Tag: سیٹلائٹ

  • زمین سے قریب سے اچانک پراسرا ریڈیو سگنل موصول، ماہرین فلکیات حیران

    زمین سے قریب سے اچانک پراسرا ریڈیو سگنل موصول، ماہرین فلکیات حیران

    آسٹریلوی ماہرین فلکیات نے پراسرار ریڈیو سگنل کا پتا لگایا ہے، جس کے بارے میں پتا چلا کہ وہ زمین کے قریب ہی سے آیا تھا، جس نے ماہرین فلکیات کو پریشانی میں ڈال دیا تھا۔

    سائنس سے متعلقہ ویب سائٹس کی رپورٹس کے مطابق گہری خلا سے ریڈیو سنگلز نکلتے رہتے ہیں جو کسی ٹیکنالوجی کی وجہ سے متعلق نہیں ہوتے، تاہم گزشتہ برس آسٹریلوی ماہرین نے 13 جون 2024 ایک طاقت ور ریڈیو برسٹ کا پتا لگایا، جس کے بارے میں کی جانے والی تحقیقات حیران کن نکلیں۔

    یہ سگنل اتنا طاقتور تھا کہ چند لمحوں کے لیے آسمان کی ہر چیز سے زیادہ روشن ہوا تھا، سائنس دان پہلے اسے کسی اجنبی خلائی مظہر کا نتیجہ سمجھ بیٹھے تھے لیکن پھر تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ سگنل زمین کے قریب سے آیا تھا۔

    معلوم ہوا کہ یہ سگنلز کسی مشینری سے آئے تھے، یہ نہ صرف ایک اجنبی مشینری سے آئے تھے بلکہ پتا چلا کہ اس کا منبع ناسا کا ایک مصنوعی سیارہ تھا، جس سے توانائی کا اخراج ہوا تھا، یہ مردہ سیٹلائٹ گزشتہ نصف صدی سال سے زیادہ عرصے سے زمین کے مدار میں آوارہ تیر رہا ہے۔


    خلا میں پہلی بار سیٹلائٹ ری فیولنگ مشن انجام، چین نے ایک بار پھر دنیا کو حیران کر دیا


    سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ سگنل کی سمت پرانی امریکی سیٹلائٹ ریلے 2 سے میچ کرتی تھی، ریلے 2 سیٹلائٹ 1964 میں خلا میں بھیجا گیا تھا اور یہ 1967 سے ناکارہ ہے۔ اس ریڈیو سگنل کا پتا آسٹریلوی ’اسکوائر کلومیٹر اری پاتھ فائنڈر (ASKAP)‘ نے لگایا تھا۔

    اس ریڈیو سگنل کو اس لیے قابل ذکر سمجھا جا رہا تھا کیوں کہ عام ریڈیو سگنلز کے مقابلے میں یہ 30 نینو سیکنڈ سے بھی کم وقت کے لیے چمکا تھا، جو کہ زیادہ تر FRBs سے بہت چھوٹا تھا، اور پھر بھی یہ اتنا طاقت ور تھا کہ آسمان سے دوسرے تمام سگنلز مٹ گئے تھے۔

    واضح رہے کہ خلائی ملبہ اب سائنس دانوں کے لیے بڑھتا ہوا چیلنج بنتا جا رہا ہے، خلائی دور کے آغاز سے اب تک 22 ہزار سے زائد سیٹلائٹس خلا میں بھیجے جا چکے ہیں، ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں خلائی ملبے کے سگنلز اور کہکشانی سگنلز میں فرق کرنا مشکل ہو جائے گا۔

  • یوکرین ڈرونز سے نمٹنے کے لیے روس کا مدار میں 100 سیٹلائٹ تعینات کرنے کا فیصلہ

    یوکرین ڈرونز سے نمٹنے کے لیے روس کا مدار میں 100 سیٹلائٹ تعینات کرنے کا فیصلہ

    ماسکو: روس نے یوکرین کے ڈرون حملوں سے نمٹنے کے لیے مدار میں 100 سیٹلائٹ تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق یوکرین کی جانب سے مسلسل ڈرون حملوں کے بعد روس نے مدار میں سو سے زائد سیٹلائٹ تعینات کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

    ماسکو نے اپنے خلائی منصوبے کے تحت بغیر پائلٹ کے فضائی نظام یو اے ایس (UAS) کے کنٹرول اور نگرانی کی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے سیٹلائٹس خلا میں بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔

    منگل کو روس کاسموس کے سربراہ دیمتری بیکانوف نے کہا کہ مدار میں 102 اسپیس کرافٹ نصب کیے جائیں گے، تاکہ آئندہ ڈرون حملوں سے نمٹا جا سکے۔ یہ پیش رفت روس کے بڑھتے ہوئے خلائی عزائم کا حصہ ہے، جو نہ صرف دفاع بلکہ کمیونیکیشن اور ریموٹ مانیٹرنگ جیسے اہم شعبوں میں بھی استعمال کی جائے گی۔


    اسپین نے اسرائیلی کمپنی کے ساتھ میزائل معاہدہ منسوخ کردیا


    یہ قدم یوکرینی ڈرون حملوں کی ایک سیریز کے بعد سامنے آیا ہے، دشمن ڈرون روسی سرزمین کے اندر گہرائی میں پہنچ کر مہلک وار کر رہے ہیں، جس نے ماسکو کو پریشان کر دیا ہے، کیوں کہ اسٹریٹجک فوجی اثاثوں کو اس نے شدید نقصان پہنچایا ہے۔

    دیمتری بیکانوف کے مطابق سیٹلائٹس میں اس اضافے سے دفاع، مواصلات اور دور کے علاقوں کی نگرانی بہتر ہو جائے گی۔ روسی حکام کے مطابق اس اقدام کا مقصد یوکرینی ڈرونز کی وجہ سے پیدا ہونے والے خطرے سے نمٹنا ہے، جس نے حال ہی میں روسی سرحدوں کے اندر 2500 میل تک فوجی ہوائی جہازوں کو نشانہ بنایا۔

  • اسپیس ایکس نے جدید جی پی ایس سسٹم والا سیٹلائٹ لانچ کر دیا

    اسپیس ایکس نے جدید جی پی ایس سسٹم والا سیٹلائٹ لانچ کر دیا

    اسپیس ایکس نے جدید جی پی ایس سسٹم والا سیٹلائٹ لانچ کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ایلون مسک کی خلائی ٹیکنالوجی کی کمپنی اسپیس ایکس نے جمعہ 30 مئی کو امریکی خلائی فورس کے لیے جدید ترین جی پی ایس سیٹلائٹ ’’ایس وی زیرو ایٹ‘‘ (SV-08) کامیابی سے لانچ کر دیا۔

    کمپنی کا کہنا ہے کہ جدید GPS سیٹلائٹ ریکارڈ مختصر نوٹس پر لانچ کیا گیا ہے، یہ عالمی نیوی گیشن سسٹم کی بہتری میں ایک اہم قدم ہے، یہ سیٹلائٹ جدید خصوصیات خاص طور پر فوجی مقاصد کے لیے اہم ہے۔

    ایک فالکن 9 راکٹ جمعہ کو دوپہر 1:37 پر فلوریڈا کے کیپ کیناورل اسپیس فورس اسٹیشن سے روانہ کیا گیا، جو GPS III SV-08 خلائی جہاز کو امریکی اسپیس فورس کے مدار میں لے گیا۔

    کمپنی کے مطابق SpaceX کو 7 مارچ کو آفیشل لانچ کا آرڈر ملا تھا، یعنی تمام تیاری کا کام 3 ماہ سے بھی کم وقت میں مکمل کیا گیا۔ اسپیس فورس حکام کے مطابق یہ مدت امریکی قومی سلامتی کے مشنوں کے لیے ایک نیا ریکارڈ ہے، کیوں کہ عام طور پر سیٹلائٹ لانچ کرنے میں 18 سے 24 ماہ لگتے ہیں۔


    ایلون مسک کا مریخ پر جانے کا خواب چکنا چور


    حکام کا کہنا تھا کہ سیٹلائٹ لانچ ہونے کے تقریباً 8.5 منٹ بعد منصوبے کے عین مطابق فالکن نائن کا پہلا اسٹیج زمین پر واپس آیا، اور اسپیس ایکس ڈرون جہاز ’’A Shortfall of Gravitas‘‘ کو چھو لیا، اس دوران راکٹ کے اوپری اسٹیج نے GPS III SV-08 کو مدار میں لے جانا جاری رکھا، جہاں اسے لانچ کے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد تعینات کیا جانا تھا۔

    جیسا کہ اس کے نام سے پتا چلتا ہے GPS III SV-08 زمین کو چھوڑنے والا آٹھواں GPS III سیٹلائٹ ہے۔ (SV اسپیس وھیکل کا مخفف ہے) خلائی فورس ایسے دس سیٹلائٹ بھیجنے کا ارادہ رکھتی ہے، جو ایرو اسپیس کی بڑی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن نے بنائے ہیں، آخری دو سیٹلائٹ اگلے سال خلا میں روانہ کیے جانے کی توقع ہے۔

  • کیا اسمارٹ فونز، سیٹلائٹ سے جوڑ دیئے جائیں گے؟

    کیا اسمارٹ فونز، سیٹلائٹ سے جوڑ دیئے جائیں گے؟

    دور دراز علاقوں میں سیلولر اور انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی کو وسعت دینے کے لیے ایلون مسک کے اسپیس ایکس نے اسمارٹ فونز کو زمین کے نچلے مدار میں سیٹلائٹ سے براہ راست جوڑنے پر کام شروع کردیا ہے۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق سیٹلائٹس خاص طور پر غیر ترمیم شدہ اسمارٹ فونز سے براہ راست جڑنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ کمپنی نے 2 جنوری کو فالکن 9 خلائی جہاز پر StarLink سیٹلائٹ کا ابتدائی سیٹ لانچ کیا۔

    کیلیفورنیا میں وینڈنبرگ اسپیس فورس بیس سے 21 میں سے کل 6 اسٹار لنک سیٹلائٹس فالکن 9 راکٹوں کے ذریعے چھوڑے گئے۔ کمپنی نے اپنے ابتدائی مرحلے میں صلاحیت کی جانچ شروع کرنے کے لیے ایک عارضی تجرباتی لائسنس حاصل کیا۔

    اسپیس ایکس 2025 میں صوتی اور ڈیٹا کنیکٹوٹی کو فعال کرنے کے منصوبوں کو وسعت دے گا۔جبکہ اس سال سیلولر آپریٹرز کے ساتھ شراکت میں خلا سے ٹیکسٹنگ کی سہولت فراہم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

    اسپیس ایکس سیٹلائٹس براہ راست سیل کی صلاحیتیں پیش کرنے کے لیے تیار ہیں، جس سے اسمارٹ فونز پر سیٹلائٹ براڈ بینڈ تک براہ راست رسائی ممکن ہوگی۔

    گوگل پلے اسٹور نے 13 ایپس ہٹا دیں

    کمپنی کی جانب سے آسٹریلیا، چلی، جاپان،کینیڈا، نیوزی لینڈ اور سوئٹزرلینڈ میں موبائل آپریٹرز کے ساتھ بھی شراکت داری کی گئی ہے۔امریکہ میں، SpaceX کے موبائل پارٹنر T-Mobile کے سپیکٹرم کو ابتدائی ڈائریکٹ ٹو سمارٹ فون ٹیسٹ کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

  • جنوبی کوریا کا پہلا فوجی جاسوس سیٹلائٹ مدار میں پہنچ گیا

    جنوبی کوریا کا پہلا فوجی جاسوس سیٹلائٹ مدار میں پہنچ گیا

    جنوبی کوریا کی جانب سے  اپنا پہلا فوجی جاسوس سیٹلائٹ مدار میں پہنچا دیا گیا ہے، سیٹلائٹ اسپیس ایکس فیلکن نائن راکٹ لے کر روانہ ہوا۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس مصنوعی سیارے کی مدد سے شمالی کوریا پر نظر رکھی جا سکے گی۔

    جنوبی کوریا نے سیٹلائٹ کو مدار میں ایسے وقت میں مدار بھیجا ہے جب شمالی کوریا نے کامیابی سے اپنا فوجی جاسوس سیٹلائٹ لانچ کیا ہے۔

     جنوبی کوریا کی وزارت دفاع کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ سیٹلائٹ کے لانچ کے ایک گھنٹہ بعد اس کا زمینی اسٹیشن کے ساتھ کامیابی سے رابطہ قائم ہوگیا ہے۔

     دوسری جانب شمالی کوریا نے بھی غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کے خلاف فلسطین کی حمایت کا اعلان کردیا ہے۔

     غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان نے سوشل میڈیا پر شمالی کوریا اور فلسطین کا پرچم لگاتے ہوئے کیپشن میں لکھا کہ ہم فلسطین کے ساتھ ہیں۔

     اس سے قبل اسرائیلی جارحیت اور معصوم فلسطینیوں کی نسل کشی پر احتجاجاً جنوبی امریکی ملک بولیویا نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔

    امریکا اسپتال پر اسرائیلی بمباری میں شریکِ جرم ہے، شمالی کوریا

     ایک نیوز کانفرنس کے دوران بولیویا کی وزیر ماریا نیلا پرادا نے بات کرتے ہوئے اعلان کیا کہ بولیویا اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات ختم کررہا ہے۔

  • 40 سال تک خلا میں رہنے والا سیٹلائٹ زمین پر گر پڑا

    امریکی خلائی ادارے ناسا کا ایک سیٹلائٹ تقریباً 40 سال تک زمین کے گرد چکر لگانے کے بعد الاسکا کے ساحل کے قریب بغیر کسی نقصان کے گر گیا۔

    ارتھ ریڈی ایشن بجٹ سیٹلائٹ (ای آر بی ایس) نامی سیٹلائٹ کو 1984 میں خلا میں بھیجا گیا تھا جو اتوار کی رات گئے الاسکا سے چند سو میل دور بیرنگ سمندر کے اوپر سے گزرا، سیٹلائٹ کے گرنے والے ملبے سے کسی قسم کے نقصان کی کوئی اطلاع نہیں ملی۔

    ناسا کے مطابق سیٹلائٹ کے کام کا متوقع دورانیہ 2 سال کا تھا تاہم اس کے بعد بھی اس کو متحرک رکھا گیا اور وہ سنہ 2005 تک اوزون اور ماحولیات کے حوالے سے مختلف معلومات ادارے تک پہنچاتا رہا۔

    سیٹلائٹ جائزہ لیتا رہا کہ زمین سورج سے کیسے توانائی جذب کرتی ہے۔

    امریکا کی پہلی خاتون خلا باز سیلی رائیڈ نے روبوٹ آرم کا استعمال کرتے ہوئے اس سیٹلائٹ کو مدار میں چھوڑا تھا۔

    اس مشن میں امریکی کی پہلی سپیس واک بھی شامل تھی جو پہلی بار کیتھرین سلیون نے کی تھی، یہ امریکا کی تاریخ میں پہلی بار تھا کہ 2 خلا نورد خواتین ایک ساتھ خلا میں گئی تھیں۔

  • ماحولیاتی آلودگی کا مشاہدہ کرنے کے لیے سیٹلائٹ کی تیاری

    ماحولیاتی آلودگی کا مشاہدہ کرنے کے لیے سیٹلائٹ کی تیاری

    لندن: برطانیہ خلا میں ایسا سیٹلائٹ بھیجے گا جو فضا میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج اور اس کے زمین پر مرتب ہونے والے اثرات کی پیمائش کرے گا۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق برطانیہ نے زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کا سبب بننے والی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج اور اس کے زمین پر مرتب ہونے والے اثرات کی پیمائش کے لیے ایک خصوصی سیٹلائٹ کی تیاری کا آغاز کر دیا ہے۔

    یورپین خلائی ایجنسی (ای ایس اے) کے زمین کا مشاہدہ کرنے والے مشن فار انفرا ریڈ آؤٹ گوئنگ ریڈی ایشن انڈر اسٹیندنگ اینڈ مانیٹرنگ (فورم) کے تحت اس سیٹلائیٹ کو ہوائی جہاز بنانے والی دنیا کی بڑی کمپنیوں میں سے ایک ایئر بس کی اسٹیون ایج میں واقع فیکٹری میں تیار کیا جائے گا۔

    اس خصوصی جہاز کی تیاری کے لیے فورم نے ایئر بس کے ساتھ 160 ملین یورو کے معاہدے کو برطانوی پارلیمنٹ میں رواں ہفتے وزیر برائے سائنس، تحقیق اور جدت جارج فری مین کی موجودگی میں عملی شکل دے دی ہے۔

    جارج فری مین کا اس منصوبے کے حوالے سے کہنا ہے کہ فورم یورپین اسپیس ایجنسی کا ایسا شاندار منصوبہ ہے جس نے ماحولیاتی تبدیلیوں پر تحقیق اور سیٹلائٹس کی تیاری میں برطانیہ کو بہت مضبوط کردیا ہے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ خصوصی سیٹلائٹ ہمارے سیارے کی سطح سے آنے والی بالائے بنفشی تابکاری کی مانیٹرنگ کرے گا، جس کے نتیجے میں گیسوں کے مالیکول جیسا کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور پانی کے بخارات کو مرتعش کرتے ہوئے کرہ ہوائی کے درجہ حرارت میں اضافے کا سبب بنتا ہے اور یہ ماحولیاتی تبدیلی کا ایک اہم پہلو ہے۔

    توقع ہے کہ اس مشن کے تحت ایک ٹن وزنی اس سیٹلائٹ کو ویگا راکٹ کے ذریعے 2027 تک مدار میں بھیجا جائے گا۔

  • آسمان میں نمودار ہونے والی تیز روشنی نے لوگوں کو خوفزدہ کر دیا

    آسمان میں نمودار ہونے والی تیز روشنی نے لوگوں کو خوفزدہ کر دیا

    ہونولولو: امریکی ریاست ہوائی میں آسمان میں ہفتے کی رات نمودار ہونے والی عجیب روشنی نے لوگوں کو خوف زدہ کر دیا۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق جزیرہ ہوائی کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ہفتے کی رات ہونولولو کے آسمان میں تیز روشنی چمکی تھی، جسے دیکھ کر لوگ ڈر گئے تھے۔

    جزیرے کے مختلف مقامات سے متعدد لوگوں نے تیز روشنی دیکھنے کی تصدیق کی، ان کا کہنا تھا کہ رات 10 بجے کے فوراً بعد ہی انھوں نے آسمان میں اچانک نہایت تیز روشنی دیکھی۔

    ہونولولو کے علاقے مولوکائی کے ایک شہری نے بتایا کہ روشنی دیکھ کر میں نے اس کی ویڈیو بنانی شروع کی، لیکن جب وہ قریب آتی گئی تو میں گھبرا گیا اور میرے منہ سے نکلا، یہ کیا شے ہے؟

    اس علاقے کے ایک اور شہری نے کہا کہ ہمیں نہیں پتا تھا کہ یہ کیا چیز ہے، کہاں سے آئی، ہاں لیکن اسے دیکھنے کا احساس خوف زدہ کرنے والا تھا۔

    آخر کار فلکیاتی سائنس دانوں نے لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیے اس کی توجیہہ پیش کی، انھوں نے کہا کہ یہ ’عجیب روشنی‘ دراصل لگ بھگ 12 سال پرانے ایک راکٹ کی تھی جو اتنے سال بعد دکھائی دی ہے۔

    ماؤناکائی آبزرویٹریز کے ماہرین نے بتایا کہ لوگوں نے جو دیکھا وہ دراصل ایک راکٹ بوسٹر کی پھر سے آمد تھی، یعنی ایک راکٹ جو 2008 میں چھوڑا گیا تھا وہ پھر سے اس مقام سے گزرا، یہ ایک چینی راکٹ کی باقیات تھی جس نے وینزویلا کے لیے ایک مواصلاتی مصنوعی سیارے (کمیونی کیشن سیٹلائٹ) کو اوپر پہنچایا تھا۔

    انھوں نے بتایا کہ بارہ سال کے عرصے میں یہ راکٹ بوسٹر بوسیدہ ہو گیا ہے، ماہرین فلکیات نے اس شے کے پرواز کے راستے کا نقشہ بھی معلوم کر لیا ہے جو جزیرہ ہوائی کے قریب تھا۔

    کینیڈا، فرانس اور ہوائی کے ایک فلکیاتی ادارے کے ڈائریکٹر میری بیتھ لیچک نے بتایا کہ ہم سو فی صد یقین سے تو کچھ نہیں کہہ سکتے کیوں کہ ہمارے پاس ملبے کا کوئی ٹکڑا موجود نہیں ہے، تاہم ہم نے اپنے ٹائم لیپس میں جس طرح کی روشنی دیکھی، اسے اس نقشے کے ساتھ جوڑ کر دیکھنے سے یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ ’وینی سیٹ 1‘ تھا جو ہماری فضا میں پھر سے داخل ہوا تھا۔

    واضح رہے کہ وینی سیٹ وَن 29 اکتوبر 2008 کو ایک چینی کیریئر راکٹ پر لانچ کیا گیا تھا، یہ سیٹلائٹ مارچ 2020 سے بے کار ہو چکا ہے۔

  • اڑن طشتریاں معلوم ہونے والی روشنیاں دراصل کیا تھیں؟

    اڑن طشتریاں معلوم ہونے والی روشنیاں دراصل کیا تھیں؟

    آسٹریلوی شہر سڈنی کے رہائشی آسمان میں چمکتی اجنبی روشنیاں دیکھ کر پریشان ہوگئے اور انہیں اڑن طشتریاں سمجھ بیٹھے، تاہم جلد ہی علم ہوا کہ یہ روشنیاں امریکی خلائی کمپنی اسپیس ایکس کے لانچ کیے جانے والے سیٹلائٹس تھے۔

    سڈنی کے ساؤتھ کوسٹ میں متعدد افراد نے بدھ کی صبح آسمان پر اجنبی نوعیت کی روشنیاں دیکھیں، کچھ افراد نے انہیں دیکھتے ہی کہہ دیا کہ اڑن طشتریاں ہیں۔

    تاہم جلد ہی علم ہوا کہ یہ روشنیاں دراصل امریکی خلائی کمپنی اسپیس ایکس کے لانچ کیے جانے والے سیٹلائٹس تھے۔

    یہ اسپیس ایکس کی 100 ویں کامیاب لانچ تھی اور یہ سیٹلائٹ کمپنی کے اسٹار لنک مشن کا حصہ تھے، یہ پروگرام دنیا بھر میں ہائی اسپیڈ انٹرنیٹ سروس کی فراہمی کے لیے شروع کیا گیا ہے۔

    یہ 58 سیٹلائٹس تھے جبکہ اس سے قبل 600 سیٹلائٹس پہلے ہی مدار میں بھیجے جاچکے ہیں۔

    ایک مقامی شخص کا کہنا تھا کہ اس نے دیکھا کہ متعدد روشنیاں ایک قطار سے آسمان کی طرف بڑھ رہی تھیں۔

    سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر کچھ افراد نے مذاقاً کہا کہ یہ خلائی مخلوق تھی جو زمین پر آئی تھی لیکن 2020 میں زمین کا حشر نشر دیکھ کر واپس جارہی تھی۔

    یہ روشنیاں انگلینڈ میں بھی دیکھی گئیں جہاں ایک شخص نے ان کی ویڈیو بھی بنا لی۔

    ایک خلائی ماہر ڈاکٹر بریڈ ٹکر کا کہنا ہے کہ زمین کے مدار میں موجود سیٹلائٹس دن بھر میں طلوع آفتاب سے 2 گھنٹے قبل اور غروب آفتاب کے 2 گھنٹے بعد تک دیکھے جاسکتے ہیں، تاہم جب انہیں لانچ کیا جاتا ہے تو یہ دور دور تک دیکھے جاسکتے ہیں۔

    ان کے مطابق ہمارے سیارے پر آسٹریلیا ایسی پوزیشن پر واقع ہے کہ خلا میں بھیجی جانے والی ہر شے آسمان میں بلند ہونے کے بعد یہاں سب سے پہلے دکھائی دیتی ہے۔

  • پاکستان نے اپنے پہلے سیٹلائٹس لانچ کردیے

    پاکستان نے اپنے پہلے سیٹلائٹس لانچ کردیے

    پاکستان نے خلا اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں اہم سنگ میل عبور کرتے ہوئے ملکی تاریخ میں پہلی بار مقامی سطح پر تیار کیے گئے سیٹلائٹ لانچ کردیے۔

    قومی ادارے اسپیس اینڈ اپر ایٹمو سفیئر ریسرچ کمیشن (سپارکو) کے مطابق لانچ کیے گئے 2 سیٹلائٹس میں سے ایک پی آر ایس ایس 1 ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ ہے جو زمین کی مختلف خصوصیات اور معدنی ذخائر کا جائزہ لے گا۔

     

    یہ سیٹلائٹ موسمیاتی تبدیلی کا بھی اندازہ لگانے میں معاون ثابت ہوگا، جس میں گلیشیئرز کے پگھلنے، گرین ہاؤس گیسز کے اثرات، جنگلات میں آتشزدگی اور زراعت سے متعلق مسائل کو حل کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔

    اس سیٹلائٹ کی لانچنگ کے بعد پاکستان کا شمار دنیا کے ان چند ممالک میں ہوگا جو زمینی مدار میں اپنا ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ روانہ کر چکے ہیں۔

    دوسرا سیٹلائٹ پاک ٹیس – 1 اے حساس آلات اور کیمروں سے لیس خلا میں 610 کلو میٹر کے فاصلے پر رہے گا اور سورج کے اعتبار سے اپنی جگہ تبدیل نہیں کرے گا۔

    دونوں سیٹلائٹس چینی ساختہ راکٹس کی مدد سے لانچ کیے گئے ہیں۔ سیٹلائٹ کی سمت کا تعین کرنے والی ٹیکنالوجی پاکستان سنہ 2012 میں ہی چین سے حاصل کرچکا ہے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ ماہ دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل نے سیٹلائٹ کی تیاری کا اعلان کرتے ہوئے بتایا تھا کہ پاکستان نے مقامی وسائل سے پاک ٹیس ون اے نامی سیٹلائٹ تیار کیا ہے جس کے تیاری کے تمام مراحل پاکستان میں طے کیے گئے ہیں۔

    انہوں نے کہا تھا کہ سیٹلائٹ زمین کے جغرافیے، موسم، ماحول اور سائنسی تحقیق میں معاون ثابت ہوگا۔ ٹیس ون اے کا وزن 285 کلو گرام ہے اور یہ 610 کلو میٹر کی بلندی پر مدار میں چکر لگائے گا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔