Tag: سینما

  • وائرل ویڈیو: سعودی شہری’’ پتیلے اور دیگچے‘‘ لے کر سینما کیوں پہنچے؟ وجہ انتہائی دلچسپ

    وائرل ویڈیو: سعودی شہری’’ پتیلے اور دیگچے‘‘ لے کر سینما کیوں پہنچے؟ وجہ انتہائی دلچسپ

    سعودی عرب میں فلم دیکھنے کیلیے آنے والے مرد وخٓواتین شہریوں کو سینما گھر میں بڑے پتیلے لاتے دیکھا گیا جس کی دلچسپ وجہ سامنے آ گئی۔

    سعودی ولی عہد کے ویژن 2030 کے تحت مملکت میں ثقافی سرگرمیاں شروع ہونے کے بعد سینما انڈسٹری بھی فروغ پا رہی ہے اور دارالحکومت ریاض سمیت مختلف شہروں میں سینما گھر قائم اور ان میں ملکی اور بین الاقوامی فلمیں ریلیز ہو رہی ہیں۔

    گزشتہ دنوں ایک سینما گھر میں شائقین فلم دیکھنے کے لیے پہنچے تو ان کے ہاتھوں میں بڑے بڑے پتیلے، دیگچے بھی تھے۔ یہ ویڈیوز جیسے ہی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر آئیں، دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہوگئی۔

    ان ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ شہری جن میں ہر عمر کے مرد وخواتین شامل تھے، وہ سینما گھر میں اپنے ساتھ بڑے سائز کے پتیلے، دیگچے لے کر آئے ہیں۔ اب اس کی دلچسپ وجہ بھی سامنے آ گئی ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق پاپ کارن کی ایک برانڈ نے گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لیے 30 سعودی ریال میں لاتعداد پاپ کارن دینے کی آفر کی تھی۔

    اس پیشکش کا اعلان ہونا تھا کہ مختلف علاقوں سے لوگ دارالحکومت ریاض میں واقع ووک سینما بڑے سائز کے پتیلے، دیگچے حتیٰ کہ کچھ لوگ تو کین لے کر سینما گھر کے باہر پہنچ گئے تاکہ وہ 30 ریال میں زیادہ سے زیادہ پاپ کارن حاصل کر سکیں۔

     

    اس منفرد واقعے کی کئی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئیں، جن میں لوگ بڑے بڑے برتن اٹھائے سینما میں داخل ہوتے اور اس آفر سے صرف 30 ریال میں لاتعداد پاپ کارن ساتھ لے کر جاتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔

     

    سوشل میڈیا صارفین نے بھی ان ویڈیوز پر دلچسپ تبصرے کیے۔ کسی نے کہا، ’کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ آج کل کے عرب لوگ بے وقوف ہیں‘ جبکہ ایک اور صارف نے تبصرہ کیا، ’یہ تو پاکستان سے بھی چار ہاتھ آگے نکل گئے‘۔

    ایک اور صارف نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ انہیں یقین نہیں آرہا کہ سعودی عرب میں بھی ایسے لوگ ہیں۔

  • بھاری بجٹ سے بننے والی ایک اور بھارتی فلم بری طرح ناکام

    بھاری بجٹ سے بننے والی ایک اور بھارتی فلم بری طرح ناکام

    ممبئی: بھاری بجٹ سے تیار پین انڈین فلم لائیگر بھی بھارتی شائقین کو متاثر کرنے میں ناکام رہی، ٹویٹر صارفین نے اسے فلاپ قرار دے دیا۔

    بھارتی اداکاروں وجے دیورکنڈا اور اننیا پانڈے کی فلم لائیگر نے ریلیز کے ابتدائی دنوں میں توقع سے بے حد کم کمائی کی۔

    یہ فلم دیورکنڈا کی بالی ووڈ ڈیبیو تھی لہٰذا ان کی اور چنکی پانڈے کی بیٹی اننیا پانڈے کی موجودگی کی وجہ سے خیال کیا جارہا تھا کہ یہ فلم کامیابی کے ریکارڈ توڑے گی، تاہم فلم کو ملنے والا ردعمل کچھ خوشگوار نہیں تھا۔

    فلمی تجزیہ نگاروں کے مطابق ان کا پہلے اندازہ تھا کہ ریلیز کے پہلے دن فلم، ساؤتھ میں 30 کروڑ روپے کمائی کرے گی جبکہ فلم کی مجموعی کمائی 170 سے 180 کروڑ روپے ہونے کی امید تھی۔

    تاہم اب ملنے والے ردعمل کو دیکھتے ہوئے امکان ہے کہ فلم صرف 55 سے 60 کروڑ روپے کمائی کر پائے گی۔

    فلم بینوں نے فلم کے ڈائریکٹر پوری جگن نادھ کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے اور کہا ہے کہ فلم کی کہانی اور ڈائریکشن بدترین ہے۔

  • وبا کے دور میں سینما میں فلم دیکھنے کا انوکھا طریقہ متعارف

    وبا کے دور میں سینما میں فلم دیکھنے کا انوکھا طریقہ متعارف

    کرونا وائرس شروع ہوتے ہی سینما گھر بند ہوئے تو بڑی اسکرین پر فلمیں دیکھنے کے شوقین افراد دل مسوس کر گھر بیٹھ گئے۔

    اب ایک سال بعد اکثر ممالک میں سینما گھر کھل چکے ہیں لیکن اس کے لیے سخت احتیاطی تدابیر اپنانی لازمی ہیں، جیسے پورا وقت ماسک پہنے رکھنا اور سماجی فاصلہ رکھنا۔

    سینما انتظامیہ کو بھی صرف 50 فیصد ہال بک کرنے کا پابند کیا گیا ہے، تاہم اب جاپان کے ایک سینما نے اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ایک انوکھا طریقہ متعارف کروا دیا۔

    جاپان کے اس سینما نے باکس سیٹ متعارف کروائی ہے۔ اس سیٹ کے دونوں طرف لکڑی کی پارٹیشن لگائی گئی ہے، جبکہ وہاں سامان رکھنے کی جگہ بھی موجود ہے۔ یہ سیٹ سائز میں بھی عام سیٹ سے بڑی ہے۔

    سیٹ پر ایک ہی شخص بیٹھ سکے گا اور یہ سیٹ کم اور پرائیوٹ باکس زیادہ محسوس ہورہا ہے۔

    سینما کی ویب سائٹ پر کہا گیا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ آپ محفوظ ماحول میں فلم سے لطف اندوز ہوں اس لیے ہم نے یہ باقاعدہ پرائیوٹ روم جیسی سیٹ متعارف کروائی ہے۔

    باکس سیٹ کی تصویر سوشل میڈیا پر بے حد وائرل ہورہی ہے جبکہ فلم دیکھنے کے شوقین افراد بھی اسے دیکھ کر بے حد پرجوش ہورہے ہیں۔

  • وہ مقامات جو کرونا وائرس کے حوالے سے خطرناک ترین ہوسکتے ہیں

    وہ مقامات جو کرونا وائرس کے حوالے سے خطرناک ترین ہوسکتے ہیں

    دنیا بھر میں کرونا وائرس کی تباہ کاریاں جاری ہیں اور کئی مہینوں تک کاروبار زندگی معطل رہنے کے بعد اب آہستہ آہستہ معمولات زندگی بحال ہورہے ہیں۔

    ایسے میں گھر سے باہر نکلتے ہوئے احتیاطی اقدامات اپنانے جیسے ماسک پہننے اور 6 فٹ کا فاصلہ رکھنے کے ساتھ ساتھ ان مقامات سے گریز کرنے کی بھی ضرورت ہے جو جراثیم اور وائرسز کا گڑھ ہوسکتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق حالیہ دنوں میں رسکی اور خطرناک جگہیں وہ ہیں جو بند ہوں اور جہاں تازہ ہوا کا گزر نہ ہو۔ ایسے مقامات بند ہونے ساتھ ساتھ وہاں بیک وقت بہت سے افراد موجود ہوتے ہیں جس سے وہاں کی ہوا آلودہ ہوجاتی ہے۔

    یہ ہوا مختلف جراثیم کی افزائش کے لیے موزوں ترین ہے اور یہاں چند منٹ گزارنا بھی کسی شخص کو وائرل انفیکشنز کا شکار بنا سکتا ہے۔

    اب جب کہ زندگی کی مصروفیات پھر سے بحال ہورہی ہیں تو ماہرین کے مطابق کچھ مقامات سے گریز کرنے کی ضرورت ہے۔

    سینما / تھیٹرز

    کرونا وائرس کے آغاز پر سب سے پہلے تھیٹرز کو بند کیا گیا تھا۔ تھیٹرز ویسے بھی بند ہوتے ہیں اور ان میں تازہ ہوا کا گزر نہیں ہوتا چنانچہ انہیں کھولے جانے کے بعد بھی یہ ایک عرصے تک مختلف جراثیم اور وائرسز کا گھر بنے رہیں گے۔

    علاوہ ازیں تھیٹرز میں 6 فٹ کا سماجی فاصلہ اور کم افراد کو جمع کرنے کا اصول بھی نہیں اپنایا جاسکتا لہٰذا اگر یہ کھل بھی جائیں تب بھی کچھ عرصے یہاں سے دور رہنا ہی بہتر ہوگا۔

    سیلونز / بیوٹی پارلرز / نائی کی دکانیں

    مذکورہ بالا مقامات کئی مہینوں سے بند ہیں لہٰذا لوگوں کو ان کی سخت ضرورت محسوس ہورہی ہوگی۔ تاہم دھیان رہے کہ سیلونز، بیوٹی پارلرز اور نائی کی دکانوں میں بھی چھوٹی سی جگہ میں کئی افراد جمع ہوتے ہیں لہٰذا یہاں کی ہوا سخت آلودہ ہوگی۔

    علاوہ ازیں یہاں استعمال کیے جانے والے اوزار اور آلات بھی بیک وقت کئی لوگوں پر استعمال کیے جاتے ہیں جس کے باعث یہ وائرس کی منتقلی کا بہترین ذریعہ بن جاتے ہیں۔

    پبلک ٹرانسپورٹ

    پبلک ٹرانسپورٹ کسی ملک کی بڑی آبادی کا ذریعہ سفر ہوتا ہے اور اسی وجہ سے یہ موجود حالات میں خطرناک ترین مقام کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔

    ماہرین متنبہ کرچکے ہیں کہ کرونا وائرس کسی سطح پر 9 دن تک زندہ رہ سکتا ہے، ایسے میں بسوں یا ٹرین کے پولز، سیٹیں، دروازے اور دروازوں کے ہینڈل اس وائرس کا گڑھ ہوسکتے ہیں۔

    سوئمنگ پولز

    تفریحی مقامات، ہوٹلز یا ریزورٹس اور ان کے سوئمنگ پولز بھی کافی عرصے سے بند ہیں اور ان کی باقاعدگی سے صفائی کا خیال، صرف گمان ہی ہوسکتا ہے۔

    سوئمنگ پولز عام حالات بھی سخت صفائی کے متقاضی ہوتے ہیں اور صفائی نہ ہونے کی صورت میں یہ تیراکی کرنے والوں کو بیمار کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔

    علاوہ ازیں سوئمنگ پول میں اگر کوئی ایک شخص کوویڈ 19 کی معمولی ترین علامات بھی رکھتا ہو، تو پانی کے قطروں کے ذریعے یہ پول میں موجود تمام افراد کو متاثر کر سکتا ہے۔

  • شارجہ میں ڈرائیو ان سینما

    شارجہ میں ڈرائیو ان سینما

    ابو ظہبی: متحدہ عرب امارات کے شہر شارجہ میں ڈرائیو ان سینما کھلنے جارہا ہے جس میں فلم بین اپنی گاڑیوں میں بیٹھ کر فلم سے محظوظ ہو سکیں گے۔

    دنیا بھر میں کرونا وائرس کے جلد ختم ہو جانے کے تاحال کوئی آثار نظر نہیں آرہے، اس لیے مستقبل قریب میں سینما گھروں کے دوبارہ کھلنے کا بھی کوئی امکان نہیں، اسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے اماراتی حکام نے ڈرائیو ان سینما کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    متحدہ عرب امارات کے شہر شارجہ میں یہ نیا سینما یکم جولائی سے نئے تفریحی مقام مدار میں کھل رہا ہے اور اربن انٹرٹینمنٹ کے اشتراک سے لانچ کیا جا رہا ہے جو آؤٹ ڈور اسکریننگ کا انعقاد کرنے والی دبئی کی کمپنی ہے۔

    مذکورہ سینما میں رات 8 بجے سے فلمیں دکھائی جائیں گی، امارات میں کرونا وائرس اور اس کے حالات کے پیش نظر یہ دوسرا ڈرائیو ان سینما لانچ ہونے جا رہا ہے۔

    اس سے قبل گذشتہ ہفتے واکس سینیماز نے بھی دبئی کے مال آف ایمریٹس میں ڈرائیو ان تھیٹر لانچ کرنے کا اعلان کیا تھا۔

  • فلم ’لاہور سے آگے‘ اور ’کراچی سے لاہور‘ مختلف فلمیں

    فلم ’لاہور سے آگے‘ اور ’کراچی سے لاہور‘ مختلف فلمیں

    پاکستانی فلم ’لاہور سے آگے‘ کے ڈائریکٹر وجاہت رؤف کا کہنا ہے کہ یہ فلم ’کراچی سے لاہور‘ کا سیکوئل ہرگز نہیں ہے۔ اس فلم میں آپ کو ہر چیز مختلف نظر آئے گی۔

    اے آر وائی فلمز اور شوکیس فلمز کے مشترکہ تعاون سے بننے والی فلم لاہور سے آگے بہت جلد سینما گھروں کی زینت بننے والی ہے۔ فلم کے مرکزی کرداروں میں صبا قمر اور یاسر حسین شامل ہیں۔ فلم کے ڈائریکٹر وجاہت رؤف ہیں جبکہ یاسر حسین ہی فلم کے مصنف بھی ہیں۔

    اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے فلم کی مرکزی کاسٹ صبا قمر، یاسر حسین اور ڈائریکٹر وجاہت رؤف نے فلم کے بارے میں بتایا۔ اس موقع پر ڈائریکٹر وجاہت رؤف نے بتایا کہ اس فلم کو کراچی سے لاہور کا سیکوئل نہیں کہا جاسکتا۔ یہ دونوں فلمیں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔

    اس سے قبل کراچی سے لاہور میں مرکزی کردار عائشہ عمر اور شہزاد شیخ نے ادا کیا تھا۔

    اس بار فلم کے مرکزی کردار کے لیے صبا قمر کا انتخاب کیوں کیا گیا؟ اس بارے میں ڈائریکٹر وجاہت رؤف نے بتایا کہ ایک تو اس کردار کے لیے لمبی لڑکی چاہیئے تھی، دوسری وجہ یہ تھی کہ انہوں نے اور یاسر نے صبا کے بے شمار ڈرامے دیکھے تو ان کے کرداروں کے تنوع سے انہیں اندازہ ہوا کہ صبا ایک ورسٹائل اداکارہ ہیں۔

    انہیں محسوس ہوا کہ صبا اس کردار کو بخوبی نبھا سکتی ہیں اور وہ ان کی توقعات پر پورا اتریں۔ یاسر نے یہ بھی بتایا کہ صبا کا تعلق لاہور سے ہے اور فلم میں ایک لاہوری لڑکی ہی کی ضرورت تھی جس کے لہجے سے لاہور کی پہچان جھلکے۔ ان تمام چیزوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے قرعہ فال صبا قمر کے نام نکلا۔

    اپنے کردار کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے صبا قمر نے بتایا کہ وہ فلم میں ایک موسیقار کا کردار ادا کر رہی ہیں اور وہ اپنے اس شوق کی مستقل تکمیل کے لیے نہایت جنونی ہے۔

    انہوں نے انکشاف کیا کہ فلم میں ایک اور کردار موجود ہے جو اس راک اسٹار کا بوائے فرینڈ ہے لیکن وہ کردار کون ادا کر رہا ہے، یہ فلم بینوں کے لیے ایک سرپرائز ہوگا۔

    صبا قمر پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کی معروف اداکارہ ہیں اور وہ متعدد ٹیلی فلمز اور ڈراموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھا چکی ہیں، تاہم ڈرامہ اور فلم میں اداکاری کے درمیان انہیں کیا فرق محسوس ہوا؟

    اس سوال کا جواب دیتے ہوئے صبا نے بتایا کہ فلم کا کینوس اور اس میں اداکاری کا دائرہ وسیع ہے۔ انہوں نے فلم اور ڈرامہ دونوں میں اداکاری کے لیے بہت محنت کی اور دونوں میں کام کر کے وہ بہت لطف اندوز ہوئیں۔

    مزید پڑھیں: فلم لاہور سے آگے دیکھیں اور میری زندگی بچائیں

    فلم کی شوٹنگ پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں کی گئی ہے۔ اس بارے میں یاسر نے ایک دلچسپ واقعہ سناتے ہوئے (جگہ اور افراد کے نام صیغہ راز میں رکھتے ہوئے) بتایا کہ ایک مقام پر ٹراؤٹ مچھلی بے حد مشہور تھی اور وہاں باقاعدہ ایک وزیر صاحب بھی تھے جن کا خود ساختہ شعبہ ٹراؤٹ مچھلی کی افزائش تھا۔

    انہوں نے فلم کی کاسٹ کے لیے کئی ڈبوں میں بھر کر ٹراؤٹ مچھلی بھجوا دی۔ وہ مچھلی مقدار میں اس قدر زیادہ تھی کہ اس دن وہاں آس پاس موجود تمام ہوٹلوں کے چوکیداروں تک نے ٹراؤٹ مچھلی کھائی۔ بقول یاسر وہاں سے گزرتے لوگوں کو روک کر ٹراؤٹ مچھلی کھلائی گئی تاکہ وہ ضائع نہ ہو۔

    فلم لاہور سے آگے مرکزی کرداروں کے سفر پر مشتمل ہے جس کے دوران انہیں مختلف سنگین و رنگین حادثات و واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ فلم میں پانچ گانے شامل کیے گئے ہیں۔ ایک آئٹم سانگ بھی شامل ہے جسے صبا قمر اور یاسر حسین پر فلمایا گیا ہے۔ فلم کی موسیقی شیراز اوپل نے ترتیب دی ہے۔

    دیگر کرداروں میں بہروز سبزواری، روبینہ اشرف، عتیقہ اوڈھو، عبد اللہ فرحت اللہ اور عمر سلطان بھی شامل ہیں۔

    فلم بنیادی طور پر مزاحیہ اسکرپٹ پر مشتمل ہے اور فلم کی کاسٹ کا کہنا ہے کہ یہ 2 گھنٹے فلم بینوں کی زندگی کے پر مزاح ترین اور بہترین 2 گھنٹے ثابت ہوں گے۔

    اے آر وائی فلمز کی پیشکش لاہور سے آگے رواں سال 11 نومبر کو سینما گھروں میں نمائش کے لیے پیش کردی جائے گی۔

    تصاویر: حمزہ عباس

  • رواں برس عید پر کوئی بالی ووڈ فلم نہیں

    رواں برس عید پر کوئی بالی ووڈ فلم نہیں

    کراچی: ہر سال عید پر پاکستانی فلموں کے ساتھ بالی ووڈ فلمیں بھی پاکستان میں ریلیز کی جاتی ہیں لیکن رواں برس عید الاضحیٰ پر کوئی بالی ووڈ فلم ریلیز نہیں ہور ہی جس سے پاکستانی فلمسازوں نے سکھ کا سانس لیا ہے۔

    رواں برس عید الاضحیٰ پر 3 پاکستانی فلمیں ’جاناں‘، ’زندگی کتنی حسین ہے‘ اور ’ایکٹر ان لا‘ ریلیز کی جائیں گی۔

    اس سے قبل کئی پاکستانی فلم ساز اور ہدایت کار بھارتی فلمیں پاکستان میں ریلیز کرنے کی مخالفت اور مطالبہ کر چکے ہیں کہ پاکستان میں بالی ووڈ فلموں پر پابندی عائد کی جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ بالی ووڈ فلموں کی ریلیز پاکستانی فلموں کے بزنس پر منفی اثر ڈالتی ہیں تاہم اس سلسلہ میں متعلقہ حکام کی جانب سے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔

    خوش قسمتی سے اس بار عید پر پاکستانی فلمسازوں کی دعائیں قبول ہوگئیں اور رواں برس عید پر صرف پاکستانی فلمیں سینما گھروں کی زینت بننے جارہی ہیں۔

    فلم ’جاناں‘ آئی آر کے فلمز، ایم ایچ پروڈکشنز اور اے آر وائی فلمز کی مشترکہ پیشکش ہے۔ ریحام خان، حریم فاروق، منیر حسین اور عمران کاظمی کی پروڈکشن میں بننے والی اس فلم کی ہدایات اظفر جعفری نے دی ہیں۔

    فلم کی کاسٹ میں ارمینہ رانا خان، بلال اشرف اور علی رحمٰن مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں جبکہ فلم کی دیگر کاسٹ میں مشی خان، عجب گل اور نیئر اعجاز شامل ہیں۔

    فلم ’ایکٹر ان لا‘ کے مرکزی کرداروں میں فہد مصطفیٰ، مہوش حیات اوربھارت کے نامور اداکار اوم پوری شامل ہیں۔ فلم کی پرڈیوسر فضا علی ہیں جبکہ ہدایت کاری کے فرائض نبیل قریشی نے انجام دیے ہیں۔

    films-2

    فلم ’زندگی کتنی حسین ہے‘ میں مرکزی کرداروں میں معروف ڈرامہ اداکار سجل علی اور پاکستانی اداکارہ عمائمہ ملک کے بھائی فیروز خان شامل ہیں۔ یہ ان دونوں کی پہلی فلم ہے۔

    films-3

    فلم کے ڈائریکٹر انجم شہزاد ہیں جن کی ایک اور فلم ’ماہ میر‘ بھی رواں برس سینما گھروں کی زینت بن چکی ہے۔

    تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بالی ووڈ فلمیں ریلیز نہ ہونے کے باوجود بھی یہ اگر فلمیں شائقین کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہیں تو یہ اس بات کا ثبوت ہوگا کہ ہماری فلم انڈسٹری کو مزید ترقی دینے کی ضرورت ہے۔

  • گھروں کو سینما بنانے والے وی سی آر کا دور اختتام پزیر

    گھروں کو سینما بنانے والے وی سی آر کا دور اختتام پزیر

    ٹوکیو:صارفین کو گھر پر سینما کا ماحول فراہم کرنے والا وی سی آر کا دور اختتام پزیر ہوگیا وی سی آر بنانے والی آخری کمپنی نے بھی مزید وی سی آر نہ بنانے کا فیصلہ کرلیا ۔

    گھروں میں فلمیں دیکھے کے لیے استعمال اور صارفین کو تفریح فراہم کرنے والی پہلی چیز وی سی آر تھی لیکن وی سی آر بنانے والی آخری جاپانی کمپنی نے بھی گزشتہ روز اعلان کیا کہ وہ اب مزید وی سی آر مینوفیکچرر نہیں کرے گی، اس سے کئی سال قبل تمام کمپنوں نے وی سی آر بنانا بند کردیا تھا۔

    VCR-post-2

     

    امریکی نیوز چینل کے مطابق جاپان کی فونائی الیکٹرک کمپنی نے رواں ماہ کے آخر تک فروخت میں کمی کا حوالہ دیتے ہوئے مزید وی سی آر نہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے، کمپنی کے مطابق گزشتہ برس شمالی امریکہ میں وی سی آر ڈیلرز نے 750000 یونٹ فروخت کئے تھے، یہ کمپنی سن 1983 سے وی سی آر بنا رہی تھی۔

     

    VCR-post-3

    ستر اور اسی کی دہائی میں الیکٹرانک میڈیا کی جدید ایجاد وی سی آر نے فلم بینوں میں جلد ہی مقبولیت پائی، اس کے باعث فلم بین اپنی پسند مرضی، سہولت اور وقت کے لحاظ سے فلم دیکھنے کی سستی سہولت حاصل کر پائے تھے،بلکہ اس سے ایک قدم بڑھتے ہوئے عام شائقین اپنی خاندانی تقریبات کی فلم بندی کے بعد محفوظ کروالیا کرتے تھے اور ان یادگار لمحات سے بار بار اور کئی سالوں بعد بھی ماضی کے لمحات سے لطف و اندوز ہوا کرتے تھے۔

    VCR-post-1

    تا ہم وقت کے ساتھ ساتھ اس صنعت میں بھی جدت آئی اور نوے کی دہائی میں سی ڈی اور ڈی وی ڈی کے آمد کے بعد وی سی آر کی مانگ میں کمی واقع ہونا شروع ہوگئی تھی ، بریف کیس نما دکھائی دینے والے وی سی آر کے مقبولیت میں کمی کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ موجودہ جدید دور میں صارفین آسانی اور جگہ کم گھیرنے کے باعث ڈی وی ڈی ، بلیو رے اور براہ راست ویڈیو اسٹریمنگ کو ترجیح دیتے ہیں،جس سے یہ صنعت روبہ زوال ہونا شروع ہو گئی۔

  • سال2013: پاکستان فلم، سینمااور فیشن انڈسٹری کیلئے سب سے بہتر رہا

    سال2013: پاکستان فلم، سینمااور فیشن انڈسٹری کیلئے سب سے بہتر رہا

    سال دوہزارتیرہ پاکستان فلم، سینما اور فیشن انڈسٹری کیلئےگزشتہ ایک عشرے میں سب سے بہتر رہا،مگر شوبز کے افق پر چمکنے والے بہت سے ستارے ہمیشہ کیلئے ڈوب گئے۔

    سال دوہزار تیرہ میں ملکی اور غیرملکی53 فلمیں نمائش کیلئے پیش کی گئیں جن میں باکس آفس پر کامیابی کے اعتبار سے اے آروائی فلمز کی وار پہلے نمبر پر رہی جبکہ اسی ادارے کی دو فلموں زندہ بھاگ اور میں ہوں شاہد آفریدی کی کامیابی سے لالی وڈ پر چھائے مایوسیوں کے بادل چھٹ گئے سینیر اینکر مبشر لقمان کی رٹ پر غیرقانوںبھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی عائد کی گئی۔

    جبکہ سینما اور فلم انڈسٹری کے مابین معاہدہ طے پایا،نغمہ نگار ریاض الرحمان ساغر اور اداکار نشیلا کے علاوہ دنیائے موسیقی کی خوبصورت آوازیں مہناز،زبیدہ خانم اور ریشماں ہمیشہ کیلئے خاموش ہو گئیں 2013ملکی فیشن انڈسٹری کیلئے بھی بے خوشگوار رہا جبکہ ملکہ سکینڈلزویناملک، معروف ماڈل مہرین سید،جگن کاظم اور ثنابلوچ پیا گھر سدھار گئیں