Tag: شائستہ زریں کی تحریریں

  • "ناغے کے مزے لوٹے ہر دور میں ناغہ خوروں نے!”

    "ناغے کے مزے لوٹے ہر دور میں ناغہ خوروں نے!”

    مصنّف: شائستہ زرّیں

    بچپن کی یادوں نے جب بھی ہمیں ستایا تو جہاں بچپن کے سنگی ساتھی یاد آئے وہاں اسکول کا زمانہ بھی بہت یاد آیا۔

    اسکول کا ذکر آئے اور ناغے کی بات نہ ہو یہ تو ممکن ہی نہیں اور ہمارا مشاہدہ بھی یہی ہے کہ دورِ ضعیفی میں بھی جب ماضی اپنی گرفت میں لیتا ہے تو بچپن کی یادوں اور باتوں میں ناغے کے دن بہت ستاتے ہیں۔ ممکن ہے اوروں کامشاہدہ اور تجربہ ہمارے مشاہدے کے برعکس ہو۔ بات ہو رہی تھی ناغے کی۔ زمانۂ طالبعلمی میں نیا کیلینڈر اسی لیے تو اچھا لگتا تھاکہ اس میں سال بھر کی تعطیلات کی فہرست بھی ہوتی تھی اور اگر کوئی چھٹّی اتوار کو پڑ جاتی تو ناغہ کا سارامزہ کرکرا ہو جاتا۔ یہ چھٹیاں بہت پُرلطف ہوتیں۔ پھر یوں ہوا کہ اسکول کا زمانہ بھی رخصت ہوا۔ اسکول کو خیرباد کہہ کر ہم نے کالج کی راہ پکڑی تو آئے دن کے ”ہڑتالی ناغوں“ نے ناغے کی ساری خوشی خاک میں ملا دی اور ناغہ ہماری آنکھوں میں خار بن کر کھٹکنے لگا۔ ہر بات کی آخر ایک حد اور خصوصی ناغوں کی لذت ہی الگ ہوتی ہے۔

    آج یادوں نے ذہن پر دستک دی تو جہاں زمانۂ طالبعلمی کے ناغوں نے اپنے حصار میں لیا وہاں انواع و اقسام کے ناغہ خوروں کا خیال بھی ہمیں ستانے لگا۔ ان میں سے بعض تفریحاً، چند مجبوراً، اکثر عادتاً اور کچھ تقلیداً ناغہ کرتے ہیں۔ آخری قسم کے ناغہ خور وہ ہیں جو اچھے بھلے جی رہے ہوتے ہیں، عادی ناغہ خوروں کو دیکھ کر اُنھیں بھی ناغہ کی ہڑک اُٹھتی ہے اور وہ ناغہ کا ذائقہ چکھنے کو بے چین ہوجاتے ہیں، لیکن بعض ایسے بھی ہیں جو دانائی کے تقاضوں کے پیشِ نظر ناغہ کرتے ہیں اوراپنے تو اپنے غیر بھی اُن کے ہنر کی داد دیتے نظر آتے ہیں۔ ان روایتی و مثالی ناغہ خوروں کے درمیان کئی ایک ایسے بھی ہوتے ہیں جو ناغہ کے تصور ہی سے خائف ہو جاتے ہیں۔ مضحکہ خیز المیہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے ناغہ جن کے لیے پیغامِ حیات لاتا ہے۔ ناغہ خوروں کی وجہ سے اُن کی چاندی جو ہو جاتی ہے۔ ظہیر کو جمعہ کو بخار چڑھا، ہفتہ ناغہ ہوا، اتوار کو دوبارہ اُسے بخار نے آ لیا، پیر کو ایک مرتبہ پھر ناغہ۔ ظہیر تو بوکھلا گیا۔ ڈاکٹر کے پاس گیا اور اُنھیں اپنا فسانۂ درد سنا کر پوچھا ؎ اے مسیحا یہ ماجرا کیا ہے؟

    ڈاکٹر نے حسبِ پیشہ دو بول تسلی کے دیے، دو سو فیس کے لِیے اور دو ہزار کے ٹیسٹ ظہیر کی نذر کیے تو وہ تلملا گیا۔ اوائلِ بچپن ہی سے اُسے ٹیسٹ سے اللہ واسطے کا بیر تھا۔ اِدھر ڈاکٹر نے اُس کے ہاتھ میں ٹیسٹ کا پرچہ تھمایا، اُدھر یک بیک وہ اپنے بچپن میں پہنچ گیا جب عین ٹیسٹ والے روز بالکل اچانک اُس کے کسی بھی حصہ جسم میں درد کا ایسا شدید حملہ ہوتا کہ وہ بے حال ہو جاتا۔ درد چونکہ نظر بھی نہیں آتا، اسے وہی محسوس کرسکتا ہے جو اس میں مبتلا ہو۔ سو، ظہیر مزے سے ناغہ کر لیتا اور ایسا ہر اُس دن ہوتا جب ماہانہ ٹیسٹ ہوتا۔ باقی دن وہ چین کی بانسری بجاتا اور ماہانہ ٹیسٹ ختم ہوتے ہی پہلے کی طرح ہشاش بشاش ہو جاتا۔ گھر والے اِس صورت حال سے حیران و پریشان تھے، لیکن اللہ جانے ظہیر نے ڈاکٹر سے کیا ساز باز کر رکھی تھی کہ وہ بھی ظہیر کے ساتھ شریک ہوجاتے اور اب جو برسوں بعد ظہیرکو درحقیقت ناغہ کا بخارچڑھا تو وہ خود ڈاکٹر کی سازش کا شکار ہو گیا کہ ٹیسٹ کی نوعیت بے شک بدل گئی تھی لیکن اس کی یہ ہیَت خاصی ہیبت ناک تھی۔ یکایک ظہیر کو احساس ہوا کہ اسکول کے ٹیسٹ تو بہت بے ضرر اور تعلیمی سفر کا زادِ راہ ہوا کرتے تھے اور یہ ٹیسٹ جیب کٹنے کی علامت ہیں۔ اُس کی مہینہ بھر کی خون پسینے کی کمائی کا بڑا حصہ ناغہ کی اذیت کی نذرہو گیا تو زندگی میں پہلی بار ناغہ سخت برا لگا اور اُسے اپنا مصلحتاً کیا جانے والا ناغہ بلکہ بے دریغ ناغے یاد آگئے۔

    شوکت کا شمار اُن لوگوں میں ہوتا ہے جنھیں تفریحاً ناغہ کی بہت سوجھتی ہے۔ مثلاً اگر کل میں دفتر سے ناغہ کر لوں تو مزہ ہی آجائے، کئی روز ہوئے گرلز کالج کا چکر نہیں لگایا، ایک دن کے ناغہ کے عوض دل لگی میں کیا برائی ہے؟ بہت ممکن ہے، ایک دن کی دل لگی شوکت کی شان و شوکت میں اضافے کا سبب بن کر دائمی خوشیوں کی نوید دے دے۔ شوکت نے اپنا سراپا آئینے میں دیکھ کرسوچا اور دفترسے ناغہ کر کے گرلز کالج کی راہ پکڑی۔ اب یہ شوکت کے نصیب کہ اُن کی شان تو کیا بڑھتی ہاں رہی سہی شوکت بھی خاک میں مل گئی۔اُس روز ناغہ کے طفیل شوکت کی وہ بھد اڑی کہ دفترسے مستقل ناغہ کی نوبت آگئی کہ جس لڑکی کو وہ شیشے میں اُتارنے کی ناکام کوشش کررہے تھے وہ کوئی اور نہیں اُن کے باس کی بیٹی تھی۔

    ناغہ ہر ایک کو راس نہیں آتا۔ ہفتہ وار سرکاری تعطیل کے علاوہ بھی ہفتہ وار ناغہ کیا جا سکتا ہے۔ اس خیال کے ساتھ ہی ہمیں وہ ناغہ یاد آگیا جس کی اطلاع نے ایک پل میں ہمیں کئی کیفیتوں سے گزار دیا تھا۔ آج آپ بھی اس ناغہ کی روداد سے لطف اندوز ہوں۔

    استاد کی زبان سے ادا ہونے والا ایک تاکیدی جملہ بھی شاگردوں کے لیے حکم کا درجہ رکھتا ہے، سو پروفیسر صاحب کا ہدایت نامہ ہم نے بھی بصد عجز و نیاز سُنا کہ ”منگل کے علاوہ کسی روز بھی آجانا کہ منگل کو میرا اور گوشت کا ناغہ ہوتا ہے۔“ منگل کے گوشت کا ناغہ تو بچپن سے سنتے چلے آ رہے ہیں لیکن پروفیسر صاحب کے منگل کے ناغہ کا ذکر سُن کر ہم چونکے بغیر نہ رہ سکے۔ ہمیں زمانۂ طالبعلمی یاد آگیا جب بغیر اطلاع ناغہ کرنے پر طالبعلموں کے خلاف تادیبی کارروائی کی جاتی تھی اور اطلاعی ناغہ کرنے والوں سے بھی باز پُرس ضرور کی جاتی تھی۔ دستاویزی ثبوت کافی نہ سمجھا جاتا تھا۔ اب جو پروفیسر صاحب نے اپنے ناغہ کا ذکر کیا تو خیال آیا کہ پروفیسر صاحب بلاجواز اتنے دھڑلّے سے ہفتہ وار ناغہ کی تہمت نہیں اٹھا سکتے۔ یقیناً منگل کو تنقید، تحقیق و تخلیق کے نت نئے در وا ہوتے ہوں گے کہ تینوں امور پروفیسر صاحب کی زندگی کا لازمی جزو ہیں۔ منگل شادمانی کو کہتے ہیں یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ منگل کو ناغہ کر کے پروفیسر صاحب فال نکالتے ہوں کہ امتحان کے لیے کون سی شبھ گھڑی ہو گی جب طالبعلم خلافِ توقع پرچہ دیکھ کر بھی اپنی تمام تر توجہ پرچے پر ہی مرکوز رکھیں گے اور کسی بھی اشتعال یا انتقام کی کیفیت میں مبتلا نہ ہوں گے۔

    پروفیسر صاحب کے ناغہ کی گتھی تھی کہ سلجھ کر ہی نہیں دے رہی تھی، یکایک ہمیں اُن ناغہ خوروں کا خیال آگیا جو دانائی کے تقاضوں کے پیشِ نظر ناغہ کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ایک دانا کا تجربہ بھی یاد آگیا کہ ”قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا“ تب ہمیں ایک اور پروفیسر صاحب یاد آگئے جو پڑھاتے بیشک بہت اچھا تھے لیکن قدر کھو دینے کے خدشے کے تحت تین دن ہونے والی کلاس میں سے بھی ایک دن ناغہ ضرورکرتے اور شاگرد ایسے ناخلف اور ناقدرے کہ اُستاد کی دانائی کو سمجھنے کی کوشش کرنے کے بجائے اُن سے ایسے بدظن ہوئے کہ اُن کی قدر و منزلت تک دل سے نکال بیٹھے، لیکن جن پروفیسر صاحب نے اپنے ناغہ کا ذکر کیا تھا وہ تو تدریسی ذمہ داریاں نباہنے میں بے مثال ہیں۔ پروفیسر صاحب نے اپنے ناغہ کے ساتھ گوشت کے ناغہ کا ذکر کیوں کیا؟ ہماری سُوئی تو یہیں آکر اٹک گئی تھی۔ ”بذلہ سنج ایسی باتیں کیا ہی کرتے ہیں“ ہمارے دماغ نے ہمیں راہ دکھائی۔

    پروفیسر صاحب کی حکمت کا راز جانتے جانتے ہم نے خود حکمت کے موتی چننے شروع کردیے مگر عقدہ تھا کہ حل ہو کے ہی نہیں دے رہا تھا کہ آخر منگل کو ہی ناغہ کیوں؟ جب کچھ لوگ اگر گوشت کے ناغہ کا غم منا رہے ہوتے ہیں تو بعض لوگ ناغہ کی مدت جلد ختم ہونے کی مسرت سے دوچار ہوتے ہیں۔ پروفیسر صاحب کا ناغہ گورکھ دھندا بن گیا، ایسا پیچیدہ معاملہ جس میں الجھ کر خیال کے نت نئے پھول تو کھل گئے مگر ناغہ کا سراغ پھر بھی نہ مل سکا۔ اگر آپ میں ہمت ہے تو سراغ لگا لیجیے! شاید یہ کام یابی آپ کے حصے میں آجائے اور ہم پر بھی پروفیسر صاحب کا منگل کا ناغہ اور وہ بھی گوشت کے ناغہ کے ساتھ مذکور ناغہ کا راز منکشف ہوجائے۔

    ہاں ایک عہدے دارایسا بھی ہے جس کے ذمے ناغہ کرنے اور نہ کرنے والوں کی فہرست درج کرنا لکھا ہوتا ہے جسے اپنے ناغے سے زیادہ اوروں کے ناغے کا خیال ہی نہیں رہتا بلکہ وہ اُن کے ناغوں کا حساب اور ریکارڈ تک اپنے پاس رکھتا ہے۔ تمام ناغہ خوروں کے مزاج اور مسائل بھی سمجھتا ہے تو کیوں نہ ناغہ نویس سے ملا جائے جو عمرکے ہر حصے میں ناغہ کے مزے لوٹنے والوں کے تمام حربوں، حیلوں اور جواز سے واقف ہوگا۔ شاید ناغہ نویس کے توسط سے ہم مزید ناغہ خوروں سے ملاقات کر لیں۔ اُن ناغہ خوروں سے جو سرِدست ہماری دسترس سے دُور ہیں اور شاید اس طرح ہمارے علمِ ناغہ خوری میں قابلِ قدر اضافہ ہو جائے۔ لیکن یہ اضافہ طالبعلم بھی تو کر سکتے ہیں کہ ناغہ کی اصل عادت تو اسکول کے زمانے ہی سے پڑتی ہے نا؟ کیا خیال ہے؟

  • بیٹی، ماں کی سہیلی!

    بیٹی، ماں کی سہیلی!

    شائستہ زرّیں

    میرا تجربہ ہے کہ محض ماں ہی نہیں بیٹی بھی ماں کی بہت اچھی سہیلی ہوتی ہے۔ مجھے بخوبی یاد ہے کہ نہایت کمسنی میں میری پہلی دوستی اپنی امی سے ہوئی تھی امی کی سہیلی بننے کا اپنا لطف اور بڑا انوکھا تجربہ تھا۔ امی کی سہیلی بنی تو امی نے غیر محسوس طریقے اور بڑے سلیقے سے اپنے ہنر مجھ میں منتقل کرنے شروع کر دیے۔ ابھی اسکول میں داخلہ بھی نہیں لیا تھا کہ امّی نے تعلیمی تاش کھیلنا سکھایا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اوّل جماعت کی طالبہ تھی تب نونہال پڑھا کرتی تھی۔ کیرم، لوڈو، کسوٹی بھی امّی نے سکھایا۔کھیل کے دوران امّی کے لحاظ میں اپنی متوقع فتح کو شکست میں تبدیل کر دیتی دو ایک مرتبہ تو امّی نے نظر انداز کر دیا پھر احتجاج کیا کہ اس طرح میں نہیں کھیلوں گی۔

    میں نے بہت اچھی کتابیں پڑھی ہیں تم پڑھو گی؟ ایک دن امی نے سوال کیا۔ کیوں نہیں؟ سنتے ہی میں خوشی سے کِھل اٹھی۔ تب امی نے نہ صرف مجھے مولانا راشد الخیری کی صبح زندگی، شام زندگی، شب زندگی پڑھوائیں بلکہ گاہے گاہے اس حوالے سے ہمارے مابین گفتگو بھی رہتی۔ گویاغیر محسوس طریقے سے امی نے تبصرہ نگاری کی تربیت بھی کر دی۔ بیت بازی کے اصول امی سے سیکھے۔ رفتہ رفتہ یہ دل خوش کن احساس ہُوا کہ صرف میں ہی نہیں بلکہ ہم چاروں بہنیں امی کی بہترین سہیلیاں ہیں۔ امّی ہم بہنوں سے مشورہ بھی لیتیں اور بہت سی باتیں ہم سے بانٹتیں بھی تھیں۔

    گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ رفاقت کا یہ سفر خوشگوار ہوتا چلا گیا فرق پڑا تو بس اتنا کہ اب اقتضائے عمر کے تحت امّی حال سے زیادہ اپنے ماضی میں سفر کرتی ہیں اور میں ہر سفر میں اُن کی شریک بن کر کبھی اُن کے زمانۂ طالبِ علمی کے مزے مزے کے واقعات سنتی ہوں، کبھی اُن کی ہم عمر سہیلیوں کی باتیں تو کبھی تحریکِ پاکستان کی یادیں۔ کبھی باتیں کرتے کرتے امی بھول بھی جاتی ہیں، کبھی ایک ہی واقعہ کئی مرتبہ سنا دیتی ہیں لیکن میں ہر بار پہلی مرتبہ والے اشتیاق سے سنتی ہوں کہ امی کی سہیلی جو ہوں لیکن یہاں میں بہت فخرو انبساط سے کہوں گی کہ صرف امی کی بیٹیاں ہی اُن کی بہترین سہلیاں نہیں ہیں۔ اب اُن کی بہوئیں بھی اُن کی سہیلیاں بن گئی ہیں اور پیشانی پر بل لائے بغیر امی سے اُن کے واقعات سنتی ہیں۔

    آج ماؤں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے ہم نے سروے رپورٹ کے شرکا سے سوال کیا کہ ”کیا بیٹی ماں کی سہیلی ہوتی ہے؟“ ان کے جواب پیشِ خدمت ہیں۔

    صدف آصف (مصنفہ)
    ایک لڑکی جب دنیا میں آنکھ کھولتی ہے تو اس کے ارد گرد بہت سارے رشتے ناطے موجود ہوتے ہیں،تاہم اس میں سب سے مقدس،قریبی اور محبت سے بھرپور ماں کا رشتہ ہوتا ہے۔ اس میں دو رائے ہو ہی نہیں سکتی کہ دنیا میں ماں کا کوئی دوسرا نعم البدل ہوسکتا ہے۔ ایک طرف ماں بیٹی کی بہترین صلاح کار ہوتی ہے تو دوسری طرف بیٹی کو بھی ماں جیسی دوست کی ضرورت زندگی کے ہر موڑ پر چاہیے ہوتی ہے۔ وہ اپنی ہر بات، ہر الجھن، ہر مسئلہ صرف اپنی ماں سے شیئر کرنا چاہتی ہے۔ بیٹی اگر باپ کی لاڈلی ہوتی ہے تو وہ اپنی ماں کی بہترین سہیلی بن جاتی ہے،ان دونوں کے مابین یہ رشتہ جتنا مضبوط ہوگا، اتنا ہی بیٹی کے لیے مفید ہو گا اور جو لڑکیاں باہر کی مصنوعی چکا چوند سے متاثر ہو کر غیروں پر اعتماد کرنے کی راہ پر چل پڑتی ہیں، پھر دنیا انہیں ٹھوکروں پر رکھ لیتی ہے۔ آج کل بچیوں کے لیے معاشرے میں جتنی برائیاں موجود ہیں، انہیں ماں کا سہارا لینا ضروری ہے۔ ماؤں کو بھی دنیا کے جھمیلوں میں ایک پیاری سی بیٹی کا ساتھ میسر آجائے تو وہ پریشانیوں میں خود کوتنہا نہیں سمجھتی ہے، اپنے تجربے کا نچوڑ بیٹی کی تربیت میں لگا کر وہ اسے دنیا میں کامیاب دیکھنا چاہتی ہے۔ ماں بیٹی کے مابین دوستی کا مضبوط بندھن، دونوں کے لیے اطمینان کی وجہ بنتا ہے،ماں بیٹی کی سہیلی بن کر امور خانہ داری سے لے کر زندگی گزارنے کا ہر ہنر سکھاتی چلی جاتی ہے۔ ماں کے کاندھے پر اولاد کی تربیت خصوصا بیٹی کی ذمہ داری ہوتی ہے، جسے کل کی ماں بننا ہے۔ اگر اس کے مزاج میں مثبت تبدیلیاں پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئیں تو معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے والے بہت ساری علتوں سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔

    فرناز رئیس (گھریلو خاتون)
    بیٹیاں سب کے مقدر میں کہاں ہوتی ہیں
    گھر جو خدا کو پسند آئے وہاں ہوتی ہیں
    سو فیصد بیٹی ماں کی سہیلی ہوتی ہے۔ میرا اور میری بیٹی کا تعلق ایسا ہی ہے۔شروع ہی سے میں نے اپنی بیٹی سے کہا ماں بیٹی کا رشتہ دوستی کا ہوتا ہے اور میری پیاری بیٹی ہر مسئلہ اور ہر بات مجھے بتاتی ہے اور میں اپنی باتیں اس سے کہتی ہوں اور میں سمجھتی ہوں کہ ماں بیٹی کی دوستی بیٹیوں کے حق میں بہت اچھی ہوتی ہے کیونکہ باتوں ہی باتوں میں بیٹی کو بہت کچھ سکھادیا جاتا ہے۔ اچھے برے کی پہچان کرا دی جاتی ہے۔ ایسا ہی تعلق میرا اور میری امی کا تھا اور ہے۔ میری امی میری نبض شناس ہیں میرے کہے بنا محض شکل دیکھ کر جان لیتی ہیں کہ میں کس کیفیت سے گزر رہی ہوں۔ امی کا رویہ ہمارے ساتھ ہمیشہ دوستوں جیسا ہی رہا۔کوئی بھی بات ہمیں سختی سے نہیں سمجھاتی تھیں۔ اس لیے ہمیں حوصلہ ملتا تھا امی سے سب باتیں کہہ دیں لیکن اس وقت کا ماحول ایسا تھا کہ کچھ باتیں امی سے کہتے لحاظ آڑے آتا تھا مگر میں نے اپنی بیٹی کو اتنا با اعتماد بنایا اور اس سے کہا ہر اچھی بری بات، کوئی مسئلہ ہو مجھ سے بلا جھجک کہو اور وہ مجھ سے ہر بات کہہ دیتی ہے۔ اس لیے ہمارا دوستی کا رشتہ زیادہ مضبوط ہے۔

    اسماء ناصر (خاتونِ خانہ)
    بیٹی ماں کی سب سے اچھی سہیلی ہوتی ہے،کیونکہ سب سے زیادہ وہی اپنی ماں کو جان سکتی ہے۔ اُن کی تمام کیفیات سے اچھی طرح آگاہ ہوتی ہے۔ جو بیٹیاں اپنی ماں کی بہت اچھی سہیلی ہوتی ہیں جب وہ خود بیٹی کی ماں بنتی ہیں تو اُس کی بہت عمدہ تربیت کرتی ہیں کہ کس موقع پر اور کس حالت میں ایک لڑکی کو کیسا برتاؤ کرنا چاہیے۔ جو بیٹیاں ماں کی سہیلیاں ہوتی ہیں وہ اپنے گھر سے بہت اٹیچ رہتی ہیں۔ میں نے بھی یہی کیا اور آج میں اپنی ماں کی بہت اچھی سہیلی ہوں تو میری بیٹیاں بھی میری بہت اچھی سہیلیاں ہیں جن سے میں اپنے دل کی بات کہ سکتی ہوں۔

    تسلیم فاطمہ (معلمہ)
    بچے تو سارے ہی ماں کو عزیز ہوتے ہیں، لیکن بیٹیاں ماں سے زیادہ قریب ہوتی ہیں۔وہ ماں کی سہیلی ہوتی ہیں۔ میری والدہ میری سب سے اچھی سہیلی ہیں۔ ہماری دوستی کب ہوئی؟ اس کا مجھے کوئی جواب نہیں ملتا۔ ہم گھنٹوں ہرموضوع پرگفتگو کرتے ہیں۔ وہ مجھ سے اپنی ساری دل کی باتیں کہہ دیتی ہیں اور میں اُن کو اپنے سارے راز بتا دیتی ہوں۔ میں سوتی ہوں تو وہ سوتی ہیں۔ وہ جاگتی ہیں تو میں جاگتی ہوں۔ وہ اپنے بچپن کی ساری باتیں مجھ سے کر چکی ہیں اور میں ہمیشہ ان کی باتیں ایسی سنتی ہوں جس طرح پہلی بار سُن رہی ہوں۔ وہ مجھے میری غلطیوں سے جب آگاہ کرتی ہیں تو مجھے قطعی برا نہیں لگتا اور میں جب بھی اُن کی بات پر عمل کرتی ہوں تو مجھے فائدہ ہوتا ہے۔ میں جب تک پڑھتی ہوں میری والدہ میرے ساتھ جاگتی رہتی ہیں۔ امّی نے مجھے نویں جماعت تک پڑھایا اور ہمیشہ میری رہنمائی کی۔ آج میں جو کچھ بھی ہوں وہ اُ ن کی رہنمائی اور محنت کا نتیجہ ہے۔

    میری والدہ کو پڑھنے کا بہت شوق تھا، اور وہ میٹرک کرنا چاہتی تھیں، لیکن چھوٹی عمر میں شادی کی وجہ سے خواہش ادھوری رہ گئی۔ جب امّی نے مجھ سے اس خواہش کا اظہار کیا تو میں نے اُن کے اس خواب کو پورا کرنے کی ٹھان لی۔ امّی کو پرائیوٹ میٹرک کروایا۔ امّی نے دن رات محنت کی اور ایک ہی سال میں نویں دسویں کا امتحان دیا اور اچھے نمبر وں سے کامیاب ہوئیں۔ ماں کی رفاقت نے مجھے دنیا کے سردوگرم سے بھی بچایا۔ مجھے یہ کہتے ہوئے بہت خوشی ہوتی ہے کہ میں اُن کی سہیلی ہوں اور اُن سے بہت پیار کرتی ہوں۔

    ڈاکٹر نمرہ ارشاد
    ماں بیٹی آپس میں جتنی زیادہ قریب ہوتی ہیں اُتنا ہی زیادہ دونوں کا رشتہ دوستی کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور پھر ماں کی طرح بیٹی بھی ماں کے دکھ سکھ اُس کے چہرے سے پڑھ لیتی ہے۔ اگر بیٹی اپنی ہر بات ماں سے شیئر کرتی ہے تو وہ اپنی ماں کی ان کہی بات بھی محسوس کر لیتی ہے۔ بیٹی اُسی وقت ماں کی اچھی سہیلی ثابت ہوتی ہے جب وہ ماں کے احساسات و جذبات سے قریب ہو۔ ماں کا دل ایک سمندر کی طرح ہوتا ہے جس میں سب کچھ سما جاتا ہے دوستی کی بنیاد اعتماد اور بھروسہ ہے اور اسی بنیاد پر بیٹی ماں سے دوستی کی عمارت تعمیر کرتی ہے۔

    مریم عرفان (معلمہ)
    ماں اور بیٹی کا رشتہ دنیا کا وہ واحد رشتہ ہے جو ایک دوسرے کے وجود کو مکمل کرتا ہے۔ ماں کے وجود ہی سے بیٹی کا وجود ہے اور بیٹی کے وجود ہی سے ماں کا وجود ہے۔ ماں اور بیٹی ایک دوسرے کی بہترین دوست اس طرح ہو سکتی ہیں کہ ماں بیٹی کے رشتے میں جتنی قربت ہوتی ہے وہ کسی اور رشتے میں نہیں ہوتی۔نظریات اور پسند اور ناپسند کے ہزار اختلاف کے با وجود وہ ایک دوسرے کی ہمراز اور ہم نوا ہوتی ہیں۔ ہر خوشی،غم اور تکلیف میں ایک دوسرے کا سب سے مضبوط سہارا بنتی ہیں شاید اس لیے کہ اس رشتے میں جذبوں کی ترجمانی الفاظ کی محتاج نہیں ہوتی۔بیٹی کے دل کا حال ماں بن کہے جان لیتی ہے اور بیٹی کو بھی ماں کی ذات اور اس کی شخصیت پر اسی طرح اعتماد ہوتا ہے جیسا کہ خود پر، لیکن کہیں کہیں صورت حال اس کے برعکس بھی ہو تی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کئی گھرانے ایسے بھی ہیں جہاں ماں اور بیٹی کے رشتے میں دوستی کا رشتہ دکھائی نہیں دیتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ماں اپنی پرورش میں سختی۔ تنگ نظری اور قدامت پسندی کو شامل کر کے بیٹی کو کچھ اس قدر خوفزدہ کر دیتی ہے کہ وہ چاہتے ہوئے بھی ماں سے اپنے دل کی بات نہیں کہ پاتی اور ان دونوں کے بیچ ایک ایسا خلا آ جاتا ہے کہ ساری زندگی اسے پُر نہیں کیا جا سکتا۔ ماں ہی کو نہیں بیٹی کو بھی ماں کی سہیلی ہونا چاہیے اور اس معاملے میں میں بہت خوش قسمت ہوں۔

    رمشا جنید (گھریلو خاتون)
    بیشک بیٹی ماں کی سہیلی ہوتی ہے۔ یہ بات میں اپنے تجربے سے کہ رہی ہوں میں اور امی ایک دوسرے کی بہترین سہیلیاں ہیں۔ میں اُن سے اور وہ مجھ سے اپنی ساری باتیں شیئر کر لیتی ہیں، میں امی کے ساتھ گیمز بھی کھیلتی ہوں۔جتنا میں امی کو جانتی ہوں اور کوئی نہیں جانتا جب ہی تو میں امی کی سب سے اچھی سہیلی شادی سے پہلے بھی تھی اور شادی کے بعد بھی ہوں۔

    اُم البنین (ڈینٹسٹ)
    جی بالکل ماں کی سب سے بہترین اور قریبی سہیلی اُس کی بیٹی ہوتی ہے کیونکہ بیٹی ماں کی پرچھائیں ہوتی ہے۔ جیسا ماں کا مزاج ویسا ہی بیٹی کا ہوتا ہے تو ایک دوسرے کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ ماں اپنے تجربے سے اپنی بیٹی کی رہنمائی کرتی ہے اور بیٹی موجودہ دور کے حساب سے ماں کے تجربات کی روشنی میں زندگی گزارتی ہے۔ ایک ماں سے بڑھ کر بیٹی کو کوئی نہیں سمجھ سکتا اور وہ دونوں ایک دوسرے کی ہمراز ہوتی ہیں۔

    مہرین بنگش (گھریلو خاتون)
    جی بالکل، بیٹی ماں کی سہیلی ہوتی ہے، کیونکہ وہ ماں کے بہت قریب ہوتی ہے۔ اس لیے ماں کے دکھ سکھ کو بخوبی جان لیتی ہے بیٹی کوخود بھی ہر قدم پر اپنی ماں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ماں سے بڑھ کر شاید ہی کوئی اس دنیا میں اُس کا ہمدرد اور خیر خواہ ہو۔ جب میں اپنی ماں سے اپنا کوئی مسئلہ شیئر کرتی ہوں تو مجھے سکون ملتا ہے اور میں محسوس کرتی ہوں کہ میری ماں کی توجہ اور دعائیں مجھ پر اب پہلے سے بڑھ کر ہے۔ اسی طرح جب یہی صورتحال میری ماں کے ساتھ ہوتی ہے تو اُنہیں بھی ایسا ہی اطمینان ہوتا ہے مجھ سے اپنے دکھ سکھ کہہ کر۔

    وجیہہ (طالبہ)
    بیٹی اللہ کی طرف سے ایک تحفہ ہے، رحمت ہے اور نعمت ہے۔بیٹی ماں سے زیادہ قریب ہوتی ہے۔اپنی حساس طبیعت کی وجہ سے وہ زیادہ محسوس کرتی ہے اور ہر طرح سے ماں کے ساتھ تعاون کرنے کی کوشش کرتی ہے بلکہ ماں کی ان کہی باتیں بھی بیٹی محسوس کر لیتی ہے اور ماں کے دکھ سکھ بانٹ لیتی ہے۔

    ماہی (محنت کش)
    جب بیٹی ماں کی قدر سمجھ لیتی ہے تو خود بخود اُس کی اچھی سہیلی بن جاتی ہے پھر یہ کہ جب بیٹی بڑی ہو جاتی ہے تو اُس سے پیار کرنے کے ساتھ ساتھ ماں اُسے اپنی سہیلی سمجھ کر اپنی ہر بات کر لیتی ہے اُس سے کوئی بات نہیں چھپاتی بلکہ اُس سے مشورہ بھی لیتی ہے۔ اور وہ اس طرح ماں کی سب سے پیاری سہیلی بن جاتی ہے۔ اور یہ بھی ہوتا ہے جس طرح دو سہیلیاں آپس میں ناراض ہو جاتی ہیں لڑتی ہیں اسی طرح ماں بیٹی بھی کرتی ہیں اور پھر ایک دوسرے کو منا بھی لیتی ہیں اور پھر سے آپس میں سہیلیاں بن جاتی ہیں۔

  • عالمی یومِ‌ اطفال:‌ "ہمارا کوئی مستقبل نہیں ہے!”

    عالمی یومِ‌ اطفال:‌ "ہمارا کوئی مستقبل نہیں ہے!”

    پھول اور بچّے کسے اچھے نہیں لگتے؟ دونوں ہی دل میں امنگوں اور آرزوؤں کو فروزاں رکھتے ہیں، بقول شاعر

    مجھے بچّوں کی آنکھوں میں وہ سارے رنگ ملتے ہیں
    جنھیں چھونے سے آئے زندگی کی خواہشیں کرنا

    جس طرح باغباں کی عدم توجہی سے پھول مرجھانے لگتے ہیں بالکل ایسے ہی والدین اور اساتذہ کی عدم دل چسپی، بے توجہی، سماجی ناہمواری بچّوں سے معصومیت اور خود اعتمادی چھین لیتی ہے۔ اس کی جگہ تفکرات لے لیتے ہیں۔

    کیا عجب عہد ہے کہ بچّے بھی
    بولتے کم ہیں سوچتے ہیں بہت

    بے فکری اور معصومیت جب نو عمری ہی میں بچّوں سے چھن جائے، تب حساس دل، بیدار مغز اور روشن ضمیر اس دُکھ کو اپنے اندر تک اُترتا محسوس کرتے ہیں۔جنگِ عظیم اوّل اور دوم سے جو تباہی آئی ان کے متاثرین میں ایک بڑی تعداد بچّوں کی بھی تھی، وہ بچّے جن کے دَم سے گھروں ہی میں نہیں دلوں میں بھی رونق اور روشنی سی پھیل جاتی ہے۔ جنگوں کے اثرات سے یہی بچّے مختلف النوع مسائل اور بیماریوں میں گھر گئے تھے۔

    اقوامِ متحدہ کے 1992ء کے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں 20 نومبرکو عالمی یومِ اطفال منانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ یوں بچّوں کا عالمی دن آج بھی منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر بچّوں کے حقوق سے متعلق آگاہی دی جاتی ہے اور ورکشاپس اور سیمینارز کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ بچّوں کی فلاح و بہبود کے نعرے تو بہت لگتے ہیں لیکن جب مختلف ممالک بالخصوص پسماندہ ملکوں کی سالانہ جائزہ رپورٹیں‌ سامنے آتی ہیں‌ تو افسوس ہوتا ہے۔ بچّوں کے مسائل ہیں کہ روز بہ روز بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور وسائل اتنے محدود کہ مسائل کا حل بھی دشوار ہے۔

    دنیا کے مختلف ممالک میں 15 سال سے کم عمر بچّوں کی کثیر تعداد تعلیم، صحت اور غذا سے محروم ہے۔ بھوک اور افلاس کے مارے، دل گرفتہ اور نفسیاتی الجھنوں کا شکار والدین اپنے بچّوں کو فروخت اور قتل کر رہے ہیں۔ غربت کے نتیجے میں گداگر اور محنت کش بچّوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ روشنی ہیلپ لائن کی ایک تحقیق کے مطابق ”ایک سال سے پانچ برس کی عمر کے بچّے گداگر مافیا کا زیادہ نشانہ بنتے ہیں۔

    میرا بھی جی چاہتا ہے میں بھی
    مدرسے جاؤں
    میں اپنے مکتب کے
    سارے بچوں کے ساتھ مل کر
    سبق سناؤں
    جو گیت نغمے کتاب میں ہیں
    وہ گنگناؤں
    مگر یہ سب کچھ میرے نصیبوں میں
    کب لکھا ہے
    میں ایک مفلس غریب ہوں اور
    دکھوں کی دہلیز
    گھر ہے میرا
    اسی سڑک پر بسر ہے میرا
    میں روز وشب اسی سڑک کنارے
    کھڑی ہوئی
    بھیک مانگتی ہوں
    (نظم: اداس بچّی، شاعر سلیمؔ مغل)

    دربدری، جھڑکیاں اور ذلّت و خواری ان گداگر بچّوں کا نصیب بنتی ہے۔

    ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان بچّوں سے جبری مشقت کرانے والے ممالک میں تیسرے نمبر پر ہے۔ سرکاری اور مختلف تنظیموں کے اعداد و شمار کو دیکھیں‌ تو پاکستان میں محنت کش بچّوں کی تعداد ایک کروڑ 25 لاکھ سے زائد بتائی جاتی ہے جن میں تقریباً 50 لاکھ بچّوں کی عمریں 10 سے 14 برس کے درمیان ہیں۔ 9 برس سے کم عمر بچّے ہزاروں کی تعداد میں چائلڈ لیبر کی وجہ سے اپنی صحت ہی نہیں بچپن بھی گنوا رہے ہیں لیکن کوئی پرسانِ حال نہیں۔ حقوقِ اطفال کی ایک شق کے تحت 14 سال سے کم عمر بچّوں کو فیکٹریوں، معدنی کانوں، تعمیراتی کاموں اور دیگر خطرناک ملازمتوں پر نہیں رکھا جاسکتا، لیکن پاکستان کی گھریلو صنعتوں میں محنت کش بچوں کی کثیر تعداد چوڑی، قالین بافی کی صنعت، بجلی کے آلات کی مدد سے پیکنگ اور ایسے ہی دیگر کام کررہی ہے۔ اس کے علاوہ شاہراہوں، ہوٹلوں، ورکشاپس وغیرہ میں بھی محنت کش بچے نظر آتے ہیں۔

    ان ہی بھکاری اور محنت کش بچوں میں سے بعض بچّے جرائم کا راستہ اپنا لیتے ہیں۔ پاکستان میں جسمانی و ذہنی تشدد کے علاوہ بچّے جنسی تشدد کا شکار بھی ہیں۔ انھیں تحفظ دینا حکومت کام ہے اور اس میں معاشرے کو بھی کردار ادا کرنا چاہیے۔

    دوسری طرف وہ والدین اور سرپرست ہیں جو بچّوں‌ سے منفی سلوک کرتے ہیں اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے ہوئے اور ان کی راہ نمائی کرنے کے بجائے ان پر حکم صادر کرتے ہیں یا بچّوں پر اپنی مرضی مسلط کرتے ہیں جیسا کہ تعلیم کے دوران مضامین کے انتخاب کا معاملہ ہے۔ اگر والدین بچّوں کو نرمی سے سمجھائیں اور قائل کرنے کی کوشش کریں‌ اور ان کی بات سنیں تو یقیناً بچّے پُراعتماد بھی ہوں گے اور ان میں‌ زندگی اور اس سے متعلق فیصلے کرنے کا شعور بھی پیدا ہوگا۔ ایسے بچّے عملی زندگی میں زیادہ کام یاب ہوسکتے ہیں اور بہترین شہری بھی ثابت ہوتے ہیں۔

    گزشتہ چند برسوں سے بچّوں کے کھیل کود اور تفریحی سرگرمیاں یا مشاغل میں بہت واضح تبدیلی آئی ہے جس کا براہِ راست اثر ان کی شخصیت پر پڑ رہا ہے۔ اب سے کچھ عرصے پہلے تک بچّے ایسی جسمانی اور دماغی سرگرمیاں‌ انجام دے سکتے تھے جس سے ان کی صحت کے ساتھ ذہنی و اخلاقی تربیت بھی ہوتی۔ بچوں کے کھیل اور مشاغل تفریح کے ساتھ ساتھ انہیں تعمیری سوچ اور مثبت طرزِ عمل سکھاتے تھے۔ نتیجے میں بہت سی کامیابیاں ان کے حصے میں آتیں۔ لیکن اب بچّے تن آسانی کا شکار ہو رہے ہیں۔ نہ وہ پہلی سی پھرتی رہی نہ خوش دلی۔ بالکل سامنے کی بات ہے کہ والدین نے بچّوں کو موبائل فون اور انٹرنیٹ کی دنیا میں چھوڑ کر خود کو اپنی مصروفیات میں گم کر لیا ہے۔ یہ تک دیکھنا گوارا نہیں کرتے کہ بچے کس نوعیت کے کھیلوں میں دل چسپی لے رہے ہیں؟ اور ان سے کیا سیکھ رہے ہیں؟ والدین بچّوں کی عادات اور رویوں میں تبدیلی سے متفکر تو نظر آتے ہیں لیکن اس پر غور نہیں‌ کرتے اور اپنا کردار بھی ادا نہیں‌ کر رہے، والدین اپنے بچوں کی جائز خواہشات کا احترام ضرور کریں، انہیں جدید ٹکینالوجی اور اشیاء و سہولتیں بھی مہیا کریں لیکن ساتھ ہی بچوں پر نظر بھی رکھیں اور ان کے معمولات میں دل چسپی لیں تاکہ یہ جاننا آسان ہو کہ وہ کیا سوچتے اور کیا کرنا چاہتے ہیں۔

    ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے بچوں نے معلومات کے حصول کا ذریعہ موبائل اور انٹرنیٹ ہی کو سمجھ لیا ہے اور مطالعے سے ان کی دل چسپی باقی نہیں‌ رہی ہے۔ اچھی کتاب کا مطالعہ شخصیت کو نکھار دیتا ہے۔ بچوں میں کتب بینی کا شوق پیدا کرنا والدین اور اساتذہ کی ذمہ داری ہے۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ اس ضمن میں اقدامات کرے۔

    قارئینِ کرام! حیرت انگیز امر یہ ہے کہ عالمی یومِ اطفال پر زور و شور سے بیانات دینے والوں کو اپنی مجرمانہ غفلت کا احساس تک نہیں کہ ہم ان معصوم بچوں کو کیا دے رہے ہیں؟ حقوق سے محرومی بچوں کی شخصیت کو کس طرح مسخ کر دیتی ہے یہ ہمیں سمجھنا ہوگا ورنہ بچّے کہہ سکتے ہیں کہ

    ہمارا حال ہم سے کہہ رہا ہے
    ہمارا کوئی مستقبل نہیں ہے

    (عالمی یومِ اطفال پر شائستہ زریں ؔ کی خصوصی تحریر)

  • تحریکِ پاکستان اور خواتین

    تحریکِ پاکستان اور خواتین

    محسنؔ بھوپالی نے کہا تھا
    ملی نہیں ہے ہمیں ارضِ پاک تحفے میں
    جو لاکھوں دیپ بجھے ہیں تو یہ چراغ جلا
    بلاشبہ یہ وطن غیر منقسم ہندوستان کے انگنت مسلمانوں کے ایثار کے صلے میں انعام کی صورت ہمیں ملا ہے۔ ہمارے اسلاف نے آزاد وطن کے لیے عملی جدوجہد کی، انتھک محنت کی، بے مثال قربانیاں دیں تب کہیں جا کر غلامی کی قید سے خود کو آزاد کرانے میں کامیاب ہوئے۔
    ہماری وہ بزرگ خواتین جنھوں نے پاکستان بنتے دیکھا ہے کم و بیش ایک سے واقعات سناتی ہیں۔ انگریزوں بالخصوص فسادات کے دوران ہندوؤں اور سکھوں کی عصبیت اور ظلم و بربریت کی بات ہو تو ایک ہی دہائی سنائی دیتی ہے کہ مسلمانوں کی عزت، جان، مال، گھر کچھ بھی محفوظ نہ رہا تھا۔ عجب بے سرو سامانی کا عالم تھا۔ پاکستان بنانے میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین نے بھی فعال کردارا دا کیا۔ مسلمان خواتین کی سیاسی بیداری نے ہندوستان میں تہلکہ مچا دیا۔ بی اماں تحریکِ خلافت کے دوران منظرِ عام پر آئیں۔ قائدِ اعظم کی عزیز ہمشیر محترمہ فاطمہ جناح ہر مشکل گھڑی میں اُن کے ساتھ ساتھ رہیں، آپ سیاسی سفر میں قائداعظم کی بہترین معاون اور مشیر تھیں۔ آپ مسلم لیگ کے خواتین کے جلسوں سے خطاب کرتیں تو خواتین کی تعلیم پر زور دیتیں اور تعلیمِ نسواں کا شعور بیدار کرتیں۔ اس ضمن میں آپ کی ساتھی خواتین بیگم رعنا لیاقت علی خان، امجدی بیگم، جمیلہ شوکت، بیگم شائستہ اکرام اللہ، نورالصباح بیگم، بیگم اختر سلیمان، بیگم جمعہ، بیگم اصفہانی، لیڈی ہارون، بیگم ممتاز شاہنواز، بیگم سلمیٰ تصدق حسین، وقار النساء نون و دیگر کی مخلصانہ کاوشوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان تمام معزز خواتین نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے آزاد وطن کے حصول کے لیے بہت فعال کردار ادا کیا۔ یہ وہ خواتین تھیں جن کی کوئی نہ کوئی اعلیٰ یا ادنیٰ درجے کی سیاسی حیثیت تھی مگر نام وَر مسلم لیگی خواتین کے ساتھ ساتھ عام عورتیں بھی اپنے اپنے انداز سے سرگرمِ عمل رہیں لیکن ان کی حیثیت گمنام سپاہی کی سی تھی۔ان تمام خواتین نے نہ صرف آزادی کی جدوجہد میں انتھک محنت کی بلکہ بڑی قربانیاں بھی دیں، زیورات جو اکثر خواتین کی کمزوری ہوتے ہیں اپنے ہاتھوں انہوں نے فنڈز میں دے دیے۔ اس راہ میں کئی کانٹے تھے جنھیں وہ پھول سمجھ کر چنتی رہیں۔
    ایک مرتبہ ایک ضعیف خاتون نے قائد اعظم سے صحت کی جانب سے غفلت نہ برتنے کی درخواست کرتے ہوئے ٹانک استعمال کرنے کا مشورہ دیا، جسے سن کر قائدِ اعظم مسکرائے اور فرمایا، ”آپ کا بہت بہت شکریہ، میری صحت خراب نہیں ہے، بات صرف یہ ہے کہ مجھے کام بہت زیادہ کرنا پڑتا ہے، اگر آپ لوگ مجھ سے زیادہ کام کرنا شروع کر دیں تو اس سے بڑا ٹانک میرے لیے اور کوئی نہیں ہو سکتا۔“ قائدِاعظم نے ہمیشہ خواتین کو ہمّت اور حوصلے سے کام لینے کی تلقین کی اور ان کی منزل کے حصول کے لیے لگن اور جدوجہد کو سراہا۔
    اُن دنوں تمام مسلمانوں کا یہ حال تھا کہ گھر بار ہوتے ہوئے بھی بے گھری کا خوف سر پر سوار رہتا۔ ایسے میں 3 جون کے تقسیم کے اعلان 14 اگست 1947ء کو آزاد وطن کے حصول کی خوشی ناقابلِ بیان تھی اور پھر اپنے آزاد وطن جانے کے راستے کی صعوبتوں نے جینا محال کر دیا تھا، لیکن آزادی کی خوشی نے ہر مشکل گھڑی کو آسان بنا دیا۔
    قائدِ اعظم نے فرمایا تھا، ”مجھے ہر پڑھی لکھی عورت کی ضرورت ہے کیونکہ ہمیں پاکستان بنانا ہے اور ہر عورت کو تعمیری کام کرنا ہو گا۔“
    ایک آزاد وطن حاصل کرنے کے بعد خواتین کی ذمہ داریاں ختم نہیں ہوگئی تھیں۔ نئے ملک کے ساتھ ذمہ داریاں بھی نئی تھیں، خواتین کی لگن اور ہمت مزید بڑھ گئی تھی۔ انہوں نے فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا۔ مضحکہ خیز المیہ ہے کہ قیامِ پاکستان کے لیے سرتوڑ کوششیں کرنے والی خاتون کو مادرِ ملّت کا خطاب تو دے دیا گیا لیکن اُن کی قدر نہیں کی گئی۔ اگر مادرِ ملّت کو مواقع میسر آتے تو وہ پاکستان کی بقا و ترقی کے لیے اپنا کردار ضرور ادا کرتیں۔ آپ اولو العزم خاتون تھیں۔
    اے پیکرِ خلوص و وفا، اے متاعِ جاں
    خدمات آپ کی ہیں گراں فاطمہ جناح
    ( سید ذوالفقار حُسین نقوی)
    بیگم رعنا لیاقت علی خان نے اپنی ساتھی خواتین کے تعاون سے عورتوں کی ترقی، فلاح و بہبود کے لیے فعال ادارہ اپوا قائم کیا۔ بیگم اختر سلیمان نے نہ صرف تحریکِ پاکستان کے لیے عام کارکن سے کام لیا بلکہ قیامِ پاکستان کے بعد بھی معذور بچّوں کی بحالی کے لیے ادارہ SRCC اور بے سہارا خواتین کے لیے ”نشیمن“ قائم کیا۔ بیگم اصفہانی نے کاشانۂ اطفال بنایا۔ نورالصباح بیگم، بیگم تزئین فریدی اور بیگم صدیق علی خان نے خواتین اور بچّوں کی فلاح و بہبود کے لیے کاوشیں کیں اور فعال کردارادا کرتی رہیں۔ تحریک کے دنوں‌ میں‌ اور بعد میں‌ پاکستان کی خدمت کا جذبہ اتنا قوی تھا کہ خواتین بڑے سے بڑے کام کر جاتی تھیں۔تاریخ گواہ ہے کہ پنجاب لاہور سیکریٹریٹ پر جھنڈا لہرانے والی بھی ایک طالبہ ہی تھی۔
    کل تک آزادی کی کامیاب جنگ لڑنے والی اور پاکستان بنتے ہوئے دیکھنے والی خواتین ماضی کے دریچے کھولتی ہیں تو جہاں انھیں وہ خوں آشام مناظر، قائدِ اعظم اور اُن کے رفقائے کار کی جدوجہد اور خواتین کی کاوشوں اور قربانیوں کا خیال آتا ہے وہاں احساسِ زیاں بھی ستاتا ہے کہ
    یہ داغ داغ اُجالا، یہ شبِ گزیدہ سحر
    وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں
    (فیض احمد فیضؔ)
    گزشتہ پچھتّر برسوں میں پل پل رنگ بدلتی ملکی معاشی، سیاسی اور سماجی صورتحال دیکھ کر کئی بار یقین کے جھلملاتے دیے ٹمٹمائے، لیکن اِن نہایت تشویش ناک، غیر تسلی بخش اور غیر یقینی حالات میں بھی خواتین نے تعمیرِ وطن کے لیے اپنا سفر جاری رکھا۔
    چینی کہاوت ہے کہ ” اگر آپ کے ذہن میں چند ماہ کے لیے موسم کے اعتبار سے کوئی منصوبہ ہے تو موسمی پودے لگائیے، اگر کچھ عرصے کا منصوبہ ہے تو چھوٹے درخت لگائیے، اگر برسوں پر محیط منصوبہ ہے تو پھر گھنے تناور درخت لگائیے اور اگر صدیوں پر محیط منصوبہ ہے تو عورتوں کو اپنے ساتھ شامل کر کے جمہوریت کے درخت کو پروان چڑھائیے۔ “
    بلاشبہ خواتین کی اہمیت کو اگر تسلیم کیا جائے اور اُن کی صلاحیتوں پر بھروسہ اور ان کا اعتراف کیا جائے تو خواتین ہر میدان میں کامیابی حاصل کر سکتی ہیں۔جب سے ہماری وزارت اور کابینہ میں خواتین کی شمولیت بڑھی ہے، مختلف شعبہ ہائے زندگی میں خواتین کلیدی عہدوں پر فائز ہورہی ہیں۔ ترقی و خوش حالی بھی نظر آئی ہے، گو یہ مسرت صدفی صد ابھی ہمارے حصّے میں نہیں آئی اور اس ہدف کو پورا کرنے کے لیے ابھی مزید محنت اور ریاضت کی ضرورت ہے لیکن ہمیں یقین ہے کہ اگر خلوصِ نیّت کے ساتھ پاکستان کی بقا کے لیے خواتین اپنا عملی کردار اسی طرح‌ ادا کرتی رہیں تو بقول شاہدہ ؔحسن
    قدم پہ خود ہی کھلیں گی راہیں، سحر سے خود سلسلہ ملے گا
    ہم اپنے سارے چراغ لے کر چلیں گے تب راستہ ملے گا
    ہم اپنے حصّے کی روشنی سے اجال دیں گر تمام رستے
    جو تھک گئے ہیں انھیں بھی چلنے کا اک نیا حوصلہ ملے گا
    ہم اپنے ریشم ملا کے بُن لیں جو ایک پوشاک الفتوں کی
    تو اِس زمیں پر کوئی بھی پیکر نہ پھر دریدہ قبا ملے گا
    اور پھر خواتین کے عزمِ محکم اور عملِ پیہم سے پاکستان کو ترقی یافتہ اقوام کی صف میں کھڑا ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
    میں راہِ ترقّی کا ہوں دیا
    دنیا نے مجھے تسلیم کیا
    مجھے عزّت، مان، وقار دیا
    میں، عفت، عزّت، عصمت ہوں
    میں ہمّت ہوں، میں قوت ہوں
    میں طاقت ہوں، میں جرأت ہوں
    میں عورت ہوں، میں عورت ہوں
    (عنبرین حسیب عنبرؔ)
  • سمجھوتے کی چادر

    سمجھوتے کی چادر

    شکوک کے تمام مراحل بخوشی طے کیے شمع یوں مطمئن اور سرشار بیٹھی تھیں گویا کسی بہت ہی اہم فریضے سے سبک دوش ہو گئی ہوں، مگر ایسا ہرگز نہیں تھا۔
    اس سکون کے اندر ٹھاٹھیں مارتا سمندر اُنھیں اکسا رہا تھا اُس کارروائی کے لیے جس کا آغاز ان کی بدگمانی کی صورت میں ہو چکا تھا اور اب شمع سانپ کی طرح پھن پھیلائے اپنے شکار کو ڈسنے کی تیاری کر رہی تھیں جس نے اُن کا جینا عذاب کر رکھا تھا۔
    شمع کی عادت تھی کہ جب بھی کسی سے انتقام لینے کا تہیہ کر لیتیں پہلے اُسے مشکوک نظروں سے دیکھتیں اور پھر نگاہ کے تازیانے سے گھائل کر کے لسانی حربہ استعمال کرتیں۔ اُن کی حتّی الامکان کوشش یہی ہوتی کہ اپنے بے بنیاد شک کو یقین کی سرحد پر لاکھڑا کریں اور حیرت انگیز امر یہ ہے کہ وہ اپنی اس کاوش میں کام یاب بھی ہو جاتیں۔کیسے؟ یہ جاننے کی خواہش تو مجھے بھی بہت شدت سے تھی مگر چونکہ میں اُن کی زبان درازی سے خائف بلکہ تائب بھی تھی اس لیے میرا تجسّس اپنی موت آپ مرجاتا۔ کئی بار میرے دل سے آواز آئی، دماغ نے دہائی دی کہ تم بہت بزدل ہو مگر میں ہر بار نفی میں گردن ہلا دیتی…. نہیں ایسا ہرگز نہیں، پھر کیا بات ہے؟ میں اپنے آپ سے سوال کرتی بلکہ لڑتی بھی تھی کہ اگر یہ کم ہمّتی نہیں تو اور کیا ہے؟ شاید یہ اپنی عزت کی پاس داری ہے۔
    چند اچھے لفظوں کا سہارا لے کر گویا میں خود کو محفوظ کر لیتی لیکن یہی تو میری بھول تھی۔ اُن کی نظر کا ایک صر ف ایک تیر میرے حوصلے پست کر کے مجھے عدم تحفظ کا احساس دلا دیتا تب میں بے بسی سے ہاتھ مل کے رہ جاتی۔ حتیٰ کہ اس ضمن میں میری سوچ بچار بھی لاحاصل ہوتی۔ پھر یوں ہُوا کہ میں نے اُن کے بارے میں سوچنا ہی ترک کر دیا کہ نہ اُن کا خیال آئے گا نہ ہی تکرار کا یہ لامتناہی سلسلہ مجھے اپنی گرفت میں لے کر پریشان کرے گا۔ جب کوئی تعلق ہی نہیں تو پھر وہ کیسے مجھے اپنا ہدف بنائیں گی؟ دل کو تسلی دے کر اپنے تئیں میں مطمئن ہو گئی تھی مگر یہی تو میری خام خیالی تھی۔
    میں جو اپنی دانست میں یہ سمجھ بیٹھی تھی کہ میرا اُن سے کوئی واسطہ نہیں۔ نہیں جانتی تھی کہ میری بے خبری میں اُنہوں نے تیر چلایا تھا اور مجھ سے اپنے تعلق کی ڈور بہت مضبوط کر لی تھی۔ مگر کب اور کیسے؟ میں نے خود سے سوال کیا۔ اپنے سوال کا جواب تو مجھے نہ مل سکا ہاں یہ انکشاف ضرور ہو گیا کہ شمع نے مجھ سے وہ ناتا جوڑ لیا جو بے اطمینانی کی فضا میں سانس لیتا ہے اور رفتہ رفتہ انتقام کی آگ میں جل کر ایک دن شعلہ بن کر بھڑک اٹھتا ہے۔ جی ہاں اُنہوں نے مجھ سے حسد کا رشتہ استوار کر لیا تھا۔ مگر کیوں؟
    تحقیق کرنے پر معلوم ہُوا کہ میرا اطمینان اُن کی نظروں میں خار بن کر کھٹکتا ہے، میری درگزر کی عادت انہیں پسند نہیں اور میں جو سمجھوتہ کرنے کی عادی ہوں اور اس وجہ سے نہ صرف خود پُرسکون رہتی ہوں بلکہ اوروں کو بھی شکایت کا موقع نہیں دیتی، انجانے میں اپنی اس عادت کی وجہ سے اُن کے لیے باعثِ تشویش بن گئی۔ کچھ اس طور کہ مجھ سے حسد کے عارضے میں مبتلا ہو کر انہوں نے مجھے اپنا شکار بنا لیا۔ اب وہ کسی بھی وقت اپنے انتقام کا نشانہ بنا کر خود تو سکھ چین کا سانس لیں گی لیکن میرا تمام سکھ چین اپنی منتقم مزاجی کی نذر کر دیں گی۔
    اس خیال ہی نے میری نیندیں اُڑا دی تھیں۔ چونکہ میں اس امر سے بخوبی واقف تھی کہ شمع اپنے انتقام کی آگ میں لوگوں کو بھسم کر کے رکھ دیتی ہیں اور اب تو شاید میری راکھ بھی کسی کو نہ ملے۔ اس سے پہلے کہ میرے حواس معطل ہوجاتے ایک نکتہ اندھیرے میں روشنی کی کرن بن کر نمودار ہوا کہ ”اگر میں اُن کی سوچ کا رخ موڑ دوں تو؟ شاید اس طرح نہ صرف میرا بلکہ میرے طفیل بہت سوں کا بھلا ہو جائے گا۔“ مگر کسی کے مزاج کی تبدیلی کوئی آسان بات نہیں۔ اپنے ہی خیال کی تردید کر کے میں نے بے بسی سے سر تھام لیا، لیکن یوں کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینے سے بات نہیں بنے گی، وہ بھی اس صورت میں جب کئی بار میں خود کو یقین دلا چکی ہوں کہ میں بزدل نہیں، اگر یہ بزدلی نہیں تو اور کیا ہے؟ قدرے جھنجھلا کر میں نے اپنے آپ کو سرزنش کی۔
    اور پھر ہُوا یہ کہ جو کام ہفتوں بہت غور و فکر کے بعد بھی میں نہ کر پائی تھی وہ محض ایک پَل میں ہو گیا اور اگلی ہی ساعت میں حیرت انگیز مسرت اور نم آنکھوں سے شمع کو دیکھے گئی کہ اُن کے مزاج میں یہ تبدیلی آئی کیسے؟ ”اب تم گٹھلیاں کھانے نہ بیٹھ جاؤ بس آم سے لُطف اندوز ہو۔“ میرے دل نے مجھے بے نیازی کی ایک نئی راہ دکھائی تو میں بھی اس راہ پر چل نکلی مگر اس اعتراف کے ساتھ کہ بیشک
    تقدیر بدلتی ہے دعاؤں کے اثر سے
    بظاہر بات بہت معمولی سی تھی لیکن یہی شمع کے ستم گزیدوں کے لیے وجہِ رحمت بن گئی۔ نیلو کے گھر ہونے والی ون ڈش پارٹی میں شمع سرخ ٹیشو کی بھڑک دار ساڑھی باندھ کر گئی تھیں، اُنہیں دیکھ کر رانی کی دیورانی رفیعہ تمسخر سے مسکرائیں تب شمع نے حسبِ عادت اُن پر مشکوک نظر ڈالی تو اُنہیں بھی اپنی جانب متوجہ پایا اب عالم یہ تھا کہ دونوں ایک دوسرے پر مشکوک نگاہی کے تیر برسا رہی تھیں۔ رانی کی ساس تو پہلے ہی چھوٹی بہو کو حرفوں کی بنی کہتی ہیں اور اس گھڑی تو واقعی اُن کی رائے درست ثابت ہو گئی جب اُن کی حرافہ بہو نے سرِ محفل ایک مستند اور ماہر منتقم مزاج کے انتقام کی آگ سرد کر دی۔ محض ا تنا کہہ کر کہ ”بہن ایسی آگ برساتی کینہ توز، انتقامی اور مشکوک نظروں کی مار مجھے نہ مارو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ برق تم پر گر کے تمہیں راکھ ہی نہ کر ڈالے کہ مجھے لوگوں کا کچا چٹھا کھولنے میں مہارت ہے اور میں…“ ابھی رفیعہ کی بات نامکمل ہی تھی کہ شمع نے اُن کے آگے ہاتھ جوڑ کر ملتجی نظروں سے اُنہیں دیکھا تو وہ مسکراتی ہوئی آگے بڑھ گئیں۔ جاتے جاتے شمع کا دف بھی مار گئیں کیونکہ اس روز تمام اہلِ محفل کے لیے یہ بہت حیرت انگیز بات تھی کہ شمع کی آنکھوں سے شک اور انتقام کی چنگاریاں ایک مرتبہ بھی نہیں پھوٹی تھیں۔
    بس اسی دن سے شمع کے انتقام کی آگ سرد پڑ گئی اور اُن کے شک سے مزین رویے اب اُن کے احباب کی اذیت کا باعث بھی نہیں بنتے۔ یہ خوش آئند بات سہی لیکن مجھ سمیت کئی لوگ جاننا چاہتے تھے کہ آخر وہ کون سی بات تھی جس نے شمع کو یوں بدل کر رکھ دیا تھا اور اس کا سراغ کوئی لگا ہی نہیں پا رہا تھا۔ شومئی قسمت کہ ایک روز سرِ راہ رفیعہ سے ملاقات ہوگئی۔ میں نے اُن ہی سے معلوم کیا کہ اُس روز نیلو کے گھر آپ نے شمع سے کیا کہا تھا کہ اُن کی بولتی بند کر کے کئی خواتین کی عزّت محفوظ کر لی۔“ رفیعہ نے بے ساختہ قہقہے برساتے ہوئے اطلاع دی کہ شمع کی ایک کمزوری میرے ہاتھ لگ گئی تھی بس اسی سے میں نے فائدہ اٹھا لیا۔ ایک ملاقات میں شمع کے منہ سے نکل گیا کہ ”رشک، حسد اور انتقام کی آگ میں جلتے رہنے کی عادت کی وجہ سے اب اکثر میری ہانڈی جل جاتی ہے جس کے نتیجے میں مجھے اپنے میاں کی جلی کٹی سُننی پڑتی ہیں اور آج تو اُنہوں نے صاف کہ دیا ہے کہ اگر اب مجھے جلی ہانڈی ملی تو تمہارے حق میں بہتر نہ ہوگا، ایسا نہ ہو کہ جلی ہانڈی کھلانے کے نتیجے میں تمہیں ہجر کی آگ میں جلنا پڑے۔“ یہی وہ ہتھیار تھا جو میں نے شمع پر آزمایا تھا۔ چوٹ بھی تازہ تھی اسی لیے اُنہوں نے ہتھیار ڈال دیے، کیونکہ شمع کی زبانی یہی سنتے تھے نا کہ اُن کے میاں اُنہیں سَر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں، اور اُنہوں نے معدے کی راہ سے اُن کے دل میں اس طرح جگہ بنائی ہے کہ اب اور کسی خاتون کا کوئی بھی نسوانی حربہ اُن کے میاں جی کو زیر نہ کر سکے گا، اور یوں بھی طبعاً وہ بہت قانع ہیں، خاص کر کھانے کے معاملے میں کوئی نخرہ نہیں، جیسا کھلا دو ہنسی خوشی بغیر کہے سنے کھالیں گے۔“
    قصہ مختصر شمع کو خدشہ تھا کہ میں جو کہتی ہوں کرنے میں وقت بھی نہیں لگاتی۔ اور اگر اُن کے کہے الفاظ دہرا کر اپنا ہنر اُن پر آزما لیتی تو سرِ بزم اُن کی جو بھد اُڑتی تو وہ کبھی فخر سے سر نہ اُٹھا سکیں گی۔
    رفیعہ کی بات سن کر میں بے اختیار ہنستی چلی گئی۔ جی نہیں قارئین میں باؤلی ہرگز نہیں ہوئی تھی۔ میری ہنسی کا سبب تو صرف یہ تھا کہ میری جس عادت سے حسد کی بنا پر خاتون مجھے انتقام کا نشانہ بنانا چاہ رہی تھیں اب وہی عادت اُنہیں جبراً اختیار کرنی پڑ رہی تھی۔ درست سمجھے آپ قارئین! شمع نے اپنی ایک بھول کی سزا سمجھوتے کی صورت جھیلی تھی مگر مجھے اس خوف سے نجات دلا دی تھی جو تلوار کی طرح ہر دم میرے سر پر لٹکا رہتا تھا کہ جانے کب اور کیسے میرے سمجھوتے کی عادت سے حسد کی بنا پر خاتون بھری محفل میں میری تذلیل کر دیں گی۔ اب تو خود ہر پل اُن کے سَر پر سمجھوتے کی تلوار لٹکی رہتی ہے کیونکہ یہ تو وہ جانتی ہی ہیں کہ اگر شمع سیر ہیں تو رفیعہ سوا سیر۔ اور اُن کا یہی بھاری پلڑا اب شمع کو ہاتھ ہلکا رکھنے پر مجبور کر رہا تھا۔
  • ساس بہو کا سالانہ جھگڑا

    ساس بہو کا سالانہ جھگڑا

    ساس:: خادم بیٹا یہ کیسا شور ہے اور فائرنگ کی آوازیں کیسی ہیں؟

    خادم:: امّی حضور! پریشان نہ ہوں کبیر صاحب کے ہاں پانچ بکرے اور دو بیل آئے ہیں۔ اس خوشی میں فائرنگ ہو رہی ہے۔“

    ساس:: ہاں بھئی خوشی کا موقع ہے، خادم بیٹا! تم کب لا رہے ہو جانور؟

    خادم:: امی حضور میں تو روز جاتا ہوں۔ جانوروں کے دام میرے ہوش اڑا دیتے ہیں۔ جانور اتنا مہنگا ہے معلوم نہیں خرید بھی پاؤں گا کہ نہیں؟

    بہو:: آپ کے ہوش کا کیا ٹھکانہ خادم! وہ تو سستی اشیاء دیکھ کر بھی اڑ جاتے ہیں، اب لے ہی آئیں، ہاں اس بار تگڑا بکرا لائیے گا، دو سال سے ایسا کمزور جانور آرہا ہے کہ میرے میکے والو ں کا حصہ تو لگتا ہی نہیں، اس دفعہ پنکی کو ران بھی ضرور جائے گی۔

    ساس:: کیوں بھئی پنکی کے لیے ران اتنی لازمی کیوں ہے؟ ایک ران میری رانی کو جائے گی اور دوسری میں خود رکھوں گی، رانی کے سسرال والوں کی دعوت میں بھون کر کھلاؤں‌ گی۔

    بہو:: ایک رانی اور ایک پنکی کو چلی جائے گی۔ ہو سکے تو دو بکرے لے آئیے گا، دو رانیں گھر میں رکھ لیں گے اس سے جھگڑا بھی نہیں ہوگا اور انصاف سے سب کا حصہ بھی لگ جائے گا۔“

    بیٹا:: یہاں تو ایک ہی کے لالے پڑ رہے ہیں بیگم صاحبہ نے دو کی فرمائش کردی۔

    ساس:: ہاں بھئی بڑی دیالو ہیں تمہاری بیگم۔ منہ دھو رکھو ملکہ، تمہارے میکے میں گوشت کا ایک ٹکڑا بھی نہیں جائے گا اور پَر کٹی پنکی کے لیے تو میں ہرگزنہ مانوں۔“

    بیٹا:: ملکہ ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہے امی اور پھر رانی کی شادی کو دس سال ہو گئے۔ ران ہر سال رانی ہی کو جاتی ہے، پنکی کی شادی کو تو ابھی دو سال ہی ہوئے ہیں، دو بکرے آگئے تو ایک ران پنکی کو بھی چلی جائے گی۔ ملکہ تم دل چھوٹا نہ کرو، دعا کرو دو بکرے مل جائیں تو بہن اور سالی دونوں کا حق ادا کر دوں گا۔“

    ساس:: بک بک بند کر، بس چُپ کر

    بیٹا:: ابھی تو میں جانور لینے گیا تک نہیں اور شروع ہو گیا ساس بہو کا سالانہ جھگڑا۔ میں منڈی جارہا ہوں۔
    ٭٭٭
    ساس:: سات گھنٹے ہو چلے ہیں خادم کو گئے ابھی تک نہیں آیا اور بہو! تم کیا کھاتہ کھول کر بیٹھ گئیں؟

    بہو:: رش بھی تو بہت ہوتا ہے۔ آجائیں گے، پریشان نہ ہوں، ہاں میں فہرست بنا رہی ہوں گوشت کے حصوں کی۔“

    ساس:: میں بھی تو سنوں کیا فہرست بنا رہی ہو؟

    بہو:: ایک ران پنکی کی۔

    ساس:: ہرگز نہیں، اللہ رکھے ایک ہی تو میری بیٹی ہے وہ بھی تمہاری نظروں میں خار بن کر کھٹکتی ہے۔

    بہو:: میری بھی ایک ہی بہن ہے جس کا نام آتے ہی آپ انگارے چبانے لگتی ہیں۔

    ساس:: کیوں نہ چباؤں انگارے وہ کلموہی میری بچّی کا حق مارے، میں کچھ نہ کہوں۔ تم اگر ملکہ ہو بہو بیگم تو میں بھی نواب بیگم ہوں، تم سیر ہو تو میں سوا سیر۔“

    بیٹا:: ساس بہو میں کیا تکرار ہو رہی ہے؟ یہ لیجیے آ گیا ہمارا بکرا۔

    ساس:: جیتے رہو بیٹا، کیسا پیارا صحت مند بکرا لائے ہو، پھٹکری دینا بیٹا نظر اتار دوں۔ نظر نہ لگ جائے کہیں میرے پیارے بکرے کو۔

    بہو:: نظر بعد میں اتروائیے گا خادم، پہلے میری سن لیجیے، اس بار ران میری پنکی کو ضرور جائے گی اور پائے امی کے گھر جائیں گے۔ میرے سارے بہن بھائی بھرپور گوشت بھیجتے ہیں اور میں بیچاری۔“

    ساس:: ہاں ہاں تم بیچاری، درد کی ماری، ارے سب سمجھتی ہوں تمہارے چلتر پن کو، کچا گوشت بیشک میکے نہیں بھیجتیں لیکن گوشت پکا کرخوب بھر بھر میکے والوں کی دعوتیں جو کرتی ہو اس کا کوئی ذکر ہی نہیں، مجھ سے پوچھتی تک نہیں کہ
    بتا اماں، تیری رضا کیا ہے

    غضب خدا کا میرے بیٹے کی خون پسینے کی کمائی اپنے میکے والوں پر ایسے لٹاتی ہے جیسے اس پر ان ہی کا تو حق ہے۔ سن لو ملکہ عالیہ پائے تو میں رانی کے سسرال والوں کی دعوت میں پکاؤں گی۔ ایک ران میری رانی کو جائے گی اور دوسری کا ران روسٹ بناؤں گی۔

    بہو:: اور میں نے بھی کہہ دیا پنکی سسرال میں نئی ہے۔ ران اگر پرانی بیاہی رانی کو جائے گی تو میری پنکی کو بھی جائے گی۔

    ساس:: کیسے جاتی ہے پنکی کو ران؟ میں بھی دیکھتی ہوں، انھیں خیال نہ آیا کہ میں اپنی ملکہ آپا کے لیے ران بھیج دوں، اتنا بڑا بیل آیا تھا، ایسی کنجوس کے لیے تو میں ہرگز نہ مانوں۔

    بہو:: ران ہی تو نہیں بھیجی تھی پنکی نے، گوشت کیسا بھرپور بھیجا تھا میری بہن نے، دیکھ کر پانی بھر آیا تھا آپ کے منہ میں، سب یاد ہے مجھے آپ کی فرمائشیں، جیسے ہی گوشت آیا، آپ کی رال ٹپکنے لگی تھی، اے بہو! اس کی تو بریانی پکا لینا، خاص بریانی کا گوشت ہے، جب میں نے بریانی پکائی تو ڈکار پر ڈکار لے رہی تھیں لیکن کھانے سے ہاتھ نہیں کھینچ رہی تھیں، ہڈیاں تک اچھی طرح سے سوتی تھیں۔ آپ کا تو وہ حال تھا ”جان جائے خرابی سے ہاتھ نہ رکے رکابی سے۔“

    ساس:: ہاں بہو کم ظرفی دکھاؤ، یہی ہے تمہاری اوقات۔ دو نوالے کیا کھا لیے اس کو اتنا بڑھاوا دے رہی ہو۔ سن رہے ہو خادم، اپنی بیگم کی گز بھر کی زبان کیسے ماں کی بے عزتی کر رہی ہے اور تم منہ بند کیے بیٹھے ہو زن مرید، پَر کٹی پنکی کے لیے تو میں ہرگز نہ مانوں چاہے آج زمین آسمان ایک کر دے۔“

    بہو:: میں بھی کسی سے کم نہیں۔ ایک ران پنکی کو ضرور جائے گی، مما پپا ہمیشہ پنکی کے نام کی ایک ران الگ رکھتے ہیں۔“

    ساس:: تو کہو اپنے اماں باوا سے نبھائیں اپنی روایت۔ ایک کیا چار رانیں بھیجیں پنکی کو۔ دس سال تو تمہاری شادی کو ہوگئے، آج تک ایک ران بھی نہ بھیجی اماں باوا نے تمہارے واسطے۔ وہ پنکی بیگم کہاں کی نواب زادی ہیں جن کے لیے ایک ران لازمی ہے۔

    بہو:: نواب زادی تو آپ کی رانی ہے مہا رانی، دختر نواب بیگم۔ خادم کیوں منہ بند کیے بیٹھے ہیں کچھ تو کہیے۔

    ساس:: ”ہاں بیٹا تم بھی ساز چھیڑ دو تم کیوں خاموش ہو۔“

    خادم:: کروں تو کیا کروں اور کہوں تو کیا کہوں؟ میں غریب۔

    ساس::
    کہ دو تم بھی اپنے دل کی بچے
    تم تو ہو ہی من کے سچے

    بہو:: ہاں آپ بھی بھڑاس نکال لیں کہیں دل کے ارمان دل ہی میں نہ رہ جائیں۔

    خادم:: دل کے تار سلامت ہوں گے تو ارمان نکلیں گے، میرے تو حواس بھی چھوٹے جا رہے ہیں ساس بہو کے جھگڑے میں۔

    بہو:: بند کریں خادم اپنا راگ۔ آپ کے دل کے تار ٹوٹیں یا حواس چھوٹیں میری پنکی کو ران ضرور جائے گی۔“

    ساس:: اگر تم کھال اتارنے میں ماہر ہو بہو! تو میں بھی کھال کھینچنے میں کسی سے کم نہیں۔

    بیٹا:: (منمناتے ہوئے) کھال میں لُوں گا۔

    ساس:: خادم بیٹا تمہیں کھال کی اچھی سوجھی۔ کیا کرو گے کھال لے کر؟

    بیٹا:: یتیم خانے میں دوں گا امی حضور۔

    ساس:: کیوں دو گے یتیم خانے میں؟ یتیم تم بھی ہو اور میں بھی تمہارے باپ کو مرے پانچ برس اور میرے باپ کو مرے پچّیس سال ہوگئے، زیادہ حق میرا بنتا ہے، اس لیے کھال تو میں ہی لوں گی۔ یوں بھی میں نے غفار بھائی سے پہلے ہی معاملہ طے کر لیا ہے۔ ان کے ہاتھوں فروخت کروں گی۔

    بہو:: فرمائش بھی دل والوں سے کرتے ہیں خادم! مجھ سے کہتے اپنا دل چیر کر رکھ دیتی آپ کے آگے۔

    ساس:: ہاں بھئی ”ماں سے بڑھ کر چاہے پھاپھا کٹنی کہلائے“ بی کٹنی نکلتا کیا تمہارے دل سے۔

    بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
    جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا

    بہو:: ظاہر ہے جب سارا لہو آپ نچوڑ لیں گی تو بچے ہی گا کیا؟ خادم آپ لے لیجیے گا کھال۔

    ساس:: کباب میں ہڈی آپ خاموش رہیں تو بہتر ہے، ہاں خادم بیٹا! غفار بھائی سے میں کھال کے بدلے میں بچھیا خریدوں گی اپنی رانی بٹیا کے لیے۔

    بہو:: آپ بھی ساون کی اندھی ہیں ادھر قربانی کے جانورکی بات چلی ادھر آپ کو ایسی ہری ہری سوجھتی ہے کہ باغ کا سبزہ بھی ماند پڑ جاتا ہے۔

    ساس:: تمہاری زبان کے آگے تو خندق ہے لیکن میں بھی میں ہوں۔ کھال کا جو فیصلہ میں نے کر لیا سو کر لیا۔ اب میں کسی کی نہیں مانوں گی۔ ہرگز بھی نہ مانوں۔

    بہو:: میں بھی دیکھتی ہوں کیسے نہیں مانیں گی؟ کیسے جاتی ہے آپ کی رانی کو ران؟

    ساس:: رانی کے ابا حضور کا ذوق اچھا تھا بکرا ایسا لاتے دیکھ کر میرا دل خوش ہوجاتا اور پھر رانی کی فرمائش پر ایسا سجاتے کہ سارا محلہ اکٹّھا ہو جاتا، خادم بیٹا تم! بھی اپنے بکرے کو ویسا ہی سجا کر اپنے ابا حضور کی یاد تازہ کر دو۔

    بہو:: باسی یادیں تازہ کرتے ہوئے پنکی کو نہ بھول جائیے گا۔ اگر رانی مہارانی کو ران جائے گی تو پنکی بھی محروم نہیں رہے گی۔

    ساس:: اس کا فیصلہ بھی ابھی ہو جاتا ہے، اچھا خادم یہ بتاؤ بیٹا ”بکرا کس کے نام کا ہے؟“

    خادم:: یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے؟ آپ کے نام کا ہوتا ہے آپ کے نام کا ہوگا۔

    ساس:: سن لیا ملکۂ عالیہ، فیصلہ تو ہو گیا۔ میرے نام کا بکرا، میری مرضی جس کا جو حصہ لگاؤں۔

    بہو:: خادم اس بار میرے نام کی قربانی کر دیجیے۔“

    ساس:: ارے کیسے کر دے، کیوں بھئی خادم کس کے نام کی قربانی ہو گی؟

    بیٹا:: آپ کے نام کی امی حضور۔

    ساس:: شاباش میرے بیٹے شاباش، کیسا ماں کا دل رکھتا ہے میرا خادم۔

    بہو:: (روتے ہوئے) یہ نا انصافی ہے خادم کیا آپ کی کمائی پر میرا کوئی حق نہیں؟

    ساس:: ہے کیوں نہیں سارا سال تم ہی تو ڈکارتی ہو۔

    بہو::
    کر لو تم اپنی من مانی مہارانی
    اگلے برس ہوگی میری حکمرانی

    ہاں ساسو جی تم دیکھ لینا اگلے برس میرا راج ہوگا اور تمہاری ”میں“ کند چھری کی زد پہ ہوگی پھر کیسے کہو گی ”میں تو ہر گز نہ مانوں“

    ساس:: ارے تو کیا اگلے برس تم مجھے سولی پہ چڑھا دو گی؟ جب تک میں زندہ ہوں میری ”میں“ تند چھری کی زد پہ رہے گی۔

    میں نے کبھی کسی کی نہ مانی ہرگز بھی نہ مانی
    میں ہُوں اپنی ”میں“ کی رانی سُن لو میری بہو رانی

    اور ہاں پَر کٹی پنکی کے لیے تو میں ہرگز بھی نہ مانوں۔
    ٭٭٭٭
    بیٹا:: ہائے امی حضور میں لٹ گیا تباہ ہو گیا، ساس بہو کی کل کل نے سب ختم کردیا۔ ہائے میرے خون پسینے کی کمائی کیسے چٹ پٹ ہو گئی، ہائے میرا بکرا اتنا مہنگا خریدا تھا۔

    بہو:: کیا ہو گیا آپ کی امی حضور کے بکرے کو؟

    ساس:: کیا ہوا میرے بکرے کو؟

    بیٹا:: یہ سب آپ دونوں کی وجہ سے ہوا ہے، آپ لوگوں کی میں میں نے برکت ہی اٹھا دی۔

    ساس بہو:: ہوا کیا ہے؟

    بیٹا:: امی حضور بکرا نہیں ہے۔

    ساس:: بکرا نہیں ہے؟ فجر کی نماز پڑھ کر تو میں نے خود اسے چارا دیا ہے۔

    بہو:: قربانی کا جانور اور نیت اچھی نہ ہو تو ایسا ہی ہوتا ہے ساس حضور۔

    ساس:: اری چپ کر بدبخت
    ہستی ہی تیری کیا ہے بھلا میرے سامنے

    ہائے خادم بیٹا! میرا تو دل بیٹھا جا رہا ہے، ہائے میرے بچے کہیں سے بکرا ڈھونڈ کر لاؤ، اب میں کیا کروں گی، ہائے میرا بکرا۔

    بیٹا:: کہاں سے لاؤں امی حضور؟

    ساس:: ہائے بیٹا! میرا بکرا

    بہو:: ہائے امی کی نیت کھا گئی بکرے کو

    ساس:: میری نیت یا تمہاری پنکی کی نیت؟

    بیٹا:: ختم کریں بک بک جھک جھک۔ آپ دونوں کی میں میں سے بکرا گیا ہاتھ سے، ار ے ایک کی نہیں دونوں کی نیت خراب ہے

    ہائے بکرا، وائے بکرا
    کھا گیا دونوں کا جھگڑا

    (تحریر: شائستہ زریں ؔ)

  • وہم کی دوا کرے کوئی…

    وہم کی دوا کرے کوئی…

    ہمارے معاشرے میں دیگر امراض کی طرح وہم کا مرض بھی عام ہے جس نے زندگی کے سفر کو بہت مشکل بنا دیا ہے۔ توہّم پرستی کو پروان چڑھانے میں میڈیا کا بھی کردار ہے، بالخصوص پڑوسی ملک کی تہذیب و ثقافت اس بری طرح ہم پر اثر انداز ہوئی کہ ہم اپنی چال بھی بھول گئے۔

    بارات آتے ہی آئینہ ٹوٹ گیا۔ اس اطلاع کے ساتھ فرمان بھی جاری ہوگیا کہ بارات واپس جائے گی کہ آئینہ ٹوٹنا بدشگونی ہے، اس لیے دلہن منحوس قرار پائی، اب وہ تمام عمر بن بیاہی ہی بیٹھی رہے۔ شگون صنفِ نازک سے ہی کیوں لیا جاتا ہے، مرد اس سے مبرا کیوں ہے؟ یہ عقدہ کبھی نہ کھل سکا۔

    ہمارے معاشرے میں بھی وہم کا شکار متحرک کردار اپنے واہموں کی روشنی ہی میں نیک و بد کا اندازہ لگا کر بہت سے تاریک فیصلے کر کے مستقبل کا لائحہ عمل مرتب کرتے ہیں۔ بڑی اماں اور چھوٹی کا شمار بھی ایسے ہی کرداروں میں ہوتا ہے جن کے واہمے پلو سے بندھے رہتے ہیں۔

    زین بھیا آندھی طوفان کی چال چلتے ہوئے آئے جس کے نتیجے میں بڑی اماں کی چپل پر چپل چڑھ گئی۔ ”آج ہی میں نے تہیہ کیا تھا کہ ہفتہ بھر تک گھر سے باہر قدم بھی نہیں نکالوں گی، دیکھو تو دلہن کیسے چپل پر چپل نے چڑھ کر میرے باہر جانے کا سامان کر دیا۔ دیکھو آج میری ڈولی کس کی ڈیوڑھی پر جاکے اترتی ہے۔

    ”بس تو پھر آجائیے شام کو ہمارے گھر بینا کے سسرال والے آرہے ہیں۔“ ثمر خالہ نے کہا، ”جُگ آؤں گی اور کیوں نہ آؤں؟ یہ تو اللہ کی طرف سے ہے۔“

    دو سالہ حرا کو قینچی سے کھیلتے دیکھ کر بڑی اماں نے لپک کر اس کے ہاتھ سے قینچی چھینی، ناسمجھ بچّی تڑپ کر آگے بڑھی اور قینچی دوبارہ اٹھالی تو بڑی اماں نے اس زور سے قینچی چھینی کہ حرا کا ہاتھ زخمی ہو گیا۔ حرا بلک بلک کر رونے لگی۔

    ”اے بی ہاتھ سے قینچی تو رکھ دو، کیا امّاں باوا میں فساد کرواؤ گی؟ سکھ سے رہتے اچھے نہیں لگ رہے تم کو۔“

    بڑی اماں دیکھیے حرا کے ہاتھ سے خون بہہ رہا ہے۔ منجھلی بھابھی نے بیٹی کو اٹھایا تو وہ کہنے لگی، ”دیکھ لو میں نے کیا کہا تھا آج پہلی مرتبہ تم نے میرے سامنے زبان کھولی ہے، ہو گئی ابتدا جھگڑے کی۔ اب دیکھنا رات تک تم میاں بیوی میں بھی چخ چخ ہوگی۔“

    ”اللہ نہ کرے بڑی امّاں آپ کے وہم پر خاک۔ منجھلی بھابھی سے برداشت ہی نہ ہو سکا۔

    ”ہائے ہائے صغیر کی پوتی اُسے کھا گئی۔“

    ”ہائیں کیا کہہ رہی ہیں آپ، صغیر چچا کی نومولود پوتی کیا آدم خور ہے؟ جو اپنے دادا کو کھا گئی۔“

    منجھلی دلہن نے اپنے میاں کی لاڈلی دادی کو حیرت سے دیکھا؛ ”منجھلی دلہن! تمہیں تو ہر وقت مذاق سوجھتا ہے۔ اِدھر بچّی دنیا میں آئی اُدھر دادا نے رخصت لی۔ کیسی سبز قدم اور منحوس لڑکی ہے۔“

    ”بڑی امّاں صغیر چچا کی موت اسی وقت لکھی تھی اس میں میں بچّی کا کیا قصور؟

    ”ہاں بھئی تم تو کہو گی، خود تمہاری بہن بھی تو اپنے چچا کی ساس کو نگل چکی ہے۔“

    ”بڑی اماں اگر مہرو کے عقیقے کے روز چچی جان کی امّی کا انتقال ہو گیا تو بھلا اس کا کیا قصور؟ آپ اور چھوٹی حد سے زیادہ وہمی ہیں بلکہ وہم کی پتلیاں ہیں، چھوٹی بھی تو آپ کی لاڈلی پوتی ہے۔ ٹھیک ہی تو کہتے ہیں یہ کہ بڑی اماں کی جانشین ہے چھوٹی۔“

    چھوٹی آپا کے واہموں نے بھی تو گھر بھر کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ وہمی تو وہ خیر بچپن ہی سے تھیں لیکن اب پڑوسی ملک کے ڈراموں نے اُن کی آتشِ وہم کو خوب بھڑکایا تھا، نازک اندام چھوٹی آپا جی بھر کر وہمی تھیں۔ انہیں اتنے عجیب و غریب اور توانا وہم ستاتے تھے کہ دیکھنے اور سننے والے دم بخود رہ جاتے۔ منجھلی بھابھی کو اُن کے واہموں سے سخت کوفت ہوتی۔ اسی بات پر اکثر دونوں میں کھٹ پٹ ہو جاتی اور وہ دن تو منجھلی بھابھی بھلائے نہیں بھولتیں جب، کلفٹن جانے کا پروگرام کئی روز سے ٹل رہا تھا۔ اُن دنوں موسم بھی توایسا تھا کہ سمندر پر جانے کی اُمنگ موجوں کی روانی کی مانند بڑھتی جا رہی تھی۔ لیکن مسائل اور ذمہ داریاں شوق کی راہ کا بھاری پتھر ثابت ہورہے تھے۔ کبھی کوئی کسی مسئلے کا شکار ہوتا، کبھی کسی کی ذمہ داری مہلت نہیں دے رہی تھی، جب کہ طے یہ تھا کہ تمام گھر والے پکنک پر جائیں گے۔ اسی ادھیر بن میں بالآخر اتوار کے دن کلفٹن جانے کے پروگرام کو حتمی شکل دے دی گئی۔

    روانگی کے وقت کوّے نے منڈیر پر کائیں کائیں کی تان لگا دی جسے سنتے ہی آن کی آن میں چھوٹی آپا نے اعلان کر دیا۔

    ”آج تو ہم گھر سے باہر کہیں نہیں جائیں گے مہمان آئیں گے۔“

    منجھلی بھابھی نے جو یوں اچانک پروگرام خطرے میں پڑتے دیکھا تو چڑ ہی تو گئیں۔ ”کیوں بی چھوٹی! تمہیں کیا الہام ہوا ہے؟“

    ”الہام کی کیا بات ہے، برسوں پرانی ریت ہے، دیکھ لیجیے گا آج کوئی ضرور آئے گا۔“

    ”آخر کون آئے گا؟ جس کے لیے تم نگاہیں فرشِ نگاہ کیے بیٹھی رہو گی۔“ بھابھی چٹخ کر بولیں۔

    ”ابھی دنیا لوگوں سے خالی تو نہیں ہُوئی پھر ہم آج کل اسمارٹ بھی تو ہو رہے ہیں، شاید کوئی ہمیں ہی دیکھنے آجائے۔“

    ”ہاں ہاں کیوں نہیں عجوبۂ روزگار ہو تم، چھوٹی آپا کے چھچھور پن پر بھابھی کی طبیعت مکدر ہو گئی۔ کتنی گھٹیا ہے یہ چھوٹی بھی۔ جی ہی جی میں چھوٹی آپا کی شان میں قصیدے پڑھتی منجھلی بھابھی احتجاجاً کمرے میں بند ہو گئیں۔

    اور پھر یوں ہُوا کہ دنوں ہفتوں نہیں بلکہ مہینوں چھوٹی آپا منجھلی بھابھی کی تضحیک و تحقیر بھری نظروں اور باتوں کا نشانہ بنی رہیں۔

    ”اے بی چھوٹی کوئی کوا، بکرا، بیل کوئی اپنا، پرایا کوئی بھی تو نہیں آیا تمہیں دیکھنے۔ ہماری پکنک کا لُطف الگ غارت ہوا۔

    چھوٹی آپا کو آئے دن کسی نئے کام کا ہُلہلا اٹھتا۔ اُس روز بھی وہ بہت پُرجوش تھیں کہ یکایک اُن کی بائیں آنکھ پھڑکنے لگی اور چھوٹی آپا نے شور مچا دیا ”ہماری بائیں آنکھ پھڑک رہی ہے، اللہ خیر کرے، ہم نئے منصوبے پر کام آج تو ہرگز بھی شروع نہیں کریں گے جانے کیا انجام ہو؟ ہم ساری جمع پونجی لگا دیں اور رقم بھی ڈوب جائے، چلو اچھا ہی ہوا کم بخت صبح ہی پھڑک اٹھی کہیں دوپہربعد پھڑکتی تو ہم بیچ مُنجھدار میں بیٹھے نیا پار لگنے کا انتظار کرتے رہ جاتے۔“

    منجھلی بھابھی کو چھوٹی آپا کے واہموں سے اللہ واسطے کا بیر تھا۔ تلملا کر کہنے لگیں۔

    ”چھوٹی! بائیں آنکھ میں چیونٹی تو نہیں چلی گئی جو وہ پھڑک رہی ہے، جواز تو کچھ بھی ہو سکتا ہے، اسے بد شگونی قرار دے کر سارے کام چھوڑ کے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا دانش مندی تو نہیں۔ اب وہم اور دانش میں کوئی قرابت داری بھی تو نہیں اس میں تمہارا کیا قصور؟“

    منجھلی بھابھی کے ترکش سے نکلنے والا تیر چھوٹی آپا کے دل پر ترازو ہوگیا اور ایک مرتبہ پھر دونوں کے درمیان محاذ کھل گیا۔ یہ آئے دن کا معمول تھا، دونوں ہی اپنے اپنے موقف پر قائم تھیں۔

    سچ تو یہ ہے کہ اب چھوٹی آپا خود بھی اپنی وہمی طبیعت سے الجھنے لگی تھیں جو نو عمری ہی سے ان کی عمرکے ساتھ ہی پروان چڑھی تھی۔ اب اتنی پختہ ہوچکی تھی کہ وہ چاہنے کے باوجود اس سے چھٹکارا نہیں پاسکتی تھیں۔ وہم تو اُن کے منہ کا وہ نوالہ تھا جسے نہ وہ اُگل سکتی تھیں اور نہ ہی نگل سکتی تھیں۔ اس کشمکش کے باوجود ان کے دن کا بیشتر حصہ واہموں کی نذر ہو جاتا۔

    وہم اگر شدت اختیار کر جائے تو بیماری میں ڈھل جاتا ہے جس سے اور کئی نفسیاتی عارضے جنم لیتے ہیں جن کا علاج ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو جاتا ہے۔ مثل مشہور ہے کہ ”وہم کا دارو تو لقمان کے پاس بھی نہیں۔“ سچ یہی ہے کہ اگر اس پر قابو نہ پایا جائے تو ایک دن یہ لاعلاج مرض بن جاتا ہے۔ اگر مضبوط قوتِ ارادی ہو تو اس خامی پر قابو پایا بلکہ اس سے چھٹکارا حاصل کیاجا سکتا ہے۔

    توہم پرستی نہ صرف وہمی کا جینا محال کرتی ہے بلکہ اُس سے وابستہ افراد کی زندگی بھی دشوار بنا دیتی ہے۔ وہمی ہر سطح پر خسار ے میں جاتے ہیں۔منجھلی بھابھی کا قول بجا کہ وہم خطرناک سے خطرناک بیماری سے بڑھ کر ہولناک مرض ہے جو کبھی کبھی تو بالکل اچانک حملہ آور ہوتا ہے۔ اور بعض اوقات تو جان کے ساتھ ہی جاتا ہے۔

    (شائستہ زریں کی تحریر)

  • بے بسی کچھ نہ کھانے کی

    بے بسی کچھ نہ کھانے کی

    مثل مشہور ہے کہ ”پرہیز سب سے اچھا نسخہ ہے۔“ اور زباں زدِ عام بھی یہی ہے کہ ”پرہیز علاج سے بہتر ہے۔“ گویا معالج کی مجوزہ ادویات اُس وقت مؤثر ثابت ہو سکتی ہیں جب اُن کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر کی ہدایات پر سختی سے عمل کیا جائے جو علاج کا لازمی جزو اور پرہیز کہلاتی ہیں۔
    مصنفہ کی دیگر تحریریں اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں
    پرہیز اور علاج میں جو بنیادی فرق ہے، وہ بہت واضح ہے۔ علاج کے سلسلے میں جو رقم خرچ کرنی پڑتی ہے، پرہیز کے مرحلے سے گزرتے ہوئے اُس کی بچت ہوجاتی ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اس کے اور بھی کئی فائدے ہیں۔ ضبطِ نفس کے اس مظاہرے سے دنیا ہی نہیں عاقبت بھی سنورجاتی ہے۔ ایک ذرا دل پر جبر کیا کِیا، بیٹھے بٹھائے ہدایت یافتہ بھی ہوگئے اور جنّت کی کنجی بھی پالی۔
    ہمیں یہ مثل بہت اچھی لگتی ہے، جبھی اس پر عمل بھی کرتے ہیں، لیکن ایک مرتبہ یہی پرہیز ہمارے لیے کڑی آزمائش بن گیا۔ اس سے باعزّت گزر کے ہم سرخرو تو ہو گئے، لیکن کچھ دل ہی جانتا ہے جو دل پر ستم ہوئے۔
    ہُوا یوں کہ دانتوں کی شدید تکلیف ہمیں دندان ساز کے پاس لے گئی۔ ہمارے دانتوں کے ساتھ ڈاکٹر کا برتاؤ اُن کے پیشے کے عین مطابق تھا، سو ہم اُن کو قصور وار نہیں مانتے، لیکن وقتِ رخصت ڈاکٹر کی اس ہدایت نے ہمیں مشکل میں ڈال دیا کہ ”بی بی! دو گھنٹے تک کچھ نہ کھائیے گا۔“ بھوک ہم سے برداشت ہوجاتی ہے، لیکن یہاں تو صورتِ حال ہی مختلف تھی۔ ڈاکٹر کے کلینک سے محض چند قدم کے فاصلے پر احمد رشدی کا ترنّم کسی کے روزگار کے فروغ اور کسی کے ذوقِ طعام کا وسیلہ بنا ہُوا تھا۔
    گول گپے والا آیا گول گپے لایا
    اس سے قبل گول گپے کھانے کی خواہش نے اتنی شدت سے سَر نہ اٹھایا تھا، جتنا اس وقت ستا رہی تھی۔ ہم نے ازلی بے نیازی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے آگے راہ لی تو قلفی والا ہمارے ضبط کا امتحان لینے چلا آیا۔ ہم نے اس سے بھی نظریں چرا لیں۔ چند قدم کے فاصلے پر مونگ پھلی گرم کی صدائیں ہماری سماعت سے ٹکرا رہی تھیں تو دوسری جانب حبیب ولی محمد کی آواز بھی ہماری سماعت پر دستک دے رہی تھی۔
    دو چار قدم تو دشمن بھی تکلیف گوارا کرتے ہیں…
    چونکہ ہمیں بچپن ہی سے پرہیز علاج سے بہتر ہے کا خیال بہت بھلا لگتا ہے، سو ہم نے بدپرہیزی کے نتیجے میں ہونے والے مزید اور ممکنہ علاج سے بچنے کے لیے بچپن کی دوستی پر دھیان دیا اور دیرینہ رفاقت کا بھرم رکھتے ہوئے غیریت کی انتہا کر دی۔
    اُدھر قدم قدم پر ہر گھڑی ہمارے لیے ایک آزمائش تھی۔ یہ لیجیے”صفائی نصف ایمان ہے“ کی اطلاع دینے والے نصف ایمان سے ہاتھ کھینچے خود تو عالمِ برزخ میں کھڑے ہی تھے ہمیں بھی آزمائش میں ڈال دیا۔ گندگی کا ڈھیر چلّا چلّا کر ہمیں اپنی موجودگی کا احساس دلا رہا تھا۔ قلفی، گول گپوں اور مونگ پھلی کی خواہش کو تو ہم نے اچھے وقتوں کے لیے اُٹھا رکھا مگر غلاظت کا انبار دیکھ کر بھی پیچ و تاب کھانے کے عمل سے خود کو باز رکھنا ہمارے لیے کٹھن تھا۔ گو پیچ وتاب کھانے پر پابندی ڈاکٹر کی ہدایت میں شامل نہ تھی لیکن اس عمل کے فوری ردِ عمل کے طور پر ہمیں ایک مرتبہ پھر کلینک کا راستہ ناپنا پڑتا کہ پیچ و تاب کھانے کا عمل دانتوں کی تکلیف کے ممکنہ خاتمہ میں حارج ہوتا۔ بھلا کبھی کسی نے دانت پیسے بغیر پیچ و تاپ کھایا ہے، پرہیز سے وفا نباہنے کا یہ فائدہ تو ہوا کہ ہم مزید عذاب جھیلنے سے بچ گئے۔
    اوّل اوّل تو ڈاکٹر کے تاکیدی فقرے ”بی بی! دو گھنٹے تک کچھ نہ کھائیے گا“ نے ہمیں صبر کی راہ دکھائی تھی، لیکن اگلی ہی ساعت ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ دورانِ گفتگو ہمیں قسم کھانے کی عادت نہیں، ورنہ کوئی نیا مسئلہ درپیش ہو سکتا تھا۔ قسم کھانے کے لیے ہمیں بتیس دانتوں کے بیچ تولہ بھر زبان بہرحال ہلانی پڑتی۔ خیالات کی یلغار سے جتنا ہم نے بچنا چاہا اُتنا ہی اس کی زد میں رہے۔ ابھی ہماری سوچوں کا سفر جاری تھا کہ اچانک سڑک کے ایک جانب پڑے کوڑے پر ہماری نظر پڑی جو گلی گلی کسی کی یاد کی مانند بچھا رہتا ہے۔ جو رستہ دیکھ کر چلتے ہیں وہ یا تو خود کو بچا لیتے ہیں یا اپنا فشار خون بلند کر لیتے ہیں۔ ہمارا مسئلہ ہی اور تھا، تڑپنے اور فریاد کی اجازت تو تھی پَر پیچ پر پیچ کھانے کی نہیں۔ سو بیچ سڑک پہ پڑے کوڑے کو ہم نے نظر انداز کرنا چاہا کہ بل کھانے کا حکم نہ تھا، سو ہم نے آنکھوں ہی آنکھوں میں کوڑے کا ڈھیر لگانے والوں کو نگلنا چاہا لیکن ہماری بصارت نے بصیرت کے کہے میں آکر تعاون سے انکار کر کے ہماری رہی سہی امید پر پانی پھیر دیا۔
    ہمارا بس نہیں چل رہا تھا کہ کسی بھی طرح یہ دو گھنٹے جو دو صدیوں کے برابر لگ رہے ہیں دو پل میں بیت جائیں، پَر وقت نے کب کسی کی مانی ہے جو ہماری سنتا۔ وقت نے اپنی میعاد پوری کر کے ہی ہمیں آزادی کی نوید دی۔ اب ہم اپنے ہر اُس عمل کے لیے آزاد تھے جس کو کھانے سے نسبت تھی۔ ہاں وقت کی بے نیازی اور بے مہری کا ہمیں بہت گلہ تھا جس کی وقت کو پروا تک نہ تھی۔ اور جب وقت کی بے نیازی کے خلاف احتجاج کا خیال آیا تو وقت بیت گیا تھا کیونکہ دو گھنٹے کی میعاد پوری ہو چکی تھی اور ہم پر سے کچھ نہ کھانے کی قید بھی اٹھا لی گئی تھی۔ پَر اب کچھ کھانے کی خواہش سے ہمارا دل اچاٹ ہو چکا تھا۔
    بات یہیں ختم نہیں ہوئی تھی، اگلے روز بھی ڈاکٹر صاحب نے ہمیں بلایا تھا اور ترتیب وار ان ہی مراحل سے ہمیں گزرنا تھا گویا
    ابھی وقت کے امتحان اور بھی ہیں
    اور ہم نے تہیہ کر لیا تھا کہ جو آج نہ کر سکے وہ کل ضرور کریں گے اور قبل از وقت کریں گے۔ کون سا وقت؟ ارے بھئی وہی ”بد وقت‘‘جس میں بے شک ہم اشیائے خور و نوش سے ہاتھ کھینچ لیں لیکن رہ گزر کے عذاب سے کترا کر گزرنا ہمارے بس میں نہیں۔ سو ہم نے اسی وقت پیچ و تاب کھانا شروع کر دیا…. کس پر؟ کوئی ایک ہو تو ہم بتائیں بھی۔ یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ جانے کیسے قلم کے توسط سے ہماری فسانۂ درد بیان کرنے کی نیت کی خبر عام ہو گئی اور مختلف محکموں کے کشتگانِ ستم قطار بنائے کھڑے ہو گئے۔
    ہر ستم کے مارے کی آرزو تھی کہ پہلے اس کے متعلقہ محکمہ کے دانت کھٹے کریں اور ہمارے قلم کی روشنائی اجازت ہی نہیں دے رہی تھی کہ پردہ نشینوں کو بے نقاب کریں لیکن چشم کشا حقائق سے چشم پوشی بھی تو جرم ہے اور پھر جو شے اظہر من الشّمس ہو اس کا پردہ رکھ کر ہم کون سا ثواب کما لیں گے؟ بس یہی سوچ کر ہم نے قلم کی روشنائی کے آگے سرِ تسلیم خم کر دیا کہ ہمارے اور آپ کے مابین رابطے کا یہ مستند و معتبر حوالہ اگر روٹھ گیا تو؟ سو ہم نے دل پر جبر کر کے خود کو ہر اس خواہش سے باز رکھا جو ہمارے لیے خطرے کی گھنٹی بجا سکتی تھی۔ خود پر پابندیوں کے اس عمل سے گزرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر ہم ڈاکٹر کے پاس گئے اور واپسی میں راستہ بھر بے بسی کی تصویر بنے مہر بہ لب صیاد کے مسکرانے کا تماشہ دیکھتے رہے۔ فضائی آلودگی، جا بجا گندگی کے ڈھیر، شاہراہوں پر لگے اسٹالوں اور دکانوں میں خریداروں پر ہونے والے مہنگائی کے تابڑ توڑ حملوں نے کئی بار ہمیں اپنی جانب متوجہ کرنا چاہا مگر ہم نے کچھ نہ کھانے کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے کھانے کی ہر قسم سے منہ موڑ لیا اور نہایت صبر شکر کے ساتھ یہ برا وقت بھی کاٹ لیا۔

    پیچ و تاب کھانے کے تمام تر سنہرے مواقع ہماری بے بسی پر ہنستے رہے اور ہم اس بے بسی پر شریفانہ احتجاج کرتے رہے۔

    دانتوں کی تکلیف سے تو ہم نے نجات حاصل کر لی لیکن اب بھی وہ برا وقت یاد آتا ہے جب شدید خواہش کے باوجود ہم نے پیچ و تاب نہیں کھایا تھا تو فیضؔ صاحب کا یہ شعر اپنی ساری توانائیوں سمیت ہمیں اپنے حصار میں لے لیتا ہے
    کیا کیا نہ تنہائی میں تجھے یاد کیا ہے
    کیا کیا نہ دلِ زار نے ڈھونڈی ہیں پناہیں
    اور ہماری یادیں دستِ صبا تو ہیں نہیں کہ ہم فخریہ سینے سے لگائے پھرتے۔ ہمیں بے بس کرنے والے لمحات تو سینے کے وہ داغ ہیں جو اربابِ اختیار اور عوام النّاس کے باہمی تعاون ہی سے دھل سکتے ہیں۔
  • موسمِ گرما کی تعطیلات اور ہوم ورک

    موسمِ گرما کی تعطیلات اور ہوم ورک

    کوئی بھی شے اُس وقت اپنی افادیت کھو بیٹھتی ہے جب نا سمجھی سے اُس کا استعمال کیا جائے اور ہمارے معاشرے میں اس کا بڑا رواج ہے۔ جس طرح ہم برس ہا برس پرانے نظامِ تعلیم پر تکیہ کیے بیٹھے ہیں بالکل اسی طرح متعلقہ امور میں بھی لکیر کے فقیر بنے ہُوئے ہیں جس کا فائدہ تو شاید کوئی نہیں لیکن نقصانات بے شمار ہیں۔
    تعلیمی صورتِ حال پر نظر ڈالیں تو یوں محسوس ہوتا ہے، گویا طلبہ علم و فضل گھول کر پی رہے ہیں۔ کئی کتابیں، مشکل ترین نصاب جو عموماً طالب علموں کی طبعی عمر اور ذہنی سطح سے مطابقت نہیں رکھتا۔ معلوم نہیں کیوں ہمارے ماہرینِ تعلیم اس حقیقت سے نظر چراتے ہیں کہ بتدریج ارتقا کا عمل زیادہ بہتر اور سود مند ثابت ہوتا ہے اور یہ بھی کہ مشکل ترین نصاب بلند معیارِ تعلیم کی ضمانت ہرگز نہیں بن سکتا اور نہ ہی غیر دل چسپ نظامِ تعلیم، نصاب اورطریقہ ہائے تدریس طالبِ علموں میں سیکھنے اور پڑھنے لکھنے کے شوق کو پروان چڑھا سکتا ہے۔ کم سے کم مدّت میں زیادہ سے زیادہ نصاب مکمل کرانا اور بے تحاشہ ہوم ورک دینا ہمارے تعلیمی نظام کا ایک بڑا مسئلہ رہا ہے۔ ایسے میں سالانہ امتحان ختم ہوتے ہی بچّے خوش ہوجاتے ہیں، سکھ کا سانس لیتے ہیں کہ سَر سے بہت بڑا بوجھ اتر گیا۔ اب انتظار شروع ہو جاتا ہے موسمِ گرما کی تعطیلات کا۔ لیکن یہ کیا؟ چھٹّیوں میں‌ ملنے والا بے تحاشہ کام ان کی ساری مسرتوں کو خاک میں ملا دیتا ہے۔ اتنا سارا کام؟ چھٹیاں ختم ہو جائیں کام ختم نہ ہو۔ تفریح کے تمام پروگرام دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔
    ادھر طالب علموں کے ساتھ ساتھ والدین بھی پریشان کہ بہت زیادہ ہوم ورک نے نہ صرف چھٹی کا تصوّر ہی مٹا دیا بلکہ تفریح کا لطف بھی غارت کر دیا۔ بچّوں اور والدین کی کیا بات ہے؟ ٹیوٹر بھی شاکی ہیں کہ بچّوں کی ساری چھٹیاں تو اسی ہوم ورک کی نذر ہو جاتی ہیں۔
    ایک بیوہ خاتون جو گھر پر بچّوں کو ٹیوشن پڑھاتی ہیں کہ رہی تھیں کہ سارا سال انتھک محنت کرتی ہوں، اپنے بچّوں کے تعلیمی اخراجات ٹیوشن ہی سے پورے کرتی ہوں۔ ہر سال بچّوں سے وعدہ کرتی ہوں کہ چھٹّیوں میں تفریح کے لیے کہیں لے جاؤں گی لیکن اس کی نوبت ہی نہیں آتی۔ بچّوں کو اتنا ہوم ورک دیا جاتا ہے کہ نہ تو وہ چھٹیوں کا لطف اٹھاتے ہیں اور نہ ہی میں اپنے بچّوں سے کیا وعدہ پورا کر سکتی ہوں۔ ساری چھٹیاں یوں ہی تمام ہو جاتی ہیں۔
    بچّوں کو الگ شکوہ ہے کہ کیا فائدہ ایسی چھٹیوں کا جس میں ہم سارا وقت ہوم ورک ہی کرتے رہیں۔ شاید اعتراض ہوم ورک پر نہیں بلکہ بہت زیادہ اور بے مقصد ہوم ورک پر ہے۔
    عدیل کو تواس بات پر سخت غصّہ آتا ہے کہ ”اتنا زیادہ ہوم ورک ملتا ہے روز امّی صبح کام کرنے بٹھا دیتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے گھر میں ہی اسکول کھلا ہوا ہے۔ لکھنے کا کام اتنا سارا ہوتا ہے کہ ہاتھوں میں‌ درد ہو جاتا ہے۔ کام ختم کرنے کے چکر میں جلدی جلدی لکھتا ہوں تو لکھائی خراب ہو جاتی ہے اور امّی سے ڈانٹ پڑتی ہے۔ کبھی کبھی سزا بھی ملتی ہے۔ فضول ہیں ایسی چھٹیاں جس میں ہمیں صرف اور صرف کام نمٹانے کی فکر ہو اور روز ہمیں‌ بستہ کھول کر بہت سا وقت کتابوں‌ کاپیوں کو دینا پڑے، اور اپنی چھٹیاں انجوائے ہی نہ کرسکیں۔
    بعض والدین سمجھتے ہیں کہ بچّوں کو ہوم ورک ملنا چاہیے تاکہ وہ صرف اور کھیل کود اور تفریح میں‌ نہ لگے رہیں جب کہ والدین کا ایک گروہ ایسا بھی ہے جن کا خیال ہے کہ چھٹیوں کا کام بالکل نہیں ملنا چاہیے، لیکن ایسے والدین بھی ہیں جو صرف اتنے ہوم ورک کے حق میں ہیں کہ بچّے اپنی درسی کتب سے دور نہ رہیں اور چھٹیوں کے بعد اسکول کھلیں تو اُنھیں مسئلہ نہ ہو۔ اور ایسا ہی ہونا بھی چاہیے۔
    موسمِ گرما کی تعطیلات میں ہوم ورک تو ملنا چاہیے، لیکن ایسا کہ بچّوں پر گراں نہ گزرے اور ان کی چھٹیوں کو نہ صرف کارآمد بنا دے بلکہ وہ اسے خوشی خوشی نمٹائیں اور ان کو کھیل کود اور گھومنے پھرنے کے لیے بھی وقت ملے۔ ایسا ہوم ورک تخلیقی کام کی صورت ہی ممکن ہے۔ جس سے بچّوں کی خفتہ صلاحییتیں بھی ابھر کر سامنے آتی ہیں۔ اس ضمن میں چند تجاویز ہیں مثلاً ہوم ورک چند سوالوں کی صورت ہو۔ مثلاً روزانہ اخبار کی تین ایسی خبریں لکھنا جو بہت اہم ہوں۔ اس سے بچؑوں میں اخبار بینی کا شوق ہوگا۔ دو ماہ تک مسلسل اخبار کا مطالعہ اُن کی عادت بن جائے گا۔ چھٹیوں میں آپ کے بہترین مشاغل کیا رہے اس کی تفصیل، آپ نے جن تفریحی مقامات کی سیر کی اُن کے بارے میں لکھیے؟ اور یہ بھی بتائیے کہ وہاں آپ کس چیز سے متاثر ہوئے؟ کون سی بات پسند نہیں آئی اور کیا کمی محسوس کی؟ یہ وہ سوالات ہیں جو بچوں کے ذہن کو بیدار کریں گے اور وہ اپنے تجربے کو بیان کرنے کے ساتھ اپنے مشاہدے کو تحریک دینا سیکھیں گے۔ یہ بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ چھٹیوں میں کون کون سی غیر نصابی کتابوں اور رسائل کا مطالعہ کیا اور کون کون سی دستاویزی اور بامقصد تفریحی فلمیں دیکھیں؟ موسمِ گرما کی تعطیلات کی ڈائری لکھنے کو بھی کہا جاسکتا ہے جس میں بچے اپنے معمولات بلا ناغہ لکھیں۔
    بے تحاشہ اور بے فائدہ ہوم ورک بچوں کو بوجھ اور جھنجھٹ معلوم ہوتا ہے اور وہ اُن کے دماغ کو بوجھل کردیتا ہے اور طبیعت میں بیزاری کا سبب بنتا ہے۔ بڑے تعلیمی ادارے بالخصوص پرائیویٹ اسکول تو کسی حد تک اس کا خیال رکھنے لگے ہیں، لیکن سرکاری اسکول اور عام نجی تعلیمی ادارے جو ہر علاقے میں قائم ہیں، اب بھی کام، کام اور صرف کے اصول پر کاربند ہیں اس طرف توجہ دینی چاہیے اور ایسا طریقہ اپنانا چاہیے کہ چھٹیوں کے بعد جب طالب علم دوبارہ اسکول آئیں تو پڑھائی میں اُن کی دل چسپی پہلے سے زیادہ بڑھ جائے۔
  • بے شمار محنت کش عورتوں کی محنت کسی شمار میں نہیں

    بے شمار محنت کش عورتوں کی محنت کسی شمار میں نہیں

    کارخانوں، شاہ راہوں، کھیتوں، گھروں میں کسی بھی کام کے لیے سخت محنت اور مشقت کے عوض یومیہ بنیادوں پر اجرت یا ماہ وار معاوضہ پانے والی عورتیں محنت کش جب کہ مختلف دفاتر اور اداروں میں کام کرنے والی ملازمت پیشہ کہلاتی ہیں۔ نام اور مقامِ کار بدلنے سے اِن خواتین کے نہ تو مسائل کم ہوتے ہیں اور نہ ہی اُنھیں ان کے حقوق ملتے ہیں۔ ہاں ہر سال یومِ مئی اور یومِ خواتین مناتے ہوئے ان کے لیے چند ستائشی الفاظ ضرور ادا کیے جاتے ہیں اور اِن ایّام کا سورج غروب ہوتے ہی اپنا مفہوم بدل لیتے ہیں۔

    حقوقِ نسواں کے لیے منعقدہ سیمیناروں اور کانفرنسوں میں پڑھے جانے والے مقالوں اور تقاریر میں جو ڈھول پیٹے جاتے ہیں اُن کا پول کھلنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔ کیونکہ محنت کش خواتین کے مسائل اور حقوق کی بازگشت سنی ضرور جاتی ہے مگر وہ صدا بہ صحرا ثابت ہوتی ہے۔

    دیکھا جائے تو محنت کش عورتوں کا طبقہ پاکستان میں سب سے زیادہ مظلوم ہے۔ اسلام میں خواتین کو کسبِ معاش کی اجازت ہے۔ حضرت خدیجۃُ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تجارت کے پیشے سے وابستہ تھیں۔ عہدِ نبوی میں کئی خواتین اُجرت پر کام کرتی تھیں اور انھیں اپنے معاشرے میں عزّت و احترام حاصل تھا۔ یہ کیسا المیہ ہے کہ اسلامی مملکت اور اسلامی معاشرے میں محنت کش خواتین کی اکثریت ذلّت، ناداری اور بلا مبالغہ کس مپرسی کی زندگی بسر کر رہی ہیں۔ یہ عورتیں اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنے اور مطالبات اربابِ اختیار تک پہنچانے سے بھی اس لیے رہ جاتی ہیں کہ وہ جانتی ہیں کہ اوّل تو ان کی شنوائی نہیں ہوگی اور دوسری طرف یہ خوف بھی دامن گیر رہتا ہے کہ حق کے لیے آواز اٹھانے کی پاداش میں انھیں روزگار سے محروم کیا جاسکتا ہے اور یوں وہ اپنی رہی سہی کمائی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گی۔ سو بے شمار مسائل میں گھری ایسی عورتیں‌ اپنی مجبوری کا سودا کر کے حالات سے سمجھوتا کر لیتی ہیں۔
    یہ المیہ ہی ہے کہ برسرِ روزگار ہونے کے باوجود محنت کش خواتین خود مختار نہیں ہوتیں۔ بعض تو ایسی بے بس ہوتی ہیں کہ دن رات مشقت کی چکی میں پس کر اپنی ہڈیاں گھلانے کے بعد گھر میں ایندھن جلاتی ہیں اور بچوں کی پرورش کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے نکھٹو اور نشّے کے عادی شوہر یا باپ اور بھائی کی طلب پوری کرنے کے لیے اُنھیں اپنی کمائی میں سے حصہ بھی دیتی ہیں۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں انھیں تشدد کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ سمجھوتا کرنے والی یہ عورتیں‌ زندگی کا زہر امرت سمجھ کر پی لیتی ہیں۔ جو اِن حالات کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتیں وہ اس ماحول سے فرار حاصل کرنے کے لیے نشے میں پناہ ڈھونڈ لیتی ہیں اور یوں اپنے مسائل میں کئی گنا اضافہ کر لیتی ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ سخت محنت اور مشقت کے بعد جب ان کے ساتھ گھر کے لوگوں کا رویّہ اور حالات کچھ بھی نہ بدلے تو مجبور اور بے بس عورتیں‌ اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتی ہیں۔
    قانون کے تحت بارہ سال سے کم عمر بچّوں سے مشقت کروانے پر پابندی ہے لیکن اس سے کم عمر بچّیاں بھی مختلف کارخانوں، ملوں، شاہراہوں، دیہات میں اپنی ماؤں کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔ یہی نہیں گھر گھر جا کر کام کرنے والی اپنی ماؤں کے ساتھ بطور چھوٹی اپنی عمر، طاقت اور ہمت سے بڑھ کر کام کرتی ہیں۔ یوں والدین کی مجبوریوں کی بھینٹ چڑھنے والی یہ کمسن بچیاں محنت کش بچّوں کی صف میں شامل ہو جاتی ہیں۔ بعض نادار والدین اپنا قرضہ چکانے کے لیے اپنی نو عمر بیٹیوں کو گروی رکھوا دیتے ہیں اور معصوم بچیاں گھر میں مستقل ملازمہ کی حیثیت سے غیر انسانی سلوک کا نشانہ بن کر جی جی کر مرتی اور مر مر کر جیتی ہیں۔ اُن کا پھول سا بچپن مشقت کی دھوپ میں جھلس کر راکھ ہو جاتا ہے۔ وہ کم سن بچیاں بھی ہیں جو اپنے گھروں میں اپنی ماؤں کے ساتھ بچّوں کے کھلونے اور گڑیاں بنانے میں مدد دیتی ہیں۔ مضحکہ خیز المیہ یہ ہے کہ یہ بچیاں اپنا فرض سمجھ کر کھلونے اور گڑیاں بناتی ہیں لیکن ان پر ان کا کوئی حق نہیں ہوتا۔یہ بچیاں اپنی بنائی ہوئی گڑیوں کو حسرت سے تک تو سکتی ہیں لیکن ان سے کھیل نہیں سکتیں۔
    فیکٹریوں میں کام کرنے والی خواتین عموماً یومیہ اُجرت پر کام کرتی ہیں جو اُن کی محنت اور کمائی کے لحاظ سے انتہائی ناکافی اور تکلیف دہ ہوتی ہے۔ عموماً دن بھر کی مشقت کی اُجرت سو سے ڈھائی سو روپے تک ہوتی ہے۔زیادہ محنت اور کم اُجرت کا صبر جھیلنا تو گویا محنت کش خواتین کا مقدر ہے اور اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ جان توڑ محنت کرنے والی خواتین کے فرائض ریکارڈ میں کم درج کیے جاتے ہیں، جب کہ ایمرجنسی کی صورت میں بھی عموماً ان محنت کش خواتین کو چھٹیاں نہیں ملتیں۔ لیبر لاء کے مطابق محنت کش خواتین کے اوقاتِ کار کھانے کے وقفے سمیت 9 گھنٹے مقرر ہیں مگر گارمنٹ فیکٹریوں میں کام کرنے والی خواتین سولہ سترہ گھنٹے بھی کام کر لیتی ہیں کیوں کہ گارمنٹ فیکٹری میں کام کرنے والی خواتین زیادہ تر پیس ورک کرتی ہیں جس میں فی پیس رقم مقرر ہوتی ہے سو زیادہ سے زیادہ پیس تیار کرنے اور کمانے کی دھن میں خواتین مقررہ وقت سے کئی گھنٹے زیادہ کام کرتی ہیں۔ یہ مستقل ملازم نہیں‌ ہوتیں بلکہ انھیں کارخانے میں‌ عام طور پر یومیہ اجرت پر یا ٹھیکے دار کے ذریعے کام پر رکھا جاتا ہے اور یوں وہ کام کی جگہ پر اپنے ہر حق سے محروم رہتی ہیں جب انھیں علاج کی سہولت بھی نہیں دی جاتی۔ حالانکہ صنعتی اداروں میں کام کرنے والی ہزاروں محنت کش خواتین کی تیار کردہ مصنوعات بر آمد کر کے ان سے ہزاروں، لاکھوں نہیں کروڑوں کی کمائی ہو رہی ہے، لیکن ان کو مردوں کے مقابلے میں بہت کم معاوضہ ملتا ہے۔ بروقت کام پر پہنچنا تو اُن پر لازم ہے مگریہ قطعاً ضروری نہیں کہ مقررہ وقت پر کام ختم کر کے وہ اپنے گھر جائیں۔ انھیں ذہنی اور جسمانی اذیت بھی جھیلنی پڑتی ہے۔ سیمنٹ کی خالی بوریوں کو صاف کر کے ان کو سیدھا کرنے کا کام کرنے والی محنت کش خواتین کو اس کام کا خاطرخواہ معاوضہ تو نہیں ملتا لیکن سانس اور جلد کی بیماریاں ضرور مل جاتی ہیں۔سیمنٹ کے ذرات سے پھیپڑے اور ہاتھوں کی جلد متاثر ہوتی ہے۔ مسلسل مشین چلانے، جسمانی کمزوری، تواتر سے بارہ گھنٹے سے زائد مشقت کرنے اور آرام نہ ملنے کے سبب تھکن کی وجہ سے مسلسل بخار اور اس کے نتیجے میں پھیپڑے متاثر ہوجاتے ہیں۔ لیکن انھیں علاج کی سہولت حاصل نہیں‌ ہوتی۔ فیکٹری میں مشینوں کے شور سے کانوں کے پردے پھٹ جاتے ہیں۔ اگر دورانِ کام محنت کش خواتین زخمی یا معذور ہو جائیں یا اور کسی حاثے کا شکار ہو جائیں تو اس صورت میں انھیں ملازمت سے برطرف کردیا جاتا ہے۔
    پاکستان کے مختلف صوبوں اور بالخصوص دیہی علاقوں میں عمارتوں کی تعمیر میں حصہ لینے والی مزدور خواتین کی ہمت اور مشقت دونوں ہی لائقِ صد ستائش ہیں کہ وہ بھاری بھاری اینٹیں اٹھا کر کئی کئی فٹ بلندی پر چڑھتی ہیں اور مردوں کے ساتھ مزدوری کرتی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اپنے شیر خوار بچوں کو پیٹھ پر لادے اپنا کام کرتی رہتی ہیں اور اس ریاضت کے باوجود معاوضہ مردوں سے کم ہی ملتا ہے۔ لیبر لاء کے تحت خواتین کو کسی بھی کارخانے یا کسی بھی نوعیت کی مزدوری کے دوران اتنا وزن اُٹھانے کی اجازت نہیں جس سے اُنھیں کسی بھی قسم کا نقصان پہنچ سکتا ہو۔ اسی طرح خواتین کو ایسی جگہوں پر کام کرنے کی اجازت نہیں جہاں کیمیکل، پیٹرول، تیل، گیس، ریت اور شیشہ بنانے کا کام کیا جاتا ہے لیکن یہ قانون بھی دیگر قوانین کی طرح کاغذ تک محدود ہے۔
    گھر گھر جا کر مختلف کمپنیوں کی مصنوعات کی تشہیر کرنے والی خواتین بھی کم مسائل سے دوچار نہیں ہوتیں۔ انھیں گلی کوچوں میں اپنی روزی روٹی کے لیے پھرنے کے دوران آوارہ مردوں کے غلیظ فقرے اور دل لگی کو بھی نظر انداز کرنا پڑتا ہے۔ کسی بھی فلیٹ یا مکان میں خواتین کی عدم موجودگی میں وہاں موجود مردوں کے بد نیت اور غیر شریفانہ برتاؤ کا مقابلہ بھی کرنا پڑتا ہے۔ عموماً ایسی لڑکیاں اور خواتین گروہ کی شکل میں یہ کام انجام دیتی ہیں اور ان کے لیے اپنا دفاع کرنا بڑی حد تک آسان ہوتا ہے، لیکن نامناسب رویے یا نازیبا فقروں سے پھر بھی محفوظ نہیں رہتیں۔
    محنت کش عورتوں ٹرانسپورٹ کی سہولت سے بھی محروم ہیں۔ بعض خواتین دور دراز کے علاقوں سے دو تین بسیں تبدیل کر کے کام پر جاتی اور گھر واپس آتی ہیں اور اُن کی تنخواہ کا بڑا حصہ بسوں کے کرایوں کی نذر ہو جاتا ہے۔ یہ تمام زحمت اٹھا کر رات گئے گھر لوٹنے والی خواتین کی تکلیف میں اس وقت کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے جب گھر والے خاص طور پر گھر کے مرد ان سے تاخیر پر آنے کا سبب دریافت کرتے ہوئے شک کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ اس پر جسمانی آرام تو کیا میسر آتا ہے، ان سے ذہنی آسودگی بھی چھن جاتی ہے۔
    گھر گھر کام کرنے والی ماسیاں کہلانے والی محنت کش عورتوں کا سب سے بڑا مسئلہ عزتِ نفس کا ہے جو بار بار مجروح ہوتی ہے۔ یہ معاملہ محض بلاجواز ڈانٹ ڈپٹ، تنخواہ کاٹ لینے کی دھمکیوں تک محدود ہو تو وہ شاید اسے اپنا مقدر سمجھ کر قبول کر لیں مگرجب ان کو چند ٹکوں کے عوض اپنی عزت کا سودا کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے تو ان کے پاس کام چھوڑنے کے سوا کوئی راستہ نہیں‌ ہوتا۔ لیکن پھر ان کو اپنے بے روزگار اور نشے کے عادی شوہر کی باتیں سننا پڑتی ہیں‌ جو گھر والی کی تنخواہ پر نظریں‌ جمائے بیٹھے ہوتے ہیں۔
    گاؤں اور دیہات میں 75 فی صد سے زائد خواتین زراعت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ اٹھارہ گھنٹے یومیہ کام کرنے والی ان خواتین کو زرعی مزدور کی حیثیت حاصل ہے۔ مگر محض عورت ہونے کے سبب ان کی محنت کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ انھیں نہ تو محنت کی پوری اُجرت ملتی ہے اور نہ ہی اُن کے ہنر کی داد دی جاتی ہے۔ گھریلو دستکاری، مٹی کے برتن بنانے کے لیے مٹی کی تیاری میں بھی دیہی محنت کش خواتین کی صلاحیتیں نظر آتی ہیں لیکن اسے بھی ان کے روز مرہ معمولات کا حصہ سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ مضحکہ خیز المیہ یہ ہے کہ اپنی محنت کی کمائی پر حق ہونا تو بڑی بات ہے خود اپنی کمائی وصول کرنے کا اختیار بھی انھیں حاصل نہیں کہ یہ فریضہ ان کے گھر کے مرد ان کی جگہ رقم وصول کر کے سر انجام دیتے ہیں۔
    محنت کش خواتین کا پیشہ خواہ کوئی بھی ہو، کسی بھی ادارے سے تعلق ہو یہ حقیقت ہے کہ تمام محنت کش خواتین گھرکیاں اور دھمکیاں الاؤنس سمجھ کر قبول کرتی ہیں اور اپنا مقدر بھی۔ دیہی ہی نہیں شہری محنت کش عورتیں‌ بھی ان گنت مسائل میں گھری ہوتی ہیں۔
    پاکستان میں 1972ء میں سول حکومت نے چوتھی لیبر پالیسی کے اعلان کے بعد پاکستان میں یکم مئی کو محنت کشوں کے عالمی دن کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا تھا۔ نصف صدی گزر گئی، مزدوروں کی کئی انجمنیں بنیں، اس عرصے میں محنت کش بالخصوص عورتوں اور بچوں کے مسائل میں اضافہ ضرور ہوا لیکن ان کے حل کی جانب توجہ نہیں دی گئی۔ زبانی جمع خرچ کی حد تک تو بہت کچھ ہوا اور ہورہا ہے لیکن عملی طور پر دیکھیں تو آج بھی محنت کش عورت کو کام کی جگہ پر اس کا حق نہیں دیا جاتا اور اسے معاشرے میں‌ بھی عزّت اور احترام حاصل نہیں ہے۔
    برسوں بیت گئے محنت کش خواتین اچھے دنوں کی آس لگائے بیٹھی ہیں اور انھیں یقین ہے کہ
    بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے
    فروغِ گلشن و صوتِ ہزار کا مو سم