Tag: سیمینار

  • جڑانوالہ واقعے پر جامعہ کراچی میں سیمینار، جلاؤ گھیراؤ کی بجائے بحث مباحثے کے ذریعے آواز اٹھانے پر زور

    جڑانوالہ واقعے پر جامعہ کراچی میں سیمینار، جلاؤ گھیراؤ کی بجائے بحث مباحثے کے ذریعے آواز اٹھانے پر زور

    کراچی: جڑانوالہ واقعے کے تناظر میں جامعہ کراچی میں ایک اہم سیمینار منعقد کیا گیا ہے، جس میں دانش وروں نے اس نکتے پر زور دیا کہ معاشرے کی بہتری کے لیے ضروری ہے کہ جلاؤ گھیراؤ کی بجائے بحث مباحثے کے ذریعے اپنی آواز اٹھائی جائے۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی یونیورسٹی میں کلیہ قانون کے زیر اہتمام ’فرقہ وارانہ تشدد: انسانی حقوق کی خلاف ورزی‘ کے عنوان سے ایک اہم سیمینار کا انعقاد کیا گیا، جس سے خطاب کرتے ہوئے سابق رکن سندھ اسمبلی شرمیلا فاروقی نے کہا کہ 1963 میں پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد کا پہلا واقعہ رونما ہوا تھا، اور 2023 میں بھی ہم اسی حوالے سے بات کر رہے ہیں۔

    انھوں نے کہا قیام پاکستان کے بعد محمد علی جناح نے کہا تھا کہ ملک میں سب کو مذہبی آزادی حاصل ہوگی، لیکن کیا آج تک اس پر عمل ہو سکا ہے؟ سانحہ جڑانوالہ نے پورے پاکستانی قوم کے دل دہلا دیے ہیں، جس کی ایک بڑی وجہ تعلیم اور شعور کا فقدان ہے، ملک میں مذہبی آزادی اور حقوق العباد ناگزیر ہیں، میرے حقوق کی ذمہ داری آپ پر اور آپ کے حقوق کی ذمہ داری مجھ پر عائد ہوتی ہے۔

    جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمودعراقی نے کہا دور حاضر میں اسلام کو مختلف مسائل کا سامنا ہے، جن میں سرفہرست فرقہ وارانہ تقسیم ہے جس سے سماجی، مذہبی اور سیاسی تنازعات پیدا ہو رہے ہیں، پاکستان میں بین المذاہب ہم آہنگی اور اس کے کلچر کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے، اسلام ہر انسان کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق اپنی عبادات آزادی سے کریں، انھوں نے کہا یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اقلیتوں کے تحفظ اور حقوق کو یقینی بنائیں۔ ان کا کہنا تھا ایک مہذب معاشرے میں جلاؤ گھیراؤ کے ذریعے نہیں بلکہ بحث مباحثے اور گفت و شنید کے ذریعے آواز اُٹھائی جاتی ہے۔

    جسٹس ریٹائرڈ نذر اکبر نے کہا کہ آئین اور قانون میں اقلیتوں کو برابر کے حقوق حاصل ہیں اور آئین و قانون کی پاسداری کی صورت میں ہی اقلیتوں کے مکمل تحفظ کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ سینیٹر شہادت اعوان نے کہا 1963 میں سب سے پہلے خیر پور میں فرقہ وارانہ تشدد ہوا تھا، اس پر سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا تھا اسے پڑھنا ناگزیر ہے، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ لوگ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے تشدد کی راہ اختیار کرتے ہیں۔

    سابق وزیر قانون بیرسٹر شاہدہ جمیل نے سوال اٹھایا کہ کیا ہم آخری خطبہ کی خلاف ورزی نہیں کر رہے ہیں؟ معروف صحافی مظہر عباس نے کہا کہ فرقہ وارانہ تشدد انسانی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے، ڈاکٹر حسان اوج نے کہا کہ سانحہ جڑانوالہ ہم سب کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے، ہم ایمان مجمل اور مفصل کی بات کرتے ہیں لیکن ہم اس پر کتنے عمل پیرا ہیں اس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا سانحہ جڑانوالہ پر ہمارے علمائے کرام کی طرف سے خاموشی لمحہ فکریہ ہے۔

  • ’دفاعی پیداوار کے لیے سرکاری انتظامی ماڈل کو بہتر بنانے کی ضرورت‘

    ’دفاعی پیداوار کے لیے سرکاری انتظامی ماڈل کو بہتر بنانے کی ضرورت‘

    اسلام آباد: ملک میں دفاعی پیداواری صلاحیت کے موضوع پر سیمینار میں مقررین نے کہا کہ پاکستان کو اپنی دفاعی پیداواری صلاحیت سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے، اسٹیبلشمنٹ کو نجی شعبے کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا چاہیئے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان میں دفاعی پیداواری صلاحیت کے موضوع پر سیمینار منعقد ہوا، سیمینار میں سابق چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات، وائس ایڈمرل (ر) افتخار احمد راؤ اور ایم ڈی کراچی شپ یارڈ ایئر وائس مارشل (ر) اسد اکرام نے خطاب کیا۔

    مقررین کا کہنا تھا کہ دفاعی پیداوار کے لیے اسٹیبلشمنٹ کو نجی شعبے کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا چاہیئے، دفاعی پیداوار کے لیے سرکاری انتظامی ماڈل کو بہتر بنانے اور تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

    مقررین کے مطابق پبلک سیکٹر، پرائیوٹ سیکٹر کو سپورٹ کر کے تحقیق و ترقی اور پیداوار کی منتقلی کو فروغ دے، تحقیق و ترقی کے فروغ کے لیے پرائیوٹ سیکٹر کی مالی معاونت کرنی چاہیئے۔

    خطاب میں کہا گیا کہ پاکستان کو اپنی دفاعی پیداواری صلاحیت سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے، تعلیم اور معیاری تحقیق و ترقی، انسانی صلاحیت کے شعبوں میں ترقی اور پیش رفت کا باعث ہے، صنعتکاری، ٹیکنالوجی، اکیڈمی و انڈسٹری میں روابط نجی شعبے کو ترقی کا ماحول فراہم کرتے ہیں۔

  • پاکستان میں ہر سال 10 لاکھ افراد خودکشی کی کوشش کرتے ہیں: ماہرین

    پاکستان میں ہر سال 10 لاکھ افراد خودکشی کی کوشش کرتے ہیں: ماہرین

    کراچی: طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہر سال 10 لاکھ افراد خودکشی کی کوشش کرتے ہیں، سائیکو تھراپی سے خودکشی کی سوچ کو روکا جاسکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کے جناح اسپتال میں ڈپارٹمنٹ آف سائیکیٹری اور پاکستان سائیکیٹری سوسائٹی کے تحت خودکشی سے بچاؤ کا عالمی دن منایا گیا، اس موقع پر منعقدہ سیمینار میں خودکشی اور ذہنی صحت سے متعلق آگاہی فراہم کی گئی۔

    سیمینار میں ماہرین نے شرکا کو بتایا کہ محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال 10 لاکھ افراد خودکشی کی کوشش کرتے ہیں، پاکستان میں خودکشی سے مرنے والوں کا باقاعدہ ڈیٹا موجود نہیں ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ 20 سے 29 سال کے افراد میں خودکشی کا رجحان زیادہ ہوتا ہے، سائیکو تھراپی سے خودکشی کی سوچ کو روکا جاسکتا ہے۔ کرونا وائرس سے لوگوں کے مرنے پر شور مچایا گیا تاہم خودکشی بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔

    ماہرین نے کہا کہ خودکشی مخالف شعور کو فروغ دینا چاہیئے۔

    سیمینار میں ماہرین نے ذہنی صحت پر مختلف سرگرمیوں کے اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پب جی گیم براہ راست کسی شخص کے رویے کو متاثر کرتا ہے، علاوہ ازیں 2 گھنٹے سے زائد اسکرین ٹائم بھی ذہنی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔

  • کراچی جیسی کوسٹل بیلٹ والا ملک قرضے لینے والا نہیں دینے والا ہوتا ہے: علی زیدی

    کراچی جیسی کوسٹل بیلٹ والا ملک قرضے لینے والا نہیں دینے والا ہوتا ہے: علی زیدی

    کراچی: وفاقی وزیر برائے بحری امور علی زیدی کا کہنا ہے کہ ہم نے چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لیے بڑی چیزوں کا نقصان اٹھایا، کراچی جیسی کوسٹل بیلٹ جس ملک کے پاس موجود ہو وہ ملک قرضے لینے والا نہیں دینے والا ہوتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق انٹرنیشنل میری ٹائم آرگنائزیشن کا سمینار منعقد ہوا جس میں فاقی وزیر برائے بحری امور علی زیدی نے شرکت کی۔

    سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر علی زیدی کا کہنا تھا کہ آئی ایم او نیشنل سیمینار ہانگ کانگ کنونشن کا انعقاد شپ بریکنگ انڈسٹری اور شپ انڈسٹری کے لیے اہم ہے۔ ہم شپ بریکنگ انڈسٹری میں پہلے نمبر پر تھے اب چوتھے نمبر پر چلے گئے ہیں۔

    علی زیدی کا کہنا تھا کہ ہم نے چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لیے بڑی چیزوں کا نقصان اٹھایا، بنگلہ دیش میں کپاس پیدا نہیں ہوتی لیکن وہ ٹیکسٹائل میں کئی گنا زیادہ برآمدات کر رہا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ہانگ کانگ کنونشن پر اگر ابھی دستخط ہوگئے تو ہم شپ بریکنگ انڈسٹری میں 4 نمبر سے بھی مزید نیچے گر جائیں گے۔ یہ کنونشن شپ بریکنگ انڈسٹری کے لیے تحفظ اور قانون پر عملدرآمد کا ہے۔ کچھ برس پہلے تحفظ پر عملدرآمد نہ کرنے سے گڈانی پر شپ بریکنگ میں کئی قیمتی انسانی جانوں کا نقصان اٹھایا۔

    علی زیدی کا کہنا تھا کہ کراچی جیسی کوسٹل بیلٹ جس ملک کے پاس موجود ہو وہ ملک قرضے لینے والا نہیں دینے والا ہوتا ہے، شپ بریکنگ انڈسٹری میں بہتری لانا ایک چیلنج ہے۔

    انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کسی بھی چیلنج سے گبھرانا نہیں ہے۔ پہلے ادوار میں نئے ڈریجر خریدے گئے جو کبھی استعمال نہیں کیے گئے۔ نیب میں ان کی انکوائری بھیج چکا ہوں، بغیر استعمال ہوئے کئی بار ان کے پرزے امپورٹ کروائے گئے۔

    علی زیدی کا کہنا تھا کہ حکومت کو ہر جگہ پر ریگولیشن لانے کی ضرورت ہے، شپ بریکنگ اور میری ٹائم میں ریگولیشن لا رہے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو تکلیف ہو رہی ہیں، کسی ماں باپ کو اچھا نہیں لگتا جب بچے کو انجکشن لگتا ہے۔ ہمیں بچے کے مستقبل کے لیے یہ تکلیف برداشت کرنا پڑتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے اداروں کی استعداد کار بڑھانا ہوگی، 10 سال میں پہلی بار فشریز کے ڈائریکٹرز کی تعیناتی کی گئی۔ ماضی میں ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر ترجیح دی جاتی رہی۔ ماہی گیری کے شعبے میں 2 ارب ڈالر تک برآمدات بڑھائی جاسکتی ہے۔ میری ٹائم شعبے میں کئی اصلاحات لا رہے ہیں۔

  • حکومت اور میڈیا کے درمیان تعلق کو مضبوط بنانا ہوگا: ترجمان دفتر خارجہ

    حکومت اور میڈیا کے درمیان تعلق کو مضبوط بنانا ہوگا: ترجمان دفتر خارجہ

    اسلام آباد: ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل کا کہنا ہے کہ حکومت اور میڈیا کے درمیان تعلق کو مضبوط بنانا ہوگا، پاکستانی میڈیا کو مزید ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تیزی سے بدلتی دنیا میں سفارت کاری بھی بدل رہی ہے، معلومات کے تیز تبادلے کے باعث سفارت کاروں کو بھی آسانی ہوئی۔

    ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستانی میڈیا کا کردار کافی اچھا رہا ہے، پاکستانی میڈیا نے بھارتی میڈیا کے برعکس حقائق پر مبنی رپورٹنگ کی۔ پاکستانی میڈیا نے بھارتی جھوٹ کے خلاف نیشنلسٹ طریقہ اپنایا۔

    انہوں نے کہا کہ حکومت اور میڈیا کے درمیان تعلق کو مضبوط بنانا ہوگا، پاکستانی میڈیا کو مزید ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

    اس سے قبل ترجمان دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ چاہتے ہیں بھارت سے پلوامہ حملے پر قابل عمل معلومات مل جائیں۔

    انہوں نے کہا تھا کہ بھارت کو کچھ نئے سوالات بھیجے ہیں، بھارت نے پہلے کے سوالات کا جواب بھی ابھی تک نہیں دیا۔

  • نام نہاد جمہوریت بھارت نے پرامن مظاہرین کو جیل میں ڈال رکھا ہے: مشعال ملک

    نام نہاد جمہوریت بھارت نے پرامن مظاہرین کو جیل میں ڈال رکھا ہے: مشعال ملک

    اسلام آباد: کشمیری حریت رہنما یٰسین ملک کی اہلیہ مشعال ملک کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کو مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کردار ادا کرنا ہوگا۔ نام نہاد جمہوریت بھارت نے پرامن احتجاج پر مظاہرین کو جیل میں ڈال رکھا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پاک بھارت تعلقات اور مقبوضہ کشمیر کے حالات پر سیمینار منعقد ہوا۔ کشمیری حریت رہنما یٰسین ملک کی اہلیہ مشعال ملک نے تقریب سے خطاب کیا۔

    اپنے خطاب میں مشعال ملک کا کہنا تھا کہ ایک ایک ماہ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ رہتا ہے، نہتے کشمیریوں کو پیلیٹ گنز سے مارا جارہا ہے۔ وادی میں بھارتی مظالم معمول ہیں۔

    مشال ملک کا کہنا تھا کہ سینکڑوں، ہزاروں کشمیریوں کو بھارتی قابض فوج نے مار دیا۔ اقوام متحدہ کو مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کردار ادا کرنا ہوگ۔ نام نہاد جمہوریت بھارت نے پرامن احتجاج پر مظاہرین کو جیل میں ڈال رکھا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کی موجودہ صورتحال میں مذاکرات سب سے بہترین حل ہے۔

    اس سے قبل ایک موقع پر مشعال ملک نے اپنے پیغام میں کہا تھا کہ مقبوضہ کشمیرکی ہرعورت انصاف چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج عصمت دری کو بطور ہتھیار استعمال کرتی ہے، مقبوضہ کشمیرمیں سب سے بڑی تعداد میں آدھی بیوہ خواتین ہیں۔

    مشعال ملک نے مزید کہا تھا کہ کشمیر کی تحریک آزادی میں شریک خواتین کو مظالم کا سامنا ہے، مقبوضہ کشمیر میں خواتین کو حقوق کب ملیں گے؟

  • سوشل میڈیا پر بلاتصدیق پوسٹ سے انتہا پسندی پھیل رہی ہے، ماہرین

    سوشل میڈیا پر بلاتصدیق پوسٹ سے انتہا پسندی پھیل رہی ہے، ماہرین

    کراچی: ماہرین اور اساتذہ نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا پر بلا تصدیق پوسٹ سے انتہا پسندی کو فروغ مل رہا ہے، ضیا دور میں فسادات کے باعث کالعدم جماعتیں بنیں، ہم کب تک ہر واقعے کی ذمہ داری اسرائیل اور بھارت پر عائد کرتے رہیں گے، جامعات میں طلبا کے سوشل میڈیا پر رجحان پر نظر رکھی جائے۔

    ان خیالات کا اظہار اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین ڈاکٹر خالد مسعود،ماہرطبعیات ڈاکٹر عبدالحمید نیئر،ڈاکٹر جعفر احمد نے پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کی جانب سے سماجی ہم آہنگی اور مذہبی رواداری میں اساتذہ کا کردار پر منعقدہ ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

    ماہرین نے سوال اٹھایا کہ آخر آج کل دہشت گردی کی کارروائیوں میں انجینئرز اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کیوں ملوث پائے جارہے ہیں؟ ان افرادکی ٹیکنیکل فیلڈ میں مہارت اس کی بڑی وجہ ہے،دہشت گردوں کا بڑا ہدف ریاستی اداروں اور سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنا کر انہیں کمزور کرنا ہے۔

    ماہرین نے کہا کہ سوشل میڈیا پر بلا تصدیق کی جانے والی پوسٹ کی وجہ سے انتہا پسندی کو فروغ حاصل ہورہا ہے، آج دہشت گرد تنظیمیں سوشل میڈیا کے ذریعے یونیورسٹی کے طالب علموں کو انتہا پسندی کی جانب راغب کر رہی ہیں، اساتذہ کو تعلیمی اداروں میں طلبا کے سوشل میڈیا کے استعمال پر نظر رکھنا ہوگی، ملک کو مذہبی ریاست بنانے کی کوشش میں ضیا الحق کے دور میں شیعہ سنی فسادات نے شدت اختیارکی، کالعدم سپاہ محمد،کالعدم سپاہ صحابہ سمیت ملک میں کئی جہادی تنظیمیں وجود میں آگئیں۔

    ڈاکٹر خالد مسعود کا کہنا تھا کہ حالیہ دہشت گردی کی جنگ وسائل پر قبضے کے لیے نہیں ہے، دہشت گردوں کا اصل مقصداداروں اور سیکیورٹی فورسز کو کمزور کرنا ہے، مذہب جب سیاست میں آجائے تو لسانیت اور فسادات کی جنگ شروع ہوجاتی ہے، ریاست کا کردار محدود ہوتا جارہا ہے، آج نوجوان نسل نہ صرف دین بلکہ دنیا کے بارے میں بھی زیادہ معلومات نہیں رکھتی۔

    انہوں نے کہا کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ انتہا پسندی کی جانب راغب ہورہے ہیں، دہشت گردوں کی جانب سے انجینئرز کو دھماکا خیز مواد تیار کرنے کی بھی تربیت دی جاتی ہے۔

    ڈاکٹر عبد الحمید نیئر کا کہنا تھا کہ ضیا الحق کے دور میں ملک کو مذہبی ریاست بنانے کی کوشش کی گئی جس کی وجہ سے شیعہ سنی فسادات ہوئے،امام بارگاہوں،مساجد میں لوگوں کا قتل عام ہوا، لسانی فسادات شدت اختیار کرگئے، سپاہ محمد،تحفظ نفاذ فقہ جعفریہ، کالعدم سپاہ صحابہ جیسی کئی جہادی تنظیمیں ملک میں سرگرم ہیں۔

    ڈاکٹر جعفر احمد نے کہا کہ ہر بار یہ بات کی جاتی ہے کہ دہشت گردی اور فرقہ واریت میں بھارت اور اسرائیل ملوث ہے ہم کب تک ان کی جانب اشارہ کرتے رہیں گے، ہمارے ملک میں جہادی جماعتیں موجودہیں ان کے انتہا پسندانہ لٹریچر لوگوں کو دہشت گردی کی جانب اکسارہے ہیں۔

    ڈاکٹر جعفر احمد کا کہنا تھا کہ نظری ایشوز سے استاد معاشرے کی اور نصاب ریاست کی نمائندگی کررہا ہے،ہمارے معاشرے میں عدم برداشت بہت بڑھ گیا ہے،ریاستی آئین کے ذریعے معاشرے کو اسلامی بنانے کی کوشش ہوتی ہے، سماجی ہم آہنگی اور مذہبی رواداری ماضی کی نسبت اب نہ ہونے کے برابر ہے، ماضی میں لوگوں میں برداشت کامادہ موجودتھا لیکن اب تحمل،بردباری،اقلیتوں کے ساتھ مذہبی رواداری کاعنصرختم ہوتاجارہا ہے۔

    دریں اثنا ورکشاپ سے رانا عامر، سید احمد بنوری، وسعت اللہ خان، مبشر زیدی اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔

  • عدم برداشت کے خلاف لوگوں‌ کا مائنڈ سیٹ تبدیل کرنا ہوگا، مقررین

    عدم برداشت کے خلاف لوگوں‌ کا مائنڈ سیٹ تبدیل کرنا ہوگا، مقررین

    کراچی: مقررین نے کہا ہے کہ معاشرے میں عدم برداشت دن بدن بڑھتا جارہا ہے، ملک میں سماجی ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کے فروغ کے لیے اقلیتوں کو ملک میں مساوی حقوق دینا ہوں گے،تعلیمی نظام میں مذہبی تفریق کو ختم کرنا ضروری ہے تاکہ پاکستان میں بسنے والی تمام اقلتیوں کے درمیان مذہبی ہم آہنگی اور بہتر تعلقات کو فروغ دیا جاسکے، عدم برداشت کے خاتمہ کے لیے سوسائٹی کے مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

    ان خیالات کا اظہار پاکستان اسٹڈی سینٹر جامعہ کراچی کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر سید جعفر احمد، سینئر صحافی وسعت اللہ خان،مذہبی اسکالر خورشید ندیم، اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین ڈاکٹر خالد مسعود، رومانہ بشیر، سید احمد بنوری، ڈاکٹرخالدہ غوث نے پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کی جانب سے ’’ سماجی ہم آہنگی اور مذہبی رواداری میں اساتذہ کا کردار‘‘ کے عنوان سے مقامی ہوٹل میں منعقدورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ورکشاپ کی صدارت سینئر صحافی غازی صلاح الدین نے کی۔

    ڈاکٹر جعفر احمد کا کہنا تھا کہ نظری ایشوز سے استاد معاشرے کی اور نصاب ریاست کی نمائندگی کررہا ہے، ہمارے معاشرے میں عدم برداشت بہت بڑھ گیا ہے، ریاستی آئین کے ذریعے معاشرے کو اسلامی بنانے کی کوشش ہوتی ہے, سماجی ہم آہنگی اور مذہبی رواداری ماضی کی نسبت اب نہ ہونے کے برابر ہے، ماضی میں لوگوں میں برداشت کامادہ موجودتھالیکن اب تحمل،بردباری،اقلیتوں کے ساتھ مذہبی رواداری کاعنصرختم ہوتاجارہا ہے۔

    عدم برداشت اور میڈیا کے کردار پر گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی وسعت اللہ خان کا کہنا تھا کہ آئین ہمیں بہت سارے بنیادی حقوق دیتا ہے، تعلیم،صحت،بولنے اور اظہار رائے کی آزادی کاحق آئین نے دیا کسی بھی ملک کی ریاست 100 فیصد اس کی پاسداری نہیں کرتی آئین بنانے والے ایک ہاتھ سے حقوق فراہم کرتے ہیں اور دوسرے ہاتھ سے اسے واپس بھی لے لیتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ میڈیا ہر چیز کو سو فیصد ہائی لائٹ نہیں کرتا، میڈیا کو جو حقیقت میں نظر آرہا ہے وہ اسے بھی مکمل نہیں دکھاتا سچ سننے، کہنے اور بولنے کا حوصلہ نہ ہونے کی وجہ سے معاشرے میں مسائل بڑھ رہے ہیں، اقلیتوں کودرپیش مسائل پرکوئی بات کرنے کوتیار نہیں ہے۔

    رومانہ بشیر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اقلیتوں کو سوئپر،پلمبر اور کلینر کی نوکریاں دی جاتی ہیں ملک میں کسی بھی اعلیٰ عہدوں پر انہیں ملازمتیں فراہم نہیں کی جاتی جس کی وجہ سے اقلیتوں میں احساس کمتری کاعنصرپایاجاتاہے، قائداعظم محمدعلی جناح نے 11 اگست کی آخری تقریر میں پاکستان کے تمام لوگوں کےلیے برابری کے حقوق کی بات کی، 70سال بعد بھی اقلیتوں کا سوال یہی ہے کہ ہمیں کب برابری کے حقوق ملیں گے۔

    اس موقع پر سابق چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر خالد مسعود کا کہنا تھا کہ اگر اسلام عالمگیر مذہب ہے تو اس میں گنجائش پیدا کرنا ہوگی، مسلم امہ کےلیے موجودہ فکری چیلنج یہ ہے کہ کیاآپ الگ رہناچاہتے ہیں یاساری دنیاکے ساتھ رہنے کو ترجیح دیں گے، ماضی میں لوگوں غیرمسلموں کے علاقوں سے مسلم آبادیوں کی جانب ہجرت کرتے تھے، آج صورتحال اس کے برعکس ہے،مذہبی منافرت کے خاتمہ کے لیے مل کر جدوجہد کرنا ہوگی۔

    ورکشاپ سے سینئر صحافی سبوخ سید،راناعامر،محمداسماعیل خان ودیگر نے بھی خطاب کیا۔

  • دشمن قوتیں سوشل میڈیا سے نوجوانوں کو پراگندہ کر رہی ہیں: آرمی چیف

    دشمن قوتیں سوشل میڈیا سے نوجوانوں کو پراگندہ کر رہی ہیں: آرمی چیف

    راولپنڈی: پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاید باجوہ کا کہنا ہے کہ دشمن قوتیں سوشل میڈیا سے نوجوانوں کو پراگندہ کر رہی ہیں۔ نوجوان نسل ملک کے مستقبل کا سرمایہ ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق پاک فوج کی جانب سے ’شدت پسندی کے سدباب میں نوجوانوں کا کردار‘ کے مضوع پر سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔

    سیمینار سے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دشمن قوتیں سوشل میڈیا سے نوجوانوں کو پراگندہ کر رہی ہیں۔ نوجوان نسل ملک کے مستقبل کا سرمایہ ہیں۔

    آرمی چیف کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی خطرات ختم کر کے ترقی کی راہیں کھول دیں۔ آپریشن رد الفساد سے نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔

    انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ریاست اور عوام کو مل کر لڑنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں صرف پاک فوج نے ہی اس نوعیت کی دہشت گردی کو شکست دی۔

    سیمینار میں آرمی چیف سے قبل پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے بھی خطاب کیا۔

    ان کا کہنا تھا کہ داعش کا ہدف ہمارے نوجوانوں کو گمراہ کرنا ہے۔ نوجوانوں کو دہشت گردی سے بچانا اجتماعی ذمے داری ہے۔

    مزید پڑھیں: داعش کا ہدف نوجوانوں کو گمراہ کرنا ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر

    پاک فوج اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے تعاون سے ہونے والے اس سیمینار کا مقصد نوجوانوں میں روا داری اور ہم آہنگی اجاگر کرنا ہے۔

    سیمینار میں ملک بھر کی جامعات کے وائس چانسلرز، ماہرین تعلیم، طلبا، مدارس کے مہتمم اور طلبا شریک ہیں۔

    اس سے قبل یہ سیمینار 8 مئی کو ہونا تھا جسے ملتوی کردیا گیا تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • شدت پسندی کے سدباب میں نوجوانوں کا کردار: پاک فوج کا سیمینار

    شدت پسندی کے سدباب میں نوجوانوں کا کردار: پاک فوج کا سیمینار

    راولپنڈی: ’شدت پسندی کے سدباب میں نوجوانوں کا کردار‘ کے موضوع پر سیمینار کل جی ایچ کیو راولپنڈی میں منعقد ہوگا۔

    پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے زیر اہتمام ’شدت پسندی کے سدباب میں نوجوانوں کا کردار‘ کے موضوع پر سیمینار کل (جمعرات) کو جی ایچ کیو راولپنڈی میں منعقد ہوگا۔

    سیمینار کے مہمان خصوصی پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ ہوں گے جو سیمینار سے کلیدی خطاب کریں گے۔

    آئی ایس پی آر نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے تعاون سے اس سیمینار کا اہتمام کیا ہے جس میں ملک بھر کے جامعات کے وائس چانسلروں، ماہرین تعلیم، طلبا، مدارس کے مہتم اور طلبا اور قومی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے نمائندے شریک ہوں گے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔