Tag: شائستہ زریں

  • سمجھوتے کی چادر

    سمجھوتے کی چادر

    شکوک کے تمام مراحل بخوشی طے کیے شمع یوں مطمئن اور سرشار بیٹھی تھیں گویا کسی بہت ہی اہم فریضے سے سبک دوش ہو گئی ہوں، مگر ایسا ہرگز نہیں تھا۔
    اس سکون کے اندر ٹھاٹھیں مارتا سمندر اُنھیں اکسا رہا تھا اُس کارروائی کے لیے جس کا آغاز ان کی بدگمانی کی صورت میں ہو چکا تھا اور اب شمع سانپ کی طرح پھن پھیلائے اپنے شکار کو ڈسنے کی تیاری کر رہی تھیں جس نے اُن کا جینا عذاب کر رکھا تھا۔
    شمع کی عادت تھی کہ جب بھی کسی سے انتقام لینے کا تہیہ کر لیتیں پہلے اُسے مشکوک نظروں سے دیکھتیں اور پھر نگاہ کے تازیانے سے گھائل کر کے لسانی حربہ استعمال کرتیں۔ اُن کی حتّی الامکان کوشش یہی ہوتی کہ اپنے بے بنیاد شک کو یقین کی سرحد پر لاکھڑا کریں اور حیرت انگیز امر یہ ہے کہ وہ اپنی اس کاوش میں کام یاب بھی ہو جاتیں۔کیسے؟ یہ جاننے کی خواہش تو مجھے بھی بہت شدت سے تھی مگر چونکہ میں اُن کی زبان درازی سے خائف بلکہ تائب بھی تھی اس لیے میرا تجسّس اپنی موت آپ مرجاتا۔ کئی بار میرے دل سے آواز آئی، دماغ نے دہائی دی کہ تم بہت بزدل ہو مگر میں ہر بار نفی میں گردن ہلا دیتی…. نہیں ایسا ہرگز نہیں، پھر کیا بات ہے؟ میں اپنے آپ سے سوال کرتی بلکہ لڑتی بھی تھی کہ اگر یہ کم ہمّتی نہیں تو اور کیا ہے؟ شاید یہ اپنی عزت کی پاس داری ہے۔
    چند اچھے لفظوں کا سہارا لے کر گویا میں خود کو محفوظ کر لیتی لیکن یہی تو میری بھول تھی۔ اُن کی نظر کا ایک صر ف ایک تیر میرے حوصلے پست کر کے مجھے عدم تحفظ کا احساس دلا دیتا تب میں بے بسی سے ہاتھ مل کے رہ جاتی۔ حتیٰ کہ اس ضمن میں میری سوچ بچار بھی لاحاصل ہوتی۔ پھر یوں ہُوا کہ میں نے اُن کے بارے میں سوچنا ہی ترک کر دیا کہ نہ اُن کا خیال آئے گا نہ ہی تکرار کا یہ لامتناہی سلسلہ مجھے اپنی گرفت میں لے کر پریشان کرے گا۔ جب کوئی تعلق ہی نہیں تو پھر وہ کیسے مجھے اپنا ہدف بنائیں گی؟ دل کو تسلی دے کر اپنے تئیں میں مطمئن ہو گئی تھی مگر یہی تو میری خام خیالی تھی۔
    میں جو اپنی دانست میں یہ سمجھ بیٹھی تھی کہ میرا اُن سے کوئی واسطہ نہیں۔ نہیں جانتی تھی کہ میری بے خبری میں اُنہوں نے تیر چلایا تھا اور مجھ سے اپنے تعلق کی ڈور بہت مضبوط کر لی تھی۔ مگر کب اور کیسے؟ میں نے خود سے سوال کیا۔ اپنے سوال کا جواب تو مجھے نہ مل سکا ہاں یہ انکشاف ضرور ہو گیا کہ شمع نے مجھ سے وہ ناتا جوڑ لیا جو بے اطمینانی کی فضا میں سانس لیتا ہے اور رفتہ رفتہ انتقام کی آگ میں جل کر ایک دن شعلہ بن کر بھڑک اٹھتا ہے۔ جی ہاں اُنہوں نے مجھ سے حسد کا رشتہ استوار کر لیا تھا۔ مگر کیوں؟
    تحقیق کرنے پر معلوم ہُوا کہ میرا اطمینان اُن کی نظروں میں خار بن کر کھٹکتا ہے، میری درگزر کی عادت انہیں پسند نہیں اور میں جو سمجھوتہ کرنے کی عادی ہوں اور اس وجہ سے نہ صرف خود پُرسکون رہتی ہوں بلکہ اوروں کو بھی شکایت کا موقع نہیں دیتی، انجانے میں اپنی اس عادت کی وجہ سے اُن کے لیے باعثِ تشویش بن گئی۔ کچھ اس طور کہ مجھ سے حسد کے عارضے میں مبتلا ہو کر انہوں نے مجھے اپنا شکار بنا لیا۔ اب وہ کسی بھی وقت اپنے انتقام کا نشانہ بنا کر خود تو سکھ چین کا سانس لیں گی لیکن میرا تمام سکھ چین اپنی منتقم مزاجی کی نذر کر دیں گی۔
    اس خیال ہی نے میری نیندیں اُڑا دی تھیں۔ چونکہ میں اس امر سے بخوبی واقف تھی کہ شمع اپنے انتقام کی آگ میں لوگوں کو بھسم کر کے رکھ دیتی ہیں اور اب تو شاید میری راکھ بھی کسی کو نہ ملے۔ اس سے پہلے کہ میرے حواس معطل ہوجاتے ایک نکتہ اندھیرے میں روشنی کی کرن بن کر نمودار ہوا کہ ”اگر میں اُن کی سوچ کا رخ موڑ دوں تو؟ شاید اس طرح نہ صرف میرا بلکہ میرے طفیل بہت سوں کا بھلا ہو جائے گا۔“ مگر کسی کے مزاج کی تبدیلی کوئی آسان بات نہیں۔ اپنے ہی خیال کی تردید کر کے میں نے بے بسی سے سر تھام لیا، لیکن یوں کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینے سے بات نہیں بنے گی، وہ بھی اس صورت میں جب کئی بار میں خود کو یقین دلا چکی ہوں کہ میں بزدل نہیں، اگر یہ بزدلی نہیں تو اور کیا ہے؟ قدرے جھنجھلا کر میں نے اپنے آپ کو سرزنش کی۔
    اور پھر ہُوا یہ کہ جو کام ہفتوں بہت غور و فکر کے بعد بھی میں نہ کر پائی تھی وہ محض ایک پَل میں ہو گیا اور اگلی ہی ساعت میں حیرت انگیز مسرت اور نم آنکھوں سے شمع کو دیکھے گئی کہ اُن کے مزاج میں یہ تبدیلی آئی کیسے؟ ”اب تم گٹھلیاں کھانے نہ بیٹھ جاؤ بس آم سے لُطف اندوز ہو۔“ میرے دل نے مجھے بے نیازی کی ایک نئی راہ دکھائی تو میں بھی اس راہ پر چل نکلی مگر اس اعتراف کے ساتھ کہ بیشک
    تقدیر بدلتی ہے دعاؤں کے اثر سے
    بظاہر بات بہت معمولی سی تھی لیکن یہی شمع کے ستم گزیدوں کے لیے وجہِ رحمت بن گئی۔ نیلو کے گھر ہونے والی ون ڈش پارٹی میں شمع سرخ ٹیشو کی بھڑک دار ساڑھی باندھ کر گئی تھیں، اُنہیں دیکھ کر رانی کی دیورانی رفیعہ تمسخر سے مسکرائیں تب شمع نے حسبِ عادت اُن پر مشکوک نظر ڈالی تو اُنہیں بھی اپنی جانب متوجہ پایا اب عالم یہ تھا کہ دونوں ایک دوسرے پر مشکوک نگاہی کے تیر برسا رہی تھیں۔ رانی کی ساس تو پہلے ہی چھوٹی بہو کو حرفوں کی بنی کہتی ہیں اور اس گھڑی تو واقعی اُن کی رائے درست ثابت ہو گئی جب اُن کی حرافہ بہو نے سرِ محفل ایک مستند اور ماہر منتقم مزاج کے انتقام کی آگ سرد کر دی۔ محض ا تنا کہہ کر کہ ”بہن ایسی آگ برساتی کینہ توز، انتقامی اور مشکوک نظروں کی مار مجھے نہ مارو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ برق تم پر گر کے تمہیں راکھ ہی نہ کر ڈالے کہ مجھے لوگوں کا کچا چٹھا کھولنے میں مہارت ہے اور میں…“ ابھی رفیعہ کی بات نامکمل ہی تھی کہ شمع نے اُن کے آگے ہاتھ جوڑ کر ملتجی نظروں سے اُنہیں دیکھا تو وہ مسکراتی ہوئی آگے بڑھ گئیں۔ جاتے جاتے شمع کا دف بھی مار گئیں کیونکہ اس روز تمام اہلِ محفل کے لیے یہ بہت حیرت انگیز بات تھی کہ شمع کی آنکھوں سے شک اور انتقام کی چنگاریاں ایک مرتبہ بھی نہیں پھوٹی تھیں۔
    بس اسی دن سے شمع کے انتقام کی آگ سرد پڑ گئی اور اُن کے شک سے مزین رویے اب اُن کے احباب کی اذیت کا باعث بھی نہیں بنتے۔ یہ خوش آئند بات سہی لیکن مجھ سمیت کئی لوگ جاننا چاہتے تھے کہ آخر وہ کون سی بات تھی جس نے شمع کو یوں بدل کر رکھ دیا تھا اور اس کا سراغ کوئی لگا ہی نہیں پا رہا تھا۔ شومئی قسمت کہ ایک روز سرِ راہ رفیعہ سے ملاقات ہوگئی۔ میں نے اُن ہی سے معلوم کیا کہ اُس روز نیلو کے گھر آپ نے شمع سے کیا کہا تھا کہ اُن کی بولتی بند کر کے کئی خواتین کی عزّت محفوظ کر لی۔“ رفیعہ نے بے ساختہ قہقہے برساتے ہوئے اطلاع دی کہ شمع کی ایک کمزوری میرے ہاتھ لگ گئی تھی بس اسی سے میں نے فائدہ اٹھا لیا۔ ایک ملاقات میں شمع کے منہ سے نکل گیا کہ ”رشک، حسد اور انتقام کی آگ میں جلتے رہنے کی عادت کی وجہ سے اب اکثر میری ہانڈی جل جاتی ہے جس کے نتیجے میں مجھے اپنے میاں کی جلی کٹی سُننی پڑتی ہیں اور آج تو اُنہوں نے صاف کہ دیا ہے کہ اگر اب مجھے جلی ہانڈی ملی تو تمہارے حق میں بہتر نہ ہوگا، ایسا نہ ہو کہ جلی ہانڈی کھلانے کے نتیجے میں تمہیں ہجر کی آگ میں جلنا پڑے۔“ یہی وہ ہتھیار تھا جو میں نے شمع پر آزمایا تھا۔ چوٹ بھی تازہ تھی اسی لیے اُنہوں نے ہتھیار ڈال دیے، کیونکہ شمع کی زبانی یہی سنتے تھے نا کہ اُن کے میاں اُنہیں سَر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں، اور اُنہوں نے معدے کی راہ سے اُن کے دل میں اس طرح جگہ بنائی ہے کہ اب اور کسی خاتون کا کوئی بھی نسوانی حربہ اُن کے میاں جی کو زیر نہ کر سکے گا، اور یوں بھی طبعاً وہ بہت قانع ہیں، خاص کر کھانے کے معاملے میں کوئی نخرہ نہیں، جیسا کھلا دو ہنسی خوشی بغیر کہے سنے کھالیں گے۔“
    قصہ مختصر شمع کو خدشہ تھا کہ میں جو کہتی ہوں کرنے میں وقت بھی نہیں لگاتی۔ اور اگر اُن کے کہے الفاظ دہرا کر اپنا ہنر اُن پر آزما لیتی تو سرِ بزم اُن کی جو بھد اُڑتی تو وہ کبھی فخر سے سر نہ اُٹھا سکیں گی۔
    رفیعہ کی بات سن کر میں بے اختیار ہنستی چلی گئی۔ جی نہیں قارئین میں باؤلی ہرگز نہیں ہوئی تھی۔ میری ہنسی کا سبب تو صرف یہ تھا کہ میری جس عادت سے حسد کی بنا پر خاتون مجھے انتقام کا نشانہ بنانا چاہ رہی تھیں اب وہی عادت اُنہیں جبراً اختیار کرنی پڑ رہی تھی۔ درست سمجھے آپ قارئین! شمع نے اپنی ایک بھول کی سزا سمجھوتے کی صورت جھیلی تھی مگر مجھے اس خوف سے نجات دلا دی تھی جو تلوار کی طرح ہر دم میرے سر پر لٹکا رہتا تھا کہ جانے کب اور کیسے میرے سمجھوتے کی عادت سے حسد کی بنا پر خاتون بھری محفل میں میری تذلیل کر دیں گی۔ اب تو خود ہر پل اُن کے سَر پر سمجھوتے کی تلوار لٹکی رہتی ہے کیونکہ یہ تو وہ جانتی ہی ہیں کہ اگر شمع سیر ہیں تو رفیعہ سوا سیر۔ اور اُن کا یہی بھاری پلڑا اب شمع کو ہاتھ ہلکا رکھنے پر مجبور کر رہا تھا۔
  • ساس بہو کا سالانہ جھگڑا

    ساس بہو کا سالانہ جھگڑا

    ساس:: خادم بیٹا یہ کیسا شور ہے اور فائرنگ کی آوازیں کیسی ہیں؟

    خادم:: امّی حضور! پریشان نہ ہوں کبیر صاحب کے ہاں پانچ بکرے اور دو بیل آئے ہیں۔ اس خوشی میں فائرنگ ہو رہی ہے۔“

    ساس:: ہاں بھئی خوشی کا موقع ہے، خادم بیٹا! تم کب لا رہے ہو جانور؟

    خادم:: امی حضور میں تو روز جاتا ہوں۔ جانوروں کے دام میرے ہوش اڑا دیتے ہیں۔ جانور اتنا مہنگا ہے معلوم نہیں خرید بھی پاؤں گا کہ نہیں؟

    بہو:: آپ کے ہوش کا کیا ٹھکانہ خادم! وہ تو سستی اشیاء دیکھ کر بھی اڑ جاتے ہیں، اب لے ہی آئیں، ہاں اس بار تگڑا بکرا لائیے گا، دو سال سے ایسا کمزور جانور آرہا ہے کہ میرے میکے والو ں کا حصہ تو لگتا ہی نہیں، اس دفعہ پنکی کو ران بھی ضرور جائے گی۔

    ساس:: کیوں بھئی پنکی کے لیے ران اتنی لازمی کیوں ہے؟ ایک ران میری رانی کو جائے گی اور دوسری میں خود رکھوں گی، رانی کے سسرال والوں کی دعوت میں بھون کر کھلاؤں‌ گی۔

    بہو:: ایک رانی اور ایک پنکی کو چلی جائے گی۔ ہو سکے تو دو بکرے لے آئیے گا، دو رانیں گھر میں رکھ لیں گے اس سے جھگڑا بھی نہیں ہوگا اور انصاف سے سب کا حصہ بھی لگ جائے گا۔“

    بیٹا:: یہاں تو ایک ہی کے لالے پڑ رہے ہیں بیگم صاحبہ نے دو کی فرمائش کردی۔

    ساس:: ہاں بھئی بڑی دیالو ہیں تمہاری بیگم۔ منہ دھو رکھو ملکہ، تمہارے میکے میں گوشت کا ایک ٹکڑا بھی نہیں جائے گا اور پَر کٹی پنکی کے لیے تو میں ہرگزنہ مانوں۔“

    بیٹا:: ملکہ ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہے امی اور پھر رانی کی شادی کو دس سال ہو گئے۔ ران ہر سال رانی ہی کو جاتی ہے، پنکی کی شادی کو تو ابھی دو سال ہی ہوئے ہیں، دو بکرے آگئے تو ایک ران پنکی کو بھی چلی جائے گی۔ ملکہ تم دل چھوٹا نہ کرو، دعا کرو دو بکرے مل جائیں تو بہن اور سالی دونوں کا حق ادا کر دوں گا۔“

    ساس:: بک بک بند کر، بس چُپ کر

    بیٹا:: ابھی تو میں جانور لینے گیا تک نہیں اور شروع ہو گیا ساس بہو کا سالانہ جھگڑا۔ میں منڈی جارہا ہوں۔
    ٭٭٭
    ساس:: سات گھنٹے ہو چلے ہیں خادم کو گئے ابھی تک نہیں آیا اور بہو! تم کیا کھاتہ کھول کر بیٹھ گئیں؟

    بہو:: رش بھی تو بہت ہوتا ہے۔ آجائیں گے، پریشان نہ ہوں، ہاں میں فہرست بنا رہی ہوں گوشت کے حصوں کی۔“

    ساس:: میں بھی تو سنوں کیا فہرست بنا رہی ہو؟

    بہو:: ایک ران پنکی کی۔

    ساس:: ہرگز نہیں، اللہ رکھے ایک ہی تو میری بیٹی ہے وہ بھی تمہاری نظروں میں خار بن کر کھٹکتی ہے۔

    بہو:: میری بھی ایک ہی بہن ہے جس کا نام آتے ہی آپ انگارے چبانے لگتی ہیں۔

    ساس:: کیوں نہ چباؤں انگارے وہ کلموہی میری بچّی کا حق مارے، میں کچھ نہ کہوں۔ تم اگر ملکہ ہو بہو بیگم تو میں بھی نواب بیگم ہوں، تم سیر ہو تو میں سوا سیر۔“

    بیٹا:: ساس بہو میں کیا تکرار ہو رہی ہے؟ یہ لیجیے آ گیا ہمارا بکرا۔

    ساس:: جیتے رہو بیٹا، کیسا پیارا صحت مند بکرا لائے ہو، پھٹکری دینا بیٹا نظر اتار دوں۔ نظر نہ لگ جائے کہیں میرے پیارے بکرے کو۔

    بہو:: نظر بعد میں اتروائیے گا خادم، پہلے میری سن لیجیے، اس بار ران میری پنکی کو ضرور جائے گی اور پائے امی کے گھر جائیں گے۔ میرے سارے بہن بھائی بھرپور گوشت بھیجتے ہیں اور میں بیچاری۔“

    ساس:: ہاں ہاں تم بیچاری، درد کی ماری، ارے سب سمجھتی ہوں تمہارے چلتر پن کو، کچا گوشت بیشک میکے نہیں بھیجتیں لیکن گوشت پکا کرخوب بھر بھر میکے والوں کی دعوتیں جو کرتی ہو اس کا کوئی ذکر ہی نہیں، مجھ سے پوچھتی تک نہیں کہ
    بتا اماں، تیری رضا کیا ہے

    غضب خدا کا میرے بیٹے کی خون پسینے کی کمائی اپنے میکے والوں پر ایسے لٹاتی ہے جیسے اس پر ان ہی کا تو حق ہے۔ سن لو ملکہ عالیہ پائے تو میں رانی کے سسرال والوں کی دعوت میں پکاؤں گی۔ ایک ران میری رانی کو جائے گی اور دوسری کا ران روسٹ بناؤں گی۔

    بہو:: اور میں نے بھی کہہ دیا پنکی سسرال میں نئی ہے۔ ران اگر پرانی بیاہی رانی کو جائے گی تو میری پنکی کو بھی جائے گی۔

    ساس:: کیسے جاتی ہے پنکی کو ران؟ میں بھی دیکھتی ہوں، انھیں خیال نہ آیا کہ میں اپنی ملکہ آپا کے لیے ران بھیج دوں، اتنا بڑا بیل آیا تھا، ایسی کنجوس کے لیے تو میں ہرگز نہ مانوں۔

    بہو:: ران ہی تو نہیں بھیجی تھی پنکی نے، گوشت کیسا بھرپور بھیجا تھا میری بہن نے، دیکھ کر پانی بھر آیا تھا آپ کے منہ میں، سب یاد ہے مجھے آپ کی فرمائشیں، جیسے ہی گوشت آیا، آپ کی رال ٹپکنے لگی تھی، اے بہو! اس کی تو بریانی پکا لینا، خاص بریانی کا گوشت ہے، جب میں نے بریانی پکائی تو ڈکار پر ڈکار لے رہی تھیں لیکن کھانے سے ہاتھ نہیں کھینچ رہی تھیں، ہڈیاں تک اچھی طرح سے سوتی تھیں۔ آپ کا تو وہ حال تھا ”جان جائے خرابی سے ہاتھ نہ رکے رکابی سے۔“

    ساس:: ہاں بہو کم ظرفی دکھاؤ، یہی ہے تمہاری اوقات۔ دو نوالے کیا کھا لیے اس کو اتنا بڑھاوا دے رہی ہو۔ سن رہے ہو خادم، اپنی بیگم کی گز بھر کی زبان کیسے ماں کی بے عزتی کر رہی ہے اور تم منہ بند کیے بیٹھے ہو زن مرید، پَر کٹی پنکی کے لیے تو میں ہرگز نہ مانوں چاہے آج زمین آسمان ایک کر دے۔“

    بہو:: میں بھی کسی سے کم نہیں۔ ایک ران پنکی کو ضرور جائے گی، مما پپا ہمیشہ پنکی کے نام کی ایک ران الگ رکھتے ہیں۔“

    ساس:: تو کہو اپنے اماں باوا سے نبھائیں اپنی روایت۔ ایک کیا چار رانیں بھیجیں پنکی کو۔ دس سال تو تمہاری شادی کو ہوگئے، آج تک ایک ران بھی نہ بھیجی اماں باوا نے تمہارے واسطے۔ وہ پنکی بیگم کہاں کی نواب زادی ہیں جن کے لیے ایک ران لازمی ہے۔

    بہو:: نواب زادی تو آپ کی رانی ہے مہا رانی، دختر نواب بیگم۔ خادم کیوں منہ بند کیے بیٹھے ہیں کچھ تو کہیے۔

    ساس:: ”ہاں بیٹا تم بھی ساز چھیڑ دو تم کیوں خاموش ہو۔“

    خادم:: کروں تو کیا کروں اور کہوں تو کیا کہوں؟ میں غریب۔

    ساس::
    کہ دو تم بھی اپنے دل کی بچے
    تم تو ہو ہی من کے سچے

    بہو:: ہاں آپ بھی بھڑاس نکال لیں کہیں دل کے ارمان دل ہی میں نہ رہ جائیں۔

    خادم:: دل کے تار سلامت ہوں گے تو ارمان نکلیں گے، میرے تو حواس بھی چھوٹے جا رہے ہیں ساس بہو کے جھگڑے میں۔

    بہو:: بند کریں خادم اپنا راگ۔ آپ کے دل کے تار ٹوٹیں یا حواس چھوٹیں میری پنکی کو ران ضرور جائے گی۔“

    ساس:: اگر تم کھال اتارنے میں ماہر ہو بہو! تو میں بھی کھال کھینچنے میں کسی سے کم نہیں۔

    بیٹا:: (منمناتے ہوئے) کھال میں لُوں گا۔

    ساس:: خادم بیٹا تمہیں کھال کی اچھی سوجھی۔ کیا کرو گے کھال لے کر؟

    بیٹا:: یتیم خانے میں دوں گا امی حضور۔

    ساس:: کیوں دو گے یتیم خانے میں؟ یتیم تم بھی ہو اور میں بھی تمہارے باپ کو مرے پانچ برس اور میرے باپ کو مرے پچّیس سال ہوگئے، زیادہ حق میرا بنتا ہے، اس لیے کھال تو میں ہی لوں گی۔ یوں بھی میں نے غفار بھائی سے پہلے ہی معاملہ طے کر لیا ہے۔ ان کے ہاتھوں فروخت کروں گی۔

    بہو:: فرمائش بھی دل والوں سے کرتے ہیں خادم! مجھ سے کہتے اپنا دل چیر کر رکھ دیتی آپ کے آگے۔

    ساس:: ہاں بھئی ”ماں سے بڑھ کر چاہے پھاپھا کٹنی کہلائے“ بی کٹنی نکلتا کیا تمہارے دل سے۔

    بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
    جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا

    بہو:: ظاہر ہے جب سارا لہو آپ نچوڑ لیں گی تو بچے ہی گا کیا؟ خادم آپ لے لیجیے گا کھال۔

    ساس:: کباب میں ہڈی آپ خاموش رہیں تو بہتر ہے، ہاں خادم بیٹا! غفار بھائی سے میں کھال کے بدلے میں بچھیا خریدوں گی اپنی رانی بٹیا کے لیے۔

    بہو:: آپ بھی ساون کی اندھی ہیں ادھر قربانی کے جانورکی بات چلی ادھر آپ کو ایسی ہری ہری سوجھتی ہے کہ باغ کا سبزہ بھی ماند پڑ جاتا ہے۔

    ساس:: تمہاری زبان کے آگے تو خندق ہے لیکن میں بھی میں ہوں۔ کھال کا جو فیصلہ میں نے کر لیا سو کر لیا۔ اب میں کسی کی نہیں مانوں گی۔ ہرگز بھی نہ مانوں۔

    بہو:: میں بھی دیکھتی ہوں کیسے نہیں مانیں گی؟ کیسے جاتی ہے آپ کی رانی کو ران؟

    ساس:: رانی کے ابا حضور کا ذوق اچھا تھا بکرا ایسا لاتے دیکھ کر میرا دل خوش ہوجاتا اور پھر رانی کی فرمائش پر ایسا سجاتے کہ سارا محلہ اکٹّھا ہو جاتا، خادم بیٹا تم! بھی اپنے بکرے کو ویسا ہی سجا کر اپنے ابا حضور کی یاد تازہ کر دو۔

    بہو:: باسی یادیں تازہ کرتے ہوئے پنکی کو نہ بھول جائیے گا۔ اگر رانی مہارانی کو ران جائے گی تو پنکی بھی محروم نہیں رہے گی۔

    ساس:: اس کا فیصلہ بھی ابھی ہو جاتا ہے، اچھا خادم یہ بتاؤ بیٹا ”بکرا کس کے نام کا ہے؟“

    خادم:: یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے؟ آپ کے نام کا ہوتا ہے آپ کے نام کا ہوگا۔

    ساس:: سن لیا ملکۂ عالیہ، فیصلہ تو ہو گیا۔ میرے نام کا بکرا، میری مرضی جس کا جو حصہ لگاؤں۔

    بہو:: خادم اس بار میرے نام کی قربانی کر دیجیے۔“

    ساس:: ارے کیسے کر دے، کیوں بھئی خادم کس کے نام کی قربانی ہو گی؟

    بیٹا:: آپ کے نام کی امی حضور۔

    ساس:: شاباش میرے بیٹے شاباش، کیسا ماں کا دل رکھتا ہے میرا خادم۔

    بہو:: (روتے ہوئے) یہ نا انصافی ہے خادم کیا آپ کی کمائی پر میرا کوئی حق نہیں؟

    ساس:: ہے کیوں نہیں سارا سال تم ہی تو ڈکارتی ہو۔

    بہو::
    کر لو تم اپنی من مانی مہارانی
    اگلے برس ہوگی میری حکمرانی

    ہاں ساسو جی تم دیکھ لینا اگلے برس میرا راج ہوگا اور تمہاری ”میں“ کند چھری کی زد پہ ہوگی پھر کیسے کہو گی ”میں تو ہر گز نہ مانوں“

    ساس:: ارے تو کیا اگلے برس تم مجھے سولی پہ چڑھا دو گی؟ جب تک میں زندہ ہوں میری ”میں“ تند چھری کی زد پہ رہے گی۔

    میں نے کبھی کسی کی نہ مانی ہرگز بھی نہ مانی
    میں ہُوں اپنی ”میں“ کی رانی سُن لو میری بہو رانی

    اور ہاں پَر کٹی پنکی کے لیے تو میں ہرگز بھی نہ مانوں۔
    ٭٭٭٭
    بیٹا:: ہائے امی حضور میں لٹ گیا تباہ ہو گیا، ساس بہو کی کل کل نے سب ختم کردیا۔ ہائے میرے خون پسینے کی کمائی کیسے چٹ پٹ ہو گئی، ہائے میرا بکرا اتنا مہنگا خریدا تھا۔

    بہو:: کیا ہو گیا آپ کی امی حضور کے بکرے کو؟

    ساس:: کیا ہوا میرے بکرے کو؟

    بیٹا:: یہ سب آپ دونوں کی وجہ سے ہوا ہے، آپ لوگوں کی میں میں نے برکت ہی اٹھا دی۔

    ساس بہو:: ہوا کیا ہے؟

    بیٹا:: امی حضور بکرا نہیں ہے۔

    ساس:: بکرا نہیں ہے؟ فجر کی نماز پڑھ کر تو میں نے خود اسے چارا دیا ہے۔

    بہو:: قربانی کا جانور اور نیت اچھی نہ ہو تو ایسا ہی ہوتا ہے ساس حضور۔

    ساس:: اری چپ کر بدبخت
    ہستی ہی تیری کیا ہے بھلا میرے سامنے

    ہائے خادم بیٹا! میرا تو دل بیٹھا جا رہا ہے، ہائے میرے بچے کہیں سے بکرا ڈھونڈ کر لاؤ، اب میں کیا کروں گی، ہائے میرا بکرا۔

    بیٹا:: کہاں سے لاؤں امی حضور؟

    ساس:: ہائے بیٹا! میرا بکرا

    بہو:: ہائے امی کی نیت کھا گئی بکرے کو

    ساس:: میری نیت یا تمہاری پنکی کی نیت؟

    بیٹا:: ختم کریں بک بک جھک جھک۔ آپ دونوں کی میں میں سے بکرا گیا ہاتھ سے، ار ے ایک کی نہیں دونوں کی نیت خراب ہے

    ہائے بکرا، وائے بکرا
    کھا گیا دونوں کا جھگڑا

    (تحریر: شائستہ زریں ؔ)

  • وہم کی دوا کرے کوئی…

    وہم کی دوا کرے کوئی…

    ہمارے معاشرے میں دیگر امراض کی طرح وہم کا مرض بھی عام ہے جس نے زندگی کے سفر کو بہت مشکل بنا دیا ہے۔ توہّم پرستی کو پروان چڑھانے میں میڈیا کا بھی کردار ہے، بالخصوص پڑوسی ملک کی تہذیب و ثقافت اس بری طرح ہم پر اثر انداز ہوئی کہ ہم اپنی چال بھی بھول گئے۔

    بارات آتے ہی آئینہ ٹوٹ گیا۔ اس اطلاع کے ساتھ فرمان بھی جاری ہوگیا کہ بارات واپس جائے گی کہ آئینہ ٹوٹنا بدشگونی ہے، اس لیے دلہن منحوس قرار پائی، اب وہ تمام عمر بن بیاہی ہی بیٹھی رہے۔ شگون صنفِ نازک سے ہی کیوں لیا جاتا ہے، مرد اس سے مبرا کیوں ہے؟ یہ عقدہ کبھی نہ کھل سکا۔

    ہمارے معاشرے میں بھی وہم کا شکار متحرک کردار اپنے واہموں کی روشنی ہی میں نیک و بد کا اندازہ لگا کر بہت سے تاریک فیصلے کر کے مستقبل کا لائحہ عمل مرتب کرتے ہیں۔ بڑی اماں اور چھوٹی کا شمار بھی ایسے ہی کرداروں میں ہوتا ہے جن کے واہمے پلو سے بندھے رہتے ہیں۔

    زین بھیا آندھی طوفان کی چال چلتے ہوئے آئے جس کے نتیجے میں بڑی اماں کی چپل پر چپل چڑھ گئی۔ ”آج ہی میں نے تہیہ کیا تھا کہ ہفتہ بھر تک گھر سے باہر قدم بھی نہیں نکالوں گی، دیکھو تو دلہن کیسے چپل پر چپل نے چڑھ کر میرے باہر جانے کا سامان کر دیا۔ دیکھو آج میری ڈولی کس کی ڈیوڑھی پر جاکے اترتی ہے۔

    ”بس تو پھر آجائیے شام کو ہمارے گھر بینا کے سسرال والے آرہے ہیں۔“ ثمر خالہ نے کہا، ”جُگ آؤں گی اور کیوں نہ آؤں؟ یہ تو اللہ کی طرف سے ہے۔“

    دو سالہ حرا کو قینچی سے کھیلتے دیکھ کر بڑی اماں نے لپک کر اس کے ہاتھ سے قینچی چھینی، ناسمجھ بچّی تڑپ کر آگے بڑھی اور قینچی دوبارہ اٹھالی تو بڑی اماں نے اس زور سے قینچی چھینی کہ حرا کا ہاتھ زخمی ہو گیا۔ حرا بلک بلک کر رونے لگی۔

    ”اے بی ہاتھ سے قینچی تو رکھ دو، کیا امّاں باوا میں فساد کرواؤ گی؟ سکھ سے رہتے اچھے نہیں لگ رہے تم کو۔“

    بڑی اماں دیکھیے حرا کے ہاتھ سے خون بہہ رہا ہے۔ منجھلی بھابھی نے بیٹی کو اٹھایا تو وہ کہنے لگی، ”دیکھ لو میں نے کیا کہا تھا آج پہلی مرتبہ تم نے میرے سامنے زبان کھولی ہے، ہو گئی ابتدا جھگڑے کی۔ اب دیکھنا رات تک تم میاں بیوی میں بھی چخ چخ ہوگی۔“

    ”اللہ نہ کرے بڑی امّاں آپ کے وہم پر خاک۔ منجھلی بھابھی سے برداشت ہی نہ ہو سکا۔

    ”ہائے ہائے صغیر کی پوتی اُسے کھا گئی۔“

    ”ہائیں کیا کہہ رہی ہیں آپ، صغیر چچا کی نومولود پوتی کیا آدم خور ہے؟ جو اپنے دادا کو کھا گئی۔“

    منجھلی دلہن نے اپنے میاں کی لاڈلی دادی کو حیرت سے دیکھا؛ ”منجھلی دلہن! تمہیں تو ہر وقت مذاق سوجھتا ہے۔ اِدھر بچّی دنیا میں آئی اُدھر دادا نے رخصت لی۔ کیسی سبز قدم اور منحوس لڑکی ہے۔“

    ”بڑی امّاں صغیر چچا کی موت اسی وقت لکھی تھی اس میں میں بچّی کا کیا قصور؟

    ”ہاں بھئی تم تو کہو گی، خود تمہاری بہن بھی تو اپنے چچا کی ساس کو نگل چکی ہے۔“

    ”بڑی اماں اگر مہرو کے عقیقے کے روز چچی جان کی امّی کا انتقال ہو گیا تو بھلا اس کا کیا قصور؟ آپ اور چھوٹی حد سے زیادہ وہمی ہیں بلکہ وہم کی پتلیاں ہیں، چھوٹی بھی تو آپ کی لاڈلی پوتی ہے۔ ٹھیک ہی تو کہتے ہیں یہ کہ بڑی اماں کی جانشین ہے چھوٹی۔“

    چھوٹی آپا کے واہموں نے بھی تو گھر بھر کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ وہمی تو وہ خیر بچپن ہی سے تھیں لیکن اب پڑوسی ملک کے ڈراموں نے اُن کی آتشِ وہم کو خوب بھڑکایا تھا، نازک اندام چھوٹی آپا جی بھر کر وہمی تھیں۔ انہیں اتنے عجیب و غریب اور توانا وہم ستاتے تھے کہ دیکھنے اور سننے والے دم بخود رہ جاتے۔ منجھلی بھابھی کو اُن کے واہموں سے سخت کوفت ہوتی۔ اسی بات پر اکثر دونوں میں کھٹ پٹ ہو جاتی اور وہ دن تو منجھلی بھابھی بھلائے نہیں بھولتیں جب، کلفٹن جانے کا پروگرام کئی روز سے ٹل رہا تھا۔ اُن دنوں موسم بھی توایسا تھا کہ سمندر پر جانے کی اُمنگ موجوں کی روانی کی مانند بڑھتی جا رہی تھی۔ لیکن مسائل اور ذمہ داریاں شوق کی راہ کا بھاری پتھر ثابت ہورہے تھے۔ کبھی کوئی کسی مسئلے کا شکار ہوتا، کبھی کسی کی ذمہ داری مہلت نہیں دے رہی تھی، جب کہ طے یہ تھا کہ تمام گھر والے پکنک پر جائیں گے۔ اسی ادھیر بن میں بالآخر اتوار کے دن کلفٹن جانے کے پروگرام کو حتمی شکل دے دی گئی۔

    روانگی کے وقت کوّے نے منڈیر پر کائیں کائیں کی تان لگا دی جسے سنتے ہی آن کی آن میں چھوٹی آپا نے اعلان کر دیا۔

    ”آج تو ہم گھر سے باہر کہیں نہیں جائیں گے مہمان آئیں گے۔“

    منجھلی بھابھی نے جو یوں اچانک پروگرام خطرے میں پڑتے دیکھا تو چڑ ہی تو گئیں۔ ”کیوں بی چھوٹی! تمہیں کیا الہام ہوا ہے؟“

    ”الہام کی کیا بات ہے، برسوں پرانی ریت ہے، دیکھ لیجیے گا آج کوئی ضرور آئے گا۔“

    ”آخر کون آئے گا؟ جس کے لیے تم نگاہیں فرشِ نگاہ کیے بیٹھی رہو گی۔“ بھابھی چٹخ کر بولیں۔

    ”ابھی دنیا لوگوں سے خالی تو نہیں ہُوئی پھر ہم آج کل اسمارٹ بھی تو ہو رہے ہیں، شاید کوئی ہمیں ہی دیکھنے آجائے۔“

    ”ہاں ہاں کیوں نہیں عجوبۂ روزگار ہو تم، چھوٹی آپا کے چھچھور پن پر بھابھی کی طبیعت مکدر ہو گئی۔ کتنی گھٹیا ہے یہ چھوٹی بھی۔ جی ہی جی میں چھوٹی آپا کی شان میں قصیدے پڑھتی منجھلی بھابھی احتجاجاً کمرے میں بند ہو گئیں۔

    اور پھر یوں ہُوا کہ دنوں ہفتوں نہیں بلکہ مہینوں چھوٹی آپا منجھلی بھابھی کی تضحیک و تحقیر بھری نظروں اور باتوں کا نشانہ بنی رہیں۔

    ”اے بی چھوٹی کوئی کوا، بکرا، بیل کوئی اپنا، پرایا کوئی بھی تو نہیں آیا تمہیں دیکھنے۔ ہماری پکنک کا لُطف الگ غارت ہوا۔

    چھوٹی آپا کو آئے دن کسی نئے کام کا ہُلہلا اٹھتا۔ اُس روز بھی وہ بہت پُرجوش تھیں کہ یکایک اُن کی بائیں آنکھ پھڑکنے لگی اور چھوٹی آپا نے شور مچا دیا ”ہماری بائیں آنکھ پھڑک رہی ہے، اللہ خیر کرے، ہم نئے منصوبے پر کام آج تو ہرگز بھی شروع نہیں کریں گے جانے کیا انجام ہو؟ ہم ساری جمع پونجی لگا دیں اور رقم بھی ڈوب جائے، چلو اچھا ہی ہوا کم بخت صبح ہی پھڑک اٹھی کہیں دوپہربعد پھڑکتی تو ہم بیچ مُنجھدار میں بیٹھے نیا پار لگنے کا انتظار کرتے رہ جاتے۔“

    منجھلی بھابھی کو چھوٹی آپا کے واہموں سے اللہ واسطے کا بیر تھا۔ تلملا کر کہنے لگیں۔

    ”چھوٹی! بائیں آنکھ میں چیونٹی تو نہیں چلی گئی جو وہ پھڑک رہی ہے، جواز تو کچھ بھی ہو سکتا ہے، اسے بد شگونی قرار دے کر سارے کام چھوڑ کے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا دانش مندی تو نہیں۔ اب وہم اور دانش میں کوئی قرابت داری بھی تو نہیں اس میں تمہارا کیا قصور؟“

    منجھلی بھابھی کے ترکش سے نکلنے والا تیر چھوٹی آپا کے دل پر ترازو ہوگیا اور ایک مرتبہ پھر دونوں کے درمیان محاذ کھل گیا۔ یہ آئے دن کا معمول تھا، دونوں ہی اپنے اپنے موقف پر قائم تھیں۔

    سچ تو یہ ہے کہ اب چھوٹی آپا خود بھی اپنی وہمی طبیعت سے الجھنے لگی تھیں جو نو عمری ہی سے ان کی عمرکے ساتھ ہی پروان چڑھی تھی۔ اب اتنی پختہ ہوچکی تھی کہ وہ چاہنے کے باوجود اس سے چھٹکارا نہیں پاسکتی تھیں۔ وہم تو اُن کے منہ کا وہ نوالہ تھا جسے نہ وہ اُگل سکتی تھیں اور نہ ہی نگل سکتی تھیں۔ اس کشمکش کے باوجود ان کے دن کا بیشتر حصہ واہموں کی نذر ہو جاتا۔

    وہم اگر شدت اختیار کر جائے تو بیماری میں ڈھل جاتا ہے جس سے اور کئی نفسیاتی عارضے جنم لیتے ہیں جن کا علاج ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو جاتا ہے۔ مثل مشہور ہے کہ ”وہم کا دارو تو لقمان کے پاس بھی نہیں۔“ سچ یہی ہے کہ اگر اس پر قابو نہ پایا جائے تو ایک دن یہ لاعلاج مرض بن جاتا ہے۔ اگر مضبوط قوتِ ارادی ہو تو اس خامی پر قابو پایا بلکہ اس سے چھٹکارا حاصل کیاجا سکتا ہے۔

    توہم پرستی نہ صرف وہمی کا جینا محال کرتی ہے بلکہ اُس سے وابستہ افراد کی زندگی بھی دشوار بنا دیتی ہے۔ وہمی ہر سطح پر خسار ے میں جاتے ہیں۔منجھلی بھابھی کا قول بجا کہ وہم خطرناک سے خطرناک بیماری سے بڑھ کر ہولناک مرض ہے جو کبھی کبھی تو بالکل اچانک حملہ آور ہوتا ہے۔ اور بعض اوقات تو جان کے ساتھ ہی جاتا ہے۔

    (شائستہ زریں کی تحریر)

  • بے بسی کچھ نہ کھانے کی

    بے بسی کچھ نہ کھانے کی

    مثل مشہور ہے کہ ”پرہیز سب سے اچھا نسخہ ہے۔“ اور زباں زدِ عام بھی یہی ہے کہ ”پرہیز علاج سے بہتر ہے۔“ گویا معالج کی مجوزہ ادویات اُس وقت مؤثر ثابت ہو سکتی ہیں جب اُن کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر کی ہدایات پر سختی سے عمل کیا جائے جو علاج کا لازمی جزو اور پرہیز کہلاتی ہیں۔
    مصنفہ کی دیگر تحریریں اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں
    پرہیز اور علاج میں جو بنیادی فرق ہے، وہ بہت واضح ہے۔ علاج کے سلسلے میں جو رقم خرچ کرنی پڑتی ہے، پرہیز کے مرحلے سے گزرتے ہوئے اُس کی بچت ہوجاتی ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اس کے اور بھی کئی فائدے ہیں۔ ضبطِ نفس کے اس مظاہرے سے دنیا ہی نہیں عاقبت بھی سنورجاتی ہے۔ ایک ذرا دل پر جبر کیا کِیا، بیٹھے بٹھائے ہدایت یافتہ بھی ہوگئے اور جنّت کی کنجی بھی پالی۔
    ہمیں یہ مثل بہت اچھی لگتی ہے، جبھی اس پر عمل بھی کرتے ہیں، لیکن ایک مرتبہ یہی پرہیز ہمارے لیے کڑی آزمائش بن گیا۔ اس سے باعزّت گزر کے ہم سرخرو تو ہو گئے، لیکن کچھ دل ہی جانتا ہے جو دل پر ستم ہوئے۔
    ہُوا یوں کہ دانتوں کی شدید تکلیف ہمیں دندان ساز کے پاس لے گئی۔ ہمارے دانتوں کے ساتھ ڈاکٹر کا برتاؤ اُن کے پیشے کے عین مطابق تھا، سو ہم اُن کو قصور وار نہیں مانتے، لیکن وقتِ رخصت ڈاکٹر کی اس ہدایت نے ہمیں مشکل میں ڈال دیا کہ ”بی بی! دو گھنٹے تک کچھ نہ کھائیے گا۔“ بھوک ہم سے برداشت ہوجاتی ہے، لیکن یہاں تو صورتِ حال ہی مختلف تھی۔ ڈاکٹر کے کلینک سے محض چند قدم کے فاصلے پر احمد رشدی کا ترنّم کسی کے روزگار کے فروغ اور کسی کے ذوقِ طعام کا وسیلہ بنا ہُوا تھا۔
    گول گپے والا آیا گول گپے لایا
    اس سے قبل گول گپے کھانے کی خواہش نے اتنی شدت سے سَر نہ اٹھایا تھا، جتنا اس وقت ستا رہی تھی۔ ہم نے ازلی بے نیازی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے آگے راہ لی تو قلفی والا ہمارے ضبط کا امتحان لینے چلا آیا۔ ہم نے اس سے بھی نظریں چرا لیں۔ چند قدم کے فاصلے پر مونگ پھلی گرم کی صدائیں ہماری سماعت سے ٹکرا رہی تھیں تو دوسری جانب حبیب ولی محمد کی آواز بھی ہماری سماعت پر دستک دے رہی تھی۔
    دو چار قدم تو دشمن بھی تکلیف گوارا کرتے ہیں…
    چونکہ ہمیں بچپن ہی سے پرہیز علاج سے بہتر ہے کا خیال بہت بھلا لگتا ہے، سو ہم نے بدپرہیزی کے نتیجے میں ہونے والے مزید اور ممکنہ علاج سے بچنے کے لیے بچپن کی دوستی پر دھیان دیا اور دیرینہ رفاقت کا بھرم رکھتے ہوئے غیریت کی انتہا کر دی۔
    اُدھر قدم قدم پر ہر گھڑی ہمارے لیے ایک آزمائش تھی۔ یہ لیجیے”صفائی نصف ایمان ہے“ کی اطلاع دینے والے نصف ایمان سے ہاتھ کھینچے خود تو عالمِ برزخ میں کھڑے ہی تھے ہمیں بھی آزمائش میں ڈال دیا۔ گندگی کا ڈھیر چلّا چلّا کر ہمیں اپنی موجودگی کا احساس دلا رہا تھا۔ قلفی، گول گپوں اور مونگ پھلی کی خواہش کو تو ہم نے اچھے وقتوں کے لیے اُٹھا رکھا مگر غلاظت کا انبار دیکھ کر بھی پیچ و تاب کھانے کے عمل سے خود کو باز رکھنا ہمارے لیے کٹھن تھا۔ گو پیچ وتاب کھانے پر پابندی ڈاکٹر کی ہدایت میں شامل نہ تھی لیکن اس عمل کے فوری ردِ عمل کے طور پر ہمیں ایک مرتبہ پھر کلینک کا راستہ ناپنا پڑتا کہ پیچ و تاب کھانے کا عمل دانتوں کی تکلیف کے ممکنہ خاتمہ میں حارج ہوتا۔ بھلا کبھی کسی نے دانت پیسے بغیر پیچ و تاپ کھایا ہے، پرہیز سے وفا نباہنے کا یہ فائدہ تو ہوا کہ ہم مزید عذاب جھیلنے سے بچ گئے۔
    اوّل اوّل تو ڈاکٹر کے تاکیدی فقرے ”بی بی! دو گھنٹے تک کچھ نہ کھائیے گا“ نے ہمیں صبر کی راہ دکھائی تھی، لیکن اگلی ہی ساعت ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ دورانِ گفتگو ہمیں قسم کھانے کی عادت نہیں، ورنہ کوئی نیا مسئلہ درپیش ہو سکتا تھا۔ قسم کھانے کے لیے ہمیں بتیس دانتوں کے بیچ تولہ بھر زبان بہرحال ہلانی پڑتی۔ خیالات کی یلغار سے جتنا ہم نے بچنا چاہا اُتنا ہی اس کی زد میں رہے۔ ابھی ہماری سوچوں کا سفر جاری تھا کہ اچانک سڑک کے ایک جانب پڑے کوڑے پر ہماری نظر پڑی جو گلی گلی کسی کی یاد کی مانند بچھا رہتا ہے۔ جو رستہ دیکھ کر چلتے ہیں وہ یا تو خود کو بچا لیتے ہیں یا اپنا فشار خون بلند کر لیتے ہیں۔ ہمارا مسئلہ ہی اور تھا، تڑپنے اور فریاد کی اجازت تو تھی پَر پیچ پر پیچ کھانے کی نہیں۔ سو بیچ سڑک پہ پڑے کوڑے کو ہم نے نظر انداز کرنا چاہا کہ بل کھانے کا حکم نہ تھا، سو ہم نے آنکھوں ہی آنکھوں میں کوڑے کا ڈھیر لگانے والوں کو نگلنا چاہا لیکن ہماری بصارت نے بصیرت کے کہے میں آکر تعاون سے انکار کر کے ہماری رہی سہی امید پر پانی پھیر دیا۔
    ہمارا بس نہیں چل رہا تھا کہ کسی بھی طرح یہ دو گھنٹے جو دو صدیوں کے برابر لگ رہے ہیں دو پل میں بیت جائیں، پَر وقت نے کب کسی کی مانی ہے جو ہماری سنتا۔ وقت نے اپنی میعاد پوری کر کے ہی ہمیں آزادی کی نوید دی۔ اب ہم اپنے ہر اُس عمل کے لیے آزاد تھے جس کو کھانے سے نسبت تھی۔ ہاں وقت کی بے نیازی اور بے مہری کا ہمیں بہت گلہ تھا جس کی وقت کو پروا تک نہ تھی۔ اور جب وقت کی بے نیازی کے خلاف احتجاج کا خیال آیا تو وقت بیت گیا تھا کیونکہ دو گھنٹے کی میعاد پوری ہو چکی تھی اور ہم پر سے کچھ نہ کھانے کی قید بھی اٹھا لی گئی تھی۔ پَر اب کچھ کھانے کی خواہش سے ہمارا دل اچاٹ ہو چکا تھا۔
    بات یہیں ختم نہیں ہوئی تھی، اگلے روز بھی ڈاکٹر صاحب نے ہمیں بلایا تھا اور ترتیب وار ان ہی مراحل سے ہمیں گزرنا تھا گویا
    ابھی وقت کے امتحان اور بھی ہیں
    اور ہم نے تہیہ کر لیا تھا کہ جو آج نہ کر سکے وہ کل ضرور کریں گے اور قبل از وقت کریں گے۔ کون سا وقت؟ ارے بھئی وہی ”بد وقت‘‘جس میں بے شک ہم اشیائے خور و نوش سے ہاتھ کھینچ لیں لیکن رہ گزر کے عذاب سے کترا کر گزرنا ہمارے بس میں نہیں۔ سو ہم نے اسی وقت پیچ و تاب کھانا شروع کر دیا…. کس پر؟ کوئی ایک ہو تو ہم بتائیں بھی۔ یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ جانے کیسے قلم کے توسط سے ہماری فسانۂ درد بیان کرنے کی نیت کی خبر عام ہو گئی اور مختلف محکموں کے کشتگانِ ستم قطار بنائے کھڑے ہو گئے۔
    ہر ستم کے مارے کی آرزو تھی کہ پہلے اس کے متعلقہ محکمہ کے دانت کھٹے کریں اور ہمارے قلم کی روشنائی اجازت ہی نہیں دے رہی تھی کہ پردہ نشینوں کو بے نقاب کریں لیکن چشم کشا حقائق سے چشم پوشی بھی تو جرم ہے اور پھر جو شے اظہر من الشّمس ہو اس کا پردہ رکھ کر ہم کون سا ثواب کما لیں گے؟ بس یہی سوچ کر ہم نے قلم کی روشنائی کے آگے سرِ تسلیم خم کر دیا کہ ہمارے اور آپ کے مابین رابطے کا یہ مستند و معتبر حوالہ اگر روٹھ گیا تو؟ سو ہم نے دل پر جبر کر کے خود کو ہر اس خواہش سے باز رکھا جو ہمارے لیے خطرے کی گھنٹی بجا سکتی تھی۔ خود پر پابندیوں کے اس عمل سے گزرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر ہم ڈاکٹر کے پاس گئے اور واپسی میں راستہ بھر بے بسی کی تصویر بنے مہر بہ لب صیاد کے مسکرانے کا تماشہ دیکھتے رہے۔ فضائی آلودگی، جا بجا گندگی کے ڈھیر، شاہراہوں پر لگے اسٹالوں اور دکانوں میں خریداروں پر ہونے والے مہنگائی کے تابڑ توڑ حملوں نے کئی بار ہمیں اپنی جانب متوجہ کرنا چاہا مگر ہم نے کچھ نہ کھانے کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے کھانے کی ہر قسم سے منہ موڑ لیا اور نہایت صبر شکر کے ساتھ یہ برا وقت بھی کاٹ لیا۔

    پیچ و تاب کھانے کے تمام تر سنہرے مواقع ہماری بے بسی پر ہنستے رہے اور ہم اس بے بسی پر شریفانہ احتجاج کرتے رہے۔

    دانتوں کی تکلیف سے تو ہم نے نجات حاصل کر لی لیکن اب بھی وہ برا وقت یاد آتا ہے جب شدید خواہش کے باوجود ہم نے پیچ و تاب نہیں کھایا تھا تو فیضؔ صاحب کا یہ شعر اپنی ساری توانائیوں سمیت ہمیں اپنے حصار میں لے لیتا ہے
    کیا کیا نہ تنہائی میں تجھے یاد کیا ہے
    کیا کیا نہ دلِ زار نے ڈھونڈی ہیں پناہیں
    اور ہماری یادیں دستِ صبا تو ہیں نہیں کہ ہم فخریہ سینے سے لگائے پھرتے۔ ہمیں بے بس کرنے والے لمحات تو سینے کے وہ داغ ہیں جو اربابِ اختیار اور عوام النّاس کے باہمی تعاون ہی سے دھل سکتے ہیں۔
  • بے شمار محنت کش عورتوں کی محنت کسی شمار میں نہیں

    بے شمار محنت کش عورتوں کی محنت کسی شمار میں نہیں

    کارخانوں، شاہ راہوں، کھیتوں، گھروں میں کسی بھی کام کے لیے سخت محنت اور مشقت کے عوض یومیہ بنیادوں پر اجرت یا ماہ وار معاوضہ پانے والی عورتیں محنت کش جب کہ مختلف دفاتر اور اداروں میں کام کرنے والی ملازمت پیشہ کہلاتی ہیں۔ نام اور مقامِ کار بدلنے سے اِن خواتین کے نہ تو مسائل کم ہوتے ہیں اور نہ ہی اُنھیں ان کے حقوق ملتے ہیں۔ ہاں ہر سال یومِ مئی اور یومِ خواتین مناتے ہوئے ان کے لیے چند ستائشی الفاظ ضرور ادا کیے جاتے ہیں اور اِن ایّام کا سورج غروب ہوتے ہی اپنا مفہوم بدل لیتے ہیں۔

    حقوقِ نسواں کے لیے منعقدہ سیمیناروں اور کانفرنسوں میں پڑھے جانے والے مقالوں اور تقاریر میں جو ڈھول پیٹے جاتے ہیں اُن کا پول کھلنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔ کیونکہ محنت کش خواتین کے مسائل اور حقوق کی بازگشت سنی ضرور جاتی ہے مگر وہ صدا بہ صحرا ثابت ہوتی ہے۔

    دیکھا جائے تو محنت کش عورتوں کا طبقہ پاکستان میں سب سے زیادہ مظلوم ہے۔ اسلام میں خواتین کو کسبِ معاش کی اجازت ہے۔ حضرت خدیجۃُ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تجارت کے پیشے سے وابستہ تھیں۔ عہدِ نبوی میں کئی خواتین اُجرت پر کام کرتی تھیں اور انھیں اپنے معاشرے میں عزّت و احترام حاصل تھا۔ یہ کیسا المیہ ہے کہ اسلامی مملکت اور اسلامی معاشرے میں محنت کش خواتین کی اکثریت ذلّت، ناداری اور بلا مبالغہ کس مپرسی کی زندگی بسر کر رہی ہیں۔ یہ عورتیں اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنے اور مطالبات اربابِ اختیار تک پہنچانے سے بھی اس لیے رہ جاتی ہیں کہ وہ جانتی ہیں کہ اوّل تو ان کی شنوائی نہیں ہوگی اور دوسری طرف یہ خوف بھی دامن گیر رہتا ہے کہ حق کے لیے آواز اٹھانے کی پاداش میں انھیں روزگار سے محروم کیا جاسکتا ہے اور یوں وہ اپنی رہی سہی کمائی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گی۔ سو بے شمار مسائل میں گھری ایسی عورتیں‌ اپنی مجبوری کا سودا کر کے حالات سے سمجھوتا کر لیتی ہیں۔
    یہ المیہ ہی ہے کہ برسرِ روزگار ہونے کے باوجود محنت کش خواتین خود مختار نہیں ہوتیں۔ بعض تو ایسی بے بس ہوتی ہیں کہ دن رات مشقت کی چکی میں پس کر اپنی ہڈیاں گھلانے کے بعد گھر میں ایندھن جلاتی ہیں اور بچوں کی پرورش کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے نکھٹو اور نشّے کے عادی شوہر یا باپ اور بھائی کی طلب پوری کرنے کے لیے اُنھیں اپنی کمائی میں سے حصہ بھی دیتی ہیں۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں انھیں تشدد کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ سمجھوتا کرنے والی یہ عورتیں‌ زندگی کا زہر امرت سمجھ کر پی لیتی ہیں۔ جو اِن حالات کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتیں وہ اس ماحول سے فرار حاصل کرنے کے لیے نشے میں پناہ ڈھونڈ لیتی ہیں اور یوں اپنے مسائل میں کئی گنا اضافہ کر لیتی ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ سخت محنت اور مشقت کے بعد جب ان کے ساتھ گھر کے لوگوں کا رویّہ اور حالات کچھ بھی نہ بدلے تو مجبور اور بے بس عورتیں‌ اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتی ہیں۔
    قانون کے تحت بارہ سال سے کم عمر بچّوں سے مشقت کروانے پر پابندی ہے لیکن اس سے کم عمر بچّیاں بھی مختلف کارخانوں، ملوں، شاہراہوں، دیہات میں اپنی ماؤں کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔ یہی نہیں گھر گھر جا کر کام کرنے والی اپنی ماؤں کے ساتھ بطور چھوٹی اپنی عمر، طاقت اور ہمت سے بڑھ کر کام کرتی ہیں۔ یوں والدین کی مجبوریوں کی بھینٹ چڑھنے والی یہ کمسن بچیاں محنت کش بچّوں کی صف میں شامل ہو جاتی ہیں۔ بعض نادار والدین اپنا قرضہ چکانے کے لیے اپنی نو عمر بیٹیوں کو گروی رکھوا دیتے ہیں اور معصوم بچیاں گھر میں مستقل ملازمہ کی حیثیت سے غیر انسانی سلوک کا نشانہ بن کر جی جی کر مرتی اور مر مر کر جیتی ہیں۔ اُن کا پھول سا بچپن مشقت کی دھوپ میں جھلس کر راکھ ہو جاتا ہے۔ وہ کم سن بچیاں بھی ہیں جو اپنے گھروں میں اپنی ماؤں کے ساتھ بچّوں کے کھلونے اور گڑیاں بنانے میں مدد دیتی ہیں۔ مضحکہ خیز المیہ یہ ہے کہ یہ بچیاں اپنا فرض سمجھ کر کھلونے اور گڑیاں بناتی ہیں لیکن ان پر ان کا کوئی حق نہیں ہوتا۔یہ بچیاں اپنی بنائی ہوئی گڑیوں کو حسرت سے تک تو سکتی ہیں لیکن ان سے کھیل نہیں سکتیں۔
    فیکٹریوں میں کام کرنے والی خواتین عموماً یومیہ اُجرت پر کام کرتی ہیں جو اُن کی محنت اور کمائی کے لحاظ سے انتہائی ناکافی اور تکلیف دہ ہوتی ہے۔ عموماً دن بھر کی مشقت کی اُجرت سو سے ڈھائی سو روپے تک ہوتی ہے۔زیادہ محنت اور کم اُجرت کا صبر جھیلنا تو گویا محنت کش خواتین کا مقدر ہے اور اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ جان توڑ محنت کرنے والی خواتین کے فرائض ریکارڈ میں کم درج کیے جاتے ہیں، جب کہ ایمرجنسی کی صورت میں بھی عموماً ان محنت کش خواتین کو چھٹیاں نہیں ملتیں۔ لیبر لاء کے مطابق محنت کش خواتین کے اوقاتِ کار کھانے کے وقفے سمیت 9 گھنٹے مقرر ہیں مگر گارمنٹ فیکٹریوں میں کام کرنے والی خواتین سولہ سترہ گھنٹے بھی کام کر لیتی ہیں کیوں کہ گارمنٹ فیکٹری میں کام کرنے والی خواتین زیادہ تر پیس ورک کرتی ہیں جس میں فی پیس رقم مقرر ہوتی ہے سو زیادہ سے زیادہ پیس تیار کرنے اور کمانے کی دھن میں خواتین مقررہ وقت سے کئی گھنٹے زیادہ کام کرتی ہیں۔ یہ مستقل ملازم نہیں‌ ہوتیں بلکہ انھیں کارخانے میں‌ عام طور پر یومیہ اجرت پر یا ٹھیکے دار کے ذریعے کام پر رکھا جاتا ہے اور یوں وہ کام کی جگہ پر اپنے ہر حق سے محروم رہتی ہیں جب انھیں علاج کی سہولت بھی نہیں دی جاتی۔ حالانکہ صنعتی اداروں میں کام کرنے والی ہزاروں محنت کش خواتین کی تیار کردہ مصنوعات بر آمد کر کے ان سے ہزاروں، لاکھوں نہیں کروڑوں کی کمائی ہو رہی ہے، لیکن ان کو مردوں کے مقابلے میں بہت کم معاوضہ ملتا ہے۔ بروقت کام پر پہنچنا تو اُن پر لازم ہے مگریہ قطعاً ضروری نہیں کہ مقررہ وقت پر کام ختم کر کے وہ اپنے گھر جائیں۔ انھیں ذہنی اور جسمانی اذیت بھی جھیلنی پڑتی ہے۔ سیمنٹ کی خالی بوریوں کو صاف کر کے ان کو سیدھا کرنے کا کام کرنے والی محنت کش خواتین کو اس کام کا خاطرخواہ معاوضہ تو نہیں ملتا لیکن سانس اور جلد کی بیماریاں ضرور مل جاتی ہیں۔سیمنٹ کے ذرات سے پھیپڑے اور ہاتھوں کی جلد متاثر ہوتی ہے۔ مسلسل مشین چلانے، جسمانی کمزوری، تواتر سے بارہ گھنٹے سے زائد مشقت کرنے اور آرام نہ ملنے کے سبب تھکن کی وجہ سے مسلسل بخار اور اس کے نتیجے میں پھیپڑے متاثر ہوجاتے ہیں۔ لیکن انھیں علاج کی سہولت حاصل نہیں‌ ہوتی۔ فیکٹری میں مشینوں کے شور سے کانوں کے پردے پھٹ جاتے ہیں۔ اگر دورانِ کام محنت کش خواتین زخمی یا معذور ہو جائیں یا اور کسی حاثے کا شکار ہو جائیں تو اس صورت میں انھیں ملازمت سے برطرف کردیا جاتا ہے۔
    پاکستان کے مختلف صوبوں اور بالخصوص دیہی علاقوں میں عمارتوں کی تعمیر میں حصہ لینے والی مزدور خواتین کی ہمت اور مشقت دونوں ہی لائقِ صد ستائش ہیں کہ وہ بھاری بھاری اینٹیں اٹھا کر کئی کئی فٹ بلندی پر چڑھتی ہیں اور مردوں کے ساتھ مزدوری کرتی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اپنے شیر خوار بچوں کو پیٹھ پر لادے اپنا کام کرتی رہتی ہیں اور اس ریاضت کے باوجود معاوضہ مردوں سے کم ہی ملتا ہے۔ لیبر لاء کے تحت خواتین کو کسی بھی کارخانے یا کسی بھی نوعیت کی مزدوری کے دوران اتنا وزن اُٹھانے کی اجازت نہیں جس سے اُنھیں کسی بھی قسم کا نقصان پہنچ سکتا ہو۔ اسی طرح خواتین کو ایسی جگہوں پر کام کرنے کی اجازت نہیں جہاں کیمیکل، پیٹرول، تیل، گیس، ریت اور شیشہ بنانے کا کام کیا جاتا ہے لیکن یہ قانون بھی دیگر قوانین کی طرح کاغذ تک محدود ہے۔
    گھر گھر جا کر مختلف کمپنیوں کی مصنوعات کی تشہیر کرنے والی خواتین بھی کم مسائل سے دوچار نہیں ہوتیں۔ انھیں گلی کوچوں میں اپنی روزی روٹی کے لیے پھرنے کے دوران آوارہ مردوں کے غلیظ فقرے اور دل لگی کو بھی نظر انداز کرنا پڑتا ہے۔ کسی بھی فلیٹ یا مکان میں خواتین کی عدم موجودگی میں وہاں موجود مردوں کے بد نیت اور غیر شریفانہ برتاؤ کا مقابلہ بھی کرنا پڑتا ہے۔ عموماً ایسی لڑکیاں اور خواتین گروہ کی شکل میں یہ کام انجام دیتی ہیں اور ان کے لیے اپنا دفاع کرنا بڑی حد تک آسان ہوتا ہے، لیکن نامناسب رویے یا نازیبا فقروں سے پھر بھی محفوظ نہیں رہتیں۔
    محنت کش عورتوں ٹرانسپورٹ کی سہولت سے بھی محروم ہیں۔ بعض خواتین دور دراز کے علاقوں سے دو تین بسیں تبدیل کر کے کام پر جاتی اور گھر واپس آتی ہیں اور اُن کی تنخواہ کا بڑا حصہ بسوں کے کرایوں کی نذر ہو جاتا ہے۔ یہ تمام زحمت اٹھا کر رات گئے گھر لوٹنے والی خواتین کی تکلیف میں اس وقت کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے جب گھر والے خاص طور پر گھر کے مرد ان سے تاخیر پر آنے کا سبب دریافت کرتے ہوئے شک کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ اس پر جسمانی آرام تو کیا میسر آتا ہے، ان سے ذہنی آسودگی بھی چھن جاتی ہے۔
    گھر گھر کام کرنے والی ماسیاں کہلانے والی محنت کش عورتوں کا سب سے بڑا مسئلہ عزتِ نفس کا ہے جو بار بار مجروح ہوتی ہے۔ یہ معاملہ محض بلاجواز ڈانٹ ڈپٹ، تنخواہ کاٹ لینے کی دھمکیوں تک محدود ہو تو وہ شاید اسے اپنا مقدر سمجھ کر قبول کر لیں مگرجب ان کو چند ٹکوں کے عوض اپنی عزت کا سودا کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے تو ان کے پاس کام چھوڑنے کے سوا کوئی راستہ نہیں‌ ہوتا۔ لیکن پھر ان کو اپنے بے روزگار اور نشے کے عادی شوہر کی باتیں سننا پڑتی ہیں‌ جو گھر والی کی تنخواہ پر نظریں‌ جمائے بیٹھے ہوتے ہیں۔
    گاؤں اور دیہات میں 75 فی صد سے زائد خواتین زراعت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ اٹھارہ گھنٹے یومیہ کام کرنے والی ان خواتین کو زرعی مزدور کی حیثیت حاصل ہے۔ مگر محض عورت ہونے کے سبب ان کی محنت کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ انھیں نہ تو محنت کی پوری اُجرت ملتی ہے اور نہ ہی اُن کے ہنر کی داد دی جاتی ہے۔ گھریلو دستکاری، مٹی کے برتن بنانے کے لیے مٹی کی تیاری میں بھی دیہی محنت کش خواتین کی صلاحیتیں نظر آتی ہیں لیکن اسے بھی ان کے روز مرہ معمولات کا حصہ سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ مضحکہ خیز المیہ یہ ہے کہ اپنی محنت کی کمائی پر حق ہونا تو بڑی بات ہے خود اپنی کمائی وصول کرنے کا اختیار بھی انھیں حاصل نہیں کہ یہ فریضہ ان کے گھر کے مرد ان کی جگہ رقم وصول کر کے سر انجام دیتے ہیں۔
    محنت کش خواتین کا پیشہ خواہ کوئی بھی ہو، کسی بھی ادارے سے تعلق ہو یہ حقیقت ہے کہ تمام محنت کش خواتین گھرکیاں اور دھمکیاں الاؤنس سمجھ کر قبول کرتی ہیں اور اپنا مقدر بھی۔ دیہی ہی نہیں شہری محنت کش عورتیں‌ بھی ان گنت مسائل میں گھری ہوتی ہیں۔
    پاکستان میں 1972ء میں سول حکومت نے چوتھی لیبر پالیسی کے اعلان کے بعد پاکستان میں یکم مئی کو محنت کشوں کے عالمی دن کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا تھا۔ نصف صدی گزر گئی، مزدوروں کی کئی انجمنیں بنیں، اس عرصے میں محنت کش بالخصوص عورتوں اور بچوں کے مسائل میں اضافہ ضرور ہوا لیکن ان کے حل کی جانب توجہ نہیں دی گئی۔ زبانی جمع خرچ کی حد تک تو بہت کچھ ہوا اور ہورہا ہے لیکن عملی طور پر دیکھیں تو آج بھی محنت کش عورت کو کام کی جگہ پر اس کا حق نہیں دیا جاتا اور اسے معاشرے میں‌ بھی عزّت اور احترام حاصل نہیں ہے۔
    برسوں بیت گئے محنت کش خواتین اچھے دنوں کی آس لگائے بیٹھی ہیں اور انھیں یقین ہے کہ
    بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے
    فروغِ گلشن و صوتِ ہزار کا مو سم
  • بیش قیمت انعام (سبق آموز کہانی)

    بیش قیمت انعام (سبق آموز کہانی)

    حالات بتا رہے تھے کہ اس مرتبہ بھی علی کی خواہش پوری نہیں‌ ہوسکے گی اور اسے دوستوں کے سامنے شرمندگی اٹھانا پڑے گی۔ اس سال بھی نہ وہ روزہ رکھ سکے گا اور نہ ہی عید پر نئے کپڑے بنیں گے۔

    گزشتہ چند برسوں سے یہی ہورہا تھا کہ علی کی روزہ کشائی کی تقریب کسی نہ کسی وجہ سے ٹل رہی تھی۔ گھر کے معاشی حالات بہتر ہی نہیں ہو پا رہے تھے۔ اس مرتبہ کچھ آس بندھی تھی مگر اس کے ابو کی ملازمت اچانک ختم ہوجانے سے علی کی آس دم توڑ گئی تھی۔ اس کو یقین ہو چلا تھا کہ اب کبھی بھی اُس کی روزہ کشائی نہیں ہوگی، نہ وہ عید پر نئے کپڑے پہنے گا اور نہ ہی دوستوں کو عید پر تحفے دے سکے گا۔ روزے کا کیا ہے، وہ تو علی پچھلے رمضان میں بھی رکھ سکتا تھا، لیکن محرومیوں کی گود میں پروان چڑھنے کے سبب وہ ضدی ہو گیا تھا۔ اُس نے ضد پکڑ لی تھی کہ روزہ کشائی کی تقریب کے بغیر روزہ نہیں رکھے گا۔ تیرہ سال کا ہوگیا تھا مگر اس کے اندر کا ضدی بچّہ اپنی دیرینہ آرزو کی تکمیل کے لیے ہمکتا رہتا۔

    خواب دیکھنے پر تو رقم خرچ نہیں ہوتی نا، چھوٹی چھوٹی آرزوئیں علی کو ستاتیں تو وہ نت نئے خواب بننے لگتا مگر جلد ہی اس کے خواب بکھر جاتے۔ رمضان کا چاند دیکھ کر علی نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو آنسو بے اختیار اس کی آنکھوں سے ٹپک پڑے۔ واضح نظر آنے والا چاند دھندلا سا گیا۔ یکایک علی کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ اسے فرمانِ الٰہی یاد آگیا تھا ”روزہ میرے لیے ہے، اس کی جزا میں دوں گا“ اور اسی پل علی نے اللہ کی رضا کے لیے دل میں پورے روزے رکھنے کا عہد کیا۔

    چاند دیکھ کر علی نے امی ابّو کو سلام کر کے اُنھیں خوش خبری سنائی کہ کل وہ پہلا روزہ رکھے گا اور انشاء اللہ پورے روزے رکھے گا۔ علی نے جو کہا کر دکھایا۔ وہ علی جو روزہ کشائی کی تقریب کے بغیر روزہ رکھنے پر آمادہ نہ تھا نہ صرف پابندی سے روزے رکھ رہا تھا بلکہ بلاناغہ تراویح بھی پڑھ رہا تھا۔ اور پہلی مرتبہ رمضان المبارک کی سعادتوں اور برکتوں کے مزے لوٹ رہا تھا۔ ورنہ اس سے پہلے رمضان کا سارا مہینہ اس نے اللہ سے گلے شکوے کرتے گزارا لیکن اس بار روزے رکھ کر علی کواحساس ہو رہا تھا کہ رمضان شکوے کا نہیں شکر کا مہینہ ہے۔ برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ ہے۔ علی بہت خوش تھا کہ روزے کی برکت سے اُس نے اپنے نفس پر قابو پانا سیکھ لیا تھا۔ شکوے کی جگہ شکر اور بے صبری کی جگہ صبر نے لے لی۔ اب ضد بھی برائے نام رہ گئی تھی۔ اور پھر یوں ہُوا کہ افطار کے وقت پابندی سے مانگی جانے والی علی کی دعا قبول ہو گئی۔

    اس کے ابّو کو بہت اچھی ملازمت مل گئی۔ تنخواہ معقول تھی۔ عید سے دو روز پہلے کمپنی نے عید کی خوشی میں ایڈانس تنخواہ دے دی۔ علی کی یوں کایا پلٹ ہوتے دیکھ کر اُس کے ابو نے عید کی خریداری کے لیے دو ہزار روپے دیے تھے۔ وہ بہت خوش تھا کہ اس عید پر وہ بھی نئے کپڑے اور جوتے پہنے گا، دوستوں کے لیے تحائف لے گا۔ ابھی وہ منصوبہ بندی کر ہی رہا تھا کہ اُس کے عزیز دوست حمزہ کے ایکسیڈنٹ کی اطلاع ملی۔ حمزہ نہایت غریب ذہین اور باصلاحیت لڑکا تھا۔ اُس کے والد سرکاری دفتر میں کلرک تھے۔ اُن کی گزر بسر مشکل سے ہو رہی تھی، اُس پر یہ ناگہانی پریشانی، عید بالکل سر پر آگئی تھی۔ ایسے وقت میں اپنوں نے بھی اُن کی مدد سے انکار کر دیا تھا۔ علی کو جب ان حالات کا علم ہُوا تو اُس نے اپنی عید کی خریداری کی ساری رقم حمزہ کے ابو کو دے دی۔ علی کے والدین خوش تھے کہ اپنے دوست کی خاطر علی نے اپنی خوشیوں کی قربانی دی۔ ساتھ ہی اُنھیں یہ بھی احساس تھا کہ اب علی کو عید کے لیے نیا سوٹ نہیں دلوا سکتے۔ جب علی کی امی نے یہ بات اس سے کہی تو اُس نے کہا، ”کوئی بات نہیں مجھے اس کا کوئی دکھ نہیں کہ میں معمولی کپڑے پہن کر عید کی نماز پڑھوں گا۔ میرے دوست کی صحت اور زندگی میرے کپڑوں، جوتوں، تحائف سے زیادہ اہم ہے۔ یہ رقم اس کے بہت کام آگئی، اگر بروقت میں یہ رقم حمزہ کو نہ دیتا تو میرا ضمیر مجھے ملامت کرتا رہتا اور میں عمر بھر عید کی خوشی نہیں منا پاتا۔“ یہ سُن کر علی کی امی نے بے اختیار اُسے گلے سے لگالیا۔

    عید کی صبح علی نے پرانے کپڑے پہنے لیکن اُس کے اندر آج کوئی محرومی نہیں تھی۔ وہ دل میں عجب قسم کا اطمینان اور خوشی محسوس کر رہا تھا۔ عید گاہ سے واپسی پر جب حمزہ سے ملنے علی اُس کے گھر گیا تو اُسے اپنا منتظر پایا۔ حمزہ جانتا تھا کہ عید پر قیمتی کپڑے پہننا علی کا خواب تھا جو اس کی وجہ سے اس سال بھی پورا نہ ہو سکا۔ علی کو پرانے کپڑوں میں دیکھ کر حمزہ کی آنکھیں بھر آئیں۔؎

    علی! تم نے اپنے دل کو مار کر مجھے نئی زندگی دی، اگر تم بَروقت میرے علاج کے لیے پیسے نہ دیتے تو آج۔۔۔ بات ادھوری چھوڑ کر حمزہ بری طرح رو دیا۔

    حمزہ! آگے کچھ نہ کہو، زندگی اللہ کے ہاتھ میں ہے جس نے تمہیں نئی زندگی دی اور مجھے بھی۔

    کیا مطلب؟ تمہیں نئی زندگی دی؟ مگر کیسے؟ حمزہ نے حیرت سے سوال کیا۔ مطلب یہ ہے کہ میرے دل کی دنیا بدل گئی۔ میں خوابِ غفلت سے بیدار ہو گیا۔ یقین کرو پرانے کپڑوں اور جوتوں میں، میں خود کو بہت نیا نیا محسوس کر رہا ہوں۔ میں نے اللہ کی رضا کے لیے روزے رکھے تو روزوں کا انعام بھی پا لیا۔ عید کی ایسی سچی خوشی مجھے پہلے کبھی نہ ملی تھی۔“

    تم نے میرے لیے بہت کیا ہے علی! پَر میں تمہیں یہ سستا سا عید کارڈ ہی دے سکتا ہوں جو تمہارے لیے میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔

    نہایت مسرت اور حیرت سے علی وہ کارڈ دیکھ رہا تھا، جس میں حمزہ کی محنت اور محبت دونوں ہی شامل تھی۔ کارڈ پر اشعار درج تھے۔

    چلو ختم روزے ہوئے عید آئی
    خوشی کا مسرت کا پیغام لائی
    مبارک ہو سب کو قمر عید کا دن
    کہ سب نے خوشی ہی خوشی آج پائی

    میرے دوست! جسے تم سستا عید کارڈ کہہ رہے ہو میرے لیے بہت قیمتی ہے۔ مہینہ بھر روزے رکھ کرمیں نے جان لیا کہ تشکر کتنی انمول نعمت ہے، صبر اللہ کا کتنا بڑا انعام ہے اور یہ کہ سچی خوشی اپنی خواہشات کی تکمیل میں نہیں بلکہ اوروں کے کام آنے میں ہے۔بیشک میں نے روزوں کا انعام پا لیا ہے، بیش قیمت انعام۔

    (مصنّف:‌ شائستہ زریں‌)

  • ہر آنگن میں اُترا چاند…

    ہر آنگن میں اُترا چاند…

    چاند محض شب کی تاریکی میں اُجالے کی نوید ہی نہیں جانے کتنے دلوں کا قرار ہے۔ چاند سے جتنا استفادہ شاعروں اور خواتین نے کیا ہے شاید ہی اور کسی نے کیا ہو۔ یہاں تک کہ چاند سے خواتین کی والہانہ وابستگی کے طفیل دھرتی پر ان گنت چاند بکھر گئے۔ چاند خواتین کی امنگوں کا مرکز ازل سے رہا ہے اور ابد تک رہے گا۔

    وہ پیشے اور شعبے جن پر صدیوں مردوں نے راج کیا ہے، اب خواتین بھی اُن میں اپنے جوہر دکھا رہی ہیں۔ اگر خواتین رویتِ ہلال کمیٹی کے اراکین میں شامل ہو گئیں تو شہادتوں کے باوجود چاند کا فیصلہ بہت دشوار ہو جائے گا۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ خواتین ہر شے میں چاند کی شباہت تلاش کرتی ہیں، ہر عزیز چہرے کو چاند سے تشبیہ دیتی ہیں۔ یوں بھی شرعی نقطۂ نظر سے ایک مرد کی گواہی برابر ہے دو خواتین کی گواہی کے۔ اگر مردوں کے مساوی خواتین گواہوں کی ضرورت پڑی تو فی مرد کے مساوی دو خواتین اراکین شامل ہوں گی اور جتنی زیادہ خواتین ہوں گی اُتنی ہی زیادہ چاند کے اعلان میں تاخیر اور فساد کا اندیشہ ہے کہ اپنی فطرت کے عین مطابق خواتین کو پَل بھر میں چاند نظر آ جائے گا لیکن چاند پر کئی بار اختلاف ہوگا۔ کبھی کسی خاتون کو کسی شے پر چاند کا گمان ہوگا تو کبھی کسی کو اور کسی شے پر کہ چاند خواتین کا من پسند استعارہ ہر عہد میں رہا ہے مگر جدا جدا معیار کے ساتھ۔ سو بگاڑ کا احتمال بھی یقینی ہے۔ جب کہ مرد حضرات بہت دیدہ ریزی کے باوجود چاند دیکھنے میں دھوکہ کھا جاتے ہیں جس کے نتیجے میں کبھی قبل از وقت عید کروا دیتے ہیں اور کبھی رات گئے۔ ہلالِ عید کی نوید سناتے ہیں اور اکثر تو ایسا بھی ہُوا ہے آدھی رات کو جب خواتین سکھ کی نیند میں بھی چاند کے سپنے دیکھ رہی ہوتی ہیں رویتِ ہلال کمیٹی کے اراکین کو عید کا چاند نظر آجاتا ہے۔

    غور فرمائیے کہ اگر خواتین بھی رویتِ ہلال کمیٹی کی رکن ہوں تواس صورت میں اُن پر کیا بیتے گی؟ طلوعِ ماہتاب کے انتظار میں خواتین خود کو کس قدر بے بس محسوس کریں گی؟ میک اپ اس عرصے میں دغا دے جائے گا اور پھر یہ بھی کہ طلوعِ مہتاب کے انتظار کا عذاب خواتین کو مردوں کی بہ نسبت زیادہ جھیلنا پڑے گا کہ مردوں کی تمام توجہ چاند پر مرکوز ہو گی جب کہ خواتین کے مابین کچھ اس طرح کے مکالموں کا تبادلہ ہوگا کہ
    ”ہائے اللہ! اگر کل عید ہو گئی تو کیا ہو گا، ابھی تو مجھے پارلر بھی جانا ہے۔ مہندی ہتھیلی پر بھی لگانی ہے اور ہتھیلی کی پشت پر بھی اور اچھے بھلے سیاہ بال ڈارک براؤن کرنے ہیں، مگر یہ چاند قسم سے اس وقت تو سچ مچ ہرجائی لگ رہا ہے، بے وفا ایک جھلک ہی دکھا دیتا۔“

    ”تمہیں پارلر کی پڑی ہے اور میرے کپڑے بدبخت ٹیلر نے ابھی تک نہیں دیے، ایسا نہ ہو جب میں گھر پہنچوں تو وہ دکان بڑھا کر چل دے اور میں ہاتھ ملتی رہ جاؤں۔“

    ”یہ تو ہے، پچھلے سال شمی کے ساتھ یہی تو ہوا تھا، بیچاری کی عید کی ساری خوشی خاک میں مل گئی تھی۔ ٹیلر نے عید کے بعد کپڑے دیے تھے اور عید کے تین دن بعد اس وقت شمی نے عید منائی جب اُس کے کپڑے دیکھ کر انوشا کلس کر رہ گئی تھی اور شمی کے دل میں چراغاں ہو گیا تھا۔“

    ”اور میں اپنی جان کو رو رہی ہوں، رات بھر جاگ کر پورا گھر ڈیکوریٹ کرتی ہوں، میرے گھر کا کیا ہوگا جو عید ملنے آئے گا پہلے مجھ پر تھو تھو کرے گا۔ پھر تمسخر سے عید ملے گا۔ میں تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہوں گی۔ موا چاند نہ ہُوا بجلی ہو گئی غائب ہو جائے تو حاضر ہونا مشکل۔“

    ”ارے شمع تمہارے چہرے پر بارہ کیوں بج رہے ہیں، قسم سے دیکھ کر ہول اٹھ رہے ہیں۔“

    ”تم کیسی لڑکی ہو جسے میری پریشانی کا اندازہ ہی نہیں ساری میچنگ جیولری، چوڑیاں، سینڈل چاند رات کو ہی لیتی ہوں، ہائے میرا پانچ ہزار کا سوٹ کیسا بے وقعت لگے گا ان سب کے بغیر اور خود میں کتنی ادھوری ادھوری لگوں گی۔“

    ”مجھ سے پوچھو عید کا چاند ہمیشہ اُن کے ساتھ دیکھتی ہوں، اُن کے بِنا ہر رنگ پھیکا اور عالم یہ ہے کہ
    تم پاس نہیں ہو تو عجب حال ہے دل کا
    یوں جیسے میں کچھ رکھ کے کہیں بھول گئی ہوں

    کاش اسوقت وہ میرے ساتھ ہوتے تو چاند مجھے پل بھر میں نظر آجاتا۔“

    ”نظر آجاتا! کیا مطلب؟ مجھے تو ہر سُو چاند ہی چاند نظر آرہا ہے۔“

    ”لیکن کہاں؟ خواتین نے متجسس نظروں سے دیکھا تو خاتون آنکھیں موندے کہہ رہی تھیں ”میرے دل میں جھانکو، ایمان سے۔“

    جب تصور میں کبھی آپ کو پاتا ہے دل
    آپ ہی کے حسن کی تصویر بن جاتا ہے دل

    اور پھر یکا یک خاتون چلائیں ہائے اللہ“ ساتھی خاتون چہکیں، کیا ہُوا تصور ٹوٹ گیا یا چاند گم ہو گیا۔“

    ”یاد آگیا انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ عید کے دن تمہارے ہاتھ کے بنے ہُوئے دہی بڑے اور شامی کباب کھاؤں گا، اور میں اپنے چاند کے لیے یہ اہتمام تب ہی کر سکتی ہوں جب آسمان کا چاند طلوع ہو۔ ایمان سے اس وقت میں گھر پر ہوتی نا تو آدھا کام نمٹا چکی ہوتی اور جب وہ آتے تو جھٹ کباب تل کر اُن کے سامنے رکھ دیتی اور جب وہ اس سے لطف اُٹھا کر مجھے داد دیتے تو سمجھو عیدی تو مجھے مل ہی جاتی مگر ہائے

    حسرت اُن غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے

    ”اس مسئلے کا ایک حل ہے کہ میرے پاس۔“ ایک محترمہ نے دانائی ظاہر کی، ”وہ کیا؟“ تمام خواتین نے یک زبان ہو کر پوچھا،“ جواباً محترمہ نے شانِ بے نیازی سے کہا، اتنے عذاب جھیلنے سے بہتر ہے کہ سب اپنا اپنا استعفیٰ پیش کر دو۔ میں تو آج ہی اپنا استعفیٰ پیش کر دوں گی، حد ہوتی ہے ظلم کی، یوں تو وقت بے وقت پارلر کے چکر لگائیں اور جب موقع ہے تب؟ اب عید کے دن نہ چہرے کی زیبائش ہو اور نہ ہی بالوں کی آرائش، میں تو باز آئی ایسے شوق سے۔ جس کا کام اُسی کو ساجھے۔ میرا تو ارمان پورا ہو گیا۔ بس عید کے بعد ایک پریس کانفرنس کر کے تمام خواتین کو پیغام دوں گی۔ جس شعبے میں چاہو دھڑلے سے اپنے قدم جماؤ مگر خبردار جو رویتِ ہلال کمیٹی میں شامل ہوئیں۔ ایمان سے منٹوں میں ارمانوں کا خون ہو جاتا ہے، مردوں کو کام ہی کیا ہوتا ہے؟ بیشک صبحِ کاذب کے وقت چاند کا اعلان کر کے گھر واپس جائیں۔ اف اللہ کیا بتاؤں چاند مجھے کتنا پیارا لگتا ہے لیکن چاند دیکھنے کے انتظار میں اپنی آرزوئیں مٹی میں ملتے نہیں دیکھ سکتی اور نہ ہی اپنے چاند کو خفا کرسکتی ہوں کہ اُن کی روشنی سے میرے دل میں اجالے ہی اجالے بکھر جاتے ہیں اور میں گنگناے لگتی ہوں۔

    چشمِ تصور سے یہ منظر بھی دیکھیے!
    ابھی خواتین کا اجلاس جاری ہوتا ہے کہ مرد حضرات کی ملی جلی صدائیں بلند ہوتی ہیں ”عید مبارک، چاند نظر آگیا۔“ یہ سنتے ہی خواتین کے مذاکرات نئے رنگ اختیار کر لیتے ہیں۔ ”اللہ کہاں ہے ہمیں بھی تو دکھائیے نا“ دل میں شوق کا طوفان چھپائے لپکتی ہوئی خواتین آگے بڑھتی ہیں اور مشتاق نظروں سے بے تابانہ آسمان کی وسعتوں میں چمکتے چاند کو دیکھ کر دعا کے لیے ہاتھ بلند کرتی ہیں، ”سنو تم کیا مانگ رہی ہو؟“ قریب کھڑی خاتون سرگوشی میں پوچھتی ہیں۔ میں نے تو یہی التجا کی ہے”اے عید کے چاند میرے چاند کو روٹھنے نہ دینا“ اور تم نے؟ اس وقت تو میں نے چاند کا شکریہ ادا کیا ہے وہ نمودار تو ہُوا، بس اب گھر کی جانب دوڑ لگاؤ اور پھر آناً فاناً تمام خواتین نے دوڑ لگائی۔ حد تو یہ ہے کہ عجلت میں میڈیا کے سامنے چاند کے اعلان کے لیے بھی نہیں رکیں کہ اب چہرہ اس قابل ہی کہاں رہا تھا۔ تھکی ماندی صورتیں دیکھ کر لوگ بور ہی ہوں گے۔ اور چاند بے بسی سے خواتین کی بے رخی پر دل مسوس کر رہ جائے گا کہ کتنی بے مروت ہیں ہر شے میں میرا جلوہ دیکھنے والیوں کو میری پروا بھی نہیں ہے اور خواتین امبر کے چاند کے شکوے سے بے نیاز دھرتی کے چاندوں کی جانب اپنی توجہ مرکوز رکھیں گی، اُن چاندوں کی جانب جنھیں دیکھ دیکھ کر وہ جیتی ہیں خواہ اُن سے رشتے اور تعلق کی نوعیت کچھ بھی ہو، وہ ہیں تو اُن کے چاند۔

    (شائستہ زریں کی شگفتہ تحریر)

  • بچّوں کی دنیا کے ”بھائی جان“ آصف الیاس کا بچپن

    بچّوں کی دنیا کے ”بھائی جان“ آصف الیاس کا بچپن

    آصف الیاس کے اندر ذہین، شرارتی اور ہر میدان میں کام یابی کے جھنڈے گاڑنے کا آرزو مند بچّہ آج بھی کچھ کر دکھانے کے لیے بے تاب رہتا ہے۔

    فرق ہے تو بس اتنا کہ آصف کی توقعات، خواہشات اور آرزوؤں کا رُخ اب بچّوں کی جانب ہوگیا ہے۔ جب ہی تو انھوں‌ نے بچّوں کے حقوق سے متعلق کئی تھیٹر کیے۔ بطور آرٹسٹ بھی بچّوں کے رسائل کلیاں، گلوبل سائنس، نونہال اور ماہنامہ ہمدرد صحت کے لیے دس سال سے زائد عرصہ کام کیا۔ آرمی پبلک اسکول اور سندھ مدرسۃُ الاسلام میں بحیثیت آرٹ اینڈ ڈرامہ ٹیچر نہایت خوش اسلوبی سے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔ معلم اور خطاط بھی ہیں۔ بچّوں کے لیے ان گنت کارٹون ڈب کیے۔ ریڈیو پاکستان کے تاریخی شو ”بچّوں کی دنیا“ سے بطور بھائی جان تیرہ برس سے وابستہ ہیں۔ پی ٹی وی کے لیے بچّوں کے متعدد شوز اور ڈرامے لکھے۔ ان دنوں پی ٹی وی پر آصف الیاس کا تحریر کردہ شو ”کریٹو کڈز“ نشر ہورہا ہے۔ ریڈیو اور ٹی وی پر بچّوں کے لیے گیت لکھنے کے ساتھ ساتھ اُن کی موسیقی بھی مرتب کی۔
    انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے اس عہد میں جب بچّے اور نوجوان کتابوں سے دور ہوتے جارہے ہیں، آصف الیاس صلہ نامی تنظیم کے تحت انھیں کتب بینی کی طرف راغب کر رہے ہیں۔ نونہالانِ وطن کے معاملے میں آصف الیاس بے حد حسّاس اور ذمہ دار ہی نہیں، جوہری بھی ہیں اور ان کی صلاحیتوں کو پرکھنے اور انھیں نکھارنے میں ان کو کمال حاصل ہے۔ آصف الیاس ریڈیو اور ٹی وی کے توسط سے کئی باصلاحیت بچّوں کو متعارف کروا چکے ہیں۔ وہ کیڈٹ کالج میں بطور اسسٹنٹ لائبریرین خدمات انجام دے رہے ہیں۔
    ہم نے سوچا کہ نئی نسل کی تعلیم و تربیت، کردار سازی اور انھیں مفید اور کارآمد سرگرمیوں کی طرف راغب کرنے کے لیے نہایت ذمہ داری سے اپنا کام کرنے والے آصف الیاس سے پوچھا جائے کہ خود ان کا بچپن کیسے گزرا؟ آصف الیاس کا انٹرویو پیشِ‌ خدمت ہے۔
    آپ کا بچپن کیسا گُزرا؟
    آصف الیاس: میرا بچپن الحمدُللہ بہت شان دار گزرا کیونکہ میں تین بہنوں سے چھوٹا اور دو بہنوں سے بڑا بھائی تھا تو بہنوں کا بھرپور پیار اور شفقت نے محسوس ہی نہیں ہونے دیا کہ میرا کوئی بھائی نہیں ہے۔ ہم دوستوں کی طرح رہتے۔ ہر ایک کی زندگی میں کچھ نہ کچھ کمی تو ہوتی ہے۔ غربت تھی لیکن سادگی تھی۔ امی کی بہت زیادہ سختی تھی، لیکن پیار بھی بہت زیادہ تھا۔ بہت اچھی تعلیم حاصل کی۔
    بچپن میں شرارتی تھے یا صرف پڑھاکو تھے؟
    آصف الیاس: میرا شمار انتہائی شرارتی بچّوں میں ہوتا تھا۔ جب مجھے محسوس ہوا کہ میرے پاس آواز کا ایک جادو ہے، تب میں نے نسوانی آواز بنا کر اپنے ایک رشتہ دار سے بات کی۔ وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ کوئی آنٹی ہیں، بعد میں ان کو پتہ چلا کہ یہ تو الیاس صاحب کے صاحبزادے ہیں تو اس پر پہلے تو ذرا برہم ہوئے اور پھر چونکے بھی اور خوش بھی ہوئے تھے میری فن کاری پر۔
    اسکول کے زمانے کا یادگار واقعہ؟
    آصف الیاس: جماعت چہارم میں اپنی اوّلین سندھی تقریر میں پہلا انعام حاصل کرنا۔جس کی دھوم پورے اسکول میں مچی تھی، مجھے اعزازی کپ کے ساتھ پورے اسکول کا دورہ کروایا گیا تھا۔
    تعلیمی میدان میں بچپن کی شان دار اور یادگار کام یابی کون سی تھی؟
    آصف الیاس: تعلیمی میدان میں اوّل آتا رہا ہوں‌ اور تقریری مقابلوں میں انعام بھی حاصل کرتا رہا ہوں، یہ سب یادگار ہیں۔
    کبھی کسی غیر یقینی ناکامی یا کام یابی کی صورت میں آپ کے کیا تأثرات تھے؟
    آصف الیاس: دونوں صورتوں میں مزید محنت کرنے کا خیال آتا ہے۔
    بچپن میں غیر نصابی سرگرمیوں میں حصّہ لیا؟
    آصف الیاس: بچپن میں غیر نصابی سرگرمیاں، تقریر،اداکاری اور نقالی تھیں جو بچپن سے پچپن میں بھی جاری ہیں۔
    اس سلسلے کا پہلا انعام کب اور کس عمر میں حاصل کیا؟ یاد ہے انعام کیا تھا؟
    آصف الیاس: سب سے پہلا انعام محلّے کے مدرسہ سے سات سال کی عمر میں نعت خوانی میں حاصل کیا اور نعتیہ کتاب کا ہدیہ ملا تھا۔
    گرمیوں کی چُھٹیاں کیسے گزارتے تھے؟
    آصف الیاس: اکثر حیدر آباد سے کزنز اور خالہ آجاتی تھیں۔ یوں اُن کی وجہ سے دعوتوں اور سیر سپاٹوں سے گرمیوں کی چھٹیاں مزے سے گزر جاتی تھیں۔
    بچپن میں مشاغل کیا تھے؟
    آصف الیاس: مصوری اور اداکاری۔ خیر سے یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
    بچّوں کی کیسی کتابیں، رسائل اور کہانیاں پڑھنے میں لُطف آتا تھا؟
    آصف الیاس: ہمدرد نونہال پڑھنے اور اس کے زمرۂ مصوری کو سب سے پہلے دیکھنے کا شوق تھا۔
    بچپن میں آپ کی کون سی خوبی کو سب سے زیادہ سراہا جاتا تھا؟
    آصف الیاس: گلوگاری کو بہت سراہا جاتا تھا۔
    کوئی ایسی ڈانٹ یا مار جس کا اثر آج بھی آپ کی زندگی پر ہے؟
    آصف الیاس: نماز کی پابندی۔ امی نماز کا پابند بنانے کے لیے اپنے اس اکلوتے بیٹے پر بہت سختی کرتی تھیں۔
    بچپن میں احتجاج کا کون سا طریقہ اختیار کرتے تھے؟
    آصف الیاس: مجال ہے کہ کوئی احتجاج کر لیں۔ امی کی آنکھیں، باتیں، آواز، ہاتھ سارے احتجاج ایک طرف کر دیتی تھیں۔
    بچپن میں عیدی کتنی ملتی تھی؟ کیسے خرچ کرتے تھے؟
    آصف الیاس:‌ عیدی جتنی بھی ملتی امی کے ذاتی اکاؤنٹ یعنی پرس میں منتقل ہو جاتی تھی۔ اس لیے خرچ کا نہ خیال آتا تھا، نہ ہی سوال پیدا ہوتا تھا
    بچپن میں کس سے متأثر تھے، کیوں؟
    آصف الیاس:‌ بچپن میں اساتذہ اور فوج کے سپاہیوں سے متأثر تھا۔ میں فوجی بننا چاہتا تھا یا اُستاد۔
    بچپن میں کسی لائبریری کے ممبر تھے؟ یومیہ کتنا کرایہ تھا؟ کیا سہولتیں تھیں؟
    آصف الیاس:‌ بچپن میں کیا کسی بھی عمر میں، میں لائبریری کا ممبر نہیں رہا۔ ہاں لائبریری سائنس کا طالب علم ضرور رہا ہوں۔ گو کہ میں نے مختلف لائبریریوں میں خدمات انجام دی ہیں۔ اور اب بھی بطور اسسٹنٹ لائبریرین کام کر رہا ہوں۔
    حکیم سعید صاحب سے بچپن کی یادگار ملاقات کے بارے میں‌ بتائیں۔
    آصف الیاس:‌ جب میں نے ریڈیو پاکستان کراچی سینٹر کے پروگرام بچّوں کی دنیا سے اپنی صداکاری کا آغاز کیا تو مجھے پتہ چلا حکیم سعید صاحب بچّوں کی دنیا میں آتے ہیں۔ مجھے بڑی بے چینی سے ان کا انتظار تھا۔ جب وہ پروگرام میں آئے تو اُن کے احترام میں منی باجی کھڑی ہو گئیں۔ ہم بچّے کھڑے ہو گئے تھے۔ میں نونہال باقاعدگی سے خریدتا تھا۔ نونہال کے خاص نمبر کے ساتھ ایک آٹو گراف بک بھی ملی تھی جو میں بچّوں کی دنیا میں لے کر جاتا تھا۔ میں نے حکیم صاحب سے اس پر آٹو گراف لیا۔ کبھی سوچا بھی نہ تھا بچپن کی سرسری سی ملاقات کے بعد حکیم صاحب کی ہمدرد نونہال اسمبلی میں شرکت کروں گا۔ حکیم صاحب سے اپنے لیے تعریفی کلمات سنوں گا اور اُن کے صحبت سے فیض یاب ہوں گا۔ میں نے ہمدرد نونہال اسمبلی میں لگاتار تین سال تھیٹر کیا بلکہ میرے تھیٹر کا آغاز ہی ہمدرد کے پلیٹ فارم سے ہوا تھا۔ میں نے اُن کے میگزین کے لیے بطور مصوّر خدمات انجام دیں۔
    بچپن میں مستقبل کے جو خواب دیکھے تھے وہ پُورے ہوئے؟ اگر نہیں تو کیوں؟ اور اس کا اثر آپ کی زندگی پر کیا پڑا؟
    آصف الیاس:‌ میں نے کوئی خواب تو نہیں دیکھا لیکن اللہ نے میرے ہر خیال کو تعبیر بخشی ہے۔ جس کا اثر میری زندگی پر یہ ہے کہ میں اپنی زندگی سے مطمئن ہوں۔
    عہدِ حاضر کے بچّوں کا بچپن ملتا تو اسے اپنے مزاج اور طبیعت کے لحاظ سے کیسے گزارتے؟
    آصف الیاس:‌ شکر ہے میرا بچپن اس دور کا نہیں ورنہ میں بھی واٹس ایپ اور وڈیو گیم والا بچّہ ہوتا، تاہم اگر طبیعت اور مزاج کی بات ہو تو میں ریڈیو اور ٹی وی سے پہلے یوٹیوب اسٹار ہوتا۔
    بچّوں کو کیا کہنا چاہیں‌ گے؟
    آصف الیاس:‌ مجھے اس دور کے بچّوں پر فخر ہے اور بچّوں کی دنیا سے پیار ہے۔
  • یومِ پاکستان: ایک بچّے کی کہانی جو مسلم لیگ کا کارکن تھا

    یومِ پاکستان: ایک بچّے کی کہانی جو مسلم لیگ کا کارکن تھا

    23 مارچ پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم دن ہے جب 1940ء میں قرارداد پاکستان منظور کی گئی تھی جسے ہم قرارداد لاہور بھی کہتے ہیں۔ اس دن کو ہم یومِ پاکستان کے نام سے ہر سال مناتے ہیں۔ قرار داد پاکستان کی بنیاد پر مسلم لیگ نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے جداگانہ وطن کے حصول کی تحریک شروع کی تھی۔

    یومِ پاکستان کی مناسبت سے یہ کہانی خاص طور پر والدین اور اساتذہ بچوں کو سنا سکتے ہیں جس سے انھیں اس دن کی اہمیت اور تاریخی جدوجہد سے آگاہی حاصل ہوگی۔ اس کہانی کی مصنف شائستہ زرؔیں ہیں۔

    بچّہ: مسلم لیگ کے سرگرم کارکن عبدالستار مظہری

    آغا جان: کیا ارادے ہیں بچّو؟ میرے کمرے میں کیوں ڈیرا ڈالے بیٹھے ہو؟

    نصر: بہت ہی معصوم ارادے ہیں آغا جان! بس ایک جلسے کا آنکھوں دیکھا حال سننا ہے آپ سے۔

    آغا جان: کیوں نہیں، مگر کون سے جلسے کا؟ ہم نے تو بہت سارے جلسوں اور جلوسوں میں شرکت کی ہے۔

    عمر: جس جلسے میں قرار داد پاکستان پیش کی گئی تھی۔ ابو بتا رہے تھے آپ نے اُس میں شرکت کی تھی۔ ہم اس کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔

    آغا جان: برسوں بیت گئے لیکن آج بھی یوں لگتا ہے جیسے یہ کل کی بات ہو۔ میں بچّہ مسلم لیگ میں شامل تھا اور برصغیر کے دیگرمسلمانوں کی طرح نہ صرف آزادی کے خواب دیکھ رہا تھا بلکہ بساط بھر آزادی کی جدوجہد میں حصّہ بھی لے رہا تھا۔ اُس دن تو ہمارے جوش و خروش اور خوشی کا عالم ہی اور تھا جب وائسرائے ہند لارڈ لنلتھگو(Lord linlithgow) نے اپنی ایک تقریرمیں آل انڈیا مسلم لیگ کو مسلمانوں کی نمائندہ جماعت تسلیم کرلیا۔ مسلم لیگ کی اتنی بڑی کامیابی پر ہم خوشی سے پُھولے نہیں سمارہے تھے۔

    عمر: آغا جان! کون سی تاریخ تھی؟

    آغا جان: 10 اکتوبر 1939ء

    نصر: اور پھر اچانک 23 مارچ 1940ء کو جلسے کی قرارداد پیش کر کے قائد اعظم نے وائسرائے کو حیران کر دیا۔

    آغا جان: ہرگز نہیں، کیونکہ مسلمان ایک بہادر قوم ہے۔ 6 فروری 1940ء کو ایک ملاقات میں قائداعظم نے وائسرائے ہند کو بتا دیا تھا کہ 23 مارچ 1940ء کو لاہور میں منعقد ہونے والے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں ہم علیحدہ وطن کا مطالبہ کریں گے۔ اس کے بعد قائد اعظم نے میرٹھ میں ایک اجلاس منعقد کیا جس میں مسلم لیگی راہ نماؤں نے سوچ بچار اور باہمی گفتگو کے بعد فیصلہ کیا کہ ایک کمیٹی مقرر کی جائے جس میں تقسیم ہند کے بارے میں تمام تفصیلات کا جائزہ لیا جائے گا، یوں اس سلسلے میں کمیٹی کا قیام عمل میں آیا۔

    ردا: کمیٹی کے ارکین میں کون کون شامل تھا؟

    آغا جان: نواب زادہ لیاقت علی خان، سر سکندر حیات، خواجہ ناظم الدّین، سرعبداللہ ہارون، نواب محمد اسمٰعیل خان، عبدالمتین چودھری، سردار اورنگزیب خان، سید عبد العزیز وغیرہ شامل تھے۔ بہت غور و فکر کے بعد کمیٹی نے ایک رپورٹ ترتیب دی جسے 23 مارچ کے اجلاس میں پیش کیا گیا۔ یہ اجلاس آل انڈیا مسلم لیگ کا ستائیسواں اجلاس تھا جو 22 سے 24 مارچ تک جاری رہا۔ پہلا اجلاس 22 مارچ کو لاہور میں ہوا۔ اجلاس میں تقریباً 25 ہزار افراد نے شرکت کی۔ ہندوستان کے مختلف حصوں کے نمائندے ان میں شامل تھے۔ اجلاس کی صدارت قائد اعظم نے کی تھی۔ اور اجلاس کی کاروائی کا آغاز سر شاہنواز نے کیا تھا۔ اور آپ نے وضاحت کر دی تھی کہ ”ہندو اور مسلمان میں اس کے علاوہ اور کوئی قدر مشترک نہیں کہ وہ ایک ملک میں آباد ہیں، تمام قوم کو محمد علی جناح کی قیادت پر اعتماد ہے۔ اس موقع پرقائد اعظم نے برملا کہا۔”ہندؤوں اور مسلمانوں کے درمیان کوئی چیز ایک جیسی نہیں ہے اور وہ دو مختلف واضح تہذیبوں کے وارث ہیں۔ چنانچہ واحد حل یہ ہے کہ ہندوستان کو مسلم انڈیا اور ہندو انڈیا میں تقسیم کردیا جائے۔“

    مسلم لیگ کا دوسرا عام اجلاس 23 مارچ کو ہُوا جس میں 35 ہزار افراد نے شرکت کی اور اس اجلاس میں قرارداد پیش کی گئی۔ قائد اعظم کی خواہش پر بنگال کے وزیراعلیٰ مولوی فضل الحق نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ”آئین پر ایک مکمل نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ 1935ء کے ایکٹ میں وفاق کی جو اسکیم دی گئی ہے وہ کسی کے لیے بھی قابل قبول نہیں ہے۔ یہ اسکیم مسلمانوں کو مرکز میں نہ صرف ایک دائمی اقلیت میں تبدیل کر دے گی بلکہ مسلم اکثریتی صوبوں میں صوبائی خود مختاری منسوخ کر دے گی۔ مسلمان ہر ایسے آئین کو ناقابل عمل بنا دیں گے جو اُن کی مرضی و منشاء کے مطابق نہ ہو۔“

    رکن مرکزی قانون ساز اسمبلی مولانا ظفر علی خان نے قرار داد کی حمایت کا اعلان کرتے ہُوئے کہا کہ یہ بات قابلِ اطمینان ہو گی اگر یہ کہا جائے کہ آج کے دن سے شمال مغرب اور شمال مشرق کے مسلمانوں نے مکمل آزادی کا اعلان کردیا ہے۔

    نصر: آج کل تو کوئی جلسہ فائرنگ اور فساد کے بغیر ہوتا ہی نہیں وہ تو بہت پُر امن جلسہ ہو گا۔

    آغا جان: اُن دنوں مسلمانوں کی اکثریت قائد اعظم کے ساتھ تھی۔ اجلاس شروع ہونے سے کچھ دیر پہلے خاکساروں کی فائرنگ سے بے چینی پھیل گئی تھی جس پر قائد اعظم نے نہایت سمجھداری اور ذہانت سے قابو پالیا۔

    حرا: آخری اجلاس میں کتنے افراد شریک تھے؟

    آغا جان: 35 ہزار افراد شریک تھے۔ اجلاس کے آغاز پر آگرہ کے سید ذاکر علی نے وہ مرکزی قرارداد پیش کی جس پر گزشتہ اجلاس میں گفتگو کی گئی تھی۔ یہ قرارداد نہایت جوش و خروش کے ساتھ متفقہ طور پر منظور کر لی گئی تھی۔
    عمر: آغا جان! جب قائد اعظم نے اتنے بڑے مجمع کو منتشر ہونے سے بچایا تو اُن کے ساتھی تو بہت خوش ہوں گے؟

    آغا جان: کیوں نہیں بیٹا! مسلم لیگ کے آخری اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے نواب بہادر یارجنگ نے قائد اعظم کو مبارکباد دی تھی کہ اُنہوں نے خاکسار مسئلے کو نہایت عقلمندی اور سوجھ بوجھ سے حل کیا۔ قائداعظم کو بھی اس شان دار کام یابی کی بے حد خوشی تھی آپ نے اجلاس کے آخر میں کہا، ”مسلمانوں نے دنیا کے سامنے اپنے نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا ہے، دشمن کی چالیں ناکام ہو گئیں، مسلمانوں نے بالآخر اپنی منزل کا تعین کر لیا ہے اور موجودہ اجلاس ہندوستان کی تاریخ میں سنگ میل ثابت ہوگا۔“

    ردا: آغا جان! اتنے بڑے اجلاس کے انتظام میں مسئلہ نہیں ہوا؟

    آغا جان: تقسیم سے قبل برصغیر کے مسلمانوں کا اتحاد مثالی تھا، مسلم لیگی راہ نماؤں نے باہمی اتفاق سے منٹو پارک کے میدان کا انتخاب اجلاس کے لیے کیا۔ اُس زمانے میں یہ میدان کُشتیوں کے لیے مخصوص تھا حکومت نے جلسے کی اجازت دینے سے انکار کردیا تھا کہ چند روز قبل سکھوں کے اجتماع نے اس کا حلیہ خراب کردیا اب مزید خراب ہو جائے گا۔ مسلم لیگی راہ نماؤں کے دباؤ ڈالنے پر جلسے کی مشروط اجازت دی کہ جلسے کے منتظمین پانچ ہزار روپے بطور ضمانت داخل کریں تاکہ نقصان کی صورت میں اس کی تلافی کی جا سکے۔ اور یہ منتظم کے لیے ممکن نہ تھا، اس کا حل یہ نکالا کہ ہم خیال مسلم لیگی افسروں سے رابطہ کیا یوں اس سلسلے میں چھوٹ مل گئی۔

    حرا: آغا جان! اس زمانے میں برصغیر کے مسلمان معاشی اعتبار سے بہت خوش حال نہیں تھے اتنی بڑی رقم کا انتظام کیسے ہوا؟

    آغا جان: بڑوں کے ساتھ بچوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، بچہ مسلم لیگیوں کے لیے تو یہ عید کا سماں تھا ریڑھیوں پر فروخت ہونے والی سستی اشیاء پر قیمتوں کی چٹیں لگادی گئی تھیں، اس سے پہلے نواب کالا باغ نے ایک ہزار کی رقم مسلم لیگ کو دی۔ اور ساتھ ہی یہ پیغام بھیجا کہ اگر کوئی صاحب اس سے زیادہ رقم دیں گے تو وہ اتنی ہی رقم اور دیں گے۔ نواب سر شاہنواز خان نے اپنے اثر و رسوخ سے کام لے کرفوری اخراجات کے لیے 6000 روپے دیے، مجلس استقبالیہ نے رکنیت فیس 50 روپے مقرر کی، اس سے خاصی رقم جمع ہو گئی۔ ایک اندازے کے مطابق جلسے کے لیے 20 ہزار روپے کی رقم جمع ہو گئی تھی۔

    عمر: (حیرت سے) 20 ہزار میں جلسے کے انتظامات ہوگئے تھے؟

    آغا جان: جلسے کا انتظامات پر تقریباً پونے گیارہ ہزار روپے خرچ ہوئے تھے۔

    حرا: باقی رقم کا کیا ہوا آغا جان؟

    آغا جان: باقی ماندہ رقم آل انڈیا مسلم لیگ کے خزانے میں جمع کردی گئی تھی۔ تم میں سے کس کو معلوم ہے کہ قرارداد پاکستان میں کیے جانے والے مطالبے کے اصل الفاظ کیا تھے؟

    ردا: آغا جان! میں بتاؤں گی۔ وہ علاقے جہاں مسلم اکثریت میں ہیں وہاں مسلم ریاستیں قائم کر دی جائیں۔“

    آغا جان: لیکن بیٹا یہ جواب صد فی صد درست نہیں ہے۔ چونکہ میں خود اس جلسے میں موجود تھا اس لیے مجھے علم ہے کہ لفظ ”ریاست“استعمال ہوا تھا۔ ریاستیں تو ٹائپ کی غلطی تھی، قرارداد پاکستان میں صرف ایک پاکستان کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

    نصر: (جوش و مسرت سے) قائداعظم نے درست کہا تھا، واقعی قرارداد پاکستان تو پاکستان کی تاریخ میں سنگِ میل ثابت ہوئی۔

    حرا: آغا جان ماضی کی یادیں تازہ کرنا آپ کو کیسا لگا؟

    آغا جان: بہت اچھا لگا بیٹی۔ ہم نے بڑی جدوجہد اور قربانیوں کے بعد آزاد وطن حاصل کیا ہے۔ میرے بچو! تم ہمارے وارث بھی اور امین بھی ہو۔ تم سے بس اتنی سی درخواست ہے کہ ہمارے خوابوں کو پائمال نہ کرنا، اس پاک سر زمین کی حفاظت فرض سمجھ کر کرنا، پاکستان ہمارے اسلاف کے خواابوں کی تعبیر اور جذبوں کا امین ہے۔ ہمیں پاکستان کی موجودہ نسل سے بہت سی اچھی توقعات ہیں۔

    نصر: آغا جان ہم پاکستان کے وارث اور امین ہی نہیں محافظ بھی ہیں۔

    آغا جان: شاباش میرے بچو! ہم نے جو دیا جلایا ہے اس کی روشنی کبھی ماند نہ پڑنے دینا۔ پاکستان میں اُجالا بکھیر دینا۔ تم سے اور تمہاری نسل سے مجھے یہی کہنا ہے کہ

    ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کر
    اس ملک کو رکھنا میرے بچوں سنبھال کر

    ردا: آغا جان ہم آپ سے وعدہ کرتے ہیں کہ ہم پاکستان کے وفادار رہیں گے، اس کے چپے چپے کی حفاظت کریں گے۔

    آغا جان: ان شاء اللہ میرے بچو! تم پاکستان کے پاسبان ضرور بنو گے۔

    (بحوالہ: قرارداد پاکستان، تاریخ و تجزیہ : خواجہ رضی حیدر)

  • معیاری طرزِ تعلیم، انفرادی توجہ…… داخلے جاری ہیں

    معیاری طرزِ تعلیم، انفرادی توجہ…… داخلے جاری ہیں

    نصبُ العین یعنی اصلی مقصد، دلی منشاء اور اُصول۔ جی ہاں لُغت تو یہی بتاتی ہے اور لغت کو کیا پڑی ہے کہ وہ غلَط بیانی سے کام لے، سو ہم بھی نصبُ العین کے ان معنوں سے صد فی صد متفق ہیں۔
    یہ نصبُ العین ہی تو ہے جو اس وقت سے ہمارے ساتھ سفر کرتا ہے جب اس کے مفہوم سے ہماری آشنائی بھی نہیں ہوتی۔ بس بچپن کے معصوم خواب اور خواہشیں ہمرکاب ہوتی ہیں۔ اکثر بچّے نوعمری میں کسی سے بھی متأثر ہو کر اُس جیسا بننے کے آرزو مند ہوتے ہیں یا پھر کسی بھی پیشے اور شعبے سے اتنا زیادہ متأثر ہوجاتے ہیں کہ اسے ہی اپنا مستقبل بنانا چاہتے ہیں۔
    خوابوں اور خواہشوں کے اس سفر میں کام یابی سے ہم کنار ہونے کے لیے تعلیم بہت ضروری ہے اور حصولِ تعلیم کے لیے تعلیمی ادارے میں داخلہ لازمی امر ہے۔ داخلہ، جو کبھی باآسانی ہو جاتا ہے اور کبھی کارِ محال بن جاتا ہے۔
    بعض اسکولوں میں بچّوں کے داخلے کے لیے والدین کو بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ اتنے کہ اُنہیں دن میں تارے نظر آجاتے ہیں، چونکہ وہ اپنے بچوں کو حسبِ منشاء اسکول میں داخلہ دلانا چاہتے ہیں، اس لیے یہ کوہِ گراں سَر کرنے کی ہر ممکن کوشش کر لیتے ہیں۔ خواہ داخلے کے ابتدائی مرحلے سے داخلہ مکمل ہو جانے تک اُن پر کچھ بھی گزر جائے وہ خوش رہتے ہیں۔ بالآخر خواہش کی تکمیل کی فتح اُن کے حصّے میں آجاتی ہے اور جن کی کوشش ثمر بار نہیں ہوتی وہ دنوں ملول رہتے ہیں اور یہ دورانیہ کبھی کبھی بڑھ کر مہینوں اور برسوں تک محیط ہوجاتا ہے۔
    بچّوں کے اسکول میں داخلے کا پہلا مرحلہ داخلہ فارم کا حصول ہے جو کبھی کبھی بہت بڑامسئلہ بھی بن جاتا ہے۔ بعض اسکولوں میں محض فارم کے حصول کے لیے شب بھر اسکول کے باہر ہی ڈیرہ ڈالنا پڑتا ہے کیونکہ وہاں داخلہ فارم ”پہلے آئیے پہلے پائیے“ کی بنیاد پر تقسیم ہوتے ہیں اور یوں بھی ہوتا ہے کہ ایک ہی مقصد کے لیے جمع ہونے والے کبھی کبھی تقسیم کے اس عمل کے دوران باہمی تفریق کا شکار ہو جاتے ہیں۔ تعلقات کی ڈور کمزور اور رشتوں میں دراڑ پڑ جاتی ہے، ضرب کی تو گنجائش ہی نہیں بچتی۔ بیچارہ مقصد مضروب ہو کر بے بس اور تنہا رہ جاتا ہے کیونکہ اس افراتفری میں وہ پسِ پُشت چلا جاتا ہے۔ اب اگر کوئی طلوعِ آفتاب سے گھنٹوں محض اس لیے قطار میں کھڑا ہے کہ اپنا گوہرِ مقصود پا ئے گا اور جب انتظار کی گھڑیاں ختم ہوتی نظر آتی ہیں تو یکایک عقب سے ایک ہاتھ آگے بڑھتا ہے اور مطلوبہ فارم جھپٹ لیتا ہے۔ انتظار کی اذیت جھیلنے والے کے لیے یہ طرزِ عمل ایک دھچکا ہوتا ہے۔ نتیجتاً آپ جناب بھی تُو تراخ میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ سویرے سے جہاں پکنک کا سماں اور باہمی الفت و اپنائیت کا ماحول ہوتا ہے داخلہ فارم دیے جانے کا آغاز ہوتے ہی وہاں ہماہمی اور بے بسی کی عجب کیفیات دیکھی جاسکتی ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے گویا محشر برپا ہو جاتا ہے۔ اس تمام عرصے میں تہذیبی رویے، انسانی نفسیات، کردار و اخلاق کے جو مظاہر سامنے آتے ہیں وہ انسان شناسی میں بہت معاون ثابت ہوتے ہیں۔
    اُن والدین کی حالت واقعی قابلِ رحم ہوتی ہے جن سے طویل اور تکلیف دہ انتظار کے بعد کہا جاتا ہے کہ آپ کو فارم نہیں مل سکتا، کیونکہ آپ کے بچّے کی عمر پانچ دن کم ہے۔ ایسے میں وہ جس ذہنی اذیت اور کوفت میں مبتلا ہوتے ہیں آپ اسے سمجھ سکتے ہیں۔ اس اضطرابی کیفیت میں فشارِ خون بلند ہوتا ہے تو دل کی رفتار بھی زیر و زبر ہونے لگتی ہے۔ اب والدین کتنی ہی فریاد اور گریہ و زاری کرلیں اُن پر کان نہیں دھرے جاتے کہ اصول اصول ہوتا ہے۔ اس سے روگردانی ممکن نہیں لیکن ان ہی تشنہ کاموں میں سے کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے پاس سیرابی کا ایسا نسخۂ کیمیا ہے جس کی محض ایک خوراک بااصول ‘مریضوں’ کو ‘شفا یاب’ کر دیتی ہے۔ جی ہاں، بھاری بھرکم سفارش اور رشوت کے زور پر پارساؤں کی اصول شکنی تعجب خیز تو نہیں۔ تعلیمی ادارے نامور ہوں یا غیرمعروف وہاں داخلے قابلیت کے ساتھ سفارش اور اکثر ایک قسم کی رشوت کی بنیاد پر دیے جاتے ہیں۔ جن کی سفارش اور رشوت کا معیار اسکول مالکان کی حریصانہ خواہشات کی طرح بہت اعلیٰ ہوتا ہے اُن کے لیے داخلہ مسئلہ ہی نہیں ہوتا۔ لوگ اپنے بچّوں کو من پسند اسکول میں داخل کرانے کے لیے کسی نہ کسی طرح اسکول مالکان یا انتظامیہ کے مطالبات پورے کردیتے ہیں، خواہ اس کے لیے انہیں کچھ بھی کرنا پڑے۔ کیونکہ متعلقہ اسکول میں داخلہ اُن کے بچّے کا حق بنتا ہے۔ وہ تو یہی سمجھتے ہیں، کوئی سمجھے یا نہ سمجھے۔ اب اگر ان لوگوں کی وجہ سے اربابِ اختیار کے حوصلے بلند اور علم کی تجارت کو فروغ ملتا ہے تو ضرور ملے۔ بعض اسکولوں میں سال بھر، چھے ماہ یا تین ماہ قبل ہی رجسٹریشن کروانا پڑتا ہے جو مقررہ مدّت میں رجسٹریشن میں ناکام ہوجاتے ہیں، انہیں بھی سفارش اور رشوت کی لگام تھامنی پڑتی ہے، ورنہ گھوڑا بدک جائے تو کیا ہوتا ہے؟ بخوبی جانتے ہیں جب ہی تو سرِتسلیم خم کر لیتے ہیں۔
    اکثر مدارس میں داخلوں کی مدّت محدود ہوتی ہے۔ اس میں ایک دن کی تاخیر بھی گوارا نہیں ہوتی خواہ سفارش اور رشوت کتنی ہی بھاری کیوں نہ ہو۔ مالکان ہلکے نہیں پڑتے۔ اسکولوں کی ایک قسم ایسی بھی ہے جہاں سارا سال داخلے جاری رہتے ہیں اور والدین کو بھی….
    "جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے” کی دوڑ نہیں لگانی پڑتی، بس وہ تو اس نیک ہدایت پر عمل کرتے ہیں کہ
    "سبو اُٹھا کے پیالہ بھر، پیا لہ بھر کے دے اِدھر”
    اور پھر پیالہ و پیمانہ کیا پورا مے خانہ اُن کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ جی ہاں، جھٹ پٹ بچّے کا اسکول میں داخلہ بھی ہوگیا اور مزید بچّوں کی گنجائش جوں کی تُوں رہی (ہے نا کمال کی بات) اور والدین بھی آزاد۔ جب اور جس وقت جی چاہا بچّے کا داخلہ کروا دیا۔
    بڑے اور چھوٹے معروف اور غیر معروف اسکولوں میں بھی فرق ہے۔ بعض نام ور اور قد آور مدارس میں رشوت اور سفارش پر سخت بُرا منایا جاتا ہے، کیونکہ وہ اسے گناہ سمجھتے ہیں۔ ہاں امدادِ باہمی کے پروگرام پر عمل درآمد اور اِس ہاتھ لو، اُس ہاتھ دو کے مقولے پر عمل کرتے ہوئے داخلے کے لیے ڈونیشن لیتے ہیں۔ جیسے ہی مطلوبہ امداد اُن تک پہنچتی ہے بچّے کو داخلہ دے دیتے ہیں۔ یہ تو بڑے لوگوں کی بُری باتیں ہیں۔ ہاں غیر معروف اور چھوٹے اسکول والوں کی غیرت یہ گوارا نہیں کرتی کہ وہ والدین کی امداد پر ان کے بچّوں کو داخلہ دیں۔ اس لیے وہ اپنے اسکول میں داخلے کے لیے انعام کی پیشکش کرتے ہیں۔ یہاں اُلٹی گنگا بہتی ہے۔ اب گنگا اُلٹی بہے یا سیدھی، بہتی گنگا میں تو کوئی بھی ہاتھ دھو سکتا ہے۔ اور ضرورت مندوں کا تو حق بھی زیادہ بنتا ہے۔ بچّے تو بچّے بڑے بھی انعام کے لالچ میں دوڑے چلے آتے ہیں۔ ایسی ‘عاقلانہ’ سوچ کی ایک جھلک ملاحظہ کیجیے۔

    ======= گرامر سیکنڈری اسکول (رجسٹرڈ) ======

    ہمارا نصبُ العین………….معیارِ تعلیم پر گہری نظر

    داخلے جاری ہیں……..داخلے جاری ہیں

    معیار ہی نام ہمارا…….معیار ہی پہچان ہماری

    + پہلے پچاس داخلوں پر انعامات ہی انعامات

    + اسکول کورس، اسکول بیگ، اسکول شوز (جولائی اور اگست کی فیس معاف)

    + پوزیشن ہولڈر طلباء و طالبات ہمارے اسکول میں داخلہ حاصل کر کے 50% فیس میں کمی حاصل کر سکتے ہیں۔

    + سال بھر کی فیس یکمشت ادا کرنے پر ایک ماہ کی فیس معاف

    + بچّوں پر انفرادی و خصوصی توجہ

    لیڈیز ٹیچرز کی ضرورت ہے

    ‘لیڈیز’ ٹیچرز ملاحظہ فرمایا آپ نے؟ ایسے کئی اسکول ہم نے دیکھے ہیں جہاں کا نصابِ تعلیم بچّوں کی سمجھ سے تو بالاتر ہے ہی ماہر اور تجربہ کار اساتذہ کے ذہنِ رسا سے بھی خاصا دور ہے۔ اتنے فاصلے پر کہ اس پر ان کی گرفت مضبوط ہو ہی نہیں پا رہی۔ دیرپا گرفت تو پھر بعد کی بات ہے۔ معیارِ تعلیم کی اساس نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم پر رکھی جاتی ہے۔ سو جس اسکول کو اپنا معیارِ تعلیم جتنا بلند رکھنا ہوتا ہے، اسی کی مناسبت سے نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم پر توجہ دی جاتی ہے۔ مضحکہ خیز المیہ یہ ہے کہ ایسے تمام معیاری تعلیمی مدارس کے کرتا دھرتا اپنے بچّوں کو اُس معیار کی پہنچ سے بھی دور رکھتے ہیں جو اُن کا نصبُ العین ہے۔
    بچّوں کا اسکول میں داخلہ فی زمانہ اتنا بڑامسئلہ کیوں بن گیا ہے؟ والدین من پسند اسکول میں داخلے کے آرزو مند ہی کیوں ہوتے ہیں؟ تدریس اور مدرس سے بڑھ کر مدرسہ کی اہمیت کیوں ہے؟ اس کا سبب کہیں مقابلے کی دوڑ میں سبقت لے جانے کی خواہش تو نہیں یا معروف اسکول میں تعلیم دلوانے کو وہ بلند معیار زندگی کی ضمانت سمجھتے ہیں؟
    ایسے والدین بھی ہیں‌ جو عموماً اس ‘سعادت’ سے محروم رہتے ہیں اور اسکول داخلے کے لیے وہ معیارِ تعلیم کو جس کسوٹی پر پرکھتے ہیں وہ واقعی ارفع سوچ کی حامل ہوتی ہے، یعنی ایسا اسکول جس کا نصابِ تعلیم و نظام تعلیمِ اسلامی و قومی روایات سے بھی ہم آہنگ ہو اور جدید تقاضوں پر بھی پورا اترتا ہو۔ بیشک مشکل ترین کتب نہ ہوں جو اساتذہ سے بھی ہضم نہ ہوتی ہوں ایسی کتب ضرور ہوں جسے اساتذہ خود بھی سہولت سے پڑھ اور سمجھ لیں اور شاگردوں کو بھی آسانی سے پڑھا دیں اور بچّے اُس دل چسپی سے پڑھیں کہ اُن کے دل میں تعلیم کی امنگ اور علم کی لگن بڑھ جائے۔ اساتذہ خلوصِ نیت سے بچوں کو تعلیم دینے پر آمادہ ہوں اور اساتذہ اور طالب علموں کے مابین احترام و اعتماد کاجذبہ ہو۔ تب اس اسکول کے بہترین ہونے اور معیار پر کیا شبہ ہو گا؟
    والدین کو چاہیے کہ اسکول میں بچّوں کے داخلے کے لیے بھاگ دوڑ کرتے وقت اُن عوامل کو پیشِ‌ نظر رکھیں جو واقعی تعلیمی معیار کو بلند کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں اور اس ‘معیارِ تعلیم’ پر نظر رکھنے سے گریز کریں جس میں انعامات، فیس رعایت، ڈونیشن، سفارش جیسی ہر بھاری شے موجود ہو، لیکن معیارِ تعلیم اتنا ہلکا ہو کہ نصبُ العین کے رنگ بھی پھیکے پڑنے لگیں۔