Tag: شائستہ زریں کی تحریریں

  • بیش قیمت انعام (سبق آموز کہانی)

    بیش قیمت انعام (سبق آموز کہانی)

    حالات بتا رہے تھے کہ اس مرتبہ بھی علی کی خواہش پوری نہیں‌ ہوسکے گی اور اسے دوستوں کے سامنے شرمندگی اٹھانا پڑے گی۔ اس سال بھی نہ وہ روزہ رکھ سکے گا اور نہ ہی عید پر نئے کپڑے بنیں گے۔

    گزشتہ چند برسوں سے یہی ہورہا تھا کہ علی کی روزہ کشائی کی تقریب کسی نہ کسی وجہ سے ٹل رہی تھی۔ گھر کے معاشی حالات بہتر ہی نہیں ہو پا رہے تھے۔ اس مرتبہ کچھ آس بندھی تھی مگر اس کے ابو کی ملازمت اچانک ختم ہوجانے سے علی کی آس دم توڑ گئی تھی۔ اس کو یقین ہو چلا تھا کہ اب کبھی بھی اُس کی روزہ کشائی نہیں ہوگی، نہ وہ عید پر نئے کپڑے پہنے گا اور نہ ہی دوستوں کو عید پر تحفے دے سکے گا۔ روزے کا کیا ہے، وہ تو علی پچھلے رمضان میں بھی رکھ سکتا تھا، لیکن محرومیوں کی گود میں پروان چڑھنے کے سبب وہ ضدی ہو گیا تھا۔ اُس نے ضد پکڑ لی تھی کہ روزہ کشائی کی تقریب کے بغیر روزہ نہیں رکھے گا۔ تیرہ سال کا ہوگیا تھا مگر اس کے اندر کا ضدی بچّہ اپنی دیرینہ آرزو کی تکمیل کے لیے ہمکتا رہتا۔

    خواب دیکھنے پر تو رقم خرچ نہیں ہوتی نا، چھوٹی چھوٹی آرزوئیں علی کو ستاتیں تو وہ نت نئے خواب بننے لگتا مگر جلد ہی اس کے خواب بکھر جاتے۔ رمضان کا چاند دیکھ کر علی نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو آنسو بے اختیار اس کی آنکھوں سے ٹپک پڑے۔ واضح نظر آنے والا چاند دھندلا سا گیا۔ یکایک علی کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ اسے فرمانِ الٰہی یاد آگیا تھا ”روزہ میرے لیے ہے، اس کی جزا میں دوں گا“ اور اسی پل علی نے اللہ کی رضا کے لیے دل میں پورے روزے رکھنے کا عہد کیا۔

    چاند دیکھ کر علی نے امی ابّو کو سلام کر کے اُنھیں خوش خبری سنائی کہ کل وہ پہلا روزہ رکھے گا اور انشاء اللہ پورے روزے رکھے گا۔ علی نے جو کہا کر دکھایا۔ وہ علی جو روزہ کشائی کی تقریب کے بغیر روزہ رکھنے پر آمادہ نہ تھا نہ صرف پابندی سے روزے رکھ رہا تھا بلکہ بلاناغہ تراویح بھی پڑھ رہا تھا۔ اور پہلی مرتبہ رمضان المبارک کی سعادتوں اور برکتوں کے مزے لوٹ رہا تھا۔ ورنہ اس سے پہلے رمضان کا سارا مہینہ اس نے اللہ سے گلے شکوے کرتے گزارا لیکن اس بار روزے رکھ کر علی کواحساس ہو رہا تھا کہ رمضان شکوے کا نہیں شکر کا مہینہ ہے۔ برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ ہے۔ علی بہت خوش تھا کہ روزے کی برکت سے اُس نے اپنے نفس پر قابو پانا سیکھ لیا تھا۔ شکوے کی جگہ شکر اور بے صبری کی جگہ صبر نے لے لی۔ اب ضد بھی برائے نام رہ گئی تھی۔ اور پھر یوں ہُوا کہ افطار کے وقت پابندی سے مانگی جانے والی علی کی دعا قبول ہو گئی۔

    اس کے ابّو کو بہت اچھی ملازمت مل گئی۔ تنخواہ معقول تھی۔ عید سے دو روز پہلے کمپنی نے عید کی خوشی میں ایڈانس تنخواہ دے دی۔ علی کی یوں کایا پلٹ ہوتے دیکھ کر اُس کے ابو نے عید کی خریداری کے لیے دو ہزار روپے دیے تھے۔ وہ بہت خوش تھا کہ اس عید پر وہ بھی نئے کپڑے اور جوتے پہنے گا، دوستوں کے لیے تحائف لے گا۔ ابھی وہ منصوبہ بندی کر ہی رہا تھا کہ اُس کے عزیز دوست حمزہ کے ایکسیڈنٹ کی اطلاع ملی۔ حمزہ نہایت غریب ذہین اور باصلاحیت لڑکا تھا۔ اُس کے والد سرکاری دفتر میں کلرک تھے۔ اُن کی گزر بسر مشکل سے ہو رہی تھی، اُس پر یہ ناگہانی پریشانی، عید بالکل سر پر آگئی تھی۔ ایسے وقت میں اپنوں نے بھی اُن کی مدد سے انکار کر دیا تھا۔ علی کو جب ان حالات کا علم ہُوا تو اُس نے اپنی عید کی خریداری کی ساری رقم حمزہ کے ابو کو دے دی۔ علی کے والدین خوش تھے کہ اپنے دوست کی خاطر علی نے اپنی خوشیوں کی قربانی دی۔ ساتھ ہی اُنھیں یہ بھی احساس تھا کہ اب علی کو عید کے لیے نیا سوٹ نہیں دلوا سکتے۔ جب علی کی امی نے یہ بات اس سے کہی تو اُس نے کہا، ”کوئی بات نہیں مجھے اس کا کوئی دکھ نہیں کہ میں معمولی کپڑے پہن کر عید کی نماز پڑھوں گا۔ میرے دوست کی صحت اور زندگی میرے کپڑوں، جوتوں، تحائف سے زیادہ اہم ہے۔ یہ رقم اس کے بہت کام آگئی، اگر بروقت میں یہ رقم حمزہ کو نہ دیتا تو میرا ضمیر مجھے ملامت کرتا رہتا اور میں عمر بھر عید کی خوشی نہیں منا پاتا۔“ یہ سُن کر علی کی امی نے بے اختیار اُسے گلے سے لگالیا۔

    عید کی صبح علی نے پرانے کپڑے پہنے لیکن اُس کے اندر آج کوئی محرومی نہیں تھی۔ وہ دل میں عجب قسم کا اطمینان اور خوشی محسوس کر رہا تھا۔ عید گاہ سے واپسی پر جب حمزہ سے ملنے علی اُس کے گھر گیا تو اُسے اپنا منتظر پایا۔ حمزہ جانتا تھا کہ عید پر قیمتی کپڑے پہننا علی کا خواب تھا جو اس کی وجہ سے اس سال بھی پورا نہ ہو سکا۔ علی کو پرانے کپڑوں میں دیکھ کر حمزہ کی آنکھیں بھر آئیں۔؎

    علی! تم نے اپنے دل کو مار کر مجھے نئی زندگی دی، اگر تم بَروقت میرے علاج کے لیے پیسے نہ دیتے تو آج۔۔۔ بات ادھوری چھوڑ کر حمزہ بری طرح رو دیا۔

    حمزہ! آگے کچھ نہ کہو، زندگی اللہ کے ہاتھ میں ہے جس نے تمہیں نئی زندگی دی اور مجھے بھی۔

    کیا مطلب؟ تمہیں نئی زندگی دی؟ مگر کیسے؟ حمزہ نے حیرت سے سوال کیا۔ مطلب یہ ہے کہ میرے دل کی دنیا بدل گئی۔ میں خوابِ غفلت سے بیدار ہو گیا۔ یقین کرو پرانے کپڑوں اور جوتوں میں، میں خود کو بہت نیا نیا محسوس کر رہا ہوں۔ میں نے اللہ کی رضا کے لیے روزے رکھے تو روزوں کا انعام بھی پا لیا۔ عید کی ایسی سچی خوشی مجھے پہلے کبھی نہ ملی تھی۔“

    تم نے میرے لیے بہت کیا ہے علی! پَر میں تمہیں یہ سستا سا عید کارڈ ہی دے سکتا ہوں جو تمہارے لیے میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔

    نہایت مسرت اور حیرت سے علی وہ کارڈ دیکھ رہا تھا، جس میں حمزہ کی محنت اور محبت دونوں ہی شامل تھی۔ کارڈ پر اشعار درج تھے۔

    چلو ختم روزے ہوئے عید آئی
    خوشی کا مسرت کا پیغام لائی
    مبارک ہو سب کو قمر عید کا دن
    کہ سب نے خوشی ہی خوشی آج پائی

    میرے دوست! جسے تم سستا عید کارڈ کہہ رہے ہو میرے لیے بہت قیمتی ہے۔ مہینہ بھر روزے رکھ کرمیں نے جان لیا کہ تشکر کتنی انمول نعمت ہے، صبر اللہ کا کتنا بڑا انعام ہے اور یہ کہ سچی خوشی اپنی خواہشات کی تکمیل میں نہیں بلکہ اوروں کے کام آنے میں ہے۔بیشک میں نے روزوں کا انعام پا لیا ہے، بیش قیمت انعام۔

    (مصنّف:‌ شائستہ زریں‌)

  • ہر آنگن میں اُترا چاند…

    ہر آنگن میں اُترا چاند…

    چاند محض شب کی تاریکی میں اُجالے کی نوید ہی نہیں جانے کتنے دلوں کا قرار ہے۔ چاند سے جتنا استفادہ شاعروں اور خواتین نے کیا ہے شاید ہی اور کسی نے کیا ہو۔ یہاں تک کہ چاند سے خواتین کی والہانہ وابستگی کے طفیل دھرتی پر ان گنت چاند بکھر گئے۔ چاند خواتین کی امنگوں کا مرکز ازل سے رہا ہے اور ابد تک رہے گا۔

    وہ پیشے اور شعبے جن پر صدیوں مردوں نے راج کیا ہے، اب خواتین بھی اُن میں اپنے جوہر دکھا رہی ہیں۔ اگر خواتین رویتِ ہلال کمیٹی کے اراکین میں شامل ہو گئیں تو شہادتوں کے باوجود چاند کا فیصلہ بہت دشوار ہو جائے گا۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ خواتین ہر شے میں چاند کی شباہت تلاش کرتی ہیں، ہر عزیز چہرے کو چاند سے تشبیہ دیتی ہیں۔ یوں بھی شرعی نقطۂ نظر سے ایک مرد کی گواہی برابر ہے دو خواتین کی گواہی کے۔ اگر مردوں کے مساوی خواتین گواہوں کی ضرورت پڑی تو فی مرد کے مساوی دو خواتین اراکین شامل ہوں گی اور جتنی زیادہ خواتین ہوں گی اُتنی ہی زیادہ چاند کے اعلان میں تاخیر اور فساد کا اندیشہ ہے کہ اپنی فطرت کے عین مطابق خواتین کو پَل بھر میں چاند نظر آ جائے گا لیکن چاند پر کئی بار اختلاف ہوگا۔ کبھی کسی خاتون کو کسی شے پر چاند کا گمان ہوگا تو کبھی کسی کو اور کسی شے پر کہ چاند خواتین کا من پسند استعارہ ہر عہد میں رہا ہے مگر جدا جدا معیار کے ساتھ۔ سو بگاڑ کا احتمال بھی یقینی ہے۔ جب کہ مرد حضرات بہت دیدہ ریزی کے باوجود چاند دیکھنے میں دھوکہ کھا جاتے ہیں جس کے نتیجے میں کبھی قبل از وقت عید کروا دیتے ہیں اور کبھی رات گئے۔ ہلالِ عید کی نوید سناتے ہیں اور اکثر تو ایسا بھی ہُوا ہے آدھی رات کو جب خواتین سکھ کی نیند میں بھی چاند کے سپنے دیکھ رہی ہوتی ہیں رویتِ ہلال کمیٹی کے اراکین کو عید کا چاند نظر آجاتا ہے۔

    غور فرمائیے کہ اگر خواتین بھی رویتِ ہلال کمیٹی کی رکن ہوں تواس صورت میں اُن پر کیا بیتے گی؟ طلوعِ ماہتاب کے انتظار میں خواتین خود کو کس قدر بے بس محسوس کریں گی؟ میک اپ اس عرصے میں دغا دے جائے گا اور پھر یہ بھی کہ طلوعِ مہتاب کے انتظار کا عذاب خواتین کو مردوں کی بہ نسبت زیادہ جھیلنا پڑے گا کہ مردوں کی تمام توجہ چاند پر مرکوز ہو گی جب کہ خواتین کے مابین کچھ اس طرح کے مکالموں کا تبادلہ ہوگا کہ
    ”ہائے اللہ! اگر کل عید ہو گئی تو کیا ہو گا، ابھی تو مجھے پارلر بھی جانا ہے۔ مہندی ہتھیلی پر بھی لگانی ہے اور ہتھیلی کی پشت پر بھی اور اچھے بھلے سیاہ بال ڈارک براؤن کرنے ہیں، مگر یہ چاند قسم سے اس وقت تو سچ مچ ہرجائی لگ رہا ہے، بے وفا ایک جھلک ہی دکھا دیتا۔“

    ”تمہیں پارلر کی پڑی ہے اور میرے کپڑے بدبخت ٹیلر نے ابھی تک نہیں دیے، ایسا نہ ہو جب میں گھر پہنچوں تو وہ دکان بڑھا کر چل دے اور میں ہاتھ ملتی رہ جاؤں۔“

    ”یہ تو ہے، پچھلے سال شمی کے ساتھ یہی تو ہوا تھا، بیچاری کی عید کی ساری خوشی خاک میں مل گئی تھی۔ ٹیلر نے عید کے بعد کپڑے دیے تھے اور عید کے تین دن بعد اس وقت شمی نے عید منائی جب اُس کے کپڑے دیکھ کر انوشا کلس کر رہ گئی تھی اور شمی کے دل میں چراغاں ہو گیا تھا۔“

    ”اور میں اپنی جان کو رو رہی ہوں، رات بھر جاگ کر پورا گھر ڈیکوریٹ کرتی ہوں، میرے گھر کا کیا ہوگا جو عید ملنے آئے گا پہلے مجھ پر تھو تھو کرے گا۔ پھر تمسخر سے عید ملے گا۔ میں تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہوں گی۔ موا چاند نہ ہُوا بجلی ہو گئی غائب ہو جائے تو حاضر ہونا مشکل۔“

    ”ارے شمع تمہارے چہرے پر بارہ کیوں بج رہے ہیں، قسم سے دیکھ کر ہول اٹھ رہے ہیں۔“

    ”تم کیسی لڑکی ہو جسے میری پریشانی کا اندازہ ہی نہیں ساری میچنگ جیولری، چوڑیاں، سینڈل چاند رات کو ہی لیتی ہوں، ہائے میرا پانچ ہزار کا سوٹ کیسا بے وقعت لگے گا ان سب کے بغیر اور خود میں کتنی ادھوری ادھوری لگوں گی۔“

    ”مجھ سے پوچھو عید کا چاند ہمیشہ اُن کے ساتھ دیکھتی ہوں، اُن کے بِنا ہر رنگ پھیکا اور عالم یہ ہے کہ
    تم پاس نہیں ہو تو عجب حال ہے دل کا
    یوں جیسے میں کچھ رکھ کے کہیں بھول گئی ہوں

    کاش اسوقت وہ میرے ساتھ ہوتے تو چاند مجھے پل بھر میں نظر آجاتا۔“

    ”نظر آجاتا! کیا مطلب؟ مجھے تو ہر سُو چاند ہی چاند نظر آرہا ہے۔“

    ”لیکن کہاں؟ خواتین نے متجسس نظروں سے دیکھا تو خاتون آنکھیں موندے کہہ رہی تھیں ”میرے دل میں جھانکو، ایمان سے۔“

    جب تصور میں کبھی آپ کو پاتا ہے دل
    آپ ہی کے حسن کی تصویر بن جاتا ہے دل

    اور پھر یکا یک خاتون چلائیں ہائے اللہ“ ساتھی خاتون چہکیں، کیا ہُوا تصور ٹوٹ گیا یا چاند گم ہو گیا۔“

    ”یاد آگیا انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ عید کے دن تمہارے ہاتھ کے بنے ہُوئے دہی بڑے اور شامی کباب کھاؤں گا، اور میں اپنے چاند کے لیے یہ اہتمام تب ہی کر سکتی ہوں جب آسمان کا چاند طلوع ہو۔ ایمان سے اس وقت میں گھر پر ہوتی نا تو آدھا کام نمٹا چکی ہوتی اور جب وہ آتے تو جھٹ کباب تل کر اُن کے سامنے رکھ دیتی اور جب وہ اس سے لطف اُٹھا کر مجھے داد دیتے تو سمجھو عیدی تو مجھے مل ہی جاتی مگر ہائے

    حسرت اُن غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے

    ”اس مسئلے کا ایک حل ہے کہ میرے پاس۔“ ایک محترمہ نے دانائی ظاہر کی، ”وہ کیا؟“ تمام خواتین نے یک زبان ہو کر پوچھا،“ جواباً محترمہ نے شانِ بے نیازی سے کہا، اتنے عذاب جھیلنے سے بہتر ہے کہ سب اپنا اپنا استعفیٰ پیش کر دو۔ میں تو آج ہی اپنا استعفیٰ پیش کر دوں گی، حد ہوتی ہے ظلم کی، یوں تو وقت بے وقت پارلر کے چکر لگائیں اور جب موقع ہے تب؟ اب عید کے دن نہ چہرے کی زیبائش ہو اور نہ ہی بالوں کی آرائش، میں تو باز آئی ایسے شوق سے۔ جس کا کام اُسی کو ساجھے۔ میرا تو ارمان پورا ہو گیا۔ بس عید کے بعد ایک پریس کانفرنس کر کے تمام خواتین کو پیغام دوں گی۔ جس شعبے میں چاہو دھڑلے سے اپنے قدم جماؤ مگر خبردار جو رویتِ ہلال کمیٹی میں شامل ہوئیں۔ ایمان سے منٹوں میں ارمانوں کا خون ہو جاتا ہے، مردوں کو کام ہی کیا ہوتا ہے؟ بیشک صبحِ کاذب کے وقت چاند کا اعلان کر کے گھر واپس جائیں۔ اف اللہ کیا بتاؤں چاند مجھے کتنا پیارا لگتا ہے لیکن چاند دیکھنے کے انتظار میں اپنی آرزوئیں مٹی میں ملتے نہیں دیکھ سکتی اور نہ ہی اپنے چاند کو خفا کرسکتی ہوں کہ اُن کی روشنی سے میرے دل میں اجالے ہی اجالے بکھر جاتے ہیں اور میں گنگناے لگتی ہوں۔

    چشمِ تصور سے یہ منظر بھی دیکھیے!
    ابھی خواتین کا اجلاس جاری ہوتا ہے کہ مرد حضرات کی ملی جلی صدائیں بلند ہوتی ہیں ”عید مبارک، چاند نظر آگیا۔“ یہ سنتے ہی خواتین کے مذاکرات نئے رنگ اختیار کر لیتے ہیں۔ ”اللہ کہاں ہے ہمیں بھی تو دکھائیے نا“ دل میں شوق کا طوفان چھپائے لپکتی ہوئی خواتین آگے بڑھتی ہیں اور مشتاق نظروں سے بے تابانہ آسمان کی وسعتوں میں چمکتے چاند کو دیکھ کر دعا کے لیے ہاتھ بلند کرتی ہیں، ”سنو تم کیا مانگ رہی ہو؟“ قریب کھڑی خاتون سرگوشی میں پوچھتی ہیں۔ میں نے تو یہی التجا کی ہے”اے عید کے چاند میرے چاند کو روٹھنے نہ دینا“ اور تم نے؟ اس وقت تو میں نے چاند کا شکریہ ادا کیا ہے وہ نمودار تو ہُوا، بس اب گھر کی جانب دوڑ لگاؤ اور پھر آناً فاناً تمام خواتین نے دوڑ لگائی۔ حد تو یہ ہے کہ عجلت میں میڈیا کے سامنے چاند کے اعلان کے لیے بھی نہیں رکیں کہ اب چہرہ اس قابل ہی کہاں رہا تھا۔ تھکی ماندی صورتیں دیکھ کر لوگ بور ہی ہوں گے۔ اور چاند بے بسی سے خواتین کی بے رخی پر دل مسوس کر رہ جائے گا کہ کتنی بے مروت ہیں ہر شے میں میرا جلوہ دیکھنے والیوں کو میری پروا بھی نہیں ہے اور خواتین امبر کے چاند کے شکوے سے بے نیاز دھرتی کے چاندوں کی جانب اپنی توجہ مرکوز رکھیں گی، اُن چاندوں کی جانب جنھیں دیکھ دیکھ کر وہ جیتی ہیں خواہ اُن سے رشتے اور تعلق کی نوعیت کچھ بھی ہو، وہ ہیں تو اُن کے چاند۔

    (شائستہ زریں کی شگفتہ تحریر)

  • بچّوں کی دنیا کے ”بھائی جان“ آصف الیاس کا بچپن

    بچّوں کی دنیا کے ”بھائی جان“ آصف الیاس کا بچپن

    آصف الیاس کے اندر ذہین، شرارتی اور ہر میدان میں کام یابی کے جھنڈے گاڑنے کا آرزو مند بچّہ آج بھی کچھ کر دکھانے کے لیے بے تاب رہتا ہے۔

    فرق ہے تو بس اتنا کہ آصف کی توقعات، خواہشات اور آرزوؤں کا رُخ اب بچّوں کی جانب ہوگیا ہے۔ جب ہی تو انھوں‌ نے بچّوں کے حقوق سے متعلق کئی تھیٹر کیے۔ بطور آرٹسٹ بھی بچّوں کے رسائل کلیاں، گلوبل سائنس، نونہال اور ماہنامہ ہمدرد صحت کے لیے دس سال سے زائد عرصہ کام کیا۔ آرمی پبلک اسکول اور سندھ مدرسۃُ الاسلام میں بحیثیت آرٹ اینڈ ڈرامہ ٹیچر نہایت خوش اسلوبی سے اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔ معلم اور خطاط بھی ہیں۔ بچّوں کے لیے ان گنت کارٹون ڈب کیے۔ ریڈیو پاکستان کے تاریخی شو ”بچّوں کی دنیا“ سے بطور بھائی جان تیرہ برس سے وابستہ ہیں۔ پی ٹی وی کے لیے بچّوں کے متعدد شوز اور ڈرامے لکھے۔ ان دنوں پی ٹی وی پر آصف الیاس کا تحریر کردہ شو ”کریٹو کڈز“ نشر ہورہا ہے۔ ریڈیو اور ٹی وی پر بچّوں کے لیے گیت لکھنے کے ساتھ ساتھ اُن کی موسیقی بھی مرتب کی۔
    انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے اس عہد میں جب بچّے اور نوجوان کتابوں سے دور ہوتے جارہے ہیں، آصف الیاس صلہ نامی تنظیم کے تحت انھیں کتب بینی کی طرف راغب کر رہے ہیں۔ نونہالانِ وطن کے معاملے میں آصف الیاس بے حد حسّاس اور ذمہ دار ہی نہیں، جوہری بھی ہیں اور ان کی صلاحیتوں کو پرکھنے اور انھیں نکھارنے میں ان کو کمال حاصل ہے۔ آصف الیاس ریڈیو اور ٹی وی کے توسط سے کئی باصلاحیت بچّوں کو متعارف کروا چکے ہیں۔ وہ کیڈٹ کالج میں بطور اسسٹنٹ لائبریرین خدمات انجام دے رہے ہیں۔
    ہم نے سوچا کہ نئی نسل کی تعلیم و تربیت، کردار سازی اور انھیں مفید اور کارآمد سرگرمیوں کی طرف راغب کرنے کے لیے نہایت ذمہ داری سے اپنا کام کرنے والے آصف الیاس سے پوچھا جائے کہ خود ان کا بچپن کیسے گزرا؟ آصف الیاس کا انٹرویو پیشِ‌ خدمت ہے۔
    آپ کا بچپن کیسا گُزرا؟
    آصف الیاس: میرا بچپن الحمدُللہ بہت شان دار گزرا کیونکہ میں تین بہنوں سے چھوٹا اور دو بہنوں سے بڑا بھائی تھا تو بہنوں کا بھرپور پیار اور شفقت نے محسوس ہی نہیں ہونے دیا کہ میرا کوئی بھائی نہیں ہے۔ ہم دوستوں کی طرح رہتے۔ ہر ایک کی زندگی میں کچھ نہ کچھ کمی تو ہوتی ہے۔ غربت تھی لیکن سادگی تھی۔ امی کی بہت زیادہ سختی تھی، لیکن پیار بھی بہت زیادہ تھا۔ بہت اچھی تعلیم حاصل کی۔
    بچپن میں شرارتی تھے یا صرف پڑھاکو تھے؟
    آصف الیاس: میرا شمار انتہائی شرارتی بچّوں میں ہوتا تھا۔ جب مجھے محسوس ہوا کہ میرے پاس آواز کا ایک جادو ہے، تب میں نے نسوانی آواز بنا کر اپنے ایک رشتہ دار سے بات کی۔ وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ کوئی آنٹی ہیں، بعد میں ان کو پتہ چلا کہ یہ تو الیاس صاحب کے صاحبزادے ہیں تو اس پر پہلے تو ذرا برہم ہوئے اور پھر چونکے بھی اور خوش بھی ہوئے تھے میری فن کاری پر۔
    اسکول کے زمانے کا یادگار واقعہ؟
    آصف الیاس: جماعت چہارم میں اپنی اوّلین سندھی تقریر میں پہلا انعام حاصل کرنا۔جس کی دھوم پورے اسکول میں مچی تھی، مجھے اعزازی کپ کے ساتھ پورے اسکول کا دورہ کروایا گیا تھا۔
    تعلیمی میدان میں بچپن کی شان دار اور یادگار کام یابی کون سی تھی؟
    آصف الیاس: تعلیمی میدان میں اوّل آتا رہا ہوں‌ اور تقریری مقابلوں میں انعام بھی حاصل کرتا رہا ہوں، یہ سب یادگار ہیں۔
    کبھی کسی غیر یقینی ناکامی یا کام یابی کی صورت میں آپ کے کیا تأثرات تھے؟
    آصف الیاس: دونوں صورتوں میں مزید محنت کرنے کا خیال آتا ہے۔
    بچپن میں غیر نصابی سرگرمیوں میں حصّہ لیا؟
    آصف الیاس: بچپن میں غیر نصابی سرگرمیاں، تقریر،اداکاری اور نقالی تھیں جو بچپن سے پچپن میں بھی جاری ہیں۔
    اس سلسلے کا پہلا انعام کب اور کس عمر میں حاصل کیا؟ یاد ہے انعام کیا تھا؟
    آصف الیاس: سب سے پہلا انعام محلّے کے مدرسہ سے سات سال کی عمر میں نعت خوانی میں حاصل کیا اور نعتیہ کتاب کا ہدیہ ملا تھا۔
    گرمیوں کی چُھٹیاں کیسے گزارتے تھے؟
    آصف الیاس: اکثر حیدر آباد سے کزنز اور خالہ آجاتی تھیں۔ یوں اُن کی وجہ سے دعوتوں اور سیر سپاٹوں سے گرمیوں کی چھٹیاں مزے سے گزر جاتی تھیں۔
    بچپن میں مشاغل کیا تھے؟
    آصف الیاس: مصوری اور اداکاری۔ خیر سے یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
    بچّوں کی کیسی کتابیں، رسائل اور کہانیاں پڑھنے میں لُطف آتا تھا؟
    آصف الیاس: ہمدرد نونہال پڑھنے اور اس کے زمرۂ مصوری کو سب سے پہلے دیکھنے کا شوق تھا۔
    بچپن میں آپ کی کون سی خوبی کو سب سے زیادہ سراہا جاتا تھا؟
    آصف الیاس: گلوگاری کو بہت سراہا جاتا تھا۔
    کوئی ایسی ڈانٹ یا مار جس کا اثر آج بھی آپ کی زندگی پر ہے؟
    آصف الیاس: نماز کی پابندی۔ امی نماز کا پابند بنانے کے لیے اپنے اس اکلوتے بیٹے پر بہت سختی کرتی تھیں۔
    بچپن میں احتجاج کا کون سا طریقہ اختیار کرتے تھے؟
    آصف الیاس: مجال ہے کہ کوئی احتجاج کر لیں۔ امی کی آنکھیں، باتیں، آواز، ہاتھ سارے احتجاج ایک طرف کر دیتی تھیں۔
    بچپن میں عیدی کتنی ملتی تھی؟ کیسے خرچ کرتے تھے؟
    آصف الیاس:‌ عیدی جتنی بھی ملتی امی کے ذاتی اکاؤنٹ یعنی پرس میں منتقل ہو جاتی تھی۔ اس لیے خرچ کا نہ خیال آتا تھا، نہ ہی سوال پیدا ہوتا تھا
    بچپن میں کس سے متأثر تھے، کیوں؟
    آصف الیاس:‌ بچپن میں اساتذہ اور فوج کے سپاہیوں سے متأثر تھا۔ میں فوجی بننا چاہتا تھا یا اُستاد۔
    بچپن میں کسی لائبریری کے ممبر تھے؟ یومیہ کتنا کرایہ تھا؟ کیا سہولتیں تھیں؟
    آصف الیاس:‌ بچپن میں کیا کسی بھی عمر میں، میں لائبریری کا ممبر نہیں رہا۔ ہاں لائبریری سائنس کا طالب علم ضرور رہا ہوں۔ گو کہ میں نے مختلف لائبریریوں میں خدمات انجام دی ہیں۔ اور اب بھی بطور اسسٹنٹ لائبریرین کام کر رہا ہوں۔
    حکیم سعید صاحب سے بچپن کی یادگار ملاقات کے بارے میں‌ بتائیں۔
    آصف الیاس:‌ جب میں نے ریڈیو پاکستان کراچی سینٹر کے پروگرام بچّوں کی دنیا سے اپنی صداکاری کا آغاز کیا تو مجھے پتہ چلا حکیم سعید صاحب بچّوں کی دنیا میں آتے ہیں۔ مجھے بڑی بے چینی سے ان کا انتظار تھا۔ جب وہ پروگرام میں آئے تو اُن کے احترام میں منی باجی کھڑی ہو گئیں۔ ہم بچّے کھڑے ہو گئے تھے۔ میں نونہال باقاعدگی سے خریدتا تھا۔ نونہال کے خاص نمبر کے ساتھ ایک آٹو گراف بک بھی ملی تھی جو میں بچّوں کی دنیا میں لے کر جاتا تھا۔ میں نے حکیم صاحب سے اس پر آٹو گراف لیا۔ کبھی سوچا بھی نہ تھا بچپن کی سرسری سی ملاقات کے بعد حکیم صاحب کی ہمدرد نونہال اسمبلی میں شرکت کروں گا۔ حکیم صاحب سے اپنے لیے تعریفی کلمات سنوں گا اور اُن کے صحبت سے فیض یاب ہوں گا۔ میں نے ہمدرد نونہال اسمبلی میں لگاتار تین سال تھیٹر کیا بلکہ میرے تھیٹر کا آغاز ہی ہمدرد کے پلیٹ فارم سے ہوا تھا۔ میں نے اُن کے میگزین کے لیے بطور مصوّر خدمات انجام دیں۔
    بچپن میں مستقبل کے جو خواب دیکھے تھے وہ پُورے ہوئے؟ اگر نہیں تو کیوں؟ اور اس کا اثر آپ کی زندگی پر کیا پڑا؟
    آصف الیاس:‌ میں نے کوئی خواب تو نہیں دیکھا لیکن اللہ نے میرے ہر خیال کو تعبیر بخشی ہے۔ جس کا اثر میری زندگی پر یہ ہے کہ میں اپنی زندگی سے مطمئن ہوں۔
    عہدِ حاضر کے بچّوں کا بچپن ملتا تو اسے اپنے مزاج اور طبیعت کے لحاظ سے کیسے گزارتے؟
    آصف الیاس:‌ شکر ہے میرا بچپن اس دور کا نہیں ورنہ میں بھی واٹس ایپ اور وڈیو گیم والا بچّہ ہوتا، تاہم اگر طبیعت اور مزاج کی بات ہو تو میں ریڈیو اور ٹی وی سے پہلے یوٹیوب اسٹار ہوتا۔
    بچّوں کو کیا کہنا چاہیں‌ گے؟
    آصف الیاس:‌ مجھے اس دور کے بچّوں پر فخر ہے اور بچّوں کی دنیا سے پیار ہے۔
  • یومِ پاکستان: ایک بچّے کی کہانی جو مسلم لیگ کا کارکن تھا

    یومِ پاکستان: ایک بچّے کی کہانی جو مسلم لیگ کا کارکن تھا

    23 مارچ پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم دن ہے جب 1940ء میں قرارداد پاکستان منظور کی گئی تھی جسے ہم قرارداد لاہور بھی کہتے ہیں۔ اس دن کو ہم یومِ پاکستان کے نام سے ہر سال مناتے ہیں۔ قرار داد پاکستان کی بنیاد پر مسلم لیگ نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے جداگانہ وطن کے حصول کی تحریک شروع کی تھی۔

    یومِ پاکستان کی مناسبت سے یہ کہانی خاص طور پر والدین اور اساتذہ بچوں کو سنا سکتے ہیں جس سے انھیں اس دن کی اہمیت اور تاریخی جدوجہد سے آگاہی حاصل ہوگی۔ اس کہانی کی مصنف شائستہ زرؔیں ہیں۔

    بچّہ: مسلم لیگ کے سرگرم کارکن عبدالستار مظہری

    آغا جان: کیا ارادے ہیں بچّو؟ میرے کمرے میں کیوں ڈیرا ڈالے بیٹھے ہو؟

    نصر: بہت ہی معصوم ارادے ہیں آغا جان! بس ایک جلسے کا آنکھوں دیکھا حال سننا ہے آپ سے۔

    آغا جان: کیوں نہیں، مگر کون سے جلسے کا؟ ہم نے تو بہت سارے جلسوں اور جلوسوں میں شرکت کی ہے۔

    عمر: جس جلسے میں قرار داد پاکستان پیش کی گئی تھی۔ ابو بتا رہے تھے آپ نے اُس میں شرکت کی تھی۔ ہم اس کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔

    آغا جان: برسوں بیت گئے لیکن آج بھی یوں لگتا ہے جیسے یہ کل کی بات ہو۔ میں بچّہ مسلم لیگ میں شامل تھا اور برصغیر کے دیگرمسلمانوں کی طرح نہ صرف آزادی کے خواب دیکھ رہا تھا بلکہ بساط بھر آزادی کی جدوجہد میں حصّہ بھی لے رہا تھا۔ اُس دن تو ہمارے جوش و خروش اور خوشی کا عالم ہی اور تھا جب وائسرائے ہند لارڈ لنلتھگو(Lord linlithgow) نے اپنی ایک تقریرمیں آل انڈیا مسلم لیگ کو مسلمانوں کی نمائندہ جماعت تسلیم کرلیا۔ مسلم لیگ کی اتنی بڑی کامیابی پر ہم خوشی سے پُھولے نہیں سمارہے تھے۔

    عمر: آغا جان! کون سی تاریخ تھی؟

    آغا جان: 10 اکتوبر 1939ء

    نصر: اور پھر اچانک 23 مارچ 1940ء کو جلسے کی قرارداد پیش کر کے قائد اعظم نے وائسرائے کو حیران کر دیا۔

    آغا جان: ہرگز نہیں، کیونکہ مسلمان ایک بہادر قوم ہے۔ 6 فروری 1940ء کو ایک ملاقات میں قائداعظم نے وائسرائے ہند کو بتا دیا تھا کہ 23 مارچ 1940ء کو لاہور میں منعقد ہونے والے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں ہم علیحدہ وطن کا مطالبہ کریں گے۔ اس کے بعد قائد اعظم نے میرٹھ میں ایک اجلاس منعقد کیا جس میں مسلم لیگی راہ نماؤں نے سوچ بچار اور باہمی گفتگو کے بعد فیصلہ کیا کہ ایک کمیٹی مقرر کی جائے جس میں تقسیم ہند کے بارے میں تمام تفصیلات کا جائزہ لیا جائے گا، یوں اس سلسلے میں کمیٹی کا قیام عمل میں آیا۔

    ردا: کمیٹی کے ارکین میں کون کون شامل تھا؟

    آغا جان: نواب زادہ لیاقت علی خان، سر سکندر حیات، خواجہ ناظم الدّین، سرعبداللہ ہارون، نواب محمد اسمٰعیل خان، عبدالمتین چودھری، سردار اورنگزیب خان، سید عبد العزیز وغیرہ شامل تھے۔ بہت غور و فکر کے بعد کمیٹی نے ایک رپورٹ ترتیب دی جسے 23 مارچ کے اجلاس میں پیش کیا گیا۔ یہ اجلاس آل انڈیا مسلم لیگ کا ستائیسواں اجلاس تھا جو 22 سے 24 مارچ تک جاری رہا۔ پہلا اجلاس 22 مارچ کو لاہور میں ہوا۔ اجلاس میں تقریباً 25 ہزار افراد نے شرکت کی۔ ہندوستان کے مختلف حصوں کے نمائندے ان میں شامل تھے۔ اجلاس کی صدارت قائد اعظم نے کی تھی۔ اور اجلاس کی کاروائی کا آغاز سر شاہنواز نے کیا تھا۔ اور آپ نے وضاحت کر دی تھی کہ ”ہندو اور مسلمان میں اس کے علاوہ اور کوئی قدر مشترک نہیں کہ وہ ایک ملک میں آباد ہیں، تمام قوم کو محمد علی جناح کی قیادت پر اعتماد ہے۔ اس موقع پرقائد اعظم نے برملا کہا۔”ہندؤوں اور مسلمانوں کے درمیان کوئی چیز ایک جیسی نہیں ہے اور وہ دو مختلف واضح تہذیبوں کے وارث ہیں۔ چنانچہ واحد حل یہ ہے کہ ہندوستان کو مسلم انڈیا اور ہندو انڈیا میں تقسیم کردیا جائے۔“

    مسلم لیگ کا دوسرا عام اجلاس 23 مارچ کو ہُوا جس میں 35 ہزار افراد نے شرکت کی اور اس اجلاس میں قرارداد پیش کی گئی۔ قائد اعظم کی خواہش پر بنگال کے وزیراعلیٰ مولوی فضل الحق نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ”آئین پر ایک مکمل نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ 1935ء کے ایکٹ میں وفاق کی جو اسکیم دی گئی ہے وہ کسی کے لیے بھی قابل قبول نہیں ہے۔ یہ اسکیم مسلمانوں کو مرکز میں نہ صرف ایک دائمی اقلیت میں تبدیل کر دے گی بلکہ مسلم اکثریتی صوبوں میں صوبائی خود مختاری منسوخ کر دے گی۔ مسلمان ہر ایسے آئین کو ناقابل عمل بنا دیں گے جو اُن کی مرضی و منشاء کے مطابق نہ ہو۔“

    رکن مرکزی قانون ساز اسمبلی مولانا ظفر علی خان نے قرار داد کی حمایت کا اعلان کرتے ہُوئے کہا کہ یہ بات قابلِ اطمینان ہو گی اگر یہ کہا جائے کہ آج کے دن سے شمال مغرب اور شمال مشرق کے مسلمانوں نے مکمل آزادی کا اعلان کردیا ہے۔

    نصر: آج کل تو کوئی جلسہ فائرنگ اور فساد کے بغیر ہوتا ہی نہیں وہ تو بہت پُر امن جلسہ ہو گا۔

    آغا جان: اُن دنوں مسلمانوں کی اکثریت قائد اعظم کے ساتھ تھی۔ اجلاس شروع ہونے سے کچھ دیر پہلے خاکساروں کی فائرنگ سے بے چینی پھیل گئی تھی جس پر قائد اعظم نے نہایت سمجھداری اور ذہانت سے قابو پالیا۔

    حرا: آخری اجلاس میں کتنے افراد شریک تھے؟

    آغا جان: 35 ہزار افراد شریک تھے۔ اجلاس کے آغاز پر آگرہ کے سید ذاکر علی نے وہ مرکزی قرارداد پیش کی جس پر گزشتہ اجلاس میں گفتگو کی گئی تھی۔ یہ قرارداد نہایت جوش و خروش کے ساتھ متفقہ طور پر منظور کر لی گئی تھی۔
    عمر: آغا جان! جب قائد اعظم نے اتنے بڑے مجمع کو منتشر ہونے سے بچایا تو اُن کے ساتھی تو بہت خوش ہوں گے؟

    آغا جان: کیوں نہیں بیٹا! مسلم لیگ کے آخری اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے نواب بہادر یارجنگ نے قائد اعظم کو مبارکباد دی تھی کہ اُنہوں نے خاکسار مسئلے کو نہایت عقلمندی اور سوجھ بوجھ سے حل کیا۔ قائداعظم کو بھی اس شان دار کام یابی کی بے حد خوشی تھی آپ نے اجلاس کے آخر میں کہا، ”مسلمانوں نے دنیا کے سامنے اپنے نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا ہے، دشمن کی چالیں ناکام ہو گئیں، مسلمانوں نے بالآخر اپنی منزل کا تعین کر لیا ہے اور موجودہ اجلاس ہندوستان کی تاریخ میں سنگ میل ثابت ہوگا۔“

    ردا: آغا جان! اتنے بڑے اجلاس کے انتظام میں مسئلہ نہیں ہوا؟

    آغا جان: تقسیم سے قبل برصغیر کے مسلمانوں کا اتحاد مثالی تھا، مسلم لیگی راہ نماؤں نے باہمی اتفاق سے منٹو پارک کے میدان کا انتخاب اجلاس کے لیے کیا۔ اُس زمانے میں یہ میدان کُشتیوں کے لیے مخصوص تھا حکومت نے جلسے کی اجازت دینے سے انکار کردیا تھا کہ چند روز قبل سکھوں کے اجتماع نے اس کا حلیہ خراب کردیا اب مزید خراب ہو جائے گا۔ مسلم لیگی راہ نماؤں کے دباؤ ڈالنے پر جلسے کی مشروط اجازت دی کہ جلسے کے منتظمین پانچ ہزار روپے بطور ضمانت داخل کریں تاکہ نقصان کی صورت میں اس کی تلافی کی جا سکے۔ اور یہ منتظم کے لیے ممکن نہ تھا، اس کا حل یہ نکالا کہ ہم خیال مسلم لیگی افسروں سے رابطہ کیا یوں اس سلسلے میں چھوٹ مل گئی۔

    حرا: آغا جان! اس زمانے میں برصغیر کے مسلمان معاشی اعتبار سے بہت خوش حال نہیں تھے اتنی بڑی رقم کا انتظام کیسے ہوا؟

    آغا جان: بڑوں کے ساتھ بچوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، بچہ مسلم لیگیوں کے لیے تو یہ عید کا سماں تھا ریڑھیوں پر فروخت ہونے والی سستی اشیاء پر قیمتوں کی چٹیں لگادی گئی تھیں، اس سے پہلے نواب کالا باغ نے ایک ہزار کی رقم مسلم لیگ کو دی۔ اور ساتھ ہی یہ پیغام بھیجا کہ اگر کوئی صاحب اس سے زیادہ رقم دیں گے تو وہ اتنی ہی رقم اور دیں گے۔ نواب سر شاہنواز خان نے اپنے اثر و رسوخ سے کام لے کرفوری اخراجات کے لیے 6000 روپے دیے، مجلس استقبالیہ نے رکنیت فیس 50 روپے مقرر کی، اس سے خاصی رقم جمع ہو گئی۔ ایک اندازے کے مطابق جلسے کے لیے 20 ہزار روپے کی رقم جمع ہو گئی تھی۔

    عمر: (حیرت سے) 20 ہزار میں جلسے کے انتظامات ہوگئے تھے؟

    آغا جان: جلسے کا انتظامات پر تقریباً پونے گیارہ ہزار روپے خرچ ہوئے تھے۔

    حرا: باقی رقم کا کیا ہوا آغا جان؟

    آغا جان: باقی ماندہ رقم آل انڈیا مسلم لیگ کے خزانے میں جمع کردی گئی تھی۔ تم میں سے کس کو معلوم ہے کہ قرارداد پاکستان میں کیے جانے والے مطالبے کے اصل الفاظ کیا تھے؟

    ردا: آغا جان! میں بتاؤں گی۔ وہ علاقے جہاں مسلم اکثریت میں ہیں وہاں مسلم ریاستیں قائم کر دی جائیں۔“

    آغا جان: لیکن بیٹا یہ جواب صد فی صد درست نہیں ہے۔ چونکہ میں خود اس جلسے میں موجود تھا اس لیے مجھے علم ہے کہ لفظ ”ریاست“استعمال ہوا تھا۔ ریاستیں تو ٹائپ کی غلطی تھی، قرارداد پاکستان میں صرف ایک پاکستان کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

    نصر: (جوش و مسرت سے) قائداعظم نے درست کہا تھا، واقعی قرارداد پاکستان تو پاکستان کی تاریخ میں سنگِ میل ثابت ہوئی۔

    حرا: آغا جان ماضی کی یادیں تازہ کرنا آپ کو کیسا لگا؟

    آغا جان: بہت اچھا لگا بیٹی۔ ہم نے بڑی جدوجہد اور قربانیوں کے بعد آزاد وطن حاصل کیا ہے۔ میرے بچو! تم ہمارے وارث بھی اور امین بھی ہو۔ تم سے بس اتنی سی درخواست ہے کہ ہمارے خوابوں کو پائمال نہ کرنا، اس پاک سر زمین کی حفاظت فرض سمجھ کر کرنا، پاکستان ہمارے اسلاف کے خواابوں کی تعبیر اور جذبوں کا امین ہے۔ ہمیں پاکستان کی موجودہ نسل سے بہت سی اچھی توقعات ہیں۔

    نصر: آغا جان ہم پاکستان کے وارث اور امین ہی نہیں محافظ بھی ہیں۔

    آغا جان: شاباش میرے بچو! ہم نے جو دیا جلایا ہے اس کی روشنی کبھی ماند نہ پڑنے دینا۔ پاکستان میں اُجالا بکھیر دینا۔ تم سے اور تمہاری نسل سے مجھے یہی کہنا ہے کہ

    ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کر
    اس ملک کو رکھنا میرے بچوں سنبھال کر

    ردا: آغا جان ہم آپ سے وعدہ کرتے ہیں کہ ہم پاکستان کے وفادار رہیں گے، اس کے چپے چپے کی حفاظت کریں گے۔

    آغا جان: ان شاء اللہ میرے بچو! تم پاکستان کے پاسبان ضرور بنو گے۔

    (بحوالہ: قرارداد پاکستان، تاریخ و تجزیہ : خواجہ رضی حیدر)

  • معیاری طرزِ تعلیم، انفرادی توجہ…… داخلے جاری ہیں

    معیاری طرزِ تعلیم، انفرادی توجہ…… داخلے جاری ہیں

    نصبُ العین یعنی اصلی مقصد، دلی منشاء اور اُصول۔ جی ہاں لُغت تو یہی بتاتی ہے اور لغت کو کیا پڑی ہے کہ وہ غلَط بیانی سے کام لے، سو ہم بھی نصبُ العین کے ان معنوں سے صد فی صد متفق ہیں۔
    یہ نصبُ العین ہی تو ہے جو اس وقت سے ہمارے ساتھ سفر کرتا ہے جب اس کے مفہوم سے ہماری آشنائی بھی نہیں ہوتی۔ بس بچپن کے معصوم خواب اور خواہشیں ہمرکاب ہوتی ہیں۔ اکثر بچّے نوعمری میں کسی سے بھی متأثر ہو کر اُس جیسا بننے کے آرزو مند ہوتے ہیں یا پھر کسی بھی پیشے اور شعبے سے اتنا زیادہ متأثر ہوجاتے ہیں کہ اسے ہی اپنا مستقبل بنانا چاہتے ہیں۔
    خوابوں اور خواہشوں کے اس سفر میں کام یابی سے ہم کنار ہونے کے لیے تعلیم بہت ضروری ہے اور حصولِ تعلیم کے لیے تعلیمی ادارے میں داخلہ لازمی امر ہے۔ داخلہ، جو کبھی باآسانی ہو جاتا ہے اور کبھی کارِ محال بن جاتا ہے۔
    بعض اسکولوں میں بچّوں کے داخلے کے لیے والدین کو بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ اتنے کہ اُنہیں دن میں تارے نظر آجاتے ہیں، چونکہ وہ اپنے بچوں کو حسبِ منشاء اسکول میں داخلہ دلانا چاہتے ہیں، اس لیے یہ کوہِ گراں سَر کرنے کی ہر ممکن کوشش کر لیتے ہیں۔ خواہ داخلے کے ابتدائی مرحلے سے داخلہ مکمل ہو جانے تک اُن پر کچھ بھی گزر جائے وہ خوش رہتے ہیں۔ بالآخر خواہش کی تکمیل کی فتح اُن کے حصّے میں آجاتی ہے اور جن کی کوشش ثمر بار نہیں ہوتی وہ دنوں ملول رہتے ہیں اور یہ دورانیہ کبھی کبھی بڑھ کر مہینوں اور برسوں تک محیط ہوجاتا ہے۔
    بچّوں کے اسکول میں داخلے کا پہلا مرحلہ داخلہ فارم کا حصول ہے جو کبھی کبھی بہت بڑامسئلہ بھی بن جاتا ہے۔ بعض اسکولوں میں محض فارم کے حصول کے لیے شب بھر اسکول کے باہر ہی ڈیرہ ڈالنا پڑتا ہے کیونکہ وہاں داخلہ فارم ”پہلے آئیے پہلے پائیے“ کی بنیاد پر تقسیم ہوتے ہیں اور یوں بھی ہوتا ہے کہ ایک ہی مقصد کے لیے جمع ہونے والے کبھی کبھی تقسیم کے اس عمل کے دوران باہمی تفریق کا شکار ہو جاتے ہیں۔ تعلقات کی ڈور کمزور اور رشتوں میں دراڑ پڑ جاتی ہے، ضرب کی تو گنجائش ہی نہیں بچتی۔ بیچارہ مقصد مضروب ہو کر بے بس اور تنہا رہ جاتا ہے کیونکہ اس افراتفری میں وہ پسِ پُشت چلا جاتا ہے۔ اب اگر کوئی طلوعِ آفتاب سے گھنٹوں محض اس لیے قطار میں کھڑا ہے کہ اپنا گوہرِ مقصود پا ئے گا اور جب انتظار کی گھڑیاں ختم ہوتی نظر آتی ہیں تو یکایک عقب سے ایک ہاتھ آگے بڑھتا ہے اور مطلوبہ فارم جھپٹ لیتا ہے۔ انتظار کی اذیت جھیلنے والے کے لیے یہ طرزِ عمل ایک دھچکا ہوتا ہے۔ نتیجتاً آپ جناب بھی تُو تراخ میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ سویرے سے جہاں پکنک کا سماں اور باہمی الفت و اپنائیت کا ماحول ہوتا ہے داخلہ فارم دیے جانے کا آغاز ہوتے ہی وہاں ہماہمی اور بے بسی کی عجب کیفیات دیکھی جاسکتی ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے گویا محشر برپا ہو جاتا ہے۔ اس تمام عرصے میں تہذیبی رویے، انسانی نفسیات، کردار و اخلاق کے جو مظاہر سامنے آتے ہیں وہ انسان شناسی میں بہت معاون ثابت ہوتے ہیں۔
    اُن والدین کی حالت واقعی قابلِ رحم ہوتی ہے جن سے طویل اور تکلیف دہ انتظار کے بعد کہا جاتا ہے کہ آپ کو فارم نہیں مل سکتا، کیونکہ آپ کے بچّے کی عمر پانچ دن کم ہے۔ ایسے میں وہ جس ذہنی اذیت اور کوفت میں مبتلا ہوتے ہیں آپ اسے سمجھ سکتے ہیں۔ اس اضطرابی کیفیت میں فشارِ خون بلند ہوتا ہے تو دل کی رفتار بھی زیر و زبر ہونے لگتی ہے۔ اب والدین کتنی ہی فریاد اور گریہ و زاری کرلیں اُن پر کان نہیں دھرے جاتے کہ اصول اصول ہوتا ہے۔ اس سے روگردانی ممکن نہیں لیکن ان ہی تشنہ کاموں میں سے کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے پاس سیرابی کا ایسا نسخۂ کیمیا ہے جس کی محض ایک خوراک بااصول ‘مریضوں’ کو ‘شفا یاب’ کر دیتی ہے۔ جی ہاں، بھاری بھرکم سفارش اور رشوت کے زور پر پارساؤں کی اصول شکنی تعجب خیز تو نہیں۔ تعلیمی ادارے نامور ہوں یا غیرمعروف وہاں داخلے قابلیت کے ساتھ سفارش اور اکثر ایک قسم کی رشوت کی بنیاد پر دیے جاتے ہیں۔ جن کی سفارش اور رشوت کا معیار اسکول مالکان کی حریصانہ خواہشات کی طرح بہت اعلیٰ ہوتا ہے اُن کے لیے داخلہ مسئلہ ہی نہیں ہوتا۔ لوگ اپنے بچّوں کو من پسند اسکول میں داخل کرانے کے لیے کسی نہ کسی طرح اسکول مالکان یا انتظامیہ کے مطالبات پورے کردیتے ہیں، خواہ اس کے لیے انہیں کچھ بھی کرنا پڑے۔ کیونکہ متعلقہ اسکول میں داخلہ اُن کے بچّے کا حق بنتا ہے۔ وہ تو یہی سمجھتے ہیں، کوئی سمجھے یا نہ سمجھے۔ اب اگر ان لوگوں کی وجہ سے اربابِ اختیار کے حوصلے بلند اور علم کی تجارت کو فروغ ملتا ہے تو ضرور ملے۔ بعض اسکولوں میں سال بھر، چھے ماہ یا تین ماہ قبل ہی رجسٹریشن کروانا پڑتا ہے جو مقررہ مدّت میں رجسٹریشن میں ناکام ہوجاتے ہیں، انہیں بھی سفارش اور رشوت کی لگام تھامنی پڑتی ہے، ورنہ گھوڑا بدک جائے تو کیا ہوتا ہے؟ بخوبی جانتے ہیں جب ہی تو سرِتسلیم خم کر لیتے ہیں۔
    اکثر مدارس میں داخلوں کی مدّت محدود ہوتی ہے۔ اس میں ایک دن کی تاخیر بھی گوارا نہیں ہوتی خواہ سفارش اور رشوت کتنی ہی بھاری کیوں نہ ہو۔ مالکان ہلکے نہیں پڑتے۔ اسکولوں کی ایک قسم ایسی بھی ہے جہاں سارا سال داخلے جاری رہتے ہیں اور والدین کو بھی….
    "جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے” کی دوڑ نہیں لگانی پڑتی، بس وہ تو اس نیک ہدایت پر عمل کرتے ہیں کہ
    "سبو اُٹھا کے پیالہ بھر، پیا لہ بھر کے دے اِدھر”
    اور پھر پیالہ و پیمانہ کیا پورا مے خانہ اُن کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ جی ہاں، جھٹ پٹ بچّے کا اسکول میں داخلہ بھی ہوگیا اور مزید بچّوں کی گنجائش جوں کی تُوں رہی (ہے نا کمال کی بات) اور والدین بھی آزاد۔ جب اور جس وقت جی چاہا بچّے کا داخلہ کروا دیا۔
    بڑے اور چھوٹے معروف اور غیر معروف اسکولوں میں بھی فرق ہے۔ بعض نام ور اور قد آور مدارس میں رشوت اور سفارش پر سخت بُرا منایا جاتا ہے، کیونکہ وہ اسے گناہ سمجھتے ہیں۔ ہاں امدادِ باہمی کے پروگرام پر عمل درآمد اور اِس ہاتھ لو، اُس ہاتھ دو کے مقولے پر عمل کرتے ہوئے داخلے کے لیے ڈونیشن لیتے ہیں۔ جیسے ہی مطلوبہ امداد اُن تک پہنچتی ہے بچّے کو داخلہ دے دیتے ہیں۔ یہ تو بڑے لوگوں کی بُری باتیں ہیں۔ ہاں غیر معروف اور چھوٹے اسکول والوں کی غیرت یہ گوارا نہیں کرتی کہ وہ والدین کی امداد پر ان کے بچّوں کو داخلہ دیں۔ اس لیے وہ اپنے اسکول میں داخلے کے لیے انعام کی پیشکش کرتے ہیں۔ یہاں اُلٹی گنگا بہتی ہے۔ اب گنگا اُلٹی بہے یا سیدھی، بہتی گنگا میں تو کوئی بھی ہاتھ دھو سکتا ہے۔ اور ضرورت مندوں کا تو حق بھی زیادہ بنتا ہے۔ بچّے تو بچّے بڑے بھی انعام کے لالچ میں دوڑے چلے آتے ہیں۔ ایسی ‘عاقلانہ’ سوچ کی ایک جھلک ملاحظہ کیجیے۔

    ======= گرامر سیکنڈری اسکول (رجسٹرڈ) ======

    ہمارا نصبُ العین………….معیارِ تعلیم پر گہری نظر

    داخلے جاری ہیں……..داخلے جاری ہیں

    معیار ہی نام ہمارا…….معیار ہی پہچان ہماری

    + پہلے پچاس داخلوں پر انعامات ہی انعامات

    + اسکول کورس، اسکول بیگ، اسکول شوز (جولائی اور اگست کی فیس معاف)

    + پوزیشن ہولڈر طلباء و طالبات ہمارے اسکول میں داخلہ حاصل کر کے 50% فیس میں کمی حاصل کر سکتے ہیں۔

    + سال بھر کی فیس یکمشت ادا کرنے پر ایک ماہ کی فیس معاف

    + بچّوں پر انفرادی و خصوصی توجہ

    لیڈیز ٹیچرز کی ضرورت ہے

    ‘لیڈیز’ ٹیچرز ملاحظہ فرمایا آپ نے؟ ایسے کئی اسکول ہم نے دیکھے ہیں جہاں کا نصابِ تعلیم بچّوں کی سمجھ سے تو بالاتر ہے ہی ماہر اور تجربہ کار اساتذہ کے ذہنِ رسا سے بھی خاصا دور ہے۔ اتنے فاصلے پر کہ اس پر ان کی گرفت مضبوط ہو ہی نہیں پا رہی۔ دیرپا گرفت تو پھر بعد کی بات ہے۔ معیارِ تعلیم کی اساس نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم پر رکھی جاتی ہے۔ سو جس اسکول کو اپنا معیارِ تعلیم جتنا بلند رکھنا ہوتا ہے، اسی کی مناسبت سے نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم پر توجہ دی جاتی ہے۔ مضحکہ خیز المیہ یہ ہے کہ ایسے تمام معیاری تعلیمی مدارس کے کرتا دھرتا اپنے بچّوں کو اُس معیار کی پہنچ سے بھی دور رکھتے ہیں جو اُن کا نصبُ العین ہے۔
    بچّوں کا اسکول میں داخلہ فی زمانہ اتنا بڑامسئلہ کیوں بن گیا ہے؟ والدین من پسند اسکول میں داخلے کے آرزو مند ہی کیوں ہوتے ہیں؟ تدریس اور مدرس سے بڑھ کر مدرسہ کی اہمیت کیوں ہے؟ اس کا سبب کہیں مقابلے کی دوڑ میں سبقت لے جانے کی خواہش تو نہیں یا معروف اسکول میں تعلیم دلوانے کو وہ بلند معیار زندگی کی ضمانت سمجھتے ہیں؟
    ایسے والدین بھی ہیں‌ جو عموماً اس ‘سعادت’ سے محروم رہتے ہیں اور اسکول داخلے کے لیے وہ معیارِ تعلیم کو جس کسوٹی پر پرکھتے ہیں وہ واقعی ارفع سوچ کی حامل ہوتی ہے، یعنی ایسا اسکول جس کا نصابِ تعلیم و نظام تعلیمِ اسلامی و قومی روایات سے بھی ہم آہنگ ہو اور جدید تقاضوں پر بھی پورا اترتا ہو۔ بیشک مشکل ترین کتب نہ ہوں جو اساتذہ سے بھی ہضم نہ ہوتی ہوں ایسی کتب ضرور ہوں جسے اساتذہ خود بھی سہولت سے پڑھ اور سمجھ لیں اور شاگردوں کو بھی آسانی سے پڑھا دیں اور بچّے اُس دل چسپی سے پڑھیں کہ اُن کے دل میں تعلیم کی امنگ اور علم کی لگن بڑھ جائے۔ اساتذہ خلوصِ نیت سے بچوں کو تعلیم دینے پر آمادہ ہوں اور اساتذہ اور طالب علموں کے مابین احترام و اعتماد کاجذبہ ہو۔ تب اس اسکول کے بہترین ہونے اور معیار پر کیا شبہ ہو گا؟
    والدین کو چاہیے کہ اسکول میں بچّوں کے داخلے کے لیے بھاگ دوڑ کرتے وقت اُن عوامل کو پیشِ‌ نظر رکھیں جو واقعی تعلیمی معیار کو بلند کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں اور اس ‘معیارِ تعلیم’ پر نظر رکھنے سے گریز کریں جس میں انعامات، فیس رعایت، ڈونیشن، سفارش جیسی ہر بھاری شے موجود ہو، لیکن معیارِ تعلیم اتنا ہلکا ہو کہ نصبُ العین کے رنگ بھی پھیکے پڑنے لگیں۔
  • ریٹائرڈ اساتذہ، چند معروضات

    ریٹائرڈ اساتذہ، چند معروضات

    صمد! شبیر صاحب یاد ہیں تمہیں؟

    شبیر صاحب؟ یاد کیسے نہیں۔ بھائی رؤف اُن کو بھول سکتے ہیں بھلا؟ اچھا پڑھاتے تھے لیکن اب تو سٹھیا گئے ہیں۔ اچھا ہی ہُوا ریٹائر ہو گئے۔“

    ہاں یہ تو ہے صمد! لیکن یار! اخلاق صاحب کی کیا بات ہے۔ ان کا علم بھی کمال کا ہے اور ریٹائرمنٹ کے دس برس بعد بھی مجھ سمیت کئی شاگرد آج تک ان کے علم سے فیض اُٹھا رہے ہیں۔“

    بے شک لیکن دلدار صاحب کی سبکدوشی کا مجھے بڑا ملال ہے۔ علم کا سمندر ہیں۔ چوراسی برس کی عمر میں بھی اُن کا جذبہ جوان ہے۔ مجھ جیسے کئی نئے اساتذہ اُن کے علم اور تجربے سے استفادہ کریں اس سے بڑھ کر ہماری خوش بختی اور کیا ہوگی؟ لیکن کاش ایسی کوئی سہولت ہو کہ ہم دلدار صاحب جیسے لائق اور مخلص استاد سے فیض اُٹھا سکیں۔“

    یہ مختصر حکایتیں تھیں سبکدوش ہوجانے والے اساتذہ کے متعلق جو ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔

    بلا شبہ یہ معاملات بھی بہت عجیب وغریب ہوتے ہیں۔ ہم نے تو ایسے اساتذہ بھی دیکھے ہیں جن کی ذہنی تھکن اُن کی طبعی عمر کو شکست دے دیتی ہے اور وہ تدریسی اُمور میں مصروف رہ کر خود کو بھی ہلکان کرتے ہیں اور اپنے شاگردوں کی بیزاری اور پریشانی میں بھی اضافہ بھی کرتے ہیں، مگر سب اساتذہ ایسے نہیں ہوتے۔ بلاشبہ ایک اچھا استاد اپنی ذات میں علمی و تہذیبی ادارہ ہوتا ہے، لیکن بدقسمتی سے اس مقام سے محروم ہے جو اس کا حق بنتا ہے۔ سبکدوشی کے بعد پنشن کی صورت اساتذہ کو معاشی تحفظ تو ضرور مل جاتا ہے لیکن اس کے لیے ان کو کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں یہ ایک الگ داستان ہے اور حد درجہ اذیت ناک ہے۔

    اساتذہ کے ساتھ ناانصافیاں بھی خوب ہوتی ہیں اور اُن کی اہمیت کو تسلیم بھی کیا جاتا ہے لیکن جب سے علم کے متوالوں کی بہ نسبت جہل کے رکھوالوں کی تعداد میں اضافہ ہُوا ہے، معاشی تحفظ تو بڑی بات ہے، ان اساتذہ کو جان کے لالے پڑ جاتے ہیں لیکن وہ خلوصِ نیّت اور اسی ذوق و شوق سے تدریسی عمل کو جاری رکھتے ہیں۔ ہمارا یہ اثاثہ بہر صورت محفوظ رہنا چاہیے مگر کس طرح؟ اس سوال کے ساتھ ہی ہمیں سبکدوش ہونے والے اساتذہ کا خیال آگیا جن کے وسیع تدریسی تجربے، علم اور اپنے مضمون پر دسترس نے اُن کی علمی استعداد کو مزید جلا بخشی ہے۔ ایسے میں وہ محض ایک اصول کی بنیاد پر سبکدوش کر دیے جاتے ہیں، جسے اُن کے ساتھ ہی نہیں اُن کے شاگردوں کے ساتھ بھی زیادتی کہا جاسکتا ہے، جو اُن سے فیض حاصل کرنا چاہتے ہیں اور استفادہ کررہے ہیں۔ اس صورت حال کے پیشِ نظر حکومت کو اپنے وضع کردہ اُصول میں نرمی کر کے اساتذہ کی سبکدوشی کی عمرمیں توسیع اور عمر کی حد متعین کرنے پر نہ صرف غور کرنا چاہیے بلکہ کچھ ایسے مستحسن عملی اقدامات بھی کرنے ضروری ہیں کہ اساتذہ تادیر علم کی ترسیل کامیابی سے جاری رکھیں اور نئے اساتذہ کی تربیت اور رہنمائی کا فریضہ بھی خوش اسلوبی سے سر انجام دیتے رہیں۔ وہ اساتذہ جو اپنے منصب کے صحیح حق دار اور اپنے پیشے سے مخلص ہوتے ہیں وہ اپنا علمی اثاثہ کس صورت محفوظ کر سکتے ہیں؟ اس سوال کے ساتھ ہی چند اور سوال بھی دستک دیتے ہیں کہ

    جب اساتذہ کا تجربہ اُنھیں کندن بنا دیتا ہے تب اُن کو سبکدوش کر دیا جاتا ہے، کیا یہ حکمتِ عملی درست ہے؟

    کیا کسی ایسے ادارے کا قیام ضروری ہے جہاں نئے آنے والے اساتذہ اپنی ذمہ داریوں‌ سے سبکدوش ہونے والے اساتذہ کے علم اور ان کے تدریسی تجربے سے استفادہ کرسکیں؟

    اس موضوع کے انتخاب کا بنیادی مقصد ریٹائر ہونے والے اساتذہ کے مسائل کی نشان دہی اور اُن کے حل کی جانب اربابِ اختیار کی توجہ مبذول کروانا ہے۔ وہ مسائل جن سے کبھی دانستہ، کبھی نادانستہ اور کبھی مجبوریوں کی طویل فہرست بنا کر صرفِ نظر کیا جاتا ہے۔ ایسے اساتذہ جو اپنے پیشے سے مخلص ہوتے ہیں اور اپنی عمرِ عزیز کا بڑا حصہ تدریس اور علمی سرگرمیوں میں صرف کر دیتے ہیں اُن کو وہ تمام مراعات حاصل ہونی چاہییں جو اُن کا حق بنتا ہے۔ جس طرح قلم کار زندگی کی آخری سانسوں تک اپنے منصب پر فائز رہتا ہے اسی طرح سبکدوشی کے باوجود اساتذہ کے علمی فیض کا چشمہ تاحیات بہتا رہتا ہے اور تشنگانِ علم سیراب ہوتے رہتے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کی عمر میں پہنچنے تک استاد کی علمی استعداد بڑھ جاتی ہے اور سالہا سال کے مسلسل تدریسی عمل کے سبب نہ صرف تجربے اور صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ اپنے مضمون میں لگن اور دل چسپی بھی بڑھ جاتی ہے۔ ریٹائرڈ اساتذہ کے ذوق و شوق کو دیکھتے ہوئے حکومت کو چند ایسے مستحسن اقدامات ضرو ر کرنے چاہییں جن کی بدولت سبکدوشی کے باوجود لائق اساتذہ پورے وقار اور اعزاز کے ساتھ فعال زندگی بسر کرسکیں اور ان روشن دماغوں سے مزید کئی اذہان روشن ہوسکیں۔

    تحریر:‌ شائستہ زرّیں

  • اور بی لومڑی سدھر گئیں!

    اور بی لومڑی سدھر گئیں!

    بندر میاں تو مشہور ہی اپنی نقالی اور شرارتوں کی وجہ سے تھے جس سے جنگل کے تمام جانور لطف اٹھا تے لیکن بی لومڑی کو اُن کی یہ حرکت سخت ناگوار گزرتی تھی، کیونکہ اکثر و بیشتر وہ بندر میاں کی شرارت کا نشانہ بنتی تھیں۔

    بات محض شرارت تک ہوتی تو کوئی بات نہ تھی، بندر میاں مذاق ہی مذاق میں بی لومڑی کی بے عزتی کر دیا کرتے تھے اور اپنی عزّت تو سبھی کو پیاری ہوتی ہے۔ بی لومڑی نے تہیہ کر لیا تھا کہ وہ بندر میاں سے اپنی بے عزّتی کا بدلہ ضرور لیں گی اور جلد ہی بی لومڑی کو موقع بھی مل گیا۔

    ہُوا یوں کہ بی لومڑی کو سخت بھوک لگ رہی تھی۔ انھوں نے چٹپٹی چاٹ بنائی جسے ندیدوں کی طرح جلدی جلدی کھا رہی تھیں، اپنی اُنگلیاں چاٹ چکیں تو پیالہ زبان سے چاٹنے لگیں۔ بندر میاں جو اتفاقاً وہاں آنکلے تھے، بڑے اشتیاق سے بی لومڑی کی ندیدی حرکتیں دیکھ رہے تھے اور وہ اس سے بے خبر مزے سے چٹخارے لیتی جا رہی تھیں اور کہتی جا رہی تھیں واہ مزہ آ گیا۔ کیا چا ٹ بنائی ہے میں نے، واہ بی لومڑی واہ۔“

    بندر میاں اُس وقت تو خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہے، لیکن کچھ ہی دیر بعد اُنہوں نے سارے جانوروں کو جمع کیا اور بی لومڑی کی وہ نقل اُتاری کہ ہنستے ہنستے سب کا بُرا حال ہو گیا۔ دل ہی دل میں بی لومڑی بھی بندر میاں کی فن کاری کا اعتراف کر رہی تھیں، لیکن بھرے مجمع میں اپنی بے عزّتی اُنھیں بہت کھل رہی تھی۔ بی لومڑی نے اپنی بے عزّتی کا بدلہ لینے کا پکا ارادہ کر لیا۔ اُن کی فطرت تھی جب تک انتقام نہ لے لیتیں اُن کو چین نہ پڑتا تھا۔ اور بالآخر وہ دن آہی گیا جب بی لومڑی نے بندر میاں سے اپنا بدلہ لے لیا۔

    اُس روز موسم سخت گرم تھا، دھوپ بھی بہت تیزتھی، بندر میاں گرمی سے نڈھال برگد کے سائے میں مزے سے سو رہے تھے۔ اُنھیں یوں بے خبر سوتا دیکھ کر بی لومڑی کو اپنا انتقام یادآ گیا۔ وہ دبے پاؤں بندر میاں کے نزدیک گئیں اور خار دار جھاڑی پہلے بندر میاں کے چہرے اور پھر کلائی پر زور سے مار کر پَل بھر میں‌ یہ جا، وہ جا۔

    بی لومڑی اپنی چالاکی کی وجہ سے مشہور تھیں، اب یہ سوچ کر وہ بہت خوش تھیں کہ میں نے اپنا کام کر دکھایا اور کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئی، لیکن یہ اُن کی بھول تھی، کیونکہ بی لومڑی کے ستائے ہوئے ریچھ ماما اور بطخ خالہ نے بی لومڑی کی یہ حرکت اپنی آنکھوں سے دیکھ لی تھی۔ اب وہ بندر میاں سے جن کا چہرہ اور کلائی بُری طرح زخمی ہوگئے تھے، اُن کی تکلیف کی شدت محسوس کر کے نہ صرف ہمدردی کر رہے تھے، بلکہ جنگل کے بادشاہ شیر سے بی لومڑی کی شکایت کر کے انصاف کی درخواست پر اصرار بھی کر رہے تھے۔ پہلے تو بندر میاں نے انکار کر دیا اور پھر بطخ خالہ کے احساس دلانے پر کہ یہ خاموشی کل بی لومڑی کو اوروں پر ظلم کرنے پر اُکسائے گی بندر میاں نے جنگل کے بادشاہ سے انصاف طلب کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

    بندرمیاں نے جب تمام ماجرا جنگل کے بادشاہ کو سُنایا تو اُنھوں نے فوراً تمام جانوروں کو دربار میں حاضری کا حکم دیا۔ تمام جانور بادشاہ کے دربارمیں حاضر ہو گئے۔

    بادشاہ سلامت انصاف کی کرسی پر بیٹھے تھے اور بندر میاں بی لومڑی کے ظلم کی داستان سُنا رہے تھے۔ ان کا زخمی چہرہ اور کلا ئی سے رِستا ہُوا خون بی لومڑی کے ظلم کی گواہی دے رہا تھا۔ بطخ خالہ اور ریچھ ماما نے بی لومڑی کے خلاف حلفیہ گواہی دی تھی۔ تمام جانور بی لومڑی کو لعنت ملامت کر رہے تھے۔ پہلے تو وہ انکار کرتی رہیں لیکن بندر میاں نے ثبوت پیش کر دیے۔ کوئی راہِ فرار نہ پا کر بالآخر بی لومڑی نے اقبالِ جرم کر ہی لیا۔

    جنگل کے بادشاہ شیر نے اپنی گرجدار آواز میں فیصلہ سُنایا کہ ایک ماہ تک جنگل کے تمام جانور بی لومڑی سے کوئی تعلق نہیں رکھیں گے اور شاہی دربار میں ہونے والے جشن میں بھی بی لومڑی شرکت نہیں کریں گی۔

    یہ فیصلہ سُنتے ہی بی لومڑی کے چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگیں۔ اُن کی آنکھیں بھر آئیں، جنگل کے اس سالانہ جشن کی تیاری تو وہ کئی ماہ پہلے سے کر رہی تھیں۔ بی لومڑی منہ بسورے، کبھی حسرت بھری نظروں سے اپنے ساتھیوں کو دیکھتیں جن کے ساتھ مل کر انھوں نے اس جشن کی تیاریاں کی تھیں اور کبھی بادشاہ سلامت پر التجا بھری نظر ڈالتیں۔ یہ منظر دیکھ کر بندر میاں نے اپنی تکلیف بھلا کر بی لومڑی کی نقل اُتاری۔ عادت سے مجبور جو تھے۔ پھر یہ عادت اُن کی پیدائشی بھی تو تھی۔ کیسے وہ اس سے چھٹکارا پاتے؟ تمام جانورہنس رہے تھے۔ بندر میاں کی بے ساختہ اداکاری پر شیر بادشا ہ بھی مسکرا دیے۔ اپنی بھد اڑتے دیکھ کر بی لومڑی شرمندہ بھی ہُوئیں اور اُداس بھی۔

    بندر میاں کو وقتی طور پر غصہ تو آگیا تھا لیکن اب اُنھیں افسوس ہو رہا تھا کیونکہ بی لومڑی کی کافی بے عزتی ہو چُکی تھی۔ خود بندر میاں کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہو رہا تھا کہ ایسی شرارت یا مذاق نہیں کرنا چاہیے جس سے کسی کی عزّت خراب ہو یا کسی کی دل آزاری ہو۔ فطرتاً بندر میاں بہت رحم دل تھے۔ اُنھوں نے بادشاہ سے بی لومڑی کے لیے معافی کی درخواست کی تو اُن کی سفارش پر لومڑی کی سزا ختم کر دی گئی۔

    بندر میاں کی رحم دلی اور درگزر سے کام لینے کا بی لومڑی پر ایسا اثر ہُوا کہ اُس دن کے بعد سے انھوں نے کبھی بندر میاں کو کیا کسی کو بھی اپنی چالاکی سے نقصان نہیں پہنچایا۔ بی لومڑی نے بندر میاں سے معافی بھی مانگ لی تھی۔ اب انھوں نے انتقام سے ہاتھ کھینچ لیا تھا۔ دوسروں کو معاف کرنے اور درگزر سے کام لینے کا سبق بی لومڑی نے بندر میاں سے سیکھا تھا۔

    (شائستہ زرّیں کے قلم سے بچّوں کے لیے ایک سبق آموز کہانی)

  • دل کی بھڑاس نکلے ‘واٹس ایپ’ پر!

    دل کی بھڑاس نکلے ‘واٹس ایپ’ پر!

    فسادی مزاج لوگوں کے جھگڑے کے اپنے اپنے انداز ہیں۔ کوئی رُو بہ رُو، دُو بہ دُو اور تُو تڑاخ کر کے تسکین پاتا ہے تو کوئی غائبانہ فساد ڈالنے میں مہارت رکھتا ہے۔

    زمانے کے ارتقا کے ساتھ ساتھ لوگوں کی سوچ اور رویوں میں بھی تبدیلی رونما ہو گئی۔ وہ جو کبھی ”گھر کی بات گھر میں رہے“ کے آرزومند ہُوا کرتے تھے اب دل کی بات بھی دل میں نہیں رکھ پاتے۔ یوں گھر کی بات گھر گھر پھیلتی ہے۔

    آج دنیا بھر میں‌ سماجی رابطے کا سب سے بڑا اور مقبول ذریعہ واٹس ایپ ہے جس کا اس حوالے سے فعال کردار نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جب سے واٹس ایپ پر فیملی گروپ کا رواج پڑا اور بڑھا ہے، انفرادی اور خاندانی جھگڑے یہیں نمٹائے جارہے ہیں۔ حتیٰ کہ ایک ہی گھر کے مکینوں کو اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے یہی فیملی گروپ مؤثر اور کارآمد معلوم ہوتے ہیں۔

    ہم نے اہتمام کیا کہ خیر النساء کے ”برسوں کے تجربات“، اُن کی بڑی بہو تابندہ کے”صبح تڑکے دل لگتی باتیں“ چھوٹی بہو فراست کے ”آج کی سوغات“ اور خیر النساء کے بھائی نصیر کے”امن کی پُکار“ نامی گروپوں کے اسٹیٹس پر لگائی جانے والی گفتگو آپ کی نذر کریں۔

    ٭تابندہ٭ ”صبح تڑکے دل لگتی باتیں“: محبت کیجیے، محبت بانٹیے، محبت پائیے۔

    ٭فراست٭ ”آج کی سوغات‘‘: محبت کی تقسیم پر اپنے پرائے سب کا یکساں حق ہے۔

    ٭خیرالنساء٭ ”برسوں کے تجربات“: اتفاق میں برکت ہے۔

    لیکن پھر ہُوا یوں کہ تابندہ کے اسٹیٹس ”صبح سویرے دل پہ بیتی باتیں“ کے عنوان سے لگنے لگے۔ اب تابندہ دل کو چُھو لینے والے پیغامات کے بجائے دل پر بیتنے والی باتیں پیغامات کی صورت شیئر کر رہی تھیں، وہ بھی ایسے جو پڑھنے والوں کو چونکا دیتے تو فراست کے دل میں کانٹے بن کر چبھتے۔ کیونکہ وہ خوب جانتی تھیں کہ یہ پیغامات کس کے لیے ہیں لیکن چپ رہتیں۔ آخر کب تک؟ ایک دن تابندہ کا اسٹیٹس پڑھ کر فراست نے اپنی خاموشی توڑی اور ”نہلے پہ دہلا“ کے عنوان سے اسٹیٹس لگانے شروع کر دیے۔ ان بے لاگ اسٹیٹس کی وجہ سے دیورانی جیٹھانی میں بُری طرح ٹھن گئی۔ تابندہ کے سیر پر سوا سیر کا بٹہ مارنا فراست نے اپنا معمول بنا لیا۔

    ٭تابندہ٭ کوا چلا ہنس کی چال اپنی چال بھی بھول گیا۔

    ٭فراست٭ معلوم نہیں کیوں لوگوں کو اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا۔

    ٭تابندہ٭ سو باتوں کی ایک بات۔ کھاؤ من بھاتا پہنو جگ بھاتا۔

    فراست٭ کمی نہیں ایسے لوگوں کی جو من بھاتا کھاتے ہیں سو کھاتے ہیں، مانگا تانگا بھی کھانے سے نہیں ہچکچاتے۔

    ٭تابندہ٭ تجھ کو پڑائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تُو۔

    فراست٭ آدھا تیتر، آدھا بٹیر، ہنسی روکوں تو کیسے روکوں۔

    ٭تابندہ٭ ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کردے

    ٭فراست٭ منہ اچھا نہ ہو نہ سہی۔ منہ سے نکلے بھلی بات کوئی

    ٭خیرالنساء٭ ”برسوں کے تجربات“: درگزر سے کام لو، دل صاف کرو، مل کر رہو، خوش رہو، لوگوں کے لیے مثال بنو۔

    ٭تابندہ٭ بات ہے پتے کی

    ٭فراست٭ عمل کی نوبت آئے تب۔ ورنہ؟

    ٭خیرالنساء٭ وہ نوبت بجے گی کہ دنیا دیکھے گی۔

    ٭فراست٭ دل میں چھپا ارمان تو یہی ہے لوگوں کے۔

    ٭خیرالنساء٭ کھانا پکائیں، اُبلا سُبلا اُبالا سُبالا، باتیں بگھاریں لذّت بھری۔

    اپنی ساس کے اسٹیٹس کے جواب میں فراست نے ”زندگی عذاب ٹرانسمیشن“ کے عنوان سے ساس کے برہمی کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے بیان جاری کیا۔

    ٭فراست٭ صبح ناشتہ مع طعنہ۔ ظہرانہ دل جلانا۔ ہائے ہائے اور عصرانہ جاری ہُوا شکایت نامہ سنگ عشائیہ۔

    فراست کے اسٹیٹس نے تابندہ کے دل میں گلاب کھلا دیے۔ دیورانی سے شدید اختلافات کے باوجود فوری دل، ستارے اور پھول بھیج کر بھر پور داد دی، اس بیان کے ساتھ کہ بہو وہی اچھی جو ساس نامی بھڑ کے جتھے کو نہ چھیڑے ورنہ…..؟

    ٭فراست٭ انجام کی ذمہ دار آپ خود ہوں گی کیونکہ اس بھڑ کے جتھے میں ساس کی بد ذاتی کیفیات ذاتی رویوں کے ساتھ آپ کو ہلا کر رکھ دیں گی۔

    بہوؤں کے کاری واروں نے خیرالنساء کو اسٹیٹس کے نئے عنوان ”ساس کی للکار“ کے ہمراہ آنے پر مجبور کر دیا۔

    ٭خیرالنساء٭ طعنے بہوؤں کے سنوں اور کچھ بھی نہ کہوں
    ائی بہوؤں میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں

    ٭فراست٭ نہ، نہ، نہ خاموش؟ ہر گز نہیں۔ خاموش رہ کر سینے پر مونگ دلنے سے بہتر ہے کہ بول کر بھڑاس نکال لی جائے۔

    ٭تابندہ٭ سکوتِ شہرِ سخن میں وہ آگ سا لہجہ
    سماعتوں کی فضا نار نار کر دے گا

    ٭خیرالنساء٭ با ادب با نصیب، بے ادب بے نصیب۔
    ٭فراست٭ عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
    یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

    ٭تابندہ٭ دن بھر دل جلاتے رہنے والے تہذیب کے دیے جلاتے بھلے نہیں لگتے۔

    ٭خیرالنساء٭ اولاد کی پہلی تربیت گاہ ماں کی گود ہوتی ہے۔

    ٭فراست٭ اور بہو کی ساس بنتے ہی ماں اس تربیت گاہ کے پرخچے اُڑا دیتی ہے اور اولاد کو تتر بتر کر دیتی ہے۔

    ٭تابندہ٭ بڑے جب چھوٹوں سے بڑھ کر چھوٹے بن جائیں تب ایسا ہی ہوتا ہے۔

    ٭خیرالنساء٭ جس کا جتنا ظرف ہے اُتنا ہی وہ خاموش ہے۔

    ٭فراست٭ دریا میں کنکر مارنے والے کریں سمندر کے سکوت کا تذکرہ۔ واہ بھئی

    ٭تابندہ٭ بیٹا اگر محبت سے شریکِ حیات کو تحفہ دے تو خوشی کا اظہار کرنا چاہیے نہ کہ آگ بگولہ ہوں۔

    ٭فراست٭ داماد بیٹی کو تحفہ دے تو نگاہوں تک سے بیٹی کی آرتی اُتار لی جاتی ہے اور………

    ٭تابندہ٭ خالی جگہ پُر کریں۔

    ٭فراست٭ بیٹا بہو کو مسکرا کر بھی دیکھ لے تو لفظوں کے تیروں سے بہو کا کلیجہ چھلنی کر دیں۔

    ٭خیرالنساء٭ جلنے والے اپنی ہی آگ میں بھسم ہو جاتے ہیں۔

    ٭تابندہ٭ لے ساس بھی شائستہ کہ ظالم ہے بہت کام
    آفات کی اس پُڑیا کی تیشہ گری کا

    ٭فراست٭ چار دن ساس کے تو چار دن بہو کے۔

    جب اسٹیٹس کی جنگ کے شعلے زیادہ شدت سے بلند ہونے لگے تو خیرالنساء کے ہر دلعزیز اور صلح جُو بھائی نصیر کا اسٹیٹس ”امن کی پکار“کے نام سے آگیا۔

    ٭نصیر٭ نہ وہ بہوؤں میں لحاظ رہا
    نہ شرم ہے ساس کی زبان میں
    اپنی عزت اپنے ہی ہاتھوں اُچھالنے والوں کو اب سنبھل جانا چاہیے۔

    ٭فراست٭ نیک قدم بڑے اُٹھائیں گے تو چھوٹے وہی راہ اختیار کریں گے۔

    ٭تابندہ٭ لیکن جب بڑے بچوں کو بھی مات دے دیں تب یہ ناممکن ہے۔

    ٭خیرالنساء٭ شعلوں کو ہوا دینے والے کیسے آگ بجھا سکتے ہیں؟

    ٭نصیر٭ ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں

    ٭فراست٭ ستائش بیٹیوں کے لیے اور آزمائش بہوؤں کے لیے ہو تو صبر کا پیمانہ لبریز ہو ہی جاتا ہے۔

    ٭تابندہ٭ اور جب چھلکتا ہے تو کیسا ادب؟ کیسی محبت؟

    ٭خیرالنساء٭ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔

    ٭نصیر٭ جتنا بات کو بڑھائیں بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔

    ٭تابندہ٭ بعض لوگوں پر اپنے نام کا اثر ہی نہیں ہوتا۔

    ٭فراست٭ ہو بھی کیسے جب دل میں شر کے شرارے اور دماغ میں بدی کا طوفا ن اُٹھ رہا ہو۔

    ٭خیرالنساء٭ خیر و شر کی جنگ میں فتح ہمیشہ خیر کی ہوتی ہے۔

    ٭نصیر٭ معافی سے بڑا انتقام اور کوئی نہیں۔

    ٭خیرالنساء٭ بڑوں ہی کو دل بڑا کرنا پڑتا ہے۔

    ٭تابندہ٭ جب بڑے آغاز کریں تو چھوٹے بھی پیچھے ہٹنے والے نہیں۔

    ٭فراست٭ اور چھوٹوں کا کام ہی بڑوں کی تقلید ہے۔ جیسا بوئیں گے ویسا ہی کاٹیں گے۔

    ٭نصیر٭ بقول رابرٹ بینلن ”محبت تب ہوتی ہے جب کسی کی خوشی آپ کی خوشی کے لیے لازمی شرط ہو۔“

    ٭خیرالنساء٭ محبت میں اخلاص اور دوستی بھی شامل ہو تو محبت کا حسن بڑھ جاتا ہے۔ اور میں اسی احساس کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھاتی ہوں۔

    ٭تابندہ٭ اگر ایسا ہے تو آج ہی سے ”ساس ہے میری سہیلی۔“

    ٭فراست٭ دوستی ایسا ناتا جو سونے سے بھی مہنگا۔

    ٭نصیر٭ محبت کے دیے جلا لو، وفا کے گیت گنگنا لو تقاضہ ہے یہ زندگی کا۔

    ٭خیرالنساء٭ مسکراتا رہے آشیانہ۔

    (کثیرالاشاعت روزناموں میں شائستہ زریں کی مفید اور بامقصد تحریریں، افسانے اور سروے رپورٹیں‌ شایع ہوتی رہتی ہیں، انھوں نے ریڈیو کے لیے سنجیدہ اور شگفتہ تحریروں کے ساتھ کئی فیچر اسٹوریز بھی لکھی ہیں)

  • شادی ہو گی تو خاندان میں!

    شادی ہو گی تو خاندان میں!

    عمران کی والدہ بیگم عرفان نے حنا کو اُس کے ایم ڈی کے بیٹے کے ولیمے میں دیکھا۔ حنا کے شخصی وقار، وضع داری، خوش اخلاقی، سادگی اور تہذیبی رویے نے اُن کا دل موہ لیا۔ اس قدر کہ پہلی ہی ملاقات میں حنا کو اپنی بہو بنانے کا فیصلہ کر لیا، اور دوسرے ہی دن حنا کے گھر اپنے بیٹے کا رشتہ لے کر چلی گئیں۔

    حنا کے لیے اُس کے کولیگ عمران کا رشتہ آنا ہی غضب ہو گیا۔ بیگم عرفان بہت آس لگا کر گئی تھیں کہ ہاں میں جواب لے کر لوٹیں گی۔ لیکن حنا کی دادی نے صاف انکار کر دیا کہ ”ہمارے خاندان کا رواج نہیں بیٹی باہر بیاہنے کا۔“

    بیگم عرفان سلجھی ہوئی طبیعت کی مالک اور بہت رکھ رکھاؤ والی خاتون تھیں۔اپنے طور پر اُنہوں نے قائل کرنے کی بہت کوشش کی لیکن حنا کی دادی نے نہ صرف سختی سے انکار کردیا بلکہ حنا کو ملازمت سے روکتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا کہ ”معلوم ہوتا کہ یہ اپنا بَر تلاش کرنے کے لیے نوکری کرے گی تو کبھی اس کے باپ سے اجازت سے سفارش نہ کرتی اس نوکری کی۔“ یہ فرمان سن کر بیگم عرفان دم بخود رہ گئیں۔ ایسی بے اعتباری؟ معصوم حنا تو بغیر جرم کیے معتوب قرار پائی تھی۔

    بیگم عرفان نے کہا بھی، ”حنا میری یہاں آمد سے قطعاً لا علم ہے۔ بس کل احتشام صاحب کے گھر کی تقریب میں یہ میرے دل کو کچھ ایسی بھائی کہ پل کی پل میں اپنی بہو بنانے کا فیصلہ کر لیا اور رشتہ لے کر چلی آئی۔“ لیکن کوئی بھی بیگم عرفان کی بات سننے اور ماننے کو تیار ہی تھا۔ وہ نامراد اپنے گھر لوٹ گئیں۔

    حنا اگر دادی کے عتاب کا نشانہ بن رہی تھی تو اُس کی امی بھی خراب تربیت کے طعنے سُن رہی تھیں۔ یہی نہیں حنا کی دادی نے فون کر کے اپنی بڑی بیٹی صادقہ بیگم کو ساری داستان سنا دی۔ وہ تو پہلے ہی حنا سے بہت خار کھاتی تھیں کہ صورت اور ذہانت میں حنا اُن کی بیٹیوں سے بڑھ کر تھی۔ رہی بات سیرت کی تو اس میں بھی حنا کا پلڑا بھاری تھا۔ اپنی بیٹی کی ہم عمر حنا کی تعریفیں سُن کر صادقہ بیگم کے سینے پر سانپ لوٹ جاتے تھے۔ اب اُنہیں اس لڑکی کو نیچا دکھانے کا موقع مل گیا۔ ماں کی سنائی داستان میں رنگ آمیزی کر کے صادقہ بیگم نے اسے عام کرنا شروع کر دیا۔

    نکلی ہونٹوں، چڑھی کوٹھوں کے مصداق اگلے ہی دن خاندان بھر میں یہ بات پھیل گئی کہ حنا کی خواہش پر غیر خاندان کی عورت اپنے بیٹے کا رشتہ اُس کے لیے لائی تھی لیکن اماں نے سختی سے انکار کر دیا۔ جس پر حنا نے خوب شور مچایا۔“

    اگلے دن حنا کی دادی پھپیوں، امی، ابو اور خاندان کے دو تین بزرگوں کی موجودگی میں ایک اجلاس ہُوا۔ دور دور تک نظر دوڑائی گئی لیکن خاندان بھر میں حنا کے جوڑ کا کوئی نظر نہ آیا۔ تب ازراہِ عنایت صادقہ بیگم نے اپنے تایا زاد اور جیٹھ نورُ الدّین کا رشتہ پیش کر دیا جو بقول اُن کے نہایت مناسب رشتہ تھا۔ نورُ الدّین صاحب کو حنا کمسنی سے ہی تایا ابّا کہ کر مخاطب کرتی تھی۔ نور الدّین چار بیٹیوں اور پانچ بیٹوں کو بیاہ چکے تھے۔ اُن کے سارے بچّے بیرونِ ملک مقیم تھے اور ہزار گز کا بنگلہ اُنہیں کاٹ کھانے کو دوڑتا تھا۔ ایسے میں صادقہ بیگم نے حنا سے شادی کی پیشکش کی۔ لمحہ بھر کو تو وہ ہکا بکا رہ گئے۔ لیکن صادقہ بیگم کے اصرار پر تو اُن کی باچھیں کھل گئیں۔ گویا اُن کی لاٹری نکل آئی ہو۔

    ادھر حاجرہ بیگم نے بیٹے کو کچھ ایسے خدشات سے خوفزدہ کر دیا کہ وہ بھی ماں اور بہن کے حمایتی بن گئے۔ یوں آناً فاناً نورُ الدّین کا رشتہ منظور کر لیا گیا۔ حنا حیران تھی کہ بن کہے، حنا کے دل کی بات جان لینے والی ماں نے اُس کی خاموش نگاہوں کے پیغام کو نظر انداز کر دیا تھا، جو چُپ کی زبان میں نوحہ کناں تھیں۔

    ماں کا یہ طرزِ عمل دیکھ کر حنا نے چپ سادھ لی۔ ورنہ اُسے یقین تھا کہ اور کوئی بولے یا نہ بولے امّی ضرور میرے حق میں نہ صرف بولیں گی بلکہ اپنے مؤقف پر ڈٹ جائیں گی۔ لیکن وہ تو چپ کی چادر تانے اُس کی شادی کی تیاریوں میں مصروف تھیں اور پھر ٹھیک ایک ہفتے بعد ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی رواجوں کی سولی پر چڑھ کر باطن کی موت مر گئی۔

    خوب دھوم دھام سے شہنائیوں کی گونج میں حنا دلہن بن کر اُس آنگن میں آگئی جہاں وہ بچپن میں آتی تو اس کی معصوم شرارتوں پر ہنستے ہوئے نورُالدّین کہتے”ہماری بیٹی بہت پیاری ہے، اللہ نصیب اچھے کرے۔ بھئی میں‌ تو اس کو اپنے راشد کی دلہن بناؤں گا۔“ لیکن راشد کو تو صادقہ چچی نے ایسا قابو کیا کہ وہ اُن کی بد مزاج عارفہ کو اپنانے کی ضد کر بیٹھے اور بالآخر اس کو بیاہ کر اپنے ساتھ کنیڈا لے گئے۔ اور حنا کے نصیب کہ اپنی بہو بنانے کے آرزومند نورُ الدّین اس کو اپنی دلہن بنا کر لے آئے۔ صادقہ پھپو کی پاٹ دار آواز نے حنا کو ماضی سے حال میں لا کھڑا کیا۔ وہ حنا کو اُس کی خوش بختی کی نوید سنا رہی تھیں کہ ”ایک ہزار گز کے بنگلے پر راج کرے گی ہماری بیٹی۔“ حنا اپنی بے بسی پر رونے کے بجائے دل ہی دل میں ہنس دی۔ ”اپنی عزتِ نفس تاراج ہونے پر بھی کوئی راج کرتا ہے بھلا؟“ اُدھر پھپو کا بیانِ عالمانہ جاری تھا کہ ”بھائی جان! ہماری بیٹی کو کبھی شکایت کا موقع نہیں دیجیے گا۔ اُس کے عیش میں کبھی کوئی کمی نہیں آنی چاہیے۔ ہم نے اپنی پھول سی بیٹی آپ کے حوالے کی ہے، اب یہ آپ کی ذمہ داری ہے۔“

    ”فکر نہ کرو صادقہ یہ لو ابھی تمہارے سامنے اس گھر کی ساری چابیاں حنا کے حوالے کرتا ہوں۔ “ یہ سن کر صادقہ پھپھو گھبرا کر جلدی سے بولیں ”ارے نہیں بھائی جان! یہ کیا کر رہے ہیں۔ ابھی یہ اتنی سمجھدار کہاں ہے، سارے تالے چابیاں اپنے پاس ہی رکھیے۔ خیر سے آپ کے بچّوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔“ یہ سن کر نورُ الدّین نے حنا کی ہتھیلی پر رکھی چابیاں اُٹھائیں اور واپس اس کی جگہ پر رکھ دیں۔ تب صادقہ پھپو نہال ہو گئیں۔

    حنا خود کو اس نئے بندھن کے لیے ذہنی طور پر تیار کر رہی تھی۔ سفاک ہی سہی لیکن یہ بہت بڑی حقیقت تھی کہ اب نورُ الدّین اُس کے تایا ابّا نہیں شوہر تھے اور بقول صادقہ پھپو اُن کی تابعداری حنا پر فرض تھی۔ سو حنا نے بھی اپنے فرائض نباہے اور خوب نباہے۔ اگلے ہی دن نورُ الدّین کی چاروں بیٹیوں سے فون پر بات کی۔ وہ بیٹیاں جنہیں حنا بالترتیب بڑی آپا، منجھلی آپا، چھوٹی آپا اور باجی کہتی تھی۔ اب اُن سے مادرانہ شفقت سے بات کرنا اُس کی ذمہ داری تھی۔ حنا نے اپنی سوتیلی بیٹیوں کو ملول پایا۔ کوئی بھی خوش نہ تھی، کتنا ارمان تھا اُن چاروں کو حنا کو اپنی بھابھی بنانے کا لیکن ہر بھائی کی دفعہ صادقہ چچی نے اپنی بیٹی، بھانجی، بھتیجیوں اور ایک نواسی کو پیش کر دیا۔ چاروں بہنیں دل مسوس کر رہ گئیں کہ ابّا کبھی اپنی لاڈلی بھاوج کی بات رد نہیں کرتے تھے۔ معلوم نہیں ابّا کو اُن کا خوشامدی لہجہ بھاتا تھا یا پھر وہ صادقہ چچی کو بہت دور اندیش سمجھتے تھے۔

    بڑی آپا نے حنا کے دکھ کو بہت توانائی سے محسوس کیا اور کیوں نہ کرتیں وہ اُن سے پورے بیس برس چھوٹی تھی۔ حنا سے بات کر کے وہ بہت اُداس تھیں۔ یہ پیاری سی بچی اب اُس کی ماں تھی۔ سوتیلی ہی سہی، کہلائیں گی تو وہ اب حنا کی بیٹی۔

    حنا نے حالات سے سمجھوتہ کر لیا تھا، میکے بھی بہت کم جاتی تھی۔ اُس کو اپنی ماں سے بہت گِلے تھے۔ وہ اُس پر محبت نچھاور کرتیں تو اس کا دل بین کرنے لگتا۔ اس کی فریادی آنکھیں ماں سے سوال کرتیں، ”اب کیوں امّی؟ جب وقت تھا تو آپ کی محبّت کہاں جا سوئی تھی؟ جب مجھے آپ کی ضرورت سب سے زیادہ تھی تب آپ مجھے نظر انداز کر رہی تھیں تو پھر اب کیوں؟“ اور ماں! جو کہے بغیر اولاد کے دل کی بات جان لیتی ہے کل کی طرح آج بھی چپ کی مہر لگائے اس شعر کی تفسیر بنی نظر آتی کہ
    یہ ہم ہی ہیں جو تیرا درد چھپا کر دل میں
    کام دنیا کے بدستور کیے جاتے ہیں

    کئی ہفتوں سے حنا میکے نہیں گئی تھی۔ کوئی دو ماہ بعد اپنے شوہر کے ساتھ حنا نے ایک شادی کی تقریب میں شرکت کی۔ وہاں اپنی امی کو دیکھ کر اُس کا دل دکھ سے بھر گیا۔ کیسا شاداب چہرہ مرجھا کر رہ گیا تھا۔ نور الدّین ساس سسر کو دیکھ کر آگے بڑھے۔ حنا کے سلام کے جواب میں ابو نے بہت ساری دعائیں دیں تو سُن کر وہ ہنس دی۔ عجب بے بس سی ہنسی تھی کہ پہلی بار وہ خود کو اپنی بیٹی کا مجرم سمجھ رہے تھے۔ ابو کو وہاں اپنے کولیگ نظر آئے تو وہ اُن کی پکار پر وہاں چلے گئے اور حنا نہ چاہتے ہوئے بھی نورُ الدّین کے ساتھ آگے بڑھ گئی۔ اتنی دیر میں بیگم عرفان بھی عرفان صاحب کے ساتھ آگئیں۔ اُن کی نظر حنا کی امی پر پڑی تو وہ اُن سے ملنے چلی آئیں۔ حنا کی امی اُن سے بہت محبت سے ملیں۔ اچانک بات کرتے کرتے اپنے شوہر کے ساتھ آتی حنا پر بیگم عرفان کی نظر پڑی تو اُن پر تو گویا سکتہ سا طاری ہو گیا۔ اپنی بات ادھوری چھوڑ کر وہ تأسف بھری نظروں سے حنا کو دیکھ رہی تھیں۔ کافی دیر تک تو وہ کچھ بول ہی نہ سکیں۔ حنا کی نظر اُن پر پڑی تو اُس نے بیگم عرفان کو سلام کیا۔ اُنہوں نے اشارے سے حنا کو اپنے پاس بلایا۔ اُس کی خیریت دریافت کر کے اُنہوں نے حنا کی امی سے شکوہ کیا ”میرے عمران میں کیا کمی تھی؟ کون سی برائی تھی؟ عمر میں بھی زیادہ فرق نہیں، کیسا سجتے دونوں ایک دوسرے کے ساتھ۔ ہیرا مٹی میں رُل گیا۔“

    تب حنا کے امی کی چپ کی مہر بھی ٹوٹ گئی اور وہ تلخی سے بولیں،”بہت بڑی کمی اور بُرائی تھی عمران میں۔ وہ غیر خاندان کا تھا۔“

    ”ماشاء اللہ باشعور خاتون ہیں، کیسی باتیں کر رہی ہیں اور سب سے بڑھ کر آپ ماں ہیں بہن! پھر آپ نے کیوں ظلم ڈھانے دیا اپنی بیٹی پر۔“

    ”اگر اس وقت میں اپنی لاڈلی بیٹی پر ظلم نہ ڈھاتی تو وہ حشر برپا ہوتا جو آپ سوچ بھی نہیں سکتیں۔“ حنا کی امی کہتے کہتے رو دیں۔

    ”اچھا! آپ بتائیے تو سہی کیا بات تھی، پھر میں سوچ بھی لوں گی۔ “ بیگم عرفان نے اُن کے ہاتھ تھام لیے۔

    ”میری چھوٹی بیٹی اپنی منجھلی پھپو کے بیٹے کی منکوحہ ہے۔ میرے انکار کی صورت میں بغیر رخصتی کے طلاق کا پروانہ اُس کے ہاتھوں میں تھما دیا جاتا۔میری منجھلی بیٹی اپنی چھوٹی پھپو کے دیور سے منسوب ہے۔ اُس کی منگنی ٹوٹنے کی دھمکی بھی دی گئی تھی اور رہ گئی حنا تو اُسے جینے کا کوئی حق نہیں تھا کہ اُس کے لیے غیر خاندان سے رشتہ آیا تھا، وہ بھی اُس کے ساتھ دفتر میں‌ کام کرنے والے لڑکے کا۔ بیگم عرفان چپ چاپ اُن کی شکل تکے گئیں اور جب بولیں تو بس اتنا ”یقین نہیں آرہا، آج کے ترقی یافتہ دور کے ایک پڑھے لکھے گھرانے میں بھی ایسی باتیں ہو سکتی ہیں۔“

    ”ہو سکتی نہیں، ہوتی ہیں مسز عرفان۔ اُن گھرانوں میں جہاں رسم و رواج کو خواہ وہ کتنے ہی فرسودہ کیوں نہ ہوں اپنی عزّت بنا لیا جاتا ہے۔ پھر اس کی سربلندی کی خاطر خواہ کوئی جیتے جی مر جائے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمارے گھرانے میں خاندان میں شادی کرنے کو اعزاز سمجھا جاتا ہے، چاہے اس ظلم کے نتیجے میں کوئی عمر بھر آزار میں مبتلا رہے جیسا کہ میری حنا ہے۔“

    حنا اپنی امی کے گلے لگی چپ چاپ آنسو بہا رہی تھی۔ آج ماں سے ہر گلہ ختم ہو گیا تھا۔ اور بیگم عرفان سوچ رہی تھیں خاندان میں بیٹی بیاہنے کا اصرار کرنے والوں نے کبھی سوچا ہی نہیں کہ حنا کے ساتھ اس سے تیس سال بڑی عمر کے شوہر کو دیکھ کر لوگ کیا کہیں گے؟

  • چھوٹی آخر کھوٹی کیوں ہے؟

    چھوٹی آخر کھوٹی کیوں ہے؟

    برتن گرنے کے شور کے ساتھ ہی بیگم شاہنواز کی پاٹ دار آواز گونجی ”ہائے آج پھر نقصان کر ڈالا بد بخت نے، بھیا خاص میرے لیے لائے تھے جاپان سے، کتنا نازک اور نفیس سیٹ تھا۔ مسز امیر علی تو اسے دیکھ کر انگاروں پر لوٹتی تھیں۔ دیکھوں تو جا کر کیا ٹوٹا اور کیا بچا؟“

    بیگم شاہنواز نے چھوٹی کے بال نوچے تو وہ تڑپ اٹھی۔ ”میم صاحب! قسم سے میں نے جان کر نہیں توڑے، میرے ہاتھوں سے گر گئے۔

    ”واہ واہ ہماری چھوٹی مہارانی پر تو کپکپی چڑھ گئی، اری منحوس ابھی تو میں نے کچھ کہا بھی نہیں۔ چھید ہیں ہاتھوں میں، جو چیز پکڑتی ہے اِن سوراخوں سے چھن کر نکل جاتی ہے اور میری شکل کیا تک رہی ہے؟ منحوس لا کر دے مجھے اپنی تواضع کا سامان۔ ”نہیں نہیں میم صاحب، رحم کریں میں کان پکڑتی ہوں، اٹھک بیٹھک کر لوں گی۔ مجھے نہ ماریں۔ چھوٹی سسک اُٹھی۔“

    بیگم شاہنواز نے چھوٹی کو ڈنڈے سے پیٹنا شروع کر دیا۔ ”میم صاحب بس کریں، ہاتھ ٹوٹ جائے گا میرا۔“

    شانزے! ممی ممی! آپ یہاں ہیں؟

    ارے ارے ڈارلنگ کیا کر رہی ہو باہر جاؤ کانچ چبھ جائے گا جان۔ بیگم شاہنواز نے لاڈ سے بیٹی کو کہا اور چھوٹی سے مخاطب ہوئیں ”ہاں ہاں کر دیا بس۔ اب کانچ کے ٹکڑے سمیٹ اور چائے بنا کر لا میرے لیے۔ صرف دس منٹ میں، میرا سر بُری طرح دکھ رہا ہے۔“

    چھوٹی بلک رہی تھی ”ہائے اماں! کانچ چبھ گیا۔ خون بہہ رہا ہے۔“ بیگم شاہنواز سفاکی سے چلائیں ”زیادہ ڈرامہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیا قیامت آگئی؟ ”میم صاحب! میرے ہاتھ سے کانچ نکال دیجیے، ہائے، ہائے۔“ وہ بری طرح رو رہی تھی۔ بیگم شاہنواز نے تلملاتے ہوئے چھوٹی پر ڈنڈوں کی برسات کر دی، ”بدبخت، چڑیل، اپنا کیا خود بھگت نامراد!

    ”چھوٹی! میرے شوز پالش کر دے۔“ شاہنواز مرزا نے حکم صادر فرمایا۔ ”جی سر جی! کہتے ہوئے چھوٹی آواز کی سمت لپکی اتنی دیر میں شانزے نے اپنے کپڑے چھوٹی کو تھماتے ہوئے کہا جلدی سے میرا ڈریس پریس کر دے، پنکی کے برتھ ڈے فنکشن میں جانا ہے۔ ” ابھی کرتی ہوں چھوٹی میم صاحب“ شانزے نے عاجزی سے کہا، اُدھر شاہنواز مرزا چلے آئے، ”ابھی تک شوز پالش نہیں کیے تو نے چھوٹی؟ بہت نافرمان ہو گئی ہے۔ ادھر آ، اپنی خوراک تو کھالے بہت دنوں سے نہیں کھائی۔“ چھوٹی نے خوفزدہ ہوتے ہوئے کہا، ”معاف کر دیجیے صاحب، چھوٹی میم کے کپڑے پریس کر رہی تھی، آئندہ پہلے آپ کا کام کروں گی۔“

    ”بہت کام چور ہو گئی ہے یہ چھوٹی! ذرا سی چائے نہیں بن سکی اس سے۔ جتنا چاہو نقصان کروا لو منحوس، چھوٹی ہی نہیں کھوٹی اور کھوتی بھی ہے۔ چائے کہا تھا تجھ سے کیا پائے پکا رہی ہے؟ آئی میم صاحب چھوٹی نے شاہنواز مرزا کے سامنے شوز پالش کر کے رکھتے ہوئے کہا۔ یہ لیجیے سر جی! آپ کے شوز“
    یہ کیسی پالش کی ہے؟ کہا تھا نا ایسی پالش کرنا کہ تجھے اپنی شکل صاف نظرآئے شاہنواز مرزا نے غراتے ہوئے گھونسوں سے چھوٹی کی تواضع کر دی۔
    چھوٹی! بری طرح روتے ہوئے کہہ رہی تھی ”سر جی! معاف کر دو۔ ابھی چمکا دیتی ہوں آپ کے شوز۔ بیگم شاہنواز کی چنگارتی آواز آئی ”چھوٹی چائے“
    ”ابھی سر جی کے شوز چمکا دوں پھر لاتی ہوں آپ کی چائے بھی۔“ چھوٹی نے سہمے ہوئے کہا تو بیگم شاہنواز چلائیں ”سنا نہیں تُو نے؟ چھوٹی میم صاحب نے کیا کہا ہے۔ پہلے میری پرنسز کے کپڑے صحیح سے پریس کر“ یہ لیجیے میم صاحب! گرم گرم چائے۔“ پانچ منٹ بعد ہی وہ بیگم شاہنواز کو چائے تھما رہی تھی۔

    یہ گرم چائے ہے یا گرم پانی؟ پھوہڑ کہیں کی، میں تو نہیں پی سکتی یہ۔ تجھ ہی پر اُنڈیل دیتی ہوں۔ بیگم شاہنواز نے چائے چھوٹی کے ہاتھ پر گرا دی۔ ہائے میم صاحب میرا ہاتھ جل گیا چھوٹی بلک بلک کر رو رہی تھی اور بیگم شاہنواز طیش کے عالم میں یہ کہتے ہوئے اس کی جانب بڑھیں کہ ”اری تُو ایک ذرا سا ہاتھ جلا تو شور کیوں مچا رہی ہے؟ لاتوں کی بھوت باتوں سے کہاں مانے گی؟ تُو نے تو میرا درد اور بڑھا دیا۔ آ کھا لے اس جرم میں میری لاتیں۔“ بیگم شاہنواز بے دردی سے لاتیں مار رہی تھیں اور چھوٹی کہہ رہی تھی معافی میم صاحب! آئندہ بہت اچھی چائے بناؤں گی۔

    چھوٹی کا بدن بُری طرح دکھ رہا تھا۔ کل کی مار سے وہ بے حال تھی۔ رات بھر بخار میں مبتلا رہی پھر بھی کام کرنے آگئی تھی۔ ذرا دیر کو تھک ہار کر بیٹھی کہ شانزے نے صدا لگائی۔ ”میری انگلش کی بک نظر نہیں آرہی۔ میں نے ٹیبل پر رکھی تھی۔ اوہو بھئی مزے آرہے ہیں۔ ممی جلدی آؤ دیکھو۔ ایجوکیشنسٹ کے پاس ہے میری بک، اسٹڈی ہو رہی ہے۔“ چھوٹی کے ہاتھ میں اپنی کتاب دیکھتے ہوئے شانزے نے قہقہے لگائے تو بیگم شاہنواز نے اس کا ساتھ دیتے ہوئے کہا ”!اوہو، اللہ کی شان تو دیکھو، چیونٹی کے بھی پر نکل آئے۔ کیوں ری چھوٹی موٹی۔ کیا پڑھ ڈالا تُو نے؟“

    ”معاف کر دو۔ میں تو تصویریں دیکھ رہی تھی شانزے کی کتاب میں سے۔“ چھوٹی کے ہاتھ سے کتاب گر گئی لیکن شانزے کا غصہ آسمان کو چھو رہا تھا۔

    ”شانزے! What شانزے؟ کہا تھا نا تم سے ہمیں چھوٹی میم صاحب کہا کرو۔ ابھی کھینچتی ہوں چوٹی۔ ٹھیک ہو جائے گا تمہارا دماغ۔“

    نہیں نہیں چھوٹی میم صاحب۔ بس کریں بہت تکلیف ہو رہی ہے، چھوڑ دیں میرے بال، ماں قسم ہمیشہ آپ کو چھوٹی میم صاحب کہوں گی۔ کان پکڑ کر توبہ کرتی ہوں۔ چھوٹی تکلیف سے تڑپ ہی تو اُٹھی مگر اس کی تکلیف کی پروا ہی کس کو تھی۔ اب باری بیگم شاہنواز کی تھی جو تفریح لینے والے انداز سے پوچھ رہی تھیں
    ”یہ تو بتا تُو نے کتاب اُٹھائی کیوں تھی چھوٹی؟ ”میرا پڑھنے کو دل چاہتا ہے۔مجھے ڈاکٹر بننے کا بہت شوق ہے، ماں کہتی ہے اس کے لیے بہت سارے پیسے چاہئیں۔ کام پر جا، پیسے کما، پھر اسکول میں داخلہ لے لے اور پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بن جا۔ مجھے ڈاکٹر بہت اچھے لگتے ہیں۔“

    ”بڑا اچھا جوک ہے یہ تو۔ کیوں ممی؟ شانزے نے چھوٹی کا مضحکہ اُڑاتے ہوئے کہا تو بیگم شاہنواز نے مزے لیتے ہوئے کہا ”اچھا… واقعی مزے کا ہے آؤ مل کر ہنستے ہیں۔ ہاں تو چھوٹی تُو کہاں داخلہ لے گی؟ چھوٹی بھلا اتنی سمجھدار کہاں تھی جو اُن کے مذاق کو سمجھ سکتی۔ خوشامدی لہجے میں بولی ”میم صاحب! آپ مجھے چھوٹی میم صاحب کے اسکول میں داخل کروا دیں۔ ہم دونوں ساتھ ساتھ ڈاکٹر بن جائیں گی۔“ آئیڈیا تو بہت زبردست ہے چھوٹی لیکن ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا

    پیر میں رہنے والی جوتی دیکھ نہ اونچے خواب
    ایک ہی شے پہ حق ہے تیرا وہ ہے صرف عذاب
    (عنبرؔ)

    میری بیٹی کی برابری کرے گی۔ ادھر آ ابھی جلاتی ہوں تیری گستاخ زبان۔“
    چھوٹی متوقع تکلیف کے خیال سے ہی بُری طرح خوفزدہ ہو گئی، نہیں نہیں میم صاحب! ابھی تو کل کی مار کا درد نہیں گیا۔ اماں نے مالش بھی کی تھی پھر بھی نہیں گیا“

    ”تو میں کیا کروں، بہت اونچے خواب دیکھتی ہے۔ چھوٹی کی پرواز تو کوئی دیکھے۔ میں تجھے ناکوں چنے نہ چبوا دوں۔ شانزے ڈارلنگ کچن سے ماچس تو لانا، ابھی زبان جلاتی ہوں چھوٹی کی، بیگم شاہنواز نے قہر برساتی نظروں سے چھوٹی کو دیکھا تو وہ بلک بلک کر رونے لگی۔ ”میم صاحب میری زبان نہ جلاؤ۔کل آپ نے ہاتھ جلایا تھا، اب تک دکھ رہا ہے۔ میری زبان نہ جلاؤ میں کیسے بولوں گی؟“

    بیگم شاہنواز نے تلملاتے ہوئے کہا، ”فٹے منہ کون سا اچھا بولتی ہے جو یوں بولنے کو تڑپ رہی ہے زبان دراز۔“ یہ لیجیے ممی! جلائیے اس کی زبان۔ بہت شوق ہے اسے میرے اسکول جانے کا۔ کل اسکول لے کر جاؤں گی چھوٹی کھوٹی کو اس کی جلی ہوئی زبان سب کو دکھاؤں گی۔ شانزے نے ماچس ماں کو دیتے ہوئے کہا۔ منہ کھول اپنا۔“

    ”نہیں نہیں میم صاحب! میں کبھی چھوٹی میم صاحب کے اسکول کا نام نہیں لوں گی۔ لیکن بیگم شاہنواز پر تو وحشت سوار تھی، جنونی لہجے میں کہ رہی تھیں ”اے چھوٹی! خود ہی منہ کھول۔ ورنہ زبان کیا تجھے پوری کی پوری چولھے میں جھونک دوں گی۔“

    چھوٹی تڑپ رہی تھی ”ہائے جلا دی میری زبان۔ اماں اماں۔ ہائے میری زبان۔“

    بیگم شاہنواز بھی ایک ماں تھیں لیکن اپنی امارت کے زعم میں وہ انسانیت کا ہر درس بھلا بیٹھی تھیں۔ تنتناتے ہوئے اس کے بال بے دردی سے کھینچے، ”اری چپ کر۔ ابھی آنے والی ہے تیری ماں۔ بتاتی ہوں اُسے تیرے ارمان اور گز بھر کی زبان۔؟ یہ سارا تماشہ دلچسپی سے دیکھتی ہوئی شانزے چہکی ”ممی! دیکھو چھوٹی کی اماں بھی آگئی۔“

    آئیے آئیے مہارانی تشریف لائیے اور سُنیے اپنی رانی کی کہانی۔ یہ تو بتائیے آپ کے لیے صوفہ پیش کروں یا تخت شاہی؟ قابل تو تم تختے کے ہو۔ بیگم شاہنواز نے حقارت بھری نظر چھوٹی کی ماں پر ڈالتے ہوئے کہا۔” ماں کو دیکھ کر چھوٹی چلائی ہائے اماں بچا لو مجھے اور پل کی پل میں چھوٹی بے ہوش ہو گئی۔“

    ہائے میری شمشیرن، ماں صدقے، کیا ہو گیا تجھ کو۔ ارے یہ تو بے ہوش ہو گئی۔ کل سے بخار میں تپ رہی تھی آپ کا حکم تھا اس لیے چُھٹی نہیں کروائی۔“

    ”سن لیا تمہارا شمشیرن نامہ اور یہ کیا سکھایا ہے تم نے چھوٹی کو۔ میری شانزے کی برابری کر رہی تھی کہ شانزے کے اسکول میں داخلہ دلوا دو۔ ڈاکٹر بنوں گی۔ ارے نام تو نے شمشیرن کیا رکھ دیا خود کو شمشیر زن سمجھنے لگی۔ جلا دی میں نے اس کی خود سر زبان۔ بہت اچھے لگتے ہیں نا اسے ڈاکٹر۔ اب ساری زندگی زبان کے علاج کے لیے ڈاکٹروں ہی کو دیکھے گی ارمان پورا ہو جائے گا۔ لے جاؤ اسے نہیں ضرورت اس کی۔“ بیگم شاہنواز نے بیہوش چھوٹی پر تھوکتے ہوئے کہا۔

    ”میم صاحب جی معاف کر دیجیے۔ باپ تو اس کا چرسی ہے، میں ہمیشہ کی بیمار، اسی کی تنخواہ سے ہمارا گھر چلتا ہے۔ آپ بے شک چھوٹی کو ماریں مگر مجھے تو ہر مہینے تنخواہ اور روز کا کھانا دو گی نا؟ نصیبن نے بے حسی اور سفاکی کی انتہا کر دی تھی۔ جانے اس کی ممتا کہاں جا سوئی تھی۔“

    بیگم شاہنواز کو اپنا آرام خطرے میں نظر آیا جو چھوٹی کی بدولت سارا دن اُنہیں میسر تھا۔ اکڑ کر بولیں ”بہت نقصان کیا ہے میرا، اس مہینے کی تنخواہ نہیں ملے گی، اس شرط پر رکھوں گی کہ آئندہ میری شانزے کی برابری نہیں کرے گی۔“

    ”جیتی رہو میم صاحب جی! بڑی رحم دل ہوآپ۔ کل صبح ہی آجائے گی کام پر۔ نصیبن نے بیگم شاہنواز کے پیر چھوتے ہوئے کہا۔

    قارئین! آپ ہی فیصلہ کیجیے کہ ”چھوٹی“ شمشیرن ہے یا بیگم شاہنواز کی گھٹیا سوچ یا پھر اس کی ماں جو اپنی ہی کمسن بیٹی کے ساتھ انسانیت سوز سلوک ہوتے دیکھ کر بھی اپنے مفاد کے لیے بیٹی کو استعمال کر رہی ہے؟ اسی رویے نے چھوٹی کو جیتے جی مار دیا، کیا ہمارے معاشرے کی ہر چھوٹی کا یہی انجام ہوگا؟کیا کبھی چھوٹی کے ساتھ ساتھ بڑوں کی سوچ بھی بڑی ہوکر ہمارے سماج کی چھوٹیوں کو بھی انسان سمجھے گی یا اُن کی چھوٹی سوچ کے نتیجے میں چھوٹی کھوٹی ہی رہے گی؟

    (تحریر شائستہ زریں ؔ)