Tag: شائستہ زریں کی تحریریں

  • جیدی جانتا بھی کیسے!

    اسلم بھائی کے دروازے بلاتخصیص ہر مرد و زن کے لیے کھلے رہتے ہیں۔ میں ہوں ناں کی عملی تفسیر بنے اسلم بھائی اپنے در پر آنے والوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اخلا ق اور مروّت آپ کی طبیعت کا خاصہ ہے۔ شاید ہی کبھی کوئی اُن کے در سے مایوس گیا ہو۔

    مسئلہ خواہ بڑا ہو یا چھوٹا، کسی اپنے کا ہو یا پرائے کا، حل کروا کے انہیں بے پایاں مسرت ہوتی ہے۔ بالخصوص خواتین کو میں ہوں ناں کی پیشکش اُن کے لیے کسی دلربا حادثے سے کم نہیں ہوتی۔ اسلم بھائی کی خوش اخلاقی کی خواتین معترف ہیں مگر جس طرح سارے موسم یکساں نہیں ہوتے اسی طرح ساری خواتین ایک سا مزاج نہیں رکھتیں۔ بعض کو اسلم بھائی کی بے تکلفی گوارا ہوتی ہے لیکن جب اپنائیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ذاتی نوعیت کی گفتگو شروع کر دیتے ہیں تو انہیں گراں گزرتا ہے۔ تب تنک ہی نہیں سنجیدہ مزاج خواتین بھی اُنہیں اپنے کام سے کام رکھنے کا مشورہ دیتی ہیں تو اسلم بھائی مسکرا کر رہ جاتے ہیں۔ اب وہ انہیں کیسے بتائیں کہ وہ اپناکام ہی تو کر رہے ہیں۔ وہ بھی ستائش کی تمنا اور صلے کی پروا کیے بغیر۔

    اسلم بھائی کتنے ہی باتونی کیوں نہ ہوں یہ بہت بڑی سچائی ہے کہ اخلاق کی طرح اُن کا کردار بھی بلند ہے، بس وہ اپنی ہر ایک کے کام آنے کی عادت سے مجبور ہیں۔

    اسلم بھائی کو لوگ مسیحا کہتے تھے اور اپنی مسیحائی پر انھیں بڑا ناز تھا جو بے جا بھی نہیں تھا۔ ہر مسئلے کا حل اُن کے پاس تھا۔ مشکل ترین مسئلہ بھی کبھی وہ چٹکی بجاتے حل کر دیتے تو لوگ حیران رہ جاتے کہ آ خر ان کے پاس ایسی کون سی جادو کی چھری ہے جسے گھماتے ہی وہ ہر درد کا درماں بن جاتے ہیں۔ ایسی کون سی طاقت ہے جو اسلم بھائی کو سرخرو اور اُن سے تعاون کے خواہست گاروں کو مطمئن کر دیتی ہے۔ مگر ہزار کوشش کے باوجود بھی کوئی سراغ نہ لگا سکا۔ عرصۂ دراز تک یہ راز راز ہی رہا کہ آخر اسلم بھائی کے پاس ایسا کون سا ہنر ہے جس کے بل پر مسئلہ چھوٹا ہو یا بڑا سنتے ہی اسلم بھائی کہتے ہیں، ’’میں کس لیے ہوں“؟ اور پھر واقعی اسلم بھائی پریشان حالوں کے لیے فرشتۂ رحمت ثابت ہوتے ہیں۔

    جیدی کی فطرت میں بچپن ہی سے بہت تجسس تھا۔ اُس کی دادی تو اسے کہتی ہی ننھا جاسوس تھیں۔ رہی سہی کسر ابنِ صفی کے جاسوسی ناولوں نے پوری کر دی۔جس بات کی دھن لگ جاتی اس کا سراغ لگا کر ہی دم لیتا۔ ان دنوں اسلم بھائی اُس کی سراغ رسانی کی زد پر تھے۔ جیدی وہ بھید جاننا چاہتا تھا جس کے سبب اسلم بھائی سب کے دل کا چین بنے ہوئے تھے۔ ایک دن بیٹھے بٹھائے جیدی کو خیال آیا کہ اسلم بھائی ہی کیوں، میں کیوں نہیں؟ بس پھر کیا تھا بازیافت کا عمل شروع ہو گیا۔ عقل کے گھوڑے دوڑائے، کھوج کے سمندر میں چھلانگ لگائی، بالآخر پندرہ یوم کی کاوشِ پیہم کے بعد وہ نکتہ جیدی کے ہاتھ آ ہی گیا جسے وہ اپنی کام یابی کی پہلی کڑی کہتا اور پھر اللہ نے موقع بھی فراہم کر دیا۔

    ہُوا یوں کہ جیدی اپنے انٹر کے سرٹیفکیٹ کے سلسلے میں بورڈ آفس گیا۔ دو تین مقامات پر اسے یوں محسوس ہُوا گویا اسلم بھائی یہیں کہیں موجود ہیں۔ جب کہ کچھ ہی دیر پہلے وہ انہیں 105 درجہ بخار میں چھوڑ کر آیا تھا۔ امی نے چلتے وقت تاکیداً کہا تھا کہ اسلم بھائی بیمار ہیں، کئی مرتبہ وہ ہمارے کام آئے ہیں اُن کی عیادت کرتے ہوئے اپنے کام پر جانا۔“ اسلم بھائی بسترِ علالت پر ہیں تو پھر یہاں اُن کی موجودگی کا احساس مجھے کیوں ہورہا ہے؟ جیدی نے خود سے سوال کیا اور پھر کچھ ہی دیر کے مشاہدے اور غور و فکر کے بعد اسے اپنے سوال کا جواب مل گیا۔

    ایک اسلم بھائی پر ہی کیا موقوف ہے ایسے کئی افراد ہر محلے اور ہر ادارے میں اپنی مسلمہ حیثیت سمیت نظر آتے ہیں۔ وہ خاموش ہوں تب بھی اُن کا انگ انگ پکار رہا ہوتا ہے:

    میں چپ رہوں بھی تو نغمہ میرا سنائی دے

    ایسے لوگ ”میں کس لیے ہوں“ کی متحرک تصویر ہوتے ہیں۔ اس ایک جملے کی ادائیگی کے لیے کئی توانائیاں صرف کرنی پڑتی ہیں۔ یہ تو وہی جانتے ہیں جو بصد افتخار ”میں کس لیے ہوں‘‘ کی مخلصانہ پیشکش کرتے ہیں یا وہ جو اس راز سے واقف ہیں کہ خوشامد اور پی آر کے زور پر نہ صرف کام نکلوایا جا سکتا ہے بلکہ خود کو بھی منوایا جا سکتا ہے۔ ہاں بعض لوگ اپنی لیاقت اور منصب کی بنیاد پر بھی ”میں کس لیے ہوں“ کے دعوے دار ہوتے ہیں مگر وہ جو محض ذاتی تعلقات اور خوشامد کی بنیاد پر بہت اعتماد سے پیشکش کر دیتے ہیں۔ اس وقت اُن کی حالت بھی اسلم بھائی جیسی ہوجاتی ہے جب ذاتی تعلقات بھی کام نہیں آتے اور چرب زبانی بھی اپنا اثر نہیں دکھاتی۔ اس لیے ”میں کس لیے ہوں“ کا دعویٰ بھی بودا ثابت ہوجاتا ہے۔

    سلیم صاحب کو تسلی دے کر بخار کی پروا نہ کرتے ہوئے اسلم بھائی بورڈ آفس پہنچے تھے، وہاں جا کر معلوم ہوا کہ ظہیر صاحب گزشتہ ہفتے ہی سبک دوش ہوگئے۔ یہ سنتے ہی اسلم بھائی پر تو گویا سکتہ طاری ہوگیا۔ وہ جو بازی جیتنے آئے تھے اب ہارے ہوئے جواری کی طرح شکستہ قدموں سے واپس جانے پر مجبور تھے۔ اُن کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ سلیم صاحب کو وہ جو یقین دلا آئے تھے کہ ”آپ کا کام ہو جائے گا میں کس لیے ہوں“ اب اُن سے جا کر کیا کہیں گے۔ یہی کہ”میں اس لیے ہوں!‘‘ اور کوئی ذریعہ بھی نہیں تھا کہ اسلم بھائی اپنے ”میں کس لیے ہوں“ کا بھرم رکھ لیتے۔ شدید بخار میں یہاں تک آنے میں اسلم بھائی نے اتنی تھکن محسوس نہیں کی تھی جتنا احساسِ شکست نے اُنھیں تھکا دیا تھا۔

    جیدی جو اسلم بھائی کے آنے سے پہلے اُن کی عدم موجودگی کے باوجود اُن کی موجودگی کے احساس سے پریشان تھا، خاموشی سے ایک کونے میں کھڑا صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے جب معاملے کی تہ تک پہنچا تو اسلم بھائی کی شکستہ حالی نے اسے مغموم کر دیا۔ ”بے چارے اسلم بھائی۔ کیسے دوڑ دوڑ کر ہر ایک کے کام آتے ہیں۔ آج کتنے لاچار نظر آرہے ہیں۔ ایک ایک کر کے اسلم بھائی کی ساری نیکیاں جیدی کو یاد آنے لگیں۔

    جیدی نے ظہیر صاحب کی جگہ تعینات مجید صاحب پر ایک نظر ڈالی جو اس کے بہت قریبی دوست کے والد تھے اور اسے بھی اپنے بچّوں کی طرح عزیز رکھتے تھے اور اچانک ہی جیدی نے ایک فیصلہ کر لیا۔

    اس سے پہلے کہ اسلم بھائی نکل جاتے، جیدی نے اُنھیں جا لیا، ”قبلہ اسلم بھائی کہاں چلے۔ یہاں تشریف لائیے۔“ اپنے خیالوں میں مگن اسلم بھائی نے چونک کر جیدی کو دیکھا جو اُن کا ہاتھ تھام کر مجید صاحب کے کمرے کی طرف بڑھنے لگا تھا۔

    جب وہ مجید صاحب کے پاس پہنچے تو ”اب یہاں کیا رکھا ہے“ کہتے ہوئے اسلم بھائی نے سرد آہ کھینچی۔ ”میں کس لیے ہوں۔“ جیدی نے بے ساختہ کہا جسے سن کر اسلم بھائی ایک لمحہ کو ٹھٹھکے لیکن اگلے ہی پل نہایت محبت آمیز نظروں سے جیدی کو یوں دیکھا گویا اپنے جاں نشین کو دیکھ رہے ہیں۔ یکایک اُن کی چال کی لڑکھڑاہٹ ختم ہو گئی۔ اب وہ پُراعتماد قدموں سے جیدی کے ہم قدم چل رہے تھے اور ایک گھنٹے بعد فاتحانہ انداز میں جیدی کے ساتھ سلیم صاحب کے گھر جا کر اُن کو ان کا کام ہو جانے کا مژدہ سنارہے تھے۔ جواباً سلیم صاحب نے اسلم بھائی کو سپاس نامہ پیش کیا۔ ادھر جیدی جس کے چہرے پر اس وقت وہی خوشی نظر آرہی تھی جو وہ ایسے موقعوں پر اسلم بھائی کے چہرے پر دیکھا کرتا تھا لیکن اس کے ساتھ وہ انتہائی بے چینی سے اسلم بھائی کو دیکھ رہا تھا کہ کب وہ سلیم صاحب کو بتاتے ہیں کہ آج کی اُن کی کام یابی میں جیدی کا کردار بڑا اہم ہے اور یہ بھی کہ جیدی کے تعاون کے بغیر یہ ممکن ہی نہیں تھا۔

    اسلم بھائی سے توقع رکھتے وقت جیدی یہ بھول گیا تھا کہ یہ ان کی پہلی ناکامی ہے آخری نہیں اور یہ کہ اپنے مشن پر ڈٹے رہنے والے ناکامی ہی سے کام یا بی کا راستہ نکالتے ہیں۔ بیشک اپنے تئیں وہ اسلم بھائی کے وارث ضرور بن گئے تھے مگر سپر پاور اب بھی اسلم بھائی کے پاس تھی کہ مجید صاحب نے ان کا کام محض جیدی کی محبت میں نہیں کیا تھا بلکہ اس کام کے عوض انہوں نے مجید صاحب کا ان کے کام سے بھی بڑا کام کر دیا تھا، کب اور کس وقت یہ جیدی جان ہی نہیں سکا۔

    جانتا بھی کیسے؟ جیدی لاکھ شیر بن جائے مگر بی بلّی سے سیکھا سبق اسلم بھائی کیسے بھول سکتے تھے۔ اگر بلّی شیر کو پیڑ پر چڑھنا سکھا دیتی تو وہ شیر کی خالہ کیسے کہلاتی؟

    (انشائیہ نگار اور فیچر رائٹر شائستہ زرّیں کی ایک شگفتہ تحریر)

  • مجددِ سخن صبا اکبر آبادی کا تذکرہ

    مجددِ سخن صبا اکبر آبادی کا تذکرہ

    شعروں میں مرا خونِ جگر بول رہا ہے
    الفاظ ہیں خاموش ہنر بول رہا ہے

    اس شعر کے خالق خواجہ محمد امیر المتخلص بہ صبا اکبر آبادی ہیں۔ ان کا مقامِ پیدائش اکبر آباد (آگرہ) اور تاریخِ پیدائش 14 اگست 1908ء ہے۔ والد کا نام ڈاکٹر خواجہ علی محمد تھا۔

    صبا صاحب کی ساری عمر محبت کرنے اور بانٹنے میں بسر ہوئی۔ محض آپ کا طرزِ حیات ہی نہیں بلکہ وہ تمام اصنافِ سخن جن میں آپ نے طبع آزمائی کی گواہی دیتے ہیں کہ صباؔ اکبر آبادی سراپا محبت تھے اور یہ کہنے میں حق بجانب تھے کہ

    محبت کے علاوہ ہے ہنر کیا
    کیا ہے اور ہم نے عمر بھر کیا

    لیکن اس کارِ محبت نے آپ کو ناکارہ بنانے کے بجائے ایسا فعال بنا دیا کہ اپنے پرائے سب یکساں اعتماد کے ساتھ آپ کے درِ دل میں داخل ہوتے اور بلا تخصیص فیض پاتے۔ بقول آپ کی والدہ سرفرازی بیگم ”محمد امیر تو مانگنے والوں کو اپنے جسم کے کپڑے تک دینے سے باز نہ آئے گا۔“ گویا صباؔ صاحب کے دل میں موجزن محبت کے جذبات نے اعلیٰ انسانی و اخلاقی اقدار کو خوب خوب فروغ دیا۔ یہی رویہ آپ نے اپنی شعری تخلیقات میں بھی اختیار کیا اور بے اختیار کیا۔

    1920ء میں محض بارہ برس کی عمر میں مشاعرے میں شمعِ آزادی کے پروانوں کے ساتھ آپ نے خواجہ غیور اکبر آبادی کے نام سے فی البدیہ اپنا کلام سنایا۔ اُس روز آپ کے حصّے میں ایک نہیں تین اعزاز آئے تھے۔ اوّل نوعمری میں پہلا مشاعرہ پڑھ کر مشاعرہ لوٹنا وہ بھی رئیسُ الاحرار حسرت موہانی کی صدارت میں اور اُن سے داد وصول کرنا۔ دوم مشاعرے کے آخری شاعر جوش ملیح آبادی کے بعد پڑھنا اور سوم آپ کے والد ڈاکٹر خواجہ علی محمد کا آپ کا تخلیقی جوہر پہچان کر شاعری کی تربیت کے لیے آپ کو اخضرؔ اکبر آبادی کی شاگردی میں دینا۔

    اخضرؔ صاحب نے اپنے شاگرد کا تخلص صباؔ رکھ دیا۔ صبا اکبر آبادی نے حمد، نعت، منقبت، مرثیہ، سلام، رباعی، نظموں اور غزل میں نہ صرف طبع آزمائی کی بلکہ قادر الکلام شاعر کہلائے۔

    صبا اکبر آبادی کے حمدیہ اور نعتیہ کلام میں ایک عاشقِ صادق کا دل دھڑکتا ہُوا محسوس ہوتا ہے۔

    خالقِ ارض و سما کی اوّلین تخلیق تھے
    آخری پیغامِ رب دُنیا میں لائے مصطفیٰ
    مشغلے دونوں بہت اچھے ملے ہیں اے صباؔ
    حمدِ باری کر کے ہوتی ہے ثنائے مصطفیٰ

    صبا اکبر آبادی کے نعتیہ مجموعۂ کلام ”دستِ دعا“ کا انتساب ”اذانِ بلال“ کے نام ہے۔ گویا ایک عاشق کا دوسرے عاشق کو خراجِ عقیدت۔ صبا صاحب کے لیے نعت محض صنفِ سخن نہ تھی آپ کے دل کی لگی اور وہ طلب تھی جس میں تڑپ ہی تڑپ تھی۔

    رثائی ادب کی تخلیق میں صبا اکبر آبادی کی اصحابِ اہلِ بیت سے حقیقی محبت اور عقیدت کے تمام رنگ نمایاں ہیں۔

    1936ء میں تخلیق کیا جانے والا صباؔ صاحب کا پہلا مرثیہ ”شکستِ یزید“ آپ کے جذبۂ ایمانی کی شدت اور قوت کی دلیل ہی نہیں مرثیہ نگاری کا نقطۂ آغازبھی تھا۔ جوش ؔملیح آبادی نے آپ کے مرثیوں کے بارے میں کہا تھا کہ ”صباؔ کے مرثیے سُن کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا میر انیسؔ کی روح بول رہی ہے۔“ مرثیوں پر مبنی آپ کے شعری مجموعے ذکر و فکر، سر بکف، خونناب، قرطاسِ الم، شہادت‌ شائع ہو چکے ہیں۔

    رباعی کی صنف پر صبا صاحب کو کمال دسترس تھی۔ آپ نے کئی موضوعات پر رباعیاں تخلیق کیں۔ یہی نہیں اپنی ترجمہ کی صلاحیت کو اپنی رباعیات میں بڑی چابک دستی سے بروئے کار لاتے ہوئے حضرت امیر خسروؔ، حافظؔ شیرازی، خیامؔ اور غالبؔ کی تمام رباعیات کا اُردو میں ترجمہ کیا۔ ڈاکٹر جمیل جالبی رقم طراز ہیں، ”اگر غالبؔ بھی اپنی رباعیات کا اُردو ترجمہ کرتے تو بالکل ایسا ہی ترجمہ کرتے جیسا کہ صبا ؔصاحب نے کیا ہے۔“

    تضمین صبا ؔصاحب کی اعلیٰ شعری کاوش اور ”تضمینِ دیوانِ غالب“ ان کے شعری سفر کا بے مثال ادبی کارنامہ ہے جس کا آغاز 1938ء میں ہُوا اور اسی سال اس کی تکمیل ہوئی۔

    زمزمۂ پاکستان کے نام سے آپ کی چار قومی و ملّی نظموں پر مشتمل پہلا مجموعہ 1945ء اور دوسرا مجموعہ 1946ء میں شائع ہوا۔ زمزمۂ پاکستان کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہ پہلی کتاب ہے جس کا انتساب بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کے نام ہے۔ پہلی مرتبہ اردو شاعری کا کوئی مجموعہ ساٹھ ہزار کی تعداد میں شائع ہوا اور فروخت کے بعد ملنے والی تمام رقم قائدِ اعظم کی موجودگی میں مسلم لیگ کے فنڈ کے لیے لیاقت علی خان کو پیش کی گئی۔ ڈاکٹر اسلم ؔفرخی تحریر کرتے ہیں کہ ”زمزمۂ پاکستان“ اپنے ادبی حسن، جوش اور ولولے کی وجہ سے بھی اہم ہے اور تحریکِ پاکستان کی تاریخ سے وابستگی کی بنا پر یہ قومی تاریخ کا جزو بن گئی۔“

    صبا اکبر آبادی کی غزل میں اگر ایک جانب آپ کا طرزِ فکر اپنے پورے شعور کے ساتھ نمایاں ہے تو دوسری جانب احساس کی شدت، الفاظ کی ندرت اور غنائیت کا حسن بھی موجود ہے۔

    چمن میں پھول کھلے ہیں بہار آئی ہے
    ہمارے زخمِ محبت کی رونمائی ہے

    یہ ایک داغِ محبت کہاں چھپا رکھوں
    تمام عمر کا حاصل ہے کیا کیا جائے

    بس ذرا مہلتِ تخیل میسر آجائے
    کوئی مشکل ہے بیاباں کو گلستاں کرنا

    صبا صاحب کی غزلوں پر مشتمل تین شعری مجموعے اوراقِ گل، چراغِ بہار اور ثبات شائع ہو چکے ہیں۔ ان کا ادبی سفر محض شاعری تک محدود نہ تھا بلکہ نثری ادب اور صحافت میں بھی انھوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں سے خوب خوب کام لیا اور مولانا ابوالفرح کے قلمی نام سے کئی طنزیہ مزاحیہ اور سنجیدہ نوعیت کے مضامین سپردِ‌ قلم کیے۔

    29 اکتوبر 1991ء کو صبا اکبر آبادی اس دارِ‌ فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئے۔

    (تحریر: شائستہ زریں)

  • تقریب کچھ تو ‘بہرِ مفادات’ چاہیے!

    تقریب کچھ تو ‘بہرِ مفادات’ چاہیے!

    کتاب کی تقریبِ رونمائی کی خبر پڑھتے اور سنتے ہی جانے کیوں یہ مصرع یاد آجاتا ہے

    تھی خبر گرم کہ غالبؔ کے اُڑیں گے پرزے

    اور ساتھ ہی غالب ؔ کے دشمنوں کا خیال بھی آتا ہے کہ پرزے تو غیر ہی اُڑاتے ہیں اپنے تو پردہ رکھ لیتے ہیں اور سچ پوچھیے تو آئے دن اخبارات میں کتابوں کی تقریبِ رونمائی کا احوال پڑھ کر یقین سا آنے لگتا ہے کہ اس شعر کی تخلیق کے وقت غالبؔ کے ذہن میں بھی کہیں نہ کہیں ”دیوانِ غالبؔ“ کی تقریبِ رونمائی کا خدشہ سر اُٹھا رہا تھا کہ اُن کے دوست احباب قرضِ دوستاں چکانے کے لیے ایسی کسی تقریب کا اہتمام نہ کر ڈالیں اور چونکہ غالبؔ کی نظر بہت دور تک دیکھنے کی عادی تھی اس لیے غالب نے بھی بہت پہلے یہ نکتہ پا لیا تھا کہ تقریب میں کتاب اور صاحبِ کتاب کے پرزے ضرور اڑیں گے۔

    غالب پر تو اللہ نے بڑ ا کرم کیا ان کے نصیب میں وہ تماشہ لکھا ہی نہیں تھا جو اُن کے بعد آنے والوں کو بے طلب دیکھنے کو مل جاتا ہے۔ بھلا ہو اس ادبی فیشن کا جو روز بہ روز زور پکڑتا جا رہا ہے، کبھی صاحبِ کتاب خود اور کبھی کوئی اور اس کی محبت اور عقیدت سے سرشار صاحبِ کتاب کے دوستوں اور قارئین کا مجمع لگا کر صاحبِ کتاب کی بے محابہ توصیف اور کتاب پر ایسی رائے دینے پر مجبور کردیتا ہے کہ بیک وقت مصنّف کا حوصلہ اور کتاب کی ترسیل کا اہتمام ہو جائے۔ اس اجتماعی رائے زنی کا اثر کبھی کبھی مضحکہ خیز المیے کی صورت میں بھی ظاہر ہوتا ہے کہ پرزے اُڑانے والے صاحبِ کتاب کے رفیق بھی ہوتے ہیں جو حقِ رفاقت نباہتے ہوئے اس قدر نڈھال ہو جاتے ہیں کہ حاضرینِ محفل سوچتے ہیں کیا واقعی صاحبِ کتاب اتنا صاحبِ اعزاز ہے جتنا کہ اسے سراہا جا رہا ہے اور کیا مقالہ نگار اتنا صائب الرّ ائے ہے جتنا نظر آرہا ہے؟

    یہ تو خیر دوستوں کا احوال تھا مگر بعض انجانے بھی ایسے صاحب کمال اور صاحب کشف و کرامات ہوتے ہیں کہ کتاب اور صاحبِ کتاب کے مطالعے کے بغیر ہی محض ذاتی مفاد کی خاطر سنی سنائی پر اعتبار کر کے کتاب اور صاحبِ کتاب کا اعتبار قائم کرنے کی دھن میں اپنا اعتبار بھی کھو دیتے ہیں مگر وہ سب ضرور پا لیتے ہیں جس کے وہ آرزو مند ہو تے ہیں۔

    اس امر سے تو سب ہی واقف ہیں کہ معاشی اعتبار سے ادب کی منڈی میں کسی مصنّف کی قدر شناسی کا کس قدر کال ہے۔ کچھ تو فطرتاً ایسے بے نیاز ہوتے ہیں کہ صلے اور ستائش سے بے پروا ہو کر اپنا کام کیے جاتے ہیں لیکن حلقۂ ادب میں ایسے حضرات بھی ہیں جو خود کو منوانے کے لیے کوئی ایسا مؤثر طریقہ اختیار کرنا چاہتے ہیں جس سے ان کی ادبی حیثیت کو بھی تسلیم کر لیا جائے اور وہ تہی دست بھی نہ رہیں اور اس کے لیے وہ کتابوں کی تقریبِ رونمائی کو مفید قرار دیتے ہیں۔ ہمیں اعترا ض کسی کے مفاد پر نہیں۔ معترض تو ہم اس تقریب میں پڑھے جانے والے بعض مضامین پر ہیں جن میں پڑھنے والے کی ”رضا“ سے بڑھ کر صاحبِ کتاب کی” خوشنودی“ کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے۔ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس اہم تقریب میں مصنّف اور کتاب کی تشہیر کا خصوصی بلیٹن نشر کیا جاتا ہے، تب کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ حاضرین مضامین پڑھنے والوں کے بارے میں یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ

    یہ ملکِ سخن کے وہ منافق ہیں جو ہر ”شام“
    رکھ دیتے ہیں ایک تاج سَرِ بے ہنراں پر

    کتاب کی تقریبِ رونمائی کے موقع پر توصیفی کلمات ادا کیے اور تعریفی مضامین پڑھے جاتے ہیں لیکن آج تک ایسا نہیں ہوا کہ کسی نے کتاب کا گھونگھٹ الٹتے ہی صاحبِ کتاب سے بے بسی اور جی داری کی ملی جلی کیفیت میں سوال کیا ہو کہ

    تیری نئی کتاب پر کیا تبصرہ کروں؟
    مضمون منحنی سا ہے، عنواں جسیم ہے

    جی ہاں؛ ایسی کئی کتابیں منظرِ عام پر آئی ہیں جن کے عنوان کا خاصا رعب پڑتا ہے مگر جب ان کے مطالعے کی نوبت آتی ہے تو حیرانی و پریشانی کی یکجائی یہ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ جس مریض کی ”صحت“ پر شبہ ہو اس کا ”جشنِ صحت“ کیوں منایا گیا؟ لیکن تقریبِ رو نمائی میں‌ مقالات و مضامین میں تعریفوں کے پل باندھے جاتے ہیں۔ محض اس بنیاد پر کہ مقالہ نگار اخلاق اور ذاتی تعلق دونوں کو نباہنے کے ہنر اور اہمیت سے واقف ہوتے ہیں یا مروتاََ ایسا کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

    محض ذاتی تعلقات کی بنیاد پر کسی کتاب کی اس معیار کی تعریف کرنا جس سے کمتر درجے کی وہ کتاب ہو، صاحبِ کتاب کے لیے ”اعزاز“ نہیں ”آزار“ ہے۔ بہت ممکن ہے کتاب کی تقریبِ رونمائی میں مدح سرائی کرنے والے خیال کرتے ہوں کہ رونمائی کے ساتھ کسی بری یا حقیر شے کا تصور نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا کتاب پر تبصرہ بھی اعلیٰ درجے کا ہونا چاہیے۔ اندر سے خواہ کتاب کیسی ہی ہو۔ ظاہری حسن تو داد طلب ہے۔ بعض کتابوں کا سرورق متاثر نہیں کرتا مگر مطالعے سے ذوقِ کتب بینی بڑھ جاتا ہے اور ایسی بھی کتابیں ہوتی ہیں کہ سرورق پر نظر ڈالو تو ”واہ“ اور مطالعہ کرو تو ” آہ“ بھر کر رہ جاؤ گویا….

    کتاب چھپ گئی چھ رنگے ٹائٹل کے ساتھ
    کتابت اور طباعت کا بھی جواب نہیں
    مگر کتاب کی تقریبِ رونمائی میں
    کتاب چیخ رہی ہے کہ میں کتاب نہیں

    دلہن اچھی ہو یا بُری رونمائی کا حق تو دونوں کو حاصل ہے، یہی بات کتاب کے ضمن میں بھی کہی جا سکتی ہے کہ موضوع، اسلوب اور مواد خواہ کیسا ہی کیوں نہ ہو کتاب کی رونمائی کے آرزو مند ہر صاحبِ کتاب کے ارمان تقریبِ رونمائی کے ضمن میں کم و بیش یکساں ہوتے ہیں۔

    کتابوں کی رونمائی کی تقریبات شہر میں لگ بھگ اتنی ہی تعداد میں ہوتی ہیں جتنی کہ شادی کی تقریبات۔ کیونکہ شادی ہال کی طرح اس تقریبِ سعید میں تواضع کے لیے کبھی کبھار کھانے کو بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔

    بعض اوقات تقریبِ رونمائی کا اعزاز ایسی ہستی کے حصّے میں آجاتا ہے جو کتاب شناسی تو بڑی بات ہے، کتاب خوانی کی لذّت سے بھی محروم ہو۔ کیا کوئی صاحبِ کتاب واقعی اتنا بے بس ہوسکتا ہے کہ محض تشہیر اور ذاتی مفاد کی خاطر اپنی بے توقیری بخوشی قبول کر لے؟ کیا یہ مضحکہ خیز المیہ نہیں؟

    بعض کتابیں اپنے موضوع، اسلوب، مواد کے سبب وہ پذیرائی حاصل کر لیتی ہیں اور صاحبِ کتاب کو بھی علمی اور ادبی حلقے ہی سے نہیں بسا اوقات عام قارئین کی جانب سے بھی وہ ”اعتبار“ حاصل ہو جاتا ہے جو اس کتاب اور صاحبِ کتاب کو حاصل نہیں ہوتا جس کی تشہیر کے لیے کسی”پانچ ستارہ“ ہوٹل میں تقریب کا انعقاد کیا گیا ہو یا جس تقریب کی صدارت کسی ”اعلیٰ سرکاری افسر“ یا کسی بڑی تجارتی کمپنی کے مالک کے حصّے میں آئی ہو۔

    (فیچر رائٹر اور مضمون نگار شائستہ زریں‌ کے قلم سے)

  • اشیاء بدل بہن!

    اشیاء بدل بہن!

    بعض لوگ کوئی نہ کوئی علّت پال لیتے ہیں۔ روشن بھی انہی میں سے ایک ہے جو بہنیں بنانے کی علّت کا شکار ہے۔ وہ اپنے اخلاص اور محبت کی تمام روشنی اپنی ایسی بہنوں میں منتقل کر کے بہت خوش نظر آتی ہے۔

    سچ تو یہ ہے کہ نئے اور ایسے انوکھے رشتے بنانا آسان مگر بنا کر نباہنا سہل نہیں ہوتا بلکہ یہ ہر ایک کے بس کی بات بھی نہیں ہوتی لیکن روشن، روشن ہی ہے جو اپنے کسی خیال پر تاریکی کا سایہ تک نہیں پڑنے دیتی بلکہ نام کی طرح اُس کی سوچ کی کرنیں بھی اپنے عمل سے روشنی بکھرتی رہتی ہیں۔

    روشن کا کمال یہی ہے۔ وہ نبھانا خوب جانتی ہے۔ ہر نئی بہن سے غضب کا بہناپا ہوتا ہے اور اس سے بڑا ہنر ہے مساوی تقسیم کہ دیکھ کر تعجب ہی نہیں ہوتا بے اختیار داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ کسی سے سلوک میں رتی برابر بھی فرق نہیں کرتی۔ یہ فن تو ہماری روشن پر تمام ہے تمام۔

    کسی محفل میں چلے جائیے اور وہاں روشن بھی ہوں تو ان کی کوئی نہ کوئی بہن ضرور نظر آجائے گی اور یوں بھی ہوتا ہے جب تک روشن گھر واپسی کی راہ پکڑتی ہیں ان کے دل میں ایک اور بہن کی آمد اور محبت کے چراغ روشن ہو چکے ہوتے ہیں۔ صرف دوپٹہ بدل بہنوں کی تعداد سات ہے اور بھی کئی اشیاء بدل بہنیں ہیں۔ بہت ہی حرافہ ہے میری یہ نند، روشن جس کا نام ہے۔ بَڑھیا دوپٹوں کے عوض اپنا معمولی دوپٹہ دے کر دوپٹہ بدل بہن بن کر سُرخرو ہو جاتی ہے۔

    روشن کے گھر کبھی کسی تقریب میں چلی جاؤ، ان کی ایسی بہنوں کا میلہ ضرور لگتا ہے۔ ان کی اکثریت سے میری بھی شناسائی ہے۔ گزشتہ ماہ روشن کی ایسی ہی کئی بہنوں سے ملاقات ہوئی۔ ان میں ایک نیا چہرہ بھی نظر آیا جس پر روشن جی جان سے نثار ہو رہی تھیں۔ تعارف پر میں چونکی جب روشن نے کہا ’’بھابھی بیگم ان سے ملیے یہ میری ڈبہ بدل ہیں۔“

    ”اَیں کون سی بہن؟ مجھے اپنی سماعت پر کچھ شک سا گزرا۔ میری کیفیت دیکھتے ہوئے روشن نے بے ہنگم قہقہے لگاتے ہوئے داستانِ ملن یوں سنائی کہ ”بھابھی بیگم! ہُوا یوں کہ کل میں بازار گئی تھی، لان کے سوٹ لینے۔ عجلت میں ہمارے ڈبے بدل گئے۔ گھر آکر جو دیکھا تو میرا لیا ہوا ایک بھی سوٹ اس میں نہیں، بھاگم بھاگ بوتیک پہنچی۔ وہاں یہ بھی لشتم پشتم آ موجود۔ ہم نے ڈبوں کا تبادلہ کیا اور آن کی آن میں ہم ڈبہ بدل بہنیں بن گئیں۔“

    اپنی نوعیت کے اس انوکھے ملن نے مجھے دنوں حیرت میں مبتلا رکھا۔ ابھی میں اس حیرانی سے سنبھل بھی نہ پائی تھی کہ روشن نے اپنے نئے بنگلے کی خوشی میں ایک تقریب کا انعقاد کیا، جہاں دو خواتین روشن کی خصوصی توجہ کا مرکز تھیں۔ مجھے دیکھتے ہی روشن لپک کر میرے پاس آئیں اور ان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ ”بھابھی بیگم! وہ جو سبز ساڑھی میں ہیں نا وہ میری بنگلہ بدل بہن ہیں جنھوں نے میرا وہ والا بنگلہ خریدا ہے اور وہ جو سرخ اور سفید پشواز میں بالکل انارکلی لگ رہی ہیں، اُن سے میں نے یہ والا بنگلہ خریدا ہے، آئیے آپ کو اپنی بنگلہ بدل بہنوں سے ملواؤں۔“

    ابھی روشن نے قدم آگے بڑھائے ہی تھے کہ کسی کے فوری بلاوے پر اس کی جانب بڑھ گئی۔ میری بڑی بیٹی صفیہ اس معاملے میں پھوپھی پر گئی ہے۔ کمبخت کی صورت ہی نہیں حرکات بھی ددھیالی ہیں، دوسری روشن ہے۔ ابھی صرف سولہ برس کی ہے اور تین اشیاء بدل بہنیں بنا چکی ہے۔ جانے آگے جا کر کیا گل کھلائے گی۔ میری تو ابھی سے طبیعت گھبرانے لگی ہے۔

    اور پھر اس وقت رفیعہ بیگم جو روشن کی بھابھی ہیں، ان کی روانی سے چلتی ہوئی زبان رک گئی۔ ان کی چھوٹی بھابھی نے بھری محفل میں انہیں آئینہ دکھا دیا تھا۔

    ”آپا جان آپ کی زبان کو تو لگام ہی نہیں، میرٹھ کی قینچی بھی کیا تیز چلتی ہوگی جیسی آپ کی زبان چلتی ہے۔ بیچاری روشن باجی کو بہنیں بنانے کا شوق ہی تو ہے اور تو کوئی برائی نہیں۔“

    ”ہاں بیٹا ایک ہی شوق ہے اور وہ بھی ایسا کہ جو ”لاعلاج مرض“ کی صورت اختیار کر گیا ہے۔“ رفیعہ نے کہا۔

    ”آپا جان اس میں بُرائی ہی کیا ہے؟ روشن باجی دل کی بہت اچھی ہیں، انہوں نے کبھی کسی کی برائی نہیں کی اور سنا تو میں نے یہی ہے کہ روشن باجی کے اس شوق نے ہی توآپ کو اُن کی بھابھی بنایا ہے۔ نہ روشن باجی آپ کو کتاب بدل بہن بناتیں اور نہ ہی آج آپ اُن کی بھابھی کہلاتیں۔ نہ آپ پہلی مرتبہ بہن بنانے پر اُن کی حوصلہ افزائی کرتیں نہ روشن باجی اس شوق کو پروان چڑھاتیں، اب بھگتیے۔“

    ”ہاں بیٹا بھگت ہی تو رہی ہوں اور جانے کب تک بھگتوں گی، وہ کتاب تو آج تک نہ پڑھی جس کے بدلے پہلے ان کی بہن اور پھر بھاوج بنی، لیکن روشن کے بھیا کی کتاب زیست پڑ ھ پڑھ کر عاجز آگئی، اتنا اُلجھاؤ کہ اللہ میری توبہ۔ ہائے کیا بھلی کتاب تھی جو روشن نے مجھ سے بدلی تھی، اس کا سرورق بھی تو ڈھنگ سے نہیں دیکھ پائی تھی۔ اور وہ کتاب جو روشن نے مجھے دی تھی، بھابھی بناتے ہی مجھ سے ہتھیا لی۔ ہائے میری چالاک نند میں کتنی بھولی تھی۔“

    رفیعہ خاموش ہوئیں تو اُن کی بھابھی نے اُنہیں ماضی بعید سے ماضی قریب میں لاتے ہوئے کہا، ”آپا جان آپ نے بھی تو مجھے بیٹی بنا کر بھابھی بنا ڈالا مگر میں تو بُرا نہیں منایا۔ ہائے میں کتنی معصوم تھی۔“

    چھوٹی بھاوج کی شرارت پر جو اُنھیں، مثل بیٹی کے عزیز تھی رفیعہ بیگم مسکرا دیں تو روشن جو جانے کب سے وہاں کھڑی ان مکالموں سے لطف اندوز ہو رہی تھیں مسکراتے ہوئے آگے بڑھیں اور ”بھابھی بیگم! بہن نہیں ہیں“ کہہ کر اُن سے لپٹ گئیں۔ رفیعہ بھی ہنس دیں۔

    ”وہ تو میں ہوں بلکہ حرفِ اوّل تو میں ہی ہوں، مجھے پہلی مرتبہ دیکھتے ہی تمہارے دل میں بہن بنانے کی ہڑک اُٹھی تھی۔ اللہ تمہارے اس شوق میں دن دگنی رات چوگنی ترقی دے، مگر اللہ کے واسطے اپنی بھتیجی کو اس علت سے نجات دلا دو۔ تمہاری احسان مند رہوں گی۔“

    ”بھابھی بیگم! یہ ممکن نہیں کیونکہ ہفتہ بھر پہلے جو لڑکی ہماری صفیہ کی دوپٹہ بدل بہن بنی تھی، کل اس کی امی آئی تھیں صفیہ کے لیے۔ گھرانا بہت اچھا ہے اور لڑکا بھی۔“ روشن کے انکشاف پر رفیعہ کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ یعنی؟ ’جی ہاں بھابھی بیگم تاریخ خود کو دہرا رہی ہے، بس جغرافیہ بدل گیا ہے۔“

    ”اللہ کی رضا یہی ہے تو میں کیا کرسکتی ہوں، پَر صفیہ کو سمجھا دو کہ شادی کے بعد جو جی چاہے کرے، جتنی چاہے اشیاء بدل بہنیں بنائے ابھی تو مجھے بخش دے۔“

    رفیعہ بیگم نے ہاتھ جوڑدیے تو روشن کھلکھلا کر ہنس دیں۔ ”امی بھی تو مجھ سے یہی کہتی تھیں، میں نے بھی جی بھر کر بھراس نکالی۔“

    ”اور تمہاری طبیعت ابھی تک نہیں بھری۔“ بھابھی بیگم نے مسکراتے ہوئے پوچھا تو وہ ہنس دی، ”ارے بھابھی اشیاء بدل بہن بنا کر تو دیکھیں، کتنا لطف آتا ہے ایسے رشتے ناتے جوڑنے میں۔ ابھی ابھی میری ایک کیبل بدل بہن بنی ہیں آپ تو جانتی ہیں… مجھے ”مصالحہ“ کی چاٹ پڑی ہے اور انھیں ”ذائقہ“ کا لپکا ہے۔ وہ پڑوسی ملک کے ڈراموں کی دیوانی ہیں اور مجھے پاکستانی ڈرامے بھاتے ہیں، اس لیے آج سے ہم کیبل بدل بہنیں بن گئی ہیں۔“

    روشن اطلاع دے کر آگے بڑھی تو میں سرد آہ بھر کر رہ گئی۔ اس کے علاوہ میں کر بھی کیا سکتی ہوں، اپنی کرنی تو مجھے بھرنی ہی ہے۔ نند کے ساتھ ساتھ اب بیٹی بھی تو اس راہ کی مسافت طے کر رہی ہے۔

    (مضون نگار اور فیچر رائٹر شائستہ زرّیں کے قلم کی شوخی)