Tag: شارٹ اسٹوری

  • ڈاکیے کا تھیلا

    ڈاکیے کا تھیلا

    کولیا ایک خوش مزاج، مگر غائب دماغ لڑکا تھا۔ اس نے پیٹرزبرگ میں اپنی دادی کو ایک بہت اچھا خط لکھا۔ جس میں انہیں برائٹ ہالیڈے کی مبارکباد دی، اپنے گاؤں کی زندگی کے بارے میں بتایا، اور یہ کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے، وہ اپنا وقت کیسے گزارتا ہے، سب تفصیل سے بیان کیا۔

    ایک جملے میں بس یہ کہا جا سکتا تھا کہ خط بہت اچھا لکھا گیا تھا، لیکن کولیا نے خط کے بجائے خالی کاغذ کی آدھی شیٹ لفافے میں ڈال دی اور خط اسی کتاب میں رہ گیا، جہاں اس نے رکھا تھا۔ اس نے لفافے پر ٹکٹ لگائے، صاف ستھری لکھائی میں پتہ لکھا اور ڈاک خانے کا رخ کیا، جہاں لفافے پر مہر لگائی گئی اور کاغذ کی ایک خالی آدھی شیٹ، کولیا کی دادی کو چھٹی کی مبارکباد دینے سینٹ پیٹرزبرگ روانہ ہوگئی۔

    کولیا کے خط نے پانچ سو میل کا فاصلہ سرپٹ دوڑتے ہوئے طے کیا جیسے کسی اہم کام کے لئے جلدی میں ہو۔ ابھی وہ یہاں ہے، ابھی سینٹ پیٹرزبرگ میں اور کچھ دیر بعد ڈاکیے کے تھیلے میں، جو سڑکوں پر سائیکل دوڑاتا، داخلی راستوں پر گھنٹی بجاتا اور گھروں پر خط بانٹتا چلا جا رہا تھا، لیکن کولیا کا لفافہ تھیلے میں خاموش نہیں تھا۔ وہ تمام خالی مخلوقات کی طرح بہت باتونی اور متجسس تھا۔

    ”آپ کہاں جا رہے ہیں ؟ اور آپ میں کیا لکھا ہے؟“ کولیا کے خط نے اپنے پڑوسی سے پوچھا جو ویلم پیپر (چمڑے کی جھلی) سے بنا ایک موٹا اور خوبصورت لفافہ تھا۔ وہ ایک سرکاری مونو گرام سے آراستہ تھا، جس پر ایک شاہی تاج اور نقرئی سجاوٹ تھی۔

    خوش نما خط نے فوری طور پر جواب نہیں دیا۔ اس نے پہلے یہ جانچا کہ اس کا مخاطب کس حیثیت کا مالک ہے، اور یہ دیکھ کر کہ جس گستاخ نے اس کے ساتھ بات کرنے کی جسارت کی ہے وہ ایک صاف اور خوبصورت لفافہ ہے۔ اس نے جواب دینے کا فیصلہ کیا۔

    ”میرے پیارے بچے! مجھ پر لکھے گئے پتے سے آپ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ میں ایک بہت ہی اہم شخص کے پاس جا رہا ہوں۔ ذرا تصور کریں کہ میرے لیے اس اندھیرے اور بدبو دار تھیلے میں لیٹنا کتنا دشوار ہے، خاص طور پر اس طرح کے لفافوں کے ساتھ جیسا میرا بایاں پڑوسی ہے۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ آپ اس خاکی اور گندے بدصورت لفافے کو نہیں دیکھ سکتے، جسے موم کے بجائے بریڈ کرمب جیسی کسی چیز سے بند کیا گیا ہے اور ڈاک ٹکٹ کے بجائے اس پر فوجی مہر ہے اور اِس پر پتہ کیا ہے؟ …. یہ کہاں جا رہا ہے؟ بڑی بدخط تحریر ہے….ہاں پیٹرزبرگ کی طرف، کچی گلی تک، اور یہاں تک کہ تہ خانے تک، افف… کیسی بے بسی ہے۔ ایسے پڑوسی کے پاس خود کو گندا ہونے سے نہیں بچایا جاسکتا۔“

    ”یہ میری غلطی نہیں ہے کہ انہوں نے ہمیں ایک ساتھ رکھ دیا ہے۔ “ سپاہی کے خط نے غصیلے لہجے میں جواب دیا۔ ”اور مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ آپ جیسے شاندار، لیکن خالی اور احمق لفافے کا قرب میرے لیے بیزار کن ہے۔ آپ کا اوپری پیرہن اچھا ہے، لیکن اندر کیا ہے؟ تمام بناوٹی جملے جن میں ایک لفظ بھی سچائی نہیں ہے۔ جس نے آپ کو لکھا، وہ اس شخص کی دل سے عزت نہیں کرتا، جس کے لیے آپ کو لکھا گیا ہے، پھر بھی نیک تمنائیں، دلی مبارکباد اور آخر میں گہرا احترام اور عقیدت۔ حالاں کہ یہ سب بکواس ہے۔ یہاں نہ عزت ہے اور نہ عقیدت، اگر آپ اس عاجز بندے سے کوئی کام کہے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اس فرض شناسی اور احترام کی خوشبو کیسی ہے۔“

    ”بدتمیز! جاہل! تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھ سے اس لہجے میں بات کرنے کی؟ میں حیران ہوں کہ ڈاکیا تم کو اتنا بے غیرت ہونے کی وجہ سے سڑک پر کیوں نہیں پھینک دیتا، ذرا میرے کوٹ آف آرمز کو دیکھو۔ “

    ”کیا ہتھیاروں کا کوٹ؟“ سپاہی کے خط نے تمسخرانہ انداز میں کہا۔ ”آپ کا کوٹ اچھا ہے، لیکن ہتھیاروں کے کوٹ کے نیچے کیا ہے؟ بے روح اور بناوٹی جملے، سچ کا ایک قطرہ بھی نہیں، سب جھوٹ، نخوت اور تکبر ہے۔“ مہر والا لفافہ غصے سے پھٹنے کے لیے تیار تھا اور شاید وہ پھٹ جاتا۔ اگر اسی لمحے ڈاکیہ اسے تھیلے سے نکال کر ایک عالیشان سنہرے دروازے پر کھڑے دربان کے حوالے نہ کر دیتا۔

    ”خدا کا شکر ہے کہ ایک بیوقوف کم ہوا۔ “ سپاہی کے خط نے بات جاری رکھی۔ ”وہ گاؤدی اور مغرور اس بات پر ناراض ہو رہا ہے کہ وہ میرے ساتھ پڑا ہے… کاش اسے معلوم ہوتا کہ میرے اندر کیا لکھا ہے۔ “

    کولیا کے خط نے جب خود کو اس خاکی لفافے کے ساتھ پایا جس پر فوجی مہر لگی تھی تو تجسس سے پوچھا۔ ”تم میں کیا لکھا ہے؟“

    ”میرے پیارے ملنسار دوست! میں بتاتا ہوں کہ مجھ میں کیا لکھا ہے۔ میں ایک غریب اور خستہ حال بوڑھی عورت کو یہ خبر پہنچانے جارہا ہوں کہ اس کا بیٹا زندہ ہے۔ جب سے وہ فوج میں بھرتی ہوا ہے۔ اس نے اپنے بیٹے کے بارے میں کچھ نہیں سنا۔ دس سال ہوگئے ہیں۔ وہ زندہ ہے، خیریت سے ہے اور جلد ہی چھٹی پر گھر آئے گا۔ یہ سچ ہے کہ میں بری سگ ماہی موم سے بند ہوں، لیکن میں جانتا ہوں کہ اس مہر بند موم کو توڑتے ہوئے بوڑھی عورت کا ہاتھ کیسے کانپے گا۔ یہ سچ ہے کہ میں خراب لکھائی میں تحریر کیا گیا ہوں، لیکن اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں، مجھے ایک سپاہی نے لکھا ہے جس نے یہ فن خود ایک خراب قلم سے سیکھا اور سب سے گھٹیا خاکی کاغذ استعمال کیا، لیکن اگر آپ دیکھ سکتے کہ اس کی آنکھوں سے کیسے ایک گرم آنسو نکلا اور مجھ پر آگرا۔ ایک شاندار آنسو، میں اسے احتیاط سے اس کی ماں کے پاس لے جا رہا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ ایک پرجوش استقبال میرا منتظر ہے۔ اس مغرور آدمی کی طرح نہیں جو خدا کا شکر ہے کہ چلا گیا ہے۔ وہ بمشکل اسے دیکھتے ہیں، پھر اسے پھاڑ کر پہلے میز کے نیچے اور پھر کچرے کے گڑھے میں پھینک دیتے ہیں۔ اس مکتوب نگار کی ماں میرے ہر ہر لفظ پر گرم آنسو بہائے گی۔ وہ مجھے ہزار بار پڑھے گی، ہزار بار پیار سے اپنے سینے سے لگائے گی، پھر وہ مہربان ماں مجھے اپنے سینے میں چھپالے گی۔ اوہ یہ بے صبرا ڈاکیا! …. مجھے کتنی جلدی لے جارہا ہے۔“

    ”تم کہاں جا رہے ہو اور تم میں کیا لکھا ہے؟“ متجسس کولیا کے خط نے اپنے نئے پڑوسی سیاہ مہر والے خط کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا: ”میری مہر کے رنگ سے اندازہ کرو۔ “اس نے جواب دیا۔ ”تم دیکھ رہے ہو کہ میں ایک افسوسناک خبر لایا ہوں۔ غریب لڑکا جو ہسپتال میں ہے مجھے پڑھ کر جانے گا کہ اس کا باپ مرگیا ہے۔ میں بھی آنسوؤں میں بھیگا ہوا ہوں، لیکن یہ خوشی کے آنسو نہیں ہیں۔ میں ایک عورت کے کانپتے ہاتھ سے لکھا گیا جس نے اپنے پیارے شوہر کو کھو دیا ہے، ایک ماں کا ہاتھ جو اپنے بیمار بیٹے کو بتا رہا ہے کہ اس نے اپنے باپ کو کھو دیا ہے۔ بیچارہ وانیا! وہ اس جاں گسل خبر کو کیسے برداشت کر پائے گا؟ میں تصور کرتا ہوں کہ جب وہ میری منحوس مہر کو دیکھے گا تو کتنا خوفزدہ ہوگا، جب وہ مجھ میں لکھی خوفناک خبر پڑھے گا تو وہ کتنا کانپے گا، کیسے تکیے پر منہ کے بل گرے گا اور آنسو بہائے گا۔ آہ! اس طرح کی خبروں کے ہمراہ جانے سے بہتر ہے کہ میں زمین میں دفن ہوجاؤں۔ “

    کسی تعلیمی ادارے کے قریب رک کر ڈاکیے نے اپنے تھیلے میں ہاتھ ڈالا اور کالی مہر والا اداس خط نکال لیا۔ کولیا نے اپنے آپ کو ایک نئے پڑوسی کے ساتھ پایا جو بالکل مختلف نوعیت کا تھا۔

    ”ہاہاہا۔ ۔ ۔ ۔ “ اس نے کولیا کے خط کا قہقہہ لگا کر جواب دیا۔ ”کاش تم کو معلوم ہوتا کہ مجھ میں کیا مزاحیہ باتیں لکھی گئی ہیں؟ میرا مکتوب نگار ایک خوش مزاج آدمی ہے۔ میں جانتا ہوں جو مجھے پڑھے گا وہ ضرور ہنسے گا۔ اگرچہ مجھ میں تمام الم غلم باتیں لکھی ہوئی ہیں، لیکن وہ سب مضحکہ خیز ہیں۔ “

    دوسرے خطوط نے بھی ان کی گفتگو سن کر اس میں فرداً فرداً حصہ لیا۔ ہر کوئی اس بات کا اظہار کرنے کی جلدی میں تھا کہ وہ کیا خبر لے جارہا ہے۔

    ’’میں ایک امیر سوداگر کے لیے خبر لا رہا ہوں کہ اس کا سامان گراں قدر نرخوں پر فروخت ہوا ہے۔ “

    ”میں دوسرے کو بتا رہا ہوں کہ وہ دیوالیہ ہو گیا ہے۔“

    ”میں واسیا کو سرزنش کرنے جا رہا ہوں کہ اس نے اتنے عرصے سے اپنے والدین کو خط کیوں نہیں لکھا۔“

    بہرکیف وہ سب خطوط ڈاکیے کے تھیلے میں آپس میں باتیں کرتے رہے۔ اس دوران وہ سڑکوں پر سائیکل دوڑاتا رہا اور خوشی اور غم، ہنسی اور اداسی، محبت اور غصہ، دوستی اور نفرت، سچ اور جھوٹ، اہم اور احمقانہ خبریں، اور بے روح جملے گھر گھر پہنچاتا رہا۔

    آخر کار کولیا کے خط کی باری بھی آگئی۔ ڈاکیے نے چوکیدار کو، چوکیدار نے نوکرانی کو، نوکرانی نے بوڑھی دادی کو خط دیا، جو کھڑکی کے پاس بیٹھی تھیں اور آنکھوں پر موٹے شیشوں کی عینک لگائے جرابیں بن رہی تھیں۔ دادی نے خط کھولا، ایک خالی شیٹ نمودار ہوئی، انہوں نے حیرت سے اسے دیکھا، ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ان کے ساتھ ایسا احمقانہ مذاق کس نے کیا ہے۔

    (روسی ادب سے ترجمہ)

  • ‘ایک شاہی پیغام…’

    ‘ایک شاہی پیغام…’

    بادشاہ نے، کہتے یہی ہیں، تمہیں، فردِ واحد کو، جو اس کی رعایا کا ادنیٰ سا حصّہ ہے، بادشاہت کے سورج سے فرار ہو کر زیادہ سے زیادہ ممکن دوری پر پناہ لے چکے انتہائی چھوٹے سے حقیر سائے کو، ہاں تمہیں، تمہیں ہی تو، بادشاہ نے اپنے بسترِ مرگ سے ایک پیغام بھجوایا ہے۔

    بادشاہ کے اشارے پر قاصد نے شاہی بستر کے پاس زمین پر اپنے گھٹنے ٹیکے تو انتہائی علیل بادشاہ نے قاصد کو تمہارے نام اپنا یہ پیغام سرگوشی میں دیا۔ بادشاہ کے لیے یہ پیغام انتہائی اہم تھا۔ اسی لیے قاصد سے کہا گیا کہ وہ سرگوشی میں یہی پیغام بادشاہ کے کان میں دہرائے۔ جب قاصد یہ پیغام دہرا چکا تو بادشاہ نے جو کچھ سرگوشی میں سنا تھا، اس کے درست ہونے کی سَر ہلا کر تصدیق بھی کر دی۔

    اس وقت بادشاہ کو مرتے دیکھنے والے جتنے بھی لوگ وہاں موجود تھے، ان کے اور بادشاہ کے درمیان رکاوٹ بننے والی تمام چلمنیں ہٹا دی گئی تھیں، تمام رکاوٹی پردے گرائے جا چکے تھے اور سامنے دور اوپر تک جانے والی گول سیڑھیوں پر دائرے کی شکل میں سلطنت کے تمام شہزادے کھڑے تھے۔ ان سب کے سامنے قاصد نے خود کو فوراً سفر کے لیے تیار کیا اور وہاں سے چل پڑا۔

    قاصد ایک مضبوط جسم والا ایسا شخص تھا جو کبھی تھکتا نہیں تھا۔ وہ حاضرین کے ہجوم کو کبھی اپنے دائیں اور کبھی بائیں بازو سے پیچھے ہٹاتے اور اپنے لیے راستہ بناتے ہوئے وہاں سے گزر رہا تھا۔ جہاں کہیں اسے کچھ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا، وہ اپنے سینے پر چمکتا سورج کا نشان دکھا دیتا۔ وہ اتنی آسانی سے آگے بڑھ رہا تھا، جتنی کسی دوسرے کے لیے ممکن ہی نہیں تھی۔

    لیکن ہجوم بہت ہی بڑا تھا۔ عام لوگوں کے تو محل سے باہر گھروں کے سلسلے بھی بڑے طویل تھے۔ اگر وہ جلد ہی کسی کھلی جگہ پہنچ جاتا، تو وہ اتنی تیزی سے سفر کرتا، جیسے اڑ رہا ہو۔ اور پھر جلد ہی تم یہ آواز سنتے کہ وہ اپنی ہتھیلیوں کے مکّے بنا کر تمہارے دروازے پر زبردست انداز میں دستک دے رہا ہوتا۔ لیکن اس کے بجائے وہ تو ابھی تک محل کے سب سے اندرونی حصے کے مختلف کمروں سے گزرتے ہوئے اپنے لیے راستہ بنانے میں ہی مصروف تھا۔

    اس کی یہ کاوش بالکل بے نتیجہ ہوتی جا رہی تھی۔ اسے لگتا تھا کہ وہ ان کمروں سے نکلنے میں کبھی کام یاب نہیں ہو پائے گا۔ اور اگر کام یاب ہو بھی گیا، تو بھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا، کیونکہ اسے ابھی سیڑھیاں اترنے کے لیے بھی لڑائی کرنا تھی۔

    اگر وہ سیڑھیاں اترنے میں کام یاب ہو بھی گیا، تو اس کا بھی کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ اس لیے کہ سیڑھیوں کے بعد اسے کئی وسیع و عریض برآمدے بھی عبور کرنا تھے۔ ان دالانوں کے بعد ایک دوسرا محل تھا جس نے اس محل کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا جہاں سے نکلنے کی قاصد کوشش کر رہا تھا۔ اس دوسرے محل کے بعد بھی، پھر سیڑھیاں اور برآمدے تھے اور پھر ایک اور محل۔

    یہ جدوجہد یونہی جاری رہی۔ ہزاروں سال تک۔ وہ قاصد بالآخر محل کے سب سے بیرونی دروازے سے باہر نکلنے میں کام یاب ہو سکا؟ کبھی نہیں۔ ایسا تو کبھی ہو ہی نہیں سکتا۔ قاصد اگر کبھی محل سے باہر نکلتا بھی، تو پہلے اس کے سامنے شاہی دارالحکومت ہوتا، دنیا کا مرکز، اپنی ہی مٹی میں اس طرح دفن جیسے پھٹنے کو ہو۔

    یہاں سے تو کبھی کوئی گزر ہی نہیں سکتا۔ کسی مردے کا پیغام لے کر جانے والا تو کبھی بھی نہیں۔ تم لیکن اپنے گھر کی کھڑکی کے پاس بیٹھے ہو، جب شام گہری ہونے لگے، تو تم بس اس پیغام کے ملنے کے خواب ہی دیکھتے رہنا۔

    (جرمن زبان میں تحریر کردہ فرانز کافکا کی ایک تمثیل کا اردو ترجمہ)

  • مستقبل کی ایمرجنسی ہیلپ لائن

    مستقبل کی ایمرجنسی ہیلپ لائن

    زخمی ہونے کے باوجود اُس نے فون سے 999 ملا لیا تھا۔

    "نئی ایمرجنسی ہیلپ لائن میں خوش آمدید” آواز آئی۔

    "ایمبولینس کے لیے ایک دبائیں
    آگ لگنے کی صورت میں دو دبائیں
    پولیس سے رابطے کے لیے تین
    سمندر میں حادثے کی صورت میں مدد کے لیے چار دبائیں
    اگر آپ کو ایمرجنسی مدد نہیں چاہیے تو پانچ دبائیے یا یہ ساری تفصیلات دوبارہ سننے کے لیے چھ دبائیں۔”

    پیٹ میں لگے چاقو کی وجہ سے خون ہر طرف پھیل چکا تھا۔ اُس نے لاشعوری طور پر ہمّت کرکے نمبر ایک دبا دیا۔

    ” پستول سے لگی گولی کے لیے ایک دبائیں، روڈ ایکسیڈنٹ کے لیے دو، تین، چار۔۔۔۔۔”

    لیکن اِس سے آگے وہ نہ سُن سکی!

    مصنّف: گورڈن لاری (Gordon Lawrie)
    مترجم: محمد جمیل اختر

  • بادل، بجلی اور انصاف کی کہانی

    بادل، بجلی اور انصاف کی کہانی

    بھورے بادل کی گود میں بجلی مچلی۔ آگے بڑھی، زمین کی طرف۔ بادل نے ٹوکا’’ کہاں چلیں؟‘‘

    ایک ننّھی سی تتلی پھولوں پر منڈلا رہی تھی کہ تبھی ایک گَوریّا اس پر جھپٹ پڑی اور نہایت بے رحمی کے ساتھ اسے نگلنے کی کوشش کرنے لگی۔

    ’’اس بے رحم گَوریّا کو سبق سکھانے۔‘‘ بجلی نے اشاروں سے بتایا اور بادل کا ردِّ عمل جانے بغیر، زمین کی طرف بڑھنا چاہتی تھی کہ اس کی چیخ نکل گئی۔

    ’’بادل دادا!غضب ہو گیا۔‘‘ گَوریّا ابھی ٹھیک سے تتلی کو نگل بھی نہیں پائی تھی کہ اس پر ایک باز نے جھپٹّا مارا اور گَوریّا اپنی جان گنوا بیٹھی۔

    بادل خاموش رہا۔ ایک پُر اسرار مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر کھیلتی رہی۔ادھر بجلی کا غصہ مسلسل بڑھتا جا رہا تھا۔

    ’’میں اس ظالم باز کو ہر گز نہیں چھوڑوں گی۔‘‘ وہ غصے میں بڑبڑائی۔اچانک ایک احساس ندامت اس کی آواز میں اتر آیا۔

    ’’ہائے ابھی تک کتنی غلط تھی میں کہ گَوریّا کو ظالم سمجھ رہی تھی، گَوریّا سے بڑا ظالم تو وہ باز ہے۔ اچھا ہُوا کہ وقت سے پہلے حقیقت آشکار ہو گئی، ورنہ معصوم گَوریّا ہی میرے غضب کا شکار ہوتی۔‘‘

    بادل اب بھی مسکرا رہا تھا۔ بجلی کچھ اور آگے بڑھی۔ تب ہی اس کے کانوں میں ہلکی سی ایک آواز آئی۔ اس نے نیچے دیکھا۔ باز زمین پر پڑا تڑپ رہا تھا۔ اس کے قریب ہی بندوق لیے ایک شکاری کھڑا تھا۔

    ’’اُف۔۔۔ یہ شکاری تو سب سے بڑا ظالم و جابر ہے۔ گَوریّا نے تتلی کو مارا، اس لیے کہ وہ بھوکی تھی۔ باز نے گَوریّا کو مارا، اس لیے کہ اسے بھی بھوک نے مجبور کیا تھا۔

    اگر یہ دونوں اپنی اپنی بھوک کا کہا نہ مانتے تو ممکن تھا کہ وہ اپنی ہی بھوک کا لقمہ بن جاتے، لیکن یہ شکاری۔۔۔!!

    اس نے تو محض اپنے شوق کی تسکین کے لیے باز کو نشانہ بنایا۔ میں اسے چھوڑوں گی نہیں۔ کچھ تو زمین کا بوجھ کم ہو گا۔‘‘ سوچتے ہوئے بجلی کا چہرا تمتمانے لگا۔

    وہ تیزی سے آگے بڑھی۔ بجلی کی کڑک اور بادل کی گڑگڑاہٹ نے تیز بارش کی شکل اختیار کر لی۔ بارش سے بچنے کے لیے شکاری نے ایک غریب کسان کے جھونپڑے میں پناہ لی۔

    دانش وَروں کی طرح بجلی بھی اپنی بے جا ضد پر اَڑی رہنے والی تھی۔اپنے فیصلے پر وہ بھی نظرِثانی نہیں کر سکتی تھی۔ وہ جھونپڑی پر گری۔پَل بھر میں شکاری کے ساتھ غریب کسان اور اس کا خاندان بھی خاک ہو گیا۔

    عدلیہ کی طرح بجلی بھی مطمئن تھی کہ اس نے انصاف کر دیا ہے۔

    (اوم پرکاش کشیپ کی اس مختصر کہانی کا عنوان "مشیّت” ہے جو کسی بھی ریاست میں ظلم و جبر اور اشرافیہ کی من مانی اور مفاد پرستی کو بے نقاب کرتی ہے)

  • پیاس…

    پیاس…

    مصنف: ذیشان یاسین

    ”محکمہ موسمیات نے شہر میں شدید گرمی کی اطلاع دی ہے۔ اگلے ہفتے لُو چلے گی۔ ہمیں بچاؤ کے لیے کیا کرنا چاہیے؟“ ٹیچر نے کلاس کے بچوں سے سوال کیا۔

    ”سب کو اپنے اے سی ٹھیک کروا لینے چاہییں۔“ پپو بولا۔

    ”ہم فریج اور ڈیپ فریزر صاف کرلیں تاکہ ٹھنڈا پانی اور کولڈ ڈرنک انجوائے کریں۔“ بنٹی مسکرا کر بولی۔

    ”اسکول کو ایک ہفتے کے لیے بند کر دینا چاہیے۔“ چنٹو نے چہک کر مشورہ دیا۔

    ”آپ کیا کریں گی انابیہ۔“ ٹیچر نے میری بیٹی سے پوچھا۔

    ”میں چھت اور بالکونی میں پرندوں کے لیے پانی کا انتظام کروں گی۔“

  • جواہرات

    جواہرات

    نیلگوں آسمان پر سفید سفید بادل تیر رہے تھے۔ آمدِ سحر کی خبر پاکر چاند کا رنگ فق ہوگیا اور اس نے بادل کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کے پیچھے اپنا منہ چھپا لیا۔

    مرمریں محل کی ایک کھڑکی کے پاس جس کے نیچے روپہلی ندی گنگناتی بہتی چلی جارہی تھی۔ ایک نوعروس، صبح کی پُرتبسم فضا میں بُت بنی کھڑی تھی۔ بلبلیں قفس کے گوشے میں آرام کررہی تھیں۔ محل کے دروازے کے سامنے کشتیاں نسیمِ سحر کی پیدا کی ہوئی ہلکی ہلکی موجوں کے بہاﺅ میں لڑکھڑاتے ہوئے جارہی تھیں۔

    دلہن کے پیچھے ایک پلنگ پر لباسِ عروسی پڑا تھا۔ ایک زمرد کی ترشی ہوئی صندوقچی پر زیورات پریشان تھے۔

    دلہن اپنے ہاتھوں میں جواہرات کا ایک ہار لیے ہوئے تھی۔ کمرے کی تاریک فضا میں اس ہار کے دانے اس طرح دمک رہے تھے جیسے کسی مقدس بزرگ کے پُرنور چہرے کے گرد روشن حلقہ بنایا ہوا ہو۔

    اس نے اپنی نازک گردن میں اس ہار کو پہنا اور پھر اتار دیا اور ندی میں طلوعِ آفتاب کا نظارہ کرنے کے لیے دریچے سے جھانکنے لگی۔ ندی میں سے سورج کا لرزتا ہوا عکس اس کے سنہری بالوں کو الگ الگ کرکے منور کررہا تھا۔

    دلہن اس قدر مسرور تھی کہ اس کے ذہن میں کسی ایک خیال کی گنجائش نہ تھی اور دھندلی فضا میں ندی کے آس پاس جھلملاتی ہوئی بستی کا خوب صورت نظارہ اس کی مستور مسرتوں کا ایک پرتو تھا۔ جب سورج نے دور اُفق پر درختوں کے جھنڈ سے سَر نکالا۔ سپید ہار کے دانے اور بھی جگمگانے لگے۔

    ایک سبک رفتار کشتی بادل کے سائے کے مانند محل کے اس طرف نمودار ہوئی۔ دلہن کی نگاہ اس پر پڑی، کشتی کے اندر کافوری کفن میں لپٹا ہوا ایک جنازہ رکھا تھا اور اس کے سرہانے ایک عورت بنفشی لباس پہنے رو رہی تھی۔ کفن پر کچھ زرد رنگ کے پھول پڑے تھے۔

    اس درد ناک منظر نے دلہن کے نازک دل پر اس قدر اثر کیا کہ اس کا تمام جسم کانپ اٹھا اور اس کے ہاتھوں سے زمرد کی مالا گر کر کشتی میں بیٹھی ہوئی غمگین عورت کی گود میں جا پڑی۔ کشتی تھوڑی دیر میں سورج کی شعاعوں میں غائب ہوگئی۔

    دلہن کو ہار کے کھو جانے کی کوئی خبر نہ تھی۔ غم زدہ ماں اور جنازے نے اس کے مضطر خوابوں کو آوارہ کر دیا تھا۔ اس نے محسوس کیا کہ مہیب ہاتھ اس کی راحتوں اور امیدوں کو چھیننے کے لیے رات کی سیاہی کی طرح آہستہ آہستہ اس طرف بڑھتا چلا آرہا ہے۔

    وہ معمورۂ عالم میں تنِ تنہا، رنج اور دہشت سے کانپ رہی تھی اور سورج کی کرنیں جو تھوڑی دیر پہلے جواہرات کو منور کررہی تھیں اس کے آنسوﺅں میں چمکنے لگیں۔

    دوسری طرف وہ عورت تھی جو کشتی میں اپنے مردہ بیٹے کے غم میں نڈھال بیٹھی تھی۔ اس نے ہار کو اپنی گود میں گرتے ہی دبوچا اور جب اس نے ایسے انمول جواہرات کو اپنے قبضے میں پایا جن کا ثانی اسے تمام عمر نصیب نہ ہوا تھا، اس کے پُر درد آنسوﺅں میں ایک مسکراہٹ نمودار ہوگئی۔

    ملاح سے نظر بچا کر اس نے بچے کے کفن کی طرح سپید ہار کو اپنے بنفشی لباس میں چھپا لیا اور نعمتِ غیر مترقبہ نے اس کے دل سے سب رنج و غم مٹا دیا۔

    اس کہانی کی برطانوی مصنف مارجوری بوون (Marjorie Bowen) تاریخی واقعات اور مہم جوئی پر مبنی قصوں‌ کے علاوہ پُراسرار، ڈراؤنی اور مافوق الفطرت کہانیاں تخلیق کرنے کے لیے مشہور ہیں۔ ان کی پیشِ نظر کہانی کو بدرالدین نے اردو کے قالب میں‌ ڈھالا ہے۔

  • "جب دیکھو ترقی…ترقی اور ترقی”

    "جب دیکھو ترقی…ترقی اور ترقی”

    بھاڑ میں جاؤ تم اور تمھاری ترقی۔ جب دیکھو ترقی، ترقی اور ترقی۔ کوئی اور بات ہی نہیں کرتا۔

    تو میں کیا غلط کہہ رہا ہوں، دیکھ نہیں رہا، اندھا ہوگیا ہے کتنی آسانی ہوگئی ہے۔ ہر میدان میں نت نئی ایجادات، اتنے بڑے بڑے فلائی اوورز، سڑکیں اور ان پر بھاگتی دوڑتی رنگ برنگی گاڑیاں۔

    رابطے کی تو دنیا ہی بدل گئی، اب آپ کہیں بھی نہیں چھپ سکتے۔ ایک چھوٹے سے آلے نے کتنی آسان کردی زندگی۔ دنوں کا فاصلہ گھنٹوں میں طے ہو رہا ہے۔ چھوٹے سے آئی پوڈ نے موسیقی کی دنیا بدل دی، ایک چھوٹے سے ڈبے نے خبروں کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا۔ ای کامرس نے جدید معیشت کی بنیاد ڈال دی۔۔۔۔۔

    کتنے پرسکون اور تاب ناک ہوگئے ہیں ہمارے چہرے۔ ایک چھوٹے سے پلاسٹک کارڈ سے تم دنیا کی ہر شے خرید سکتے ہو۔ پیسے ہوں نہ ہوں کریڈٹ کارڈ ہو تو جو چاہو خریدو، پیسے بعد میں دو۔ ہر طرف معلومات کا سمندر، بڑے بڑے بورڈ۔ اور ان پر عوام کی آگہی کے لیے درج کردیا گیا، یہ دودھ اچھا ہے، یہ کپڑا اچھا ہے، یہ رنگ خوب صورت ہے، یہ برش عمدہ ہے۔ مقابلے کی کتنی پُرکشش دنیا تخلیق ہوگئی ہے۔ اور دیکھ میں تجھے بتاتا ہوں کہ۔۔۔۔۔

    بند کر اپنی بکواس، بہت سن لی میں نے۔ جا کسی اور کو یہ رام کتھا سنا۔ تیری ترقی تجھے مبارک۔ جا چاٹ جاکر اسے، مجھے تو ہر طرف، اندھیرا ہی اندھیرا، بربادی اور تباہی نظر آتی ہے۔ یہ سحر انگیز گفت گو بھی ایک فریب ہے۔ بڑا آیا مجھے سمجھانے۔ جا اپنا رستہ لے۔

    لیکن تجھے ہر طرف، اندھیرا ہی اندھیرا، بربادی اور تباہی کیوں دکھائی دے رہی ہے۔ تیرے کہنے سے تھوڑی اندھیرا ہوگا، بربادی ہوگی۔ اور سن آج کل تو طب کی دنیا میں بھی ترقی ہوگئی ہے۔ جدید طبی آلات اور دوائیں انسانی زندگی کو طول دینے، پُرلطف بنانے کی جستجو میں ہیں۔ مجھے تو لگتا ہے کہ تو نفسیاتی مسائل کا شکار ہوگیا ہے۔ کسی اچھے ماہر نفسیات سے مشورہ کرتے ہیں۔ اس میں بھی بہت ترقی ہوگئی ہے۔ تُو جلد صحت یاب ہوجائے گا اور پھر تُو بھی کہے گا ترقی ہوگئی۔

    تُو باز نہیں آئے گا نا۔ اگر یہ بیماری ہے تو مجھے بہت پیاری ہے۔ جاں سے زیادہ عزیز ہے یہ مجھے۔ چل اب یہاں سے۔

    تُو میری بات کیوں نہیں سمجھتا۔ یہ تو اور زیادہ خطرناک بات ہے کہ تو اسے بیماری بھی نہیں سمجھتا۔ قنوطی انسان۔ پاگل ہوگیا ہے تو اسی لیے تو ہلکان رہتا ہے، اداس رہتا ہے۔ میری مان آ چل میرے ساتھ تجھے لے چلوں کسی ماہر کے پاس۔

    اچھا۔ اب تو ایسے باز نہیں آئے گا۔ بیمار میں نہیں تو ہے ذہنی بیمار۔ تو اسے ترقی کہتا ہے۔ اتنی دیر سے سن رہا ہوں تیری بکواس، یہ بتا یہ ساری ترقی جسے تُو اور تیرے جیسے کوڑھ مغز ترقی کہتے ہیں، کس کے لیے ہے؟ انسان کے لیے نا۔ میں مانتا ہوں ترقی ہوگئی، لیکن انسان تو دکھوں کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے۔ اتنی بڑی بھیڑ میں، ہجوم میں تنہا ہوگیا ہے۔ یہ ساری ترقی مٹھی بھر انسانوں کے شاطر ذہن کی پیداوار ہے، چند مٹھی بھر سرمایہ داروں نے دنیا کے ہر انسان کو جو آزاد پیدا ہوا تھا غلام بنالیا ہے۔۔۔۔۔

    ذہنی غلام، جسمانی غلام، ایسا سحر ہے اس کا کہ انسان غلامی کو غلامی ہی نہیں سمجھتا۔ اسے آزادی کا نام دے کر اترانے لگا ہے۔ بڑی بڑی کاریں، سڑکیں، آسائشیں انسان کو تن آسان بنا رہی ہیں اور تن آسانی انسان کو انسان نہیں رہنے دیتی۔ اسے بے حس خود غرض، مفاد پرست بناتی ہے۔ اشتہار کی دنیا انسان کو یہ سکھاتی ہے کہ کسی چیز کی ضرورت ہو، نہ ہو۔ ضرور خریدی جائے۔ یہ لے لو، وہ لے لو۔ اگر پیسے نہیں تو کریڈٹ کارڈ ہے۔ اس کے ذریعے خرید لو۔ اور پھر غلام بنے رہو۔ ان مٹھی بھر لوگوں نے انسان کو تباہ و برباد کردیا۔ لالچی بنا دیا۔ اسے ناامید کردیا۔ خوف زدہ کر دیا، انسان، انسان نہیں رہا پیسا کمانے اور خرچ کرنے کی مشین بن گیا۔۔۔۔۔

    یہ ایک مایا جال ہے جو سرمایہ داروں کے وحشی گروہ نے بُنا ہے، اسے پُرکشش بنایا ہے تاکہ دنیا کے معصوم اور آزاد انسان اس جال میں پھنس جائیں اور کوئی یہ سوچنے بھی نہ پائے کہ چند سرمایہ داروں نے دنیا بھر کے انسانوں کو غلام بنالیا ہے، بس ان کا کام چلتا رہے۔۔۔۔۔۔

    اصل ترقی انسان کو بامِ عروج تک پہنچاتی ہے۔ اسے زنجیروں سے آزاد کرتی ہے، لیکن یہ ترقی کے نام پر دھوکا ہے۔ اب کوئی سوچتا ہی نہیں کہ وہ کیوں اس دنیا میں آیا ہے؟ اسے کیا کرنا ہے؟ اس مصنوعی ترقی نے انسان کو تنہائی، اداسی، کرب، دکھوں کے جہنم میں دھکیل دیا، یہ سب آسائشیں ہوتے ہوئے بھی سب ناآسودہ ہیں، سب دُکھی ہیں۔ مصنوعی خوشی خوشی نہیں ہوتی۔ خوشی انسان کے اندر سے پھولتی ہے۔۔۔۔۔۔۔

    آزاد انسان حقیقی خوشی حاصل کرتا ہے، غلام نہیں۔ ہاں میں اس دن مان لوں گا جب انسان یہ سوچنے لگے گا کہ خود کو اس ہشت پا بلا سے کیسے چھڑایا جائے اور پھر وہ دن ہوگا سب سے عالی شان، جب دنیا کے وسائل پر قابض مٹھی بھر لوگوں سے وہ سب کچھ چھین لیا جائے گا جس پر دنیا بھر کے انسانوں کا حق ہے۔ ہاں پھر میں مان لوں گا ترقی ہوگئی، انسان نے خود کو پہچان لیا۔

    اچھا، اچھا بس کر، بہت ہوگیا تیرا بھاشن۔ نہ جانے کیسے کیسے قنوطی بستے ہیں اس دنیا میں، جو ترقی کو غلامی کہتے ہیں، مایا جال کہتے ہیں۔

    میں وہاں سے نکلنے لگا تو وہ بولا، ہر نئی ایجاد اپنے ساتھ ہزار فتنے بھی تو لائی ہے اس پر کب بات کرے گا؟

    مصنف عبداللطیف ابُوشامل نے اپنی اس کہانی کو "سراب” کا نام دیا ہے، جو ہماری ترقی اور مشینی دور کی آسانیوں‌ سے جھلکتی بدصورتی کو بے نقاب کرتی ہے
  • مادری زبان

    مادری زبان

    دروازے کے اِدھر اُدھر نظر ڈالی گھنٹی کا کوئی سوئچ نہیں تھا۔ لہٰذا ہولے سے دروازہ کھٹکھٹایا۔ کوئی آواز نہیں۔ پھر دوبارہ اور زور سے….. اور زور سے…..؟

    ’’کون ہے‘‘…..؟ چیختی ہوئی ایک آواز سماعت سے ٹکرائی۔ آواز اوپر سے آئی تھی۔

    میں نے گردن اٹھائی لیکن کوئی نظر نہیں آیا۔

    ذرا نیچے تشریف لائیے، سینسس کے لیے آئی ہوں۔ میں نے بھی تقریباً چلّاتے ہوئے جواب دیا، لیکن میرا چلّانا بیکار ہی گیا۔

    ’’ارے کون ہے؟‘‘ پھر آواز آئی۔

    ’’جی میں….. دروازہ کھولیے ذرا… سینسس کے لیے آئی ہوں۔ میں نے ذرا اور اونچی آواز میں کہا۔ نیچے تو آئیے ‘‘

    ’’کاہے کے لیے‘‘؟

    مردم شماری کے لیے۔ زور سے بولنے کے سبب میرے گلے میں دھنسکا لگ گیا تھا، پھر بھی میں نے اپنی آنکھیں کھڑکی پر جمائے رکھیں۔

    اوپر کھڑکی سے باہر ایک خاتون نے گردن نکال کر سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھا۔ تو میں پھر بولی ’’برائے مہربانی نیچے تشریف لائیں گی یا میں ہی اوپر آجاؤں؟‘‘

    بغیر کوئی جواب دیے اس خاتون کا چہرہ کھڑکی سے ہٹ چکا تھا۔ کئی منٹ گزر جانے کے بعد بھی نہ کوئی جواب ملا اور نہ ہی دروازہ کھلا۔

    اپنا چہرہ اوپر کیے کیے اب میری گردن تھک چکی تھی۔ میں نے ہمت کر کے پھر دروازے پر دستک دی۔ اچانک کھٹ پٹ کی تیز آواز سنائی دی تو مجھے یقین ہوا کوئی آرہا ہے۔

    دروازے کے پٹ ایک ساتھ جھٹکے سے کھل گئے۔ ایک بچی نمودار ہوئی تقریباً سات آٹھ برس کی۔ اپنے پیروں سے کئی گنا بڑے چپل اس کے پیروں سے پیچھے نکل رہے تھے۔

    کیا بات ہے؟ کس سے ملنا ہے؟

    ’’بیٹا کسی بڑے کو بھیجیے نا۔ بہت ساری معلومات لکھنا ہے۔‘‘

    ’’کوئی ہے نہیں‘‘ اس نے دو ٹوک جواب دیا۔

    ’’لیکن وہ جو ابھی کھڑکی سے بول رہی تھیں ان کو بھیجیے نا۔

    ’’کون ہیں وہ؟‘‘

    ’’امی۔‘‘

    ’’تو پھر انہیں بھیجیے بیٹا۔‘‘

    ’’وہ کام کررہی ہیں۔‘‘

    ’’تو کسی اور کو۔ کسی بڑی بہن کو، بھائی کو، ابا کو، یا پھر امی سے پوچھیے میں اوپر آجاؤں؟‘‘ ضروری کام ہے یہ بیٹا۔‘‘

    ’’جائیے پوچھ کر آئیے بیٹا پلیز، دیر ہورہی ہے۔‘‘

    وہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوئی بلکہ ایک اور لڑکی زینہ طے کرتی ہوئی نیچے آئی۔ تقریباً پندرہ سولہ برس کی۔

    ’’کیا بات ہے؟‘‘

    ’’بیٹا مردم شماری کرنا ہے۔‘‘

    ’’جی کیا کرنا ہے؟‘‘

    ’’مردم شماری… سینسس… گھر کے لوگوں کے نام لکھنا ہیں۔ جَن گڑنا ہے جَن گڑنا۔‘‘

    ’’اچھا تو کرئیے۔‘‘

    ’’یہیں۔‘‘ میں نے اپنا سامان کا پلندہ سنبھالتے ہوئے اپنی بے چارگی اور پریشانی کا احساس دلانا چاہا۔

    چھوٹی لڑکی نے شاید اوپر جاکر میرے کام کی اطلاع کردی تھی۔

    ’’باجی امی بلا رہی ہیں۔‘‘ یہ وہی لڑکی تھی جس نے دروازہ کھولا تھا، زینے کی اوپری سیڑھی سے جھانک کر بہن کو بلا رہی تھی۔

    موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے میں نے بیگ کندھے پر لٹکایا گُھٹنے پر رجسٹر ٹکا کر فارم پھیلا دیا اور فوراً ضروری معلومات بھرنا شروع کردیں۔

    ’’اپنے والد کا نام بتائیے بیٹا۔‘‘

    ’’امام الدین۔‘‘

    ’’عمر کتنی ہوگی؟‘‘

    وہ سوچ میں پڑگئی۔’’امی نیچے آؤ۔۔۔۔‘‘ اس نے چلاّتے ہوئے آواز لگائی۔ کئی منٹ گزر گئے نیچے کوئی نہیں آیا۔

    ’’کتنے بہن بھائی ہو؟ ‘‘میں نے اس کے باپ کی عمر کا حساب لگانے کی غرض سے دریافت کیا۔

    ’’گیارہ…..‘‘

    ’’بڑا کون ہے؟ بھائی یا بہن؟‘‘

    ’’بھائی‘‘

    ’’شادی؟‘‘

    ’’ہوگئی۔‘‘

    ’’یہیں رہتے ہیں کیا؟‘‘

    ’’ہاں۔‘‘

    ’’کتنے سال ہوئے شادی کو؟‘‘

    ’’چار پانچ سال۔‘‘ اس نے سوچتے ہوئے جواب دیا۔

    ’’بچے کتنے ہیں بھائی کے؟‘‘

    ’’دو۔۔۔۔‘‘

    میں نے حساب لگایا کہ اگر بیس برس کی عمر میں بیٹے کی شادی ہوئی تو اس وقت بیٹا پچیس برس کا ہوا تب باپ کی عمر تقریباً پینتالیس کی تو ضرور ہوگی۔

    ’’بیٹا پینتالیس برس لکھ دوں؟‘‘

    ’’جی لکھ دیجیے۔ اچھا ابھی رک جائیے۔ امی کو بلاتی ہوں۔

    ’’تعلیم والد کی؟‘‘

    ’’جی۔‘‘

    ’’میرا مطلب ہے آپ کے والد کتنا پڑھے لکھے ہیں۔ آٹھویں، دسویں، بارہویں یا پھر کچھ نہیں؟‘‘

    ’’پڑھے ہوئے نہیں ہیں۔‘‘ ’’تھوڑا بہت بس گھریلو‘‘

    ’’کیا کام کرتے ہیں؟‘‘

    ’’ویلڈنگ۔‘‘

    ’’ملازم ہیں یا مالک؟‘‘

    ’’کیا ان کا اپنا کام ہے؟‘‘

    ’’ہاں اپنا کارخانہ ہے۔‘‘

    ’’کاہے سے جاتے ہیں؟ سائیکل، موٹر سائیکل، کار یا بس؟‘‘

    ’’اسکوٹر ہے‘‘ لڑکی نے جواب دیا۔

    ’’کارخانہ کہاں ہے ان کا؟‘‘

    ’’گاندھی نگر۔‘‘

    یعنی تقریباً پچیس کلومیٹر میں نے اندازہ لگایا۔ ایک شخص کے انتالیس کالم پورے کرنے کے بعد بیوی اور پھر گیارہ بچوں، بہو اور ان کے بچوں سمیت تیرہ افراد کا نام اور تفصیلات جس میں دادی بھی شامل ہے، درج کرتے کرتے تقریباً آدھا گھنٹہ بیت چکا تھا اور میں دروازے پر کھڑے کھڑے کبھی ایک گھٹنے پر فارم رکھتی کبھی دوسرے پر۔ کمر درد سے دہری ہوئی جارہی تھی۔ تبھی ایک خاتون غصہ سے بپھرتی ہوئی زینہ کی اوپری سیڑھی سے چلّائی۔

    ’’اری او کمبخت اوپر آ۔ کیا کررہی ہے۔‘‘

    ’’امی آبھی آئی۔ نام لکھوا رہی ہوں۔

    ’’کاہے کا نام؟ کس کا نام؟ میں نے منع کیا تھا نا؟ تیرے باپ گھر میں نہیں ہیں، واپس بھیج دے۔ ہمیں کیا پتہ کیا لکھوانا ہے۔‘‘

    ’’جی میں کوئی بھی ایسی بات نہیں لکھ رہی ہوں جس سے آپ پریشان ہوں۔ بچی سمجھدار ہے۔ پڑھی لکھی ہے۔ اس نے سب کچھ لکھوا دیا ہے۔ بس دو چار کالم رہ گئے ہیں۔ وہ صرف آپ ہی لکھوا سکتی ہیں۔ ذرا نیچے آجائیے۔ میں نے اپنا کام روک کر ان صاحبہ کی طرف گردن اٹھا کر بڑی نرمی سے درخواست کی۔

    ’’زبان میں کیا لکھوایا ہے تُو نے؟‘‘ خاتون نے میری بات کا جواب دیے بغیر سیڑھیاں اترتے ہوئے بیٹی سے پوچھا۔

    ’’جی اردو لکھ دیا ہے۔ میں نے انہیں تسلی دیتے ہوئے ذرا مسکرا کر جواب دیا۔

    ’’کیوں اردو کیوں لکھا؟ عربی لکھو‘‘ وہ بگڑ گئی۔

    ’’عربی؟ لیکن کیوں؟‘‘

    ’’زبان کا مطلب مادری زبان۔ آپ کی مادری زبان اردو ہے اردو لکھوائیے۔‘‘

    ’’اردو کیوں ہوتی؟ عربی لکھو۔‘‘ خاتون کے تیور چڑھ گئے۔

    ’’لیکن آپ بول تو اردو رہی ہیں۔‘‘

    ’’ہاں بول رہے ہیں۔ مرضی ہماری۔ لیکن تم عربی لکھو۔‘‘

    ’’آپ عرب سے آئی ہیں کیا؟‘‘

    ’’عرب سے کیوں آتے؟‘‘ وہ زینے کی سیڑھی پر بیٹھتے ہوئے بولی۔

    ’’دیکھیے اس میں درست لکھنا ہے۔‘‘ میں نے پھر مادری زبان کا مطلب بہت محبت سے سمجھانے کی کوشش کی۔

    ’’تو پھر عربی لکھو کہہ تو دیا۔ تم کیسی پڑھی لکھی ہو۔‘‘

    آپ عربی بول کر دکھائیے مجھے، میں واقعی عربی لکھ دوں گی۔

    ’’کیوں بولیں…یں…یں۔؟‘‘ اس نے بولیں پر زیادہ زور دیا۔ ’’تمہیں نہیں لکھنا تو پھر جاؤ۔‘‘ ہمارا وقت خراب مت کرو۔

    میں نے دیکھا چھوٹے بڑے چھے سات بچے اب تک میرے اردگرد جمع ہوچکے تھے۔ جن میں سے کئی گلی کے تھے یا پھر شاید اسی گھرانے کے۔ ان میں سے کسی ایک لڑکی نے الحمد کی سورت پڑھنا شروع کی تو وہ فوراً چہکی۔

    ’’بولی کہ نہیں بولی۔ اب تو بولی نہ عربی؟‘‘

    ’’اچھا جناب ٹھیک ہے آپ ناراض نہ ہوں میں عربی ہی لکھ دوں گی۔‘‘ میں نے اسی میں عافیت جانی۔

    لیکن اب بساط پلٹ چکی تھی۔ وہ بری طرح بگڑ گئی۔

    ’’ہمارے پاس فالتو وقت ہے کیا؟ تمہارے نوکر ہیں کیا؟ ہمیں کیا فائدہ؟‘‘

    اس میں آپ کا بہت فائدہ ہے۔ آپ میری بات کا یقین کیجیے۔ آپ ہندوستان میں رہتی ہیں تو اس کا اندراج بھی ضروری ہے۔ آپ سمجھدار خاتون ہیں۔‘‘ میں نے انہیں سمجھایا۔

    ’’چالیس برس سے رہتے ہیں۔ کون نکالے گا ہمیں۔‘‘

    ’’ارے نہیں۔ خدا نہ کرے۔ میں ایسا تھوڑے کہہ رہی ہوں۔ یہ تو ملک ہے آپ کا۔ میں نے پھر سمجھانا چاہا۔

    ’’بس دو چار خانے ہی رہ گئے ہیں ابھی ہوئے۔ یہ بتائیے آپ کی اور آپ کے شوہر کی پیدائش کہاں کی ہے؟‘‘

    ’’پہلے اردو کی جگہ عربی لکھو۔‘‘

    ’’جی لکھ رہی ہوں۔ یہ دیکھیے۔‘‘

    ’’امی اردو ٹھیک ہے۔‘‘ بیٹی بولی۔

    ’’چپ کمینی— تجھے کیا پتہ۔‘‘

    بیٹی شرمندہ سی ہوکر خاموش ہوگئی۔

    آپ نے بتایا نہیں آپ کی اور آپ کے شوہر کی پیدائش کہاں کی ہے؟ ذرا راشن کارڈ دکھا دیجیے اپنا اور آئی کارڈ بھی۔ پہچان پتر تصویر والا۔‘‘

    ’’کیوں؟ اس کا کیا کروگی؟

    چیک کرنا ہے۔ اگر ہے تو دکھا دیجیے نہیں ہے تو بھی بتا دیجیے۔‘‘

    ’’نہیں ہے تو کیا کرو گی؟‘‘

    ’’تو میں اس فارم میں لکھ دوں گی۔ پھر آپ کا دوسرا بن جائے گا۔‘‘

    تو لکھ دو نہیں ہے۔ پتہ نہیں کہاں رکھا ہے، ہم کہیں رکھ کر بھول گئے۔

    ’’راشن کارڈ تو دکھا دیجیے۔‘‘

    ’’ان کے باپ کے پاس ہے۔‘‘

    برائے مہربانی تلاش کرلیں۔ سرکاری کام ہے یہ۔ میں انتظار کرتی ہوں۔

    ’’ارے تم تو پیچھے ہی پڑگئی ہو۔ نہ جانے کیا کیا لکھ لیا اور کیا کیا لکھو گی؟ اب بس بھی کرو۔ بہت ہو گیا۔‘‘

    ’’آپ سمجھ نہیں رہی ہیں۔ یہ آپ کا ہی کام ہے۔ آپ میری مدد کیجیے۔ آپ ہی کا فائدہ ہے۔‘‘

    ’’کیا فائدہ ہے ہمارا؟ نوکری دلوا دو گی ہمارے بچوں کو؟ بولو… گھر دلوا دو گی؟ زمین دلوا دو گی؟ فائدہ فائدہ…..‘‘ اس نے تقریباً منہ چڑاتے ہوئے کہا۔

    دیکھیے میں نے اتنا وقت لگایا ہے۔ سترہ لوگوں کے فارم بھرے ہیں۔ ان کے تمام کالم پورے کیے ہیں۔ بس ذرا سی دیر اور لگے گی۔ برائے مہربانی یہ بتائیے آپ کے کل گیارہ ہی بچے پیدا ہوئے ہیں۔ کوئی…..‘‘ میں نے اس کی تیوری چڑھی دیکھ کر سوال ادھورا چھوڑ دیا۔’’

    اچھا یہ بتائیے سب بچے ماشاء اللہ ٹھیک ٹھاک صحت مند ہیں نا؟ دیکھیے اس میں ایک خانہ ایسا ہے جس میں پوچھا ہے خدا نہ کرے کوئی بچہ پاگل یا اپاہج وغیرہ تو نہیں ہے؟‘‘ یہ سرکار بھی نہ معلوم کیا کیا پوچھتی ہے۔ میں نے اس کے غصہ سے بچنے کی غرض سے سرکار کو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔

    ’’پاگل ہوگی تم! اپاہج ہوگی تم! ہمارے آدمی گنتی ہو۔ تمہارا کھاتے ہیں کیا۔ ہائے ڈالو گی۔ اتنی دیر سے کیا سترہ سترہ کی رٹ لگا رکھی ہے۔ رستہ لو اپنا… اے لو… ہمارے بچوں کو اپاہج پاگل کیا کیا بنا ڈالا— پڑھی لکھ ہو تم؟ بہت ہو گیا، بس جاؤ۔ ہمیں اب نہ کچھ بتانا نہ لکھوانا جو مرضی آئے کرلو‘‘

    ’’آپ غلط سمجھ رہی ہیں محترمہ۔ میرا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا۔ معاف کیجیے گا۔‘‘

    ’’سمجھ گئے ہم تمہارا مطلب۔‘‘ وہ اٹھتے ہوئے بولی۔

    ’’چل ری چل اوپر….. یہ سب تیرا ہی کیا دھرا ہے۔ منع کیا تھا میں نے۔۔۔۔‘‘ اس نے بیٹی کو پھٹکارا۔

    ’’سنیے تو— میری بات تو سنیے….. اس نے دھڑام سے میرے منہ پر دروازے کے دونوں پٹ بند کردیے۔ گھٹنے سے رجسٹر پھسل کر نیچے گر گیا۔ اور کاغذات اِدھر اُدھر پھیل گئے۔ کچھ اُڑ کر نالی میں چلے گئے۔ مارے غصے کے میرا سر بھنّانے لگا۔ دل چاہا کہ سارے کاغذات پھاڑ کر….. لیکن میں ایسا کچھ نہیں کرسکی کیوں کہ معاملہ مادری زبان کا تھا!

    اس افسانے کی خالق نگار عظیم ہیں، مادری زبانوں کے عالمی دن پر یہ انتخاب آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے

  • سڑک کا بنانا ایک غلطی تھی!

    سڑک کا بنانا ایک غلطی تھی!

    غفور علی مول تلا میں گوہر علی کے نام سے مشہور تھا۔ ایک دن نہ جانے اسے کیا ہوا کہ کُدال لے کر سڑک کو دیوانہ وار توڑنے پھوڑنے لگا۔

    دیکھنے میں تو اس کا یہ فعل بڑا ہی مجنونانہ تھا، لیکن درحقیقت یہ کوئی اضطراری فعل نہ تھا۔ اس کے پیچھے حالات کا ایک لمبا چوڑا سلسلہ تھا۔ ورنہ یہ بات کچھ سمجھ میں نہیں آتی کہ جو سڑک گاؤں کے سب سے لوگوں نے مل جل کر بنائی تھی اور جس کے لیے خود گوہر علی نے اپنی زمین کا بہت سا حصہ دیا تھا، وہ اسی کو دیوانہ وار تباہ کرنے کی کوشش کرے۔

    مول تلا ان چھوٹے چھوٹے دیہات میں سے تھا جن کا جنگ سے پہلے باہر کی دنیا سے بہت کم میل جول تھا۔ اور لوگ وہی پرانے زمانے کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ کم ازکم سڑک بننے سے پہلے اس کی وضع اور ماحول میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی تھی۔ ان کا بیرونی دنیا سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اور تھا تو بالکل برائے نام۔

    وہ ایک خاص وضع کی زندگی بسر کرتے تھے جس میں ان کی اپنی ہی رسموں اور ریتوں کو دخل ہوتا تھا۔

    ایک مرتبہ اس گاؤں کا نوجوان اس زندگی سے دامن چھڑا کر باہر نکل گیا۔ جب وہ واپس آیا تو وہ اپنے ساتھ روپیہ پیسہ ہی نہیں بلکہ ایک نیا تصور اور بلند تر معیار زندگی بھی لے کر آیا۔ اس نے گاؤں والوں کو بتایا کہ مول تلا کی ندیوں اور نہروں سے پرے، ایک جگہ ہے جسے ”شہر“ کہتے ہیں۔ زندگی کے بہتر پہلو سے روشناس ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ شہروں اور بندرگاہوں کے ساتھ تعلق پیدا کیا جائے۔ یہ مسئلہ فی الفور ایک سڑک تعمیر کرنے سے حل ہوسکتا ہے۔

    اسی دن سے جناب علی حوالدار نے عہد کیا کہ اپنی ساری قوت اور ذرائع گاؤں کی ترقی پر صرف کرے گا۔ اس نے ڈسٹرکٹ بورڈ کو بھی سڑک بنانے پر آمادہ کرلیا ۔ گاؤں کے دوسرے مرفہ الحال لوگوں نے بھی بڑی سرگرمی سے سدھار کا بیڑا اُٹھایا جو ان کے خیال میں ضرور سماجی ترقی کا باعث ہوگا۔

    اس سلسلے میں زیادہ مشکل گوہر علی جیسے غریب کسانوں کے سبب پیدا ہوئی۔ جن کی زرعی زمینوں کا حصہ سڑک کی بھینٹ چڑھتا تھا۔ لیکن سڑک کے بارے میں دل میں عجیب و غریب تصورات کا ایک طلسم پیدا ہو گیا۔ اس نے سوچا وہ کب تک اس زمین کی معمولی سی پیداوار کو دانہ دانہ کرکے چُنتا رہے گا۔ اس سے کہیں بہتر یہ ہوگا کہ وہ نئی زندگی کا خیر مقدم کرے۔ گھر واپس جاکر اس نے اپنی بیوی کو بھی اس زندگی کے خلاف بغاوت پر آمادہ کر لیا۔

    آخر کار سڑک تعمیر ہوگئی۔ لوگوں نے شہر آنا جانا شروع کردیا۔ جب سڑک کا پہلا پہلا طلسمی اثر دور ہوگیا تو لوگ سڑک کے کنارے اپنے ڈھور ڈنگر باندھنے لگے۔ اس کے کنارے بیٹھ کر حقہ پیتے اور گپیں ہانکتے۔ ادھر بعض نوجوان گاؤں کو چھوڑ کر دھن دولت کی تلاش میں شہر کو روانہ ہوجاتے۔

    ایک دن گوہر علی نے سج دھج کر تین دن کے لیے شہر میں رہنے کو چل پڑا۔ واقعی شہر کے بارے میں جو کہانیاں بیان کی گئی تھیں۔ وہ بالکل صحیح تھیں۔ اس میں ایسے لوگ بستے تھے جن کی زندگیاں خوشی اور خوش نصیبی سے بھرپور تھیں، لیکن اس کے باوجود دال میں کچھ کالا ضرور تھا۔

    ان لوگوں کو سمجھنا، ان کے دل کی تہ تک پہنچنا دشوار تھا۔ انھیں اس جیسے غریبوں سے کوئی ہمدردی نہ تھی۔ اور کوئی اس سے ایک دو منٹ بھی بات کرنے کو تیار نہ تھا۔

    گوہر علی نے پوری شدت سے یہ محسوس کیا کہ شہروں میں ہر بات پیسے کی کسوٹی پر پرکھی جاتی ہے۔ تیسرے دن وہ شہر کے خلاف بڑی نفرت اور غصے سے بھرا ہوا دل لے کر گاؤں واپس چلا آیا۔

    وہ خیالات میں کھویا رہا۔ آخر فیصلہ کیا کہ وہ بھی اپنے مستقبل کی بنیاد دولت ہی پر رکھے۔ چنانچہ اس نے ایک کام شروع کردیا۔ ایک دن ہاجرہ کو کہنا ہی پڑا، ”اے میاں! جس طرح تم نے بے تحاشا چیزیں بیچنی شروع کردی ہیں کچھ عجب نہیں کہ ایک دن میں بھی بکاؤ مال میں شامل ہو جاؤں۔“

    گوہر علی اب دونوں ہاتھوں سے دھن کما رہا تھا۔ تین سال میں اس کی کٹیا پر ٹین کی چھت پڑ چکی تھی۔ اس کے ساتھ ہی سڑک پر دیوانی اور فوجداری عدالتوں کی طرف آمد و رفت بھی شروع ہوگئی۔ دیہاتیوں کی سیدھی سادی زندگی میں سازش اور مکاری بھی شامل ہوگئی۔

    سڑک کے دونوں طرف کتنے ہی گلی کوچے بن گئے جن میں خدا جانے کتنے ہیر پھیر تھے۔ رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک دن کسی شخص کی چند گائیں چرتی چرتی کسی اور کے کھیت میں جا نکلیں۔ جس پر جھگڑا ہوگیا اور ایک آدمی مارا گیا۔

    جب تک جناب علی کو اس کی خبر ہو اور وہ موقع واردات پر پہنچے۔ سڑک کا کافی حصہ بھی نابود ہوچکا تھا کیوں کہ لڑنے والوں نے اس کے اکھڑے اکھڑے پتھر اٹھا اٹھا کر ایک دوسرے پر خوب گولہ باری کی۔

    جناب علی نے سب کو بلایا اور کہا ”کیا ہم نے سڑک اسی لیے بنائی تھی؟ ارے گنوار وحشیو!“ لیکن اس کے الفاظ کا لوگوں پر کوئی اثر نہ ہوا ۔ وہ سب تو تھانے، عدالت اور مقدمے کی فکر میں تھے۔

    اسی اثنا میں جنگ چھڑ گئی۔ گاؤں کی تاریخ میں یہ ایک نادر واقعہ تھا۔ جو کچھ گزشتہ کئی صدیاں نہیں کرسکی تھیں، وہ انگریزوں کی دو سو سال کی حکومت نے کر دکھایا۔

    اناج کا بھاؤ تیزی سے چڑھنے لگا۔ زندگی کے سوا ہر چیز کی قیمت بڑھ گئی۔ دھیرے دھیرے سڑک کے راستے قحط بھی آن پہنچا اور چور بازاری اور اس قسم کے اور وتیرے بھی ریلے مار مار کر آنے لگے۔ ان کی امڈتی ہوئی موجیں اپنے ساتھ امن کو بہا لے گئیں۔

    ساتھ ہی سرکاری حکام سڑک کے راستے گاؤں میں آنے لگے۔ یہ لوگ اپنی جیبیں رشوتوں سے بھر بھر کر واپس جاتے۔ شہر کے ایک بڑے رئیس کا باورچی لطفو ایک شخص اصغر اللہ کی جوان بیٹی کلثوم کو لے بھاگا۔

    فوجیوں کی رسد کے لیے ٹھیکیدار اور دوسرے لوگ سبزیاں، ترکاریاں، لکڑی، کاٹھ اور مرغیاں وغیرہ لینے آتے۔ گوہر علی کی ان میں سے ایک کے ساتھ دوستی ہوگئی۔ قحط کا زمانہ تھا۔ گوہر علی بڑی مشکل میں تھا۔ اس نے سوچا کہ اپنے نئے دوست کے اثر و رسوخ سے آمدنی بڑھانے کی کوئی صورت پیدا کرے۔ لیکن اس کی کوششوں کے باوجود کچھ بھی بن نہ پڑا۔ صرف ایک صبح ہاجرہ گھر سے کہیں غائب ہوگئی۔ وہ دوست اس کے بعد کبھی دکھائی نہ دیا۔

    پوچھ گچھ کرنے پر سات میل دور ایک کسان سے پتا چلا کہ اس نے ایک دن صبح سویرے ایک عورت کو کسی مرد کے ساتھ جاتے دیکھا تھا۔

    قحط نے گوہر علی کو ظاہری حیثیت سے پہلے ہی قلاش کردیا تھا۔ اب وہ روحانی طور پر بھی قلاش ہوگیا۔ ایک دن گاؤں میں خبر مشہور ہوگئی کہ گوہر علی اپنی بیوی کے چلے جانے پر دیوانہ ہوگیا۔ سب لوگ اسے دیکھنے کے لیے دوڑ دوڑ کر آنے لگے۔

    گوہر علی سڑک پر اندھا دھند کدال پر کدال برسا رہا تھا۔ سب پوچھنے لگے یہ کیا کر رہا ہے؟“ اس نے کدال روکے اور آنکھیں اٹھائے بغیر جواب دیا۔

    ”اس سڑک کا صفایا کر رہا ہوں۔“

    ”وہ کیوں؟“

    اس لیے کہ اس سڑک کا بنانا ایک غلطی تھی۔ اسے ہرگز نہیں بننا چاہیے تھا۔“

    گوہر علی نے کدال سے تابڑ توڑ چوٹیں برساتے ہوئے یہ الفاظ کچھ اس طرح کہے گویا وہ اپنے دل سے کوئی بات کررہا ہو۔

    (ابوالکلام شمس الدین کے بنگالی زبان کے افسانے کا ترجمہ)

  • نیچی جگہ کا پانی…

    نیچی جگہ کا پانی…

    تھوڑی سی بارش ہوتی اور پانی پھسلتا ہوا نشیب میں جمع ہوجاتا۔ مکھیاں اور مچھر گندگی پھیلاتے۔

     

    ”ایمرجنسی راج میں ہم سے فیصلوں میں تو کوئی غلطی نہیں ہوئی۔ بڑے عہدوں پر تعینات افسروں نے اچھے فیصلے لاگو کرنے میں شاید ہی غلطیاں کی ہوں۔“ ایمرجنسی کی وجہ سے ٹوٹ جانے والی حکومت کے ایک اہم عہدے دار کا خیال تھا۔

     

    ”چوکی دار ذمے دار ہے، گھونٹ لگا کے کہیں پڑ گیا ہوگا۔ پیچھے سے سارا گودام خالی ہوگیا۔“

     

    سرکاری گودام سے چینی چوری ہو جانے پر حفاظتی افسر کا بیان تھا۔

     

    ”متعلقہ فائل گم ہوگئی ہے تو متعلقہ کلرک سے پوچھو، اسی کی بے پروائی سے گم ہوئی ہے۔“ محکمے کا سربراہ کہہ رہا تھا۔

     

    لاکھوں روپے کا گھپلا پکڑے جانے کے بعد متعلقہ فائل گم ہوگئی تھی۔

     

    ”مقامی مل میں ملاوٹ! ہوسکتا ہے، رات کی شفٹ میں کام کرنے والے کسی مزدور سے کوتاہی ہوگئی ہو اور مل کے باہر پڑے ہوئے کنکر پتھر اور مٹی مسالے میں مل گئی ہو۔ لکھو کے بچے کو ضرور سزا ملنی چاہیے، اسی کی غفلت سے یہ گڑبڑ ہوئی۔“ مل مالک پولیس سے کہہ رہا تھا۔

     

    مالی ذمے دار ہے، چپراسی ذمے دار ہے، بھنگی ذمے دار ہے، مزدور ذمے دار ہے۔

     

    بارش ہو رہی ہے۔ نیچے گندے تالاب میں اب اور پانی جمع نہیں ہوسکتا۔

     

    پانی کا دریا منہ زور ہو رہا ہے، کنارے کھڑی ہوئی مضبوط عمارتیں ریت کے گھروندوں کی طرح ڈھے رہی ہیں۔

     

    (ہم درد ویر نوشہروی کی یہ کہانی بتاتی ہے کہ حکم راں یا صاحبانِ اختیار جب اپنے فرائض‌ اور ذمہ داریاں‌ ادا نہیں‌ کرتے اور مسائل اور مشکلات پر ماتحتوں‌ کو مطعون کرکے عوام کو دھوکا دیتے ہیں‌ تو بھول جاتے ہیں‌ کہ یہ بگاڑ‌ اور خرابیاں‌ ایک روز ان کے گھروں‌ کی بنیادیں‌ بھی ہلا سکتی ہیں)