Tag: سیٹلائٹ

  • پاکستان نے سیٹلائٹ تیار کرلیا، آئندہ ماہ خلا میں بھیجا جائے گا

    پاکستان نے سیٹلائٹ تیار کرلیا، آئندہ ماہ خلا میں بھیجا جائے گا

    اسلام آباد: پاکستان نے ٹیکنالوجی کی دنیا میں اہم سنگِ میل عبور کرتے ہوئے ملکی تاریخ میں پہلی بار مقامی سطح پر سیٹلائٹ تیار کرلیا جسے آئندہ ماہ خلا میں بھیجا جائے گا۔

    دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل کا کہنا تھا کہ پاکستان نے مقامی وسائل سے پاک ٹیس ون اے نامی سیٹلائٹ تیار کیا جسے آئندہ ماہ خلا میں بھیجا جائے گا۔

    انہوں نے کہا کہ سیٹلائٹ زمین کے جغرافیے، موسم، ماحول اور سائنسی تحقیق میں معاون ثابت ہوگا۔دفتر خارجہ ترجمان کے مطابق ٹیس ایس ون کا وزن 285 کلوگرام ہے اور یہ 610 کلومیٹر کی بلند پر مدار میں چکر لگائے گا۔

    سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ڈاکٹر فیصل نے بتایا کہ مقامی سطح پر تیار کردہ سیٹلائٹ ریموٹ سینسنگ کے لیے استعمال ہوگا۔

    دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ سیٹلائٹ پاک ٹیس-1اے حساس آلات اور کیمروں لیس خلا میں 610 کلومیٹر کے فاصلے پر رہے گا اور پاک ٹیس-1اے سورج کے اعتبار سے اپنی جگہ تبدیل نہیں کرے گی۔

    پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے سماجی رابطے کی ویب سایٹ ٹویٹر پر اپنے پیغام میں ملک کے سائنسدانوں کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’آپ نے پاکستانی شہریوں کو فخر کرنے کا موقع فراہم کیا ہے‘۔

    ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ (آر ایس ایس) کے نام سے مشہور سیٹلائٹ کی مدد سے زمین کی متخلف خصوصیات کا جائزہ لے سکے گی اور زمین کے نیچے موجود معدنی ذخائر کا جائزہ بھی لے سکی گی۔

    خیال رہے کہ سیٹلائٹ میں نصب کیے گئے حساس آلات کے باعث آر ایس ایس موسمیاتی تبدیلی کا بھی اندازہ لگانے میں معاون ثابت ہوگا، جس میں گلئشیئرز پگھلنے، گرین ہاوس گیسز، جنگلات میں لگی آگ اور زراعت سے متعلق مسائل کو حل کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔ جبکہ سیٹلائٹ دیگر سرگرمیاں انجام دینے کی بھی صلاحیت رکھتی ہے۔

    یاد رہے کہ سیٹلائٹ کی سمت کا تعین کرنے والی ٹیکنالوجی پاکستان سنہ 2012 میں ہی چین سے حاصل کرچکا ہے۔

    قومی خلائی ادارے نے سیئٹلائٹ خلا میں بھیجنے کے حوالے سے سپارکو(پاکستان اسپیس اینڈ اپر ایٹموسفیئر ریسرچ کمیشن) اور آئی ایس پی آر سے رابطہ کیا گیا تو دونوں اداروں نے اس حوالے سے معلومات کا تبادلہ کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا۔

    واضح رہے کہ پاکستان کا روایتی حریف بھارت سنہ 1970 میں ہی اس قسم کی سیٹلائٹ خلا میں بھیج چکا ہے۔

    سابق وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ڈاکٹر عطا الرحمٰن نے پاکستانی سائنس دانوں کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی جانب سے آئندہ ماہ سیٹلائٹ خلا میں بھیجنا قابل فخر اور مثبت اقدام ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ آبزرویٹری سیٹلائٹ میں کمیونیکیشن سیٹلائٹ کی طرح بڑی، بھاری اور پیچیدہ ٹیکنالوجی کے بجائے سادہ ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے، لیکن یہ دیگر سیٹلائٹ کی طرح تمام امور انجام دے سکتی ہے۔

    ڈاکٹر عطا الرحمٰن کا کہنا تھا کہ سیٹلائٹ میں نصب کیے گئے ریموٹ سینسنگ آلات زمین سے خلا میں جانے والی الیکٹرو مگنیٹک لہروں اور تابکاریوں کا بھی جائزہ لے سکتی ہے۔

    سابق وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان خلائی سرگرمیوں کے حوالے سے خطے میں بہت پیچھے ہے، حتیٰ کہ پاکستان اپنے حریف بھارت سے بھی 25 سے 30 برس پیچھے ہے۔

    واضح رہے کہ گزشتہ برس دسمبر میں پاک فضائیہ کے ائیرمارشل سہیل امان نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان آئندہ دو برسوں میں خلائی مشن بھیجے گا جس کے لیے پاک چین تعاون سے نیکسٹ جنریشن طیارہ سازی کی جارہی ہے۔

    مزید پڑھیں: پاکستان آئندہ دو برسوں میں خلاء میں سیٹلائٹ مشن بھیجے گا، ایئر مارشل سہیل امان

    ایئرچیف کا کہنا تھا کہ حصول تعلیم کا مقصد جدید ٹیکنالوجی کا احسن استعمال اور سماجی فلاح و بہبود ہونا چاہیے، خیال رہے کہ گزشتہ برس دسمبر میں ایئر یونیورسٹی کے زیراہتمام ملکی تاریخ کی سب سے بڑی اور منفرد چار روزہ ٹیکنالوجی کی نمائش کا اہتمام کیا گیا تھا۔

    چار روزہ ٹیکنالوجی مقابلوں کے انعقاد کا مقصد ملک بھر کے قابل طلباء وطالبات کی تخلیقی اور قائدانہ صلاحیتوں کو پروان چڑھانا تھا اور اس ایئرٹیک کانفرنس میں شرکت تھی۔

    اسے بھی پڑھیں: پاکستان 2018 میں خلا میں سیٹلائٹ بھیجے گا

    یاد رہےکہ پاکستان نے اپنا اسپیس پروگرام سنہ 1961 میں بھارت سے آٹھ سال قبل شروع کیا اور بدر نامی پہلا راکٹ ناسا کے تعاون سے تیار کیا تھا، ایشیائی ممالک میں اسرائیل اور جاپان کے بعدپاکستان تیسرا ملک تھا جس نے راکٹ تیار کیا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • برفانی خطوں میں جھیلوں کی موجودگی کا انکشاف

    برفانی خطوں میں جھیلوں کی موجودگی کا انکشاف

    ایک حالیہ تحقیق کے مطابق دنیا کے برفانی خطے انٹارکٹیکا میں نیلے پانیوں کی جھیلیں بن رہی ہیں جس نے سائنسدانوں کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔

    برطانوی ماہرین نے سیٹلائٹ سے موصول ہونے والی ہزاروں تصویروں اور ڈیٹا کی بغور چھان بین کے بعد اس بات کی تصدیق کی کہ دنیا کے برفانی خطے قطب جنوبی یعنی انٹارکٹیکا میں برف کے نیچے جھیلیں بن رہی ہیں۔

    مزید پڑھیں: برفانی سمندر پر پیانو کی پرفارمنس

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ جھیلیں اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ وہاں موجود برف پگھلنے کے باعث اس کی تہہ کمزور ہو کر چٹخ رہی ہے۔ ماہرین نے اس کی وجہ کلائمٹ چینج کو قرار دیا۔

    ماہرین کے مطابق سنہ 2000 سے اس خطے کی برف نہایت تیزی سے پگھل رہی ہے اور اس عرصہ میں 8 ہزار کے قریب مختلف چھوٹی بڑی جھیلیں تشکیل پا چکی ہیں۔

    lake-2

    انہوں نے کہا کہ یہ ایک نہایت خطرناک صورتحال ہے کیونکہ اس طرح عالمی سمندروں میں پانی کے مقدار کا توازن بگڑ سکتا ہے اور مختلف سمندروں کی سطح غیر معمولی طور پر بلند ہوجائے گی جس سے کئی ساحلی شہروں کو ڈوبنے کا خدشہ ہے۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے فیس بک اور گوگل کے دفاتر ڈوبنے کا خدشہ

    ماہرین نے بتایا کہ اس کی وجہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے باعث ہونے والے عالمی درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ ہے۔ پچھلے ایک عشرے میں دنیا بھر کے مختلف ممالک میں گرمی کی شدت میں اضافہ ہو چکا ہے جس سے قطب شمالی اور قطب جنوبی کی برف پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور یہ تیزی سے پگھل رہی ہے۔

    حال ہی میں عالمی خلائی ادارے ناسا نے قطب شمالی میں تیزی سے پگھلتی برف کی ایک ویڈیو بھی جاری کی اور بتایا کہ رواں برس مارچ سے اگست کے دوران قطب شمالی کے سمندر میں ریکارڈ مقدار میں برف پگھلی۔

    دوسری جانب گلوبل وارمنگ ان برفانی خطوں کی برف کو گلابی بھی بنا رہی ہے۔ قطب شمالی کی برف گلابی اس وقت ہوتی ہے جب برف میں پرورش پانے والی کائی تابکار شعاعوں کو اپنے اندر جذب کرلیتی ہے۔ اس کا نتیجہ برفانی گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے کی صورت میں نکلتا ہے۔