Tag: شادی بیاہ

  • پاپوش، جوتی یا جُتّی!

    پاپوش، جوتی یا جُتّی!

    کس کو مطلب ہے کہ اب اُن سے ملاقات کرے
    ایسے خود غرضوں سے پاپوش مری بات کرے

    اس شعر میں لفظ ’’پا پوش‘‘ سے مراد جوتا، جوتی، چپل یعنی پیروں کا مخصوص پہناوا ہے۔ اسی ’’پا پوش‘‘ کا اردو محاورے میں استعمال کچھ یوں ملتا ہے۔

    اونٹ برابر ڈیل بڑھایا، پاپوش برابر عقل نہ آئی!

    ان مثالوں نے آپ پر واضح کر دیا ہو گا کہ پا اور پوش اردو زبان میں الگ الگ معنی رکھتے ہیں، لیکن یہاں اس کا سادہ سا مطلب جوتے ہیں۔

    یہ تمہید باندھنے کا مقصد اُس پاپوش کا تذکرہ ہے جسے برصغیر کی مقامی بولیوں میں جوتی یا جُتّی بھی کہتے ہیں۔ پیر کا یہ پہناوا چمڑے سے تیار کیا جاتا ہے۔

    پنجاب اور دیگر علاقوں‌ کے اس خاص پاپوش کی خوب صورتی بڑھانے کے لیے اس پر نازک اور باریک کام کیا جاتا ہے۔ یہ کام سونے یا چاندی کے تاروں کا بھی ہوسکتا ہے۔

    ہندوستان میں ایک زمانے میں پنجابی جتّی بہت پسند کی جاتی تھی جن کو امرا تقاریب میں پہن کر جانے کے لیے خاص طور پر تیار کرواتے تھے۔ تاہم بدلتے دور کے ساتھ ربڑ سول اور دوسرے میٹیریل سے تیار کردہ جوتوں یا سینڈلوں کا استعمال ہونے لگا۔

    خالص چمڑے اور نہایت نفاست و مہارت سے کیے گئے کام والے پاپوش کے علاوہ اس قسم کی جوتی یا پنجابی جُتّی کو کم قیمت پر عام لوگوں کے لیے بھی تیار کیا جاتا ہے۔ یہ مخصوص دست کاری سے مزین ہوتی ہیں جن کے ہندوستان میں امرتسر اور پٹیالہ اہم مراکز رہے ہیں۔

    پنجابی جُتیاں مرد اور عورتوں دونوں کے لیے تیار کی جاتی ہیں اور ان کے ڈیزائن مقامی ثقافت اور لوگوں کی پسند کے مطابق ہوتے ہیں۔

    مردانہ اور زنانہ جُتّیوں کی شکل لگ بھگ ایک سی ہوتی ہے، لیکن ان میں فرق ضرور ہوتا ہے۔ مردوں کے پاپوش کا اگلا حصہ نکیلا یا قدرے بلند ہوتا ہے جب کہ زنانہ پہناوے میں نزاکت اور خوب صورتی کے ساتھ نقاشی یا دست کاری کی جاتی ہے۔

    شادی بیاہ کے علاوہ عام تقریبات میں پہننے کے لیے لوگ عموماً دست کاری سے سجے پاپوش خریدتے ہیں۔

  • اردو زبان مسلمانوں‌ میں‌ اختلافات اور دوریوں‌ کی وجہ؟

    اردو زبان مسلمانوں‌ میں‌ اختلافات اور دوریوں‌ کی وجہ؟

    بھارتی ریاست تامل ناڈو کا شہر چنائے کبھی مدراس کے نام سے جانا جاتا تھا۔

    یہاں کی زبان تامل یا تمل ہے جو یوں‌ تو سبھی بولتے اور سمجھتے ہیں، مگر چند مقامی زبانیں‌ یا بولیاں بھی لوگوں میں رابطے کا ذریعہ ہیں۔ تامل ناڈو ریاست کے مختلف شہر اپنی مخصوص ثقافت کی وجہ سے الگ پہچان رکھتے ہیں۔

    مدراس یعنی چنائے کی بات کی جائے تو یہ شہر ہمیشہ اہمیت کا حامل رہا ہے۔ ہندوؤں کے ساتھ ساتھ یہاں کی بیش تَر مسلم آبادی بھی مقامی ثقافت میں رنگی ہوئی ہے اور ایک لحاظ سے متنوع ہے۔ تاہم زبان کے فرق نے چنائے کے مسلمانوں کو ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے۔

    مسلمانوں کا ایک گروہ وہ ہے جو اردو کو مادری زبان مانتا ہے اور ان کے لیے یہ زبان تہذیبی اور مذہبی شناخت کا اہم ذریعہ ہے جب کہ ریاست کے اندرونی اور ساحلی علاقوں کے مسلمان خاندانوں کا اردو سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ تامل بولتے اور ہر معاملے میں اسی زبان اور مقامی بولیوں کو اہمیت دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک مسئلہ زبان نہیں ہے بلکہ وہ ثقافت ہے جسے وہ اس خطے کی اساس اور پہچان سمجھتے ہیں۔

    تامل ناڈو میں بہت تجزیہ نگار اور دانش وَر بھی اردو بولنے والوں پر تنقید کرتے ہیں اور انھیں سیاسی یتیم کہا جاتا ہے ۔ ان کی نظر میں اردو کو اپنی مذہبی شناخت اور ثقافت کے لیے ناگزیر سمجھنا ایک پسماندہ سوچ ہے۔

    حقیقت یہ ہے کہ تامل ناڈو اور چنائے جیسے بڑے شہر میں اردو بولنے والے مسلمان تعلیمی اور اقتصادی اعتبار سے بھی پسماندگی کا شکار ہیں۔ ان کی معاشی حالت بھی اچھی نہیں اور ان میں سے بیش تَر تجارت اور معمولی کاروبار کرتے ہیں۔ یہ اپنے مذہب اور اردو زبان کی بنیاد پر اپنے رہن سہن اور ثقافت کا تعین کرتے ہیں۔

    دوسری جانب تامل بولنے والے مسلمانوں اور اردو بولنے والے مسلمانوں کے درمیان عام معاملات میں کھنچاو اور ایک قسم کی دوری نظر آتی ہے اور بعض علاقوں میں تو ان کے سماجی روابط برائے نام ہیں۔

    اردو اور تامل بولنے اور مخصوص ثقافت کے حامی ان مسلمان خاندانوں میں سماجی خلیج نے انھیں آپس میں شادی بیاہ کرنے سے بھی دور رکھا ہوا ہے۔ یہ آپس میں‌ کسی قسم کے مراسم اور تعلقات استوار نہیں‌ کرنا چاہتے بلکہ تامل زبان بولنے والے جانتے ہیں کہ اردو بولنے والے مسلمان انھیں اچھا اور مکمل مسلمان ہی نہیں مانتے اور یہ بات بڑی حد تک درست بھی ہے۔

  • چینی لڑکی کا قبولِ اسلام، پاکستانی نوجوان سے شادی کر لی

    چینی لڑکی کا قبولِ اسلام، پاکستانی نوجوان سے شادی کر لی

    لاہور: پاک چین دوستی کا ایک خوب صورت نظارہ ایک بار پھر دیکھنے میں آیا ہے، چینی لڑکی چونگ نے اسلام قبول کر کے جرمنی میں مقیم پاکستانی نوجوان علی رضا سے شادی کر لی۔

    اے آر وائی نیوز کی خصوصی رپورٹ کے مطابق جرمنی میں مقیم پاکستانی نوجوان نے پاک چین دوستی کو ایک حقیقت بنا دیا، علی رضا نے لاہور میں چینی لڑکی چونگ سے جیون بھر کا ناتا جوڑ لیا۔

    چینی لڑکی چونگ نے اسلام قبول کر کے اپنا نام دعا علی رکھ لیا، دعا کا کہنا ہے کہ پاک چین دوستی بہت مضبوط ہے۔

    چینی لڑکی اور جرمنی میں مقیم پاکستانی نژاد علی رضا نے ماں باپ کی خواہش پر شادی لاہور میں کرنے کا فیصلہ کیا اور پاکستانی روایات کے مطابق رسومات ادا کی گئیں۔

    یہ بھی پڑھیں:  پاکستانی لڑکے کی محبت میں چینی لڑکی نے اسلام قبول کرلیا

    نئی دلہن کا کہنا ہے کہ پاکستان ایک پُر امن ملک ہے اور پاک چین دوستی بہت مضبوط ہے، دلہا علی رضا کا کہنا تھا کہ اہلیہ کی خواہش پر پی ایس ایل کا فائنل دیکھنے کراچی جائیں گے۔

    پاکستان آ کر شادی کے بندھن میں بندھنے والی چینی لڑکی دعا علی نے چند دن میں ہی سسرالی خاندان کے دل جیت لیے ہیں۔

    خیال رہے کہ اس سے قبل بھی کئی چینی لڑکیاں پاکستانی لڑکوں کی محبت میں گرفتار ہو کر اسلام قبول کر چکی ہیں، اور ان کی شادیاں پاکستان میں ہوئیں۔