Tag: شائستہ زریں

  • ریٹائرڈ اساتذہ، چند معروضات

    ریٹائرڈ اساتذہ، چند معروضات

    صمد! شبیر صاحب یاد ہیں تمہیں؟

    شبیر صاحب؟ یاد کیسے نہیں۔ بھائی رؤف اُن کو بھول سکتے ہیں بھلا؟ اچھا پڑھاتے تھے لیکن اب تو سٹھیا گئے ہیں۔ اچھا ہی ہُوا ریٹائر ہو گئے۔“

    ہاں یہ تو ہے صمد! لیکن یار! اخلاق صاحب کی کیا بات ہے۔ ان کا علم بھی کمال کا ہے اور ریٹائرمنٹ کے دس برس بعد بھی مجھ سمیت کئی شاگرد آج تک ان کے علم سے فیض اُٹھا رہے ہیں۔“

    بے شک لیکن دلدار صاحب کی سبکدوشی کا مجھے بڑا ملال ہے۔ علم کا سمندر ہیں۔ چوراسی برس کی عمر میں بھی اُن کا جذبہ جوان ہے۔ مجھ جیسے کئی نئے اساتذہ اُن کے علم اور تجربے سے استفادہ کریں اس سے بڑھ کر ہماری خوش بختی اور کیا ہوگی؟ لیکن کاش ایسی کوئی سہولت ہو کہ ہم دلدار صاحب جیسے لائق اور مخلص استاد سے فیض اُٹھا سکیں۔“

    یہ مختصر حکایتیں تھیں سبکدوش ہوجانے والے اساتذہ کے متعلق جو ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔

    بلا شبہ یہ معاملات بھی بہت عجیب وغریب ہوتے ہیں۔ ہم نے تو ایسے اساتذہ بھی دیکھے ہیں جن کی ذہنی تھکن اُن کی طبعی عمر کو شکست دے دیتی ہے اور وہ تدریسی اُمور میں مصروف رہ کر خود کو بھی ہلکان کرتے ہیں اور اپنے شاگردوں کی بیزاری اور پریشانی میں بھی اضافہ بھی کرتے ہیں، مگر سب اساتذہ ایسے نہیں ہوتے۔ بلاشبہ ایک اچھا استاد اپنی ذات میں علمی و تہذیبی ادارہ ہوتا ہے، لیکن بدقسمتی سے اس مقام سے محروم ہے جو اس کا حق بنتا ہے۔ سبکدوشی کے بعد پنشن کی صورت اساتذہ کو معاشی تحفظ تو ضرور مل جاتا ہے لیکن اس کے لیے ان کو کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں یہ ایک الگ داستان ہے اور حد درجہ اذیت ناک ہے۔

    اساتذہ کے ساتھ ناانصافیاں بھی خوب ہوتی ہیں اور اُن کی اہمیت کو تسلیم بھی کیا جاتا ہے لیکن جب سے علم کے متوالوں کی بہ نسبت جہل کے رکھوالوں کی تعداد میں اضافہ ہُوا ہے، معاشی تحفظ تو بڑی بات ہے، ان اساتذہ کو جان کے لالے پڑ جاتے ہیں لیکن وہ خلوصِ نیّت اور اسی ذوق و شوق سے تدریسی عمل کو جاری رکھتے ہیں۔ ہمارا یہ اثاثہ بہر صورت محفوظ رہنا چاہیے مگر کس طرح؟ اس سوال کے ساتھ ہی ہمیں سبکدوش ہونے والے اساتذہ کا خیال آگیا جن کے وسیع تدریسی تجربے، علم اور اپنے مضمون پر دسترس نے اُن کی علمی استعداد کو مزید جلا بخشی ہے۔ ایسے میں وہ محض ایک اصول کی بنیاد پر سبکدوش کر دیے جاتے ہیں، جسے اُن کے ساتھ ہی نہیں اُن کے شاگردوں کے ساتھ بھی زیادتی کہا جاسکتا ہے، جو اُن سے فیض حاصل کرنا چاہتے ہیں اور استفادہ کررہے ہیں۔ اس صورت حال کے پیشِ نظر حکومت کو اپنے وضع کردہ اُصول میں نرمی کر کے اساتذہ کی سبکدوشی کی عمرمیں توسیع اور عمر کی حد متعین کرنے پر نہ صرف غور کرنا چاہیے بلکہ کچھ ایسے مستحسن عملی اقدامات بھی کرنے ضروری ہیں کہ اساتذہ تادیر علم کی ترسیل کامیابی سے جاری رکھیں اور نئے اساتذہ کی تربیت اور رہنمائی کا فریضہ بھی خوش اسلوبی سے سر انجام دیتے رہیں۔ وہ اساتذہ جو اپنے منصب کے صحیح حق دار اور اپنے پیشے سے مخلص ہوتے ہیں وہ اپنا علمی اثاثہ کس صورت محفوظ کر سکتے ہیں؟ اس سوال کے ساتھ ہی چند اور سوال بھی دستک دیتے ہیں کہ

    جب اساتذہ کا تجربہ اُنھیں کندن بنا دیتا ہے تب اُن کو سبکدوش کر دیا جاتا ہے، کیا یہ حکمتِ عملی درست ہے؟

    کیا کسی ایسے ادارے کا قیام ضروری ہے جہاں نئے آنے والے اساتذہ اپنی ذمہ داریوں‌ سے سبکدوش ہونے والے اساتذہ کے علم اور ان کے تدریسی تجربے سے استفادہ کرسکیں؟

    اس موضوع کے انتخاب کا بنیادی مقصد ریٹائر ہونے والے اساتذہ کے مسائل کی نشان دہی اور اُن کے حل کی جانب اربابِ اختیار کی توجہ مبذول کروانا ہے۔ وہ مسائل جن سے کبھی دانستہ، کبھی نادانستہ اور کبھی مجبوریوں کی طویل فہرست بنا کر صرفِ نظر کیا جاتا ہے۔ ایسے اساتذہ جو اپنے پیشے سے مخلص ہوتے ہیں اور اپنی عمرِ عزیز کا بڑا حصہ تدریس اور علمی سرگرمیوں میں صرف کر دیتے ہیں اُن کو وہ تمام مراعات حاصل ہونی چاہییں جو اُن کا حق بنتا ہے۔ جس طرح قلم کار زندگی کی آخری سانسوں تک اپنے منصب پر فائز رہتا ہے اسی طرح سبکدوشی کے باوجود اساتذہ کے علمی فیض کا چشمہ تاحیات بہتا رہتا ہے اور تشنگانِ علم سیراب ہوتے رہتے ہیں۔ ریٹائرمنٹ کی عمر میں پہنچنے تک استاد کی علمی استعداد بڑھ جاتی ہے اور سالہا سال کے مسلسل تدریسی عمل کے سبب نہ صرف تجربے اور صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ اپنے مضمون میں لگن اور دل چسپی بھی بڑھ جاتی ہے۔ ریٹائرڈ اساتذہ کے ذوق و شوق کو دیکھتے ہوئے حکومت کو چند ایسے مستحسن اقدامات ضرو ر کرنے چاہییں جن کی بدولت سبکدوشی کے باوجود لائق اساتذہ پورے وقار اور اعزاز کے ساتھ فعال زندگی بسر کرسکیں اور ان روشن دماغوں سے مزید کئی اذہان روشن ہوسکیں۔

    تحریر:‌ شائستہ زرّیں

  • دل کی بھڑاس نکلے ‘واٹس ایپ’ پر!

    دل کی بھڑاس نکلے ‘واٹس ایپ’ پر!

    فسادی مزاج لوگوں کے جھگڑے کے اپنے اپنے انداز ہیں۔ کوئی رُو بہ رُو، دُو بہ دُو اور تُو تڑاخ کر کے تسکین پاتا ہے تو کوئی غائبانہ فساد ڈالنے میں مہارت رکھتا ہے۔

    زمانے کے ارتقا کے ساتھ ساتھ لوگوں کی سوچ اور رویوں میں بھی تبدیلی رونما ہو گئی۔ وہ جو کبھی ”گھر کی بات گھر میں رہے“ کے آرزومند ہُوا کرتے تھے اب دل کی بات بھی دل میں نہیں رکھ پاتے۔ یوں گھر کی بات گھر گھر پھیلتی ہے۔

    آج دنیا بھر میں‌ سماجی رابطے کا سب سے بڑا اور مقبول ذریعہ واٹس ایپ ہے جس کا اس حوالے سے فعال کردار نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جب سے واٹس ایپ پر فیملی گروپ کا رواج پڑا اور بڑھا ہے، انفرادی اور خاندانی جھگڑے یہیں نمٹائے جارہے ہیں۔ حتیٰ کہ ایک ہی گھر کے مکینوں کو اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے یہی فیملی گروپ مؤثر اور کارآمد معلوم ہوتے ہیں۔

    ہم نے اہتمام کیا کہ خیر النساء کے ”برسوں کے تجربات“، اُن کی بڑی بہو تابندہ کے”صبح تڑکے دل لگتی باتیں“ چھوٹی بہو فراست کے ”آج کی سوغات“ اور خیر النساء کے بھائی نصیر کے”امن کی پُکار“ نامی گروپوں کے اسٹیٹس پر لگائی جانے والی گفتگو آپ کی نذر کریں۔

    ٭تابندہ٭ ”صبح تڑکے دل لگتی باتیں“: محبت کیجیے، محبت بانٹیے، محبت پائیے۔

    ٭فراست٭ ”آج کی سوغات‘‘: محبت کی تقسیم پر اپنے پرائے سب کا یکساں حق ہے۔

    ٭خیرالنساء٭ ”برسوں کے تجربات“: اتفاق میں برکت ہے۔

    لیکن پھر ہُوا یوں کہ تابندہ کے اسٹیٹس ”صبح سویرے دل پہ بیتی باتیں“ کے عنوان سے لگنے لگے۔ اب تابندہ دل کو چُھو لینے والے پیغامات کے بجائے دل پر بیتنے والی باتیں پیغامات کی صورت شیئر کر رہی تھیں، وہ بھی ایسے جو پڑھنے والوں کو چونکا دیتے تو فراست کے دل میں کانٹے بن کر چبھتے۔ کیونکہ وہ خوب جانتی تھیں کہ یہ پیغامات کس کے لیے ہیں لیکن چپ رہتیں۔ آخر کب تک؟ ایک دن تابندہ کا اسٹیٹس پڑھ کر فراست نے اپنی خاموشی توڑی اور ”نہلے پہ دہلا“ کے عنوان سے اسٹیٹس لگانے شروع کر دیے۔ ان بے لاگ اسٹیٹس کی وجہ سے دیورانی جیٹھانی میں بُری طرح ٹھن گئی۔ تابندہ کے سیر پر سوا سیر کا بٹہ مارنا فراست نے اپنا معمول بنا لیا۔

    ٭تابندہ٭ کوا چلا ہنس کی چال اپنی چال بھی بھول گیا۔

    ٭فراست٭ معلوم نہیں کیوں لوگوں کو اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا۔

    ٭تابندہ٭ سو باتوں کی ایک بات۔ کھاؤ من بھاتا پہنو جگ بھاتا۔

    فراست٭ کمی نہیں ایسے لوگوں کی جو من بھاتا کھاتے ہیں سو کھاتے ہیں، مانگا تانگا بھی کھانے سے نہیں ہچکچاتے۔

    ٭تابندہ٭ تجھ کو پڑائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تُو۔

    فراست٭ آدھا تیتر، آدھا بٹیر، ہنسی روکوں تو کیسے روکوں۔

    ٭تابندہ٭ ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کردے

    ٭فراست٭ منہ اچھا نہ ہو نہ سہی۔ منہ سے نکلے بھلی بات کوئی

    ٭خیرالنساء٭ ”برسوں کے تجربات“: درگزر سے کام لو، دل صاف کرو، مل کر رہو، خوش رہو، لوگوں کے لیے مثال بنو۔

    ٭تابندہ٭ بات ہے پتے کی

    ٭فراست٭ عمل کی نوبت آئے تب۔ ورنہ؟

    ٭خیرالنساء٭ وہ نوبت بجے گی کہ دنیا دیکھے گی۔

    ٭فراست٭ دل میں چھپا ارمان تو یہی ہے لوگوں کے۔

    ٭خیرالنساء٭ کھانا پکائیں، اُبلا سُبلا اُبالا سُبالا، باتیں بگھاریں لذّت بھری۔

    اپنی ساس کے اسٹیٹس کے جواب میں فراست نے ”زندگی عذاب ٹرانسمیشن“ کے عنوان سے ساس کے برہمی کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے بیان جاری کیا۔

    ٭فراست٭ صبح ناشتہ مع طعنہ۔ ظہرانہ دل جلانا۔ ہائے ہائے اور عصرانہ جاری ہُوا شکایت نامہ سنگ عشائیہ۔

    فراست کے اسٹیٹس نے تابندہ کے دل میں گلاب کھلا دیے۔ دیورانی سے شدید اختلافات کے باوجود فوری دل، ستارے اور پھول بھیج کر بھر پور داد دی، اس بیان کے ساتھ کہ بہو وہی اچھی جو ساس نامی بھڑ کے جتھے کو نہ چھیڑے ورنہ…..؟

    ٭فراست٭ انجام کی ذمہ دار آپ خود ہوں گی کیونکہ اس بھڑ کے جتھے میں ساس کی بد ذاتی کیفیات ذاتی رویوں کے ساتھ آپ کو ہلا کر رکھ دیں گی۔

    بہوؤں کے کاری واروں نے خیرالنساء کو اسٹیٹس کے نئے عنوان ”ساس کی للکار“ کے ہمراہ آنے پر مجبور کر دیا۔

    ٭خیرالنساء٭ طعنے بہوؤں کے سنوں اور کچھ بھی نہ کہوں
    ائی بہوؤں میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں

    ٭فراست٭ نہ، نہ، نہ خاموش؟ ہر گز نہیں۔ خاموش رہ کر سینے پر مونگ دلنے سے بہتر ہے کہ بول کر بھڑاس نکال لی جائے۔

    ٭تابندہ٭ سکوتِ شہرِ سخن میں وہ آگ سا لہجہ
    سماعتوں کی فضا نار نار کر دے گا

    ٭خیرالنساء٭ با ادب با نصیب، بے ادب بے نصیب۔
    ٭فراست٭ عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
    یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

    ٭تابندہ٭ دن بھر دل جلاتے رہنے والے تہذیب کے دیے جلاتے بھلے نہیں لگتے۔

    ٭خیرالنساء٭ اولاد کی پہلی تربیت گاہ ماں کی گود ہوتی ہے۔

    ٭فراست٭ اور بہو کی ساس بنتے ہی ماں اس تربیت گاہ کے پرخچے اُڑا دیتی ہے اور اولاد کو تتر بتر کر دیتی ہے۔

    ٭تابندہ٭ بڑے جب چھوٹوں سے بڑھ کر چھوٹے بن جائیں تب ایسا ہی ہوتا ہے۔

    ٭خیرالنساء٭ جس کا جتنا ظرف ہے اُتنا ہی وہ خاموش ہے۔

    ٭فراست٭ دریا میں کنکر مارنے والے کریں سمندر کے سکوت کا تذکرہ۔ واہ بھئی

    ٭تابندہ٭ بیٹا اگر محبت سے شریکِ حیات کو تحفہ دے تو خوشی کا اظہار کرنا چاہیے نہ کہ آگ بگولہ ہوں۔

    ٭فراست٭ داماد بیٹی کو تحفہ دے تو نگاہوں تک سے بیٹی کی آرتی اُتار لی جاتی ہے اور………

    ٭تابندہ٭ خالی جگہ پُر کریں۔

    ٭فراست٭ بیٹا بہو کو مسکرا کر بھی دیکھ لے تو لفظوں کے تیروں سے بہو کا کلیجہ چھلنی کر دیں۔

    ٭خیرالنساء٭ جلنے والے اپنی ہی آگ میں بھسم ہو جاتے ہیں۔

    ٭تابندہ٭ لے ساس بھی شائستہ کہ ظالم ہے بہت کام
    آفات کی اس پُڑیا کی تیشہ گری کا

    ٭فراست٭ چار دن ساس کے تو چار دن بہو کے۔

    جب اسٹیٹس کی جنگ کے شعلے زیادہ شدت سے بلند ہونے لگے تو خیرالنساء کے ہر دلعزیز اور صلح جُو بھائی نصیر کا اسٹیٹس ”امن کی پکار“کے نام سے آگیا۔

    ٭نصیر٭ نہ وہ بہوؤں میں لحاظ رہا
    نہ شرم ہے ساس کی زبان میں
    اپنی عزت اپنے ہی ہاتھوں اُچھالنے والوں کو اب سنبھل جانا چاہیے۔

    ٭فراست٭ نیک قدم بڑے اُٹھائیں گے تو چھوٹے وہی راہ اختیار کریں گے۔

    ٭تابندہ٭ لیکن جب بڑے بچوں کو بھی مات دے دیں تب یہ ناممکن ہے۔

    ٭خیرالنساء٭ شعلوں کو ہوا دینے والے کیسے آگ بجھا سکتے ہیں؟

    ٭نصیر٭ ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں

    ٭فراست٭ ستائش بیٹیوں کے لیے اور آزمائش بہوؤں کے لیے ہو تو صبر کا پیمانہ لبریز ہو ہی جاتا ہے۔

    ٭تابندہ٭ اور جب چھلکتا ہے تو کیسا ادب؟ کیسی محبت؟

    ٭خیرالنساء٭ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔

    ٭نصیر٭ جتنا بات کو بڑھائیں بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔

    ٭تابندہ٭ بعض لوگوں پر اپنے نام کا اثر ہی نہیں ہوتا۔

    ٭فراست٭ ہو بھی کیسے جب دل میں شر کے شرارے اور دماغ میں بدی کا طوفا ن اُٹھ رہا ہو۔

    ٭خیرالنساء٭ خیر و شر کی جنگ میں فتح ہمیشہ خیر کی ہوتی ہے۔

    ٭نصیر٭ معافی سے بڑا انتقام اور کوئی نہیں۔

    ٭خیرالنساء٭ بڑوں ہی کو دل بڑا کرنا پڑتا ہے۔

    ٭تابندہ٭ جب بڑے آغاز کریں تو چھوٹے بھی پیچھے ہٹنے والے نہیں۔

    ٭فراست٭ اور چھوٹوں کا کام ہی بڑوں کی تقلید ہے۔ جیسا بوئیں گے ویسا ہی کاٹیں گے۔

    ٭نصیر٭ بقول رابرٹ بینلن ”محبت تب ہوتی ہے جب کسی کی خوشی آپ کی خوشی کے لیے لازمی شرط ہو۔“

    ٭خیرالنساء٭ محبت میں اخلاص اور دوستی بھی شامل ہو تو محبت کا حسن بڑھ جاتا ہے۔ اور میں اسی احساس کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھاتی ہوں۔

    ٭تابندہ٭ اگر ایسا ہے تو آج ہی سے ”ساس ہے میری سہیلی۔“

    ٭فراست٭ دوستی ایسا ناتا جو سونے سے بھی مہنگا۔

    ٭نصیر٭ محبت کے دیے جلا لو، وفا کے گیت گنگنا لو تقاضہ ہے یہ زندگی کا۔

    ٭خیرالنساء٭ مسکراتا رہے آشیانہ۔

    (کثیرالاشاعت روزناموں میں شائستہ زریں کی مفید اور بامقصد تحریریں، افسانے اور سروے رپورٹیں‌ شایع ہوتی رہتی ہیں، انھوں نے ریڈیو کے لیے سنجیدہ اور شگفتہ تحریروں کے ساتھ کئی فیچر اسٹوریز بھی لکھی ہیں)

  • شادی ہو گی تو خاندان میں!

    شادی ہو گی تو خاندان میں!

    عمران کی والدہ بیگم عرفان نے حنا کو اُس کے ایم ڈی کے بیٹے کے ولیمے میں دیکھا۔ حنا کے شخصی وقار، وضع داری، خوش اخلاقی، سادگی اور تہذیبی رویے نے اُن کا دل موہ لیا۔ اس قدر کہ پہلی ہی ملاقات میں حنا کو اپنی بہو بنانے کا فیصلہ کر لیا، اور دوسرے ہی دن حنا کے گھر اپنے بیٹے کا رشتہ لے کر چلی گئیں۔

    حنا کے لیے اُس کے کولیگ عمران کا رشتہ آنا ہی غضب ہو گیا۔ بیگم عرفان بہت آس لگا کر گئی تھیں کہ ہاں میں جواب لے کر لوٹیں گی۔ لیکن حنا کی دادی نے صاف انکار کر دیا کہ ”ہمارے خاندان کا رواج نہیں بیٹی باہر بیاہنے کا۔“

    بیگم عرفان سلجھی ہوئی طبیعت کی مالک اور بہت رکھ رکھاؤ والی خاتون تھیں۔اپنے طور پر اُنہوں نے قائل کرنے کی بہت کوشش کی لیکن حنا کی دادی نے نہ صرف سختی سے انکار کردیا بلکہ حنا کو ملازمت سے روکتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا کہ ”معلوم ہوتا کہ یہ اپنا بَر تلاش کرنے کے لیے نوکری کرے گی تو کبھی اس کے باپ سے اجازت سے سفارش نہ کرتی اس نوکری کی۔“ یہ فرمان سن کر بیگم عرفان دم بخود رہ گئیں۔ ایسی بے اعتباری؟ معصوم حنا تو بغیر جرم کیے معتوب قرار پائی تھی۔

    بیگم عرفان نے کہا بھی، ”حنا میری یہاں آمد سے قطعاً لا علم ہے۔ بس کل احتشام صاحب کے گھر کی تقریب میں یہ میرے دل کو کچھ ایسی بھائی کہ پل کی پل میں اپنی بہو بنانے کا فیصلہ کر لیا اور رشتہ لے کر چلی آئی۔“ لیکن کوئی بھی بیگم عرفان کی بات سننے اور ماننے کو تیار ہی تھا۔ وہ نامراد اپنے گھر لوٹ گئیں۔

    حنا اگر دادی کے عتاب کا نشانہ بن رہی تھی تو اُس کی امی بھی خراب تربیت کے طعنے سُن رہی تھیں۔ یہی نہیں حنا کی دادی نے فون کر کے اپنی بڑی بیٹی صادقہ بیگم کو ساری داستان سنا دی۔ وہ تو پہلے ہی حنا سے بہت خار کھاتی تھیں کہ صورت اور ذہانت میں حنا اُن کی بیٹیوں سے بڑھ کر تھی۔ رہی بات سیرت کی تو اس میں بھی حنا کا پلڑا بھاری تھا۔ اپنی بیٹی کی ہم عمر حنا کی تعریفیں سُن کر صادقہ بیگم کے سینے پر سانپ لوٹ جاتے تھے۔ اب اُنہیں اس لڑکی کو نیچا دکھانے کا موقع مل گیا۔ ماں کی سنائی داستان میں رنگ آمیزی کر کے صادقہ بیگم نے اسے عام کرنا شروع کر دیا۔

    نکلی ہونٹوں، چڑھی کوٹھوں کے مصداق اگلے ہی دن خاندان بھر میں یہ بات پھیل گئی کہ حنا کی خواہش پر غیر خاندان کی عورت اپنے بیٹے کا رشتہ اُس کے لیے لائی تھی لیکن اماں نے سختی سے انکار کر دیا۔ جس پر حنا نے خوب شور مچایا۔“

    اگلے دن حنا کی دادی پھپیوں، امی، ابو اور خاندان کے دو تین بزرگوں کی موجودگی میں ایک اجلاس ہُوا۔ دور دور تک نظر دوڑائی گئی لیکن خاندان بھر میں حنا کے جوڑ کا کوئی نظر نہ آیا۔ تب ازراہِ عنایت صادقہ بیگم نے اپنے تایا زاد اور جیٹھ نورُ الدّین کا رشتہ پیش کر دیا جو بقول اُن کے نہایت مناسب رشتہ تھا۔ نورُ الدّین صاحب کو حنا کمسنی سے ہی تایا ابّا کہ کر مخاطب کرتی تھی۔ نور الدّین چار بیٹیوں اور پانچ بیٹوں کو بیاہ چکے تھے۔ اُن کے سارے بچّے بیرونِ ملک مقیم تھے اور ہزار گز کا بنگلہ اُنہیں کاٹ کھانے کو دوڑتا تھا۔ ایسے میں صادقہ بیگم نے حنا سے شادی کی پیشکش کی۔ لمحہ بھر کو تو وہ ہکا بکا رہ گئے۔ لیکن صادقہ بیگم کے اصرار پر تو اُن کی باچھیں کھل گئیں۔ گویا اُن کی لاٹری نکل آئی ہو۔

    ادھر حاجرہ بیگم نے بیٹے کو کچھ ایسے خدشات سے خوفزدہ کر دیا کہ وہ بھی ماں اور بہن کے حمایتی بن گئے۔ یوں آناً فاناً نورُ الدّین کا رشتہ منظور کر لیا گیا۔ حنا حیران تھی کہ بن کہے، حنا کے دل کی بات جان لینے والی ماں نے اُس کی خاموش نگاہوں کے پیغام کو نظر انداز کر دیا تھا، جو چُپ کی زبان میں نوحہ کناں تھیں۔

    ماں کا یہ طرزِ عمل دیکھ کر حنا نے چپ سادھ لی۔ ورنہ اُسے یقین تھا کہ اور کوئی بولے یا نہ بولے امّی ضرور میرے حق میں نہ صرف بولیں گی بلکہ اپنے مؤقف پر ڈٹ جائیں گی۔ لیکن وہ تو چپ کی چادر تانے اُس کی شادی کی تیاریوں میں مصروف تھیں اور پھر ٹھیک ایک ہفتے بعد ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی رواجوں کی سولی پر چڑھ کر باطن کی موت مر گئی۔

    خوب دھوم دھام سے شہنائیوں کی گونج میں حنا دلہن بن کر اُس آنگن میں آگئی جہاں وہ بچپن میں آتی تو اس کی معصوم شرارتوں پر ہنستے ہوئے نورُالدّین کہتے”ہماری بیٹی بہت پیاری ہے، اللہ نصیب اچھے کرے۔ بھئی میں‌ تو اس کو اپنے راشد کی دلہن بناؤں گا۔“ لیکن راشد کو تو صادقہ چچی نے ایسا قابو کیا کہ وہ اُن کی بد مزاج عارفہ کو اپنانے کی ضد کر بیٹھے اور بالآخر اس کو بیاہ کر اپنے ساتھ کنیڈا لے گئے۔ اور حنا کے نصیب کہ اپنی بہو بنانے کے آرزومند نورُ الدّین اس کو اپنی دلہن بنا کر لے آئے۔ صادقہ پھپو کی پاٹ دار آواز نے حنا کو ماضی سے حال میں لا کھڑا کیا۔ وہ حنا کو اُس کی خوش بختی کی نوید سنا رہی تھیں کہ ”ایک ہزار گز کے بنگلے پر راج کرے گی ہماری بیٹی۔“ حنا اپنی بے بسی پر رونے کے بجائے دل ہی دل میں ہنس دی۔ ”اپنی عزتِ نفس تاراج ہونے پر بھی کوئی راج کرتا ہے بھلا؟“ اُدھر پھپو کا بیانِ عالمانہ جاری تھا کہ ”بھائی جان! ہماری بیٹی کو کبھی شکایت کا موقع نہیں دیجیے گا۔ اُس کے عیش میں کبھی کوئی کمی نہیں آنی چاہیے۔ ہم نے اپنی پھول سی بیٹی آپ کے حوالے کی ہے، اب یہ آپ کی ذمہ داری ہے۔“

    ”فکر نہ کرو صادقہ یہ لو ابھی تمہارے سامنے اس گھر کی ساری چابیاں حنا کے حوالے کرتا ہوں۔ “ یہ سن کر صادقہ پھپھو گھبرا کر جلدی سے بولیں ”ارے نہیں بھائی جان! یہ کیا کر رہے ہیں۔ ابھی یہ اتنی سمجھدار کہاں ہے، سارے تالے چابیاں اپنے پاس ہی رکھیے۔ خیر سے آپ کے بچّوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔“ یہ سن کر نورُ الدّین نے حنا کی ہتھیلی پر رکھی چابیاں اُٹھائیں اور واپس اس کی جگہ پر رکھ دیں۔ تب صادقہ پھپو نہال ہو گئیں۔

    حنا خود کو اس نئے بندھن کے لیے ذہنی طور پر تیار کر رہی تھی۔ سفاک ہی سہی لیکن یہ بہت بڑی حقیقت تھی کہ اب نورُ الدّین اُس کے تایا ابّا نہیں شوہر تھے اور بقول صادقہ پھپو اُن کی تابعداری حنا پر فرض تھی۔ سو حنا نے بھی اپنے فرائض نباہے اور خوب نباہے۔ اگلے ہی دن نورُ الدّین کی چاروں بیٹیوں سے فون پر بات کی۔ وہ بیٹیاں جنہیں حنا بالترتیب بڑی آپا، منجھلی آپا، چھوٹی آپا اور باجی کہتی تھی۔ اب اُن سے مادرانہ شفقت سے بات کرنا اُس کی ذمہ داری تھی۔ حنا نے اپنی سوتیلی بیٹیوں کو ملول پایا۔ کوئی بھی خوش نہ تھی، کتنا ارمان تھا اُن چاروں کو حنا کو اپنی بھابھی بنانے کا لیکن ہر بھائی کی دفعہ صادقہ چچی نے اپنی بیٹی، بھانجی، بھتیجیوں اور ایک نواسی کو پیش کر دیا۔ چاروں بہنیں دل مسوس کر رہ گئیں کہ ابّا کبھی اپنی لاڈلی بھاوج کی بات رد نہیں کرتے تھے۔ معلوم نہیں ابّا کو اُن کا خوشامدی لہجہ بھاتا تھا یا پھر وہ صادقہ چچی کو بہت دور اندیش سمجھتے تھے۔

    بڑی آپا نے حنا کے دکھ کو بہت توانائی سے محسوس کیا اور کیوں نہ کرتیں وہ اُن سے پورے بیس برس چھوٹی تھی۔ حنا سے بات کر کے وہ بہت اُداس تھیں۔ یہ پیاری سی بچی اب اُس کی ماں تھی۔ سوتیلی ہی سہی، کہلائیں گی تو وہ اب حنا کی بیٹی۔

    حنا نے حالات سے سمجھوتہ کر لیا تھا، میکے بھی بہت کم جاتی تھی۔ اُس کو اپنی ماں سے بہت گِلے تھے۔ وہ اُس پر محبت نچھاور کرتیں تو اس کا دل بین کرنے لگتا۔ اس کی فریادی آنکھیں ماں سے سوال کرتیں، ”اب کیوں امّی؟ جب وقت تھا تو آپ کی محبّت کہاں جا سوئی تھی؟ جب مجھے آپ کی ضرورت سب سے زیادہ تھی تب آپ مجھے نظر انداز کر رہی تھیں تو پھر اب کیوں؟“ اور ماں! جو کہے بغیر اولاد کے دل کی بات جان لیتی ہے کل کی طرح آج بھی چپ کی مہر لگائے اس شعر کی تفسیر بنی نظر آتی کہ
    یہ ہم ہی ہیں جو تیرا درد چھپا کر دل میں
    کام دنیا کے بدستور کیے جاتے ہیں

    کئی ہفتوں سے حنا میکے نہیں گئی تھی۔ کوئی دو ماہ بعد اپنے شوہر کے ساتھ حنا نے ایک شادی کی تقریب میں شرکت کی۔ وہاں اپنی امی کو دیکھ کر اُس کا دل دکھ سے بھر گیا۔ کیسا شاداب چہرہ مرجھا کر رہ گیا تھا۔ نور الدّین ساس سسر کو دیکھ کر آگے بڑھے۔ حنا کے سلام کے جواب میں ابو نے بہت ساری دعائیں دیں تو سُن کر وہ ہنس دی۔ عجب بے بس سی ہنسی تھی کہ پہلی بار وہ خود کو اپنی بیٹی کا مجرم سمجھ رہے تھے۔ ابو کو وہاں اپنے کولیگ نظر آئے تو وہ اُن کی پکار پر وہاں چلے گئے اور حنا نہ چاہتے ہوئے بھی نورُ الدّین کے ساتھ آگے بڑھ گئی۔ اتنی دیر میں بیگم عرفان بھی عرفان صاحب کے ساتھ آگئیں۔ اُن کی نظر حنا کی امی پر پڑی تو وہ اُن سے ملنے چلی آئیں۔ حنا کی امی اُن سے بہت محبت سے ملیں۔ اچانک بات کرتے کرتے اپنے شوہر کے ساتھ آتی حنا پر بیگم عرفان کی نظر پڑی تو اُن پر تو گویا سکتہ سا طاری ہو گیا۔ اپنی بات ادھوری چھوڑ کر وہ تأسف بھری نظروں سے حنا کو دیکھ رہی تھیں۔ کافی دیر تک تو وہ کچھ بول ہی نہ سکیں۔ حنا کی نظر اُن پر پڑی تو اُس نے بیگم عرفان کو سلام کیا۔ اُنہوں نے اشارے سے حنا کو اپنے پاس بلایا۔ اُس کی خیریت دریافت کر کے اُنہوں نے حنا کی امی سے شکوہ کیا ”میرے عمران میں کیا کمی تھی؟ کون سی برائی تھی؟ عمر میں بھی زیادہ فرق نہیں، کیسا سجتے دونوں ایک دوسرے کے ساتھ۔ ہیرا مٹی میں رُل گیا۔“

    تب حنا کے امی کی چپ کی مہر بھی ٹوٹ گئی اور وہ تلخی سے بولیں،”بہت بڑی کمی اور بُرائی تھی عمران میں۔ وہ غیر خاندان کا تھا۔“

    ”ماشاء اللہ باشعور خاتون ہیں، کیسی باتیں کر رہی ہیں اور سب سے بڑھ کر آپ ماں ہیں بہن! پھر آپ نے کیوں ظلم ڈھانے دیا اپنی بیٹی پر۔“

    ”اگر اس وقت میں اپنی لاڈلی بیٹی پر ظلم نہ ڈھاتی تو وہ حشر برپا ہوتا جو آپ سوچ بھی نہیں سکتیں۔“ حنا کی امی کہتے کہتے رو دیں۔

    ”اچھا! آپ بتائیے تو سہی کیا بات تھی، پھر میں سوچ بھی لوں گی۔ “ بیگم عرفان نے اُن کے ہاتھ تھام لیے۔

    ”میری چھوٹی بیٹی اپنی منجھلی پھپو کے بیٹے کی منکوحہ ہے۔ میرے انکار کی صورت میں بغیر رخصتی کے طلاق کا پروانہ اُس کے ہاتھوں میں تھما دیا جاتا۔میری منجھلی بیٹی اپنی چھوٹی پھپو کے دیور سے منسوب ہے۔ اُس کی منگنی ٹوٹنے کی دھمکی بھی دی گئی تھی اور رہ گئی حنا تو اُسے جینے کا کوئی حق نہیں تھا کہ اُس کے لیے غیر خاندان سے رشتہ آیا تھا، وہ بھی اُس کے ساتھ دفتر میں‌ کام کرنے والے لڑکے کا۔ بیگم عرفان چپ چاپ اُن کی شکل تکے گئیں اور جب بولیں تو بس اتنا ”یقین نہیں آرہا، آج کے ترقی یافتہ دور کے ایک پڑھے لکھے گھرانے میں بھی ایسی باتیں ہو سکتی ہیں۔“

    ”ہو سکتی نہیں، ہوتی ہیں مسز عرفان۔ اُن گھرانوں میں جہاں رسم و رواج کو خواہ وہ کتنے ہی فرسودہ کیوں نہ ہوں اپنی عزّت بنا لیا جاتا ہے۔ پھر اس کی سربلندی کی خاطر خواہ کوئی جیتے جی مر جائے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمارے گھرانے میں خاندان میں شادی کرنے کو اعزاز سمجھا جاتا ہے، چاہے اس ظلم کے نتیجے میں کوئی عمر بھر آزار میں مبتلا رہے جیسا کہ میری حنا ہے۔“

    حنا اپنی امی کے گلے لگی چپ چاپ آنسو بہا رہی تھی۔ آج ماں سے ہر گلہ ختم ہو گیا تھا۔ اور بیگم عرفان سوچ رہی تھیں خاندان میں بیٹی بیاہنے کا اصرار کرنے والوں نے کبھی سوچا ہی نہیں کہ حنا کے ساتھ اس سے تیس سال بڑی عمر کے شوہر کو دیکھ کر لوگ کیا کہیں گے؟

  • چھوٹی آخر کھوٹی کیوں ہے؟

    چھوٹی آخر کھوٹی کیوں ہے؟

    برتن گرنے کے شور کے ساتھ ہی بیگم شاہنواز کی پاٹ دار آواز گونجی ”ہائے آج پھر نقصان کر ڈالا بد بخت نے، بھیا خاص میرے لیے لائے تھے جاپان سے، کتنا نازک اور نفیس سیٹ تھا۔ مسز امیر علی تو اسے دیکھ کر انگاروں پر لوٹتی تھیں۔ دیکھوں تو جا کر کیا ٹوٹا اور کیا بچا؟“

    بیگم شاہنواز نے چھوٹی کے بال نوچے تو وہ تڑپ اٹھی۔ ”میم صاحب! قسم سے میں نے جان کر نہیں توڑے، میرے ہاتھوں سے گر گئے۔

    ”واہ واہ ہماری چھوٹی مہارانی پر تو کپکپی چڑھ گئی، اری منحوس ابھی تو میں نے کچھ کہا بھی نہیں۔ چھید ہیں ہاتھوں میں، جو چیز پکڑتی ہے اِن سوراخوں سے چھن کر نکل جاتی ہے اور میری شکل کیا تک رہی ہے؟ منحوس لا کر دے مجھے اپنی تواضع کا سامان۔ ”نہیں نہیں میم صاحب، رحم کریں میں کان پکڑتی ہوں، اٹھک بیٹھک کر لوں گی۔ مجھے نہ ماریں۔ چھوٹی سسک اُٹھی۔“

    بیگم شاہنواز نے چھوٹی کو ڈنڈے سے پیٹنا شروع کر دیا۔ ”میم صاحب بس کریں، ہاتھ ٹوٹ جائے گا میرا۔“

    شانزے! ممی ممی! آپ یہاں ہیں؟

    ارے ارے ڈارلنگ کیا کر رہی ہو باہر جاؤ کانچ چبھ جائے گا جان۔ بیگم شاہنواز نے لاڈ سے بیٹی کو کہا اور چھوٹی سے مخاطب ہوئیں ”ہاں ہاں کر دیا بس۔ اب کانچ کے ٹکڑے سمیٹ اور چائے بنا کر لا میرے لیے۔ صرف دس منٹ میں، میرا سر بُری طرح دکھ رہا ہے۔“

    چھوٹی بلک رہی تھی ”ہائے اماں! کانچ چبھ گیا۔ خون بہہ رہا ہے۔“ بیگم شاہنواز سفاکی سے چلائیں ”زیادہ ڈرامہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیا قیامت آگئی؟ ”میم صاحب! میرے ہاتھ سے کانچ نکال دیجیے، ہائے، ہائے۔“ وہ بری طرح رو رہی تھی۔ بیگم شاہنواز نے تلملاتے ہوئے چھوٹی پر ڈنڈوں کی برسات کر دی، ”بدبخت، چڑیل، اپنا کیا خود بھگت نامراد!

    ”چھوٹی! میرے شوز پالش کر دے۔“ شاہنواز مرزا نے حکم صادر فرمایا۔ ”جی سر جی! کہتے ہوئے چھوٹی آواز کی سمت لپکی اتنی دیر میں شانزے نے اپنے کپڑے چھوٹی کو تھماتے ہوئے کہا جلدی سے میرا ڈریس پریس کر دے، پنکی کے برتھ ڈے فنکشن میں جانا ہے۔ ” ابھی کرتی ہوں چھوٹی میم صاحب“ شانزے نے عاجزی سے کہا، اُدھر شاہنواز مرزا چلے آئے، ”ابھی تک شوز پالش نہیں کیے تو نے چھوٹی؟ بہت نافرمان ہو گئی ہے۔ ادھر آ، اپنی خوراک تو کھالے بہت دنوں سے نہیں کھائی۔“ چھوٹی نے خوفزدہ ہوتے ہوئے کہا، ”معاف کر دیجیے صاحب، چھوٹی میم کے کپڑے پریس کر رہی تھی، آئندہ پہلے آپ کا کام کروں گی۔“

    ”بہت کام چور ہو گئی ہے یہ چھوٹی! ذرا سی چائے نہیں بن سکی اس سے۔ جتنا چاہو نقصان کروا لو منحوس، چھوٹی ہی نہیں کھوٹی اور کھوتی بھی ہے۔ چائے کہا تھا تجھ سے کیا پائے پکا رہی ہے؟ آئی میم صاحب چھوٹی نے شاہنواز مرزا کے سامنے شوز پالش کر کے رکھتے ہوئے کہا۔ یہ لیجیے سر جی! آپ کے شوز“
    یہ کیسی پالش کی ہے؟ کہا تھا نا ایسی پالش کرنا کہ تجھے اپنی شکل صاف نظرآئے شاہنواز مرزا نے غراتے ہوئے گھونسوں سے چھوٹی کی تواضع کر دی۔
    چھوٹی! بری طرح روتے ہوئے کہہ رہی تھی ”سر جی! معاف کر دو۔ ابھی چمکا دیتی ہوں آپ کے شوز۔ بیگم شاہنواز کی چنگارتی آواز آئی ”چھوٹی چائے“
    ”ابھی سر جی کے شوز چمکا دوں پھر لاتی ہوں آپ کی چائے بھی۔“ چھوٹی نے سہمے ہوئے کہا تو بیگم شاہنواز چلائیں ”سنا نہیں تُو نے؟ چھوٹی میم صاحب نے کیا کہا ہے۔ پہلے میری پرنسز کے کپڑے صحیح سے پریس کر“ یہ لیجیے میم صاحب! گرم گرم چائے۔“ پانچ منٹ بعد ہی وہ بیگم شاہنواز کو چائے تھما رہی تھی۔

    یہ گرم چائے ہے یا گرم پانی؟ پھوہڑ کہیں کی، میں تو نہیں پی سکتی یہ۔ تجھ ہی پر اُنڈیل دیتی ہوں۔ بیگم شاہنواز نے چائے چھوٹی کے ہاتھ پر گرا دی۔ ہائے میم صاحب میرا ہاتھ جل گیا چھوٹی بلک بلک کر رو رہی تھی اور بیگم شاہنواز طیش کے عالم میں یہ کہتے ہوئے اس کی جانب بڑھیں کہ ”اری تُو ایک ذرا سا ہاتھ جلا تو شور کیوں مچا رہی ہے؟ لاتوں کی بھوت باتوں سے کہاں مانے گی؟ تُو نے تو میرا درد اور بڑھا دیا۔ آ کھا لے اس جرم میں میری لاتیں۔“ بیگم شاہنواز بے دردی سے لاتیں مار رہی تھیں اور چھوٹی کہہ رہی تھی معافی میم صاحب! آئندہ بہت اچھی چائے بناؤں گی۔

    چھوٹی کا بدن بُری طرح دکھ رہا تھا۔ کل کی مار سے وہ بے حال تھی۔ رات بھر بخار میں مبتلا رہی پھر بھی کام کرنے آگئی تھی۔ ذرا دیر کو تھک ہار کر بیٹھی کہ شانزے نے صدا لگائی۔ ”میری انگلش کی بک نظر نہیں آرہی۔ میں نے ٹیبل پر رکھی تھی۔ اوہو بھئی مزے آرہے ہیں۔ ممی جلدی آؤ دیکھو۔ ایجوکیشنسٹ کے پاس ہے میری بک، اسٹڈی ہو رہی ہے۔“ چھوٹی کے ہاتھ میں اپنی کتاب دیکھتے ہوئے شانزے نے قہقہے لگائے تو بیگم شاہنواز نے اس کا ساتھ دیتے ہوئے کہا ”!اوہو، اللہ کی شان تو دیکھو، چیونٹی کے بھی پر نکل آئے۔ کیوں ری چھوٹی موٹی۔ کیا پڑھ ڈالا تُو نے؟“

    ”معاف کر دو۔ میں تو تصویریں دیکھ رہی تھی شانزے کی کتاب میں سے۔“ چھوٹی کے ہاتھ سے کتاب گر گئی لیکن شانزے کا غصہ آسمان کو چھو رہا تھا۔

    ”شانزے! What شانزے؟ کہا تھا نا تم سے ہمیں چھوٹی میم صاحب کہا کرو۔ ابھی کھینچتی ہوں چوٹی۔ ٹھیک ہو جائے گا تمہارا دماغ۔“

    نہیں نہیں چھوٹی میم صاحب۔ بس کریں بہت تکلیف ہو رہی ہے، چھوڑ دیں میرے بال، ماں قسم ہمیشہ آپ کو چھوٹی میم صاحب کہوں گی۔ کان پکڑ کر توبہ کرتی ہوں۔ چھوٹی تکلیف سے تڑپ ہی تو اُٹھی مگر اس کی تکلیف کی پروا ہی کس کو تھی۔ اب باری بیگم شاہنواز کی تھی جو تفریح لینے والے انداز سے پوچھ رہی تھیں
    ”یہ تو بتا تُو نے کتاب اُٹھائی کیوں تھی چھوٹی؟ ”میرا پڑھنے کو دل چاہتا ہے۔مجھے ڈاکٹر بننے کا بہت شوق ہے، ماں کہتی ہے اس کے لیے بہت سارے پیسے چاہئیں۔ کام پر جا، پیسے کما، پھر اسکول میں داخلہ لے لے اور پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بن جا۔ مجھے ڈاکٹر بہت اچھے لگتے ہیں۔“

    ”بڑا اچھا جوک ہے یہ تو۔ کیوں ممی؟ شانزے نے چھوٹی کا مضحکہ اُڑاتے ہوئے کہا تو بیگم شاہنواز نے مزے لیتے ہوئے کہا ”اچھا… واقعی مزے کا ہے آؤ مل کر ہنستے ہیں۔ ہاں تو چھوٹی تُو کہاں داخلہ لے گی؟ چھوٹی بھلا اتنی سمجھدار کہاں تھی جو اُن کے مذاق کو سمجھ سکتی۔ خوشامدی لہجے میں بولی ”میم صاحب! آپ مجھے چھوٹی میم صاحب کے اسکول میں داخل کروا دیں۔ ہم دونوں ساتھ ساتھ ڈاکٹر بن جائیں گی۔“ آئیڈیا تو بہت زبردست ہے چھوٹی لیکن ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا

    پیر میں رہنے والی جوتی دیکھ نہ اونچے خواب
    ایک ہی شے پہ حق ہے تیرا وہ ہے صرف عذاب
    (عنبرؔ)

    میری بیٹی کی برابری کرے گی۔ ادھر آ ابھی جلاتی ہوں تیری گستاخ زبان۔“
    چھوٹی متوقع تکلیف کے خیال سے ہی بُری طرح خوفزدہ ہو گئی، نہیں نہیں میم صاحب! ابھی تو کل کی مار کا درد نہیں گیا۔ اماں نے مالش بھی کی تھی پھر بھی نہیں گیا“

    ”تو میں کیا کروں، بہت اونچے خواب دیکھتی ہے۔ چھوٹی کی پرواز تو کوئی دیکھے۔ میں تجھے ناکوں چنے نہ چبوا دوں۔ شانزے ڈارلنگ کچن سے ماچس تو لانا، ابھی زبان جلاتی ہوں چھوٹی کی، بیگم شاہنواز نے قہر برساتی نظروں سے چھوٹی کو دیکھا تو وہ بلک بلک کر رونے لگی۔ ”میم صاحب میری زبان نہ جلاؤ۔کل آپ نے ہاتھ جلایا تھا، اب تک دکھ رہا ہے۔ میری زبان نہ جلاؤ میں کیسے بولوں گی؟“

    بیگم شاہنواز نے تلملاتے ہوئے کہا، ”فٹے منہ کون سا اچھا بولتی ہے جو یوں بولنے کو تڑپ رہی ہے زبان دراز۔“ یہ لیجیے ممی! جلائیے اس کی زبان۔ بہت شوق ہے اسے میرے اسکول جانے کا۔ کل اسکول لے کر جاؤں گی چھوٹی کھوٹی کو اس کی جلی ہوئی زبان سب کو دکھاؤں گی۔ شانزے نے ماچس ماں کو دیتے ہوئے کہا۔ منہ کھول اپنا۔“

    ”نہیں نہیں میم صاحب! میں کبھی چھوٹی میم صاحب کے اسکول کا نام نہیں لوں گی۔ لیکن بیگم شاہنواز پر تو وحشت سوار تھی، جنونی لہجے میں کہ رہی تھیں ”اے چھوٹی! خود ہی منہ کھول۔ ورنہ زبان کیا تجھے پوری کی پوری چولھے میں جھونک دوں گی۔“

    چھوٹی تڑپ رہی تھی ”ہائے جلا دی میری زبان۔ اماں اماں۔ ہائے میری زبان۔“

    بیگم شاہنواز بھی ایک ماں تھیں لیکن اپنی امارت کے زعم میں وہ انسانیت کا ہر درس بھلا بیٹھی تھیں۔ تنتناتے ہوئے اس کے بال بے دردی سے کھینچے، ”اری چپ کر۔ ابھی آنے والی ہے تیری ماں۔ بتاتی ہوں اُسے تیرے ارمان اور گز بھر کی زبان۔؟ یہ سارا تماشہ دلچسپی سے دیکھتی ہوئی شانزے چہکی ”ممی! دیکھو چھوٹی کی اماں بھی آگئی۔“

    آئیے آئیے مہارانی تشریف لائیے اور سُنیے اپنی رانی کی کہانی۔ یہ تو بتائیے آپ کے لیے صوفہ پیش کروں یا تخت شاہی؟ قابل تو تم تختے کے ہو۔ بیگم شاہنواز نے حقارت بھری نظر چھوٹی کی ماں پر ڈالتے ہوئے کہا۔” ماں کو دیکھ کر چھوٹی چلائی ہائے اماں بچا لو مجھے اور پل کی پل میں چھوٹی بے ہوش ہو گئی۔“

    ہائے میری شمشیرن، ماں صدقے، کیا ہو گیا تجھ کو۔ ارے یہ تو بے ہوش ہو گئی۔ کل سے بخار میں تپ رہی تھی آپ کا حکم تھا اس لیے چُھٹی نہیں کروائی۔“

    ”سن لیا تمہارا شمشیرن نامہ اور یہ کیا سکھایا ہے تم نے چھوٹی کو۔ میری شانزے کی برابری کر رہی تھی کہ شانزے کے اسکول میں داخلہ دلوا دو۔ ڈاکٹر بنوں گی۔ ارے نام تو نے شمشیرن کیا رکھ دیا خود کو شمشیر زن سمجھنے لگی۔ جلا دی میں نے اس کی خود سر زبان۔ بہت اچھے لگتے ہیں نا اسے ڈاکٹر۔ اب ساری زندگی زبان کے علاج کے لیے ڈاکٹروں ہی کو دیکھے گی ارمان پورا ہو جائے گا۔ لے جاؤ اسے نہیں ضرورت اس کی۔“ بیگم شاہنواز نے بیہوش چھوٹی پر تھوکتے ہوئے کہا۔

    ”میم صاحب جی معاف کر دیجیے۔ باپ تو اس کا چرسی ہے، میں ہمیشہ کی بیمار، اسی کی تنخواہ سے ہمارا گھر چلتا ہے۔ آپ بے شک چھوٹی کو ماریں مگر مجھے تو ہر مہینے تنخواہ اور روز کا کھانا دو گی نا؟ نصیبن نے بے حسی اور سفاکی کی انتہا کر دی تھی۔ جانے اس کی ممتا کہاں جا سوئی تھی۔“

    بیگم شاہنواز کو اپنا آرام خطرے میں نظر آیا جو چھوٹی کی بدولت سارا دن اُنہیں میسر تھا۔ اکڑ کر بولیں ”بہت نقصان کیا ہے میرا، اس مہینے کی تنخواہ نہیں ملے گی، اس شرط پر رکھوں گی کہ آئندہ میری شانزے کی برابری نہیں کرے گی۔“

    ”جیتی رہو میم صاحب جی! بڑی رحم دل ہوآپ۔ کل صبح ہی آجائے گی کام پر۔ نصیبن نے بیگم شاہنواز کے پیر چھوتے ہوئے کہا۔

    قارئین! آپ ہی فیصلہ کیجیے کہ ”چھوٹی“ شمشیرن ہے یا بیگم شاہنواز کی گھٹیا سوچ یا پھر اس کی ماں جو اپنی ہی کمسن بیٹی کے ساتھ انسانیت سوز سلوک ہوتے دیکھ کر بھی اپنے مفاد کے لیے بیٹی کو استعمال کر رہی ہے؟ اسی رویے نے چھوٹی کو جیتے جی مار دیا، کیا ہمارے معاشرے کی ہر چھوٹی کا یہی انجام ہوگا؟کیا کبھی چھوٹی کے ساتھ ساتھ بڑوں کی سوچ بھی بڑی ہوکر ہمارے سماج کی چھوٹیوں کو بھی انسان سمجھے گی یا اُن کی چھوٹی سوچ کے نتیجے میں چھوٹی کھوٹی ہی رہے گی؟

    (تحریر شائستہ زریں ؔ)

  • جیدی جانتا بھی کیسے!

    اسلم بھائی کے دروازے بلاتخصیص ہر مرد و زن کے لیے کھلے رہتے ہیں۔ میں ہوں ناں کی عملی تفسیر بنے اسلم بھائی اپنے در پر آنے والوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اخلا ق اور مروّت آپ کی طبیعت کا خاصہ ہے۔ شاید ہی کبھی کوئی اُن کے در سے مایوس گیا ہو۔

    مسئلہ خواہ بڑا ہو یا چھوٹا، کسی اپنے کا ہو یا پرائے کا، حل کروا کے انہیں بے پایاں مسرت ہوتی ہے۔ بالخصوص خواتین کو میں ہوں ناں کی پیشکش اُن کے لیے کسی دلربا حادثے سے کم نہیں ہوتی۔ اسلم بھائی کی خوش اخلاقی کی خواتین معترف ہیں مگر جس طرح سارے موسم یکساں نہیں ہوتے اسی طرح ساری خواتین ایک سا مزاج نہیں رکھتیں۔ بعض کو اسلم بھائی کی بے تکلفی گوارا ہوتی ہے لیکن جب اپنائیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ذاتی نوعیت کی گفتگو شروع کر دیتے ہیں تو انہیں گراں گزرتا ہے۔ تب تنک ہی نہیں سنجیدہ مزاج خواتین بھی اُنہیں اپنے کام سے کام رکھنے کا مشورہ دیتی ہیں تو اسلم بھائی مسکرا کر رہ جاتے ہیں۔ اب وہ انہیں کیسے بتائیں کہ وہ اپناکام ہی تو کر رہے ہیں۔ وہ بھی ستائش کی تمنا اور صلے کی پروا کیے بغیر۔

    اسلم بھائی کتنے ہی باتونی کیوں نہ ہوں یہ بہت بڑی سچائی ہے کہ اخلاق کی طرح اُن کا کردار بھی بلند ہے، بس وہ اپنی ہر ایک کے کام آنے کی عادت سے مجبور ہیں۔

    اسلم بھائی کو لوگ مسیحا کہتے تھے اور اپنی مسیحائی پر انھیں بڑا ناز تھا جو بے جا بھی نہیں تھا۔ ہر مسئلے کا حل اُن کے پاس تھا۔ مشکل ترین مسئلہ بھی کبھی وہ چٹکی بجاتے حل کر دیتے تو لوگ حیران رہ جاتے کہ آ خر ان کے پاس ایسی کون سی جادو کی چھری ہے جسے گھماتے ہی وہ ہر درد کا درماں بن جاتے ہیں۔ ایسی کون سی طاقت ہے جو اسلم بھائی کو سرخرو اور اُن سے تعاون کے خواہست گاروں کو مطمئن کر دیتی ہے۔ مگر ہزار کوشش کے باوجود بھی کوئی سراغ نہ لگا سکا۔ عرصۂ دراز تک یہ راز راز ہی رہا کہ آخر اسلم بھائی کے پاس ایسا کون سا ہنر ہے جس کے بل پر مسئلہ چھوٹا ہو یا بڑا سنتے ہی اسلم بھائی کہتے ہیں، ’’میں کس لیے ہوں“؟ اور پھر واقعی اسلم بھائی پریشان حالوں کے لیے فرشتۂ رحمت ثابت ہوتے ہیں۔

    جیدی کی فطرت میں بچپن ہی سے بہت تجسس تھا۔ اُس کی دادی تو اسے کہتی ہی ننھا جاسوس تھیں۔ رہی سہی کسر ابنِ صفی کے جاسوسی ناولوں نے پوری کر دی۔جس بات کی دھن لگ جاتی اس کا سراغ لگا کر ہی دم لیتا۔ ان دنوں اسلم بھائی اُس کی سراغ رسانی کی زد پر تھے۔ جیدی وہ بھید جاننا چاہتا تھا جس کے سبب اسلم بھائی سب کے دل کا چین بنے ہوئے تھے۔ ایک دن بیٹھے بٹھائے جیدی کو خیال آیا کہ اسلم بھائی ہی کیوں، میں کیوں نہیں؟ بس پھر کیا تھا بازیافت کا عمل شروع ہو گیا۔ عقل کے گھوڑے دوڑائے، کھوج کے سمندر میں چھلانگ لگائی، بالآخر پندرہ یوم کی کاوشِ پیہم کے بعد وہ نکتہ جیدی کے ہاتھ آ ہی گیا جسے وہ اپنی کام یابی کی پہلی کڑی کہتا اور پھر اللہ نے موقع بھی فراہم کر دیا۔

    ہُوا یوں کہ جیدی اپنے انٹر کے سرٹیفکیٹ کے سلسلے میں بورڈ آفس گیا۔ دو تین مقامات پر اسے یوں محسوس ہُوا گویا اسلم بھائی یہیں کہیں موجود ہیں۔ جب کہ کچھ ہی دیر پہلے وہ انہیں 105 درجہ بخار میں چھوڑ کر آیا تھا۔ امی نے چلتے وقت تاکیداً کہا تھا کہ اسلم بھائی بیمار ہیں، کئی مرتبہ وہ ہمارے کام آئے ہیں اُن کی عیادت کرتے ہوئے اپنے کام پر جانا۔“ اسلم بھائی بسترِ علالت پر ہیں تو پھر یہاں اُن کی موجودگی کا احساس مجھے کیوں ہورہا ہے؟ جیدی نے خود سے سوال کیا اور پھر کچھ ہی دیر کے مشاہدے اور غور و فکر کے بعد اسے اپنے سوال کا جواب مل گیا۔

    ایک اسلم بھائی پر ہی کیا موقوف ہے ایسے کئی افراد ہر محلے اور ہر ادارے میں اپنی مسلمہ حیثیت سمیت نظر آتے ہیں۔ وہ خاموش ہوں تب بھی اُن کا انگ انگ پکار رہا ہوتا ہے:

    میں چپ رہوں بھی تو نغمہ میرا سنائی دے

    ایسے لوگ ”میں کس لیے ہوں“ کی متحرک تصویر ہوتے ہیں۔ اس ایک جملے کی ادائیگی کے لیے کئی توانائیاں صرف کرنی پڑتی ہیں۔ یہ تو وہی جانتے ہیں جو بصد افتخار ”میں کس لیے ہوں‘‘ کی مخلصانہ پیشکش کرتے ہیں یا وہ جو اس راز سے واقف ہیں کہ خوشامد اور پی آر کے زور پر نہ صرف کام نکلوایا جا سکتا ہے بلکہ خود کو بھی منوایا جا سکتا ہے۔ ہاں بعض لوگ اپنی لیاقت اور منصب کی بنیاد پر بھی ”میں کس لیے ہوں“ کے دعوے دار ہوتے ہیں مگر وہ جو محض ذاتی تعلقات اور خوشامد کی بنیاد پر بہت اعتماد سے پیشکش کر دیتے ہیں۔ اس وقت اُن کی حالت بھی اسلم بھائی جیسی ہوجاتی ہے جب ذاتی تعلقات بھی کام نہیں آتے اور چرب زبانی بھی اپنا اثر نہیں دکھاتی۔ اس لیے ”میں کس لیے ہوں“ کا دعویٰ بھی بودا ثابت ہوجاتا ہے۔

    سلیم صاحب کو تسلی دے کر بخار کی پروا نہ کرتے ہوئے اسلم بھائی بورڈ آفس پہنچے تھے، وہاں جا کر معلوم ہوا کہ ظہیر صاحب گزشتہ ہفتے ہی سبک دوش ہوگئے۔ یہ سنتے ہی اسلم بھائی پر تو گویا سکتہ طاری ہوگیا۔ وہ جو بازی جیتنے آئے تھے اب ہارے ہوئے جواری کی طرح شکستہ قدموں سے واپس جانے پر مجبور تھے۔ اُن کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ سلیم صاحب کو وہ جو یقین دلا آئے تھے کہ ”آپ کا کام ہو جائے گا میں کس لیے ہوں“ اب اُن سے جا کر کیا کہیں گے۔ یہی کہ”میں اس لیے ہوں!‘‘ اور کوئی ذریعہ بھی نہیں تھا کہ اسلم بھائی اپنے ”میں کس لیے ہوں“ کا بھرم رکھ لیتے۔ شدید بخار میں یہاں تک آنے میں اسلم بھائی نے اتنی تھکن محسوس نہیں کی تھی جتنا احساسِ شکست نے اُنھیں تھکا دیا تھا۔

    جیدی جو اسلم بھائی کے آنے سے پہلے اُن کی عدم موجودگی کے باوجود اُن کی موجودگی کے احساس سے پریشان تھا، خاموشی سے ایک کونے میں کھڑا صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے جب معاملے کی تہ تک پہنچا تو اسلم بھائی کی شکستہ حالی نے اسے مغموم کر دیا۔ ”بے چارے اسلم بھائی۔ کیسے دوڑ دوڑ کر ہر ایک کے کام آتے ہیں۔ آج کتنے لاچار نظر آرہے ہیں۔ ایک ایک کر کے اسلم بھائی کی ساری نیکیاں جیدی کو یاد آنے لگیں۔

    جیدی نے ظہیر صاحب کی جگہ تعینات مجید صاحب پر ایک نظر ڈالی جو اس کے بہت قریبی دوست کے والد تھے اور اسے بھی اپنے بچّوں کی طرح عزیز رکھتے تھے اور اچانک ہی جیدی نے ایک فیصلہ کر لیا۔

    اس سے پہلے کہ اسلم بھائی نکل جاتے، جیدی نے اُنھیں جا لیا، ”قبلہ اسلم بھائی کہاں چلے۔ یہاں تشریف لائیے۔“ اپنے خیالوں میں مگن اسلم بھائی نے چونک کر جیدی کو دیکھا جو اُن کا ہاتھ تھام کر مجید صاحب کے کمرے کی طرف بڑھنے لگا تھا۔

    جب وہ مجید صاحب کے پاس پہنچے تو ”اب یہاں کیا رکھا ہے“ کہتے ہوئے اسلم بھائی نے سرد آہ کھینچی۔ ”میں کس لیے ہوں۔“ جیدی نے بے ساختہ کہا جسے سن کر اسلم بھائی ایک لمحہ کو ٹھٹھکے لیکن اگلے ہی پل نہایت محبت آمیز نظروں سے جیدی کو یوں دیکھا گویا اپنے جاں نشین کو دیکھ رہے ہیں۔ یکایک اُن کی چال کی لڑکھڑاہٹ ختم ہو گئی۔ اب وہ پُراعتماد قدموں سے جیدی کے ہم قدم چل رہے تھے اور ایک گھنٹے بعد فاتحانہ انداز میں جیدی کے ساتھ سلیم صاحب کے گھر جا کر اُن کو ان کا کام ہو جانے کا مژدہ سنارہے تھے۔ جواباً سلیم صاحب نے اسلم بھائی کو سپاس نامہ پیش کیا۔ ادھر جیدی جس کے چہرے پر اس وقت وہی خوشی نظر آرہی تھی جو وہ ایسے موقعوں پر اسلم بھائی کے چہرے پر دیکھا کرتا تھا لیکن اس کے ساتھ وہ انتہائی بے چینی سے اسلم بھائی کو دیکھ رہا تھا کہ کب وہ سلیم صاحب کو بتاتے ہیں کہ آج کی اُن کی کام یابی میں جیدی کا کردار بڑا اہم ہے اور یہ بھی کہ جیدی کے تعاون کے بغیر یہ ممکن ہی نہیں تھا۔

    اسلم بھائی سے توقع رکھتے وقت جیدی یہ بھول گیا تھا کہ یہ ان کی پہلی ناکامی ہے آخری نہیں اور یہ کہ اپنے مشن پر ڈٹے رہنے والے ناکامی ہی سے کام یا بی کا راستہ نکالتے ہیں۔ بیشک اپنے تئیں وہ اسلم بھائی کے وارث ضرور بن گئے تھے مگر سپر پاور اب بھی اسلم بھائی کے پاس تھی کہ مجید صاحب نے ان کا کام محض جیدی کی محبت میں نہیں کیا تھا بلکہ اس کام کے عوض انہوں نے مجید صاحب کا ان کے کام سے بھی بڑا کام کر دیا تھا، کب اور کس وقت یہ جیدی جان ہی نہیں سکا۔

    جانتا بھی کیسے؟ جیدی لاکھ شیر بن جائے مگر بی بلّی سے سیکھا سبق اسلم بھائی کیسے بھول سکتے تھے۔ اگر بلّی شیر کو پیڑ پر چڑھنا سکھا دیتی تو وہ شیر کی خالہ کیسے کہلاتی؟

    (انشائیہ نگار اور فیچر رائٹر شائستہ زرّیں کی ایک شگفتہ تحریر)

  • مجددِ سخن صبا اکبر آبادی کا تذکرہ

    مجددِ سخن صبا اکبر آبادی کا تذکرہ

    شعروں میں مرا خونِ جگر بول رہا ہے
    الفاظ ہیں خاموش ہنر بول رہا ہے

    اس شعر کے خالق خواجہ محمد امیر المتخلص بہ صبا اکبر آبادی ہیں۔ ان کا مقامِ پیدائش اکبر آباد (آگرہ) اور تاریخِ پیدائش 14 اگست 1908ء ہے۔ والد کا نام ڈاکٹر خواجہ علی محمد تھا۔

    صبا صاحب کی ساری عمر محبت کرنے اور بانٹنے میں بسر ہوئی۔ محض آپ کا طرزِ حیات ہی نہیں بلکہ وہ تمام اصنافِ سخن جن میں آپ نے طبع آزمائی کی گواہی دیتے ہیں کہ صباؔ اکبر آبادی سراپا محبت تھے اور یہ کہنے میں حق بجانب تھے کہ

    محبت کے علاوہ ہے ہنر کیا
    کیا ہے اور ہم نے عمر بھر کیا

    لیکن اس کارِ محبت نے آپ کو ناکارہ بنانے کے بجائے ایسا فعال بنا دیا کہ اپنے پرائے سب یکساں اعتماد کے ساتھ آپ کے درِ دل میں داخل ہوتے اور بلا تخصیص فیض پاتے۔ بقول آپ کی والدہ سرفرازی بیگم ”محمد امیر تو مانگنے والوں کو اپنے جسم کے کپڑے تک دینے سے باز نہ آئے گا۔“ گویا صباؔ صاحب کے دل میں موجزن محبت کے جذبات نے اعلیٰ انسانی و اخلاقی اقدار کو خوب خوب فروغ دیا۔ یہی رویہ آپ نے اپنی شعری تخلیقات میں بھی اختیار کیا اور بے اختیار کیا۔

    1920ء میں محض بارہ برس کی عمر میں مشاعرے میں شمعِ آزادی کے پروانوں کے ساتھ آپ نے خواجہ غیور اکبر آبادی کے نام سے فی البدیہ اپنا کلام سنایا۔ اُس روز آپ کے حصّے میں ایک نہیں تین اعزاز آئے تھے۔ اوّل نوعمری میں پہلا مشاعرہ پڑھ کر مشاعرہ لوٹنا وہ بھی رئیسُ الاحرار حسرت موہانی کی صدارت میں اور اُن سے داد وصول کرنا۔ دوم مشاعرے کے آخری شاعر جوش ملیح آبادی کے بعد پڑھنا اور سوم آپ کے والد ڈاکٹر خواجہ علی محمد کا آپ کا تخلیقی جوہر پہچان کر شاعری کی تربیت کے لیے آپ کو اخضرؔ اکبر آبادی کی شاگردی میں دینا۔

    اخضرؔ صاحب نے اپنے شاگرد کا تخلص صباؔ رکھ دیا۔ صبا اکبر آبادی نے حمد، نعت، منقبت، مرثیہ، سلام، رباعی، نظموں اور غزل میں نہ صرف طبع آزمائی کی بلکہ قادر الکلام شاعر کہلائے۔

    صبا اکبر آبادی کے حمدیہ اور نعتیہ کلام میں ایک عاشقِ صادق کا دل دھڑکتا ہُوا محسوس ہوتا ہے۔

    خالقِ ارض و سما کی اوّلین تخلیق تھے
    آخری پیغامِ رب دُنیا میں لائے مصطفیٰ
    مشغلے دونوں بہت اچھے ملے ہیں اے صباؔ
    حمدِ باری کر کے ہوتی ہے ثنائے مصطفیٰ

    صبا اکبر آبادی کے نعتیہ مجموعۂ کلام ”دستِ دعا“ کا انتساب ”اذانِ بلال“ کے نام ہے۔ گویا ایک عاشق کا دوسرے عاشق کو خراجِ عقیدت۔ صبا صاحب کے لیے نعت محض صنفِ سخن نہ تھی آپ کے دل کی لگی اور وہ طلب تھی جس میں تڑپ ہی تڑپ تھی۔

    رثائی ادب کی تخلیق میں صبا اکبر آبادی کی اصحابِ اہلِ بیت سے حقیقی محبت اور عقیدت کے تمام رنگ نمایاں ہیں۔

    1936ء میں تخلیق کیا جانے والا صباؔ صاحب کا پہلا مرثیہ ”شکستِ یزید“ آپ کے جذبۂ ایمانی کی شدت اور قوت کی دلیل ہی نہیں مرثیہ نگاری کا نقطۂ آغازبھی تھا۔ جوش ؔملیح آبادی نے آپ کے مرثیوں کے بارے میں کہا تھا کہ ”صباؔ کے مرثیے سُن کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا میر انیسؔ کی روح بول رہی ہے۔“ مرثیوں پر مبنی آپ کے شعری مجموعے ذکر و فکر، سر بکف، خونناب، قرطاسِ الم، شہادت‌ شائع ہو چکے ہیں۔

    رباعی کی صنف پر صبا صاحب کو کمال دسترس تھی۔ آپ نے کئی موضوعات پر رباعیاں تخلیق کیں۔ یہی نہیں اپنی ترجمہ کی صلاحیت کو اپنی رباعیات میں بڑی چابک دستی سے بروئے کار لاتے ہوئے حضرت امیر خسروؔ، حافظؔ شیرازی، خیامؔ اور غالبؔ کی تمام رباعیات کا اُردو میں ترجمہ کیا۔ ڈاکٹر جمیل جالبی رقم طراز ہیں، ”اگر غالبؔ بھی اپنی رباعیات کا اُردو ترجمہ کرتے تو بالکل ایسا ہی ترجمہ کرتے جیسا کہ صبا ؔصاحب نے کیا ہے۔“

    تضمین صبا ؔصاحب کی اعلیٰ شعری کاوش اور ”تضمینِ دیوانِ غالب“ ان کے شعری سفر کا بے مثال ادبی کارنامہ ہے جس کا آغاز 1938ء میں ہُوا اور اسی سال اس کی تکمیل ہوئی۔

    زمزمۂ پاکستان کے نام سے آپ کی چار قومی و ملّی نظموں پر مشتمل پہلا مجموعہ 1945ء اور دوسرا مجموعہ 1946ء میں شائع ہوا۔ زمزمۂ پاکستان کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہ پہلی کتاب ہے جس کا انتساب بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کے نام ہے۔ پہلی مرتبہ اردو شاعری کا کوئی مجموعہ ساٹھ ہزار کی تعداد میں شائع ہوا اور فروخت کے بعد ملنے والی تمام رقم قائدِ اعظم کی موجودگی میں مسلم لیگ کے فنڈ کے لیے لیاقت علی خان کو پیش کی گئی۔ ڈاکٹر اسلم ؔفرخی تحریر کرتے ہیں کہ ”زمزمۂ پاکستان“ اپنے ادبی حسن، جوش اور ولولے کی وجہ سے بھی اہم ہے اور تحریکِ پاکستان کی تاریخ سے وابستگی کی بنا پر یہ قومی تاریخ کا جزو بن گئی۔“

    صبا اکبر آبادی کی غزل میں اگر ایک جانب آپ کا طرزِ فکر اپنے پورے شعور کے ساتھ نمایاں ہے تو دوسری جانب احساس کی شدت، الفاظ کی ندرت اور غنائیت کا حسن بھی موجود ہے۔

    چمن میں پھول کھلے ہیں بہار آئی ہے
    ہمارے زخمِ محبت کی رونمائی ہے

    یہ ایک داغِ محبت کہاں چھپا رکھوں
    تمام عمر کا حاصل ہے کیا کیا جائے

    بس ذرا مہلتِ تخیل میسر آجائے
    کوئی مشکل ہے بیاباں کو گلستاں کرنا

    صبا صاحب کی غزلوں پر مشتمل تین شعری مجموعے اوراقِ گل، چراغِ بہار اور ثبات شائع ہو چکے ہیں۔ ان کا ادبی سفر محض شاعری تک محدود نہ تھا بلکہ نثری ادب اور صحافت میں بھی انھوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں سے خوب خوب کام لیا اور مولانا ابوالفرح کے قلمی نام سے کئی طنزیہ مزاحیہ اور سنجیدہ نوعیت کے مضامین سپردِ‌ قلم کیے۔

    29 اکتوبر 1991ء کو صبا اکبر آبادی اس دارِ‌ فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئے۔

    (تحریر: شائستہ زریں)

  • تقریب کچھ تو ‘بہرِ مفادات’ چاہیے!

    تقریب کچھ تو ‘بہرِ مفادات’ چاہیے!

    کتاب کی تقریبِ رونمائی کی خبر پڑھتے اور سنتے ہی جانے کیوں یہ مصرع یاد آجاتا ہے

    تھی خبر گرم کہ غالبؔ کے اُڑیں گے پرزے

    اور ساتھ ہی غالب ؔ کے دشمنوں کا خیال بھی آتا ہے کہ پرزے تو غیر ہی اُڑاتے ہیں اپنے تو پردہ رکھ لیتے ہیں اور سچ پوچھیے تو آئے دن اخبارات میں کتابوں کی تقریبِ رونمائی کا احوال پڑھ کر یقین سا آنے لگتا ہے کہ اس شعر کی تخلیق کے وقت غالبؔ کے ذہن میں بھی کہیں نہ کہیں ”دیوانِ غالبؔ“ کی تقریبِ رونمائی کا خدشہ سر اُٹھا رہا تھا کہ اُن کے دوست احباب قرضِ دوستاں چکانے کے لیے ایسی کسی تقریب کا اہتمام نہ کر ڈالیں اور چونکہ غالبؔ کی نظر بہت دور تک دیکھنے کی عادی تھی اس لیے غالب نے بھی بہت پہلے یہ نکتہ پا لیا تھا کہ تقریب میں کتاب اور صاحبِ کتاب کے پرزے ضرور اڑیں گے۔

    غالب پر تو اللہ نے بڑ ا کرم کیا ان کے نصیب میں وہ تماشہ لکھا ہی نہیں تھا جو اُن کے بعد آنے والوں کو بے طلب دیکھنے کو مل جاتا ہے۔ بھلا ہو اس ادبی فیشن کا جو روز بہ روز زور پکڑتا جا رہا ہے، کبھی صاحبِ کتاب خود اور کبھی کوئی اور اس کی محبت اور عقیدت سے سرشار صاحبِ کتاب کے دوستوں اور قارئین کا مجمع لگا کر صاحبِ کتاب کی بے محابہ توصیف اور کتاب پر ایسی رائے دینے پر مجبور کردیتا ہے کہ بیک وقت مصنّف کا حوصلہ اور کتاب کی ترسیل کا اہتمام ہو جائے۔ اس اجتماعی رائے زنی کا اثر کبھی کبھی مضحکہ خیز المیے کی صورت میں بھی ظاہر ہوتا ہے کہ پرزے اُڑانے والے صاحبِ کتاب کے رفیق بھی ہوتے ہیں جو حقِ رفاقت نباہتے ہوئے اس قدر نڈھال ہو جاتے ہیں کہ حاضرینِ محفل سوچتے ہیں کیا واقعی صاحبِ کتاب اتنا صاحبِ اعزاز ہے جتنا کہ اسے سراہا جا رہا ہے اور کیا مقالہ نگار اتنا صائب الرّ ائے ہے جتنا نظر آرہا ہے؟

    یہ تو خیر دوستوں کا احوال تھا مگر بعض انجانے بھی ایسے صاحب کمال اور صاحب کشف و کرامات ہوتے ہیں کہ کتاب اور صاحبِ کتاب کے مطالعے کے بغیر ہی محض ذاتی مفاد کی خاطر سنی سنائی پر اعتبار کر کے کتاب اور صاحبِ کتاب کا اعتبار قائم کرنے کی دھن میں اپنا اعتبار بھی کھو دیتے ہیں مگر وہ سب ضرور پا لیتے ہیں جس کے وہ آرزو مند ہو تے ہیں۔

    اس امر سے تو سب ہی واقف ہیں کہ معاشی اعتبار سے ادب کی منڈی میں کسی مصنّف کی قدر شناسی کا کس قدر کال ہے۔ کچھ تو فطرتاً ایسے بے نیاز ہوتے ہیں کہ صلے اور ستائش سے بے پروا ہو کر اپنا کام کیے جاتے ہیں لیکن حلقۂ ادب میں ایسے حضرات بھی ہیں جو خود کو منوانے کے لیے کوئی ایسا مؤثر طریقہ اختیار کرنا چاہتے ہیں جس سے ان کی ادبی حیثیت کو بھی تسلیم کر لیا جائے اور وہ تہی دست بھی نہ رہیں اور اس کے لیے وہ کتابوں کی تقریبِ رونمائی کو مفید قرار دیتے ہیں۔ ہمیں اعترا ض کسی کے مفاد پر نہیں۔ معترض تو ہم اس تقریب میں پڑھے جانے والے بعض مضامین پر ہیں جن میں پڑھنے والے کی ”رضا“ سے بڑھ کر صاحبِ کتاب کی” خوشنودی“ کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے۔ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس اہم تقریب میں مصنّف اور کتاب کی تشہیر کا خصوصی بلیٹن نشر کیا جاتا ہے، تب کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ حاضرین مضامین پڑھنے والوں کے بارے میں یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ

    یہ ملکِ سخن کے وہ منافق ہیں جو ہر ”شام“
    رکھ دیتے ہیں ایک تاج سَرِ بے ہنراں پر

    کتاب کی تقریبِ رونمائی کے موقع پر توصیفی کلمات ادا کیے اور تعریفی مضامین پڑھے جاتے ہیں لیکن آج تک ایسا نہیں ہوا کہ کسی نے کتاب کا گھونگھٹ الٹتے ہی صاحبِ کتاب سے بے بسی اور جی داری کی ملی جلی کیفیت میں سوال کیا ہو کہ

    تیری نئی کتاب پر کیا تبصرہ کروں؟
    مضمون منحنی سا ہے، عنواں جسیم ہے

    جی ہاں؛ ایسی کئی کتابیں منظرِ عام پر آئی ہیں جن کے عنوان کا خاصا رعب پڑتا ہے مگر جب ان کے مطالعے کی نوبت آتی ہے تو حیرانی و پریشانی کی یکجائی یہ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ جس مریض کی ”صحت“ پر شبہ ہو اس کا ”جشنِ صحت“ کیوں منایا گیا؟ لیکن تقریبِ رو نمائی میں‌ مقالات و مضامین میں تعریفوں کے پل باندھے جاتے ہیں۔ محض اس بنیاد پر کہ مقالہ نگار اخلاق اور ذاتی تعلق دونوں کو نباہنے کے ہنر اور اہمیت سے واقف ہوتے ہیں یا مروتاََ ایسا کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

    محض ذاتی تعلقات کی بنیاد پر کسی کتاب کی اس معیار کی تعریف کرنا جس سے کمتر درجے کی وہ کتاب ہو، صاحبِ کتاب کے لیے ”اعزاز“ نہیں ”آزار“ ہے۔ بہت ممکن ہے کتاب کی تقریبِ رونمائی میں مدح سرائی کرنے والے خیال کرتے ہوں کہ رونمائی کے ساتھ کسی بری یا حقیر شے کا تصور نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا کتاب پر تبصرہ بھی اعلیٰ درجے کا ہونا چاہیے۔ اندر سے خواہ کتاب کیسی ہی ہو۔ ظاہری حسن تو داد طلب ہے۔ بعض کتابوں کا سرورق متاثر نہیں کرتا مگر مطالعے سے ذوقِ کتب بینی بڑھ جاتا ہے اور ایسی بھی کتابیں ہوتی ہیں کہ سرورق پر نظر ڈالو تو ”واہ“ اور مطالعہ کرو تو ” آہ“ بھر کر رہ جاؤ گویا….

    کتاب چھپ گئی چھ رنگے ٹائٹل کے ساتھ
    کتابت اور طباعت کا بھی جواب نہیں
    مگر کتاب کی تقریبِ رونمائی میں
    کتاب چیخ رہی ہے کہ میں کتاب نہیں

    دلہن اچھی ہو یا بُری رونمائی کا حق تو دونوں کو حاصل ہے، یہی بات کتاب کے ضمن میں بھی کہی جا سکتی ہے کہ موضوع، اسلوب اور مواد خواہ کیسا ہی کیوں نہ ہو کتاب کی رونمائی کے آرزو مند ہر صاحبِ کتاب کے ارمان تقریبِ رونمائی کے ضمن میں کم و بیش یکساں ہوتے ہیں۔

    کتابوں کی رونمائی کی تقریبات شہر میں لگ بھگ اتنی ہی تعداد میں ہوتی ہیں جتنی کہ شادی کی تقریبات۔ کیونکہ شادی ہال کی طرح اس تقریبِ سعید میں تواضع کے لیے کبھی کبھار کھانے کو بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔

    بعض اوقات تقریبِ رونمائی کا اعزاز ایسی ہستی کے حصّے میں آجاتا ہے جو کتاب شناسی تو بڑی بات ہے، کتاب خوانی کی لذّت سے بھی محروم ہو۔ کیا کوئی صاحبِ کتاب واقعی اتنا بے بس ہوسکتا ہے کہ محض تشہیر اور ذاتی مفاد کی خاطر اپنی بے توقیری بخوشی قبول کر لے؟ کیا یہ مضحکہ خیز المیہ نہیں؟

    بعض کتابیں اپنے موضوع، اسلوب، مواد کے سبب وہ پذیرائی حاصل کر لیتی ہیں اور صاحبِ کتاب کو بھی علمی اور ادبی حلقے ہی سے نہیں بسا اوقات عام قارئین کی جانب سے بھی وہ ”اعتبار“ حاصل ہو جاتا ہے جو اس کتاب اور صاحبِ کتاب کو حاصل نہیں ہوتا جس کی تشہیر کے لیے کسی”پانچ ستارہ“ ہوٹل میں تقریب کا انعقاد کیا گیا ہو یا جس تقریب کی صدارت کسی ”اعلیٰ سرکاری افسر“ یا کسی بڑی تجارتی کمپنی کے مالک کے حصّے میں آئی ہو۔

    (فیچر رائٹر اور مضمون نگار شائستہ زریں‌ کے قلم سے)

  • اشیاء بدل بہن!

    اشیاء بدل بہن!

    بعض لوگ کوئی نہ کوئی علّت پال لیتے ہیں۔ روشن بھی انہی میں سے ایک ہے جو بہنیں بنانے کی علّت کا شکار ہے۔ وہ اپنے اخلاص اور محبت کی تمام روشنی اپنی ایسی بہنوں میں منتقل کر کے بہت خوش نظر آتی ہے۔

    سچ تو یہ ہے کہ نئے اور ایسے انوکھے رشتے بنانا آسان مگر بنا کر نباہنا سہل نہیں ہوتا بلکہ یہ ہر ایک کے بس کی بات بھی نہیں ہوتی لیکن روشن، روشن ہی ہے جو اپنے کسی خیال پر تاریکی کا سایہ تک نہیں پڑنے دیتی بلکہ نام کی طرح اُس کی سوچ کی کرنیں بھی اپنے عمل سے روشنی بکھرتی رہتی ہیں۔

    روشن کا کمال یہی ہے۔ وہ نبھانا خوب جانتی ہے۔ ہر نئی بہن سے غضب کا بہناپا ہوتا ہے اور اس سے بڑا ہنر ہے مساوی تقسیم کہ دیکھ کر تعجب ہی نہیں ہوتا بے اختیار داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ کسی سے سلوک میں رتی برابر بھی فرق نہیں کرتی۔ یہ فن تو ہماری روشن پر تمام ہے تمام۔

    کسی محفل میں چلے جائیے اور وہاں روشن بھی ہوں تو ان کی کوئی نہ کوئی بہن ضرور نظر آجائے گی اور یوں بھی ہوتا ہے جب تک روشن گھر واپسی کی راہ پکڑتی ہیں ان کے دل میں ایک اور بہن کی آمد اور محبت کے چراغ روشن ہو چکے ہوتے ہیں۔ صرف دوپٹہ بدل بہنوں کی تعداد سات ہے اور بھی کئی اشیاء بدل بہنیں ہیں۔ بہت ہی حرافہ ہے میری یہ نند، روشن جس کا نام ہے۔ بَڑھیا دوپٹوں کے عوض اپنا معمولی دوپٹہ دے کر دوپٹہ بدل بہن بن کر سُرخرو ہو جاتی ہے۔

    روشن کے گھر کبھی کسی تقریب میں چلی جاؤ، ان کی ایسی بہنوں کا میلہ ضرور لگتا ہے۔ ان کی اکثریت سے میری بھی شناسائی ہے۔ گزشتہ ماہ روشن کی ایسی ہی کئی بہنوں سے ملاقات ہوئی۔ ان میں ایک نیا چہرہ بھی نظر آیا جس پر روشن جی جان سے نثار ہو رہی تھیں۔ تعارف پر میں چونکی جب روشن نے کہا ’’بھابھی بیگم ان سے ملیے یہ میری ڈبہ بدل ہیں۔“

    ”اَیں کون سی بہن؟ مجھے اپنی سماعت پر کچھ شک سا گزرا۔ میری کیفیت دیکھتے ہوئے روشن نے بے ہنگم قہقہے لگاتے ہوئے داستانِ ملن یوں سنائی کہ ”بھابھی بیگم! ہُوا یوں کہ کل میں بازار گئی تھی، لان کے سوٹ لینے۔ عجلت میں ہمارے ڈبے بدل گئے۔ گھر آکر جو دیکھا تو میرا لیا ہوا ایک بھی سوٹ اس میں نہیں، بھاگم بھاگ بوتیک پہنچی۔ وہاں یہ بھی لشتم پشتم آ موجود۔ ہم نے ڈبوں کا تبادلہ کیا اور آن کی آن میں ہم ڈبہ بدل بہنیں بن گئیں۔“

    اپنی نوعیت کے اس انوکھے ملن نے مجھے دنوں حیرت میں مبتلا رکھا۔ ابھی میں اس حیرانی سے سنبھل بھی نہ پائی تھی کہ روشن نے اپنے نئے بنگلے کی خوشی میں ایک تقریب کا انعقاد کیا، جہاں دو خواتین روشن کی خصوصی توجہ کا مرکز تھیں۔ مجھے دیکھتے ہی روشن لپک کر میرے پاس آئیں اور ان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ ”بھابھی بیگم! وہ جو سبز ساڑھی میں ہیں نا وہ میری بنگلہ بدل بہن ہیں جنھوں نے میرا وہ والا بنگلہ خریدا ہے اور وہ جو سرخ اور سفید پشواز میں بالکل انارکلی لگ رہی ہیں، اُن سے میں نے یہ والا بنگلہ خریدا ہے، آئیے آپ کو اپنی بنگلہ بدل بہنوں سے ملواؤں۔“

    ابھی روشن نے قدم آگے بڑھائے ہی تھے کہ کسی کے فوری بلاوے پر اس کی جانب بڑھ گئی۔ میری بڑی بیٹی صفیہ اس معاملے میں پھوپھی پر گئی ہے۔ کمبخت کی صورت ہی نہیں حرکات بھی ددھیالی ہیں، دوسری روشن ہے۔ ابھی صرف سولہ برس کی ہے اور تین اشیاء بدل بہنیں بنا چکی ہے۔ جانے آگے جا کر کیا گل کھلائے گی۔ میری تو ابھی سے طبیعت گھبرانے لگی ہے۔

    اور پھر اس وقت رفیعہ بیگم جو روشن کی بھابھی ہیں، ان کی روانی سے چلتی ہوئی زبان رک گئی۔ ان کی چھوٹی بھابھی نے بھری محفل میں انہیں آئینہ دکھا دیا تھا۔

    ”آپا جان آپ کی زبان کو تو لگام ہی نہیں، میرٹھ کی قینچی بھی کیا تیز چلتی ہوگی جیسی آپ کی زبان چلتی ہے۔ بیچاری روشن باجی کو بہنیں بنانے کا شوق ہی تو ہے اور تو کوئی برائی نہیں۔“

    ”ہاں بیٹا ایک ہی شوق ہے اور وہ بھی ایسا کہ جو ”لاعلاج مرض“ کی صورت اختیار کر گیا ہے۔“ رفیعہ نے کہا۔

    ”آپا جان اس میں بُرائی ہی کیا ہے؟ روشن باجی دل کی بہت اچھی ہیں، انہوں نے کبھی کسی کی برائی نہیں کی اور سنا تو میں نے یہی ہے کہ روشن باجی کے اس شوق نے ہی توآپ کو اُن کی بھابھی بنایا ہے۔ نہ روشن باجی آپ کو کتاب بدل بہن بناتیں اور نہ ہی آج آپ اُن کی بھابھی کہلاتیں۔ نہ آپ پہلی مرتبہ بہن بنانے پر اُن کی حوصلہ افزائی کرتیں نہ روشن باجی اس شوق کو پروان چڑھاتیں، اب بھگتیے۔“

    ”ہاں بیٹا بھگت ہی تو رہی ہوں اور جانے کب تک بھگتوں گی، وہ کتاب تو آج تک نہ پڑھی جس کے بدلے پہلے ان کی بہن اور پھر بھاوج بنی، لیکن روشن کے بھیا کی کتاب زیست پڑ ھ پڑھ کر عاجز آگئی، اتنا اُلجھاؤ کہ اللہ میری توبہ۔ ہائے کیا بھلی کتاب تھی جو روشن نے مجھ سے بدلی تھی، اس کا سرورق بھی تو ڈھنگ سے نہیں دیکھ پائی تھی۔ اور وہ کتاب جو روشن نے مجھے دی تھی، بھابھی بناتے ہی مجھ سے ہتھیا لی۔ ہائے میری چالاک نند میں کتنی بھولی تھی۔“

    رفیعہ خاموش ہوئیں تو اُن کی بھابھی نے اُنہیں ماضی بعید سے ماضی قریب میں لاتے ہوئے کہا، ”آپا جان آپ نے بھی تو مجھے بیٹی بنا کر بھابھی بنا ڈالا مگر میں تو بُرا نہیں منایا۔ ہائے میں کتنی معصوم تھی۔“

    چھوٹی بھاوج کی شرارت پر جو اُنھیں، مثل بیٹی کے عزیز تھی رفیعہ بیگم مسکرا دیں تو روشن جو جانے کب سے وہاں کھڑی ان مکالموں سے لطف اندوز ہو رہی تھیں مسکراتے ہوئے آگے بڑھیں اور ”بھابھی بیگم! بہن نہیں ہیں“ کہہ کر اُن سے لپٹ گئیں۔ رفیعہ بھی ہنس دیں۔

    ”وہ تو میں ہوں بلکہ حرفِ اوّل تو میں ہی ہوں، مجھے پہلی مرتبہ دیکھتے ہی تمہارے دل میں بہن بنانے کی ہڑک اُٹھی تھی۔ اللہ تمہارے اس شوق میں دن دگنی رات چوگنی ترقی دے، مگر اللہ کے واسطے اپنی بھتیجی کو اس علت سے نجات دلا دو۔ تمہاری احسان مند رہوں گی۔“

    ”بھابھی بیگم! یہ ممکن نہیں کیونکہ ہفتہ بھر پہلے جو لڑکی ہماری صفیہ کی دوپٹہ بدل بہن بنی تھی، کل اس کی امی آئی تھیں صفیہ کے لیے۔ گھرانا بہت اچھا ہے اور لڑکا بھی۔“ روشن کے انکشاف پر رفیعہ کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ یعنی؟ ’جی ہاں بھابھی بیگم تاریخ خود کو دہرا رہی ہے، بس جغرافیہ بدل گیا ہے۔“

    ”اللہ کی رضا یہی ہے تو میں کیا کرسکتی ہوں، پَر صفیہ کو سمجھا دو کہ شادی کے بعد جو جی چاہے کرے، جتنی چاہے اشیاء بدل بہنیں بنائے ابھی تو مجھے بخش دے۔“

    رفیعہ بیگم نے ہاتھ جوڑدیے تو روشن کھلکھلا کر ہنس دیں۔ ”امی بھی تو مجھ سے یہی کہتی تھیں، میں نے بھی جی بھر کر بھراس نکالی۔“

    ”اور تمہاری طبیعت ابھی تک نہیں بھری۔“ بھابھی بیگم نے مسکراتے ہوئے پوچھا تو وہ ہنس دی، ”ارے بھابھی اشیاء بدل بہن بنا کر تو دیکھیں، کتنا لطف آتا ہے ایسے رشتے ناتے جوڑنے میں۔ ابھی ابھی میری ایک کیبل بدل بہن بنی ہیں آپ تو جانتی ہیں… مجھے ”مصالحہ“ کی چاٹ پڑی ہے اور انھیں ”ذائقہ“ کا لپکا ہے۔ وہ پڑوسی ملک کے ڈراموں کی دیوانی ہیں اور مجھے پاکستانی ڈرامے بھاتے ہیں، اس لیے آج سے ہم کیبل بدل بہنیں بن گئی ہیں۔“

    روشن اطلاع دے کر آگے بڑھی تو میں سرد آہ بھر کر رہ گئی۔ اس کے علاوہ میں کر بھی کیا سکتی ہوں، اپنی کرنی تو مجھے بھرنی ہی ہے۔ نند کے ساتھ ساتھ اب بیٹی بھی تو اس راہ کی مسافت طے کر رہی ہے۔

    (مضون نگار اور فیچر رائٹر شائستہ زرّیں کے قلم کی شوخی)

  • "خالہ گرم مسالہ کا ہر انداز نرالا”

    "خالہ گرم مسالہ کا ہر انداز نرالا”

    خالہ گرم مسالہ کا اصل نام تو حسینہ خاتون ہے۔ وہ محلہ بھر میں گھوم پھر کر اِدھر کی خبریں اُدھر اور اُدھر کی اِدھر اس برق رفتاری سے پہنچاتی ہیں کہ بسا اوقات لوگوں کو بھی اپنے گھر کی باتیں محلّے والوں کی زبانی معلوم ہوتیں۔ اور وہ حیران رہ جاتے کہ جن باتوں کا علم گھر کے تمام افراد کو نہیں خالہ گرم مسالہ تک اُن کی رسائی کیسے ہوئی اور اُس کی محلّے میں دھوم کیسے مچ گئی؟

    سادہ سی خبروں میں نمک مرچ لگا کر گرم مسالہ کا تڑکا لگانا بھی خوب جانتی ہیں۔حسینہ خاتون کے اسی ہنر کو دیکھتے ہوئے محلے کے ایک بچّے نے آپ کو ”خالہ گرم مسالہ“ کا نام دیا جس نے اصل نام سے زیادہ شہرت پائی۔

    یہی نہیں اور بھی کئی ہنر ایسے ہیں جن میں خالہ گرم مسالہ طاق ہیں۔ مثلاً خالہ گرم مسالہ کو سُنانے کا بہت ہوکا ہے۔ خواہ وہ گیت ہو یا ریت، حکایتیں ہوں یا شکایتیں، باتیں ہو یا داستانیں۔ کھری کھری ہوں یا بے بھاؤ کی جب بھی سناتی ہیں جی بھر کر سناتی ہیں۔ جبریہ سننے والوں کی تو کیا کہیے کبھی کبھی تو شوقیہ سننے والے بھی سُن کر جی بھر کر بدمزہ ہو جاتے ہیں۔

    اپنے ان تمام ”ہوکوں“ کے توسط سے خالہ گرم مسالہ اپنی ہر سنانے والی بات حسبِ ضرورت اپنے مخاطبین کو سناتی ہیں۔ بالخصوص شکوؤں شکایتوں کا ہوکا تو وہ کسی ہُڑکے کی طرح کرتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی بڑے سلیقے سے اپنی اہمیت بھی منوانے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس ضمن میں اُن کا سب سے بڑا شکوہ ”مجھے بھول گئیں ناں“ ہوتا ہے۔ معلوم نہیں کیوں ایک دن بیٹھے بٹھائے خالہ گرم مسالہ کو خیال آیا کہ لوگ مجھے بھولتے جا رہے ہیں۔ حالانکہ یہ محض اُن کا وہم تھا۔

    لو بھلا بتاؤ؟ کیا وہ ایسی شے ہیں جنہیں بھلا دیا جائے؟ ہر گز نہیں۔ جس کو دیکھو اُس کی زبان پر خالہ گرم مسالہ کا نام ہے۔ وہ دن اور آج کا دن خالہ گرم مسالہ کا ”مجھے بھول گئیں ناں“ کا ”ہوکا“ عروج پر ہے۔ جہاں خالہ گرم مسالہ اپنے طور اپنی موجودگی لازمی سمجھتی ہیں وہاں وہاں اپنی عدم موجودگی کا گلہ ضرور کرتی ہیں اور یہ گلہ محض ”مجھے بھول گئیں ناں“ تک محدود نہیں رہتا بلکہ وہ اپنے مخاطبین کو اس حشر برپا موقع پر ماضی کے حوالے دے کر کچھ اس طور سناتی ہیں کہ سننے والے سننے کی ہر خواہش سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔ کتنا ہی خالہ گرم مسالہ کو یقین دلائیں کہ آپ کو بھولا کوئی نہیں، بات صرف اتنی سی ہے کہ ہر جگہ اور ہر مقام پر آپ کی شمولیت ضروری نہیں لیکن خالہ گرم مسالہ مان کر ہی نہیں دیتیں۔ ہر دلیل رد کر دیتی ہیں۔ کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ یہ اُن کا حق بلکہ پیدائشی حق ہے کہ جس ہنر میں اُنہیں معمولی سی بھی دسترس ہے، اس حساب سے نہ صرف اُنہیں یاد رکھا جائے بلکہ پیش پیش بھی رکھا جائے۔ اور جاننے والے بھی جانتے ہیں کہ اُن کی شمولیت اور عدم شمولیت کہاں ضروری ہے سو وہ اسی حساب سے اُنہیں مدعو اور نظر انداز کرتے ہیں۔

    بعض تجسس کی ماری خواتین تو اوروں کے گھروں کی سُن گن لینے کے لیے خالہ گرم مسالہ کی خدمات حاصل کرتی ہیں اور خالہ گرم مسالہ یہ ”فلاحی کام“ بلا معاوضہ بڑی لگن اور محنت سے کسی مشن کی طرح یوں کرتی ہیں گویا پیشہ ور سماجی کارکن ہیں۔

    ایک روز تو حد کر دی۔ ہُوا یوں کہ فیروزہ خالہ کی منجھلی بیٹی درخشاں کے رشتے کی بات اپنوں میں چل رہی ہے یا غیروں میں اور یہ بھی کہ لڑکا کیا کرتا ہے؟ جاننے کی خواہش میں بمشکل گھنٹہ بھر سوئیں اور شب بھر جاگ کر اپنے اس مشن میں کامیابی کے لیے دعائیں کرتی رہیں۔ ساتھ ہی اپنے منصوبہ بند ذہن کو بھی متحرک رکھا کہ جانے کب کہاں سے کون سا سرا ہاتھ لگ جائے۔ لیکن عقدہ تھا کہ حل ہو کے ہی نہیں دے رہا تھا، پھر یہ بھی ہے کہ خالہ گرم مسالہ اس امر سے بھی تو بخوبی واقف تھیں کہ یہاں دال گلنی بہت مشکل ہے کہ خالہ فیروزہ کے گھر کے ہر فرد کا پیٹ کسی گہرے کنوئیں کی مانند ہے جہاں سے بات نکلوانا کارِ محال ہے۔لیکن خالہ گرم مسالہ بھی خالہ گرم مسالہ ہیں۔ شب بھر دماغ لڑاتی رہیں۔ بالآخر کامیاب ہو ہی گئیں۔ اُنہوں نے فیصلہ کر لیا کہ کنواں جتنا گہرا ہے ڈول بھی اتنا ہی بڑا ڈالا جائے لیکن احتیاط سے۔

    صبح سویرے ہی وہ اپنے مشن پر نکل کھڑی ہوئیں اور حیرت انگیز طور پر دس فیصد معلومات حاصل کر لیں جس پر وہ بہت نازاں تھیں کہ جہاں سے ایک فیصد بات اُگلوانا بھی ناممکن ہے، وہاں سے اُن کی ناممکن کی جستجو نے ممکنہ فتح حاصل کر لی۔ وہ جان گئی تھیں کہ درخشاں کے رشتے کی بات چیت اُس کی امی کی خالہ زاد بہن کے نواسے سے چل رہی ہے جو ایک سرکاری ادارے میں آفیسر ہے۔ اتنا بھید بھی خالہ گرم مسالہ کی سیماب صفت اور تجسس پسند فطرت کے لیے کافی تھا۔ جہاں وہ اپنی اس غیر متوقع کامیابی پر بہت مسرور تھیں وہاں ”لڑکے“ کی سرکاری آفیسر والی اطلاع اُنہیں تشویش میں مبتلا کر گئی کہ سرکار کی تو خود حالت بہت پتلی اور غیر ہے۔ جس کی اپنی ترقی خطرے میں ہو، جو خود اپنی خیر خواہ نہ ہو، ایسی سرکار سے کیا توقع رکھی جا سکتی ہے؟

    اور پھر خالہ گرم مسالہ نے اس خبر کو بارہ مسالوں سے آراستہ کیا اور جہاں تک ممکن ہو سکا یہ خبر سماعتوں کی نذر کر دی۔ چونکہ خالہ گرم مسالہ خود سیراب نہ ہو سکیں تھیں۔ اس لیے اوروں کو مطمئن کرنا اُن کے لیے خاصی بڑی آزمائش تھی۔ کہ لوگ اس نامکمل معلومات میں دل چسپی نہیں لے رہے تھے۔ لیکن خالہ گرم مسالہ کی سنانے کی ہوس تھی کہ ختم ہو کر ہی نہیں دے رہی تھی۔

    اور پھر یوں ہُوا کہ خالہ گرم مسالہ کے برس ہا برس کے تجربات سے مستفیض ہونے کے لیے ایک ادارے نے اُن سے رابطہ کر لیا۔ بے شک سیاسی بصیرت اُن میں نام کو نہیں لیکن خالہ گرم مسالہ اپنی زباں دانی کے جوہر اور لفظوں کے ہیر پھیر سے سیاسی مبصرین کو باہمی جھگڑوں میں الجھا کر مات دینے کا ہنر خوب جانتی ہیں۔ ابھی خالہ گرم مسالہ کو پیشکش ملے گھنٹہ بھر بھی نہ ہوا تھا کہ آپ نے محلے بھر میں الم نشرح کر دیا۔ محلّے والوں نے خوشی کا بھر پور اظہار کیا اور خالہ گرم مسالہ کو جلد از جلد یہ پیشکش قبول کرنے کی تاکید بھی کی۔ خالہ گرم مسالہ خوشی سے پھولے نہ سمارہی تھیں کہ خالو ببلو بیچارے (خالہ گرم مسالہ کے میاں) نے یکایک بے چارگی کا لبادہ اُتار پھینکا اور اپنی ازدواجی زندگی کے پچاس سالہ عرصے میں پہلی مرتبہ جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے خالہ گرم مسالہ پر قدغن لگا کر اُنہیں اس فعل سے باز رکھا جو وہ اگر اختیار کر لیتیں تو جہنم کے دروازے اُن کے لیے کھل جاتے۔ ابھی بھی وہ محلّے بھر میں کون سا کارِ خیر کر رہی تھیں لیکن شر کی جو تاریخ وہ رقم کرنے جا رہی تھیں اس کا کفارہ بہت مشکل تھا اور جب یہ خبر عمران تک پہنچی جس نے خالہ گرم مسالہ کے میاں کو خالو ببلو بیچارے کے خطاب سے نوازا تھا، ببانگِ دہل اعلان کرتا پھر رہا تھا کہ ”خالو ببلو بیچارے بنے انگارے۔“ لیکن نہ جانے خالو ببلو نے خالہ گرم مسالہ کے کانوں میں کیا صور پھونکا تھا کہ وہ اس خواہش سے تائب ہو گئیں تھیں اور چینل والوں کے بے حد اصرار پر بھی راضی ہو کر ہی نہیں دے رہی تھیں۔

    خالہ گرم مسالہ کے قطعی انکار سے عمران سخت آزردہ تھا۔ اُس نے سب سے زیادہ کوشش کی کہ خالہ گرم مسالہ کو بھڑکا کر راضی کر سکے تاکہ خالہ گرم مسالہ کے توسط سے وہ بھی سوشل ورکر بننے کا اپنا برسوں پرانا خواب پورا کر سکے۔ اور اب خالو ببلو بیچارے خالو خسارے بنے اُس کی راہ کی دیوار بن رہے تھے۔ جب خالہ گرم مسالہ عمران کے پے در پے سوالوں سے زچ آگئیں تو اُنہوں نے بڑے سبھاؤ اور تدبر سے کہا کہ ”سر اور دستارکی سلامتی اسی میں ہے کہ اس جھنجھٹ سے دور رہا جائے۔“ عمران ہونق بنا اُن کی شکل دیکھے گیا اور جب کچھ دیر بعد اُس کاسکتہ ٹوٹا تو اُس نے صرف اتنا ہی کہا ”کاش خالو ببلو بیچارے، بیچارے ہی بنے رہتے۔ کر دیا نا اُنہوں نے آپ کا کباڑا، بن گئے نا خالو مرچ مسالہ۔آج تک کسی نے آپ کو کچھ کہا؟ کس شان سے سر اُٹھا کر جی رہی ہیں۔“

    ” عمران بیٹا! بے شک شان سے ہی نہیں آن سے بھی جی رہی ہوں۔ لیکن اس لیے کہ اپنوں کے درمیان ہوں۔ اپنا مارے گا تو پھر چھاؤں میں بٹھائے گا۔ وہ کون سے میرے اپنے ہیں جو میرا مان رکھیں گے۔“

    اور عمران! خالہ گرم مسالہ کے اپنے پرائے کے فلسفے میں الجھا سوچ رہا تھا۔خالہ گرم مسالہ کا اپنوں پہ یہ کیسا مان ہے جس نے اُن کو شہرت کی خواہش سے ہاتھ کھینچنے پر مجبور کر دیا۔ کیا واقعی اپنائیت کا احساس ایسا طاقتور ہوتا ہے جو خالہ گرم مسالہ کو خالہ نرم دو شالہ بننے پر آمادہ کر دے؟

    (شائستہ زریں کے قلم سے)