فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے مستقبل کی فلسطینی ریاست کے لیے ایک عبوری آئین تیار کرنے کے لیے کمیٹی تشکیل دینے کا حکم نامہ جاری کر دیا۔
اسرائیلی مخالفت کے باوجود تنظیم حکومت کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
وفا نیوز ایجنسی کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق یہ اقدام غزہ پر اسرائیل کی جنگ کے خاتمے، انکلیو سے اسرائیلی افواج کے انخلاء اور مستقبل میں فلسطینی ریاست کی قیادت سنبھالنے کی کوششوں کے بعد عام انتخابات کی تیاری کے لیے کیا گیا ہے۔
یہ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سربراہی اجلاس کی تیاری کے لیے بھی ہے جب فرانس، برطانیہ اور کینیڈا نے کہا ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس کی اسرائیل اور امریکا نے مذمت کی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ کونسل کے ارکان میں قومی، سیاسی اور کمیونٹی شخصیات کے ساتھ ساتھ قانونی اور آئینی ماہرین بھی شامل ہوں گے جو سول سوسائٹی اور صنف کی نمائندگی کو مدنظر رکھیں گے۔
مصر نے اعلان کیا ہے کہ اگر جنگ بندی ہوتی ہے تو غزہ کا نظام عارضی طور پر 15 فلسطینی ٹیکنوکریٹس چلائیں گے۔
مصری وزیرخارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی انتظامیہ فلسطینی اتھارٹی کی نگرانی میں کام کرے گی۔
انتظامیہ کی مدت 6 ماہ مقرر ہو گی جس میں غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے کے انتظامی اتحاد پر زور دیا جائے گا۔
قاہرہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیرخارجہ نے کہا کہ اصل تجویز پر واپس جانا ہے جس میں 60 دن کی جنگ بندی، کچھ اسیران اور کچھ فلسطینی قیدیوں کی رہائی، اور غزہ میں انسانی اور طبی امداد کی بغیر کسی رکاوٹ یا شرائط کے داخلے شامل ہے۔
اسلام آباد : سینیٹر فیصل واوڈا کا کہنا ہے کہ فیض حمید سےمتعلق فیصلہ بہت جلد آجائےگا۔ فیض حمید کا کورٹ مارشل بھی ہوگا اور عمر قید بھی ہوگی۔
تفصیلات کے مطابق سینیٹر فیصل واوڈا نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام ‘خبر’ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، بھارت سے جنگ کے بعد مورال بلند ہے۔
سینیٹر واوڈا کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کس سے کیا بات کرے گی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے، بانی پی ٹی آئی اوراسٹیبلشمنٹ میں کوئی بات نہیں ہورہی نہ ہوگی۔
انھوں نے قمر جاوید باجوہ کو مشورہ دیتے ہوئے کہا متنازع باتیں کرنے سے گریز کریں، قمرباجوہ کے دور میں مارشل لاکی پوری تیاری کرلی گئی تھی، مارشل لا کی بات ہوئی تھی اور پوری کوشش بھی کی گئی تھی لیکن فیلڈ مارشل عاصم منیر نے جس دن ٹیک اوور کیا مارشل لا پلیٹ میں تھا، فیلڈ مارشل عاصم منیر نے کہا جمہوریت پسندہوں اور مارشل لامستر کردیا۔
سینیٹر نے انکشاف کیا کہ بانی نےقمرجاویدباجوہ کی توسیع اور جنرل فیض کے آرمی چیف بننے کے رولز میں تبدیلی کی کوشش کی تھی۔
https://youtu.be/RxEN18thnb0?feature=shared
فیض حمید سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ فیض حمید سےمتعلق فیصلہ بہت جلدآجائےگا، فیض حمیدکاکورٹ مارشل بھی ہوگااور عمرقیدبھی ہوگی، فیض حمید کیس کا تعلق بانی پی ٹی آئی سے بھی جڑے گا۔
مولانا فضل الرحمان کے حوالے سے انھوں نے کہا مولانا فضل الرحمان سیاست کےاستادہیں، یہ درست ہے مولانا فضل الرحمان کے بغیرحکومت نہیں بنتی نہ چلتی ہے، مولانافضل الرحمان جوتحریک چلاسکتےہیں وہ کوئی اورنہیں چلاسکتا، ان سےسیاست میں کچھ سیکھنےکومل رہاہےاچھی بات ہے، مجھے ان سےکچھ نہیں چاہیے۔
سینیٹر واوڈا نے دعویٰ کیا کہ علی امین گنڈا پور ن لیگ کیساتھ ملے ہوئے ہیں، موجودہ پی ٹی آئی ہی ن لیگ کی حکومت کی ضامن ہے، بانی پی ٹی آئی کی سزاکوپی ٹی آئی انجوائے کررہی ہے۔
اسلام آ باد: سابق وفاقی وزیر اور سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا ہے کہ مولانا صاحب آپ پی ٹی آئی کے ہاتھوں دوسری بار ڈسےگئے ہیں امید ہے تیسری بار ایسا نہیں ہوگا۔
تفصیلات کے مطابق سابق وفاقی وزیر اور سینیٹر فیصل واوڈا نے سوشل میڈیا پر جاری بیان میں کہا کہ مولانا فضل الرحمان نے پی ٹی آئی پر احسان کیا اور علی امین گنڈا پور کی زبان سنیں۔
فیصل واوڈا نے کہا کہ علی امین کہتے ہیں مولانا کے والد کہتے تھے فضل الرحمان پیسے لیکر میری مخبری کرتے تھے، بقول گنڈاپور مولانا پر انکے والد بھروسہ نہیں کرتے تھے تو ہم بھی بھروسہ نہیں کرتے۔
سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ میں نے مولانا صاحب سے کہا تھا کہ یہ احسان فراموش ہیں لیکن میں نے مولانا سے کہا تھا کہ میں آپ سے بغیر مطلب کے ملا تھا۔
فیصل واوڈا نے کہا کہ مولانا سے کہا تھا اس دن سے آج تک اور آگے بھی آپکے ساتھ کھڑا رہوں گا، مولانا صاحب آپ پی ٹی آئی کے ہاتھوں دوسری بار ڈسےگئے امید ہے تیسری بار ایسا نہیں ہوگا۔
اسلام آباد: سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا ہے کہ گزشتہ رات کہا تھا بانی پی ٹی آئی کی بہنوں کی رہائی کیلئے کوشش کروں گا۔
تفصیلات کے مطابق بانی پی ٹی آئی عمران خان کی بہن علیمہ اور عظمیٰ خان کی رہائی کے بعد سینیٹر فیصل واوڈا نے ٹوئٹ میں کہا کہ گزشتہ رات کہا تھا بانی پی ٹی آئی کی بہنوں کی رہائی کیلئے کوشش کروں گا اور آج الحمدللہ بانی پی ٹی آئی کی بہنوں کی ضمانت ہوچکی ہے۔
فیصل واوڈا کا کہنا تھا کہ بکاؤ پی ٹی آئی لیڈر شپ ان کی بہنوں کو ایک بار بھی پوچھنے جیل نہیں گئی، بکاؤ پی ٹی آئی لیڈر شپ اپنے لیڈر کی بہنوں کو جیل میں ایک بار بھی پوچھنے نہیں گئی۔
انہوں نے کہا کہ قوم کو ان کی اصلیت سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا گیم ہو رہی ہے؟ لیکن میں قوم کو سچ بتاتا رہوں گا اور یہ لیڈر شپ آپ سے چھپاتی رہے گی، میرا یہ دعویٰ اور وعدہ بھی پورا ہوا۔
واضح رہے کہ انسدادِ دہشتگردی عدالت اسلام آباد نے بانی پی ٹی آئی کی بہن علیمہ خان، عظمیٰ خان کے خلاف ڈی چوک احتجاج کیس میں ضمانت کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے رہا کرنے کا حکم دیدیا۔
انسدادِ دہشتگردی عدالت اسلام آباد نے 20، 20 ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض عمران خان کی دونوں بہنوں کی ضمانتیں منظور کی ہیں۔
سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا ہے کہ یہ ترمیم آخری نہیں ہے مزید بھی ہوں گی، باپ کا باپ بننے کی کوئی کوشش نہ کریں۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق فیصل واوڈا کا کہنا تھا کہ باپ باپ ہی رہتا ہے، میرا 21 تاریخ کا دعویٰ اور وعدہ درست ثابت ہوا، وکٹری کا نشان تاریخ میں لکھا جائے گا، سیاسی بونوں کا قد کبھی بڑا نہیں ہوتا، خطرات سے کھیلنا ہی کھلاڑیوں کا کام ہوتا ہے،اب ملک میں صرف ترقی اور خوشحالی کا راج ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے ترمیم کا ساتھ نہیں دیا لیکن کلاز کا ساتھ دیا، بانی پی ٹی آئی کو یہاں تک پہنچانے والوں کی نشاندہی کرتا رہا ہوں، ان لوگوں کو بانی پی ٹی آئی سے جو گالم گلوچ سننا پڑی وہ بھی تاریخ کاحصہ ہیں۔
فیصل واوڈا نے کہا کہ پریس کانفرنسز کرنیوالے بےشرم آج چھپے بیٹھے ہیں، پریس کانفرنسز کرنیوالے میری بات سن لیتے تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔
جب بانی تحریک انصاف لاہور میں تھے تو مجھے بلایا گیا تھا، میں نے اس وقت کہا تھا رات کے اندھیرے میں نہیں آؤں گا، بانی تحریک انصاف بلائیں گے تو جاؤں گا۔
سینیٹر نے کہا کہ مجھے سیاست بانی تحریک انصاف نے سکھائی ہے، اب تحریک انصاف کے پاس کچھ نہیں بچا، اچھا ہوا جن کے بغیر ہونا تھی وہ بھی آگئے، سب کی باتیں دھری کی دھری رہ گئی۔
فیصل واوڈا نے کہا کہ پاکستان میں نوٹ اور ووٹ کبھی ختم نہیں ہونگے، میری باتوں کو کسی کیساتھ بھی جوڑ دیا جائے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
انھوں نے کہا کہ ہمارا مقصد سینیٹ سے ترمیم منظور کرانا تھا وہ ہوگئی، قومی اسمبلی سے بھی آئینی ترمیم بڑے آرام سے ہوجائیگی۔
اسلام آباد : سینیٹر فیصل واوڈا نے پیٹرول کی قیمت کے حوالے سے عوام کو بڑی خوشخبری سنادی اور کہا پیٹرول مزید بھی سستا ہوگا۔
تفصیلات کے مطابق سینیٹر فیصل واوڈا نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے ملکی معاشی صورتحال کے حوالے سے کہا کہ ملک بہتری کی طرف جارہا ہے، پیٹرول سستا ہو رہا ہے ، پیٹرول مزید بھی سستا ہوگا اور جب پٹرول سستا ہوگا تو مہنگائی کم ہوگی۔
انھوں نے بتایا کہ ڈالر ساڑھے 300 روپے پر تھا نیچے آگیا ہے ، آئی ایم ایف کا پروگرام ہوگیا، اب انڈسٹری کو 9 سینٹ پر بجلی ملے گی۔
سینیٹر واوڈا کا کہنا تھا کہ شرح سود نیچے گر گیا اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہورہا ہے، ہوسکتا ہے ایک دو ہفتوں میں پاکستان کیلئے بڑی خبر آجائے، معاشی بہتری ایس آئی ایف سی کا کریڈٹ ہے۔
پی ٹی آئی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انھون نے کہا کہ آپ کو پریشانی ہے ایس آئی ایف سی پلیٹ فارم سے آئی پی پیز کا مسئلہ حل ہونے جارہا ہے، انڈسٹریز کو 9 سینٹ پربجلی دینے کی بات ہورہی ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ سرمایہ کاری آرہی ہے، کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفسٹ اچھاہے، سرمایہ کاری آرہی ہے مگر حکومت نااہل ہے، قانون ریڈ زون میں آنے سے منع کر رہا ہے اور آپ کہتے ہو، ڈی چوک پر آئیں گے۔
سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی پر پابندی لگتی ہے یا نہیں یہ میں نہیں بتا سکتا، پی ٹی آئی پر پابندی کے فیصلے پر سب جماعتیں کھڑی ہونگی۔
اے آر وائی کے پروگرام آف دی ریکارڈ میں گفتگو کرتے ہوئے انتشار کی بات کرتے ہیں تو ایم کیو ایم لندن کیساتھ بھی ایسا ہوا تھا، وزیردفاع کہتے ہیں حکومت جارہی ہے اور اسٹاک مارکیٹ بیٹھ جاتی ہے، وزیردفاع ایسے بیانات دے کر خود حکومت کو بٹھا رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن میں خود جھگڑے چل رہے ہیں، بھائی بیٹی کے جھگڑے ہیں، حکومت کی اپنی نااہلی ہے بیان دے کرعوام کو پریشان کردیتی ہے۔
فیصل واوڈا نے کہا کہ مدعی کوئی اور تھا اور مخصوص نشستیں کسی اور کو دے دی گئیں، آئین 3 دن کا وقت دیتا ہے جبکہ سپریم کورٹ نے 15 دن کا وقت دیدیا، تاثر ہے کہ آئین کی تشریح سپریم کورٹ کرے گی۔
سینیٹر نے کہا کہ آئین میں یہ کہیں نہیں لکھا ہے تشریح صرف سپریم کورٹ ہی کریگی، مخصوص نشستوں کے معاملے پر سپریم کورٹ کا براہ راست فیصلہ آنا چاہیے تھا۔
فیصل واوڈا نے کہا کہ سپریم کورٹ فیصلہ دیتی کہ مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو دی جاتی ہیں، مخصوص نشستوں پر 4 پروسیس ہیں، حکومت، پارلیمنٹ، اسپیکر اور صدر ہیں، مخصوص نشستوں کا معاملہ ان 4 عوامل سے گزر کرجائے گا۔
انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ نہیں مانا جائے گا، اپنا حق استعمال کیا جائے گا، آخری بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں نہیں ملیں گی۔
سیاستدان کی کوئی عزت ہے نہ کوئی دینےکی کوشش کرتا ہے، پی ٹی آئی بیانات دے کر اپنی مشکلات میں خود اضافہ کررہی ہے، پہلے کہا تھا کہ بانی پی ٹی آئی کے قریبی لوگوں نے ان کیخلاف شواہد دیے۔
فیصل واوڈا نے کہا کہ 9 مئی کے واقعات پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا، دہشت گردی کا خاتمہ ہوگا، 9 مئی کے واقعات کو بھی دہشت گردی کے زمرے میں لے لیں۔
اسلام آباد: توہین عدالت کیس میں ایم کیو ایم رہنما مصطفیٰ کمال کی معافی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے فیصل واوڈا سے شوکاز نوٹس پر دوبارہ ایک ہفتے میں جواب طلب کر لیا۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں سینیٹر فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال سےمتعلق توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے سماعت کی۔
سپریم کورٹ بینچ میں جسٹس عرفان سعادت،جسٹس نعیم افغان شامل ہیں ، سپریم کورٹ کےطلب کرنےپر فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال عدالت میں پیش ہوئے۔
وکیل فروغ نسیم نے عدالت کو بتایا کہ مصطفیٰ کمال کی جانب سے غیر مشروط معافی مانگ لی گئی، صرف ایک صفحہ کے جواب میں معافی مانگی ہے۔
فروغ نسیم نے مصطفیٰ کمال کا معافی کا بیان پڑھ کر سنادیا اور کہا کہ مصطفیٰ کمال نے بالخصوص 16 مئی کی پریس کانفرنس پرمعافی مانگی، انھوں نے پریس کانفرنس زیر التوا ربا کی اپیلوں سے متعلق کی تھی، ربا کی اپیلوں کے تناظر میں بات کی تھی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا ربا کی اپیلیں کہاں زیر التوا ہیں،فروغ نسیم نے بتایا کہ ربا اپیلیں سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بینچ میں زیر التوا ہیں، جس پر چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ تکنیکی طور پر وہ ایک الگ ادارہ ہے، شریعت اپیلٹ بینچ کے جج جسٹس غزالی وفات پاگئےتھے۔
فروغ نسیم نے استدعا کی عدالت غیرمشروط معافی قبول کرکےتوہین عدالت کارروائی ختم کردے، جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے میرا خیال ہے میں نے توہین عدالت کا نوٹس پہلی بار کیاہے، فیصل واوڈا تو سینیٹ میں ہیں وہاں مزید سلجھے لوگ ہونےچاہئیں، ارکان پارلیمنٹ عدلیہ پر حملہ کرےگاتویہ ایک آئینی ادارے کا دوسرے پر حملہ ہوتا ہے۔
وکیل رہنما ایم کیو ایم نے کہا کہ میرے خیال میں مصطفیٰ کمال کی باتیں توہین عدالت کےزمرےمیں نہیں آتیں تو چیف جسٹس نے استفسار کیا یہ توہین نہیں تھی تومعافی کس بات کی مانگ رہے ہیں ،قوم کو ایسی پارلیمنٹ اور عدلیہ چاہیے جس کی عوام میں عزت ہو، آپ ڈرائنگ روم میں بات کرتے تو الگ بات تھی، پارلیمنٹ میں بات کرتےتب بھی کچھ تحفظ حاصل ہوتا، پریس کلب میں بات کریں ،میڈیا دکھائے تومعاملہ الگ ہے۔
توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے مصطفیٰ کمال سمجھتے ہیں توہین عدالت نہیں کی تو پھر معافی قبول نہیں کرینگے، قوم کا تقاضاہے پارلیمنٹ اور عدلیہ اپنےامور کی انجام دہی کرے، پارلیمنٹ نے آرٹیکل270میں ترمیم کی ہم نے کوئی بات نہیں کی، ہمیں پارلیمنٹ کا احترام ہے، پاکستان کی خدمت کےلئے تنقید کرنی ہے تو ضرور کریں ، اراکین پارلیمنٹ کا حق نہیں کہ وہ دوسرے آئینی ادارے پرتنقید کرے
وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ مصطفیٰ کمال نے معافی اس لیے مانگی کیونکہ عدالتوں کی بہت عزت کرتے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ معافی کی گنجائش دین اسلام میں قتل پربھی ہےمگرپہلےاعتراف لازم ہے تو وکیل کا کہنا تھا کہ اسلام تو اور بھی بہت کچھ کہتا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فروغ نسیم سے مکالمے میں کہا کہ آپ نے پریس کلب میں جا کر معافی نہیں مانگی تو وکیل کا کہنا تھا کہ پریس کلب میں معافی مانگناشرط ہےتومصطفیٰ کمال ایساکرنےپربھی تیارہیں۔
چیف جسٹس نے فیصل واوڈا سے استفسار کیا آپ تو سینیٹر ہیں؟ فیصل واوڈا نے جواب میں کہا کہ جی مائی لارڈ تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ سینیٹ تو ایوان بالا ہوتاہے، سینیٹ میں زیادہ سلجھے ہوئے لوگ ہوتےہیں۔
دوران سماعت اٹارنی جنرل نے کہا ججز کی دوہری شہریت کی آئین میں ممانعت نہیں تو چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ آپ یہ بات کیوں کر رہے ہیں تو اٹارنی جنرل نے جواب دیا ججز کی دہری شہریت کی بات پریس کانفرنس میں کی گئی، ججز کے کنڈکٹ پربات کرناتوہین عدالت میں آتا ہے، ارکان پارلیمنٹ کو بات کرتے ہوئے احتیاط کرنی چاہیے۔
عثمان اعوان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ میں بھی ججزکے کنڈکٹ کو زیربحث نہیں لایا جاسکتا، عدالت کوبھی اس طرح ایوان کی کارروائی کا اختیار نہیں، دونوں ملزمان کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ وہ ارکان پارلیمنٹ ہیں، رکن پارلیمنٹ دہری شہریت نہیں رکھ سکتا جو پارلیمنٹ کا ہی بنایاگیا قانون ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہمارےسامنےدہری شہریت کا معاملہ نہیں توہین عدالت کاکیس ہے، آئین پاکستان دیکھیں، کتنےخوبصورت الفاظ سے شروع ہوتا ہے، ہمیں کسی کو توہین کا نوٹس دینے کا شوق نہیں، امام نے فرمایا تھا کسی سے اختلاف ایسے کریں کہ اس کے سر پر چڑیا بیٹھی ہو تو بھی نہ اڑے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیاہمیں لوگوں نے ایک دوسرے سے لڑنے پربٹھایاہے؟ ہم نے یہ نہیں کہا کہ ہمارے فیصلوں پرتنقید نہ کریں، فیصل واوڈا کے وکیل کی بڑی شرعی شکل ہے، اللہ کرے ہمارے اعمال بھی شرعی ہوجائیں۔
فیصل واوڈا کے وکیل معیزاحمدروسٹرم پر آئے ، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ٹی وی والے سب سے زیادہ گالم گلوچ کو ترویج دیتے ہیں ، ٹی وی چینل کہہ دیتےہیں فلاں نے تقریر کی ہم نے چلا دی یہ اظہار رائے کی آزادی ہے ، فیصل واوڈا کی کانفرنس کو تمام ٹی وی چینلز نے چلایا، کیا اب ٹی وی چینلز کو بھی توہین عدالت کا نوٹس کریں، جس پر اٹارنی جنرل آف پاکستان نے کہا کہ میرے خیال میں نوٹس بنتاہے۔
چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ پیمرا نے عجیب قانون بنا دیاہے کہ عدالتی کارروائی رپورٹ نہیں ہوگی، یہ زیادتی ہے کارروائی کیوں رپورٹ نہیں ہوگی۔
سپریم کورٹ نےعدالتی رپورٹنگ پر پابندی سے متعلق پیمرا نوٹیفکیشن طلب کرتے ہوئے توہین عدالت سے متعلق مواد نشرکرنے پر پابندی کے پیمرا نوٹیفکیشن پر جواب طلب کرلیا۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ایسی پریس کانفرنس نشر ہوتی ہیں تو کوئی مسئلہ نہیں مگر عدالتی کارروائی سے مسئلہ ہے؟ وکیل پیمرا نے بتایا کہ مجھے ابھی اس سے متعلق ہدایات نہیں تو جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے مزید کہا کہ پریس کانفرنس کے بجائے ہمارے سامنے کھڑے ہو کربات کرتے، مجھ سے متعلق جو کچھ کہا گیا کبھی اپنی ذات پر نوٹس نہیں لیا ، آپ نے عدلیہ پر بات کی اس لیے نوٹس لیا۔
وکیل فیصل واوڈا نے کہا کہ میرے موکل پیمرا سےمتعلق بات کرنا چاہتے ہیں تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنی نہیں آپ کوسننا ہے، آپ وکیل ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل معیزاحمد سے استفسارکیا آپ معافی نہیں مانگنا چاہتے؟ تو وکیل کا کہنا تھا کہ جواب جمع کرایا ہے ، عدالت میں پڑھنا چاہتا ہوں تو چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے کلائنٹ نے کہا کیا؟ پہلے دیکھتے ہیں توہین عدالت بنتی یانہیں، جس پر وکیل معیزاحمد نے کہا کہ میں اس پریس کانفرنس کے بعدہونے والے سوال جواب پڑھناچاہتا ہوں۔
جسٹس عرفان سعادت نے مکالمے میں کہا کہ آپ نے صحافی کے جواب میں کہا دوججز کیخلاف بات کرنے آیا ہوں، آپ نے پریس کانفرنس پاکستان کےلوگوں کے بارےمیں نہیں کی،آپ نے دو انتہائی قابل احترام ججزپر بات کی ہے۔
چیف جسٹس نے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ اس پریس کانفرنس سے کس کی خدمت کرنا چاہتے تھے، کیا آپ نے کوئی قانون بدلنے کے لئے پارلیمنٹ میں بل پیش کیا ، ہم نے کبھی کہا فلاں سینیٹر نے اتنے دن اجلاس میں شرکت کیوں نہیں کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ٹی وی چینلز کو بھی نوٹس کر رہے ہیں ، کبھی ہم نے یہ کہا کہ فلاں کو پارلیمنٹ نے توسیع کیوں دے دی ، آپ نےکس حیثیت میں پریس کانفرنس کی تھی ، آپ بار کونسل کے جج ہیں کیا۔
چیف جسٹس نے صحافیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہاں بھی لوگ بیٹھے ہیں بڑی بڑی ٹویٹس کرجاتے ہیں ، جو کرنا ہے کریں بس جھوٹ تونہ بولیں ،صحافیوں کو ہم نے بچایا ہے ان کی پٹیشن ہم نے اٹھائی۔
سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں مصطفیٰ کمال کی فوری معافی کی استدعا مسترد کردی، اٹارنی جنرل نے کہا کہ توہین عدالت پر سزا کے ساتھ ایک لاکھ روپے جرمانہ ہے تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایک بیان میں کوئی 10بار توہین کرے تو جرمانہ 10 لاکھ ہوگا ؟ جس پر وکیل فروغ نسیم نے پوچھا کہ جرمانہ ایک لاکھ روپے ہی ہوگا۔
فروغ نسیم نے بتایا کہ 16مئی کے بعدسےاس گفتگو کےحق میں ایک لفظ نہیں بولا، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ مصطفیٰ کمال کو اشارہ مل گیا ہے وہ پریس کانفرنس کریں گے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہ آپ پراسکیوٹر ہیں ایسی بات نہ کریں ، کیا فیصل واوڈا ،مصطفیٰ کمال نے ندامت دکھانے کیلئےکوئی اور پریس کانفرنس کی تو وکیل مصطفیٰ کمال نے بتایا کہ ایسی کوئی بھی پریس کانفرنس نہیں کی گئی،
چیف جسٹس نے وکیل حافظ عرفان کو قرآن و حدیث کے حوالوں سےمعاونت کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کو وقت دیتے ہیں اس بارے میں سوچ لیں ، جھوٹ بولنےسےڈالرملتے ہیں ،سارے صحافیوں کو ہم نے بچایا، اگر آپ کو مزید وقت درکار ہے بتا دیں، عدالتی فیصلوں پرضرور تنقید کریں اڑا کر رکھ دیں، سی نے میرے فیصلے پر تنقید کرنی ہے تو پڑھ کر کریں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے استفسار کیا کیا فیصل واوڈا معافی مانگ رہے ہیں یا نہیں؟ وکیل نے بتایا کہ مشاورت کے بعد عدالت کو آگاہ کریں گے۔
عدالت نے توہین عدالت کیس میں فیصل واوڈا سےشوکاز نوٹس پر دوبارہ ایک ہفتےمیں جواب طلب کر لیا، فروغ نسیم نے کہا کہ ہم قانون بدلنا چاہتے تھے ، اس پر شورپڑجاناتھا تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ شور کیوں پڑنا تھا، جس پر فروغ نسیم نے مزید کہا کہ اس معاملے پر فی الحال کچھ نہیں کہنا چاہتا ،مصطفیٰ کمال کی حد تک نوٹس واپس لےلیں ، مصطفیٰ کمال صرف رباکو اللہ کیساتھ جنگ کہتےہیں ،اس کیس کا فیصلہ چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے مجھے تولگا تھا وہ مذہبی جماعتوں کاکیس ہے ، پہلی بار پتا چلا ایم کیو ایم بھی شریک ہے اور سماعت کا حکم نامہ لکھوا دیا، بعد ازاں کیس کی سماعت 28 جون تک ملتوی کردی گئی۔
خیال رہے توہین عدالت کے نوٹس پر ایم کیو ایم رہنما مصطفیٰ کمال اور سینیٹر فیصل واوڈا نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کرایا تھا۔
جس میں مصطفیٰ کمال نے عدلیہ مخالف بیان پر غیر مشروط معذرت کی تھی جبکہ سینیٹر فیصل واوڈا نے غیر مشروط معافی مانگنے سے انکار کردیا تھا۔
اسلام آباد : سینیٹر فیصل واوڈا نے توہین عدالت کیس میں غیر مشروط معافی مانگنے سے انکار کردیا اور پریس کانفرنس کا مقصد عدلیہ کی توہین کرنا نہیں تھا۔
تفصیلات کے مطابق سینیٹر فیصل واوڈا نے توہین عدالت نوٹس پر سپریم کورٹ میں جواب جمع کرادیا، جس میں انھوں نے توہین عدالت کیس میں غیر مشروط معافی مانگنے سے انکار کردیا۔
جواب میں کہا گیا کہ پریس کانفرنس کا مقصد عدلیہ کی توہین کرنا نہیں تھا، پریس کانفرنس کامقصدملک کی بہتری تھا۔
سینیٹر نے جواب میں کہا کہ عدالت توہین عدالت کی کاروائی آگےبڑھانےپرتحمل کامظاہرہ کرے، استدعا ہے توہین عدالت کا نوٹس واپس کیا جائے۔
فیصل واوڈا کا کہنا تھا کہ توہین عدالت کا مبینہ ملزم عدالت کی عزت کرتا ہے، کسی بھی طریقے سے عدالت کا وقار مجروح کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا، ملزم سمجھتا ہے عدالت کا امیج عوام کی نظروں میں بے داغ ہونا چاہیے، پاکستان کے تمام مسائل کا حل ایک فعال اور متحرک عدالتی نظام میں ہے۔
جواب میں کہنا تھا کہ جسٹس بابر ستار کے گرین کارڈ سے متعلق معلومات کیلئے رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ کو خط لکھا، دو ہفتے گزر جانے کے باوجود جواب موصول نہیں ہوا۔
سینیٹر نے مزید کہا کہ پاکستان کے مضبوط دفاع کیلئے فوج اور خفیہ اداروں کی مضبوطی ضروری ہے، عدلیہ کے ساتھ فوج اور خفیہ اداروں کی مضبوطی کا انحصار عوامی تائید پر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دفاعی اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کیخلاف مہم زور پکڑ رہی ہے، حال ہی میں چیف جسٹس نے کہاعدلیہ کو اپنی غلطیاں تسلیم کرنی چاہئیں، اپریل 2024 میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کیخلاف توہین آمیزمہم چلی۔
سینیٹر نے رؤف حسن، فضل الرحمان اور شہباز شریف کی تقریروں کے ٹرانسکرپٹ بھی پیش کردیے ہیں۔
اس سے قبل ایم کیو ایم رہنما مصطفیٰ کمال نے توہین عدالت کیس میں سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں بیان حلفی جمع کرائا تھا۔
جس میں ایم کیو ایم رہنما نے عدلیہ مخالف بیان پر غیر مشروط معافی مانگتے ہوئے کہا تھا کہ ججز بالخصوص اعلی ٰعدلیہ کے ججز کا دل سے احترام کرتا ہوں۔
رہنما ایم کیو ایم کا کہنا تھا کہ عدلیہ اورججز کےاختیارات ، ساکھ کو بدنام کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا، عدلیہ سے متعلق بیان بالخصوص 16مئی کی نیوزکانفرنس پرغیرمشروط معافی کا طلبگار ہو۔
یاد رہے سپریم کورٹ نے فیصل واوڈا ، مصطفیٰ کمال کو عدلیہ مخالف بیان پر توہین عدالت کانوٹس جاری کیاتھا ، سپریم کورٹ میں توہین عدالت کیس کی سماعت کل ہوگی۔