیلاب سے مرنے والوں کی تعداد بڑھ کر 71 ہو گئی ہے، اور لاکھوں لوگ اب بھی تباہ شدہ علاقوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔

    روئٹرز کے مطابق مون سون کی مسلسل بارشوں اور اپ اسٹریم آبی گزرگاہوں سے آنے والے سیلاب نے گزشتہ دو ہفتوں کے دوران بڑی تباہی مچا دی ہے، جس سے بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے ہیں اور تقریباً 50 لاکھ افراد متاثر ہو چکے ہیں۔

    دارالحکومت ڈھاکا میں منگل کو ہونے والی موسلادھار بارش نے کئی اضلاع کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، سڑکیں گھٹنے سے لے کر کمر تک پانی میں ڈوب گئی ہیں، جس کی وجہ سے ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو گیا ہے، ہزاروں ایکڑ کی فصلیں تباہ ہو گئی ہیں، وزارت زراعت کے ابتدائی تخمینہ کے مطابق 33.5 ارب ٹکا (282 ملین ڈالر) کی فصلوں کو نقصان پہنچا ہے، جس سے 1.4 ملین سے زیادہ کسان متاثر ہوئے ہیں۔

    سیلاب سے متاثرہ 11 اضلاع میں 5 لاکھ 80 ہزار سے زائد خاندان اب بھی بے گھر ہیں جنھیں خوراک، صاف پانی، ادویات اور خشک کپڑوں کی فوری ضرورت ہے۔ متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیاں جاری ہیں، تقریباً 500 طبی ٹیمیں علاج کی فراہمی میں مدد کر رہی ہیں، فوج، فضائیہ، بحریہ اور سرحدی محافظ بھی امدادی سرگرمیوں میں مدد کر رہے ہیں۔

    بنگلادیش کے حکام نے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے پھیلاؤ کو روکنے پر توجہ مرکوز کر دی ہے، اس طرح کی آفات کے بعد عام طور سے یہ بیماریاں پھیل جاتی ہیں، متاثرہ لوگوں کو پینے کے صاف پانی کی دستیابی بھی ایک چیلنج سے کم نہیں ہے۔ ڈائریکٹوریٹ جنرل آف ہیلتھ سروسز کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران تقریباً 5 ہزار افراد کو اسہال، جلد کے انفیکشن اور سانپ کے کاٹنے کے کیسز کے لیے اسپتال میں داخل کیا گیا۔

    خیال رہے کہ ورلڈ بینک انسٹی ٹیوٹ کے 2015 کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بنگلادیش میں 3.5 ملین افراد سالانہ طور پر سیلاب کے خطرے سے دوچار رہتے ہیں، لیکن اب حالیہ برسوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے یہ تعداد بہت بڑھ چکی ہے۔ اقوام متحدہ کے بچوں کے فنڈ (یونیسیف) کے مطابق ہر سال بنگلادیش میں لاکھوں بچوں کی زندگیاں سیلاب، گرمی کی لہروں اور طوفانوں کی نذر ہو جاتی ہیں۔

  • نائیجیریا میں سیلاب سے 28 ہلاکتیں، ہزاروں بے گھر

    نائیجیریا میں سیلاب سے 28 ہلاکتیں، ہزاروں بے گھر

    نائیجیریا کے صوبہ باوچی میں شدید بارشوں کا سلسلہ جاری ہے، سیلابی صورتحال کے باعث 28 افراد لقمہ اجل بن گئے۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق نائیجیریا کے صوبہ باوچی سے متصل گاماوا کے مضافاتی دیہاتوں میں کئی روز سے شدید بارشوں کا سلسلہ جاری ہے، جس کے نتیجے میں سیلابی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔

    رپورٹس کے مطابق اس آفت کے باعث 28 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے جبکہ تقریبا سو افراد بے گھر بھی ہو چکے ہیں۔

    گزشتہ ہفتے بھی سیلاب کے باعث جیگاوا نامی صوبے میں 30 افراد کی اموات کی اطلاعات سامنے آئی تھیں۔

    دوسری جانب بھارتی ریاست تریپورہ میں موسلا دھار بارشوں کا سلسلہ جاری ہے، ایسے میں بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان کی اطلاعات ہیں، مختلف حادثات میں 22 افراد لقمہ اجل بن گئے جبکہ متعدد لاپتہ ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق بھارتی ریاست تریپورہ میں موسلا دھار بارشوں کے باعث سیلابی صورتحال ہے اور نظام زندگی بری طرح متاثر ہوا ہے۔

    بنگلہ دیش کو تاریخ کے بدترین سیلاب کا سامنا، 18 لاکھ افراد متاثر

    سیلابی صورتحال کے سبب گزشتہ روز 8 اضلاع سے 34 ہزار افراد نقل مکانی کرچکے ہیں، جبکہ سیلاب سے ایک ہزار کے قریب گھروں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔

  • شدید گرمی اور بارش میں کراچی کے بے گھر افراد کو مشکلات کا سامنا

    شدید گرمی اور بارش میں کراچی کے بے گھر افراد کو مشکلات کا سامنا

    تیس سالہ مٹھو کا گھر پاکستان کے دو کروڑ کی آبادی والے سب سے بڑے شہر کراچی میں کے پی ٹی انٹرچینج فلائی اوور کے نیچے ہے۔ مٹھو کے ساتھ اُن کے بیس عزیز و اقربا بھی ساتھ رہتے ہیں جو کئی سال پہلے بہتر معاشی مواقع کی تلاش میں دو سو کلومیٹر شمال مشرق میں واقع ٹنڈو الہ یار سے ہجرت کر کے یہاں آئے تھے۔ آس پاس کے بلند و بالا اپارٹمنٹس اور دفاتر میں رہنے والے لوگوں کے برعکس، اِن کے پاس سخت موسمی حالات سے بچنے کے لئے فی الحقیقت کوئی پناہ گاہ موجود نہیں ہے۔

    جولائی کے آخر کی جُھلسا دینے والی گرمی کے ایک دن جب ان کی بہن سوتری سرخ اینٹوں کے عارضی چولہے پر روٹیاں بنا رہی تھیں تو اُس وقت مٹھو نے اپنے ماتھے سے پسینہ پونچھتے ہوئے بتایا کہ “ہمیں رفع حاجت یا غسل کے لئے خالی پلاٹوں پر جانا پڑتا ہے، چاہے اِس طرح کی شدید گرمی ہی کیوں نہ ہو۔ ہم یہاں پانی قریبی کالونیوں سے خالی ڈبوں میں بھر کر لاتے ہیں۔ حکومت ہمارے لئے کیا کرے گی؟ ہمیں حکومت پر بھروسہ نہیں ہے کہ وہ ہمیں شدید گرمی کے دوران یا بارشوں میں ہماری مدد کرے گی۔”

    کراچی میں بے گھر افراد کی تعداد کے حوالے سے کوئی قابل اعتماد اعداد و شمار موجود نہیں ہیں، جس کی وجہ سے شدید گرمی اور بارشوں سے نمٹنے میں اِن کی مدد کے لئے کسی قسم کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی ہے

    مٹھو کا خاندان، بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح، کسی بھی سرکاری اعداد و شمار میں شامل نہیں ہے۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی ڈائریکٹر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اسماء غیور نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا کہ “آپ کو اِن بے گھر افراد کے بارے میں کوئی اعداد و شمار، ڈیٹا، یا منصوبے نہیں ملیں گے۔ زیادہ سے زیادہ، یہ لوگ انتخابات کے قریب ممکنہ ووٹرز کے طور پر کام آسکتے ہیں۔ اِس سے ہٹ کر، اِن کے مسائل کو بڑی حد تک نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔”

    1988 میں قائم ہونے والی ایک غیر منافع بخش تنظیم شہری – سٹیزن فار اے بیٹر انوائرنمنٹ (سی بی ای) کی جنرل سکریٹری امبر علی بھائی نے بے گھر افراد کو “اِس بڑے شہر کے کسی کو نظر نہ آنے والے لوگ” قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ “آب و ہوا سے پیدا ہونے والی آفات جیسے سیلاب کے دوران پولیس اِن بے گھر افراد کو پولیس اسٹیشنوں میں عارضی پناہ دے سکتی ہے، لیکن اُن کے پاس بھی مناسب جگہ کی کمی ہوتی ہے، لہذا اِن بے گھر افراد کو عام طور پر کسی دوسرے مقام پر منتقل کر دیا جاتا ہے۔ اِن بے گھر افراد کی نگرانی اور اِن کا ڈیٹا اکٹھا کرنے کے لئے نادرا [نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی] کو بھی اِس مربوط عمل میں شامل کرنا ضروری ہے۔”

    شہری منصوبہ ساز اور کراچی اربن لیب کے ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر محمد توحید نے بے گھر افراد کی مدد کے حوالے سے موجودہ مشکلات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ ” جب تک بے گھر افراد کی صحیح تعداد اور ان کے مقامات کا علم نہ ہو، وسائل مختص کرنا، ہنگامی ردعمل کی منصوبہ بندی کرنا، اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے طویل مدتی حل نافذ کرنا مشکل ہے۔” یہ مسائل شدید گرمی کے واقعات سے کہیں زیادہ ہیں۔ کچھ سول سوسائٹی کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مجموعی طور پر بے گھر افراد کی آبادی تقریبا 20 ملین (دو کروڑ) یا اِس کی آبادی کا 9 فیصد ہے، لیکن سول سوسائٹی کے شعبے میں بھی کراچی جیسے شہروں کے بارے میں کوئی خاص معلومات موجود نہیں ہیں اور اِن مسائل کو حکومتی سطح پر اُجاگر کرنے کے لئے اعداد و شمار ناکافی ہیں۔

    علی بھائی نے کہا کہ بے گھر افراد سے نمٹنے کے لئے موجودہ قوانین، جیسے سندھ ویگرنسی آرڈیننس 1958 اور اس کی 1983 کی ترمیم کے باوجود، کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) نے “اپنی ذمہ داریوں سےمکمل کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ جب آب و ہوا سے پیدا ہونے والی آفات، جیسے گرمی کی لہریں یا شہر میں سیلاب آتے ہیں تو متاثرہ افراد کو خیرات دینے والے افراد کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔

    رؤف فاروقی، جو 2013 سے 2015 کے درمیان کراچی اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں کے لئے کے ایم سی کے سب سے اعلیٰ انتظامی عہدے پر فائز رہے، نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا کہ بے گھر افراد کے لئے کوئی سرکاری اہتمام نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، “زیادہ سے زیادہ، ہم اِنہیں عارضی پناہ کے لئے پولیس کے پاس یا ایدھی فاؤنڈیشن کے پاس لے جاتے تھے۔”

    پاکستان کے محکمہ موسمیات کے چیف میٹرولوجسٹ سردار سرفراز نے کہا کہ موسم کی شِدّت سے بچاؤ کے لئے انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے کراچی کے بے گھر افراد کو اِس موسم گرما میں شدید گرمی کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ 23 سے 30 جون کے دوران اور 16 سے 23 جولائی کے دوران درجہ حرارت اوسط سے 4 سے 6 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ رہا۔ “1990 کی دہائی کے وسط سے پاکستان میں درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بے گھر افراد سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔”

    ایدھی فاؤنڈیشن، جو پاکستان کی محروم طبقے کی کمیونٹیز کی خدمت کرنے والی ایک سماجی تنظیم ہے، کے کنٹرول روم کے انچارج محمد امین نے بتایا کہ اس سال اموات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ “15 سے 30 جون کے درمیان، ہمیں اپنے مردہ خانوں میں 1,540 لاشیں موصول ہوئیں جو کہ روزانہ کی اوسطاً 35 سے 40 لاشوں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہیں۔” اس کے ساتھ ہی انہوں نے متنبہ کیا کہ اِن سب ہلاکتوں کو پوری طرح سے گرمی کے اثرات سے منسلک نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم، سول سوسائٹی کی تنظیموں کی جانب سے رپورٹ کی جانے والی ہلاکتوں کی بڑی تعداد نے اس سال جون کے آخر میں آٹھ روز تک چلنے والی گرمی کی لہروں کے دوران سرکاری طور پر 49 اموات کے بارے میں سوالات اٹھائے ہیں۔

    ڈاکٹر احمر، جو کراچی کے گنجان آباد علاقے صدر میں واقع کراچی ایڈوینٹسٹ اسپتال کے ایمرجنسی روم میں کام کرتے ہیں نے کہا کہ انکا پورا نام ظاہر نہ کیا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں اس سال گرمی سے متعلق ہر قسم کے کیسز موصول ہوئے اور خاص طور وہ لوگ جو کسی مناسب چھت یا سایہ سے محروم ہیں وہ لُو ، تیز بخار، لو بلڈ پریشر اور چکر جیسی علامات کے ساتھ آئے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اگر مون سون کی بارشیں جاری رہیں تو آلودہ پانی کی وجہ سے اسپتال گیسٹرو اینٹرائٹس (معدے اور آنتوں کی سوزش) کے مریضوں سے بھر جائے گا۔ جہاں تک بے گھر لوگوں کا تعلق ہے تو میں نے ان کے لئے کوئی خاص انتظامات یا اقدامات نہیں دیکھے ہیں۔ وہ تمام عملی مقاصد کے لئے غیر رجسٹرڈ شہری ہیں حالانکہ وہ واقعی بہت سی مصیبتوں کا شکار ہیں۔

    صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) سندھ کے ڈائریکٹر جنرل سید سلمان شاہ نے کراچی میں 2015 میں گرمی کی لہروں کے بعد کی صورتحال پر روشنی ڈالی، جس کے بعد ہیٹ ویومینجمنٹ پلان تشکیل دیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ گرمی کی لہروں میں بے گھر افراد یا سڑکوں کے کنارے مقیم افراد سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ 2015 میں رمضان المبارک کے موقع پر آنے والی گرمی کی لہروں نے پاکستان بھر سے بہت سے لوگوں کو خیراتی امداد کے لئے کراچی کی طرف راغب کیا جس کی وجہ سے صورتحال مزید خراب ہو گئی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ “یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس عام طور پر گھر نہیں ہوتے اور وہ غیر سرکاری بستیوں، عارضی خیموں یا فلائی اوورز کے نیچے بیٹھے رہتے ہیں۔ 2024 کے منصوبے میں خاص طور پر شدید گرمی کی لہروں کے دوران بے گھر افراد کو عارضی پناہ گاہیں فراہم کرنا شامل تھا اور اِس کے لئے شادی ہالز اور سرکاری دفاتر جیسی عمارتوں کو استعمال میں لایا جائے گا۔

    شاہ کے مطابق، اگرچہ سرکاری محکموں نے اس سال گرمی کی لہروں سے قبل شہریوں کی جانب سے محسوس کئے جانے والے اثرات کو کم کرنے کے لئے کام کیا تھا، لیکن یہ غیر متوقع طور پر طویل ثابت ہوا۔ اُن کا کہنا تھا کہ “صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) بار بار گرمی کی لہروں کے حوالے سے الرٹ اور روزانہ کی صورتحال کی رپورٹس جاری کرتی ہے لیکن کراچی میں بے گھر افراد کی صحیح تعداد کوئی نہیں جانتا،” حالانکہ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ کراچی میں لوگوں کی اصل تعداد زیادہ ہوگی کیونکہ شہر میں بہتر زندگی کی تلاش میں لوگوں کا مسلسل آنا جاری رہتا ہے۔

    سیلاب سے نمٹنے کے لئے تین سال قبل نالوں پر غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئی عمارتوں کو منہدم کرنے کے لئے انسدادِ تجاوزات مہم شروع کی گئی تھی جس سے نادانستہ طور پر شہر میں بے گھر افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ اپریل میں سپریم کورٹ نے صوبائی حکومت کو ہدایت دی کہ اِن عمارتوں کے اِنہدام کی وجہ سے بے گھر ہونے والے لوگوں کو نئے مکانات مہیّا کئے جائیں۔

    شہر کے انفرااسٹرکچر(بنیادی ڈھانچے) کے منصوبوں کی نگرانی کرنے والے سول سوسائٹی کے ادارے اربن ریسورس سینٹر کے جوائنٹ ڈائریکٹر زاہد فاروق نے اس طرح کی پالیسیوں کے وسیع اثرات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے بتایا کہ “گجر اور اورنگی نالوں کے اوپر بنی عمارتوں کو ہٹانے کے نتیجے میں 6،900 ہاؤسنگ یونٹس منہدم ہوئیں اور ہر گھر میں ممکنہ طور پر ایک سے زیادہ خاندان رہائش پذیر تھے۔ بے گھر ہونے کے بعد وہ کسی رشتہ دار کے گھر چلے جاتے ہیں جو کہ خود بھی غریب ہوتے ہیں۔” انہوں نے کہا، “چونکہ ایک بڑی تعداد پہلے ہی تنگ حالات میں رہ رہی ہے، اُس پر بے گھر رشتہ داروں کی آمد، چھوٹے گنجان مکانات یا عارضی پناہ گاہوں میں رہائشی کثافت (کم جگہ میں زیادہ لوگوں کا رہنا) کو مزید بڑھا دیتی ہے۔ یہ بڑھتی ہوئی کثافت موسمیاتی واقعات جیسے گرمی کی لہروں یا شدید بارشوں کے اثرات کو بڑھا دیتی ہے۔” فاروق نے مزید کہا، ” گھروں کا یہ انہدام صرف اِن کے گھروں کو ہی نہیں مِسمار کرتا بلکہ اِن کی معاشی حالت، سماجی شناخت اور روابط بھی بکھر جاتے ہیں۔”

    ایک مقامی دائی نیہا منکانی جو غریب کمیونٹیز کے لئے ذہنی صحت کے کلینک چلا رہی ہیں، کے مطابق بے گھر خواتین کی حالت خاص طور پر سنگین ہے۔ انہوں نے کہا کہ “کراچی میں بے گھر خواتین کو سیلاب اور گرمی کی لہروں کے دوران صحت کے حوالے سے مقابلتاً بڑے خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آلودہ سیلابی پانی انفیکشن، جلد کی بیماریوں اور ذہنی صحت کے مسائل کے لئے اُن کی حسّاسیت بڑھا دیتا ہے، اور ایسا بے گھر ہونے اور جذباتی صدمے کی وجہ سے ہوتا ہے۔” اس کے علاوہ، جب سیلاب آتا ہے تو لوگ ایک ساتھ ہجوم والی جگہوں پر رہنے کے لئے جاتے ہیں اور ایسے مواقع خواتین کے لئے جنسی تشدد کے خطرے کو بڑھا سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں، غیر مستحکم غذائی ذرائع شدید موسم سے مزید متاثر ہوتے ہیں اور نتیجتاّ اِن خواتین کو کھانا بھی اچھی مقدار میں نہیں ملتا اور یہ غذائی قلت اور معدے کے مسائل کا شکار ہو جاتی ہیں۔

    منکانی نے گرمی کی شدید لہروں کے دوران خواتین کی صحت کے تحفظ کے لئے مخصوص علاجوں کی ضرورت پر زور دیا، اور محفوظ پانی اور صفائی ستھرائی تک ان کی محدود رسائی کو اجاگر کیا جس سے پانی کی کمی، پیشاب کی نالی کے انفیکشن اور حمل میں پیچیدگیوں کے خطرات میں اضافہ ہوتا ہے جس میں قبل از وقت زچگی اور حمل کا نقصان بھی شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ “یہ تسلیم کرنا بہت ضروری ہے کہ خواتین، خاص طور پر وہ جو مناسب پناہ گاہ سے محروم ہیں، گرمی سے مقابلتاً زیادہ متاثر ہوتی ہیں، اور یہ نکتہ اُن کی صحت اور فلاح و بہبود کے تحفظ کے لئے مخصوص علاجوں اور اُنھیں صحت مند رکھنے کے نظام کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔”

    (فرح ناز زاہدی معظم کی رپورٹ ڈائلاگ ارتھ پر شایع ہوچکی ہے جس کو اس لنک کی مدد سے پڑھا جاسکتا ہے)

  • لیبیا کے شہر درنة کو غرق کرنے والے سیلاب کے ذمہ داروں کو جیل کی طویل سزا سنا دی گئی

    لیبیا کے شہر درنة کو غرق کرنے والے سیلاب کے ذمہ داروں کو جیل کی طویل سزا سنا دی گئی

    تریپولی: لیبیا کے شہر درنة کو غرق کرنے والے سیلاب کے ذمہ داروں کو جیل کی طویل سزا سنا دی گئی۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق لیبیا کی ایک عدالت نے گزشتہ برس درنة میں سیلاب سے ڈیموں کے تباہ ہونے سے حوالے سے کیس میں 12 عہدے داروں کو جیل کی سزا سنا دی۔

    سزا پانے والے عہدے دار ملک کے ڈیموں کا انتظام سنبھالنے کے ذمہ دار تھے اور انھیں درنة کی اپیل آف کورٹ نے 9 سال سے 27 سال تک کی قید کی سزا دی ہے، جب کہ 4 عہدے داروں کو بری کر دیا گیا ہے۔

    لیبیا کا شہر لاشوں سے بھر گیا، گنتی مشکل ہو گئی، 20 ہزار اموات کا خدشہ

    گزشتہ برس ستمبر میں ساحلی شہر درنة میں طوفان ڈینئیل کی وجہ سے بدترین سیلاب آیا تھا اور شہر میں ہزاروں افراد ہلاک اور ہزاروں لاپتا ہو گئے تھے، 2 پرانے ڈیموں کے تباہ ہونے سے کئی عمارتیں اور آبادیاں تباہ ہو گئی تھی۔

    حکام کو تباہی کے تقریباً ایک سال بعد سزائیں سنائی گئی ہیں، اس سیلاب میں شہر کا زیادہ تر علاقہ تباہ ہو گیا تھا، جنھیں سزائیں سنائی گئی ہیں ان میں سرکاری ملازمین اور مقامی اہلکار شامل ہیں، جس کی وجہ سے عرب میڈیا نے تنقید کی ہے کہ اس فیصلے میں لیبیا کے مضبوط سیاسی طبقے کو بالکل نظر انداز کیا گیا ہے، جسے بہت سے لیبیائی ایک دہائی کے سیاسی جمود، بدعنوانی، تشدد اور افراتفری کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، جس نے بالواسطہ یا بلاواسطہ اس تباہی میں حصہ ڈالا۔

    اس سیلاب میں سرکاری طور پر مرنے والوں کی تعداد 4,352 بتائی گئی ہے، تاہم مقامی حکام کے حوالے سے میڈیا رپورٹس میں 10 سے 12 ہزار تعداد بتائی گئی تھی، جب کہ اقوام متحدہ کے مطابق 8000 سے زیادہ لوگ لاپتا ہو گئے تھے، اور یہی سمجھا جاتا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر لاشیں سمندر میں بہہ گئی ہیں۔

  • بھارت: سیلاب اور آسمانی بجلی گرنے سے 42 افراد لقمہ اجل بن گئے

    بھارت: سیلاب اور آسمانی بجلی گرنے سے 42 افراد لقمہ اجل بن گئے

    بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں جولائی میں معمول سے زیادہ بارشوں کی پیش گوئی کی گئی ہے، نئی دہلی میں آج گرج چمک اور طوفان کے ساتھ شدید بارشوں کا الرٹ بھی جاری کیا گیا ہے۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق رواں ماہ جولائی میں بھارت کے بیشتر ریجن میں مون سون بارشوں کی توقع ہے۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق آسام اور آرونا چل پردیش کے علاقوں میں سیلابی صورتِ حال ہے۔ دریائے برہم پترا میں پانی کی سطح بلند ہو رہی ہے۔

    آسام میں سیلاب سے 19 اضلاع بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں اور آرونا چل پردیش میں 6 جولائی تک اسکول بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ آسام اور آروناچل پردیش میں سیلاب کے باعث مختلف حادثات میں 35 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

    ریاست بہار میں آسمانی بجلی گرنے کے مختلف واقعات میں 7 افراد زندگی کی بازی ہار گئے۔ تلنگانہ کی ندی میں درجنوں مویشی بہہ گئے۔

    کمورم بھیم آصف آباد کے علاوہ تلنگانہ سمیت کئی ریاستوں میں بارشوں کے باعث آنے والا سیلاب درجنوں مویشی بہا کر لے گیا اور کھڑی فصلیں بھی تباہ کردیں۔

    کرتب دکھاتے ہوئے نوجوان آبشار میں بہہ گیا، ویڈیو وائرل

    واقعہ اس وقت پیش آیا جب ایک ندی کو پار کرتے ہوئے درجنوں گائیں بھینسیں اور بکریاں گدلے پانی میں بہہ گئیں۔ تاہم بروقت اقدامات کرتے ہوئے خوش قسمتی سے ان سب جانوروں کو بچا لیا گیا، ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔

  • جرمنی میں شدید بارشوں اور سیلاب سے تباہی، ہزاروں افراد کی نقل مکانی

    جرمنی میں شدید بارشوں اور سیلاب سے تباہی، ہزاروں افراد کی نقل مکانی

    جرمنی میں شدید بارشوں اور سیلاب نے تباہی مچادی، جس کے باعث 5افراد ہلاک ہوگئے۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپوررٹ کے مطابق جرمنی کے جنوبی حصے شدید بارشوں کی زد میں ہیں، جس کے باعث ہنگامی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔

    رپورٹس کے مطابق انتظامیہ نے شہریوں کو موسم کی خراب صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے محتاط رہنے کا مشورہ دیا ہے، جب کہ بارش اور سیلاب کے باعث اب تک ہزاروں افراد نقل مکانی پر مجبور ہوچکے ہیں۔

    امدادی کارروائیوں کے دوران ایک فائر فائٹر بھی زندگی کی بازی ہار چکا ہے، جب کہ ایک خاتون سیلاب میں بہنے والی گاڑی میں ہی دم توڑ گئی۔

    عوام کو ریسکیو کرنے کے لئے انتظامیہ نے 800 فوجی اہلکاروں کی مدد حاصل کرلی ہے، جبکہ ریاست باویریا میں 52 ہزار ایمرجنسی ورکرز کو امداد کیلئے تعینات کردیا گیا ہے۔

    اس سے قبل ایران کے شمال مشرقی شہر مشہد میں شدید بارشوں سے سیلابی صورتحال کے باعث 7 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

    ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق صوبہ خراسان رضوی کے مشہد کے انقلاب چوک پر ایک کار میں پھنسے 2 افراد سیلابی پانی میں ڈوب کر زندگی کی بازی ہار گئے۔

  • ایران میں شدید بارشوں سے سیلاب، 7افراد جاں بحق

    ایران میں شدید بارشوں سے سیلاب، 7افراد جاں بحق

    تہران: ایران کے شمال مشرقی شہر مشہد میں شدید بارشوں سے سیلابی صورتحال پیدا ہوگئی، جس کے سبب 7 افراد جاں بحق ہوگئے۔

    ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا کی رپورٹ کے مطابق بدھ کے روز صوبہ خراسان رضوی کے مشہد کے انقلاب چوک پر ایک کار میں پھنسے 2 افراد سیلابی پانی میں ڈوب کر زندگی کی بازی ہار گئے۔

    صوبائی محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ صوبہ خراسان رضوی میں منگل سے موسلادھار بارشیں شروع ہو گئی ہیں اور بارشوں کا یہ سلسلہ آئندہ کئی روز تک جاری رہ سکتا ہے۔

    رپورٹس کے مطابق انقلاب چوک پر امدادی کشتیاں تعینات کر دی گئی ہیں، جبکہ ریسکیو ٹیمیں ممکنہ زندہ بچ جانے والوں کی تلاش میں مصروف عمل ہیں۔

    افغانستان میں شدید سیلاب سے 300 افراد ہلاک اور ہزاروں بے گھر ہوگئے

    اس کے علاوہ ایک رہائشی عمارت گرنے سے ایک خاتون اور اس کے 4 بچے لقمہ اجل بن گئے، کم از کم 250 خاندانوں کو شہر اور قریبی گاؤں میں محفوظ مقامات پر پناہ دی گئی ہے۔